پہلا صفحه

 

ہم سے رابطه كريں

مرجع عالي قدر :بيان حق علمائ دين کاقطعي فريضہ ہے

مرجع عالي قدر حضرت آيۃ اللہ العظميٰ الحاج سيد صادق حسيني شيرازي مد ظلہ العالي گذشتہ برسوں کي طرح امسال ٢٤ ذي الحجہ ١٤٣١ھ کو ايام عزا سے متعلق قم مقدس ميں مبلغين کے ايک بڑے اجتماع ميں خطاب فرمايا: موصوف نے اپني گفتگو کو امام حسين عليہ السلام کي ايک دعا کے ذريعہ شروع کرتے ہوئے فرمايا:
اما م حسين عليہ السلام نے دعا ميں جسے علامہ مجلسي ۲ اور دوسرے محدثين نے نقل کياہے خدا سے فرمايا:اللھم واعذاوليائک....................
ميرے معبود !اپنے بندوں کو ميرے سلسلے ميں امتحا ن کے بجائے اپني پناہ ميں رکھ ،اور ان کو اپني رحمت ميں اپني نعمتوں ميں امتحان لے۔اور وہ امتحان ان کے انتخاب وخالص ہونے کا نتيجہ ہوتاکہ ميرے راستے پر گامزن ہوسکيں۔(١)
اما م حسين عليہ السلام کي اس نوراني حديث ودعاکي روشني ميں کہ حضرت چاہتے ہيں کہ ان کے شيعوں کا امتحان اس طرح ہوکہ آپ ٴ کے راستے پر چل سکيں۔ اس کام کے اصل ذمہ دار علمائ ہيں نہ کہ دوسرے افراد کيوں کہ يہ ايک اہم مسئلہ ہے جس ميں حق کو بيان کياجائے اور اس کو چھپايانہ جائے ۔خدانے امام حسين عليہ السلام کے مسئلہ کو اتنا واضح کردياکہ انسان ياجنتي ہوگا ياجہنمي ۔پس يہ کام اہل علم کاہے ۔کيوں کہ لوگ علمائ سے ديني احکام پوچھتے ہيں اوريہي ہماراسنگين فريضہ ہے ۔دسيوں ہزار روايتيں معصومين ٴ سے مروي ہيںجن ميں انبيائ واہل بيت عليھم السلام کے بعد سب سے بڑا رتبہ ومقام اہل علم کاہے ‘‘بيان ہواہے ۔
جيسے اس روايت کو شيعہ وعامہ نے نقل کياکہ رسول۰ خدانے فرماياکہ طالب علم کے لئے يہاں تک کہ درياکي مچھلياں ،پرندے ،جنگل وصحرا کے جانور استغفار کرتے ہيں ۔(٢)ہاں طالب علم تمام علمائ ،مجتہدين اور طلاب شامل ہيں ۔چونکہ لوگ ہم سے احکام دين پوچھتے ہيں لہٰذا ہمارافريضہ بھي بہت سنگين ہے ۔ليکن ’’اگر عالم دين فاسد ہوجائے تو کائنات فاسد ہوجائے گي ‘‘۔يعني علمائ چاہيں تو لوگ ہدايت پاجائيں اور اگر چاہيں تو گمراہ ہوجائيں ۔اس لئے اہل علم ذمہ داري بہت سنگين ہے اور علم وعالم کي فضيلت بھي بہت بلند ہے ۔
حضرت آيت اللہ العظميٰ شيرازي مد ظلہ نے اپني بات کي تائيد يعني حقيقت کا بيان کرنا اور اس کا نہ چھپانا اہل علم کي اہم ذمہ داري ہے اور اگر اہل علم بے دين ہوجائيں تو لوگ بھي بے دين ہوجائيں گے تاريخ سے اس کي مثال پيش کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ منصور دوانقي کاقاضي ابو يوسف نے موسم حج ميں امام موسيٰ کاظم عليہ السلام سے بطور استہزائ کہاکہ آپ نے اپنے شيعوں سے کہا ہے کہ جب احرام باندھوتو مکہ کے راستے ميں چھت کے نيچے نہ چلنا ليکن مکہ ميں کوئي حرج نہيں ہے ۔امام کاظم عليہ السلام نے فرمايا:ہاں !ابو يوسف نے کہا ۔انسان جب تک اعمال انجام نہ دے محرم ہے ۔تو حرم اور صحرا ميں کيافرق ہے ؟
امام کاظم عليہ السلام نے فرمايا:انتم تلعبون بالدين ‘‘تم لوگ دين سے کھيل کھيل رہے ہو۔(٣)رسول خدا۰ اس طرح انجام ديتے تھے ہم ان کي پيروي ميں اس طرح انجام ديتے ہيں ۔
اما م کاظم عليہ السلام کي يہ صريح گفتگو موضوع کي حساسيت بيان کرتي ہے ۔يعني ممکن ہے علمائ دين سے کھيليں اور لوگوں کو دين سے منحرف کرديں۔ نہ کہ حکام وثروتمند افراد يہ کام کريں ۔
مرجع عالي قدر نے اپني تقرير ميں فرمايا :عامہ وخاصہ نے مختلف مقامات پر يہ حديث نقل کي ہے کہ عثمان معتقد تھاک ہ جو بھي حج کا احرام باندھے وہ نہ تو شکار کرسکتاہے اور نہ ہي اس کا حکم دے سکتا ہے ليکن دوسرے کے کئے ہوئے شکار کو کھاسکتاہے ۔ايک بار اس کے پاس شکار کيا ہوا پرندہ لاياگيا اور وہ محرم تھا تو اس نے کہا کہ نہ تو ميں نے شکار کياہے اور نہ ہي شکار کا حکم دياہے ۔يہ غير محرم کا شکار ہے لہٰذا کھانے ميں کوئي قباحت نہيں ہے ۔وہاں پر موجود ايک شخص نے کہاکہ علي عليہ السلام اس بات کو قبول نہيں کرتے ہيں ۔تو عثمان نے کہا کہ ان کو بلاؤ ۔امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا:کيا کوئي کاہے جو مجھے بلايا ہے تو عثمان نے پورا مسئلہ بيا ن کيا۔امير کائنات نے اس جگہ موجود تمام لوگوں کو ايک نظر ديکھا اور فرمايا:تم لوگوں کو خدا کي قسم ديتاہوں کہ تم ميں سے کتنے لوگ گواہي ديں گے کہ رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم حالت احرام ميں تھے اور آپ کے لئے شکار کياہوااجانور لاياگيا توحضرت ۰ نے کھانے سے انکار کردياتھا۔تو بارہ لوگوں نے مولاعلي ٴ کي بات کي تائيد کرتے ہوئے گواہي دي کہ رسول خدا۰ نے شکار کھانے سے انکار کردياتھا۔تو اميرالمومنين عليہ السلام نے دوبارہ سوال کيا کہ تم لوگوں کو خدا کي قسم کہ گواہي دوکہ رسول خدا۰ کے لئے حالت احرام ميں شتر مرغ کا انڈا لاياگيا تو حضرت ۰ نے قبول نہيں کيا اور ہي غصہ ميں آگيا اور موليٰ علي ٴسے بو لا۔آپ ٴ ہميشہ ہماري مخالفت کرتے ہيں اور خيمہ ميں چلاگيا۔(٤)
حضرت آيہ اللہ العظميٰ شيرازي مدظلہ نے فرمايا:يہ بارہ لوگ رسول خدا۰ کے اصحاب تھے ليکن کيون حضرت اميرالمومنين عليہ السلام کے آنے سے پہلے حق کو چھپايا؟ہم اہل علم ہميشہ اس چيز کا خيال رکھيں کہ حق کونہ چھپائيں بلکہ حق کو آشکار کريں ورنہ عثمان اس وقت تک شکار کياہواجانور کھاتارہااور اصحاب رسول۰ خاموش تھے ۔رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے زمانے ميں ہونا ايک افتخار ہے نہ کہ نيک ہونے کي علامت ہے اہل علم فضيلتوں کے عظيم پہاڑ کي چوٹي پہ ہيں اور ا ن کے لئے اجر وثواب ہے لہٰذا يہ لوگ دوسروں سے زيادہ حق کادفاع کرسکتے اور اگر گمراہ ہوگئے تو نابود ہوجائيں گے ۔
موصوف نے فرمايا: امام حسين عليہ السلام نے نماز ميں خدا سے فرمايا: خدايا ميرے شيعوں کو ميرے وجہ سے نہ چھوڑنا بلکہ ان کو ايسا بناکہ وہ ميرے پيروي کريں ۔حضرتٴ کے کہنے کامطلب حق کو ظاہر کرنااور اس کو نہ چھپانا ہے۔اور آپ جان ليں جن لوگوں نے امام حسين عليہ السلام کے حق چھپايااور ظاہر نہيں کيا ان کا انجام بہت براہو ااور وہ نابود ہوگئے ۔يہ جو خدا نے کہا ہے کہ اپنے کو ہلاکت ميں نہ ڈالو امام حسين عليہ السلام کا مسئلہ اس سے جداہے اور ائمہ معصومين ٴ نے اس کي تشويق بھي فرمائي ہے اور جن لوگوں نے امام حسين عليہ السلام کے لئے اپني جان خطرے ميں ڈالي تو معصومين ٴ ان کے لئے دعا کي ہے ۔کيوں امام حسين عليہ السلام کا مسئلہ کائنات کا انوکھا مسئلہ ہے ۔
حضرت آيہ اللہ العظميٰ شيرازي مد ظلہ نے اس سلسلے ميں ايک روايت کي طرف اشارہ فرمايا اور کہاکہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے کوفہ کے رہنے والے ايک آدمي سے پوچھا کياتم کربلا کي زيارت کوجاتے ہو؟اس نے جواب دياکہ ميں کوفہ کا ايک نامور آدمي ہوں اگرکچھ دن لوگوں کو نہ دکھوں تو لوگ ہمارے بارے ميں پوچھيں گے کہ کہاں گياہوں نيز ظالم حاکم ،اس کے جاسوسوں اور مسلح افراد سے بھي ڈرتا ہوں کہ راستے ميںقتل نہ کرديں ۔تو امامٴ نے فرماياکيا تم کو پسند نہيں ہے کہ خدا تمہيں ہمارے وجہ سے ڈراوخوف زدہ ديکھے؟ غور کريں امام صادق عليہ السلام نے يہ نہيں فرماياکہ اگر جان کاخطرہ ہے تو نہ جاؤ بلکہ فرمايا اس راہ ميں خوف زدہ اور خطرہ ميں پڑنا بہتر ہے جب کہ حج کے سلسلے ميں تمام فقہا ئ کا کہنا ہے کہ اگر جان کا خطرہ ہے تو نہ جاؤ اگر گئے تو حج قبو نہيں ہوگا ۔
موصوف نے حق کے بيان اور اس کے نہ چھپانے پر تاکيد کرتے ہوئے فرمايا کہ يہ صاحبان علم سے مخصوص ہے کيوں کہ لوگ ان کو اپنے لئے نمونہ عمل سمجھتے ہيں لہٰذا اس سلسلے ميں اپنے تئيں کوشش کريں خصوصاًحضرت امام حسين عليہ السلام کے سلسلے ميں۔
مرجع عالي قدر نے آخر ميں تاکيد کرتے ہوئے فرمايا: جناب ابوذر نے حق کو نہيں چھپايا اور بھوکے دنيا سے چلے گئے جب کہ دوسري طرف زيد بن ثابت جو جناب ابوذر کي طرح رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے ليکن حق کو چھپانے کے نتيجہ ميں ان کو اتنا مال ودولت ملاکہ جب ميراث ميں اتنا سوناچھوڑا کہ ہتھوڑي سے توڑکر ورثہ ميں بانٹا گيا ۔ان دونوں کردار ميں فرق صرف اتنا ہے کہ ايک طرف حق بيا ن ہورہا دوسري طرف حق چھپايا گيا ۔جناب ابوذر کا گناہ صرف يہ تھاکہ آپ نے حق کو نہيں چھپايا ۔لہٰذا ہميں چاہئے کہ ہم جناب ابوذر کے راستہ پر چلنے کي کوشش کريں۔قابل ذکر ہے کہ پروگرام کے آخر ميں حجت الاسلام شيخ حسن زھري امام حسين عليہ السلام کي ذکر مصيبت بيان کي اور نوحہ خواني کي ۔
............................
(١)بحار الانوار ج ٨٢ب٣٣ص٢١٤
(٢)امالي شيخ صدوق مجلسي ج ١٤ص٦٠
(٣) فروع کافي ج ٤ص ٣٥٠ح١
(٤)مستدرک الوسائل ج ٩ب٢ص٢٠٠ح ٤