رساله توضيح المسائل حضرت آيت الله العظمى حاج سيد صادق حسينى شيرازى دام ظله



بسم الله الرحمن الرحيم

تقلید کے احکام

مسئلہ۱۔اصول دین میں تقلیدجائزنہیں ہے بلکہ مسلمان کو چاہیئے کہ اصول دین کو دلیل کے ساتھ جانے اور اس پر یقین رکھے ،لیکن فروع دین میں یا تو انسان خود مجتھد ہو یعنی دلیل کے ساتھ احکام کو حاصل کر سکتا ہواور اگرمجتہدنہیں ہے توچاہیئے کہ کسی مجتہدکی تقلید کرے یعنی اس کے بتائے گئے طریقوں پر عمل کرے یا احتیاط کے ساتھ اپنے وظیفہ کو اس طرح انجام دے کہ اس کویقین ہوجائیکہ اس نے اپنی شرعی ذمہ داری کوپورا کردیاہے مثلاً اگرکسی شئے کوبعض مجتہدین حرام اور بعض غیرحرام جانتے ہوں تواس کوترک کردے،اوراگربعض مجتہدین کسی کام کو واجب اوربعض مستحب کہتے ہوں تواس کو بجالائے ،پس جو لوگ نہ تو خود مجتہد ہوں اور نہ ہی کسی احتیاط پر عمل کر سکتے ہیں ان پر واجب ہے کہ کسی مجتہد کی تقلید کریں۔
مسئلہ ۲۔احکام میں تقلیدکامطلب یہ ہے کہ اپنے عمل کو مجتہد کے حکم کے مطابق بجالائے اورایسے مجتہدکی تقلیدکرنی چاہیے جس میں مندرجہ ذیل اوصاف ہوں:
مردہو,بالغ ہو,عاقل ہو,شیعہ اثناعشری ہو,حلال زادہ ہو,زندہ ہو, عادل ہو,(عادل سے مراد وہ شخص ہے جس کے باطن میں ایساخوف خداہوجواسے گناہ کبیرہ سے روکے اورواجبات کوبجالانے پرمجبورکرے)یعنی اگر اس کے محلے والوں یا ہمسایوں یا اسکے ساتھ رہنے والوں سے اس کے حالات پوچھے جائیں تو وہ اس کی اچھائی کی تصدیق کریں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان جس مجتہد کی تقلید کر رہا ہو وہ اعلم بھی ہواور اعلم سے مرادیہ ہے کہ حکم کوسمجھنے میں اپنے زمانے کے تمام مجتہدین سے زیادہ مہارت رکہتاہو۔
مسئلہ ۳۔مجتہد کی تین طریقوں سے شناخت کی جا سکتی ہے:
۱۔ انسان کویقین یااطمینان حاصل ہوجائے مثلاًانسان خوداہل علم ہواورمجتہد کی شناخت کرسکتاہو۔
۲۔ اہل علم میں سے دوعادل کسی کے مجتہد ہونیکی تصدیق کریں بشرطیکہ دودوسرے عادل اہل علم ان کے خلاف گواہی نہ دیں۔
۳۔ اہل علم کا ایک گروہ جو مجتہد کو پہچان سکتا ہو اور ان کی بات بھی قابل اطمینان ہو کسی کے مجتہد ہو نے کی تصدیق کریں اور بنا بر احتیاط واجب ایکقابل اطمینان شخص کی گواہی بھی کافی ہے ۔
مسئلہ ۴۔اگر اعلم کی شناخت مشکل ہوتوانسان کواحتیاط واجب کی بنا پر چاہیے کہ ایسے شخص کی تقلیدکر ے جس کے اعلم ہو نے کا گمان رکھتاہوبلکہ اگرکسی کے بار ے میںمختصرسااحتمال بھی ہوکہ اعلم ہے اور کوئی دوسرا اس زیادہ عالم نہیں ہے تو احتیاط مستحب کی بنا پراس کی تقلید کر لینی چاہیئے ۔اوراگراس کی نظرمیں کئی مجتہدین آپس میں برابرہوں توان میں سے کسی ایک کی تقلیدکرنی چاہیئے البتہ اگر ان میں سے کوئی زیادہ پر ہیز گار ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسی کی تقلید کرے ۔
مسئلہ ۵۔مجتہدکافتویٰ حاصل کرنے کے چار طریقے ہیں
۱۔خودمجتہدسے سنے۔
۲۔دو عادل شخص سے سنے جو مجتہد کے فتوے کو بیان کریں
۳۔کسی ایسے شخص سے سنے جس کی بات قابل اطمینان ہو
۴۔مجتہد کے ایسے رسالہ عملیہ میں دیکھے جوقابل اطمینان ہو.
مسئلہ ۶۔جب تک انسان کو یقین نہ ہو جائے کہ مجتہد کا فتویٰ تبدیل ہو چکا ہے تو اس وقت تک اس فتوے پر عمل کرتا رہے جو رسالہ میں ہو اور اگر احتمال ہو کہ فتویٰ تبدیل ہو چکا ہے تو اس کی جستجولازم نہیں ہے مگر یہ کہ احتمال عقلائی ہو ۔
مسئلہ ۷۔اگرمجتہداعلم کسی مسئلہ میں فتویٰ دے تواس کامقلد بنا بر احتیاط کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پرعمل نہیں کرسکتالیکن اگروہ فتوی نہ دے بلکہ احتیاط کا حکم دے مثلاً کہے کہ احتیاط یہ ہے کہ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں تین مرتبہ تسبیحات اربعہ یعنی ’’سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ‘‘کہنا چاہیئے تومقلد کو چاہیئے کہ اس احتیاط پر جو کہ احتیاط واجب کہ نام سے مشہور ہے عمل کرے یا دوسرے مجتہد کے فتوے پرکہ جو ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ کو کافی جانتا ہے ایک مرتبہ کہے ااور یہی حکم ہے جب مجتہد کہے کہ مسئلہ محل غور ہے یا مسئلہ محل اشکال ہے اوراگر دوسرا مجتہد ایک مرتبہ کہنے کو کافی جانتا ہو تو مقلد ایک مرتبہ بھی کہہ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۸۔اگرمجتہد کسی مسئلہ میں فتویٰ دینے کے بعد احتیاط کا حکم دے مثلاً کہے کہ’’ نجس برتن ایک مرتبہ آب کر میں دھونے سے پاک ہو جاتا ہے اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے ‘‘تو مقلد کو اختیار ہے کہ اس مسئلہ میں کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر عمل کرے ۔
مسئلہ ۹ ۔جس مجتہدکی انسان تقلیدکررہاہے اگروہ مر جائے تو مقلد کو اختیار ہے کہ اسی کی تقلیدپرباقی رہے اور تمام مسائل میں اسی کی تقلید کرے یہاں تک کہ ان مسائل میں بھی کہ جن پر اس نے مجتہد کی زندگی میں عمل نہیںکیا تھا ۔
مسئلہ۱۰۔مرنے والے مجتہد کی تقلید پر باقی رہنے کی صورت میںاگر کسی مسئلہ کے فتویٰ پر عمل کرے اور اس کے مرنے کے بعد اسی ہی مسئلہ میں کسی زندہ مجتہد کے فتویٰ پر عمل کرے تو پھر بعد میں مرنے والے کے فتویٰ پر عمل نہیں کر سکتا حتیٰ اگر زندہ مجتہد کس مسئلہ میں فتویٰ نہ دے اور احتیا ط کا حکم دے اور مقلد اس احتیاط پر عمل کرے تو اس صورت میں بھی مرنے والے مجتہد کے فتوے پر عمل نہیں کر سکتا ۔
مسئلہ ۱۱۔مرنے والے مجتہد سے عدول کر کے زندہ مجتہد کی تقلید کرنا جائز ہے لیکن احتیاط کی بنا پر زندہ مجتہد سے عدول کر کے دوسرے زندہ مجتہد کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے البتہ اگر دوسرا مجتہد اعلم ہو یا پہلا مجتہد عادل نہ رہ گیا ہو تو اس صورت میں تقلید بدل سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۲۔مکلف پر واجب ہے کہ روز مرہ درپیش آنے والے مسائل کو سیکھے اور ان کا علم حاصل کرے۔
مسئلہ ۱۳۔اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آجائے جس کا حکم معلوم نہ ہو تو اگر ممکن ہو تو انتظار کرے تاکہ مجتہد کا فتویٰ حاصل کرسکے یا احتیاط پر عمل کرے ۔
مسئلہ ۱۴۔اگر کوئی شخص کسی مجتہد کا فتویٰ دوسرے سے بیان کرے تو اگر مجتہد کا فتویٰ بدل جائے تو اس کو دوسرے فتوے کا بیان کرنا ضروری نہیں ہے البتہ اگر فتویٰ بیان کرنے کے بعد معلوم ہو کے غلط بیان کیا تھا تو جہاں تک ممکن ہو اس کی غلطی کا ازالہ کرے ۔
مسئلہ ۱۵۔اگر کوئی شخص ایک مدت تک بغیر تقلیدکے اعمال بجا لاتا رہا ہو تو اس کے اعمال اسی صورت میں صحیح ہو سکتے ہیں جب وہ یقین کرے کہ اس نے اپنے وظیفہ کو ادا کر دیا ہے یا اس کے اعمال اس مجتہد کے فتوے کے مطابق تھے کہ جس کی اس وقت تقلید کرنی چاہیئے تھی یا اس مجتہد کے فتوے کے مطابق ہوں جس کی اب تقلید کرنی چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۶۔تمام احکامات ،عبادات، معاملات، واجبات ،محرمات ،مستحبات،مکروہات اور مباحات تقلید میں شامل ہیں ۔
طہارت کے احکام

مطلق اور مضاف پانی
مسئلہ ۱۷۔پانی یامطلق ہوتاہے یامضاف
مضاف پانی :وہ ہے جو کسی دوسری چیز سے حاصل کیا جائے جیسے گلاب یا تربوز وغیر ہ کا پانی یا کسی چیز کے ساتھ ملا ہو ا ہو جیسے وہ پانی جس کے ساتھ مٹی یا کوئی اور چیز مل جائے کہ اس کو صرف پانی نہ کہا جا سکے اس کے علاوہ جو بھی پانی ہے وہ مطلق پانی ہے اورمطلق پانی کی پانچ قسمیں ہیں
۱۔کر پانی ۔۲۔قلیل پانی ۔۳۔ جاری پانی۔۴۔ بارش کاپانی ۔۵۔کنویں کاپانی
کر پانی
مسئلہ ۱۸۔ کرپانی : پانی کی اس مقدارکوکہتے ہیں کہ اگرایسابرتن ہو جو ساڑھے تین بالشت لمباساڑھے تین بالشت گہراساڑھے تین بالشت چوڑاہو اوراس کوپانی سے بھر دیاجائے تووہ پانی کربھر ہوگایااس کاوزن بیس مثقال کم ایک سواٹھائیس من تبریزی ہو،جو تین سو چھیہتر کلواور سات سو چالیس گرام(۷۴۰.۳۷۶) ہوتاہے اور اگر اس کی مقدار لمبائی چوڑائی اور گہرائی میں تین تین بالشت بھی ہو تو بھی کافی ہے ۔
مسئلہ ۱۹۔اگرعین نجاست جیسے پیشاب یاخون یا وہ چیز جو نجس ہو گئی ہو جیسے نجس لباس کربھر پانی میں گر جائے تو و ہ اس وقت تک نجس نہیں ہوگاجب تک اس کارنگ ،بو یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بد ل نہ جائے۔
مسئلہ:۲۰۔اگرکربھر پانی کی بونجاست کے علاوہ کسی اور چیز سے بدل جائے تووہ پانی نجس نہیں ہوگا۔
مسئلہ۲۱۔ اگرکرسے زیادہ پانی میں عین نجس مثلاًخون گر جائے اوراس کے کسی ایک حصہ کومتغیرکردے اورغیرمتغیرپانی کر بھر یااس سے زیادہ ہوتو جتناحصہ متغیرہواہے صرف وہی نجس ہوگا اور لیکن اگرباقی ماندہ پانی کرسے کم ہوتو سب نجس ہوجائیگا۔
مسئلہ۲۲۔ اگرفوارے کاپانی کرسے متصل ہوتووہ نجس پانی کوپاک کردیگالیکن اگر فوارے کاپانی ایک ایک قطرہ نجس پانی پرگرے تواسے پاک نہیں کرے گا،ہاں اگرفوارے کے اوپرکوئی چیزرکھ دی جائے جس کے نتیجہ میں اس کاپانی قطرہ قطرہ ہونے سے پہلے نجس پانی سے متصل ہوجائے تو نجس پانی کوپاک کردیتاہے اوراحتیاط واجب یہ ہیکہ فوارے کاپانی نجس پانی سے مخلوط ہوجائے۔
مسئلہ۲۳۔ اگرنجس چیزکوایسے نل کے نیچے رکھ کردھودیں جو کر سے متصل ہے توجوپانی اس سے ٹپک رہاہے پاک ہے،تو اگر نجاست کی وجہ سے اس کارنگ،بو یا ذائقہ بدلا نہ ہواور عین نجاست بھی اس میں نہ ہو تو وہ پانی پاک ہے ۔
مسئلہ ۲۴۔اگرکرکے پانی کاکچھ حصہ جم کربرف کی صورت اختیار کرے اورباقی حصہ کرسے کم ہوتوعین نجاست کے لگنے سے یہ پانی نجس ہو جائیگااوربرف بھی جس قدرپگھلتی جائیگی نجس ہوتی جائیگی۔
مسئلہ ۲۵۔ جوپانی پہلے کرتھا پھر اس کے متعلق شک ہو جائے کہ کرہے یا اس سے کم ہوگیاتواسکو کرسمجھا جائے یعنی نجاست کو پاک کرے گا اور اگر اسمیں نجاست پڑجائے تو رنگ ،بو یا ذائقہ نہ بدلنے کی صورت میں نجس نہیں ہو گا،اسی طرح اگر پانی کر نہ ہو اوراب شک ہو کہ کر ہوگیاہے کہ نہیں تواسے کر نہ سمجھا جائے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ ایسے موقعے پر تحقیق کرے ۔
مسئلہ۲۶۔پانی کاکرہوناتین طریقہ سے معلوم کیاجاسکتاہے:
۱۔ خودانسان کویقین یااطمینان حاصل ہوجائے.
۲۔دوعادل آدمی گواہی دیں کہ یہ پانی کربھرہے
۳۔جس شخص کے اختیار میں پانی ہو اور وہ قابل اطمینا ن ہو مثلاً حمام کا مالک کہہ دے کہ حما م کا پانی کر بھر ہے

قلیل پانی
مسئلہ۲۷۔قلیل پانی سے مرادوہ پانی ہے جوزمین سے جوش مار کرنہ نکلے اورکرسے کم ہو۔
مسئلہ۲۸۔نجس چیزاگرقلیل پانی میں گرجائے یا قلیل پانی کو نجس چیز پر ڈال دیا جائے تووہ قلیل پانی نجس ہوجاتاہے لیکن اگرقلیل پانی اوپر سے نجس چیزپرڈال دیں توجتناپانی نجس چیزسے ملاہے صرف وہی نجس ہوگا اور باقی پاک ہے اوراگرقلیل پانی فوارہ کی طرح نیچے سے اوپرجارہاہے اورنجس چیزسے مل رہاہے تونیچے کاحصہ نجس نہیں ہوگا۔
مسئلہ۲۹۔وہ قلیل پانی جونجس چیزپرڈالاجائے اوروہ اس سے جداہو جائے تووہ پانی نجس ہے اگر چہ اس سے نجاست زائل بھی نہ ہوئی ہو بلکہ احتیاط یہ ہے کہ اصل نجاست کو دور کرنے کے بعد جو پانی اس کو پاک کرنے کے لئے ڈالا جائے تو اس سے بھی پرہیز کرے
مسئلہ ۳۰۔جب پانی پیشاب یا پائخانے کے مقام کو پاک کرنے میں استعمال کیا جائے تو جو پانی گرتا ہے وہ پانچ شرطوں کے ساتھ پاک ہے
۱۔نجاست کا رنگ ،بو ،ذائقہ اس میں نہ آیا ہو
۲۔باہر سے کوئی نجاست اس پانی تک نہ پہنچی ہو
۳۔کوئی اورنجاست مثلاًخون، پیشاب یاپاخانہ کیساتھ نہ ہو۔
۴۔پاخانہ کے ذرات پانی میں نہ ہوں۔
۵۔ نجاست پاخانہ کے اطراف میں معمول سے زیادہ نہ پھیلی ہو۔

جاری پانی
مسئلہ۳۱۔ جاری پانی: وہ پانی ہے جوزمین سے جوش مارکرنکلے اورمسلسل ابلتا رہے جیسے چشمے اور اسی طرح کا کوئی اور پانی۔
مسئلہ۳۲۔ جاری پانی چاہے کرسے کم ہوپھر بھی نجاست کے ملنے سے نجس نہیں ہوتاہاں اگرنجاست کی وجہ سے اسکا رنگ بو،یاذائقہ بدل جائے تونجس ہوجاتاہے۔
مسئلہ۳۳۔اگرجاری پانی میں نجاست پڑجائے اوراس کے ایک حصہ کے رنگ ،بو،یاذائقہ کوبدل دے توصرف وہی حصہ نجس ہوگااورپانی کاوہ حصہ جوچشمے سے متصل ہے چاہے کرسے کم ہو پاک رہیگا،البتہ نہرکا دوسراپانی جو کر کی مقدار ہو یا کر کی مقدار نہ ہو لیکن چشمہ سے متصل ہو بشرطیکہ وہ چشمہ سے اس پانی کے ذریعہ ملا ہو جسمیں نجاست نہ ہو تو وہ پاک ہے ورنہ نجس ۔
مسئلہ۳۴۔ایسے چشمے کاپانی جوبہنے والانہ ہولیکن اگراس میں سے پانی لے لیاجائے تووہ پھرجوش مارنے لگے جاری کے حکم میں ہے،یعنی نجاست کے ملنے سے نجس نہیں ہوتاجب تک اس کارنگ،بویاذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل نہ جائے۔
مسئلہ۳۵۔ ایساپانی جونہروں کے کنارے ٹھہراہوتاہے اورنہروں سے متصل ہوتاہے وہ جاری پانی کے حکم میں ہے۔
مسئلہ۳۶۔جوجشمہ کبھی جوش مار کے نکلتا ہو اورکبھی رک جاتا ہوتو جس زمانے میں جوش مار کے نکلتا ہو جاری پانی کاحکم رکھتا ہے۔
مسئلہ ۳۷۔حمام کے حو ض کا پانی اگر چہ کر کی مقدار سے کم ہو لیکن جب ٹنکی جو کر سے زیادہ ہو اس سے پانی آئے اور حوض میں گر رہا ہو تو وہ جاری پانی کے حکم میں ہے ۔
مسئلہ ۳۸۔حمام اور عمارتوں کے نلوں کا پانی اگر وہ نل کر سے متصل ہو تو جاری پانی کے حکم میں ہے۔
مسئلہ ۳۹۔وہ پانی جو زمین پر بہ رہا ہے لیکن زمین سے ابل نہیں رہا ہو جب کر سے کم ہو اور اس میں نجاست جا پڑے تو وہ نجس ہو جائے گا اور اگر اوپر سے نیچے کی طرف زور سے پھینکا جائے اور اس کے نچلے حصہ میں نجاست لگے تو اس کا اوپر والا حصہ پاک ہے ۔

بارش کا پانی
مسئلہ ۴۰ ۔ ہر وہ نجس چیز جس میں اصل نجاست نہ ہو ۔ ایک مرتبہ جس پر بارش ہو جائے تو جس جگہ بارش کا پانی گر جائے گا وہ پاک ہو جائے گی لیکن فرش ولباس وغیرہ کا نچوڑنا لازم نہیں خواہ وہ بارش کے پانی کے ساتھ دھوئے جائیں یا کسی اور پانی کے ساتھ لیکن بارش کے ایک دو قطروں کا اس پر پڑنا کافی نہیں بلکہ اتنی مقدار میں ہو کہ لوگ کہیں بارش ہو رہی ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ بارش اس قدر برسے کہ سخت زمین پر بہنے لگے ۔
مسئلہ ۴۱۔ لباس ، قالین اور اس جیسی چیزوں پر زیادہ پریشر ضروری نہیں وہ بارش کے پانی ہی سے دھل جاتی ہیں۔
مسئلہ ۴۲۔جب بارش کا پانی اصل نجاست پر پڑ کر دوسری جگہ جا پڑے تو اگر اس کے ساتھ اصل نجاست نہ ہو اور اس میں نجاست کا رنگ یا بو یا ذائقہ بھی نہ آیا ہو تو پاک ہے پس اگر بارش خون پر برسے اور اس کا چھینٹا اڑ کر دوسری جگہ جا پڑے تو اگر اس میں خون کا ایک ذرہ بھی موجود ہو یا اسمیں خون کا رنگ یا بو یا ذائقہ آگیا ہو تو وہ نجس ہو گا ۔
مسئلہ ۴۳۔ اگر مکان کی چھت پر یا اس کے دروازے پر اصل نجاست موجود ہو تو جب تک بارش چھت پر پڑ رہی ہے اور پانی اس نجس چیز پر پڑ کر چھت یا پر نالہ کے ذریعہ نیچے آرہا ہے وہ پانی پاک ہے اور بارش رکنے کے بعد علم ہو کہ پانی پرنالہ وغیرہ سے گر رہا ہے ، اس نجاست سے مل کر آرہا ہے تو پھر وہ پانی نجس ہے ۔
مسئلہ ۴۴۔ جس نجس زمین پر بارش کا پانی برسے تو وہ پاک ہو جائیگی اور اگر بارش کا پانی زمین پر جاری ہو نے لگے اور اس جگہ پر جا ملے کہ جو چھت کے نیچے کی نجس جگہ ہے تو وہ نجس جگہ بھی پاک ہو جائیگی ۔
مسئلہ ۴۵۔ اگر نجس خاک بارش کے پانی پڑنے کی وجہ سے کیچڑ ہو جائے تو پاک ہو جائے گی ۔
مسئلہ ۴۶۔ جب بارش کا پانی ایک جگہ جمع ہو جائے اور کر کی مقدار سے کم ہو تو جب تک بارش ہو رہی ہے کسی نجس چیز کو اس میں دھویا جائے اور اس پانی میں نجاست کا رنگ یا بو یا ذائقہ بھی نہ آئے تو وہ نجس چیز پاک ہو جائے گی ۔
مسئلہ ۴۷ ۔اگر پاک فرش نجس زمیں پر بچھا ہو ا ہو اور اس کے اوپر بارش کا پانی برسے اور وہ پانی نجس زمین پر جاری ہو جائے تو فرش نجس نہیں ہو گا اور زمین بھی پاک ہو جائے گی ۔

کنو ئیں کا پانی
مسئلہ ۴۸۔وہ کنواں جس کا پانی زمیں سے ابلتا ہے وہ اگر کر کی مقدار سے کم ہو اور اس میں نجاست پڑ جائے تو جب تک نجاست کی وجہ سے اس کا رنگ یا بو یا ذائقہ تبدیل نہ ہو وہ پاک رہے گا البتہ ایسی صورت میںمستحب ہے کہ نجس چیزوں میں سے بعض چیزوں کے کنویں میں گرنے کے بعد اتنی مقدار میں پانی نکالا جائے ( جتنی مقدار میں ’’الفقہ‘‘(۱)میں بیان کی ہے )۔
مسئلہ ۴۹۔ اگر کنویں میں نجاست پڑ جائے اور اس کی وجہ سے کنویں کے پانی کا رنگ یا بو یا ذائقہ تبدیل ہو جائے پھر اگر اس پانی کی تبدیلی زائل ہو جائے ۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ پانی اس وقت پاک ہو گا جب کہ کنویں سے ابلنے والے پانی سے مخلوط ہو جائے ۔
مسئلہ ۵۰۔ اگر بارش یا دوسرا پانی گڑھے میں جمع ہو جائے اور کر کی مقدار سے کم ہو تو نجاست کے ملنے سے نجس ہو جائے گا ۔

پانی کے احکام

مسئلہ ۵۱۔آب مضاف کے جس کے معنی مسئلہ ۱۷ میں بتائے جا چکے ہیں نجس چیز کو پاک نہیں کرتااور اس سے وضو اور غسل کر نا بھی باطل ہے ۔
مسئلہ ۵۲۔ مضاف پانی جس قدر بھی زیادہ ہو اگر اس میں نجا ست کا ایک ذرہ بھی پڑ جائے تو وہ نجس ہو جا ئے گا اگر مضاف پانی اوپر سے نیچے کی طرف قوت کے ساتھ کسی نجس چیز پر پڑ ے تو پھر صرف وہی حصہ نجس ہو گا جو نجا ست سے متصل ہے اور اس سے اوپر والا حصہ پاک ہو جائیگا ۔ مثلا گلاب کے پانی کو گلاب دان سے نجس ہاتھ پر ڈالا جائے تو گلاب کاوہ پانی نجس ہو گا جو نجس ہاتھ پر لگا ہے اور جو ہاتھ کو نہیںلگا وہ پاک ہو گا ۔
مسئلہ ۵۳ ۔ اگر نجس مضاف پانی کر یا جاری کے ساتھ اس طرح مخلوط ہو جائے کہ اسے مضاف پانی نہ کہا جائے تو پھر وہ پاک ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۵۴۔ اگر ایک پانی مطلق تھا اور پھر بعد میں یہ علم نہ ہو کہ مضاف ہو اہے یا نہیںتو وہ مطلق پانی کے حکم میں ہو گا یعنی نجس چیز کو پاک کرے گا ۔ اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی صحیح ہے اور جو پانی مضاف تھا اور پھر یہ علم نہ ہو کہ مطلق ہو اہے یا نہیں تو وہ مضاف پانی کے حکم میں ہے یعنی نجس چیز کو پاک نہیں کرے گا اور اس سے وضو اور غسل کرنا باطل ہوگا۔
مسئلہ ۵۵۔جس پانی کے متعلق علم نہ ہو کہ مطلق ہے یا مضاف اور یہ بھی علم نہ ہو کہ اس سے پہلے مطلق تھا یا مضا ف تو وہ نجس چیز کو پاک نہیں کرے گا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہے لیکن اگر کر یا اس سے زیادہ مقدار میں پانی ہو اور اس میں نجاست جا پڑے تو اس پر نجاست کا حکم بھی نہیں لگایا جاسکتا ۔
مسئلہ ۵۶۔ وہ پانی جس میں اصل نجاست خون یا پیشاب وغیرہ اس کے رنگ یا بو یا ذائقہ کو بدل دے تو اگر چہ وہ کر کی مقدار کے برابر ہو یا جاری پانی ہی کیوں نہ ہوتو وہ نجس ہو جائے گا البتہ اگر پانی کا رنگ یا بو یا ذائقہ اس پانی سے علیحدہ قریب پڑی ہو ئی نجاست کی وجہ سے تبدیل ہو جائے مثلاً قریب پڑے ہو ئے مردار کی وجہ سے اس کی بو تبدیل ہو جائے تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اس کے نجس نہ ہو نے میں اشکال ہے ۔
مسئلہ ۵۷۔ وہ پانی جس میں اصل نجاست خون اور پیشاب جا پڑے اور اس کے رنگ یا بو یا ذائقہ کو متغیر کر دے تو اگر وہ کر یا جاری پانی سے متصل ہو جائے یا بارش کا پانی اس پر برس جائے یا ہوا کی وجہ سے بارش کا پانی اس میں گرے یا بارش کا پانی برستے وقت پرنالہ سے اس میں جا گرے اور اس کے تغییر کو ختم کر دے تو وہ پاک ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۵۸۔ اگر کسی نجس چیز کو کر یا جاری پانی میں غوطہ دیا جائے تو وہ پانی جو ان کے باہر نکالنے سے نکلتا ہے پاک ہے ۔
مسئلہ ۵۹۔ جو پانی پہلے سے پاک ہو اور پھر یہ علم نہ ہوکہ نجس ہو ا ہے یا نہیں تو وہ پاک ہے اور جو پانی پہلے نجس ہوا ور پھر علم نہ ہو کہ پاک ہوا ہے یا نہیں تو وہ نجس ہے ۔
مسئلہ ۶۰۔ کتا یا سور یا کافر کے کھائے ہوئے سے جو بچ جائے (یعنی جوٹھا )نجس ہے اور اس کا کھانا حرام ہے لیکن ان کے علاوہ دوسرے حرام گوشت والے جانوروں کے کھائے ہوئے سے بچا ہو ا پاک ہے مگر اس کا کھانامکروہ ہے۔







بیت الخلاء کے احکام
(پیشاب اور پاخانہ کرنا )
مسئلہ ۶۱۔ہر انسان پر واجب ہے کہ پیشاب اور پاخانہ کرنے کی حالت میں اور دوسرے موقعہ پر اپنی دونوں شرمگاہوں کو ہر انسان سے خواہ وہ ماں یا بہن ہوں کے جو اس کے محرم ہیں یا ایسے دیوانہ اور بچہ ہوں کے جو اچھائی اور برائی کو سمجھتے ہوں لیکن میاں بیوی کے لئے ایک دوسر ے سے شرمگاہ کا چھپانا لازم نہیں ہے ۔
مسئلہ ۶۲۔دونوں شرمگاہوں کو کسی خاص چیز سے چھپانا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر ہاتھ سے بھی چھپائے تو کافی ہے۔
مسئلہ ۶۳۔بیت الخلاء میں بیٹھنے کے وقت بدن کا اگلا حصہ یعنی پیٹ اور سینہ اور زانو قبلہ کی طرف نہ ہو ں اور قبلہ کی طرف پیٹھ بھی نہ (یعنی نہ تو قبلہ کی طرف سیدھا رخ کرنا جائز ہے نہ قبلہ کی طرف پیٹھ کرنا جائز ہے )
مسئلہ ۶۴۔اگر کسی شخص کا پا خانہ کرتے وقت بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف یا پیٹھ قبلہ کی طرف ہو جائے اور عضو مخصوص کو قبلے کی طرف سے موڑے تو کافی نہیں ہے اور اگر اسکے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف یا پیٹھ قبلہ کی طرف نہ ہو تو بھی احتیاط واجب یہی ہے کہ عضو مخصوص کو قبلہ کی طرف یا پشت بقبلہ نہ کرے ۔
مسئلہ ۶۵۔احتیاط مستحب یہ ہے کہ استبراء کرتے وقت ( جس کے احکام بعد میں بیان ہوں گے )اور دونوں شرمگاہوں کی طہارت کے موقع پر قبلہ کی طرف رخ نہ ہو ۔
مسئلہ ۶۶ ۔اگر کو ئی شخص اس وجہ سے کہ اسے کوئی نامحرم نہ دیکھے مجبور ہو کر رو بقبلہ یا پشت بقبلہ بیٹھے تو پھر وہ رو بقبلہ یا پشت بقبلہ بیٹھ سکتا ہے اور اسی طرح کسی دوسری وجہ سے اگر مجبور ہو جائے تو بھی رو بقبلہ یا پشت بقبلہ بیٹھنے میں کو ئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ۶۷۔ضروری نہیںہے کہ کسی بچہ کو پاخانہ یا پیشاب کراتے وقت رو بقبلہ یا پشت بقبلہ نہ بٹھائے اور اگر بچہ خود بخود بیٹھ جائے تو اسے روکنا بھی واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۶۸ ۔ان پانچ جگہوں پر پیشاب اور پا خانہ کرنا حرام ہے
(۱) اس گلی میں جو آگے سے بند ہو ۔ اگر اسکے دو نوں طرف رہنے والے لوگ اجازت نہ دیں نیز ایسے گلی کو چے میں بھی جو بند ہو اور گزرنے والوں کو تکلیف ہو تی ہو۔
(۲)کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں جبکہ پیشاب یا پاخانہ کی اجازت نہ دی گئی ہو ۔
(۳) اس جگہ جو کسی خاص طبقہ کے لئے وقف ہو مثلاً بعض مدرسے وغیرہ۔
(۴)مومنین کی قبروں پر جبکہ انکی بے حرمتی ہو تی ہو ۔
(۵)قابل احترام جگہ پر جہاں پر پیشاب کرنے سے اسکی بے حرمتی ہوتی ہو ۔
مسئلہ ۶۹۔تین صورتوں میں پاخانہ کا مقام صرف پانی ہی سے پاک ہو سکے گا ۔ البتہ بعض مقامات میں احتیاط ہے :
(۱)جب کہ پاخانہ کے ساتھ کوئی اور نجاست مثل خون وغیرہ باہر آئے۔
(۲)جب کہ باہر سے کوئی نجاست پاخانہ کے مقام تک پہنچ جائے ،
(۳) جب کہ پاخانہ کے مقام کے ارد گرد عام طور سے جس قدر پا خانہ لگا ہوتا ہے اس سے زیادہ پھیل جائے
ان تین صورتوں کے علاوہ باقی صورتوںمیں پاخانہ کے مقام کو پانی سے دھوئیں یا جو طریقہ بعد میں بتایا جائے گا ۔ کپڑے یا پتھر وغیرہ سے پاک کریں اگر چہ پانی سے دھونا بہتر ہے ۔
مسئلہ ۷۰۔پیشاب کے مقام کو سوائے پانی کے کسی چیز سے پاک نہیں کیا جا سکتا ۔پیشاب کرنے کے بعد اگر کر یا جاری پانی سے ایک مرتبہ پاک کیا جائے تو کافی ہے لیکن قلیل پانی سے دو مرتبہ پاک کرنا چاہیئے جبکہ تین مرتبہ پاک کرنابہتر ہے ۔
مسئلہ ۷۱۔پاخانہ کے مقام کو اس طرح پانی سے دھونا چاہیئے کہ اس پر پاخانہ کا کوئی ذرہ باقی نہ رہ جائے لیکن اگر رنگ یا بو اگر باقی رہ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر پہلی دفعہ میں اس طرح دھویا جائے کہ وہاں پر پاخانہ کا ایک ذرہ بھی نہ رہے تو دوبارہ دھونا لازم نہیں ہے ۔
مسئلہ ۷۲۔جبکہ پتھر اور ڈھیلے یا اس قسم کی دوسری چیزوں سے (جو خشک اور پاک ہوں) پاخانہ کو اس کے نکلنے کے مقام سے صاف کر دیں ۔ اگر تھوڑی سی تر ی رہ جائے جو پاخانہ کے مقام تک نہ پہونچے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔لیکن تین مرتبہ کم سے کم دھونا چاہیئے اگر چہ ایک مرتبہ دھونے سے طہارت ہو جاتی ہے ۔
مسئلہ ۷۳۔احتیاط مستحب یہ ہے کہ پاخانہ کے مقام کو تین عدد پتھروں یا تین ٹکڑے کپڑے سے پاک کریں البتہ ایک پتھر یا ایک کپڑے کے کناروں سے بھی کافی ہے اور اگر تین ٹکڑوں سے نجاست دور نہ ہو اس قدر اضافہ کرناچاہیئے کہ مکمل طور پر نجاست دور ہو جائے البتہ اگراس قدر چھوٹے ذرات باقی رہ جائیں جو دیکھے نہ جاسکتے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۷۴۔پاخانہ کے مقام کا ان چیزوں کے ساتھ پاک کرنا حرام ہے جن کا احترام کرنا ضروری ہوتا ہے جیسے وہ کاغذ جس پر اللہ اور انبیاء علیہ السلام کا نام لکھا ہوا ہوتا ہے اور ہڈی اور گوبر کے ساتھ بھی پاخانہ کے مقام کو پاک نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر کسی شخص نے ایسی چیزوں کے ساتھ طہارت کی ،اس نے گناہ تو کیا لیکن طہارت حاصل ہو جاتی ہے ۔
مسئلہ ۷۵۔اگر شک کریں کہ پیشاب یا پاخانہ کے مقام کو پاک کیا ہے یا نہیں اگر چہ اس کی ہمیشہ عادت ہو کہ پیشاب یا پاخانہ کرنے کے بعد فوراً پاک کرتا ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کو پاک کرے ۔
مسئلہ ۷۶ ۔اگر نماز پڑھنے کے بعد شک کرے کہ نماز سے پہلے پیشاب یا پاخانہ کے مقام کو پاک کیا تھا یا نہیں تو وہ نمازیں جو پڑھ چکا ہے صحیح ہیں لیکن اس کے بعد دوسری نمازوں کے لئے دوبارہ وہ متعلقہ مقامات کو پاک کرے ۔ اگر نماز کے دوران شک ہو تو اسے چاہیئے کہ نماز توڑ کر اس مقام کو پاک کرے لیکن اگر اسے ہمیشہ طہارت کرنے کی عادت ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر اس مقام کو پاک کرے اور نماز واجب کو اس احتیاط مستحب کی بنا پر نہ توڑے ۔
استبراء
مسئلہ ۷۷ ۔استبراء ایک مستحب عمل ہے جس کو مرد پیشاب کرنے کے بعد اس لئے انجام دیتا ہے تاکہ اسے یقین حاصل ہو جائے کہ پیشاب کے مقام میں کوئی قطرہ باقی نہیں رہ گیا اور اس کی کئی قسمیں ہیں سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اگر پیچاب کرنے کے بعد پا خانہ کا مقام نجس ہو گیا ہو تو اسے پہلے پاک کرے پھر بائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی سے پاخانہ کے مقام سے آلہ تناسل کی جڑ تک کھنچے اس کے بعد آلہ تناسل کے اوپر اور بڑی انگلی کو اس کے نیچے رکھ کر تین مرتبہ ختنہ گاہ کی جگہ تک کھینچے اور اس کے بعد تین دفعہ آلہ تناسل کے سر کو نچوڑے
مسئلہ ۷۸ ۔وہ پانی جو بوس وکنار کرنے کے بعد نکلتا ہے اسے مذی کہتے ہیں وہ پاک ہے اسی طرح جو رطوبت منی خارج ہونے کے بعد آتی ہے اس کو وذی کہتے ہیں اور وہ رطوبت جو پیشاب کرنے کے بعد آتی ہے اس کو ودی کہتے ہیں اگر پیشاب اس کے ساتھ نہ ملا ہو تو پاک ہے اگر انسان پیشاب کرنے کے بعد استبرا کرے اور بعد میں اس سے پانی خارج ہو اور شک کرے کہ پیشاب ہے یا ان میں سے کوئی ایک رطوبت ہے تو وہ پاک ہے ۔
مسئلہ ۷۹۔اگر کوئی شخص شک کرے کہ استبراء کیا یا نہیں اور اس کے پیشاب کے مخرج سے کوئی رطوبت باہر آئے اور اسے معلوم نہ ہو کہ پاک ہے یا نجس تو نجس ہو گی پس اگر اس سے پہلے وضو کر چکا ہے تو وہ باطل ہو گا اور اگر شک کرے کہ جو استبراء اسنے کیا تھا وہ صحیح تھا یا نہیں اور پھر اس کے بعد اسے کوئی رطوبت آجائے اور اسے علم نہ ہو یہ پاک ہے یا نہیں تو وہ پاک ہوگی اور اگر وضو کیا ہو ا ہو تو اس کو باطل نہیں کرے گی ۔
مسئلہ ۸۰ ۔جس شخص نے پیشاب کے بعد استبراء نہ کیا ہو لیکن اسے پیشاب کرنے کے بعد کا فی مدت گزرنے کی وجہ سے یقین ہو اجائے کہ پیشاب نالی میں نہیں رہا ہے اور پھر کچھ رطوبت آجائے اور اسے شک ہو کہ یہ پاک ہے یا نہیں تو وہ پاک ہو گیاور وضو کو بھی باطل نہیں کرے گی ۔
مسئلہ ۸۱۔اگر کسی شخص نے پیشاب کے بعد استبراء کر کے وضو کر لیا ہو اوروضو کرنے کے بعد رطوبت آجائے اور اسے علم ہو کہ یہ یاپیشاب ہے یا منی تو اس پر واجب کہ احتیاطا غسل کرے اور وضو بھی کرے البتہ اگر اس نے پہلے وضو نہ کیا ہو تو صرف وضو کر لینا کافی ہے ۔
مسئلہ ۸۲۔ عورت کے لئے پیشاب کے بعد استبراء نہیں ہے اگر کوئی رطوبت اسے آئے اور شک کرے پاک ہے یا نہیں تو اسے پاک سمجھے وضو یا غسل کیا ہوا ہو تو اس کا وضو اور غسل باطل نہیں ہو گا ۔

پیشاب ، پاخانہ کرنے کے آداب
مسئلہ ۸۳۔ مستحب ہے کہ جب پیشاب یا پاخانہ کیا جائے تو ایسی جگہ بیٹھے کہ ا سے کوئی نہ دیکھے اور بیت الخلاء میں داخل ہو تے وقت پہلے بایاں پاؤں اندر رکھے اور نکلنے کے وقت پہلے دایاں پاؤں باہر رکھے اور اسی طرح مستحب ہے کہ پاخانہ کرتے وقت سر کو ڈھانپے اور بدن کا بوجھ بائیں پاؤں پر ڈالے ۔
مسئلہ ۸۴۔ سورج اور چاند کے سامنے پیشاب اور پاخانہ کرتے وقت بیٹھنا مکروہ ہے البتہ اگر اپنی شرمگاہوں کو کسی طرح ڈھانپ لے تو پھر مکروہ نہیں ہے اور اسی طرح ہوا کے رخ سڑکوں گلیوں کوچوں میں اور دروازے کے سامنے میوہ دار درختوں کے نیچے بیٹھ کر رفع حاجت کرنا مکروہ ہے، اسی طرح بیت الخلاء میں کچھ کھا نا ، زیادہ دیر توقف کر نا ،داہنے ہاتھ سے تطھیر کرنا ،اسی طرح بیت الخلاء میں گفتگو کرنا مکروہ ہے لیکن اگر مجبور ہو یا ذکر خدا کر رہا ہو تو مکروہ نہیں ہے ۔
مسئلہ ۸۵ ۔ کھڑے ہو کرپیشاب کر نا ، اور سخت زمین پر اور جانوروں کے بلوںاور پانی میں اور خاص کر ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کر نا مکروہ ہے ،اسی طرح کھڑے ہو کر پیچاب کر نا مکروہ ہے لیکن ۔۔’’تنویر ‘‘کی حالت میں مکروہ نہیں ہے ۔
مسئلہ ۸۶۔ پیشاب اور پاخانہ کو روکے رکھنا مکروہ ہے اور اگر جسم کے لئے مضر ہو تو اس کا روکنا حرام ہے ۔
مسئلہ ۸۷۔ انسان کے لئے مستحب ہے کہ نماز سے پہلے پیشاب کریاور پھر وضو کرے یا غسل کرے پھر نماز پڑھیاسی طرح سے مستحب ہے کہ ، سونے سے پہلے ، مجامعت سے پہلے اور منی نکلنے کے بعد پیشاب کرے ۔

احکام نجاسات
مسئلہ ۸۸۔ نجاسات گیارہ ہیں ۔۱۔ پیشاب ۔۲۔پاخانہ۔۳۔ منی ۔۴۔ مردار۔۵۔ خون ۔۶۔کتا۔۷۔ سور۔۸کافر۔ ۹۔ شراب۔۱۰۔ فقاع۔۱۱۔ نجاست کھانے والے حیوان کا پسینہ احتیاط کی بنا پر اس سے اجتناب کر نا چاہیے۔
(۱۔۲)پیشاب پاخانہ
مسئلہ ۸۹۔ پیشاب اور پاخانہ انسان اور حرام گوشت والے حیوان کا کہ جس سے خون اچھلنے والا ہو یعنی جب ا س کی رگیں کاٹیں تو خون اچھل کر نکلے اس کا پیشاب یا پاخانہ نجس ہے البتہ چھوٹے حیوان جیسے مچھر اور مکھی جن کا گوشت نہیں ہے یا حلال گوشت حیوانوں کا فضلہ اور پیشاب پاک ہے ۔
مسئلہ ۹۰۔مستحب ہے کہ حرام گوشت پرندوں کے فضلہ سے اجتناب کرے خاص کر چمگادڑ کے پیشاب اور فضلہ سے ۔
مسئلہ ۹۱۔ وہ حیوان جن کی غذ انجاست ہے اس کا پیشاب و پاخانہ نجس ہے اور اسی طرح اس حیوان کا پیشاب و پاخانہ بھی نجس ہے جس حیوان سے نعوذ باللہ کسی انسان نے فعل بد کیا ہو اور نیز اس بھیڑ کا گوشت بھی نجس ہے جو سور کا دودھ پی کر بڑی ہو ئی ہے ۔
۳۔ منی
مسئلہ ۹۲۔ انسان اور جس حیوان کا خون اچھلنے والا ہے اس کی منی نجس ہے۔
مسئلہ ۹۳۔ مذی ، وذی، اور ودی جن کے معنی مسئلہ ۷۸ میں بیان کئے گئے ہیں پاک ہیں ۔
۴۔ مردار
مسئلہ ۹۴ ۔ جس حیوان کا خوان اچھلنے والا ہواس کا مردار نجس ہے خواہ وہ خود بخود مر گیا ہو یا غیر شرعی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو ، اور مچھلی چونکہ خون جہندہ نہیں رکھتی اگر چہ پانی میں مر جائے تو پاک ہے ۔
مسئلہ ۹۵۔ مردار حیوان کے وہ اجزاء جن میں جان نہیں ہو تی مثلا اون ، بال ، ہڈی اور دانت پاک ہے ۔
مسئلہ ۹۶۔ اگر انسان یا اس حیوان کے بدن سے جو اچھلنے والا خون رکھتا ہے اس کی زندگی میں ہی گوشت یا کوئی اور حصہ جو جان دار ہو علیحدہ کر لیا جائے تو وہ نجس ہے ۔
مسئلہ ۹۷۔ وہ اجزاء انسان جن کا علیحدہ ہو نے کاوقت آپہنچا ہے مثلا ہونٹوں یا بد ن کی کسی جگہ سے باریک سی تہہ اکھاڑلی جائے تو وہ پاک ہے یہی حکم ہے اس کھال کا جس کے اکھڑنے کا وقت نہیں آیا ہے البتہ بہتر ہے کہ ان سے پر ہیز کیا جائے ۔
مسئلہ۹۸۔ وہ مرغی کا انڈا جو مردہ مرغی کے پیٹ سے باہر آئے اگر اس کے اوپر کا چھلکا سخت ہو چکا ہو تو پاک ہے لیکن احتیاطاً اس کا ظاہر پانی سے پاک کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۹۹۔اگر بھیڑ یا بکر ی کا بچہ جبکہ گھاس ابھی اس کی غذا نہ ہو مر جائے تو اس کے شیر دان میں جو پنیر مایہ ہے وہ پاک ہے البتہ شیردان کے ظا ہری حصہ کو احتیاطاً پانی سے پاک کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۰۰۔ سیال دوائیں ۔عطر ۔ روغنی چیزیں۔ پالش اور صابن جو باہر کے ملکوں سے آتی ہیں جب تک کسی شخص کو ان کے نجس ہونے کا یقین نہ ہو پاک ہیں ۔
مسئلہ ۱۰۱۔گوشت، چربی اور چمڑا جو مسلمانوں کے بازار میں فروخت ہو تا ہے وہ پاک ہے اسی طرح اگر یہ چیزیں مسلمان کے ہاتھ سے لی ہوں لیکن اس کوعلم ہو جائے کہ اس مسلمان نے کافر سے خریدا ہے اور یہ سونچ سمجھ کر نہیں خریدا کہ وہ مطابق شرع ذبح کیا گیا ہے یا نہیں تو پھر وہ نجس ہونگی ۔
۵۔خون
مسئلہ ۱۰۲۔ انسان کا خون اور ہر اس حیوان کا جو خون جہندہ رکھتا ہے ۔ یعنی اگر اس کو کاٹیں تو اس کی رگ سے خون دھار سے نکلے تو نجس ہے لہٰذا مچھلی اور مچھر کا خون پاک ہے کیوںکہ یہ خون جہندہ نہیں رکھتے اور جن جانوروں سے متعلق شک ہو جیسے سانپ وغیرہ تو انکا خون پاک ہے ۔
مسئلہ ۱۰۳۔حلال گوشت حیوان کو جب شرعی طریقہ سے ذبح کیا جائے اور عادت کے مطابق جو خون ذبح کے وقت نکلتا ہے نکل جائے تو باقی خون جو جسم کے اندر رہ جاتا ہے وہ پاک ہے البتہ سانس اندر لینے یا اس وجہ سے کہ ذبح کے وقت جانور کا سر بلند ی کی طرف تھا خون جانور کے جسم میں پلٹ جائے تو اس صورت میںجو خون جسم کے اندر ہو گا وہ نجس ہو گا احتیاط واجب یہ ہے کہ حرام گوشت جانور کے بد ن میں بچے ہوئے خون سے اجتناب کرے ۔
مسئلہ ۱۰۴۔وہ خون جو مرغی کے انڈے میں پا یا جائے اور وہ کم ہواور باریک پردہ بھی نہ پھٹاہواور اسے باہر نکالیں اور وہ انڈے کے ساتھ نہ ملے تو انڈا پاک ہے ۔
مسئلہ ۱۰۵۔کبھی کبھی دودھ دوھنے کے وقت تھوڑا سا خون آجاتا ہے احتیاط کی بنا پر دودھ کو نجس کر دیتا ہے۔
مسئلہ ۱۰۶ ۔جب خون دانتوں سے نکل آئے اور وہ منھ کے اندر لعاب سے مل کر ختم ہو جائے تو پاک ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس لعاب دہن کو نہ نگلے ۔
مسئلہ ۱۰۷۔جو خون چوٹ لگنے سے ناخن کے نیچے یا کھال کے اندر جم جاتا ہے اگر وہ اس طرح ہو جائے کہ پھر اسے خون نہ کہا جائے تو وہ پاک ہے اور اگر اسے ابھی تک خون کہا جاتا ہو تو نجس ہے اگر اسی صورت میں ناخن یا کھال میں سوراخ ہو جائے تو پھر اگر مشقت نہ ہو تو وضو اور غسل کے لئے اس خون کو باہر نکال دے اور اگر مشقت ہو تو پھر اس کے اطراف کو اس طرح پاک کر دے کہ اس سے نجاست زیادہ نہ ہو نے پائے اور کپڑا یا ایسی کوئی دوسری چیز جو کپڑا جیسی ہو اس پر رکھ کر گیلا ہاتھ پھیر دے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم بھی کرے ۔
مسئلہ ۱۰۸۔اگر کسی کو علم نہ ہو کہ کھال کے نیچے کا خون چوٹ لگنے سے مردہ ہو گیا ہے یا گوشت ہے جو سیاہ ہو گیا ہے تو پاک ہو گا ۔
مسئلہ ۱۰۹۔اگر غذا کے جوش کھانے کے وقت ذرہ بھر خون اس میں پڑ جائے تو تما م غذا اور برتن نجس ہو جاتا ہے جوش آنا یا گرمی یاآگ نجس غذا کو پاک نہیں کرتی ۔
مسئلہ۱۱۰۔ وہ پیلا پانی جو زخم کے اچھے ہونے کے وقت اس کے چاروں طرف آنے لگتا ہے اگر علم نہ ہو کہ وہ خون سے مخلوط ہے تو وہ پاک ہے۔
۶،۷ ۔کتا ،سور
مسئلہ ۱۱۱۔کتا اور سور جو خشکی کے رہنے والے ہیں وہ نجس ہیں اور ان کے بال ہڈیاں پنجہ ناخن اور انکی رطوبتیںبھی نجس ہیں لیکن دریائی کتا اور سور پاک ہیں۔
مسئلہ ۱۱۲۔سور اور کتے کے علاوہ تمام حرام گوشت جانوروں کا تزکیہ کیا جاسکتا ہے یعنی اگر شرعی طریقہ سے ذبح ہوں تو پاک ہیں لیکن انکا کھا نا حرام ہے ۔
۸۔کافر
مسئلہ ۱۱۳۔ کافر سے مرا دوہ انسان ہے جو منکر خدا ہو یاا للہ کے شریک ہو نے کا قائل ہو یا حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ؐ کی پیغمبری کو تسلیم نہ کرتا ہوتو وہ احتیاط واجب کی بنا پر نجس ہے ،اور اسی طرح اگر کوئی ضروریات دین یعنی ان چیزوں کا انکار کرے ،جن کو مسلمان دین اسلام کا جز مانتے ہیںجیسے نماز ،روزہ تو وہ نجس ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اسکا انکار پیغمبر اکرم ؐکے انکار کا مستلزم ہو اور جانتا ہو کہ یہ چیز ضروریات دین میں سے ہے لیکن اگر نہیں جانتا ہویہ ضروریات دین اسلام میں سے ہیں و ایسے شخص سے احتیاط مستحب کی بنا پر پرہیز کرنا چاہئیے ۔وہ شخص جو قیامت اور کبائر ضروریہ کا منکر ہو کافرکے حکم میں ہے ۔
مسئلہ ۱۱۴۔ اہل کتاب (کافر ، عیسائی ، یہودی اور زردشتی)اگر شراب پینے کی وجہ سے یا دوسری نجاسات کی وجہ سے نجس نہ ہو ا ہوتو اس کی ذاتی نجاست ثابت نہیں ہے اگر چہ احوط وجوبی یہ ہے کہ مجبوری کے علاوہ اس سے اجتناب کیا جائے ۔
مسئلہ ۱۱۵۔ کافر کا تمام بدن یہاں تک کہ اس کے بال ، ناخن ،اور رطوبت بھی بنابر احتیاط واجب نجس ہے
مسئلہ۱۱۶۔ اگر کسی نابالغ بچہ کے ماں ،باپ،دادا، دادی کافر ہوں تو وہ بچہ بھی نجس ہے اور اگر ان میں سے کوئی ایک مسلمان ہو تو وہ بچہ پاک ہے ۔
مسئلہ ۱۱۷۔اگر کسی کے متعلق معلوم نہ ہو سکے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں اگر مسلمانوں کے ملک میں رہتا ہو تو وہ پاک ہے اوراس پر مسلمانوں کے دوسرے احکام بھی جاری ہوں گے مثلاً مسلمان عورت سے نکاح کر ے گا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہو گا ۔
مسئلہ ۱۱۸۔ اگر کوئی مسلمان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا یا جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام یا بارہ اماموں میں سے کسی ایک کو گالی دیتا ہو یا دشمنی رکھتا ہو تو وہ نجس ہے ۔
۹۔شراب
مسئلہ ۱۱۹۔ شراب اور ہر وہ چیز جو انسان کو مست کر دیتی ہے اور وہ ذاتی طور پر بہنے والی ہو تو وہ نجس ہے چاہے اسے کسی طرح سے خشک کر دیں اور اگر بھانگ اور چرس کی طرح ذاتی طور پر بہنے والی نہ ہو اگر چہ کوئی چیز اس میں ڈال دیں کہ وہ بہنے والی ہو جائے تو پاک ہے ۔
مسئلہ ۱۲۰۔سپرٹ جو لکڑی کو رنگ کر نے میں استعمال ہو تی ہے جیسے میز، کرسی ، دروازے وغیرہ اگر اس کے متعلق یہ علم نہ ہو کہ وہ کسی مست کر نے والی اور بہنے والی چیز سے بنے ہیں تو وہ پاک ہے ۔
مسئلہ ۱۲۱ ۔ اگر انگور اور انگور کا پا نی خود بخود جوش میں آجائیں تو نجس نہیں ہو گا لیکن ان کا کھانا حرام ہے اور اگر پکانے کی وجہ سے جوش آجائے تو ان کابھی یہی حکم ہے ۔
مسئلہ ۱۲۲۔ کھجور ، کشمش ، منقیٰ اور ان کا پانی اگر جوش آجائے تو یہ پاک ہیں اور انکا کھانا حلال ہے اگر چہ احتیاط مستحب اس میں ہے کہ کشمش اوع منقیٰکے کھانے پرہیز کیا جائے ۔
۱۰۔ فقاع
مسئلہ ۱۲۳۔فقاع سے مراد وہ شراب ہے جو جو سے بنا ئی جاتی ہے وہ نجس ہے مگر جسے طبیب کی ہدایت سے پانی میں پکاتے ہیں اور اسے بارلی کہتے ہیں وہ پاک ہے ۔
۱۱۔نجاست خوار جانور کا پسینہ
مسئلہ ۱۲۴۔ احتیاط واجب یہ ہے نجاست کھانے والے اونٹ اور ہر نجاست خوار جانور کے پسینے سے اجتنا ب کیا جائے ۔
حرام سے مجنب ہوئے شخص کا پسینہ
مسئلہ ۱۲۵۔ وہ شخص جو حرام سے مجنب ہو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کا پسینہ نجس نہیں ہے اگر چہ احتیاط یہ ہیکہ چاہے منی جماع کی حالت میں باہر آئے یا اس کے بعد ، مرد سے ہو یا عورت سے، زنا سے ہو یا لواط سے ، جانور وں کے ساتھ وطی کی وجہ سے ہو یا استمناء سے(یعنی ایسا کام کر نا جس کی وجہ سے منی خود بخود باہر آجائے )اس پسینہ کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۲۶۔ جن اوقات میں اپنی بیوی سے مجامعت کرنا حرام ہو تا ہے جیسے اپنی بیوی سے حالت حیض اورماہ مبارک رمضان کے روزہ میں مجامعت کرے تو بنا بر احتیاط مستحب اسے چاہئیے کہ اپنے پسینہ سے اجتناب کرے ۔
مسئلہ ۱۲۷۔ اگر کوئی شخص حرام شیٔ سے مجنب ہو نے کے بعد شرعی مجبوری کی وجہ سے بجائے غسل کے تیمم کرے اور تیمم کرنے کے بعد اسے پسینہ آجائے تو اس پسینہ کے ساتھ نمازپڑھ سکتا ہے اگر مجبوری ختم ہو جائے اور اس کے بعد پسینہ آئے تو اس پسینہ کیساتھ نماز نہیں پڑھ سکتا ہے لہٰذ ا احتیاط مستحب کی بنا پر اس پسینہ سے پرہیز کرے ۔
مسئلہ ۱۲۸۔ اگر کوئی شخص حرا م شیٔسے مجنب ہو اور بعد میں اپنی زوجہ سے مجامعت کرے یا اگر پہلے اپنی زوجہ سے مجامعت کرے اور بعد میں حرا م شیٔ سے مجنب ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس پسینہ سے اجتنا ب کرے

نجاست کے ثابت ہو نے کا طریقے
مسئلہ ۱۲۹۔ ہر چیز کی نجاست تین طریقوں سے ثابت ہو تی ہے
(۱)خود انسان کو علم و یقین ہو جائے کے فلاں چیز نجس ہے اور اگر کسی چیز کے متعلق گمان ہو کہ نجس ہے تو اس سے پرہیز کرنا لازم نہیں ، لہٰذا ایسے ہوٹل اور چائے خانے جہاں پر لا پرواہ لوگ یا ایسے آدمی جو پاک اور نجس کی پرواہ نہیں کرتے کھانا کھاتے ہیں اگر وہاں کسی شخص کے لئے کھانے کی چیزیں لائی جائیں جن کے بارے میں یقین نہ ہو کہ نجس ہیں تو ان کو کھانے میں کو ئی اشکال نہیں ہے ۔
(۲)وہ شخص جس کے اختیار میں کو ئی چیز ہو وہ اگر کہہ دے کہ فلاں چیز نجس ہے تو وہ نجس ہے مثلاً بیوی یا نوکر یا ملازمہ کسی برتن یا دوسری چیز کے بارے میں جو اس کے اختیار میں ہے کہے کہ فلاں شی نجس ہے تو وہ نجس شمار ہو گی۔
(۳)دو مر د عادل کسی چیز کے متعلق کہہ دیں کے فلاں چیز نجس ہے اور اگر ایک عادل بھی جس کی بات قابل اطمینا ن ہو کہہ دے کہ فلاں چیز نجس ہے تو اقویٰ یہ ہے کہ اس سے بھی اجتناب کیا جائے ۔
مسئلہ ۱۳۰۔ اگر کوئی شخص مسئلہ سے ناواقف ہو یعنی کسی چیز کا پاک اور نجس ہونا نہ جانتا ہو اسے یہ معلوم نہ ہو کہ حرام طریقے سے مجنب ہونے والے کا پسینہ پاک ہے یا نہیں تو اس کو چاہیئے کہ کسی جاننے والے سے مسئلہ دریافت کر لے اور اگر مسئلہ جانتا ہو لیکن کسی چیز کے متعلق شک کرے کہ یہ پاک ہے یا نہیں مثلاً کوئی چیز دیکھے اور شک کرے کہ پاک ہے یا نہیں یہ چیز خون ہے یا نہیں یا یہ مچھر کا خون ہے یا انسان کا خون تو وہ چیز پاک ہو گی۔
مسئلہ ۱۳۱۔کسی نجس چیز کے متعلق یہ شک ہو کہ بعد میں پاک ہو گئی ہے یا نہیں تو وہ نجس ہے اور اسی طرح کسی پاک چیز کے متعلق شک ہو کہ بعد میں نجس ہو گئی ہے یا نہیں تو وہ پاک ہے اگر انسان نجس اور پاک کے معلوم کرنے کو سمجھتا ہو تو لازم نہیں ہے کہ جستجو کرے ۔
مسئلہ ۱۳۲۔ اگر یہ علم ہو کہ دو برتن یا دو کپڑے جو کہ استعمال میں ہیں ان میں سے ایک نجس ہے اور یہ نہیں جانتا کہ کون سا نجس ہے تو دونوں سے پرہیز کرے اگر اسے علم نہیں کہ خود اسکا لباس نجس ہے یا دوسرے کا جو کہ استعمال میں نہیں ہے تو لازم نہیں ہے کہ انسان اپنے لباس سے پرہیز کرے ۔

پاک چیز کیسے نجس ہوتی ہے؟
مسئلہ ۱۳۳۔اگر کوئی پاک چیز نجس چیز سے مل جائے اور پاک چیز اور نجس چیز دونوں یا کوئی ایک اس طرح تر ہو کہ اس کی رطوبت دوسری چیز کی طرف پہنچ جائے تو وہ پاک چیز نجس ہو جائے گی اور اگر رطوبت اتنی کم ہو کہ دوسری چیز کی طرف نہ پہنچ سکے تو وہ پاک چیز نجس نہ ہو گی ۔
مسئلہ ۱۳۴۔اگر کوئی پاک چیز نجس چیز سے مل جائے اور انسان کو شک ہو کہ دونوں یا ان میں سے ایک گیلی تھی یا نہیں تو پھر وہ پاک چیز نجس نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۳۵۔ دو چیزیں کہ جن کے متعلق انسان کو علم نہیں ہے کہ ان میں سے کون سی پاک ہے اور کون سی نجس اگر ان میں سے کسی ایک کے ساتھ کوئی پاک اور تر چیز مل جائے تو وہ نجس نہیں ہو گی ۔ لیکن اگر دونوں سے مل جائے تو نجس ہو جائے گی ۔
مسئلہ ۱۳۶۔ زمین یا کپڑا یا ان کے مثل اور دوسری چیزیں اگر گیلی ہوں[L:8] تو ان کا وہی حصہ نجس ہو گا جس حصہ میں نجاست لگی ہو گی اور باقی حصہ پاک ہو گا اسی طرح کھیرے اور خربوزے وغیرہ کا حکم ہے ۔
مسئلہ ۱۳۷۔اگر شیرہ یا گھی وغیرہ اس طرح سے پگھلے ہوئے ہوں کہ ان میں سے کچھ اٹھا لیا جائے تو کوئی جگہ خالی نہ رہے تھوڑی سی نجاست پڑنے سے تمام نجس ہو جائے گا ۔ البتہ اگر اس طریقہ سے جمے ہوئے ہوں کہ کچھ حصہ ان سے اٹھا یا جائے تو جگہ خالی ہو جائے اگر چہ بعد میں پر ہوتی رہے تو فقط وہی جگہ نجس ہو گی جہاں نجاست پہنچی ہے لہٰذا اگر چوہے کی مینگنی اس میں پڑ جائے تو فقط وہی جگہ نجس ہو گی اور باقی پاک ۔
مسئلہ ۱۳۸ ۔ مکھی یا اس کے مانند کوئی دوسرا حیوان کسی گیلی نجاست پر بیٹھ کر کسی پاک گیلی چیز پر آ کر بیٹھ جائے اگرانسان کو علم ہو کہ نجاست اس حیوان کے ساتھ تھی تو پاک چیز نجس ہو جائے گی اور اگر علم نہ ہو تو پاک ہے اسی طرح اگر اس کے ساتھ نجاست کا یقین رکھتا ہو اور بعد میں نجاست کے دور ہونے کے متعلق شک کرے تو بھی نجس ہے لیکن اگر نہیں جانتا ہو تو پاک ہے ۔
مسئلہ ۱۳۹۔ اگر جسم کے کسی حصہ پر پسینہ آیا ہو وہ نجس ہو جائے اور پسینہ اس حصہ سے بدن کے دوسرے حصوں تک پہنچے ، پس جس جس جگہ پسینہ بہہ کر پہنچے گا نجس ہو گا اور اگر پسینہ دوسرے حصہ بدن میں نہ پہنچے تو بدن کے دوسرے حصے پاک ہیں ۔
مسئلہ ۱۴۰۔ بلغم جو ناک یا گلے سے آئے اگر اس میں خون ملا ہو ا ہے تو جس حصہ میں خون ملا ہوا ہے وہ نجس ہے اور باقی حصہ پاک ہے اگر یہ ہونٹ کے ظاہری حصہ یا ناک پر لگ جائے تو وہ حصہ نجس ہو گا کہ جس کے متعلق علم ہو کہ اسے خون والا حصہ لگا ہے اور اگر اسے شک ہو کہ وہ نجس مقام تک پہنچا یا نہیں تو وہ پاک ہے ۔
مسئلہ ۱۴۱۔اگر لوٹے کے نیچے سوراخ ہو گیا ہو اور اس کو نجس زمیںپر رکھیں اگر وہ پانی زمین پر جمع ہو کر لوٹے والے پانی کے ساتھ مل کر ایک ہو جائے تو لوٹے کا پانی بھی نجس ہو جائے گا اگر وہ پانی زمین پر جاری ہو جائے یا بہہ جائے اور اس صورت میں لوٹے کا سوراخ نجس زمین سے متصل رہے پھر بھی لوٹے کے پانی سے پرہیز کرے البتہ اگر لوٹے کا سوراخ اس نجس زمین سے متصل نہ ہو اور لوٹے کے نیچے کا پانی بھی اندر کے پانی کے ساتھ شمار نہ ہو تو لوٹے کا پانی نجس نہیں ہو گا ۔
مسئلہ ۱۴۲۔اگر کوئی چیز بدن میں داخل ہو کر نجاست سے مل جائے لیکن جب باہر نکالی جائے تو وہ نجاست سے آلودہ نہ ہو تو وہ نجس نہیں ہو گی لہٰذا اگر اینیما کے آلات یا اسکا پانی پاخانہ کے مقام میں داخل ہو جائے یا سوئی یا اسکے مثل کوئی چیز جسم کے اندر داخل ہو اور جب اسے نکا لا جائے تو اس میں نجاست نہ لگی ہو تو نجس نہیں ہے ،اسی طرح تھوک یا ناک کا مواد جب اندر خون کے ساتھ جا لگے اور جب باہر نکلے تو خون اس کے ساتھ نہ ہو تو پاک ہے ۔
مسئلہ ۱۴۳۔متجنس (وہ چیز جو نجس ہو گئی ہے) عین نجس منجس (نجس کرنے والی)کی طرح ہے لیکن اس پر عین نجس کے تمام احکامات جاری نہیں ہو ں گے مثلاً اگر کوئی پیشاب سے نجس ہو جائے اس کے پاک کرنے میں تعدد ضروری ہے اگر اسے قلیل پانی سے پاک کیا جائے۔ لیکن اگر متنجس پیشاب کے ساتھ مل جائے تو اس کے پاک کرنے میں تعدد ضروری نہیں ہے ۔
احکام نجاسات
مسئلہ ۱۴۴۔قرآن کو نجس کرنا حرام ہے اگر نجس ہو جائے تو فوراً پانی سے پاک کرے اسی طرح مساجدمقا مات مقدسہ، قبرامام حسین ؑ ،بلکہ قبر پیغمبراکرم ؐ ، اور دیگر معصومین علیھم السلام کے بارے میں بھی احتیاط کی بنا پر یہی حکم ہے ۔
مسئلہ ۱۴۵ ۔اگر قرآن کی جلد نجس ہو جائے اور اسکو قرآن کے احترام کے خلاف سمجھا جائے تو اس کو ضرور پاک کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۴۶۔قرآن کا کسی عین نجاست پر رکھنا مثلاً خون و مردار وغیرہ پر رکھنا اگر چہ وہ عین نجاست خشک ہو تب بھی حرام ہے جبکہ اس کی بے حرمتی ہو تی ہو قرآن کا فوراً اٹھا لینا واجب ہے ۔
مسئلہ ۱۴۷۔قرآن کا نجس سیاہی سے لکھنا اگر چہ ایک حروف بھی ہو حرام ہے اور اگر لکھا ہوا ملے تو اسے پاک کرے یا اسے کاٹ دے یا کوئی ایسا کام کرے کہ وہ ختم ہو جائے ۔
مسئلہ ۱۴۸۔کافر کو قرآن دینا اگر بے حرمتی شمار ہوتا ہو تو اسے دینا حرام ہے اور اس سے قرآن لینا واجب ہے اگر دے دیا ہو ۔
مسئلہ ۱۴۹۔اگر ورق قرآن یا وہ چیز جس کا احترام لازمی ہے مثلا ً وہ کاغذ جس پر نام خدا یا پیغمبر ؐ یا امام علیہ السلام یا حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کا نام لکھا ہو بیت الخلاء میں گر جائے تو اس کا باہر نکالنا اور پاک کرنا اگر چہ اس میں کچھ پیسہ بھی خرچ کرنا پڑے واجب ہے اور اگر اس کا نکالنا ممکن نہ ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس بیت الخلاء میں نہیں جانا چاہیئے جب تک یقین نہ ہو جائے کہ وہ ختم ہو چکا ہے اور اگر خاک شفا بیت الخلاء میں گر جائے اور اس کا باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو جب تک یقین نہ ہو جائے کہ وہ بالکل ختم ہو چکی ہے بیت الخلاء میں نہ جائیں ۔
مسئلہ ۱۵۰۔نجس چیز کا کھانا اور پینا حرام ہےیا وہ چیزیں کو جو نجس ہو گئیں ہیں جیسے وہ پانی کہ جو نجس ہو گیا ہے حرام ہے اور یہی حکم دوسروں کو کھلا نے کا بھی ہے(حرام ہے) حتیٰ بچہ کو کھلانا بھی حرام ہے جبکہ عین نجس ہو ۔لیکن اگر بچہ خود نجس غذا کو کھائے اور وہ غذا نقصان کا سبب بھی نہ ہو تو اسے روکنا واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۵۱۔کسی نجس چیز کو بیچنا یا کسی کو عاریتاً دینا جبکہ اس کو پاک کیا جاسکتا ہو اگر خریدار یا عاریت پر لینے والے کو بتا یا گیا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۵۲۔اگر انسان دیکھے کہ کوئی شخص جہالت کی بنا پرنجس چیز کھا رہا ہے یا نجس لباس سے نماز پڑھ رہا ہے تو اس پر ضروری نہیں ہے کہ اسے اس سے آگاہ کرے۔
مسئلہ ۱۵۳۔اگر کسی کے گھر کا کوئی حصہ یا فرش نجس ہو اورصاحب خانہ کو معلوم ہو کہ اس کے گھر آنے والوں کا بدن یا لباس یا دوسری چیزیں گیلی ہیں اور آنے والے اسی جگہ پر بیٹھ جائیں تو ان کو احتیاط واجب کی بنا پر آگاہ کرنا چاہیئے جبکہ وہ اس کے مہمان بن کر آئیںہوں ۔
مسئلہ ۱۵۴۔اگر صاحب خانہ کو کھانے کی حالت میں معلوم ہو جائے کہ غذا نجس ہے تو اس پر لازم ہے کہ مہمانوں کوبتا دے ہاں اگر مہمانوں میں سے کسی ایک کو معلوم ہو جائے تو اس پر لازم نہیں ہے کہ دوسروں کو بتائے ۔
مسئلہ ۱۵۵۔اگر کوئی شخص کسی سے کوئی چیز عاریتاً لے آئے اور وہ نجس ہو جائے اور اس کو علم ہو کہ اس چیز کا مالک اس کو کھانے پینے میں استعمال کرے گا یا وہ لباس ہے تو اس کو نماز میں استعمال کرے گا تواحتیاط واجب یہ ہے کہ اسے نجاست سے آگاہ کرے اور اگر وہ چیز ایسی جگہ استعمال نہیں ہو تی جس میں طہارت شرط ہے تو آگاہ کرنا واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۵۶۔اگر کوئی بچہ کسی چیز کے برے میں کہے کہ وہ نجس ہے یا نجس چیز کے متعلق کہے کہ میں نے اسے پاک کر دیا ہے تواگر ا سکی بات قابل اطمینان ہو تو قبول کر لی جائے گی۔

احکام مطہرات
مسئلہ ۱۵۷۔ بارہ چیزیں نجاست کو پاک کرتی ہیں ان کو مطہرات کہتے ہیں ۔
(۱)پانی
(۲)زمین
(۳)سورج
(۴) استحالہ
(۵)انگور کے پانی کا دو تہائی کم ہو نا (اگر اس کو نجس مانا جائے)۔
(۶)انتقال
(۷)اسلام
(۸)تبعیت
(۹)اصل نجاست کا زائل ہو نا
(۱۰)نجاست کھانے والے جانور کا استبراء
(۱۱)مسلمان کا غائب ہو نا
(۱۲)ذبیحہ سے خون کا نکلنا۔
۱۔ پانی
مسئلہ۱۵۸۔چار شرطوں کے ساتھ پانی نجس چیزوں کو پاک کرتا ہے ۔
(۱) پانی مطلق ہو مضاف پانی مثلاًگلاب یا بید کا عرق نجس چیز کو پاک نہیں کرسکتے۔
(۲) خود پانی پاک ہو ۔
(۳)جب نجس چیز کو دھوئیں تو پاک کرنے والا پانی مضاف نہ ہو جائے اور اس میں نجاست کا رنگ یا بو ، یا ذائقہ بھی نہ آیا ہو
(۴) نجس چیز کو پاک کرنے کے بعد اس میں اصل نجاست باقی نہ رہ جائے ۔
مسئلہ ۱۵۹۔ آب قلیل یعنی کر سے کم پانی سے نجس چیز کو پاک کرنا ہو تو ان کے علاوہ اور بھی شرطیں ہیں جو بعد میں بیان کی جائیں گی ۔
مسئلہ ۱۶۰۔نجس برتن کو قلیل پانی سے احتیاطاً تین مرتبہ دھونا چاہیئے اور کر یا جاری پانی میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہے ہاں اگر برتن کو کتے نے چاٹ لیا ہو یا اس برتن سے پانی یا کسی بہنے والی چیز کو پی لیا ہو تو ضروری ہے کہ پہلے پاک مٹی سے برتن کو مانجھے اور اس کے بعد ایک مرتبہ کر یاآب جاری یا دو مرتبہ آب قلیل سے دھوئے اور اسی طرح اس برتن کو جس میں کتے کے منھ کی رال گر جائے احتیاط واجب یہی ہے کہ تین مرتبہ دھونے سے پہلے مٹی سے مانجھے ۔
مسئلہ ۱۶۱ ۔اگر اس برتن کا منھ کہ جس میں کتے نے منھ ڈال دیا ہے تنگ ہو اور اس کو مٹی سے مانجھنا ممکن نہ ہو تو اگر ممکن ہو تو لکڑی پر کپڑا لپیٹ کر اس کے ذریعہ مٹی کو اس برتن میں ملیں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو مٹی ڈال کر خوب ہلائیں تاکہ برتن کی تمام جگہ تک پہنچ جائے ۔
مسئلہ ۱۶۲ ۔اگر کسی برتن کو سور چاٹ لے یا اس میں بہنے والی چیز کھالے تو اس کو قلیل پانی سے سات مرتبہ دھوئیں اورکر اور آب جاری میں ایک مرتبہ دھوئیں اور اس کو مٹی سے مانجھنا ضروری نہیں ہے اگر چہ بہتر یہی ہے کہ مٹی سے مانجھا جائے ۔
مسئلہ ۱۶۳۔اگر وہ برتن جو شراب کی وجہ سے نجس ہو گیا ہو قلیل پانی سے پاک کرنا چاہیں تو تین مرتبہ اسے دھو یا جائے اگر چہ احوط اور بہتر یہی ہے کہ سات مرتبہ دھویا جائے۔
مسئلہ ۱۶۴۔جب مٹی کا برتن نجس مٹی سے بنا یا جائے یا نجس پانی اس میں سرایت کر جائے تو اگر اس برتن کو آب کر یا جاری میں رکھیں تو جہاں تک پانی پہنچ جائے گا وہ پاک ہو جائے گا اور اگر چاہیں کہ اس کا باطن بھی پاک ہو جائے تو اسے کر یا جاری پانی میں اتنا رکھیں کہ پانی تمام برتن میں اندر تک پہنچ جائے ۔
مسئلہ ۱۶۵۔نجس برتن کو قلیل پانی سے دو طریقہ سے پاک کیا جا سکتاہے
(۱) تین مرتبہ برتن کو بھر کے خالی کریں
(۲)تین مرتبہ تھوڑا پانی اس میں ڈالیں اور اس طرح حرکت دیں کہ پانی تمام نجس اطراف تک پہنچ جائے اور پھر انڈیل دیا جائے ۔
مسئلہ ۱۶۶۔بہت بڑا برتن جیسے مٹکا یا دیگ اگر نجس ہو جائے تو اس کو تین مرتبہ پانی بھر کر خالی کر دیں تو پاک ہو جائے گا اور اسی طرح اگر تین مرتبہ پانی برتن کے اوپر سے ڈالا جائے کہ وہ تمام اطراف میں پہنچ جائے اور ہر مرتبہ جو پانی بیچ میں جمع ہو جائے اسے خالی کر دیا جائے اور ضروری نہیں ہے کہ ہر دفعہ اس برتن کو جس سے پانی باہر نکالا گیا ہے پاک کر یں ۔
مسئلہ ۱۶۷۔ اگر نجس تانبہ وغیرہ یا ایسی ہی کسی دوسری چیز کو پگھلا کر پانی سے پاک کیا جائے تو اس کا ظاہر پاک ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۱۶۸۔ اگر تندور پیشاب سے نجس ہو جائے تو اسکے اندر اوپر سے دو مرتبہ پانی ڈالیں اس طرح سے کہ تمام اطراف سے گزر جائے تو پاک ہو جائے گا اور اگر پیشاب کے علاوہ کوئی دوسری نجاست ہو تو اصل نجاست کو دور کر نے کے بعد ایک مرتبہ پانی اس کے اندر اس طرح سے ڈالیں کہ تمام اطراف تک پہنچ جائے تو پاک ہو گا اور بہتر ہے کہ تندور کے اندر ایک گڈھا کر دیں تا کہ پانی اس میں جمع ہو جائے اور اس کو باہر نکال دیں بعد میں اس گڑھے کو پاک مٹی سے بند کر دیں ۔
مسئلہ ۱۶۹۔ نجس چیز سے اصل نجاست دور کر نے کے بعد جاری یا کر پانی میں اس طرح غوطہ دیں کہ پانی تمام نجس حصوں پر پہنچ جائے تو وہ چیز پاک ہو جائے گی اور ضروری نہیں ہے کہ فرش اورلباس اور ان جیسی چیزوں کو اس طرح نچوڑیں یا جھٹکیں کہ اندر کا پانی خارج ہو جائے ۔
۱۷۰۔ اگر کوئی چیز پیشاب سے نجس ہو جائے اور اسے قلیل پانی سے پاک کر نا چاہیں تو پہلے ایک مرتبہ اس پر پانی ڈالیں اور پانی اس چیز سے علیحدہ ہو جائے اور جس چیز میں پیشاب بھی باقی نہ رہے پھر دوسری مرتبہ بھی پانی ڈالیں تو وہ چیز پاک ہو جائے گی لیکن وہ چیز فرش یا لباس یا اس جیسی کوئی اور چیز ہو تولازم ہے کہ اسے ہر دفعہ ایسا نچوڑیں اکہ اس کا( غسالہ)پانی با ہر نکل جائے (غسالہ وہ پانی ہے جو کسی چیز کے دھو نے میں یا دھونے کے بعد حسب معمول خود بخود یا نچوڑنے کی وجہ سے گرتا ہے)
مسئلہ۱۷۱۔ جن موارد کے لئے چند مرتبہ پانی سے دھو نا ضروری ہے وہاں موالات اور پے در پے کی شرط نہیں ہے مثلا اگرآج اس چیز کو ایک مرتبہ دھو لیں اور دوسرے دن بھی ایک مرتبہ دھو لیں تو پاک ہو جائے گی۔
مسئلہ ۱۷۲۔ اگر کوئی چیز دودھ پینے والے بچہ کے پیشاب سے نجس ہو جائے بشرطیکہ وہ غذا نہ کھاتا ہو اور سور اور کافر کادودھ بھی نہ پیا ہو تو اس پر اس طرح ایک مرتبہ پانی ڈالا جائے کہ تمام نجس جگہ تک پہنچ جائے تو وہ پاک ہوجا ئے گی لیکن پھر بھی احتیاط مستحب ہے کہ ایک مرتبہ اور اس پر پانی ڈالا جائے ۔
مسئلہ۱۷۳۔ اگر کوئی چیز پیشاب کے علاوہ کسی اور چیز سے نجس ہو جائے تو اگراصل نجاست دور کر نے کے بعد ایک مرتبہ اس پر پانی ڈالا جائے اور پانی اس سے نکل جائے تو وہ پاک ہو جائے گی اور اگر پہلی دفعہ پانی ڈالنے سے اصل نجاست دور ہو اور نجاست دور ہو نے کے بعد پھر ایک مرتبہ پانی ڈالا جائے تو بھی پاک ہو جائے گی۔
مسئلہ ۱۷۴۔ اگر نجس چٹائی جو دھاگے سے بنا ئی گئی ہے جب کر یا جاری پانی میں ڈالا جائے تو اصل نجاست دور ہو نے کے بعد وہ پاک ہو جائے گی اور اگر قلیل پانی سے پاک کر نا چاہیں تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو دو دفعہ اس طرح نچوڑیں کہ اس کا دھوون دور ہو جائے ۔ پیشاب کی صورت میں دو مرتبہ بغیر پیشاب کہ ایک مرتبہ نچوڑے ۔
مسئلہ ۱۷۵۔ اگر گیہوں ، چاول ، صابون اور گوشت وغیرہ کا ظاہری حصہ نجس ہو جائے تو وہ کر یاجاری پانی میں ڈالنے سے پاک ہو جائیں گے اور اگر ان کا اندرونی حصہ نجس ہو جائے تواس کا پاک ہو نا موقوف ہے کہ پانی اندر تک پہنچ جائے مثلا ًان کو کسی کپڑے میں کر یا جاری پانی میں رکھ دیا جائے تا کہ پانی ان کے اندر تک پہنچ جائے تو پاک ہو جائیں گے ۔
مسئلہ ۱۷۶۔اگر انسان شک کرے کے نجس پانی صابن کے اندرونی حصہ تک پہنچا ہے یا نہیں تو اس کا اندرونی حصہ پاک ہے۔
مسئلہ ۱۷۷۔ اگر چاول ، گوشت یا ان کے مثل کسی چیز کا ظاہری حصہ نجس ہو جائے تو ان کو کسی برتن میں رکھ کراحتیاط کی بنا پر تین دفعہ پانی ڈال کر خالی کر دیا جائے تو وہ پاک ہو جائیں گے اور وہ برتن بھی پاک ہو جائے گا لیکن اگر لباس کو یا کسی ایسی چیز کو جس کا نچوڑنا ضروری ہے کسی برتن میں رکھ کر پاک کریں تواحتیاط مستحب کی بنا پر ہر دفعہ اس پر پانی ڈال کر اسے نچوڑا جائے اور برتن کو ٹیڑھا کر کے جو غسالہ جمع ہو گیا ہے باہر انڈیل دیا جائے ۔
مسئلہ ۱۷۸۔ نجس لباس کو جو نیل وغیرہ سے رنگا ہوا ہے اگر کر یا جاری پانی میں ڈالیںاور پانی کپڑے کے رنگ کی وجہ سے مضاف ہو نے سے پہلے تمام جگہ پہنچ جائے تو وہ لباس پاک ہوجائے گا اگر چہ نچوڑتے وقت اس سے آب رنگین یا مضاف پانی نکلے ۔
مسئلہ ۱۷۹۔ اگر لباس کو کر یا جاری پانی میں پاک کیا جائے اور بعد میں اس کپڑے میں کیچڑ ، کائی وغیرہ لگی دیکھیں اور اگر وہ پانی کے پہنچنے سے رکاوٹ نہ بنا ہو تو وہ لباس پاک ہے ۔
مسئلہ ۱۸۰۔ اگر لباس وغیرہ کو پاک کر لینے کے بعد کچھ معمولی مٹی یا اشنان یا کھانے والی مٹی نظر آئے تو وہ پاک ہے ۔ اگر مٹی اور اشنان وغیرہ کا اندر کا حصہ نجس پانی کے سرایت کر نے کی وجہ سے نجس ہو گیا ہو تو اس وقت اس کا ظاہر پاک ہوجا ئے گا لیکن اندر کا حصہ نجس رہے گا اور اگر لباس کو کر یا جاری پانی میں پاک کیا جائے اور پانی ان کے اندر تک پہنچ جائے تو پاک ہو جائے گا۔
مسئلہ ۱۸۱۔ ہر نجس چیز سے جب تک اصل نجاست دور نہ ہو پاک نہیں ہو گی البتہ اگر نجاست کی بو یا رنگ اس میں رہ جائے تو اشکال نہیں ہے پس اگر لباس سے خون کو دور کر کے اس کو پاک کر لیں اور خون کا رنگ اس میں رہ جائے تو وہ پاک ہو جائے گا اگر رنگ یا بو کی وجہ سے یقین کریں یا احتمال عقلائی دیں کہ نجاست کے چھوٹے چھوٹے ذرہ اس میںموجو د ہیں تو وہ نجس ہو گی ۔
مسئلہ ۱۸۲۔ اگر بدن کی نجاست کو آب جاری یا کر میں دور کر دیں تو بدن پاک ہو جائے گا اور پانی سے باہر آنا اور دوبارہ داخل ہو نا ضروری نہیں ۔
مسئلہ ۱۸۳۔ اگر نجس غذا دانتوں میں رہ جائے تو پانی کو منھ میں لے کر اس طرح پھرائے کے تمام نجس غذا تک پہنچ جائے تو پاک ہو جائے گی ۔
مسئلہ ۱۸۴۔ اگر سر اور چہرہ کے بالوں کو آب قلیل سے پاک کریں تو انہیں نچوڑنا لازم نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۸۵۔ اگر بدن یا لباس کے کسی حصہ کو آب قلیل سے پاک کریں اور وہ حصہ جو اس سے متصل ہے وہ عادتاً پاک کرتے وقت نجس ہو جاتا ہے تو وہ پانی جو طہارت کے لئے استعمال کیا گیا ہے اگر وہ ان حصوں پر بھی جاری ہو جائے تو نجس جگہ کے پاک ہو نے سے پہلے وہ حصہ بھی پاک ہو جائیں گے اسی طرح اگرپاک چیز کے پہلو میں نجس چیز رکھی جائے اور پھر ودنو ں پر پانی ڈالال جائے مثلا ایک نجس انگلی کے پاک کرتے وقت تمام انگلیوں پر پانی ڈالا جائے اور وہ نجس پانی تمام انگلیوں تک پہنچ جائے تو جب نجس انگلی پاک ہو جائے گی تو وہ تمام انگلیاں بھی پاک ہو جائیں گی ۔
مسئلہ ۱۸۶۔ اگر گوشت یا دنبہ کی چربی نجس ہو جائے تو دوسری چیزوں کی طرح وہ بھی پانی سے پاک کی جاسکتی ہے اسی طرح اگر بدن یالباس میں کم چکنائی ہو جو پانی کے پہنچنے کو نہ روکے تو اسے بھی پانی سے پاک کیاجاسکتاہے ۔
مسئلہ ۱۸۷۔ اگر برتن یا بدن نجس ہو جائے اور اس طرح چکنا ہو کہ پانی نہ پہنچے اور اس کو پاک کر نا چاہیں تو چربی کو دور کریں تا کہ پانی وہاں تک پہنچ جائے ۔
مسئلہ ۱۸۸۔ وہ نجس چیز جس میں اصل نجاست نہ ہو اسے ایسے نلکا سے جو کر سے متصل ہے ایک دفعہ دھو ڈالیں تو پاک ہو جائے گی اور اگر اس میں اصل نجاست موجود ہو اور وہ نلکا کے نیچے رکھنے یا کسی دوسرے ذریعہ سے دور ہو جائے اور جو پانی اس سے گرا ہے اس میں نجاست کی بو یا رنگ یا ذائقہ نہ ہو تو نلکا کے پانی سے پاک ہوجا ئے گی لیکن جو پانی اس سے گر رہا ہے اس میں اگر نجاست کی بویا رنگ یا ذائقہ موجود ہو تو نلکا سے اس پر پانی اس قدر ڈالے کہ جو پانی اس سے گرے اس میں نجاست کی بو یا رنگ یا ذائقہ موجود نہ ہو ۔
مسئلہ ۱۸۹۔ جب کسی چیز کو پاک کریں اور یقین ہو جائے کہ پاک ہو گئی ہے اور پھر اس کے بعد شک کریں کہ اس سے اصل نجاست دور ہو گئی ہے یا نہیں ایسی صورت میں اگر اصل نجاست موجود نہیں ہے تو پاک ہے اگر پاک کرتے وقت اصل نجاست دور کرتے وقت اصل نجاست دور کرنے کی طرف توجہ تھی تو وہ پاک ہے اگر اصل نجاست کوپاک کرنے کی طرف توجہ نہ تھی تو بنا بر احتیاط دوبارہ پاک کرے ۔
مسئلہ ۱۹۰۔ ایسی زمین جس پر بجری یا ریت ہو تو قلیل پانی سے پاک ہو جائے گی لیکن ریت کے نیچے کا حصہ احتیان کی بنا پر نجس رہے گا چونکہ وہ پانی کہ جو ا سپر ڈا لتے ہیںاس سے الگ ہو گیا ہے اورریت کے نیچے چلا جا تا ہے ۔
مسئلہ ۱۹۱۔ ایسی زمین جس پر پتھر اور اینٹ کا فرش ہو یا سخت زمین جس میں پانی جذب نہیںہو تا اگر نجس ہو جائے تو اسے جاری پانی سے پاک کیا جاسکتا ہے لیکن قلیل پانی سے بھی پاک کیا جاسکتا ہے لیکن اتنا پانی ڈالے کہ وہ اس پر پورا بہہ جائے چنانچہ وہ قلیل پانی جو اس پر ڈالا جائے کسی سوراخ سے باہر نکل جا ئے تو تمام زمین پاک ہو جا ئے گی اور اگر پانی باہر نہ نکل سکے توپھر وہ حصہ نجس ہو گا جس میں پانی اکٹھا ہو گیا ہو ایسے فرش کو پاک کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ کسی کپڑے کے ذریعہ پانی کو جمع کر کے باہر نکالا جائے اور پھر وہاںپر پانی ڈالا جائے اور نکالا جائے تا کہ وہ جگہ بھی پاک ہو جائے ۔
مسئلہ ۱۹۲۔ اگر پتھر نمک وغیرہ اور اس جیسی چیز نجس ہو جائے تو کر سے کم پانی سے بھی پاک ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۱۹۳۔ اگر نجس شکر جو پگھلی ہوئی ہے اس کی قند بنا لیں اور کر یا جاری پانی میں ڈال دیں تو پاک نہیں ہو گی البتہ اگر پانی اس کے تمام اجزاء سے ہو کر پار ہو جائے اور مضاف بھی نہ ہوتو پاک ہو جائے گی ۔
۲۔ زمین
مسئلہ ۱۹۴۔ زمیں پاؤں کے تلوے اور جوتے کے نجس تلے کو تین شرطوں سے پاک کرتی ہے۔
(۱)زمین پاک ہو
(۲)زمین خشک ہو
(۳)اگر اصل نجاست مثلاً خون ،پیشاب یا نجس مٹی پاؤں کے تلوے یا جوتے کے نچلے حصہ میں لگی ہوتو زمین پر چلنے یا رگڑنے سے دور ہو جائے اور وہ زمین مٹی والی ہو یا اس کو پتھر یا اینٹ وغیرہ سے بنا یا گیا ہو اور فرش ، بوریا اور سبزہ پر چلنے سے پاؤں کا تلوہ یا جوتے کا نچلا حصہ جو نجس ہے پاک نہیں ہو گا وہ اینٹیں گچ(چونا) اور سمینٹ جو ریت سے تیار کئے جائیں زمین والا حکم رکھتے ہیں ۔
مسئلہ ۱۹۵۔پاؤںکے نجس تلوے اور جوتے کے نچلے حصے کا تارکول کی سڑک پر چلنے سے پاک ہو جاتا ہے لیکن لکڑی کے فرش پر چلنے سے پاک ہو نا مشکل ہے۔
مسئلہ ۱۹۶۔پاؤں کے تلوے یا جوتے کے نچلے حصہ کے پاک ہو نے کے لئے بہتر یہ ہے کہ پندرہ یا اس سے زیادہ قدم زمین پر چلے اگر چہ پندرہ قدم سے کم میں بھی یا زمین پر پاؤں ملنے سے اصل نجاست دور ہو جائے
مسئلہ ۱۹۷۔پاؤں کے تلوے یا جوتے کے نچلے حصہ کا تر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر خشک بھی ہوں تب بھی زمین پر چلنے سے پاک ہو جائیں گے ۔
مسئلہ ۱۹۸۔پاؤں کا تلوا یا جوتے کا نچلا حصہ جو نجس ہواور زمین پر چلنے سے پاک ہو گیا ہو تو اس کے کنارے جہاں عام طور پر کیچڑ لگ جاتا ہے اگر مٹی اس میں لگی ہو تو ان کا پاک ہو نا مشکل ہے مگر معمولی سی مقدار ۔
مسئلہ ۱۹۹۔جو شخص زانو اور ہاتھوں سے زمین پر چلے اگر اس کی ہتھیلی یا زانو نجس ہو جائیں تو وہ زمین پر چلنے کی وجہ سے پاک ہو جاتے ہیں اسی طرح چھڑی کا نچلا حصہ ، مصنوعی پاؤں کے نچلے حصے ، حیوانات کے نعل ، سائیکل اور موٹر کے ٹائر اور تانگہ وغیرہ کے پہئے پاک ہو جاتے ہیں ۔
مسئلہ ۲۰۰۔اگر زمین پر چلنے کے بعد نجاست کے باریک ذرات جو دکھائی نہ دیں پاؤں کے تلوہ یا جوتے کے نچلے حصہ میں لگے رہ جائیں تو کوئی اشکال نہیں اگر چہ بہتر ہے کہ اس قدر چلے کہ یہ ذرات بھی دور ہو جائیں
مسئلہ ۲۰۱۔جوتے کے اندر کا حصہ اور پاؤں کے تلوے کا کچھ حصہ کہ جو زمین پر نہیں لگتا بنا بر احتیاط وہ زمین پر چلنے کی وجہ سے پاک نہیں ہو گا اسی طرح بنا بر احتیاط موزہ کا نچلاحصہ زمین پر چلنے سے پاک نہیں ہو گا ۔
۳۔سورج
مسئلہ ۲۰۲۔سورج زمین و مکان اور دوسری چیزیں جیسے دروازے اور جالیاں جو مکان میں نصب ہوں اور اسی طرح میخیں جو دیوار میں لگی ہوں اور مکان کا جز شمار ہوتی ہوں ان کو سور ج مندرجہ ذیل پانچ شرطوں سے پاک کرتا ہے ۔
(۱)نجس چیز اتنی گیلی ہو کہ اگر دوسری چیز اس سے لگے تو وہ بھی تر ہو جائے اگر خشک ہو جائے تو اسی طریقہ سے اسے تر کیا جائے تاکہ سورج ہی اسے خشک کرے ۔
(۲)اگر اس چیز میں اصلی نجاست موجود ہو تو سورج کے خشک کرنے سے پہلے اس نجاست کو دور کردیا جائے
(۳)کوئی چیز ان پر دھوپ پڑنے سے مانع نہ ہو پس اگر سورج پردہ یا بادل وغیرہ کے پیچھے سے پڑ رہا ہو اور اس نجس کو خشک کردے تو وہ پاک نہیں ہو گی ہاں اگر بادل ہلکا ہو کہ دھوپ کے پڑنے سے مانع نہ سمجھا جائے تو اس میں اشکال نہیں ہے ۔
(۴)صرف تنہا سورج ہی اس نجس چیز کو خشک کرے لہٰذا اگر وہ نجس ہوا اورسورج کے ساتھ مل کر خشک ہو جائے تو پاک نہیں ہو گی البتہ اگر ہوا معمولی ہو کہ سورج کے نجس چیز کو خشک کرنے میں مددگار نہ سمجھا جائے تو اس میں اشکال نہیں ہے
(۵)عمارت وغیرہ کی اس مقدار کو جس میں نجاست سرایت کر چکی ہے ایک ہی دفعہ سورج پڑ کر خشک کر دے پس اگر نجس زمین و مکان پر ایک مرتبہ سورج پڑے اور اس کے اوپر کا حصہ خشک کر دے اور دوسری دفعہ میں اندرونی حصہ خشک کر دے تو فقط اوپر کا حصہ پا ک ہو گا اور اندرونی حصہ نجس ہی رہے گا ۔
مسئلہ ۲۰۳۔ سورج نجس چٹائی کو پاک کرتا ہے اور اسی طرح درخت اور گھاس یا ہر وہ ثا بت چیز یا جو ثابت کے مثل ہے سورج سے پاک ہو جاتے ہیں ۔
مسئلہ ۲۰۴۔اگر سورج نجس زمین پر پڑ ے اور پھر انسان کو شک ہو کہ سورج پڑتے وقت زمین تر تھی یا نہیں یا اس کی تری سورج کی وجہ سے خشک ہوئی تھی یا نہیں تو وہ زمین احتیاط کی بنا پر نجس ہے اور اسی طرح اگر اسے شک ہو کہ سورج پڑنے سے پہلے اصل نجاست اس سے دور ہوگئی تھی یا نہیں یا شک ہو کہ کوئی چیز سورج کی حرارت پڑنے میں رکاوٹ تھی یا نہیں تو وہ زمین نجس ہے۔
مسئلہ ۲۰۵۔اگر سورج نجس دیوار کے ایک طرف پڑے تو جس طرف آفتاب نہیں پڑا ہے وہ پاک نہیں ہو گی لیکن اگر دیوار ایک طرف سورج کے پڑنے سے دوسری طرف بھی خشک ہو جائے تو وہ بھی پاک ہو جائے گی
۴۔استحالہ
مسئلہ ۲۰۶۔اگر نجس چیز کی ماہیت پاک چیز کی صورت میں بدل جائے تو وہ چیز پاک ہو جائے گی اور کہیں گے کہ یہ استحالہ ہو گیا ہے جیسے نجس لکڑی جل کر راکھ ہو جائے یا جیسے کتا نمک کی کھان میں گر کرنمک ہو جائے البتہ اگر اس کی ماہیت نہ بدلے جیسے نجس گندم کا آٹابنا دیا جائے یا روٹی پکا لیںتو وہ پاک نہیں ہوگی یا نجس دودھ کا پنیر یا دہی بنا لیں تو پاک نہیں ہو گا ۔
مسئلہ ۲۰۷۔مٹی کا برتن یا کوئی اور چیز جو نجس مٹی سے بنائی جائے وہ احتیاط کی بنا پر نجس ہے اور جو کوئلہ نجس لکڑی سے بنا یا جائے احتیاطاً اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۲۰۸۔ایسی نجس چیز جس کے متعلق علم نہ ہو کہ استحالہ ہوئی ہے یا نہیں تو وہ نجس ہے۔
مسئلہ ۲۰۹۔آگ کی ایسی انگیٹھی جس میں پیشاب یا نجس پانی جلے تو وہ پاک ہے ۔
مسئلہ ۲۱۰۔اگر شراب خود بخود یا کسی چیز کے ملانے سے مثلاً سرکہ ونمک کے ملانے سے سرکہ ہو جائے تو پاک ہو جائے گی ۔
مسئلہ ۲۱۱۔احتیاط واجب کی بنا پروہ شراب جو نجس انگور سے بنائی گئی ہو یا باہر سے کوئی نجاست اس میںآپڑے تو سرکہ ہوجانے کی وجہ سے پاک نہیں ہو گی ۔
مسئلہ ۲۱۲۔احتیاط واجب کی بنا پروہ سرکہ جو نجس انگور نجس کشمش نجس کھجور سے بنایا جائے نجس ہے ۔
مسئلہ ۲۱۳۔اگر انگور یا کھجورکے ساتھ ان کی معمولی سی چھال وغیرہ ہو اور اس میں سرکہ ڈالیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ خرما ،کشمش اور انگور کے سرکہ ہو نے سے قبل کھیرے یا بیگن یا ایسی چیز یںاس میں نہ ڈالی جائیں ۔
۵۔انگور کے پانی کا دو تہائی کم ہو نا
مسئلہ ۲۱۴۔ اگر انگور کے پانی میں آگ کے ساتھ ابال آجائے تو قبل اس کے کہ دو تہائی کم ہو جائے اور ایک تہائی باقی رہ جائے وہ نجس نہیں ہے لیکن حرام ہے اور اگر دو تہائی کم ہو کر ایک تہائی باقی رہ جائے تو وہ حلال ہو جائے گا ۔ اور اگر اس میں خود بخود ابال آجائے تو صرف سرکہ ہو جانے کے بعد پاک اور حلال ہوگا۔
مسئلہ ۲۱۵۔اگر انگور کا پانی جوش کھائے بغیر دو تہائی کم ہو جائے اور باقی ماندہ پانی خود بخود آگ پر جوش کھالے تو حرام ہو جائے گا اگر جوش دلا کر اس کو دو تہائی کم کردیں تو وہ حلال ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۲۱۶۔جس انگور کے پانی کے متعلق معلوم نہ ہو کہ اس نے جوش کھایا ہے یا نہیں ؟تو وہ پاک بھی ہے اور حلال بھی لیکن آگ پر ابال آجانے کے بعد جب تک انسان کو یقین نہ ہو جائے کہ دو تہائی کم ہو گیا ہے اسے حلال نہیں سمجھنا چاہئیے ۔ اسی طرح اگر خود بخود ابال کھائے اور تا و قتیکہ انسان کو اس کے سرکہ ہو جانے کا یقین نہ ہو پاک نہیں ہو گا ۔
مسئلہ ۲۱۷۔ اگر کچے انگور کے خوشہ میں ایک یا دو دانہ پکے انگور کے بھی ہوں اور اس خوشہ کا پانی نکالا جائے اور اس پانی کو آ بغورہ کہا جائے اور اس میں انگور کی مٹھاس کا اثرنہ ہو اور اس پانی میں جوش آجائے تو وہ پاک ہے اور اس کا کھانا حلا ل ہے۔
مسئلہ ۲۱۸۔ جو چیز آگ پر جوش کھا رہی ہو اور انگور کے ایک دو دانہ اس میں جا پڑیں اور استحالہ ہو جائے تو لازم نہیں ہے کہ اس چیز کے کھانے سے پر ہیز کیا جائے ۔
مسئلہ ۲۱۹۔اگر کئی دیگچوں میں انگور کا شیرہ پک رہا ہو اور ان سب کے لئے ایک کفگیر کو استعمال کیا جارہا ہو تو جس دیگچے میں شیرہ جوش کھا چکا ہو کفگیر کو اس سے دوسرے دیگچے میں جس میں جوش نہیں کھا یا ڈالنا کوئی حرج نہیں اور اگر تمام دیگچے جوش کھا چکے ہوں تو اس دیگچے کا کفگیر جس کا پانی دو تہائی نہیں ہوا اور اس دیگچے میں ڈالنا جس کا پانی دو تہائی ہو چکا ہو حرمت کا لحاظ رکھتے ہوئے اس دیگچے میں نہیں ڈالنا چاہئیے جس کا دو تہائی کم نہیں ہوا ۔
مسئلہ ۲۲۰ ۔جس چیز کے متعلق معلوم نہ ہو کہ غورہ ہے یا انگور ہے اگر اسے جوش آجائے تو وہ نجس نہیں ہے ۔
مسئلہ ۲۲۱۔ کھجور اور ا سکا شیرہ اور ا سی طرح منقہ ، کشمش اور ان کا پانی اگر ان کو جوش آجائے تو پاک ہے اور کھانے اور پینے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ دو تہائی کم ہو ۔ اگر چہ اس سے پرہیز ضروری ہے اسی طرح منقیٰ اورکشمش کا بھی حکم ہے۔

۶۔ انتقال
مسئلہ ۲۲۲۔اگر انسان کے بدن کا خون یا اس حیوان کا خون جو خون جہندہ رکھتا ہے اس حیوان کے بدن میں چلا جائے جو خون جہندہ نہیں رکھتا اور اس کا خون بن جائے تو اسے انتقال کہتے ہیں ۔لہذا وہ خون جو انسان کا ہے اور جونک اسے چوستی ہے چونکہ وہ جونک کا خون نہیں کہا جاتا بلکہ کہتے ہیں کہ یہ انسان کا خون ہے اس لئے وہ نجس ہے ۔
مسئلہ ۲۲۳۔ اگو کوئی شخص اس مچھر کو جو اس کے بدن پر بیٹھا ہے مار دے اور اسے علم نہ ہو کہ وہ خون جو مچھر کے جسم سے نکلا ہے وہ وہی ہے جو اس کے جسم سے ابھی چوسا ہے یا وہ مچھر کا خود اپنا خون ہے تو وہ خون پاک ہے اور اسی طرح اگر اسے علم ہو کہ یہ خون اسی کا ہے جو مچھر نے چوسا ہے اور وہ مچھر کے جسم کا جزو بن گیا ہے تو وہ پاک ہے اور اگر مچھر کے خون چوسنے اور اس کے مارنے کے درمیان فاصلہ بہت کم ہو کہ کہا جائے کہ یہ بھی انسان کا خون ہے یا یہ علم نہ ہو کہ اسے مچھر کا خون کہا جائے گا یا انسان کاخون تو وہ احتیاط کی بنا پر نجس ہے

۷۔اسلام
مسئلہ ۲۲۴۔ اگر کافر کلمہ شہادتین پڑھ لے یعنی کہے ’’اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمداً رسول اللہ‘‘ تو مسلمان ہو جا ئے گا اورمسلمان ہو جانے کے بعد اس کا بدن ، تھوک ، ناک کا پانی اور پسینہ پاک ہو جائے گا البتہ اگر مسلمان ہو نے کے وقت اس کے بدن پر اصل نجاست موجود تھی تو اس کو دور کرنا ضروری ہے اور اس جگہ کو پاک کر دے بلکہ اگر مسلمان ہو نے سے پہلے اصل نجاست کو دور کر دیا تھا تو احتیاط مستحب یہی ہے کہ اس جگہ کو پاک کرے ۔
مسئلہ ۲۲۵۔ جب کسی کافر کے لباس میں اس کے بدن کی تری لگ گئی ہو اور وہ لباس اس کے مسلمان ہو نے کے وقت اس کے بدن پر نہ وہ رو وہ نجس ہے بلکہ اگر اس کے بدن پر بھی ہو تب بھی احتیاط واجب یہی ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے ۔
مسئلہ ۲۲۶۔ اگر کافر کلمہ شہادتین پڑھ لے اور کسی شخص کو معلوم نہ ہو کہ وہ دل سے مسلمان ہو ا ہے یا نہیں تو وہ پاک سمجھا جائے گا البتہ اگر کسی طرح سے علم ہو جائے کہ وہ دل سے مسلمان نہیں ہوا یعنی احکام ااسلامی پر عمل نہیں کر نا چاہتا تو وہ نجس ہے البتہ منافق شخص جو ظاہر اتو اسلام پر عمل کر تا ہے لیکن دل سے مسلمان نہیں ہوا وہ پاک ہے ۔

۸۔ تبعیت
مسئلہ ۲۲۷۔ تبعیت سے مرادہیکہ کوئی نجس چیز کسی دوسر ی نجس چیز کے پاک ہو نے کی وجہ سے پاک ہو جائے مثلا اگر کافر مسلمان ہو جائے تو اس کے نابالغ بیٹے پاک ہو جائیں گے ۔ ماں باپ یا دادا دادی میں سے کوئی ایک کلمہ پڑھ لے تو وہ نابالغ بچے پاک سمجھے جائیں گے ۔
مسئلہ ۲۲۸۔ اگر شراب سرکہ ہو جائے تو اس کا برتن بھی اس مقام تک جہا ں تک شراب جوش آنے میں پہنچی تھی پاک ہو جائے گا ۔ کپڑا یا اور کوئی دوسری چیز جو حسب معمول اس کے اوپر رکھا جاتا ہے جو اس کی رطوبت سے نجس ہوا تھا وہ بھی پاک ہو جائے گا لیکن اگر جوش آنے کے وقت ہل جائے اور برتن کی پشت آلودہ ہو جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ سرکہ ہو جانے کے بعد برتن کی پشت سے اجتناب کرے ۔
مسئلہ ۲۲۹۔ اگر انگورکا پانی آگ کی وجہ سے جوش کھا لے اور وہ دو تہائی کم ہو نے سے پہلے کسی جگہ پر گر جائے تو وہ جگہ نجس نہیں ہو گی اور اسی طرح وہ برتن جس میں انگور کے پانی نے جوش کھایا ہے وہ چیزیں جو پکانے میں کا م آتی ہیں جیسے کفگیر وغیرہ بھی پاک ہے ۔
مسئلہ ۲۳۰۔ وہ تختی یا پتھر جس پر میت کو غسل دیا جاتا ہے اور وہ کپڑا جو میت کی شرمگا ہ پر رکھا جاتا ہے اور وہ ہاتھ جس سے غسل دیا جاتا ہے غسل مکمل ہو نے کے بعد پاک ہو جائیں گے ۔
مسئلہ ۲۳۱۔ جب انسان کسی چیز کو خود اپنے ہاتھ سے پاک کر تا ہے اگر ہاتھ اور اس چیز کو با ہم پاک کرے تو اس چیز کے پاک ہو نے کے بعد اس کا ہاتھ بھی پاک ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۲۳۲۔ اگر لباس یا اس کے مثل اور چیزیں قلیل پانی سے پاک کی جائیں تو جو پانی اس کے اندر ہے پاک ہو گا ۔
مسئلہ ۲۳۳۔ اگر نجس برتن کو قلیل پانی سے پاک کیا جائے تو جو پانی اس پر پاک کر نے کے لئے ڈالا گیا ہے اس کے نکلنے کے بعد پانی کے جو قطرہ رہ جائیں وہ پاک ہیں ۔
۹۔ اصلی نجاست کا دور ہو جانا
ٓ مسئلہ ۲۳۴۔ اگر کسی حیوان کے بدن میں عین نجاست جیسے خون یا کوئی نجس چیز جیسے نجس پانی لگ جائے اور وہ (عین نجاست )اس سے جدا ہو جائے تو اس حیوان کا بدن پاک ہو جائے گا اور یہی حکم انسان کے بدن کے اندرونی حصہ کا ہے جیسے منہ یا ناک کا اندرونی حصہ مثلاً اگر کسی شخص کے دانتوں سے خون نکلے اور تھوک میں مل جائے تو منہ کے اندر کے حصہ کو پاک کر نا ضروری نہیں اور یہی حکم ہے اگر مصنوعی دانت منہ کے اندر نجس ہو جائیں اگر چہ بہتر یہ ہے کہ ا نکو پانی سے پاک کر لے ۔
مسئلہ ۲۳۵۔ اگر غذا کے ٹکڑے دانتوں کے در میان رہ جائیں اور منہ کے اندر سے خون آجائے تو وہ غذا پاک ہے ۔
مسئلہ ۲۳۶۔ دانتوں اور پلکوں کا کچھ حصہ جو بند کرتے وقت ایک دوسرے پر آجاتا ہے انہیں پاک کرنا ضروری نہیں ہے لیکن اگرا نسان کو معلوم نہ ہو کہ جو حصہ نجس ہوا ہے وہ جسم کا ظاہری حصہ کہلاتا ہے یا اندرونی تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے پاک کیا جائے ۔
مسئلہ ۲۳۷۔ اگر نجس گرد اور غبار کسی لباس اور فرش اور اس کے مثل چیزوں پر پڑ جائے تو اگر اس لباس یا فرش کو اس طرح جھا ڑ دیں کہ فرش پر نجس خاک نہ رہ جائے تو پاک ہے ۔

۱۰۔ نجاست خور حیوان کا استبراء
مسئلہ ۲۳۸۔ جو حیوان انسان کی نجاست کھانے کا عادی ہو جائے اس کا پیشاب اور پا خانہ نجس ہے اور اگر چاہیں کہ پاک ہو جائے تو اس کا استبراء کریں یعنی اتنی مدت تک نجاست کھانے سے روکا جائے کہ پھر اس مدت کے بعد اسے نجاست خور نہ کہا جائے اور اسے آزاد نہ چھوڑیں کہ نجاست کھائے اور اس کو پاک غذا دی جائے ۔
مسئلہ ۲۳۹۔ احتیاط مستحب اس میں ہے کہ نجاست خوار اونٹ کو چالیس دن ،گائے کو تیس دن ،بھیڑ کو دس دن ، مر غابی کو سات یا پانچ دن ، اور گھریلو مرغی کو تین دن نجاست کھانے سے روکا جائے اور ان کو ان دنوں میں پاک غذا ئیں دی جائیں، اور پھر بھی انہیں نجاست خوار کہا جائے تو دوبارہ ان کو اتنی ہی مدت نجاست کھانے سے روکا جائے یہا ں تک کہ انہیںنجاست کھا نے والا نہ کہا جائے ۔
۱۱ ۔ مسلمان کا غائب ہو نا
مسئلہ ۲۴۰۔ جب کسی مسلمان کا بدن یا لباس یا دوسری چیزیں مثل برتن اور فرش جو اس کے اختیار میں ہیں نجس ہو جائیں اور وہ مسلمان آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو چھ شرطوں کے ساتھ پاک سمجھی جائے گی ۔ احتیاط کی بنا پر مثلا (۱) یہ کہ مسلمان نے وہ چیز جو نجس کر چکا ہے اسے نجس بھی سمجھتا ہواور اگر شراب کونجس نہیں جانتا اور وہ چیز شراب سے نجس ہو جائے تو اسے پاک نہیں سمجھا جائے گا (۲)اسے یہ بھی معلوم ہو کہ اسکے بدن یا لباس پر نجاست لگی ہے (۳)انسان یہ دیکھے کہ جو چیز پہلے نجس تھی اس کو وہ شخص ایسے امور میں استعمال کر رہا ہے جہاں طہارت شرط ہے جیسے اس لباس کے ساتھ نماز پڑھتا ہو ۔(۴)اسے یہ بھی معلوم ہو کہ جس کام کو وہ انجام دے رہا ہے اس میں طہارت شرط ہے لہذا اگراسے یہ معلوم نہ ہو کہ نمازی کا لباس پاک ہو نا چاہئیے اور وہ نجس لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کو پاک نہیں سمجھا جائے گا ۔(۵)انسان کو یہ احتمال بھی ہو کہ مسلمان نے اس لباس وغیرہ کو پاک کیا ہو گا لہذا اگر اسے یقین ہو کہ اس نے پاک نہیں کیا تو اسے پاک نہیں سمجھا جائے گا (۶)احتیاط کی بنا پر وہ مسلمان بالغ بھی ہو ۔
مسئلہ ۲۴۱۔ اگر مسلمان کی نظر میں نجاست اور پاکیزگی کا فرق نہ ہو تو ان چیزوں کو پاک سمجھنا اشکال ہے ۔

۱۲۔ ذبیحہ سے خون کا نکلنا
مسئلہ ۲۴۲۔ اگر حلال جانور شرعی طریقہ سے ذبح کیا جائے اور اس سے معمول کے مطابق خون نکل جائے تو باقی خون جو گوشت میں رہ جائے گا وہ پاک ہوگا ۔
چند مسائل
مسئلہ ۲۴۳۔ اگر خود انسان کو یقین ہو جائے کہ جو چیز نجس ہوئی تھی وہ پاک ہو گئی ہے یا دو عادل مرد اس کے پاک ہو نے کی خبر دیں تو وہ چیز پاک ہے اور اسی طرح وہ شخص جس کے اختیار میں کوئی نجس چیز ہو خبر دے کہ وہ پاک ہو گئی ہے اگر اطمینان ہو جائے کہ اس نے ٹھیک پاک کیا ہے تو وہ پاک ہے ۔
مسئلہ ۲۴۴۔ جو شخص کسی انسان کے لباس کو پاک کر نے میں وکیل ہوا ہو اور وکیل کہے کہ میں نے پاک کر دیا ہے اور اسے اطمینان بھی ہو جا ئے تو وہ لباس پاک ہے ۔
مسئلہ ۲۴۵۔ جب کسی شخص کی حالت اس حد تک پہنچ گئی ہو کہ وہ کسی چیز کے پاک کرنے میں یقین نہ پیدا کر سکتا ہو تو وہ گمان پر اکتفا کر سکتا ہے یا عام افراد کی طرح پاک کرے ۔

احکام ظروف
(برتن کے احکام)
مسئلہ ۲۴۶۔اگر کوئی برتن کتے ،سؤر یا مردار کے چمڑے سے بنایا جائے تو اس میں کھانا اور پینا حرام ہے اور اس برتن کو وضو اور غسل اور ان کاموں میں جس کو پاک چیزوں سے انجام دیا جاتا ہے استعمال نہ کریں اور احتیاط مستحب یہی ہے کہ کتے ، سؤر اور مردار کے چمڑے کو اگر چہ برتن کی شکل میں بھی نہ ہو استعمال نہ کریں ۔
مسئلہ ۲۴۷۔وہ برتن جو غیر مسلمان کے پاس ہے اس کے نجس ہو نے کا یقین نہ ہو تو پاک ہے۔
مسئلہ ۲۴۸۔سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھا نا اور پینا اور اس کا استعمال کرنا حرام ہے احتیاط مستحب کی بنا پر ان کو کمرے کی زینت کے لئے استعمال کرنے سے بھی اجتناب کیا جائے۔
مسئلہ ۲۴۹۔سونے اور چاندی کے برتن بنانا اور اسکی مزدوری لینا حرام ہے۔
مسئلہ ۲۵۰۔سونے اور چاندی کے برتنوں کی خرید و فروخت اور ان کے مقابلہ میں جو معاوضہ بیچنے والا حاصل کرے حرام ہے اگرچہ اسکا مقصد فقط رکھنا ہو لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے بھی ترک کیا جائے ۔
مسئلہ ۲۵۱۔چائے کی پیالی کو پکڑنے کے لئے جو سونے اور چاندی سے دستہ بنا یا جاتا ہے اگر پیالی اٹھانے کے بعد اسکو برتن کہا جائے تو اس کا تنہا استعمال یا پیالی کی صورت میںحرام ہے اور اگر اسکو برتن نہ کہا جائے تو پھر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۲۵۲۔ایسے برتن کے استعمال کوئی حرج نہیں ہے جن پر سونے یا چاندی کا پانی چڑھا یا گیا ہو۔
مسئلہ ۲۵۳۔اگر کسی دھات کو سونے یا چاندی سے ملا کر برتن بنا یا جائے اور اگر دھات اتنی مقدار میں ہو کہ اس برتن کو سونے یا چاندی کا برتن نہ کہا جائے تو اس کے استعمال کرنے میں کو ئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۲۵۴۔اگر انسان سونے یا چاندی کے برتن سے کھاناکسی دوسرے برتن میںڈالے اور اس کی غرض حرام سے بچنا ہو تو یہ کرنا جائز ہے بلکہ اگر حرام سے بچنا غرض نہ تب بھی دوسرے برتن میں نکالنے کے عمل کا حرام ہونا محل تاٗمل ہے لیکن دونوں صورتوں میں دوسرے برتن سے غذا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۲۵۵۔حقہ کی چلم اور سر پوش ،تلوار اور خنجر کا غلاف اور وہ ڈبہ جس میں قرآن کریم رکھا جاتا ہے اگر سونے یا چاندی کا ہو تو اس کے استعمال میںکوئی حرج نہیں ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ سونے یا چاندی کے عطر دان اور سرمہ دانی اور ان جیسی چیزوں کا استعمال نہ کیا جائے ۔
مسئلہ ۲۵۶۔مجبوری کے وقت سونے اور چاندی کے برتن کے استعمال میں کو ئی حرج نہیں ہے لیکن مجبوری کی حالت میں بھی وضو اور غسل کے لئے سونے چاندی کا برتن استعمال نہیں ہو سکتا ۔اس صورت میں غسل اور وضو کے بدلے تیمم کرے ۔
مسئلہ ۲۵۷۔ایسے برتن کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے جس کے متعلق معلوم نہ ہو کہ سونے کا ہے یا چاندی کا ہے یا کسی اور چیز سے بنایا گیا ہے۔
وضو کے احکام
مسئلہ ۲۵۸۔ وضو میں واجب ہے کہ نیت کرکے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو دھوئے اور سر کے اگلے حصہ اور دونوں پاؤں کے ظاہری حصہ کا مسح کرے۔
چہرے کا دھونا
مسئلہ ۲۵۹۔چہرے کے دھونے میںچہرے کو طول میں سر کے بالوں کے اگنے کی جگہ سے لے کر ٹھوڑی تک اور چوڑائی میں درمیانی انگلی اور انگوٹھے کی مقدار میں جتنی جگہ آجائے دھویا جائے اور اگر اس مقدار میں سے معمولی حصہ بھی نہ دھوئے یا چھوٹ جائے تو وضو باطل ہو جاتا ہے اور یہ یقین کرنے کیلئے کہ سب مقدار کاملاً دھوئی جا چکی ہے تھوڑا بڑھا کر دھوئیں۔
مسئلہ ۲۶۰۔اگر کسی شخص کے منھ یا ہاتھ چھوٹے ہوں یا عام لوگوں کی نسبت سے بڑے ہوں تو اس کو دیکھنا چاہیئے کہ عام لو گ کہاں تک اپنے منھ کو دھوتے ہیں تو اسکو بھی اتنا ہی منھ دھونا چاہیئے اور اگر اس کی پیشانی پر بال نکل آئیں یا سر کے اگلے حصے پر بال نہ ہوں تو اسے بھی عام اندازے کے لحاط سے پیشانی کو دھونا چاہیئے ۔
مسئلہ ۲۶۱۔اگر احتمال ہو کہ میل یا کوئی دوسری چیز ابرو یا آنکھ یا ہونٹوں کے دونوں کناروں پر ہے کہ جس کہ وجہ سے پانی نیچے تک نہیں پہنچ سکتا اور ایسا احتمال لوگوں کی نگاہ میں معقول ہو تو وضو کرنے سے پہلے احتیاطاً اسکی تحقیق کرے اوربر طرف کر لینا چاہیئے ۔
مسئلہ ۲۶۲۔اگر چہرہ کی کھال بالوں کے نیچے سے ظاہر ہو تو پھر کھال تک پانی پہونچانا ضروری ہے اور اگر کھال ظاہر نہ ہو تو بالوں کا دھونا کافی ہے اور پانی کا ان کے نیچے پہنچانا ضروری نہیں ۔
مسئلہ ۲۶۳۔اگر شک ہو کہ چہرے کی کھال بالوں کے نیچے سے ظاہر ہے یا نہیں تواحتیاط واجب یہی ہے کہ منھ کو دھویا جائے اور پانی کو کھال تک پہنچایا جائے ۔
مسئلہ ۲۶۴۔چہرے کے اضافی بالوں کا دھونا واجب نہیں ہے ۔ داڑھی کی چوڑائی یا لمبائی میں اضافی بالوں کا دھونا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ ۲۶۵۔ناک کے اندر اور لب اور آنکھ کا تھوڑا حصہ جو بند کر لینے سے ظاہر نہیں ہو تا ان کا وضو میں دھونا واجب نہیں ہے لیکن اگر چاہے کہ اسے یقین حاصل ہو جائے کہ جو جگہ دھونی ہے اسکا حصہ بھی باقی نہیںرہا تو اسکی بھی کچھ مقدار کا دھو لینا واجب ہے اور جس کو یہ علم نہ ہو کہ ایسی مقدا ر کو بھی اس حالت میں دھونا ہو تا ہے تو اگر اسے علم نہ ہو کہ جو اس نے وضو کیا ہے اتنی مقدار اس نے دھوئی ہے یا نہیں تو پھر ایسے شخص کی وہ نمازیں صحیح ہیں جنہیں پڑھ چکا ہے ۔
مسئلہ ۲۶۶۔منھ اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے اور اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھوئے گا تو وضو باطل ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۲۶۷۔اگر ہاتھ کو پانی سے تر کرے اور منھ اور ہاتھوں پر ملے تو اگر ہاتھ پر اتنی تری ہو کہ منھ یا ہاتھوں پر ملنے سے منھ اور ہاتھوں پر پانی کسی قدر جاری ہو جاتا ہے تو یہی کافی ہے۔
ہاتھوں کا دھونا
مسئلہ ۲۶۸۔منھ کے دھونے کے بعد پہلے دایاں ہاتھ اور اس کے بعد بائیں ہاتھ کو کہنی سے لے کر انگلیوں کے سرے تک دھویا جائے ۔
مسئلہ ۲۶۹۔کہنی کو پورا دھونے کا یقین پیدا کرنے کے لئے تھوڑی سی مقدار کہنی سے اوپر بھی دھو لینی چاہیئے ۔
مسئلہ ۲۷۰۔ وضو کے وقت ہاتھوں کو انگلیوں کے سرے تک دھوناہو گا اور اگر صرف گٹے تک دھوئے تووضو باطل ہے اگرچہ اس نے چہرے کو دھونے سے پہلے ہاتھ دھولیا تھا۔
مسئلہ ۲۷۱۔وضو میں منھ اور ہاتھوں کا ایک مرتبہ دھونا واجب ہے اور دوسری مرتبہ دھونا مستحب ہے اور تیسری مرتبہ دھونا یا اس سے زیادہ دھونا حرام ہے اور ایک یا دو یا تین مرتبہ میں سے کون سی دفعہ پہلی شمار ہو گی یا دوسری شمار ہوگی یہ وضو کرنے و الے کے قصد پر مشتمل ہے لہٰذا پہلی مرتبہ کے قصد کے لئے اگر اس نے پہلے دس مرتبہ بھی پانی ڈالا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور یہ سب پہلی مرتبہ کے دھونے میں شمار ہو گا لیکن اگر تین مرتبہ دھونے کے قصد پانی ڈالے تو تیسری مرتبہ پانی ڈالنا حرام ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۲۷۲۔مستحب ہے کہ وضو تازہ کرنا چاہیئے اور پانی ایک مد کے برابر ہو اور پانی کا زیادہ استعمال مکروہ ہے بلکہ بعض وقت حرام بھی ہوجا تا ہے ۔




سر کا مسح
مسئلہ ۲۷۳۔دونوں ہاتھوں کے دھونے کے بعد سر کے اگلے حصے کا ہاتھوں سے کہ جن پر وضو کے پانی کی تری موجود ہے مسح کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کے ساتھ اوپر سے نیچے مسح کرے ۔
مسئلہ ۲۷۴۔سر کے چار حصوں میں سے ایک حصہ جو پیشانی کے مقابل ہے مسح کرنے کی جگہ ہے اس اندازہ سے اتنے حصہ پر جس جگہ مسح کرے کافی ہے اگر چہ مسح کی واجب مقدارً ایک انگشت کی چوڑائی ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ طول میں ایک انگلی کی لمبائی کی مقدار میں اور چوڑائی میں تین بند انگلیوں کی مقدار میں مسح کرے ۔
مسئلہ ۲۷۵۔یہ ضروری نہیں ہے کہ سر کا مسح سر کی کھال پر واقع ہو بلکہ سر کے بالوں پر صحیح ہے لیکن اگر کسی کے سر کے سامنے کے بال بہت لمبے ہوں مثلاً کنگھا کرنے سے منھ پر آپڑیں یا سر کے دوسرے حصوں پر پہنچ جائیں تو اسے بالوں کی جڑوں میں مسح کرنا چاہئے یا سر کے درمیانی حصہ کو ظاہر کر کے کھال پر مسح کرے اور اگر بالوں کو سر کے سامنے کے حصہ میں جمع کرے پھر ان پر مسح کرے یا سر کے دوسرے حصوں کے بالوں پر جو ان کے سامنے جمع ہو گئے ہیں مسح کرے تو باطل ہے ۔

پاؤں کا مسح
مسئلہ۲۷۶۔سر کے مسح کے بعد وضو کے پانی کی تری سے جو ہاتھ میں باقی ہے انگلیوں میں سے ایک انگلی کے اوپر سے لے کر پشت قدم کی ابھری ہو ئی جگہ تک پاؤں کے اوپر مسح کرے احتیاط مستحب یہ ہے کہ جوڑوں تک مسح کرے ۔
مسئلہ ۲۷۷۔جائز ہے کہ دونوںپاؤں پر ایک ساتھ مسح کرے لیکن احتیاط مستحب کی بنا پر دائیں پاؤں کے مسح کو بائیں پاؤں کے مسح پر مقدم رکھے اور اسی طرح دائیں ہاتھ سے دائیں پاؤں اور بائیں ہاتھ سے بائیں پاؤں کا مسح کرے ۔
مسئلہ ۲۷۸۔پاؤں پر چوڑائی میں جتنی مقدار پر بھی مسح کرے کافی ہے لیکن اچھا یہی ہے کہ تین بند انگلیوں کے برابر چوڑائی میں مسح کرے اور اس سے بہتر یہ ہے کہ تمام پاؤں کے اوپر کے حصہ کا مسح کرے ۔
مسئلہ ۲۷۹۔یہ واجب نہیں ہے کہ پاؤں کے مسح میں ہاتھوں کو پاؤں کی انگلیوں پر رکھے اور بعد میں پاؤں کی پشت پر پھیرے بلکہ اگر پو رے ہاتھ کو پاؤں پر رکھ کر تھوڑا سا کھنیچ لے پھر بھی کافی ہے اگر چہ پہلا طریقہ بہتر ہے ۔
مسئلہ ۲۸۰۔سر اور پاؤں کے اوپر مسح کرنے میںہاتھ کو ساکن رکھے اور سر یا پاؤں کو اس کی طرف کھینچے یعنی حرکت دے تو اس سے وضو باطل ہو جاتا ہے ۔
مسئلہ ۲۸۱۔ہاتھ کے حرکت دینے کے وقت پاؤں یا سر کو معمولی حرکت ہو جائے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۲۸۲۔مسح کی جگہ کو پہلے خشک ہو نا چاہیئے اور اگر اس قدر تر ہو کہ ہاتھ کی تری اس پر اثر نہ کرے تو مسح باطل ہے ہاں اگر اس کی تری اس قدر کم ہو کہ مسح کرنے کے بعد تری کو دیکھ کہیں کہ صرف ہاتھ کی ہتھیلی کی تری ہے تو اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۲۸۳۔اگر مسح کرنے کے لئے ہاتھ کی ہتھیلی میں تری باقی نہ رہے تواسے کسی اور پانی سے تر نہ کرے بلکہ اس صورت میں وضو کے دوسرے اعضاء کی تری لے کر مسح کرے۔
مسئلہ ۲۸۴۔اگر ہاتھ پر رطوبت اتنی تھوڑی ہو کہ اس سے صرف سر کا مسح ہو سکتا ہے تو سر کا مسح اس تمام تری سے کرے اور پاؤں کے مسح کے لئے دوسرے اعضاء سے تری لے ۔
مسئلہ ۲۸۵۔موزے اور جوتے پر مسح کرنا صحیح نہیں ہے (باطل ہے) ہاں اگر سردی شدید ہو یا چور اور حیوان درندہ اور ان کے مثل چیزوں کا خوف اس طرح ہو کہ جوتے اور موزے نہ اتار سکے تو اس پر مسح کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اگر جوتے کا اوپر والا حصہ نجس ہے تو چیز پاک اس کے اوپر رکھے کر اس پر مسح کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ تیمم بھی کرے
مسئلہ ۲۸۶۔اگر پاؤں کا اوپر کا حصہ نجس ہو اورا س پر مسح کرنے کیلئے اسے پاک نہیں کر سکتا ہو تو تیمم کرے
وضو ارتماسی
مسئلہ ۲۸۷۔وضو ارتماسی کے معنی یہ ہیں کہ انسان منھ اور ہاتھوں کو پانی کے اندر لے جائے اور وضو کی نیت سے باہر نکالے اور اگر ہاتھوں کو پانی میں لے جاتے وقت وضو کی نیت کرے اور انکو پانی سے باہر نکالتے وقت اور پانی کا گرنا ختم ہو نے تک وضو کی نیت سے رہے اس کا وضو صحیح ہے اور اگر پانی سے باہر نکالتے وقت بھی وضو کی نیت کرے اور جب تک پانی کا گرنا ختم ہو وضو کی نیت سے رہے اس کا وضو صحیح ہوگا اور اسی طرح اگر دائیں ہاتھ کو وضو کی نیت سے پانی میں لے جائے اور بائیں ہاتھ کو وضو ارتماسی کے قصد سے نہ دھوئے تو بھی وضو صحیح ہے ۔
مسئلہ ۲۸۸۔وضو ارتماسی میں بھی یہ شرط ہے کہ منھ اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے پس منھ اور ہاتھوں کو ڈبوتے وقت وضو کی نیت کر رہا ہے تو چاہیئے کہ منھ کو پیشانی کی طرف سے اور ہاتھوں کو کہنی کی طرف سے پانی میں لے جائے اور اگر پانی سے باہر نکالتے وقت وضو کی نیت کرنا چاہے تو چاہیئے کہ منھ کو پیشانی کی طرف سے اور ہاتھوں کو کہنی کی طرف سے باہر نکالے ۔
مسئلہ ۲۸۹۔اگر وضو کے بعض اعضاء ارتماسی طریقے سے دھوئیں جائیں اور بعض کو غیرارتماسی طریقہ سے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔

وہ دعائیں جن کا وضو کرتے وقت پڑھنا مستحب ہے
مسئلہ ۲۹۰۔مسئلہ ۲۹۰۔ وضو کرتے وقت جب پانی پر نگاہ کرے تو یہ دعا پڑھنا مستحب ہے:’’بسم اللہ و باللہ والحمد للہ الذی جعل الماء طھوراًو لم یجعلہ نجساً‘‘
وضو کرنے سے پہلے ہاتھ کے دھوتے وقت یہ دعا پڑھے ’’اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین‘‘
کلی کرنے کے وقت یعنی منھ میں پانی ڈالتے وقت یہ دعاپڑھے ’’اللھم لقنی حجتی یوم القاک و اطلق لسانی بذکرک ‘‘
اور ناک میں پانی ڈالتی وقت یہ دعا پڑھے ’’اللھم لا تحرم علی ریح الجنۃ واجعلنی ممن یشم ریحھا و روحھا و طیبھا ‘‘
منھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے ’’اللھم بیض وجھی یوم تسود فیہ الوجوہ و لا تسود وجھی یو م تبیض فیہ الوجوہ ‘‘
دائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھے ’’اللھم اعطنی کتابی بیمینی والخلد فی الجنان بیساری و حاسبنی حساباً یسیراً‘‘
بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھے ’’اللھم لاتعطنی کتابی بشمالی و لا من وراء ظھری و لا تجعلھا مغلولۃ الی عنقی و اعوذ بک من مقطعات النیران ‘‘
سر کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے ’’اللھم غشنی برحمتک و برکاتک و عفوک ‘‘
پاؤں کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے ’’اللھم ثبتنی علی الصراط یوم تزل فیہ الاقدم و اجعل سعیی فیما یرضیک عنی یا ذوالجلال والاکرام ‘‘

شرائط وضو
وضو کے صحیح ہو نے میں بارہ شرطیں ہیں:
پہلی شرط اور دوسری شرط
مسئلہ ۲۹۱۔ پہلی شرط :وضو کا پانی پاک ہو اور دوسری شرط :وضو کا پانی مطلق ہو ۔
مسئلہ۲۹۲۔ نجس یا مضاف پانی سے وضو کر نا باطل ہے اگر چہ نجس یا مضاف ہو نے کا کسی کو علم نہ ہو یا وضو کے وقت بھول گیا ہو اور اگر اس سے وضو کر کے نماز پڑھ لی ہو تو اس نماز کو دوبارہ صحیح وضو کر کے پڑھے ۔
مسئلہ۲۹۳۔ اگر مٹیالے پانی ا ور مضاف پانی کے علاوہ وضو کے لئے کوئی اور پانی نہ ہو اور نماز کا وقت بھی تنگ ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھے اگر وقت وسیع ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ انتظار کرے تاکہ پانی صاف ہو جائے تو پھر صاف پانی سے وضو کرے ۔
تیسری شرط
مسئلہ۲۹۴۔وضو کا پانی ،برتن ، وضو کی جگہ اور وہ جگہ جس میں وضو بجا لایا جائے مباح ہو نے چاہیئے ۔
مسئلہ۲۹۵۔ غصبی پانی سے وضو کر نا حرام اور باطل ہے اور اگر اس منہ اور ہاتھوں کے وضو کا پانی غصبی زمین پر گرے تواس کا وضو باطل ہو گا۔
مسئلہ۲۹۶۔ ایسے دینی مدرسہ کے حوض سے وضو کر نا جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ اسے تمام لوگوں کے لئے وقف کیا ہے یا اس مدرسہ کے طلباء کے لئے جب کہ اس حوض سے عام طور سے لوگ وضو کرتے ہوںاور اس سے یہ سمجھا جائے کہ عام لو گوں کے لئے وقف کیا گیا ہے تو اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ۲۹۷۔ اگر کوئی مسجد میں نماز نہیں پڑھنا چاہتا اور اس کو علم نہ کہ اس کے حوض کو تمام لوگوں کے لئے وقف کیا گیا ہے یا ان لوگوں کے لئے جو یہاں نماز پڑھتے ہیں احتیاط یہی ہے کہ اس مسجد کے حوض سے وضو نہیں کر سکتا اگر عادتا اس حوض سے ہر وہ شخص وضو کرتا ہو کہ جو اس مسجد میں نماز بھی نہیں پڑھتا تو اس حوض سے وضو کر سکتا ہے بشرطیکہ ان لوگوں کا عمل وقف کے عمومی ہو نے پر دلالت کر تا ہو ۔
مسئلہ۲۹۸۔ایسے حوض سے وضو کر نا جو سرائے یا مسافر خانوں اور یا ان جیسے مقاما ت پر ہو تے ہیں اور ایک شخص وہاں ٹھہرا بھی نہ ہو اس صورت میں صحیح ہوگاجب کہ عام طور پر یہاں سے ایسے لوگ بھی وضو کرتے رہتے ہوں جو وہاں نہ ٹھہرتے ہوں اور ان کا یہ عمل وقف کے عمومی ہو نے پر دلالت کر تا ہو ۔
مسئلہ۲۹۹۔بڑی نہروں سے وضو کر نا اگر چہ یہ علم نہ ہو کہ ان کا مالک راضی ہے یا نہیں اشکال نہیں ہے ہاں اگر ان کا مالک وضو کر نے سے منع کریں تو احتیاط واجب یہی ہے کہ ان سے وضو نہ کرے ۔
مسئلہ۳۰۰۔ اگر پانی غصبی ہو اور بھول کر اس سے وضو کر ے تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن اگر اس نے خود اس پانی کو غصب کیا ہو اور بھول کر اس سے وضو کرے اگر چہ ہم اس پر وضو کے باطل ہو نے کا حکم نہیں لگا سکتے پھر بھی احتیاط کی بنا پر یہی ہے کہ اسی وضو پر اکتفا ء نہیں کرے ۔
مسئلہ۳۰۱۔ اگر غصب کے احکامات نہ جانتا ہو یعنی یہ نہ جانتا ہو کہ غصبی پانی ، برتن جگہ اور فضاء میں وضو کر نا باطل ہے ۔ ایسی صورت میں جاہل قاصر ہو تو اس کا وضو صحیح ہو گا اور اگر جاہل مقصر ہو تو اس کا وضو اشکال سے خالی نہیں ہے ۔
چوتھی شرط
مسئلہ۳۰۲۔چوتھی شرط :وضو کے پانی کا برتن سونے اور چاندی کا نہ ہو ۔
مسئلہ۳۰۳۔ سونے اور چاندی کے برتن میں اگر پانی ہو تو اس پانی سے وضو کر ناحرام اور وضو باطل ہے ۔ اور اگر سونے اور چاندی کے برتن سے پانی نکال کر دوسرے برتن میں ڈال لیا جائے تو تب وضو صحیح ہوگا ۔
مسئلہ۳۰۴۔ اگر سونے اور چاندی والے برتن کے پانی سے بھل کر یا غفلت یا لا علمی کی وجہ سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہو گا ۔
مسئلہ۳۰۵۔ اگر وضو کا پانی غصبی برتن یا سونے اور چاندی کے برتن میں ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور پانی موجود نہ ہواس حالت میں تیمم کرنا چاہئیے اور اگر وضو کر لے تو باطل ہو گا اور اگر ودسرا پانی موجود ہو تو جب غصبی برتن یا سو نے اور چاندی کے برتن سے ارتماسی وضو کرے یا ان برتنوں سے پانی منہ اور ہاتھوں پر ڈالے تو اس کا وضو باطل ہے اور اگر چلو سے یا کسی دوسری چیز سے ان سے پانی لے کر منہ اور ہاتھوں پر ڈالے تو عمل حرام ہے لیکن وضو صحیح ہے ۔
مسئلہ ۳۰۶۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایسے حوض میں جس میں ایک اینٹ یا ایک پتھر غصبی ہے ،اگراس سے وضو اس غضبی چیز کا استعمال سمجھا جائے تو اس حوض سے وضو نہ کرے ۔
مسئلہ ۳۰۷۔ اگر آئمہ طاہرین علیہم السلام یا امام زاد گا ن ؑکے صحن میں جو پہلے قبرستان تھا کوئی حوض یا نہر بنائی جائے چنانچہ کسی کو علم نہ ہو کہ اس صحن کی زمین کو قبرستان کے لئے وقف کیا ہے تو اس حوض اور نہر میں وضو کر نے میں اشکال نہیں ہے ۔
پانچویں شرط
مسئلہ۳۰۸۔ پانچویں شرط :وضو کے اعضاء دھونے اور مسح کرتے وقت پاک ہو نے چاہیئیں ۔
مسئلہ ۳۹۰۔ اگر وضو تمام نہ ہوا ہو اور وہ عضو کہ جس کو وہ دھو چکا ہے یا مسح کر چکا ہے نجس ہو جائے تو وضو صحیح ہے۔
مسئلہ ۳۱۱۔ اگر اعضاء وضو کے علاوہ بدن کا کوئی حصہ نجس ہو تو وضو صحیح ہے ہاں اگر پیشاب یا پاخانہ کے مقام کو پاک نہ کیا ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے پاک کرے اور پھر وضو کرے۔
مسئلہ ۳۱۲۔اگر وضو کے اعضاء میں سے کوئی ایک عضونجس ہو تو وضو کی نیت سے قبل اس عضو کو دھویا جاسکتا ہے چنانچہ اس نجس عضو کو کر یا جاری پانی مٰں وضو کی نیت سے لے جائے تو ایسی صورت میں اس کا وضو صحیح ہے اور پانیس ے دھونا کافی ہو گا ۔
مسئلہ ۳۱۳۔اگر اعضاء وجو میں سے کوئی نجس ہو جائے اور وضو کے بعد شک کرے کہ وضو کرنے سے پہلے اس نجس عضو کو پاک کیا تھا یا نہیں تو اگر وضو کرتے وقت اس عضو کے پاک اور نجس ہو نے کی طرف متوجہ نہ تھا تو وہ باطل ہے اور اگرا سے علم ہو کہ وہ متوجہ تھا یا شک ہو کہ متوجہ تھا یا نہیں تو پھر وضو صحیح ہے اور ہر صورت میں اسے اس عضو کو جو نجس تھا پاک کر لینا چاہیئے ۔
مسئلہ ۳۱۳۔اگر منھ یا ہاتھوں پر پھوڑا یا زخم یا کٹا ہو ا ہو کہ اسکا خون نہ رکتا ہو اور اس پر پانی ڈالنا بھی مضر نہ ہو تو اسے چاہیئے کہ ان کو کر یا جاری پانی میں ڈالے اور معمولی نچوڑے کہ خون بند ہو جائے پھر جیسا کہ بیان کیا گیا ہے وضو ارتماسی کرے ۔
چھٹی شرط
مسئلہ ۳۱۴۔چھٹی شرط:وضو اور نماز کے واسطے وقت کافی ہو
مسئلہ ۳۱۵۔اگر وقت اتنا کم رہ جائے کہ ا گر وضو کرتا ہے تو تمام نماز یا کچھ نماز وقت سے باہر ہو جائے گی تو اسے اس وقت تیمم کرنا چاہیئے اگر تیمم کے لئے بھی اتنا ہی وقت درکا ر ہو جتنا وضو کے لئے تو پھر اس صورت میں وضو ہی کر کے نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۳۱۶۔اگر کسی شخص کو نماز کا وقت تنگ ہو نے کی وجہ سے تیمم کرنا چاہیئے اگر وہ قربۃً الی اللہ کے قصدیا کسی مستحبی کام کو انجام دینے مثلاً قرآن پڑھنے کے لئے وضو کرے تو صحیح ہے لیکن اگر اس نماز کے واسطے وضو کرے تو باطل ہے ۔
ساتویں شرط
مسئلہ ۳۱۷۔ ساتویں شرط:وضو کو بقصد قربت بجا لائے یعنی اس کا قصد وارادہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کو بجا لانے کے لئے وضو کرتا ہوں اور اگر ٹھنڈک کے ارادے یا کسی اور قصدسے بجا لائے گا تو وضو باطل ہو گا ۔
مسئلہ ۳۱۸۔ وضو کی نیت کو زبان پر جاری کرنا یا دل میں گذارنا ضروری نہیں البتہ اول سے آخر تک اس طرف متوجہ رہے کہ میں وضو کر رہا ہوں اگر اس سے پوچھا جائے کہ کیا کر رہا ہے تو وہ کہہ سکے کہ میں وضو کر رہا ہوں
آٹھویں شرط
مسئلہ ۳۱۹۔آٹھویں شرط:وضو کو جس ترتیب سے بتا یا گیا ہے بجا لایا جائے یعنی پہلے منھ کو پھر دائیں ہاتھ پھر بائیں ہاتھ کو دھوئے اور اس کے بعد سے اور پاؤں کا مسح کرے اور بنا بر احتیاط واجب پہلے دائیں پاؤں کا بعد میں بائیں پاؤ ںکا مسح کرے اگر کوئی شخص اس ترتیب سے وضو نہ کرے تو وضو باطل ہے۔
نویں شرط
مسئلہ۳۲۰۔نویں شرط:اعضاء وضو کو بلا فاصلہ (وقفہ )دھوئے
مسئلہ۳۲۱۔ اگر وضو کے اعضاء کو دھونے میں کچھ فاصلہ (وقفہ)ہو جائے اور جب کسی عضو کو دھونا ہے یا اس کا مسح کرنا چاہے تو ان اعضاء کی تری جو اس سے پہلے دھوئے گئے یا مسح کئے گئے تھے خشک ہو چکی ہو تو وضو باطل ہے اور اگر جس عضو کو دھو رہا ہے صرف اس کے پہلے والا عضو خشک ہو مثلاً جس وقت بائیں ہاتھ کو دھونا چاہے اس وقت دائیں ہاتھ کی تری خشک ہو چکی ہو اور منھ کی تری باقی ہو تو احتیاط یہ ہے کہ وضو دوبارہ کرے
مسئلہ ۳۲۲۔ اگر وضو کے اعضا ء کو بلا فاصلہ دھو ئے جارہا ہو لیکن ہوا کی گرمی یا بدن وغیرہ کی حرارت کی زیادتی کی وجہ سے تری خشک ہو جائے تو اس کا وضو صحیح ہے ۔
مسئلہ ۳۲۳۔وضو کے دوران راستہ چلنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر کوئی منھ اور ہاتھوں کو دھو لینے کے بعد چند قدم چل کر سر اورپاؤ ں کا مسح کرے تو اسکا وضو صحیح ہے ۔
دسویں شرط
مسئلہ۳۲۴۔دسویں شرط:منھ اور ہاتھوں کو دھونے اور سر اور پاؤں کے مسح کرنے کو خود انسان انجام دے اور اگر کوئی دوسرا شخص وضو کرائے یا منھ اور ہاتھوں پر پانی ڈالنے میں اور سر اور پاؤں کے مسح کرنے میں مدد کرے تو وضو باطل ہو گا ۔
مسئلہ۳۲۵۔جو شخص وضو نہ کرسکتا ہو اتو ضروری ہے کہ نائب لے جو اس کو وضو کرائے اور اجرت بھی چاہے تو اس صورت میں کہ اجرت دے سکتا ہے اجرت ادا کرے لیکن نیت وضو خود انسان کرے اوراپنے ہاتھ سے مسح کرے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو چاہیئے کہ اس کے ہاتھوں کی تری لے کر اس کے سر اور پاؤں کا مسح کرے ۔
مسئلہ۳۲۶۔وضو کے جو کام تنہا انجام دے سکتا ہے اس میں کسی کی مدد نہ لے
گیارہویں شرط
مسئلہ ۳۲۷۔گیارہویں شرط:پانی کا استعمال اس شخص کے لئے مضر نہ ہو
مسئلہ۳۲۸۔اگر کسی کو خوف ہو کہ اگر اس نے وضو کیا تو مریض ہو جائے گا یا اگراس پانی کو وضو میں خرچ کر دے گا تو پیاسا رہے گا تو پھر ایسے شخص کو وضو نہیں کرنا چاہیئے ہاں اگر کسی کو معلوم نہ تھا کہ پانی اس کے لئے مضر ہے اور پھر وضو کر لے اور بعد میں معلوم ہو جائے کہ پانی کا استعمال اس کے لئے مضر تھا تو اسکا وضو صحیح ہے ۔
مسئلہ ۳۲۹۔اگر معمولی پانی منھ اور ہاتھوں پر ڈالنا جس سے وضو صحیح ہو جائے مضر نہ ہو لیکن زیادہ ڈالنا مضر ہو تو اسی پانی مقدار سے وضو کرے ۔
بارہویں شرط
مسئلہ۳۳۰۔بارہویں شرط:پانی کے وضو کے عضو تک پہنچنے سے کوئی مانع (رکاوٹ)موجود نہ ہو
مسئلہ۳۳۱۔اگر یہ جانتا ہو کہ وضو کہ عضو پر کوئی چیز چسپاں ہے لیکن شک ہو کہ پانی کے عضو تک پہنچنے سے مانع ہے یا نہیں تو پھر چاہیئے کہ وہ چیز پہلے دور کرے یا پانی کو اس عضو کے نیچے تک پہنچائے ۔
مسئلہ۳۳۲۔اگر ناخن کے نیچے میل ہو تو وضو میںاشکال نہیں ہے ۔لیکن اگر ناخن اتارے تو وضو کے لئے اس میل کو دور کرے نیز اگر ناخن معمول سے بڑھ چکے ہوں تو اسے چاہیئے کہ جو مقدار معمول سے زیادہ بڑھ چکی ہے ا س کے نیچے کی میل دور کر دے ۔
مسئلہ۳۳۳۔اگر منھ ،ہاتھ ،سر کا اگلا حصہ اور پاؤں کے اوپر کے حصہ پر جلنے یا کسی اور وجہ سے سوجن آجائے تو ان کے اوپر کے حصہ کا دھونا اور مسح کرنا کافی ہے اور اگر اس میں سوراخ ہو تو پانی کو کھا ل کے نیچے لے جانا ضروری نہیں بلکہ اگر اس کے ایک حصہ کی کھال علیحدہ ہو جائے تو اس کے نیچے جو باقی ہے پانی لے جانا ضروری نہیںہاں اگر وہ کھال جو علیحدہ ہو گئی ہے کبھی بدن سے چپک جائے اور کبھی الگ ہو جائے تو یا اسے کاٹ دیا جائے یا پانی اس کے نیچے پہنچائے احتیاط کی بنا پر۔
مسئلہ۳۳۴۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ ان وضو کے اعضا ء کے ساتھ کو ئی چیز چپکی ہو ئی ہے یا نہیں اگر اسکا یہ احتمال لو گوں کی نگاہوں میں معقول ہو مثلاً گارہ میں کام کرنے کے بعد باہر نکلا ہو اور اسے شک ہو کہ اس کے ہاتھ پر کیچڑ لگی ہو ئی ہے یا نہیں تو پہلے اسے ان اعضا ء کو دیکھ لینا چاہیئے یا اس پر اتنا ہاتھ ملے کہ اس کو اطمینان پیدا ہو جائے کہ اگر کوئی چیز تھی تو وہ برطرف ہو گئی یا پانی اس کے نیچے پہنچ گیا ہے ۔
مسئلہ ۳۳۵۔ جس عضو کو دھونا یا مسح کر نا ہو اس پر جتنی میل بھی ہو اگر وہ پانی کے بدن تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ ہو تو اشکال نہیں ہے اور اسی طرح اگر چونا وغیرہ کر نے کے بعد سفید چیز ان پر لگی ہے جو چمڑے تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ نہیں ہے ،ہاں اگر یہ شک ہو کہ اس کے ہوتے ہوئے پانی اس کے کھال تک پہنچ رہا ہے یا نہیں تو اس کو دور کرے ۔
مسئلہ ۳۳۶ ۔ اگر وضو کر نے سے پہلے اسے علم ہو کہ وضو کے بعض اعضاء پر ایسی رو کاوٹ موجود ہے جو پانی کو بدن تک پہنچنے سے روکتی ہے لیکن اسے وضو کے بعد شک ہو کہ اس نے وضو کرتے وقت پانی کو اس تک پہنچایا یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے ۔
مسئلہ ۳۳۷۔ اگر وضو کے بعض اعضاء پر ایسی رکاوٹ موجود ہو کہ اس کے نیچے پانی خود بخود پہنچ سکتا ہو اور کبھی نہ پہنچتا ہو اگر وضو کے بعد اسے شک ہو کہ پانی اس کے نیچے تک پہنچا تھا یا نہیں تو اگر اسے علم ہو کہ وضو کرتے وقت اس کے نیچے پانی پہنچنے کی طرف متوجہ نہیں تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے ۔
مسئلہ۳۳۸۔ اگر وضو تمام کر نے کے بعد ایسی چیز دیکھے جو پانی کو اعضاء وضو تک پہنچنے سے مانع ہو لیکن اسے یہ معلوم یہ ہو کہ وضو کرنے سے پہلے موجود تھی یا وضو کرنے کے بعد لگی ہے تو اس کا وضو صحیح ہے ہاں اگرا سے علم ہو کہ وجو کے وقت اس مانع کی طرف متوجہ نہیں تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے ۔
مسئلہ ۳۳۹۔ اگر و ضو کے بعد شک کرے کہ جو چیز پانی کے پہنچنے سے مانع ہے وہ وضو کے اعضاء میں موجود تھی یا نہیں تو وضو صحیح ہے ۔
وضوکے متفرق مسائل
مسئلہ۳۴۰۔ جو شخص وضو کے افعال یا شرائط میں بہت زیادہ شک کرے جیسے پانی پاک تھا یا نہیں اور غصبی تھا یا نہیں تو ا سکو چاہئیے کہ وہ شک کی پرواہ نہ کرے ۔
مسئلہ۳۴۱۔اگر کوئی شخص شک کرے کہ ا سکا وضو باطل ہو گیا ہے یا نہیں تو وضو کو باقی سمجھنا چاہئیے ہاں اگر پیشاب کر نے کے بعداستبراء نہ کر کے وضو کرے اور وضو کے بعد مخرج سے کچھ رطوبت نکل آئے جس کے متعلق اسے علم نہ ہو کہ پیشاب ہے یا کوئی اور چیز تو پھر ا سکا وضو باطل ہو جائیگا ۔
مسئلہ ۳۴۲۔ جب کسی کو شک ہو کہ وضو کیا ہے یا نہیں تو ا سکو وضو کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۳۴۳۔ جس شخص کو علم ہو کہ اس نے وضو کیا تھا اور اس سے وضو توڑنے والی کوئی چیز بھی صادر ہوئی ہے مثلا پیشاب کیا ہے اور یہ علم نہ ہو کہ کون سا فعل پہلے تھا تو اگر نماز سے پہلے کوئی چیز واقع ہو ئی ہو تو اسے وضو کر نا چاہئیے اور اگر نماز کے درمیان میں یہ صورت پیش آئی ہو تو نماز توڑ دے اور وضو کرے اور اگر یہ صورت نماز پڑھنے کے بعد پیش آئی ہو تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن دوسری نمازوں کے لئے وضو کرے ۔
مسئلہ۳۴۴۔ اگروضو کے بعد یا دوران وضو یقین ہو جائے کہ کسی عضو کو نہیں دھویا یا مسح نہیں کیا اور اس سے پہلے عضو کی تری بھی خشک ہو گئی ہو توا سے دوبارہ وضو کر نا چاہئیے اور اگر خشک نہ ہوئی ہو تو چھوٹے ہوئے عضو اور اس کے بعد کے اعضاء کو دھوئے یا مسح کرے اسی طرح اگردوران وضو کسی عضو کے متعلق شک کرے تو احتیاط واجب یہی ہے کہ مذکورہ دستور پر عمل کرے ۔
مسئلہ۳۴۵۔ اگر کوئی شخص نماز کے درمیان شک کرے کہ وضو کیا تھا یا نہیں تو اس کی نماز باطل ہے اس کو چاہئیے وضو کرے اور نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۳۴۶۔ اگر کسی شخص کو نماز کے بعد شک ہو جائے کہ وضو کیا ہے یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے ہاں اس کے بعد دوسری نمازوں کے لئے وضو کرے۔
مسئلہ ۳۴۷۔ اگر کوئی شخص نماز کے بعد شک کرے کہ اس کا وضو نماز سے پہلے باطل ہوا یا نماز کے بعد تو جو نماز پڑھ چکا ہے صحیح ہے ۔
مسئلہ۳۴۸۔ اگر کوئی شخص ایسا مریض ہو کہ اس کا پیشاب قطرہ قطرہ ہو کر نکلتا رہتا ہو یا پاخانہ کے روکنے پر قادر نہ ہو تو اگر اسے یقین ہو کہ نماز کہ اول وقت سے لیکر آخر تک وضو کرنے اور نماز پڑھنے کی مہلت مل سکتی ہے تو اس کو چاہئیے کہ جو مہلت ملی ہے اس وقت میں نماز پڑھے اور اگر وہ مہلت اسی قدر ہیکہ نماز کے واجب بجالا ئے تو اس کو چاہئیے کہ مہلت کے وقت میں صرف واجب کام بجالائے اور مستحب کاموں مثلا اذان و اقامت اور قنوت وغیرہ کوترک کر دے۔
مسئلہ ۳۴۹۔ اگر کسی شخص کو اتنی بھی مہلت نہیں ہے کہ وضو کرے اور نماز پڑھ سکے اور نماز کے درمیان میں کئی مرتبہ پیشاب یا پاخانہ خارج ہو تا ہو اورہر مرتبہ کے بعد وضو کر نا دشوار نہ ہو تو اس کو چاہئیے کہ اپنے پہلو میں کوئی پانی کا برتن رکھ دے اور جس وقت بھی پیشاب یا پاخانہ خارج ہو وضو کرے اور باقی نماز کو پڑھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کو دوبارہ ایک ہی وضو کے ساتھ پڑھے اور اگر نماز کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو پرواہ نہ کرے ۔
مسئلہ۳۵۰۔ اگر کسی شخص کو اتنا پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہو کہ اس کے لئے ہر دفعہ کے لئے وضو کر نا دشوار ہو تو اگر ہو سکے تو ہر نماز کے لئے ایک دفعہ وضو کرے ۔
مسئلہ۳۵۱۔ گر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہوتو اسے ہر نماز کے لئے وضو کر نا چاہئیے اور وہ فورا نماز میں مشغول ہو جائے ہاں سجدہ یا فراموش شدہ تشہد یا نماز احتیاط کو جسے فوراً نماز کے تمام ہو نے کے بعد انجام دینا ہوتا ہے اگر ان کو نماز کے بعد فوراً بجا لائے تو وضو کرنا لازم نہیں ہے لیکن نماز احتیاط کی ادائیگی میں یہ احتیاط ترک نہیںہو نی چاہئیے ۔
مسئلہ۳۵۲۔ جس شخص کو پیشاب قطرہ قطرہ آتارہتا ہو تو اس کو نماز کے لئے چاہئیے کہ ایک تھیلی رکھے کہ جس میں روئی یا کوئی دوسری چیز ہو جو پیشاب کو دوسری جگہوں تک پہنچنے سے روکے اور خود کی حفاظت کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ ہر نماز سے قبل پیشاب کے نکلنے کے مقام اور تھیلی کو جو نجس ہے پاک کرے اور اسی طرح سے وہ شخص جو پاخانہ کو روکنے پر قدرت نہ رکھتا ہو اگر اس کے لئے ممکن ہو کہ کچھ حصہ نماز تک پاخانہ کو دوسری جگہوں پر لگنے سے روکے رکھے اور احتیاط واجب یہی ہے کہ اگر مشقت نہ ہو تی ہو تو ہر نماز کے لئے پاخانہ کے مقام کو بھی پاک کرے ۔
مسئلہ ۳۵۳۔ اگر کوئی شخص پیشاب یا پاخانہ کے باہر آنے کو نہ روک سکتا ہو تو اس صورت میں اگر ممکن ہو اور مشقت اور زحمت اور نقصان پہنچنے کا خوف نہ ہو تو بمقدار نماز پیشاب اور پاخانہ کو باہر آنے سے روکے رکھے اگر چہ اس کے لئے کچھ مصارف کی ضرورت ہو تو وہ بھی خرچ کرے اور اگر اس کے اس مرض کا با آسانی علاج ہو سکے تو احتیاط یہ ہے کہ اپنے اس مرض کا علاج کرے ۔
مسئلہ ۳۵۴۔ اگر کوئی شخص پیشاب یا پاخانہ کے باہر آنے کو نہ روک سکتا ہو اور بعد میں اس کا یہ مرض اچھا ہو جائے تو ا سکے لئے ضروری نہیں ہے کہ جو نمازیں اس نے مرض کی حالت میں اپنے فریضہ شرعی کے ماتحت پڑھی ہیں قضا پڑھے ہاں اگر نماز کے درمیان میں اس کا مرض دور ہو جائے تو اس نماز کو دوبارہ پڑھے جو اسوقت میں پڑھ چکا ہے ۔
مسئلہ۳۵۵۔اگر کوئی مرض ہو کہ جس کی بنا پروہ ریاح کو نہیں روک سکتا تو وہ اسی حکم پر عمل کرے جو پیشاب و پاخانہ نہ روک پانے والوں کا ہے۔
جن چیزوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے
مسئلہ۳۵۶۔ پانچ چیزوں کے لئے وضو کر نا واجب ہے ۔
(۱)تمام واجب نمازوں کے لئے سوائے نماز میت کے ۔
(۲)سجدہ اور تشہد کے لئے جو بھول گیا ہو جب کہ ان کہ اور نما زکے درمیان میں وضوتوڑنے والی چیز صادر ہو گئی ہو مثلا پیشاب کیا ہو، سجدہ سہو کیلئے وضوکرنا واجب نہیں ہے اگر رجائے مطلوبیت کے قصد سے وضو کرے تو اچھی بات ہے۔
(۳)خانہ کعبہ کے واجب طواف کے لئے
(۴)اگر وضو کرنے کے لئے نذر یا عہد یا قسم کھائی ہو
(۵)اگر جسم کا کوئی حصہ قرآن سے مس کرنا ہو تو چاہیئے کہ وضو کرے ۔
مسئلہ ۳۵۷۔ قرآن کے پاک کر نے کے لئے کہ جو نجس ہو چکا ہو یا پاخانہ یا اسی طرح کی جگہ سے باہر نکالنے کے لئے جب کہ مجبور ہو کہ اپنے بدن کے کسی حصہ کو قرآن کے خط سے مس کرے تو اس کو وضو کرنا چاہیئے ہاں اگر قرآن کا اتنے وقت تک نجس رہنا قرآن کی بے حرمتی کا باعث ہو تو اسکو چاہئیے کہ بغیر وضو کئے ہوئے قرآن کو پاخانہ یا اس کی مانند نجاست سے باہر نکالے یا اگر نجس ہو جائے تو پاک کرے ۔
مسئلہ ۳۵۸۔ قرآن کے حروف کو بغیر وضو کئے جسم کاکوئی حصہ لگانا حرام ہے اور احتیاط واجب یہ ہے اپنے بالوں کو بھی خط قرآن سے مس نہ کرے البتہ اگر بال لمبے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہاں اگر قرآن کو فارسی زبان یا دوسری زبان میں ترجمہ کریں تو ان کو مس کر نے میں اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ۳۵۹۔ بچہ اور دیوانے کو قرآن کے مس کرنے سے روکنا واجب نہیں البتہ ان کے مس کرنے سے قرآن کی بے احترامی ہو تو پھر انہیں ضرور روکے ۔
مسئلہ ۳۶۰۔ اگر کوئی شخص با وضو نہیں تو اللہ تعالی کے نام کو خواہ کسی زبان میں بھی ہو مس کرنا حرام ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسم مبارک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام اور اور حضرت زہراعلیہا السلام کو بھی مس کرنا حرام ہے ۔
مسئلہ۳۶۱۔ اگر کوئی شخص نماز کا وقت داخل ہو نے سے پہلے باطہارت ہونے کی غرض سے وضو کرے تو صحیح ہے اور اگر نماز کے وقت کے قریب بھی اگر نماز کے لئے تیار ہو نے کی نیت سے وضو کرے تو اشکال نہیں ہے
مسئلہ ۳۶۲۔جب کسی کویقین ہو جائے کہ نماز کا وقت داخل ہو چکا ہے اور وہ وضو واجب کی نیت سے کرے اور وضو کر نے کے بعد معلوم ہو کہ ابھی وقت داخل نہیں ہوا تھا تو اس کا وضو صحیح ہے اگر یہ شرط نہ لگائی ہو ورنہ وضو باطل ہو گا ۔
مسئلہ۳۶۳۔ ان چیزوں کے وضو کرنا مستحب ہے
نماز میت، زیارت اہل قبور ،مسجد اور حرم آئمہ علیہم السلام میں جانے کے لئے ، قرآن کے ہمراہ رکھنے اور اس کے پڑھنے اور لکھنے اور حاشیہ قرآن کو مس کر نے اور رات کو سونے کے لئے وضو کر نا مستحب ہے ،اسی طرح جس شخص کا وضو باقی ہے اس کے لئے ہر کام کے لئے دوبارہ وضو کر نا مستحب ہے
مسئلہ۳۶۴۔گر ان میں سے کسی ایک کے لئے وضوکرے تو پھر وہ ہر کام کر سکتا ہے جس میں وضو کرنا شرط ہے مثلا ًاس وضو سے نماز بھی پڑھ سکتا ہے ۔

جو چیزیں وضو کو باطل کر دیتی ہیں
مسئلہ۳۶۵۔ سات چیزیں وضو کو باطل کر دیتی ہیں
(۱)پیشاب (۲)پاخانہ(۳)معدہ اور آنتوں کی ریح جو پاخانہ کے مقام سے صادر ہو (۴)نیند کہ جس کے بعد آنکھ نہ دیکھ سکے اور کان نہ سن سکیں ہاں اگر آنکھ نہ دیکھے اور کان سن رہے ہوں تو وضو باطل نہیں ہوتا(۵)وہ چیزیںجو انسان کی عقل کو ختم کر دیتی ہیں مثلاً دیوانگی و مستی اور بے ہوشی(۶)خون استحاضہ جس کی تفصیل بعد میں آئے گی (۷)ہر وہ چیز کے جس کے بعد غسل واجب ہو تا ہے مثلا جنابت ۔
مسئلہ۳۶۶۔ اگر وضو کے بعد شک کرے کہ مبطلات وضو میں کچھ کیا ہے یا نہیں اور یہاں یہ سمجھا جائے کہ کوئی ایسا کام نہیں کیااور اسکا وضو صحیح ہے ۔
مسئلہ ۳۶۷۔ اگر پیشاب یا پاخانہ کے مقام سے خون آئے اس سے وضو باطل نہیں ہو گاالبتہ اگر اس بات کایقین ہو کہ خون کے ساتھ پیشاب یاپاخانہ بھی نکلا ہے تو اس صورت میں وضوکرنا ضروری ہے۔
وضوجبیرہ
مسئلہ ۳۶۸۔ وہ چیزیں جس سے زخم یا ٹوٹی ہوئی جگہ کو باندھتے ہیں اور وہ دوائی جو زخم یا ان جیسی چیزوں کے اوپر لگاتے ہیں ، اسکو جبیرہ کہتے ہیں ۔
مسئلہ۳۶۹۔ وضو کے اعضا ء میں سے کسی پر کوئی زخم یا پھوڑا یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو اور ا سکا اوپر والا حصہ کھلا ہو اور پانی اس کے لئے مضر نہ ہو تو وضو اس طرح کیا جائے جیسے صحت کی حالت میں کیا جاتاہے ۔
مسئلہ۳۷۰۔اگر زخم یا پھوڑا یا شکستگی منھ اور ہاتھوں پر ہو اور ان کے اوپر کا حصہ کھلا ہوا ہو اور ان پر پانی ڈالنا ضرر پہنچائے تو اگر ہاتھ کو تر کر کے ان پر کھینچا جائے تو نقصان نہ پہنچے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس پر تر ہاتھ کھینچے ،اگر ہاتھ تر کر کے اس پر کھنچنا بھی مضر ہو یا زخم کی جگہ نجس ہو اور اس کا پاک کرنا بھی ممکن نہ ہو تو اس صورت میں زخم کے اطراف کو جیسا کہ وضو کہ بیان میں بتایا جا چکا ہے اوپر سے نیچے کی طرف دھوئیں اور احتیاط واجب یہ ہے کہ پاک کپڑا زخم کے اوپر رکھیں اور ہاتھ کو تر کر کے اس کے اوپر کھنچیں اور اگر کپڑا رکھنا بھی ممکن نہ ہو تو زخم کے اطراف کو دھوئے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم بھی کرے ۔
مسئلہ ۳۷۱۔اگر زخم یا پھوڑا یا شکستگی سر کے اگلے حصہ پر ہو یا پاؤں پر ہو اور وہ حصہ کھلا ہو اگر ان پر مسح نہ کرسکتا ہو تو اسے چاہیئے کہ کوئی پاک کپڑا ان کے اوپر ہاتھ کی تری سے وضو کی ہے ، مسح کرے اور اگر کپڑا رکھنا ممکن نہ ہو تو مسح کرنا ضروری نہیں ہے لیکن بنا بر احتیاط وضو کے بعد تیمم کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ۳۷۲۔اگر زخم یا پھوڑے یا شکستگی کے اوپر کسی چیز سے باندھا ہوا ہو اور اس کاکھولنا ممکن ہو اور پانی بھی اس کے لئے مضر نہ ہو تو چاہئیے کہ اس کے اوپر کے حصہ کو کھولیں اور وضو کریں خواہ زخم یا اس کے مثل کوئی چیز منھ اور ہاتھوں پر ہو یا سر کے اگلے حصہ یا پاؤں کے اوپرہو ۔
مسئلہ ۳۷۳۔ اگر زخم یا شکستگی یا پھوڑا منھ یا ہاتھوں کے اوپر ہو تو اگر اس کے اوپر کے حصہ کو کھولنا اور اس پر پانی ڈالنا مضر ہو اور تر ہاتھ سے کھینچنا مضر نہ ہو تو ہاتھ تر کر کے اس پر کھینچے اور احتیاط مستحب کی بنا پر بعد میں ایک پاک کپڑا رکھ کر تر ہاتھ اس کے اوپر کھینچے۔
مسئلہ ۳۷۴۔ اگر زخم کے اوپر کے حصہ کو کھولنا ممکن نہ ہو لیکن زخم اور وہ چیزیں جو اس کے اوپر لگی ہوئی ہوپاک ہو اور پھر پانی کا زخم تک لے جانا ممکن ہو اور باعث نقصان بھی نہ ہو تو اس صورت میں پانی کو زخم تک لے جائے اور اگر زخم یا جو چیز اس پر بندھی ہوئی ہے نجس ہو تو اگر اس کا پاک کرنا اور پانی کا زخم تک لے جا نا ممکن ہو تو پہلے اس کو پاک کرے اور پھر وضو کے وقت پانی کو زخم تک لے جائے اور اس میں جب کہ پانی کا زخم پر پانی کا ڈالنامضر ہو یا پانی کا زخم تک پہنچنا ممکن نہ ہو یا زخم نجس ہو اور اس کا پاک کر نا ممکن نہ ہو تو اطراف زخم کو دھوئے اور اگر اس پر بندھی ہوئی چیز پاک ہو تو اس پر تر ہاتھ سے مسح کرے اور اگر بندھی ہوئی نجس چیز ہو تو یا اس پر پانی لے جانا ممکن نہ ہو مثلا کوئی دوائی لگی ہوئی ہو کہ جو ہاتھ سے چپک جا تی ہو تو اس پر ایک پٹی اس طرح سے رکھے کہ وہ جبیرہ کا جز بن جائے تو پھر ہاتھ تر کر کے اس پر پھیرے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وضو بھی کرے اور تیمم بھی ۔
مسئلہ ۳۷۵۔ اگر پٹی تمام منھ یا دونوں ہاتھوں میں سے ایک پورے ہاتھ یا دونوں ہاتھوں پر بندھی ہوئی ہو تو اس پرجبیرہ والا وضوکر نا چاہئیے اور بنا بر احتیاط واجب تیمم بھی ۔
مسئلہ۳۷۶۔ اگر جبیرہ تمام وضو کے اعضاء پر بندھا ہو تو احتیاط واجب یہی ہے کہ وضو بھی کرے اور تیمم بھی ۔
مسئلہ ۳۷۷۔ اگر کسی شخص کے ہاتھ کی ہتھیلی اور انگلیوں پر جبیرہ ہواور وضو کے و قت تر ہاتھ اس پر پھیرا ہو تو سر اور پاؤں کا مسح اسی تری سے کر سکتا ہے ۔
مسئلہ ۳۷۸۔ اگر پاؤ کے اوپر والے تمام حصہ پر جبیرہ موجود ہو لیکن تھوڑا حصہ انگلیوں کی طرف اور تھوڑا حصہ پاؤں کے اوپر کی طرف کھلا ہو ا ہو تو جو جگہ پاؤں کے اوپر کھلی ہوئی ہے اس پر اور جس جگہ جبیرہ ہے وہاں جبیرہ کے اوپر مسح کرے ۔
مسئلہ ۳۷۹۔ اگر منھ اور ہاتھوں پر کئی جگہ پٹی بندھی ہوئی ہو تو اس کے درمیانی حصہ کو دھونا چاہئیے اور اگر پٹی سر اور پاؤں کے اوپر والے حصہ پر ہو تو ان کے در میان حصہ کا مسح کرے اور جس جگہ پٹی ہے اس پر جبیرہ کے قاعدہ پر عمل کرے ۔
مسئلہ ۳۸۰۔ اگر پٹی زخم کے اطراف میں عادت سے زیادہ جگہ گھیر چکی ہو اور پھر اس کا ہٹانا بھی ممکن نہ ہو تو جبیرہ والا طریقہ اختیار کرے لیکن احتیاط واجب اس میں ہے کہ تیمم بھی کرے اور اگر اس جگہ سے جبیرہ کا ہٹاناممکن ہو تو جبیرہ کو ہٹا دینا چاہئیے پس اگر زخم منھ اور ہاتھوں پر ہے تو ان کے اطراف کو دھوئے اوراگر زخم سر یا پاؤں اوپر ہے تو اس کے اطراف کا مسح کرے لیکن خود زخم پر وہی جبیرہ والا عمل کرے ۔
مسئلہ ۳۸۱۔ اگر وضو کے اعضاء پر زخم یا شکستگی یا پھوڑا نہ ہو بلکہ کسی اور وجہ سے تمام منھ اور ہاتھ پانی ڈالنا مضر ہو تو اس کو تیم کر نا چاہئیے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جبیرہ والا وضو بھی کرے ۔
مسئلہ ۳۸۲۔ اگر وضو کے کسی عضو پر نشتر سے خون وغیرہ نکالا گیا ہو اور ا سکو پاک نہ کر سکتے ہوں یا پانی اس کے لئے مضر ہو تو جبیرہ کے طریقہ پر عمل کرے ۔
مسئلہ ۳۸۳۔ اگر وضو یا غسل کی جگہ پر کوئی ایسی چیز چپکی ہوئی ہو جس کا ہٹانا ممکن نہ ہو یا کچھ مشقت ہو جو قابل برداشت نہ ہو تو پھر اس صورت میں جبیرہ کے طریقہ پر عمل کر نا چاہئیے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم بھی کرے ۔
مسئلہ ۳۸۴۔ جبیرہ(پٹی)کی حالت میں غسل کا بھی وہی حکم ہے جو وضو جبیرہ کا حکم ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ غسل ترتیبی کر نا چاہئیے اگر چہ شرائط کی موجودگی میں جیسے اعضاء کا پاک ہو ، پانی کا ضرر نہ پہنچانا وغیرہ غسل ارتما سی بھی کرے تو کر سکتا ہے لیکن اگر شرائط موجود نہ ہوں تو غسل ترتیبی کر نالازم ہو گا ۔
مسئلہ ۳۸۵۔ اگر کسی کی تکلیف شرعی تیمم کر نا ہو تو اگر تیم والے وضو پر زخم یا پھوڑا یا شکستگی ہو تو وضو جبیرہ کے مطابق تیمم جبیرہ کرے ۔
مسئلہ۳۸۶۔ جو شخص نماز وضو جبیرہ کے ساتھ پڑھنا چاہتا ہے اگر اسے علم ہو کہ نماز کے آخر وقت تک اس کی مجبوری دور نہ ہو گی تو وہ اول وقت میں نماز ادا کر سکتا ہے ہاں اگرا سے امید ہو کہ نماز کے آخر وقت تک عذر دور ہو جائے گا تو احتیاط واجب بلکہ اقویٰ یہی ہے کہ انتظار کرے اور اگر ا سکا عذر دور نہ ہو تو آخرو قت میں نماز کو وضو یا غسل جبیرہ سے پڑھے ۔
مسئلہ ۳۸۷۔ اگر کسی کی آنکھ میں ایسا مرض ہو کہ وضو کے وقت اسے آنکھ بند کر کے آنکھ کے بالوں کو چپکا کر رکھنا ہو گا تو پھر اسے چاہئیے کہ وضو اور غسل میں جبیرہ والا طریقہ اختیار کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم بھی کرے ۔
مسئلہ۳۸۸۔ اگر کسی شخص کو یہ پتہ نہ ہو کہ اس کی شرعی تکلیف تیمم ہے یا وضو جبیرہ ہے تو احتیاط واجب اسی میں ہے کہ دونوں کو بجا لائے ۔
مسئلہ ۳۸۹۔ انسان نے جو نماز یں وضو جبیرہ سے پڑھیں ہیں وہ صحیح ہیںلیکن جب اس کا عذر دور ہو جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ بعد کی نماز وں کے لئے وضو کرے۔

واجب غسل
مسئلہ۳۹۰۔ واجب غسل سات ہیں ۱۔ غسل جنابت۔۲۔غسل حیض۔۳۔ غسل نفاس۔۴۔غسل استحاضہ ۔۵۔غسل مس میت۔۶۔غسل میت۔۷۔جوغسل نذر قسم وغیرہ سے واجب ہو تا ہے ۔
جنابت کے احکام
مسئلہ۳۹۱۔دو چیزوں سے انسان مجنب ہو تا ہے ۔
(۱)جماع(مباشرت)(۲)منی کے باہر آنے سے خواہ نیند کی حالت میں آئے یا بیداری کی حالت میں تھوڑی ہو یا زیادہ شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت کے اختیار سے آئے یا بغیر اختیار کے۔
مسئلہ ۳۹۲۔ انسان سے اگر کچھ رطوبت باہر آئے لیکن معلوم نہ ہو کہ منی ہے یا پیشاب یا ان کے علاوہ دوسری چیز ہو تو اگر شہوت کے بعد اچھل کر آئے اور اسکے باہر آجانے کے بعد انسان کا بدن سست ہو جائے تو اس رطوبت کو منی سمجھا جائے اور اگر ان تینوں علامتوں میں سے ایک بھی نہ ہو یا ان میں سے بعض نہ ہو تو پھر اسے منی نہ سمجھا جائے گا لیکن مریض کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ رطوبت اچھل کر بھی آئے بلکہ اگر شہوت سے باہر آئے اور بدن سست ہو جائے تو منی سمجھا جائے گا ۔
مسئلہ ۳۹۳۔ مریض کے علاوہ جب کسی شخص سے رطوبت باہر آئے اور اس میں ان علامتوں میں سے جو گذشتہ مسئلہ میں بیان کی گئی ہیں ایک بھی موجود ہو لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اور بھی علامتیں موجود تھیں یا نہیں تو اگر وہ رطوبت کے آنے سے پیشتر باوضو تھا اھتیاطا تنہا غسل کرے اور اگر با وضو نہیں تھا تو احتیاطا غسل کرے اور بنا بر احتیاط واجب وضو بھی کرے۔
مسئلہ۳۹۴۔ انسان کے لئے مستحب ہے منی کے آنے کے بعد پیشاب کرے اور اگر پیشاب نہ کرے اور غسل کر ے کے بعد کچھ رطوبت باہر آئے جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو سکے کہ یہ منی ہے یا کوئی دوسری رطوبت تو اس پر بھی منی والا حکم جاری ہو گا ۔
مسئلہ۳۹۵۔ اگر انسان مباشرت کرے اور بقدر ختنہ یا اس سے زائد مقدار اندر داخل ہو جائے خواہ عورت میں یا مرد میں آگے ہو یا پیچھے دونوں بالغ ہو ں یا نابالغ اگر چہ منی باہر نہ آئے تو ان تمام صورتوں میں دونوں مجنب ہو جائیں گے ۔
مسئلہ۳۹۶۔اگر شک ہو جائے کہ بمقدار ختنہ اندر داخل ہو اہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ۳۹۷۔ نعوذ باللہ اگر کوئی انسان حیوان سے مباشرت کرے اور منی اس سے خارج ہو جائے تو تنہا غسل کافی ہے اور اگر منی خارج نہ ہو اوروطی سے پہلے باوضو تھا پھر بھی تنہاغسل کافی ہے اور اگر باوضو نہ تھا تو احتیاط واجب یہی ہے کہ غسل کرے اور وضو بھی کرے۔
مسئلہ۳۹۸۔ اگر منی اپنے مقام سے حرکت کر چکی ہو لیکن باہر نہ نکلے یا انسان شک کرے کہ باہر نکلی ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۳۹۹۔اگر کوئی شخص غسل نہ کر سکے لیکن تیمم اس کے لئے ممکن ہو تو نماز کاوقت داخل ہو جانے کے بعد اپنی بیوی سے مجامعت کر سکتا ہے۔
مسئلہ ۴۰۰۔اگر کوئی شخص اپنے کپڑے میں منی دیکھے اور اسے علم ہو کہ اس سے خارج ہو کر نکلی ہے اور اس کے لئے غسل نہ کیا ہو تو اسے چاہیئے غسل کرے اور ان نمازوں کی بھی قضا کرے جن کے متعلق یقین ہو کہ اس منی کے خارج ہو نے کے بعد پڑھ چکا ہے ہاں ان نمازوں کی قضا ضروری نہیں ہے جن کے متعلق احتمال ہو کہ اس منی کے خارج ہونے کے بعد پڑھی ہیں ۔

وہ چیزیں جو مجنب شخص پر حرام ہیں
مسئلہ۴۰۱۔ پانچ چیزیں مجنب شخص پر حرام ہیں
(۱)بدن کے کسی حصہ کو قرآن کے حروف ، اللہ کے اسماء سے مس کرنا اور احتیاط واجب یہی ہے کہ انبیاء اور ائمہ اطہار علیہم السلاماور حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کے اسماء کو بھی مس نہ کرے ۔
(۲)مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں داخل ہونا اگر چہ ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل بھی جائے۔
(۳)عام مساجد اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے حرم میں ٹھہرنا ہاں اگر ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جائے یا کسی چیز کے اندر سے اٹھانے کے لئے داخل تو کوئی حرج نہیں۔
(۴)کوئی چیزمسجدمیں رکھنے کے لئے داخل ہو نا بلکہ احتیاط واجب مسجد میں داخل ہوئے بغیر بھی اس میں کوئی چیز نہ رکھے
(۵)ان سوروں کو پڑھنا کہ جن میں سجدہ واجب ہو تا ہے اور وہ چارسورہ (۱) الم تنزیل سورہ ۳۲(۲)سورہ حٰم سجدہ سورہ ۴۱(۳)والنجم سورہ ۵۳(۴)سورہ اقراء باسم سورہ ۹۶،احتیاط مستحب کی بنا پر ان چار سوروں میں سے کسی ایک کا ایک حرف بھی نہ پڑھے ۔

وہ چیزیں جو مجنب شخص کے لئے مکروہ ہیں
مسئلہ۴۰۲ ۔نو چیزیں جو مجنب شخص پر مکروہ ہیں۔
(۱)کھانا (۲)پینا،لیکن اگر وضو کر لے یا ہاتھوں کو دھو لے تو مکروہ نہیں ہے
(۳)ان سوروں میں سے جن میں سجدہ واجب نہیں ہے سات آیات سے زیادہ پڑھنا
(۴)بدن کا کوئی حصہ قرآن کی جلد یا حاشیہ یا سطروں کو درمیان سے مس کرنا
(۵)قرآن کو اپنے ساتھ رکھنا
(۶)سونا ہاں اگر وضو کرے یا پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم بدل غسل کرے تو مکروہ نہیں ہے ۔
(۷)مہندی یاخضاب وغیرہ لگانا
(۸)بدن پر تیل ملنا
(۹)احتلام یعنی خواب میں منی نکلنے کے بعد صحبت کرنا ۔

چند مسائل
مسئلہ۴۰۳۔غسل جنابت اپنے آپ میں مستحب ہے لیکن نماز واجب اور اس کے مثل کے لئے واجب ہو جاتا ہے ۔ البتہ نماز میت و سجدہ شکر اور قرآن کے واجب سجدوں کے لئے غسل جنابت واجب نہیں ہے اگر چہ نماز میت کے لئے احتیاط مستحب ہے ۔
مسئلہ۴۰۴۔غسل جنابت کرنے کے وقت نیت کرنا ضروری نہیں کہ غسل واجب یا مستحب کرتا ہوں اور اگر بقصد قربت یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری کے لئے غسل کرے تو کافی ہے ۔
مسئلہ۴۰۵۔اگر یقین ہو کہ نماز کا وقت داخل ہو چکا ہے اور پھر بھی غسل کو واجب کی نیت سے بجا لائے اور پھر معلوم ہو جائے کہ وقت سے پہلے غسل کر لیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے ۔
مسئلہ۴۰۶۔غسل خواہ واجب ہو یا مستحب دو طریقہ سے بجا لایا جا سکتا ہے ترتیبی اور ارتماسی۔

غسل ترتیبی
مسئلہ۴۰۷ ۔غسل ترتیبی میں غسل کی نیت کے بعد پہلے سر اور گردن کو دھوئے پھر جسم کے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف کو دھوئے اور اگر غسل اس ترتیب سے جو بتائی گئی ہے جان بوجھ کر یا بھول کو یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے بجا نہ لائے تو اگر اس نے غسل کسی برتن یا ہاتھ سے پانی بدن پر ڈالا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کا غسل باطل ہے ،اگر اس نے بائیں طرف کو دائیں پر مقدم کیا ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر دوبارہ غسل کرے لیکن اگر اس نے بارش میں یا فورے کے نیچے کھڑے ہوکر غسل کیا ہو تو ترتیب کی رعایت کی شرط کا ساقط ہونا بعید نہیں ہے اگر چہ احوط ترتیب کی رعایت ہے ۔
مسئلہ۴۰۸۔آدھی ناف اور آدھی شرم گاہ کو بدن کی دائیں طرف کے ساتھ اور پھر باقی ماندہ نصف کو بائیں طرف کے ساتھ دھوئے لیکن بہتر یہ ہے کہ ناف اور شرمگاہ کو دونوں طرف کے ساتھ دھوئے ۔
مسئلہ۴۰۹۔اگر چاہتا ہو کہ تینوں حصوں کو یعنی سر گردن اور دائیں اور بائیں طرف کو پورا پورا دھو لینے کا یقین پیدا کرے تو اسے چاہیئے کہ جس حصہ کو دھوئے تو اس کے ساتھ کچھ حصہ دوسرے حصوں کو بدن کے دائیں حصہ کے دھوتے وقت اور گردن کے تمام بائیں حصہ کو بدن کے بائیں حصہ کو دھوتے وقت دھوئے ۔
مسئلہ۴۱۰۔ اگر غسل کرنے کے بعد معلوم ہو جائے کہ بدن کا کچھ حصہ نہیں دھو یا اور نہیں جانتا کہ کون سا حصہ ہے تو دوبارہ غسل کرے ۔
مسئلہ ۴۱۱۔اگر غسل کرنے کے بعد معلوم ہو جائے کہ بدن کا کچھ حصہ نہیں دھو یا گیا ، اگر وہ بائیں طرف کا ہو تو اسی حصہ کو دھو لینا کا فی ہے اوردوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں ہے،اور اگر دائیں طرف کاکوئی حصہ ہو تو پھر پہلے اس حصہ کو دھوئے اور اس کے بعد بائیں طرف کو دوبارہ دھوئے اور اگر سر اور گردن کا کوئی حصہ ہو تو پہلے اسے دھوئے اور اس کے بعد دائیں طرف اور پھر بائیں طرف کو دوبارہ دھوئے ۔
مسئلہ۴۱۲۔اگر غسل مکمل ہو نے سے پہلے بائیں طرف کی کسی جگہ کو دھوئے جانے کے متعلق شک ہو تو صرف اسی جگہ کو دھو لینا کافی ہے ہاں اگر بائیں طرف کی جگہ کے دھونے میں مشغول ہو نے کے بعد دائیں طرف کے یا اس کے کچھ حصہ کے دھونے میں شک کرے تو اس جگہ کودھونے کے بعد احتیاط واجب کی بنا پر بائیں طرف کو دوبارہ دھوئے اور اگر سر اور گردن کے یا اس کے کچھ حصہ کے دھونے میں شک کرے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کو دھونے کے بعد دو بارہ دائیں اور بائیں طرف کو دھوئے ۔

غسل ارتماسی
مسئلہ۴۱۳۔ غسل ارتماسی میں چاہیئے کہ پانی ایک ہی آن عرفی میں تمام بدن کو گھیر لے لہٰذا اگر غسل ارتماسی کی نیت سے پانی داخل ہو تواگر پاؤںزمین پر ہوں تو انہیں اٹھالے ۔
مسئلہ۴۱۴۔ غسل ارتماسی میں ضروری نہیں ہے کہ بدن کا کچھ حصہ پانی سے باہر ہو تو نیت کرے بلکہ اگر تمام بدن پانی کے اندر ڈوب جائے اور غسل کی نیت کرے تو اس کا غسل صحیح ہے ۔
مسئلہ۴۱۵۔ اگر غسل ارتماسی کے بعد معلوم ہو کہ بدن کے کسی حصہ پر پانی نہیں پہونچا خواہ وہ جگہ معلوم ہو یا نہ معلوم ہو تواسے احتیاط واجب کی بنا پر دوبارہ غسل کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ۴۱۶۔اگر غسل ترتیبی کے واسطے وقت نہ رہے اور غسل ارتماسی کے لئے وقت ہو تو غسل ارتماسی کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ۴۱۷۔جس نے واجب روزہ رکھا ہویا حج یا عمرہ کے لئے احرام باند ھا ہو تو وہ شخص غسل ارتماسی نہ کرے ہاں اگر بھول کر غسل ارتماسی کرے تو پھر غسل صحیح ہو گا ۔

غسل کرنے کے احکام
مسئلہ۴۱۸۔غسل ارتماسی میں تمام بدن کو پاک ہو نا چاہئیے لیکن غسل ترتیبی میں تمام بدن کا پاک ہو نا لازم نہیں ہے اور اگر تمام بدن نجس ہوتو ہر حصہ کو غسل کرنے سے قبل اس حصہ کو پاک کر نا کافی ہے۔
مسئلہ ۴۱۹۔ جو شخص حرام سے مجنب ہو اہے اگر گرم پانی کے ساتھ غسل کرے اور اسے پسینہ آجائیتو ضروری نہیں ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غصل کرے گر چہ بہتر ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے اگر ٹھنڈا پانی میسر نہ ہو یا نقصان دہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ پانی سے باہر ہو کر غسل ترتیبی نہ کرے بلکہ جس وقت اس کا بدن پانی میں چلا جائے توغسل ترتیبی کی نیت کرے اور سرو گردن کی نیت سے بدن کو حرکت دے پھر ایک مرتبہ دائیں طرف کی نیت سے حرکت دے پھر بائیں طرف کی نیت سے ۔
مسئلہ۴۲۰۔ اگر غسل کر نے میں بدن کا کوئی حصہ بال کے برابر بھی خشک رہ جائے تو غسل باطل ہے البتہ بدن کی وہ جگہیں جو دکھائی نہیں دیتی ہیں مثلاً کان یا ناک کے اندر کا حصہ کا دھونا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ۴۲۱۔ اگر جسم کے کسی حصہ میں شک ہو کہ اس کا شمار جسم کے ظاہری حصہ میں ہوتا ہے یا باطنی حصہ میںتو احتیاط یہ ہے کہ اسے بھی دھوئے ۔
مسئلہ۴۲۲۔ کان میں بندے وغیرہ کا سوراخ اگر اتنا کھلا ہو کہ اس کے اندر کا حصہ دکھائی دیتا ہو تو اس کواحتیاط کی بنا پر دھونا چاہئیے اور اگر دکھائی نہ دے تو اس کا دھونا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ۴۲۳۔ اگر کوئی چیز پانی کو بدن تک پہنچنے سے مانع ہو تو اسے دور کر دے اور اگر اس چیز کے دور ہو نے کا یقین ہو نے سے پہلے غسل کرے تو اس کا غسل باطل ہے
مسئلہ۴۲۴۔ اگرغسل کے وقت شک عقلائی کرے کہ ایسی چیز بدن پر موجود ہے جو پانی کو بدن تک پہنچنے سے مانع ہے یا نہیں تو اسے دیکھنا چاہئیے تا کہ اطمینان ہو جائے کہ جسم پر کوئی بھی چیز پانی کو روکنے والی نہیں ہے ۔
مسئلہ۴۲۵۔جسم کے وہ چھوٹے با ل جو جسم کے جزو شمار ہو تے ہوںغسل میں دھونا چاہئیے البتہ لمبے بالوں کو دھونا واجب نہیں ہے لہذا اگر پانی کو جلد تک اس طرح پہنچائے کہ بال نہ بھیگیں تو بھی غسل صحیح ہے لیکن اگر ان کو دھوئے بغیر پانی جلد تک نہ پہنچ سکتا ہو تو پھر ان کو دھونا ضروری ہے۔
مسئلہ۴۲۶۔وہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہو نے کے لئے بیان کی گئی ہیں مثلا پانی کا پاک ہونا غصبی نہ ہو نا وہی شرائط غسل کے صحیح ہو نے میں بھی ضروری ہیں البتہ غسل میں بدن کا اوپر سے نیچے کی طرف دھونا لازم نہیں ہے غسل ترتیبی میں ایک حصہ کو دھونے کے بعد فورا دوسرے حصہ کو دھونا لازمی نہیں ہے بلکہ اگر سرو گردن کو دھو نے کے بعد کسی قدر تاخیر کرے پھر دائیں طرف کو دھوئے اور پھر کچھ عر صہ کے بعد بائیں طرف کو دھوئے تو اس میں اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۴۲۷۔ اگر کوئی شخص پیشاب اور پاخانہ کے باہر آنے کو نہ روک سکتا ہو تو اگر اتنی دیر جس میں غسل اور نماز پڑھ سکے اس کا پیشاب ا ور پاخانہ باہر نہ آئے اسکو چاہئیے کہ فوراًغسل کرے اور غسل کے بعد فورا نماز پڑھے یہی حکم استحاضہ والی عورت کا بھی ہے جو کہ بعد میں بیان ہو گا ۔
مسئلہ ۴۲۸۔ جس کا ارادہ ہو کہ کرایہ والے حمام میں نہا کر اس کی اجرت نہیں دے گا یا بغیر یہ جانے ہوئے کہ حمام کا مالک راضی ہے ادھار کر نا چاہے اور حمام کا مالک راضی نہ ہو تواس کا غسل باطل ہے ۔
مسئلہ۴۲۹۔اگر حمام کا مالک راضی ہو کہ حمام کی رقم قرض رہے البتہ جو شخص غسل کرے اس کا ارادہ یہ ہو کہ اس کی اجرت نہ دے گا یا حلال حرام سے ادا کرے گا تو اس کے غسل میں اشکال ہے۔
مسئلہ ۴۳۰۔ اگر حمام میں غسل کرنے کی اجرت حرام مال سے دے ایسے مال سے دے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو تو ا سکا غسل باطل ہے لیکن اگر حمام کا مالک غسل بلا معاوضہ یا معاوضہ سے کمتر پر راضی ہو تو پھر صحیح ہے ۔
مسئلہ۴۳۱۔ اگر انسان شک کرے کہ غسل کیا ہے یا نہیں تو اس کو غسل کر نا چاہئیے البتہ اگر بعد غسل شک کر ے کہ اس کاغسل صحیح تھا یا نہیں تو اس پر لازم نہیں ہے کہ دوبارہ غسل کرے ۔
مسئلہ۴۳۲۔ اگر کسی شخص سے دوران غسل حدث اصغر صادر ہو جائے مثلا پیشاب کر دے تو غسل کو مکمل کرے اور اس کے بعد ضروری ہے کہ وضو کرے یا دوبارہ اس قصد سے غسل کرے جو اس کے ذمہ ہے اس کے بعد وضوبھی کرے ۔
مسئلہ۴۳۳۔ جب کوئی شخص خیال کرے کہ غسل و نماز کے لئے وقت باقی ہے تو وہ نماز کے واسطے غسل کرے اگر چہ غسل کے بعد اسے معلوم ہو کہ ایک رکعت یا زیادہ کا وقت باقی ہو تو اس کا غسل صحیح ہے اور اگر ایک رکعت سے کم وقت باقی ہواور غسل کو بھی کسی اور غرض سے نہیں بجا لا یا تھا بلکہ محض نماز ہی کے لئے تھا تو اس کا غسل باطل ہے ۔
مسئلہ۴۳۴۔ جوشخص مجنب ہو جائے اگر اسے شک ہوکہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو جو نمازیں پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہیں البتہ باقی نمازوں کے واسطے غسل کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ۴۳۵۔ جس شخص پر بہت سے غسل واجب ہوں تو تمام کی نیت کر کے ایک غسل بجا لا سکتا ہے یا علیحدہ علیحدہ غسل کرے۔
مسئلہ۴۳۶۔ جب کسی شخص کے بدن کے کسی حصہ پر آیت قرآن یا خدا کا نام لکھا ہوا ہو تو بنا بر احتیاط اگر ممکن ہو تو اسے دور کرے اور اگر ممکن نہ ہو تو غسل ارتماسی کرے اور اگر وضو یا غسل ترتیبی بجا لا نا چاہے تو بدن پر پانی اس طرح ڈالے کہ ہاتھ تحریر کو نہ لگنے پائے ۔
مسئلہ۴۳۷۔ جو شخص غسل جنا بت کر چکا ہو اسے نماز کے لئے وضو کر نے کی ضرورت نہیں ہے البتہ دوسرے غسلوں کے بعد نماز نہیں پڑھ سکتا اسے وضو بھی کر نا چاہئیے ۔

استحاضہ
مسئلہ۴۳۸۔ عورتوں کوجو خون آتے رہتے ہیں ان میں سے ایک قسم کا نام استحاضہ ہے اور جس عورت کو یہ خون آئے اسے مستحاضہ کہتے ہیں ۔
مسئلہ۴۳۹۔ خون استحاضہ زیادہ تر زرد رنگ کا اور ٹھنڈا ہو تا ہے بغیر اچھلے ہوئے اور بغیر جلن کے آتا ہے اور گا ڑھا نہیں ہو تا ہے لیکن ممکن ہے کبھی سیاہ یا سرخ اور گرم اور گاڑھا اور جلن کے ساتھ اور اچھل کر باہر آئے ۔
مسئلہ۴۴۰۔ خون استحاضہ کی تین قسمیں ہیں ۔(۱)قلیلہ (۲)متوسطہ (۳)کثیرہ
(۱)استحاضہ قلیلہ: وہ خون ہے جب عورت اپنی شرمگاہ میں روئی رکھے تو خون روئی کے اندر داخل نہ ہو اور روئی کے دوسری طرف سے ظاہر نہ ہو ۔
(۲)استحاضہ متوسطہ: وہ خون ہے کہ جو روئی کے اندر داخل ہو جائے اور اس کے دوسری طرف ظاہر ہو البتہ اس پٹی پر جو عورتیں عام طور سے خون روکنے کے لئے باندھتی ہیں جاری نہ ہو ۔
(۳)استحاضہ کثیرہ: وہ خون ہے جو کہ روئی سے نکل کر پٹی پر جاری ہو جائے ۔

استحاضہ کے احکام
مسئلہ۴۴۱۔ استحاضہ قلیلہ میں عورت کو ہر نماز کے لئے ایک وضو کر نا چاہئیے اور روئی کو بدلے یا پاک کرے اور شرمگا ہ کے ظاہری حصہ کو بھی اگر اس میں خون لگا ہے تو پاک کرے ۔
مسئلہ۴۴۲۔ استحاضہ متوسطہ والی کو نماز صبح کے لئے غسل کر نا چاہئیے اور دوسرے دن کی صبح تک ہر نماز کے لئے استحاضہ قلیلہ والے کام انجام دینے والے ہوں گے اگر عمدا یا بھول کر صبح کے وقت غسل نہ کرے تو نماز ظہر و عصر کے لئے غسل کرے اور اگرظہر وعصر کے لئے بھی غسل نہ کرے تو پھر مغرب وعشاء سے پہلے غسل کر نا ہو گا خواہ خون آرہا ہو یا بند ہو جائے
مسئلہ۴۴۳۔ استحاضہ کثیرہ میں عورت (استحاضہ متوسطہ کے تمام کام کر نے کے علاوہ جو سابقہ مسئلہ میں بیان کئے گئے ہیں)ہر نماز کے لئے پٹی کو تبدیل کرے یا پاک کرے اور ایک غسل برائے نماز ظہر و عصر اور ایک غسل برائے نماز مغرب و عشاء بجا لائے اور نماز ظہر وعصر کے درمیان فاصلہ نہ ہو نے دے اور اگر فاصلہ ہو جائے تو نماز عصر کے لئے دوبارہ غسل کرے اور اگر مغرب و عشاء کی نمازوں میں فاصلہ ہو جائے تو نماز عشاء کے لئے دوبا رہ غسل کرے ۔
مسئلہ۴۴۴۔ اگر خون استحاضہ نماز کے وقت سے پہلے آئے اور عورت اس خون کے لئے وضو اور غسل نہ کر چکی ہو تو نماز کے وقت وضو اور غسل بجا لائے ۔
مسئلہ۴۴۵۔ استحاضہ متوسطہ و کثیرہ جس کے لئے ضروری ہے کہ وضو بھی کرے اور غسل بھی کرے تو جسے پہلے بجا لائے وہ صحیح ہے ۔
مسئلہ۴۴۶۔ اگر استحاضہ قلیلہ والی عورت صبح کی نماز کے بعد متوسطہ ہو جائے تو اسے احتیاط استحبابی کی بنا پر چاہئیے کہ نماز ظہر و عصر کے لئے ایک غسل کرے اور اگر نماز ظہر و عصر کے بعد متوسطہ ہو جائے تواحوط استحبابی ہے کہ نماز مغرب و عشاء کے لئے غسل کر ے ۔
مسئلہ۴۴۷۔ استحاضہ قلیلہ یا متوسطہ والی عورت صبح کی نماز کے بعد کثیرہ ہو جائے تو اسے نماز ظہر وعصر کے لئے ایک غسل اور نماز مغرب و عشاء کے لئے دوسرا غسل بجا لا نا چاہئیے اور اگر نماز ظہر و عصر کے بعد کثیرہ ہو جائے تو نماز مغرب و عشاء کے لئے غسل کرے ۔
مسئلہ۴۴۸۔ اگر استحاضہ کثیرہ یا متوسطہ والی عورت نماز کے وقت کے داخل ہو نے سے پہلے نماز کے لئے غسل کرے تو اس کا غسل باطل ہے ہاں اگر نماز صبح کی اذان کے قریب نماز تہجد کے لئے غسل کرے اور اس سے نماز تہجد ادا کرے اور جوں ہی نماز صبح کا وقت داخل ہو فوراً نماز صبح بجا لائے ۔
مسئلہ۴۴۹۔ جس عورت کو خون استحاضہ آرہا ہو ( ہر نماز کے لئے خواہ واجب ہو یا مستحب )وضو کر نا چاہئیے اور اگر ایک دفعہ کی پڑھی ہو ئی نماز کو احتیاطا ًدوبارہ پڑھنا چاہے یا چاہے کہ جس نماز کو تنہا پڑھا ہے دوبارہ جماعت کے ساتھ پڑھے تو پھر اسے چاہئیے کہ وہ تمام کام جو مستحاضہ کے لئے بیان کئے گئے ہیں انجام دے البتہ نماز احتیاط بھولا ہوا سجدہ ، بھولا ہوا تشہد اور سجدہ سہو جب کہ ان کو نماز کے فورا ًبعد بجا لائے تو ان صورتوں میں استحاضہ والے کاموں کو انجام دینا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ۴۵۰۔ جب استحاضہ والی عورت کا خون رک جائے تو صرف پہلی نماز کے واسطے استحاضہ کے تمام کاموں کو انجام دینا چاہئیے اور بعد کی نماز وں کے لئے ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ۴۵۱۔ اگر عورت کو علم نہ ہو کہ اسے استحاضہ کی کون سی قسم آرہی ہے تو جب وہ چاہے نماز پڑھے تو روئی شرمگا ہ میں رکھے اور تھوڑی دیر ٹھہر جائے اور پھر اسے نکال کر دیکھے کے اس کا استحاضہ تین قسموں میں سے کون سی ایک قسم کا ہے تو جو احکام اس کے لئے مقرر کر دئے گئے ہیں انجام دے البتہ اگر اسے علم ہو کہ جس وقت وہ نماز پڑھے گی اس کے استحاضہ میں تبدیلی نہیں ہو گی تو نماز کے وقت داخل ہو نے سے پہلے بھی معلوم کر سکتی ہے کون سا استحاضہ ہے۔
مسئلہ۴۵۲۔ مستحاضہ عورت بغیر معلوم کئے ہوئے کہ وہ کس قسم میں داخل ہے نماز میں مشغول ہو جائے چنانچہ اگر اس نے قصد قربت کے ساتھ جو اس کی واقعی تکلیف تھی اس پر عمل کیا مثلا ًاس کا استحاضہ قلیلہ تھا اور قلیلہ کے اعمال بجا لائی تو اس کی نماز صحیح ہے اور اگراس نے قصد قربت نہ کیا ہو یعنی جو اس کی تکلیف تھی اس کے مطابق عمل نہ کیا ہو مثلا ًاس کا استحاضہ متوسطہ ہو اوراس نے استحاضہ قلیلہ کے اعمال بجا لائے ہوں تو اس کی نماز باطل ہے ۔
مسئلہ۴۵۳۔ استحاضہ والی عورت اگر معلوم نہ کر سکتی ہو کہ کس قسم کا خون ہے تو پھر اسے وہ اعمال بجا لانے چاہیئیں جو یقینا اس پر واجب ہیں مثلا ًاسے معلوم نہ ہو کہ اس کا استحاضہ قلیلہ ہے یا متوسطہ تو اسے قلیلہ ا ستحاضہ والی عورت کے اعمال بجا لانے چاہیئیں اورا گر اسے معلوم نہ ہو کہ اس کا استحاضہ متوسطہ ہے یا کثیرہ تو اسے متوسطہ کے اعمال بجا لانے چاہئیںلیکن اگر جانتی ہے کہ پہلے ان تینوں میں سے کون سی قسم تھی اس کے اعمال بجا لائے ۔
مسئلہ ۴۵۴۔ اگر استحاضہ کا خون اندر موجود ہو اور باہر نہ آئے تو پھر وضو اور غسل باطل نہیں ہو گا اور اگر خون باہر آجائے اور کتنا ہی کم کیوں نہ ہو تو وضو اور غسل کو باطل کر دے گا ۔
مسئلہ ۴۵۵۔ استحاضہ والی عورت نماز کے بعد معلوم کرے اور خون نہ دیکھے اگر چہ اسے علم ہو کہ دوبارہ خون آئے گاتو وضو کئے ہوئے ہے اسی سے نماز پڑھ سکتی ہے ۔
مسئلہ ۴۵۶۔ استحاضہ والی عورت کو علم ہو کہ جب سے وضو اور غسل میں مشغول ہوئی ہے اسے خون نہیں آیا تو نماز پڑھنے میں تاخیر کر سکتی ہے ۔
مسئلہ۴۵۷۔ اگر استحاضہ والی عورت کو علم ہو کے نماز کا وقت ختم ہو نے سے پہلے با لکل پاک ہو جائے گی یا نماز کے پڑھنے کے اندازہ سے اس کا خون رک جائے گا تو بنا ء بر احتیاط واجب اسے صبر کر نا چاہئیے اور نماز کو اس وقت پڑھنا چاہئیے جب خون سے پاک ہو ۔
مسئلہ۴۵۸۔ اگروضو اور غسل کے بعد ظاہر طورپر خون رک جائے اور استحاضہ والی عورت کو علم ہو کہ اگر نماز میں تاخیر کر دے تو جتنی دیر میں وضو ، غسل اور نماز کو بجا لائے گی با لکل پاک ہو جائے گی تو بنا ء بر احتیاط واجب نماز میں تاخیر کر دینا چاہئیے اور جب بالکل پاک ہو جائے تو دوباہ وضو اور غسل کر کے نماز ادا کرے اور اگر نماز کا وقت تنگ ہو جائے تو پھر دوبارہ وضو اور غسل کر نا ضروری نہیں بلکہ اسی وضو اور غسل سے جو اس نے کیا ہو اتھا نماز ادا کر سکتی ہے ۔
مسئلہ۴۵۹۔ استحاضہ کثیرہ اور متوسطہ والی عورت جب خون سے بالکل پاک ہو جائے تو اسے غسل کر نا چاہئیے لیکن اگر اسے علم ہو کہ جس وقت وہ پہلی نماز کے لئے غسل میں مشغول ہوئی تھی اس وقت سے پھر خون نہیں آیا تو اس پردوبارہ غسل کرنا لازم نہیں ۔
مسئلہ۴۶۰۔استحاضہ قلیلہ والی عورت وضو کے بعد اور استحاضہ کثیرہ اور متوسطہ والی عور ت وضو اورغٖسل کے بعد فورا ًنماز میں مشغول ہو جائے لیکن اذان واقامت کہنا اور نماز کے وقت پڑھنے والی دعائیں پڑھنے میں کوئی اشکال نہیںہے اور نماز میں بھی مستحبی کام مثل قنوت وغیرہ بجا لاسکتی ہے ۔
مسئلہ ۴۶۱۔ اگراستحاضہ والی عورت غسل اور نماز کے درمیان فاصلہ دیدے تو اسے چاہئیے کہ دوبارہ غسل کرے اور بلا فاصلہ نماز میں مشغول ہو جائے ۔
مسئلہ ۴۶۲۔ اگر استحاضہ والی عورت کا خون جاری رہے اور بند نہ ہو اور اگراس کے لئے مضر نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ غسل سے پہلے اور اسکے بعد روئی کے ذریعہ سے خون کے باہر آنے کو روکے لیکن اگرخون ہمیشہ جاری نہ رہتا ہو تو پھر اسے وضو اور غسل کے بعد خون کو باہر آنے سے روکنا چاہئیے اور اگر سستی کرے اور خون باہر آجائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ غسل کرے اور اگر نماز پڑھ چکی ہو تو اسے بھی دوبارہ پڑھے
مسئلہ۴۶۳۔ اگرغسل کرتے وقت خون نہ رکے تو غسل صحیح ہے لیکن اگر غسل کے درمیان استحاضہ متوسطہ کثیرہ ہوجائے تو غسل کو دوبارہ انجام دے۔
مسئلہ ۴۶۴۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ استحاضہ والی عورت تمام دن روزہ کی حالت میں اس سے جتنا ممکن ہو خون کے باہر آنے کو روکے رکھے۔
مسئلہ ۴۶۵۔ استحاضہ والی کا روزہ جس پر غسل واجب ہو تا ہے اس صورت میں صحیح ہو گا جب کہ وہ نماز مغرب و عشاء کے لئے رات کو جس کے دوسرے دن وہ روزہ رکھنا چاہتی ہو تو غسل بجا لائے اور دن میں ان غسلوں کو جو دن کی نمازوں کے لئے واجب ہیں بجا لائے اگر مغرب وعشاء کی نماز کے لئے تو غسل نہ کرے لیکن تہجد کی نماز کے لئے صبح کی اذان سے پہلے غسل کرے اور دن میں بھی وہ غسل جو دن کی نمازوں کیلئے واجب ہی کرتی رہے تو اس کا روزہ صحیح ہو گا ۔
مسئلہ ۴۶۶۔ اگر عورت عصر کی نماز کے بعد مستحاضہ ہو اور غروب تک غسل نہ کرے تو اس کا اس دن کا روزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۴۶۷۔ اگر استحاضہ قلیلہ والی عورت نماز سے پہلے متوسطہ یا کثیرہ ہو جا ئے تو اس کو متوسطہ یا کثیرہ والے اعمال جو ذکر ہوئے ہیں بجا لانے چاہئیں اور اگر استحاضہ متوسطہ والی عورت کثیرہ ہو جائے تو اسے کثیرہ والے اعمال بجا لانے چاہئیں لہذا اس نے استحاضہ متوسطہ کے لئے غسل کیا ہوا ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اسے کثیرہ کے لئے دوبارہ غسل کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۴۶۸۔ اگر نماز کی حالت میںاستحاضہ متوسطہ والی عورت کثیرہ ہو جائے تواحتیاط واجب کی بنا پر فوراً نماز چھوڑ دے اوراستحاضہ کثیرہ کے لئے غسل کرے اور وضو بھی کرے اور اس کے دوسرے اعمال بجا لائے اور اسی نماز کو پڑھے اور اگر ان میں سے غسل اور وضو کے لئے وقت نہ ہو تو اس کو دو تیمم کر نا چاہیں ایک غسل کے بدلے اور دوسرا غسل کے بدلے اور اگر ان میں سے ایک کے لئے وقت نہ ہو تو وہ ایک کے عوض میں تیمم کرے اور دوسر ے کو بجا لائے ہاں اگر تیمم کے لئے بھی وقت نہ ہو تو وہ نماز کو نہیں توڑ سکتی ہے اسے نماز کو تمام کر نا چاہیئے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کی قضا بجا لائے اور اسی طرح یہی حکم اس استحاضہ قلیلہ والی عورت کا بنے گا جو نماز کی حالت میں متوسطہ یا کثیرہ ہو جائے ۔
مسئلہ ۴۶۹۔ اگر نماز کی حالت میںخون بند ہو جائے اور استحاضہ والی عورت کو علم نہ ہو سکے کہ اندر بھی خون بند ہو چکا ہے یا نہیں اور نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ خون بند ہو چکا تھا تو اسے وضو ، غسل اور نماز کو دوبارہ بجا لانا چاہیئے۔
مسئلہ۴۷۰۔اگر کوئی استحاضہ کثیرہ والی عورت متوسطہ ہو جائے تو وہ پہلی نماز کے لئے کثیرہ والے احکام اور اس کے بعد کی نمازوں کے لئے متوسطہ والے احکام بجا لائے مثلا استحاضہ کثیرہ والی عورت ظہر کی نماز سے پہلے متوسطہ ہو جائے تو نماز ظہر کے لئے اسے غسل کر نا چاہیئے اور برائے نمازعصر ، مغرب وعشاء صرف وضو کرے ہاں اگر نماز کے لئے غسل نہ کرے اور صرف نماز عصر کے لئے وقت باقی ہوتو پھر اسے نماز عصر کے لئے غسل کرنا چاہئیے اورنماز ظھر کا اعادہ کرے اور اگر نماز عصر کے لئے بھی نہ کرے تو نماز مغرب کے لئے غسل کرے اور اگر اس کے لئے بھی غسل نہ کرے اور صرف نماز عشاء کے لئے وقت باقی ہو تو نماز عشاء کے لئے غسل کر نا ہو گا ۔
مسئلہ۴۷۱۔ اگر استحاضہ کثیرہ والی عورت کا خون ہر نماز سے پہلے بند ہو جا تا ہو اور دوبارہ پھر آجاتا ہو تو بنا ء بر احتیاط واجب اسے چاہئیے کہ ہر نماز کے واسطے ایک غسل بجا لائے ۔
مسئلہ ۴۷۲۔ اگر استحاضہ کثیرہ قلیلہ ہو جائے تو پہلی نماز کے لئے کثیرہ والے احکام اور اس کے بعد والی نماز وں کے لئے قلیلہ والے احکام انجام دینے ہوں گے اور اسی طرح استحاضہ متوسطہ قلیلہ ہو جائے تو پہلی نماز کے لئے متوسطہ کے عمل اور اس کے بعد والی نمازوں کے لئے قلیلہ کے عمل بجا لائے ۔
مسئلہ ۴۷۳۔ اگر استحاضہ والی عورت ، ان کاموں میں سے جو اس پر واجب ہیں خواہ روئی کا بدلنا ہی کیوں نہ ہو ایک کام بھی ترک کر دے تو ا سکی نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۴۷۴۔ اگر استحاضہ قلیلہ والی عورت نماز کے علاوہ کوئی دوسرا کام بجا لانا چاہے کہ جس میں وضو کا ہونا شرط ہے مثلااپنے بدن کے کسی حصہ کو قرآن سے مس کر نا چاہے تو نماز کا وقت گزرنے کے بعد اسے وضو کر نا چاہئیے اور وہ وضو کافی نہیں ہے جو نماز کے لئے کر چکی ہے ۔
مسئلہ ۴۷۵۔ اگر استحاضہ والی عورت اپنے اوپر واجب غسلوں کو بجا لائے تو مسجد میں جانا اور مسجد میں ٹھہرنا اور ان سورتوں کا پڑھنا جن میں سجدہ کر نا واجب ہے اس میں اشکال نہیں ہے اور اس کا شوہر اس سے مجامعت بھی کر سکتا ہے اگر چہ دوسرے کام جو مجامعت کے لئے واجب تھے مثلا روئی کا بدلنا اور پٹی کا بدلنا نہ بجا لائی ہو ۔
مسئلہ ۴۷۶۔ اگر استحاضہ کثیرہ یا متوسطہ والی عورت نماز کا وقت داخل ہو نے سے پہلے واجب سجدہ والی سورت پڑھنا چاہے یا مسجد میں داخل ہو ناچاہے یا اسکا شوہر اس سے نزدیکی کر نا چاہے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ غسل کرے اور اگر اپنے جسم کوقرآن سے مس کر نا چاہتی ہو تو غسل کے ساتھ وضو بھی کرے ۔
مسئلہ ۴۷۷۔ استحاضہ والی عورت پر نماز آیات واجب ہے اور اسے آیات کے لئے بھی وہ تمام کام جو نماز یومیہ کے لئے بیان کئے گئے ہیں انجام دینے چاہئیں ۔
مسئلہ ۴۷۸۔ اگر استحاضہ والی عورت پر نماز یومیہ کے وقت میں نماز آیات واجب ہو ئی ہواور وہ چاہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بعد پڑھے تو اسے نماز آیات کے لئے بھی و ہ تمام کام جو نماز یومیہ کے لئے واجب ہیں انجام دینے ہوں گے ،دونوں کو ایک غسل اور ایک وضو کے ساتھ نہیں بجا لاسکتی۔
مسئلہ ۴۷۹۔ اگر استحاضہ والی عورت چاہے کہ قضا نماز یںبجا لائے تو اسے ہر نماز کے لئے ہر وہ کام کر نے ہوں گے جو ادا نماز کے لئے واجب ہیں ۔
مسئلہ۴۸۰۔اگر کسی عورت کو علم ہو کہ جو خون اسے آرہا ہے وہ زخم کا خون نہیں ہے اور شرعا یہ خون حیض و نفاس کے حکم میں بھی نہیں ہے تو استحاضہ والے احکام پر عمل کرے بلکہ اگر اس کو شک وہ کہ یہ خون استحاضہ ہے یا کوئی دوسرا خون اور کسی دوسرے خون کی علامتیں اس میں موجود نہ ہو ں تو بھی اس پر احتیاط واجب اسی میں ہے کہ استحاضہ والے کام انجام دے ۔

حیض
مسئلہ۴۸۱۔ حیض وہ خون ہے جو غالبا ًہر مہینہ میں چند روز عورتوں کے رحم سے خارج ہو تا ہے اور عورت جب خون حیض دیکھے تواسے حائض کہتے ہیں ۔
مسئلہ۴۸۲۔ خون حیض اکثر گاڑھا گرم اور اس کا رنگ سیاہی مائل یا سرخ ہو تا ہے تیزی اورتھوڑاسوزش کے ساتھ باہر آتا ہے۔
مسئلہ۴۸۳۔ سیدانیاں ساٹھ سال کی عمر کے بعد یائسہ ہو تی ہیں یعنی خون حیض آنابند ہو تا ہے اور وہ عورتیں جوسیدانیاں نہیں ہیں پچاس سال کے بعد یائسہ ہو تی ہیں ۔
مسئلہ ۴۸۴۔وہ عورت جسے شک ہو کہ یائسہ ہوئی ہے یا نہیں اگر خون دیکھے اور یہ نہ جانتی ہو کہ یہ حیض ہے یا نہیں تو وہ خون حیض ہے اور وہ یا ئسہ نہیں ہوئی ہے
مسئلہ۴۸۵۔ جس لڑکی کی نو سال عمر ہو نے سے پہلے اور عورت کو یائسہ ہو نے کے بعد جو خون آئے وہ خون حیض نہیں ہے ۔
مسئلہ۴۸۶۔ حاملہ عورت اور بچہ کو دودھ پلانے والی عورت کو خون حیض آناممکن ہے۔
مسئلہ۴۸۷۔ جس لڑکی کو علم نہ ہو کہ اس کی عمر نو سال ہو گئے ہیں یا نہیں وہ اگرایساخون دیکھے کہ جس میں حیض کی علامتیں نہ ہوں تو وہ خون حیض نہ ہو گا اوراگر اس میں خون حیض کی علامتیں موجود ہوں تو وہ خون حیض ہے اور یہ بھی معلوم ہو جا ئے کہ اس کی عمر نو سال پوری ہو چکی ہے ۔
مسئلہ۴۸۸۔ حیض کا خون تین دن سے کم اور دس روز سے زیادہ نہیں ہو تا اور اگر تین دن سے ذرا بھی کم رہ جائے تو وہ حیض نہ ہو گا ۔
مسئلہ۴۸۹۔ ضروری ہے کہ حیض کا خو ن تین دن متصل آئے پس اگر دو دن آئے اور ایک روز رک جائے اور دوبارہ ایک روز آئے تو بناء بر اقویٰ حیض نہیں ہے بناء بر احتیاط مستحب متروکات حیض اور مستحاضہ کے اعمال کو اکٹھا کرے ۔
مسئلہ۴۹۰۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان تین دنوں میں خون باہر نکلتا رہے بلکہ اگر شرمگاہ یا رحم میں خون موجود ہو تو کافی ہے اور ان تینوں دنوں میں تھوڑا رک جائے اور یہ رکنے کی مدت اس قدر کم ہو کہ یہ کہا جائے کہ پورے تین دنوں میں خون شرمگاہ یا رحم میں تھا پھر بھی یہ خو ن حیض ہوگا نیز حکم شرعی کی تطبیق میں مسامحہ عرفی قابل اعتبار نہیں ۔
مسئلہ۴۹۱۔ یہ لازم نہیں ہے کہ اول رات اور چوتھی رات میں خوناآئے البتہ دوسری اور تیسری شب میں خون بند نہیں ہو نا چاہئیے پس پہلے دن کی صبح کی اذان سے لے کر تیسرے دن مغرب تک متواتر خون جاری رہے یا پہلے دن کے درمیان میں خون جاری ہو اور کسی موقع پر چوتھے دن خون رک جائے بند ہو جائے اور دوسری تیسری اور چوتھی رات میں بھی خون بند نہ ہو تو یہ خون حیض ہو گا ۔
مسئلہ۴۹۲۔ اگر عورت کو تین دن مسلسل خون آتا رہا ہواور پھر رک جائے اور پھر دوبارہ خون آجائے اور یہ تمام دن جن میں خون آتا رہااور وسط میں رک گیا اور یہ سب دس دن سے زیادہ نہ ہو تو درمیان والے وہ دن جن میں خون رک گیا تھا حیض ہے ۔
مسئلہ۴۹۳۔اگر عورت تین دن سے زیادہ اور دس دن سے کم خون دیکھے اور اسے معلوم نہ ہو کہ یہ پھوڑے کا خون ہے یا خون حیض ہے اگر ا سے حیض کا اطمینان حاصل ہو جائے تو حیض ہو گا ۔
مسئلہ۴۹۴۔ اگر کوئی عورت خون دیکھے اور اسے معلوم نہ ہو کہ یہ حیض کا خون ہے یا زخم کا خون ہے تو احتیاط کی بناء پر تمام چیزوں کو جو حائض پر حرام ہیں ترک کرے اور ان تمام عبادتوں کو جو غیر حائض عورت انجام دیتی ہے بجا لائے ۔
مسئلہ۴۹۵۔ اگر عورت کو خون آئے اور شک کرے کہ یہ حیض کا خون ہے یا استحاضہ کا تو اگرحیض کی علا متیں موجود ہوں تو خون حیض قرار دینا چاہئیے ۔
مسئلہ۴۹۶۔ اگر عورت کو خون آئے لیکن معلوم نہ وہ کہ یہ حیض کا خون ہے یا بکارت کا تو چاہئیے کہ وہ خود تحقیق کرے یعنی تھوڑی روئی شرمگاہ میں رکھ کر ٹھہر جائے اور پھر اسے باہر نکالے پس اگر اس کے اطراف میں خون لگا ہو اہو تو وہ خون بکارت ہے اور اگر تمام روئی آلودہ ہو تو وہ خون حیض ہو گا جب کہ خون بکارت اتنا زیادہ نہ ہو کہ جو حیض کے ساتھ مشتبہ ہو جائے ۔
مسئلہ۴۹۷۔ اگر عورت کو تین دن سے کم خون آئے اور پھر رک جائے اور پھر تین دن خون آئے تو دوسری دفعہ کا خون حیض ہے اور پہلے مرتبہ کا خون عادت کے ایام میں بھی آیا ہو توخون حیض نہیں ہو گا ۔

احکام حائض
مسئلہ۴۹۸۔ چند چیزیں حیض والی عورت پر حرام ہیں ۔
(۱)وہ عبادتیں (مثل نماز)جن کے لئے وضو یا غسل یا تیمم بجا لا نا چاہئیے البتہ ان عبادتوں کے بجا لانے میں جن میں وضو یا غسل یا تیمم لازم نہیں ہے۔مثلا نماز میت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
(۲)وہ تمام چیزیں جو جنب شخص پر حرام ہیں اور جن کو احکام جنابت میں بیان کیا گیا ہے ۔
(۳)عورت کی شرمگاہ میں جماع کر نا جو مرد کے لئے بھی حرام ہے اور عورت کے لئے بھی حرام ہے اگر چہ بمقدار ختنہ گاہ داخل کرے اور منی بھی باہر نہ آئے بلکہ احتیاط واجب تویہ ہے کہ ختنہ گاہ سے کم مقدار بھی داخل نہ ہو اور اگرحیض والی عورت کے پاخانہ کے مقام میں بھی جماع نہ کرے البتہ شوہر کے لئے دوسرے کام مثلا بوسہ لینا یا پیار کر نا منع نہیں ہے ۔
مسئلہ۴۹۹۔ ان دنوں میں بھی جب کہ عورت کا حائض ہو نا یقینی نہیں ہے لیکن شرعا اس کا فریضہ ہو کہ ان دونوں کو بھی حیض قرار دے تو جماع کر نا حرام ہے پس وہ عورت کہ جو دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور وہ قاعدہ جو بعد میں بیان ہو گا کہ وہ اپنے اشتہ داروں کی عاد ت کے دنوں کو حیض قرار دے تو ا سکا شوہر ان دنوں میں اس کے ساتھ جماع نہیں کر سکتا ۔
مسئلہ۵۰۰۔ اگرعوت کے حیض کے دنوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے اور مرد ان دنوں کے پہلے حصہ میں اپنی عورت سے شرمگاہ میں جماع کرے تو احتیاط یہی ہے کہ اسے ۱۸ نخود (۶.۳ماشہ)سونا کفارہ فقراء کو دینا ہو گا اور اگر دوسرے حصہ میںجماع کرے تو ۹ نخود (۸.۱ماشہ)سونا کفارہ ہوگا اور تیسرے حصہ میں جماع کرے تو ۵.۴ نخود (۹.۰ماشہ )سونا کفارہ دینا ہو گا مثلا اگر کسی عورت کو چھ دن خون حیض آتا ہو تو اگر اس کا شوہر پہلی اور دوسری رات یا پہلے اور دوسرے دن میں اس سے جماع کرے تو ا سکو ۳۶ماشہ دینا ہو گا اور اگر تیسری اور چوتھی رات میں یا تیسرے اور چوتھے دن میں ۱۸ماشہ اور پانچویں اور چھٹی رات میں یا پانچویں اور چھٹے دن میں ۹ ماشہ سونا کفارہ دے ۔ احتیاط کی بناء پر پاخانہ کے مقام کو استعمال کرنے کی صورت میں بھی کفارہ دینا ہو گا ۔
مسئلہ۵۰۱۔اگر مرد جان بوجھ کر اپنی حیض والی عورت سے نزدیکی کرے تو ا حتیاط مستحب کی بنا پر کفارہ دے اور اگر اسے علم نہ ہو تو کفارہ نہیں ہے ۔
مسئلہ۵۰۲۔کفارہ کا سکہ دارسونے کی شکل میں دینا لازم نہیں ہے بلکہ اگر وہ چاہے اس کی قیمت ادا کرے تو دے سکتا ہے ۔
مسئلہ۵۰۳۔اگر سونے کی قیمت جماع کرتے وقت اور فقیر کو دینے کے وقت مختلف ہو جائے تو پھر وہ قیمت دے گا کہ جو فقیر کو دیتے وقت معتبر ہو گی۔
مسئلہ۵۰۴۔ اگر کوئی شخص حیض کے پہلے حصہ میں بھی اور دوسرے حصہ میں بھی اور تیسرے حصہ میں بھی اپنی عورت سے جماع کرے تو پھر اسکو تینوں کفارہ ساڑھے اکتیس چنا کے برابرسونا دینا پڑے گا ۔
مسئلہ۵۰۵۔اگر کوئی شخص حیض کی حالت میں مجامعت کرے اور اسکا کفارہ ادا کر دے اور پھر دوبارہ مجامعت کرے تو اسے دوبارہ کفارہ بھی دینا ہو گا ۔
مسئلہ۵۰۶ اگر کوئی شخص کسی حیض والی عورت سے چند بار جماع کرے اور ان کے درمیان میں کفارہ نہ دے تو احتیاط مستحب یہی ہے کہ ہر مجامعت کے لئے ایک کفارہ ادا کرے ۔
مسئلہ۵۰۷۔اگر کسی مرد کو جماع کی حالت میں معلوم ہو جائے کہ عورت حیض میں ہے تو اسکو اس سے فوراً علیحدہ ہونا چاہیئے اور اگر فوراً علیحدہ نہ ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر کفارہ ادا کرے ۔
مسئلہ۵۰۸۔ اگر کوئی نعوذ باللہ کسی حیض والی عورت کے ساتھ زنا کرے یا کسی حیض والی نامحر م عورت کو اپنی بیوی سمجھ کر جماع کرے تو احتیاط مستحب یہی ہے کہ کفارہ ادا کرے ۔
مسئلہ۵۰۹۔جو شخص کفارہ نہیں دے سکتا اگر کفارہ لاگو ہونے کے وقت استطاعت نہیں رکھتا تھا تو استغفار کرے لیکن اگر استطاعت رکھتا تھا اور بعد میں کفارہ ادا کرنے سے عاجز ہو گیا ہو تو جب بھی کفارہ دینے پر قادر ہو کفارہ ادا کرے ۔
مسئلہ۵۱۰۔اگر عورت کہے کہ میں حیض میں ہوں یا حیض سے پاک ہو چکی ہوںتو اسکا قول قبول کرنا چاہیئے جبکہ اس کے جھوٹ بولنے کا علم نہ ہو ۔
مسئلہ۵۱۱۔اگر کسی عورت کونماز کی حالت میں خون حیض آجائے تو اس کی وہ نماز باطل ہو جائے گی ۔
مسئلہ ۵۱۲۔عورت کو حیض کی حالت طلاق دینا حرام ہے (اسکی تفصیل احکام طلاق میں بیان کی جائے گی )۔
مسئلہ۵۱۳۔اگر کسی عورت کو نماز کی حالت میں شک ہو جائے کہ اسے حیض آیا ہے یا نہیں تو اسکی نماز صحیح ہے ہاں اگر نماز کے بعد معلوم ہو کہ نماز پڑھنے کی حالت میں اسے حیض آچکا تھا تو جو نماز وہ پڑھ چکی ہے وہ باطل ہے ۔
مسئلہ۵۱۴۔جب عورت حیض سے پاک ہو جائے تو اس پر نماز اور دوسری عبادتیں کہ جن میں وضو یا غسل یا تیمم بجا لانا چاہیئے ان کے لئے وہ غسل کرے اور غسل حیض کا طریقہ وہی ہے جو غسل جنابت کا ہے لیکن اسے نماز کے لئے غسل سے پہلے یا سکے بعد وضو بھی کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ۵۱۵۔جب عورت حیض سے پاک ہو جائے تو اگر چہ ابھی غسل نہ کیا ہو اس کو طلاق دینا صحیح ہے اور اسکا شوہر اس سے مجامعت بھی کر سکتا ہے لیکن احتیاط موکد یہ ہے کہ غسل کرنے سے پہلے عورت اپنے مقام کو پاک کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ غسل سے پہلے شوہر اس سے مجامعت نہ کرے لیکن دوسرے کام جو اس پر حیض کی حالت میں حرام تھے مثلاً مسجد میں ٹھہرنا یا خط قرآن کو مس کرنا جب تک غسل نہ کرے اس کے لئے حلا ل نہیں ہو ں گے ۔
مسئلہ۵۱۶۔اگر پانی غسل اور وضو دونوں کے لئے کافی نہ ہوں لیکناس قدر ہوکہ یا غسل کرسکتی ہے یا وضو کرسکتی ہے تو اسکے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ غسل کرے اور وضو کے بدلے تیمم کرے اور اگر پانی صرف وضو کے لئے کافی ہو اورا س سے غسل نہ ہو سکتا ہو تو اسے وضو کرنا چاہیئے اور غسل کے بدلے تیمم کرے اور اگر پانی وضو اور غسل کسی ایک کے لیے بھی کافی ہو نہ ہو تو پھر اسے دو تیمم کرنا چاہیئے ایک غسل کے بدلے اور دوسرا وضو کے بدلے ۔
مسئلہ۵۱۷۔نماز پنجگانہ جو عورت نے حیض کی حالت میں نہیں پڑھیں ان کی قضا نہیں ہے لیکن وہ واجب روزے جو حیض کی وجہ سے چھوڑے ہیں ان کی قضا کرے ۔
مسئلہ۵۱۸۔جب کسی نماز کا وقت داخل ہو جائے اور عورت کو معلوم ہو کہ اگر اس نے نماز کو تاخیر میں ڈالا تو اس وقت اسے کون حیض آ جائے گا اسے فوراً نماز پڑھنی چاہیئے ۔
مسئلہ۵۱۹۔ اگر کوئی عورت نماز میں تاخیر کرے اور شروع وقت سے ایک نماز کے واجبات کی انجام دہی کا وقت گزا ر دے اور پھر اسے حیض آجائے تو اس نماز کی قضا اس پر واجب ہے لیکن تیز پڑھنے اور اہستہ پڑھنے میں اور دوسری چیزوں میںوہ خود اپنے طریقہ کا خیال کرے مثلا ً وہ عورت جو مسافر نہیں ہے اگر وہ ظہر کی نماز اول وقت میں نہ پڑھے تو اس نماز کی قضا اس وقت واجب ہوگیکہ چار رکعت نماز پڑھنے کا وقت اول ظہر سے گذر جائے اسی طریقہ سے جو بیان کیا گیا ہے اور وہ حائض ہو جائے اور جو مسافر ہے اس کے لئے صرف دو رکعت نماز پڑھنے کا وقت گذرنا کافی ہے ۔
مسئلہ۵۲۰۔اگر کوئی عورت نماز کے آخر وقت میں حیض سے پاک ہو جائے اورا سے اتنا وقت نہ مل سکے کہ غسل اور وضو اور دیگر شرائط نماز مثلا ً لباس مہیا کرنا یا س کا پاک کرنا اور ایک رکعت نماز پڑھنے سے زیادہ وقت ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ نماز پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اسے اسکی قضا بجا لا نا چاہیئے اور اگر غسل یا وضو کرنے کے بعد ایک رکعت کا وقت پا لیتی ہے تو نماز ادا پڑھے اور اگر بہ پڑھے تو قضا کرنا پڑے گی ۔
مسئلہ۵۲۱۔اگر حیض والی عورت کے لئے غسل اور وضو کے لئے وقت نہیں ہے لیکن تیمم کرکے نماز کو وقت کے اندر پڑھ سکتی ہے تو یہ نماز اس پر واجب ہے لیکن اگر تنگی وقت سبب نہ ہو اور پھر بھی اس کا شرعی فریضہ تیمم کرنا ہو مثلا ً پانی کا استعمال اس کے لئے نقصان دہ ہو تو وہ تیمم کرے اور اس نماز کو بجا لائے ۔
مسئلہ۵۲۲۔اگر حیض والی عورت پاک ہو ک ہونے کے بعد شک کرے کہ نماز کے لئے وقت ہے یا نہیں تو اسے نماز پڑھنا چاہیئے۔
مسئلہ۵۲۳۔ اگر عورت نے نماز کو اس واسطے نہ پڑھا کہ شرائط نماز اور ایک رکعت پڑھنے کا وقت باقی نہیں ہے لیکن بعد میں معلوم ہو جائے کہ ان کے لئے وقت تھا تو اس نماز کی قضا بجا لائے ۔
مسئلہ۵۲۴۔جس عورت خو ن حیض آ رہا ہے تو اسکے لئے مستحب ہے کہ نماز کے وقت اپنے آپ کو خون سے پاک کرے اور روئی اور پٹی کو بدل دے اور وضو کرے اور اگر وضو نہ کر سکے تو رجاء مطلوبیت کے قصد سے تیمم کرنا چاہیئے اور جائے نماز پر قبلہ کی طرف منھ کر کے بیٹھے اور ذکر ، دعا اور صلوٰۃ میں مشغول رہے۔
مسئلہ۵۲۵۔جس عورت کو حیض آرہا ہو اس کے لئے قرآن کا پڑھنا یا اپنے ساتھ رکھنا اور بدن کے حصہ کو قرآن کے حا شیوں یا سطروں کے درمیان مس کرنا مہندی وغیرہ سے خضاب کرنا مکروہ ہے ۔

حائضہ کی قسمیں
مسئلہ۵۲۶۔ جن عورتوں کو حیض کا خون آتا ہے ان کی چھ قسمیں ہیں ۔
(۱)وقت اور عدد دونوں کی عادت رکھنے والی عورت یہ وہ عورت ہے جسے دو مہینے برابرایک وقت معین میں حیض کا خون آئے اور دونوں مہینوں میں خون کے آنے کے دن بھی برابر ہوں مثلاً دو مہینے برابر پہلی سے ساتویں تک خون آئے۔
(۲)وقت کی عادت رکھنے والی یہ وہ عورت ہے جسے دو مہینے برابر ایک وقت معین میں حیض کا خون آ جائے لیکن دونوں مہینے میں حیض کے خون آنے کے دن برابر نہ ہوں مثلاً دو مہینے برابر پہلی تاریخ کو خون آئے لیکن پہلے مہینے میں ساتویں کو اور دوسرے مہینے میں آٹھویں کو خون بند ہو جائے ۔
(۳)عدد کی عادت رکھنے والی ۔ یہ وہ عورت ہے کہ جسے دو مہینے برابر ایک اندازہ سے برابر حیض کا خون آئے لیکن ان دونوں مہینوں میں خون کے آنے کا وقت ایک نہ ہو مثلا ً پہلے مہینے میں پانچویں سے دسویں تک اور دوسرے مہینے میں بارہویں سے سترہویں تک خون آئے۔
(۴)بغیر عادت والی یہ وہ عورت ہے کہ جسے چند مہینے سے خون آرہا ہو لیکن اس کے لئے کوئی معین عادت نہ بن سکی ہو یا اسکی عادت ٹو ٹ گئی ہو اور تازہ عادت نہ بن سکی ہو۔
(۵)ابتداء کرنے والی عورت یہ وہ عورت ہے جو پہلی دفعہ خون حیض دیکھ رہی ہو
(۶)بھولنے والی عورت یہ وہ عورت ہے کہ جو اپنی عادت کو بھول گئی ہو ان اقسام میں سے ہر ایک کے علیحدہ علیحدہ احکام ہیں جو آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے ۔

(۱)وقت اور عدد کی عادت رکھنے والی عورت
مسئلہ ۵۲۷۔جن عورتوں کی وقت اور عدد والی عادت ہو تی ہے ان کی تین قسمیں ہیں ۔
(۱)وہ عورت جو دو ماہ برابرایک وقت معین میں خون دیکھے اور ایک ہی وقت میں پاک ہو جائے مثلا دو مہینہ برابر مہینہ کی ہؤپہلی تاریخ کو خون آئے اور ساتویں تاریخ کو بند ہو جائے اس عورت کی حیض کی عادت پہلی سے ساتویں تاریخ تک ہے ۔(۲)وہ عورت ہے جو خون سے پاک نہیں ہو تی لیکن دو مہینہ میں برابر چند روز معین ایسے ہیں مثلا مہینہ کی پہلی سے آٹھویں تک کہ جو خون آتا ہے اس میں حیض کی علامتیں ہیں یعنی گاڑھا ، سیاہ اور گرم ہو تا ہے اور دباؤ کے ساتھ اور جلن سے باہر آتا ہے اور باقی دنوں کے خون میںاستحاضہ کی علامتیں ہو تی ہیں تو اس کی عادت پہلی سے آٹھویں تک ہو گی ۔(۳)وہ عورت ہے جسے دو مہینہ برابر ایک معین وقت میںحیض کا خون آئے اس طرح سے کہ تین روز یا اس سے زیادہ خون آئے پھر ایک دن یا ایک دن سے زیادہ رک جائے اور پھر دوبارہ خون آئے یہ تمام دن کہ جن میں خون آیا ہے اور وہ درمیانی دن کہ جس میں رک گیا ہے دس دن سے زیادہ نہ ہوں اور دومہینوں میں جتنا بھی خون آیا ہو اور درمیان میں بند ہو گیا ہو ۔ مجموعی طور سے ایک اندازہ پر ہوں کہ اس کی عادت تمام خون آنے والے دنوں اور درمیان میں بند ہو جانے والے دن ہیں اور لازم نہیں کہ اس درمیان میں خون رکنے والے دن دونوں مہینوںمیں ایک اندازہ پر ہوں مثلا پہلے مہینہ میں پہلی سے تیسری تک خون آئے اور تین دن بند ہو جائے اور دوبارہ تین دن خون آئے اور دوسرے مہینہ میں تین دن خون آنے کے بعد تین دن یا کم یا زیادہ بند رہا وہ اور دوبارہ خون آیا ہو اور اس کا مجموعہ نو دن سے زیادہ نہ ہو یہ سب خون حیض ہے اور اس عورت کی عادت نو دن ہو گی ۔
مسئلہ ۵۲۸۔ جس عورت کی وقت اور عدد کی عادت ہو ، اگر عادت کے وقت یا دو تین دن پہلے یا دو تین بعد میں خون آئے لیکن اس طرح ہو کہ کہا جاسکے کہ حیض کچھ پہلے آگیا ہے یا بعد میں اگر چہ اس خون میں حیض کی علامتیں موجود نہ ہوں تو اسے چاہئیے کہ ان احکام پر جو حیض والی عورت کے لئے بیان کئے گئے ہیں عمل کرے اور اگر بعد میں معلوم ہو کہ وہ حیض کا خون نہیں تھا مثلا یہ کہ تین دن سے پہلے بند ہو جائے توجوعبادت بجا نہیں لائی ان کی قضا ء بجا لائے ۔
مسئلہ۵۲۹۔ جس عورت کی وقت اور عدد کی عادت ہو (۱)اگر عادت سے چند دن پہلے اورعادت کے تمام دنوں میں اور عادت کے چند دنوں کے بعد خون آئے اور ان کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہوں تو پھر تمام حیض کا خون ہو گا اور (۲)اگر یہ مجموعہ دس دن سے زیادہ ہو تو صرف اپنی عادت کے دنوں میں جو خون دیکھا ہے وہ حیض ہو گا اور جو خون اس سے پہلے یا اس کے بعد دیکھا وہ استحاضہ ہو گا اور جو عبادات ان عادت کے دنوں سے پہلے اور عادت کے بعد بجا نہیں لائی تھی ا ن کی قضا ء کرے (۳)اگر عادت کے تمام دنوں میں یا عادت کے چند دن پہلے خون آئے اور اسکا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو تو پھر وہ تمام حیض ہے اور (۴)اگر دس دن سے زیادہ ہو جائے تو عادت والے دن حیض ہو ں گے اور جو خون اس سے قبل دیکھا ہے استحاضہ ہوگااگر ان دنوں میں عبادت چھوڑ دی تو قضاء بجا لائے اور(۵)اگر عادت کے تمام دنوں میں یا عادت کے چند دنوں بعدخون آئے اور اس کا مجموعہ بھی دس دن سے زیادہ نہ ہو تو پھر وہ سب حیض ہے اور اگر زیادہ ہو جائے تو عادت کے دن حیض اور باقی دن استحاضہ ہیں ۔
مسئلہ۵۳۰۔جس عورت کی عادت وقت اورعدد والی ہو ، اگر عادت کے چند دنوں میں اور عادت سے چند دن پہلے خون آئے اور ان کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو تو یہ تمام حیض ہے اور اگر دس دن سے زیا دہ ہو جائے تو عادت والے دنوں میں جو خون آئے اس سے چند دن پہلے کہ ان کا مجموعہ اس کی عادت کے مقدار کے مطابق ہو جائے وہ حیض ہے اور پہلے دنوں کو استحاضہ قرار دے گی ۔
مسئلہ۵۳۰۔ جس عورت کی عادت وقت اورعدد والی ہو ، اگر عادت کے چند دنوں اور عادت عادت کے چند دن بعد خون آئے اور اس کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو یہ سب حیض ہے اور اگر زیادہ ہو جائے تو جن عادت کے دنوں میں خون آیا اور اسکے چند دن بعد کا مجموعہ مقدار اس کی عادت کے دن شمار ہوں تو حیض ہے اور باقی کے دنوں کو استحاضہ قرار دے۔
مسئلہ ۵۳۲۔ جو عورت عادت والی اور وقت والی ہواگر اسے تین دن یا اس سے زائد خون آنے کے بعد رک جائے اور پھر دو با رہ خون آجائے اور دونوں خونوں کے درمیان کا فاصلہ دس دن سے کم ہو اور وہ تمام دن جن میں خون آیا اور وہ دن جن درمیان میں خون نہیں آیا، مجموعی طور سے دس دن سے زیادہ ہو جائیں مثلا پانچ روز خون آئے اور پانچ روز بند رہے اور دوبارہ پھر پانچ روز خون آئے تو اس کی چند صورتیں ہو سکتی ہیں(۱)پہلی دفعہ جو خون آیا اس کا کچھ حصہ یا وہ سب عادت کے دنوں میں ہو اور دوسرا خون کہ جو رکنے کے بعد آئے وہ عادت کے دنوں میں نہ ہو اس صورت میں پہلی دفعہ کا تام خون حیض ہو گا اور دوسری دفعہ کا خون استحاضہ قرار دے (۲)پہلی دفعہ کا خون عادت کے دنوں میں نہ ہو اور دوسری دفعہ کا سارا خون یا اس کا کچھ حصہ عادت کے دنوں میں آئے تو اس دفعہ دوسری دفعہ تمام خون حیض ہو گا اور پہلی دفعہ کا خون استحاضہ ہو گا (۳)پہلی اور دوسری دفعہ کا کچھ خون عادت کے دنوں میں آئے اور پہلی دفعہ کا خون جوعادت کے والے دنوں میں آئے تین دن سے کم نہ ہو اور درمیانی مدت جس میں خون رک گیا ہو تو دوسری دفعہ کا کچھ حصہ کہ وہ بھی عادت والے دنوں میں تھااور سب مل کر دس دنوں سے زیادہ نہ ہوں تو اس صورت میں یہ سب خون حیض ہے پہلے دفعہ کا کچھ حصہ کے عادت والے دنوں اور دوسری دفعہ کا کچھ حصہ جو عادت والے دنوں کے بعد تھا استحاضہ ہے مثلا اگر کسی عورت کی عادت کے مہینے کی تیسری سے لے کر دسویں تک ہو تو جب کہ ایک مہینہ میں اسے پہلی سے لے کر چھٹی تک خون آئے اور پھر دو دن خون نہ آئے اور پھر پندرہویں خون آتا رہے تو تو تیسری سے دسویں تک حیض ہے اور پہلی سے تیسری تک اور اسی طرح تیسری سے پندرہویں تک استحاضہ ہو گا ۔(۴)یہ کہ پہلے اور دوسرے خون کا کچھ حصہ عادت میں ہولیکن پہلا خون جو عادت کے دنوں میں تھا وہ تین دن سے کم ہو تو عورت کو چاہئیے کہ خون کے دنوں میں اور درمیان کے دنوں میں جب کہ خون رک گیا تھا ، وہ کام نہ کرے جو حیض والی عورت پر حرام ہو تے ہیں اور جو پہلے بیان کئے گئے ہیں اور استحاضہ کے کاموں کو بجا لائے یعنی جس طریقہ سے استحاضہ والی عورت کے لئے بیان کیا گیا ہے اپنی عباتوں کو بجا لائے ۔
مسئلہ ۵۳۳۔ جس عورت کی و قت اور عدد والی عادت ہے اگر اسے عادت کے دنوں میں خون نہ آئے اور دوسرے دنوں میں اس کے حیض کے دنوں کے مطابق خون آئے تو اسے چاہئیے کہ اسی کو حیض قرار دے خواہ یہ خون عادت کے وقت سے پہلے آیا ہو یا بعدمیں ۔
مسئلہ ۵۳۴۔ جس عورت کی عادت وقت اور عدد والی ہے اگر اسے اپنی عادت والے دنوں میں خون آئے لیکن دنوں کی تعداد اس کے عادت والے دنوں سے کم تر یا زیادہ ہواور پاک ہوجانے کے بعد دوبارہ اس کی عادت کے دنوں کے مطابق خون آئے تو سب دنوں کو ملا کر حیض قرار دے اور اگر اپنی عادت کے ایام سے پہلے اپنی عادت کے دنوں کی مقدار خون دیکھے اور عادت کے دنوں میں بھی اسے خون آئے تو اگر دونوں خونوں کے درمیان فاصلہ دس دن یا زیادہ ہو تو دونوں مرتبہ حیض قرار دے اور اگر فاصلہ کم ہے اور مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہیں تو بھی سب کو حیض قراردے اور اگر فاصلہ کم ہو لیکن مجموعاً دس دن سے زیادہ ہو تو اپنی عادت کے دنوں کو حیض قرار دے ۔
مسئلہ ۵۳۵۔جس عورت کی عادت وقت اور عدد والی ہے اگر اسے دس دن سے زیا دہ خون آئے تو جو خون عادت والے دنوںمیںآیا ہو اگر چہ اس میں حیض کی علامتیں نہ ہوں وہ حیض ہے اور جو خون عادت والے دنوں کے بعد آیا اگر چہ اس میں حیض کے خون کی علامتیں موجود ہوں وہ استحاضہ ہے مثلا کسی عورت کی حیض کی عادت مہینہ کی پہلی سے ساتویں تک ہے اگر اسے پہلی سے باہویں تک خون آئے تو اس کے پہلے سات دن حیض اور اسکے بعد کے پانچ دن استحاضہ ہوں گے۔


۲۔وقت کی عادت والی عورت
مسئلہ۵۳۶۔ وہ عورتیں جن کی عادت وقت والی ہے ۔ ان کی تین قسمیں ہیں ۔
(۱)وہ عورت جسے دو ماہ برابر ایک ہی معین وقت پر حیض کا خون آئے اور چند دن کے بعد پاک وہ جائے لیکن دونوں مہینوں میں اس کے دنوں کی تعداد ایک طریقہ پر نہ ہو مثلا دو مہینہ تک مسلسل پہلی تاریخ کوخون آئے لیکن پہلے مہینہ میں ساتویں اور دوسرے مہینہ میں آٹھویں کو بند ہو جائے اس عورت کو چاہئیے کہ مہینہ کی پہلی تاریخ کو اپنے حیض کی عادت قرار دے ۔(۲)وہ عورت جو خون سے پاک نہ ہو تی ہو ، لیکن دو ماہ برابرمعین وقت اس کے خون میں حیض کی علامتیں ہوںیعنی گاڑھا سیاہ اور گرم ہو اور تیزی اور جلن کے ساتھ باہر آئے اور باقی خون میں استحاضہ کی علامتیں شامل ہو ں اور ان دونوں کی تعداد جس میں اس کے خون میں حیض کی علامتیں ہیں دونوں مہینہ میں ایک اندازہ پرنہ ہوںمثلا پہلے مہینہ کی پہلی سے ساتویں تک اور دوسرے مہینہ میں پہلی سے آٹھویں تک اس کے خون میں حیض کی علامتیں ہوں اور باقی دنوں میں استحاضہ کی علامتیں ہوں تو ایسی عورت کو بھی چاہئیے کہ مہینہ کی پہلی تاریخ کو اپنی حیض کی عادت کا پہلا دن قرار دے۔
(۳)وہ عورت کے جسے دو مہینے برابر وقت معین میں تین دن یا زائد خون حیض آئے اور اس کے بعد رک جائے اور پھر خون دیکھے اور وہ تمام دن جن میں خون آیا اور بیچ کے وہ دن جن میں خون رکا رہا سب دس دن سے زیادہ نہ ہوں لیکن دوسرے مہینہ میں پہلے مہینہ سے کم یا زیادہ ہو مثلا پہلے مہینہ میں آٹھ دن اور دوسرے مہینہ میں نو دن تو اس عورت کو بھی چاہئیے کہ پہلی تاریخ کو اپنے حیض کی عادت کا پہلا دن قرار دے ۔
مسئلہ۵۳۷۔جس عورت کی وقت والی عادت ہو ، اگر اپنی عادت کے وقت میں یا اپنی عادت سے دو تین دن پہلے یا دو تین دن بعد اسے خون آئے اس طرح سے کہ کہا جائے کہ اس کا حیض وقت سے قبل آگیا ہے یا بعد میں آیا ہے تو اگر چہ کہ اس کا خون میں حیض کی علامتیں نہ ہوں ، چاہئیے کہ حیض والی عورتوں کے لئے جو احکام بیان ہو چکے ہیں ان پر عمل کرے اور اگر بعد میں معلوم ہو کہ وہ حیض نہیں تھا مثلا ًتین دن سے پہلے رک جائے تو ا سکو چاہئیے کہ وہ عبادت جو بجا نہیں لائی قضا کرے۔
مسئلہ ۵۳۸۔ جس عورت کو وقت والی عادت ہے اگر اسکو دس روز سے زیادہ خون آئے اور حیض کی اس کی علامت کے ذریعہ پہچان نہ سکے تو اسے چاہئیے کہ اپنی رشتہ دار عورتوں کی عادت والی تعداد کو حیض قرار دے ۔خواہ رشتہ دار باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف مردہ ہو یا زندہ ہوں ہاں ان کی عادت کو اپنے حیض کی عادت اس صورت میںقرار دے سکتی ہے جب کہ ان سب رشتہ دار عورتوں کے حیض کے دنوں کی تعداد ایک اندازہ پر ہوں اور اگر ان کے حیض کے دنوں کی تعداد ایک اندازہ پر نہ ہو مثلا بعض کی عادت پانچ روز بعض کی عادت سات دن تو یہ عورت ان کی عادت کو اپنا حیض قرار نہیںدے سکتی مگر وہ عورتیں جن کی عادت دوسروں سے مختلف ہوںان کی تعداد اتنی کم ہو کہ ان کے مقابلہ میں ان کا شمار نہ ہو تو اس صورت میں ان اکثر عورتوں کی عادت کو اپنا حیض قرار دے۔
مسئلہ۵۳۹۔ جس عورت کی وقت والی عادت ہو اور اپنے رشتہ دار عورتوں کی عادت کو اپنے حیض کی عادت قرارد ے تو اسے چاہئیے کہ ہر مہینہ میں جو اس کی عادت کا پہلا دن ہو اس کو اپنے حیض کی پہلی تاریخ قرار دے مثلا جس عورت کو ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو خون آئے جو کبھی ساتویں کو اور کبھی آٹھویں کو بند ہو جائے تو اگر ایک مہینہ میں بارہ دن خون آئے اور اسکے رشتہ دار عورتو ں کی عادت سات دن ہو تو اسے چاہئیے کہ مہینہ کے پہلے سات دن حیض اور باقی دنوں کو استحاضہ قرارد ے۔
مسئلہ۵۴۰۔ جس عورت کی وقت والی عادت ہو اس کو چاہئیے کے اپنے رشتہ دار عورتوں کی عادت کی تعداد کو اپنا حیض قرارد ے اگر اس کی کوئی رشتہ دار عورت نہ ہو یا ان کی عادت کی تعداد ایک نہ ہو اس کو چاہئیے کہ ہر مہینہ میں جس دن سے خون آئے سات دنوں کو حیض اور باقی دنوں کو استحاضہ قرار دے لیکن اگر درمیان یا آخر کے دنوں کے خون میں حیض کی علامتیں زیادہ ہو تو درمیان یا آخر کے سات دنوں کو حیض قرارد ے۔



۳۔ عدد کی عادت رکھنے والی عورت
مسئلہ۵۴۱۔ جن عورتوں کی عادت عدد والی ہو تی ہے ان کی تین قسمیں ہیں ۔
(۱)وہ عورت جس کے دو ماہ برابر حیض کے خون آنے کے دنوں کی تعداد برابر ہو لیکن اس کے خون دیکھنے کا وقت مختلف ہو اس صورت میں جتنے دن بھی خون آئے وہ اسکی عادت ہو گی ۔مثلا اگر پہلے مہینہ میں پہلی تاریخ سے پانچویں تک اور دوسرے مہینہ میں گیارہ تاریخ سے پندرہ تاریخ تک خون آئے تو اس کی عادت پانچ دن ہو گی ۔
(۲)وہ عورت جو خون سے پاک نہ ہو دو ماہ برابر کچھ روز خون آئے اس میں حیض کی علامتیں ہوں اور باقی دنوں میں استحاضہ کی علامتیںہوں اور دونوں مہینوں میں ان دونوںتعداد میں جب خون حیض کی علامتیں ہوں برابرہو لیکن وقت برابر نہ ہوں اس صورت میں دونوں کی وہ تعداد جس میں خون حیض کی علامت ہو اسکی عادت ہو گی مثلا ًایک مہینہ پہلی تاریخ سے پانچویں تک اور ایک مہینہ بعد گیارہوں سے پندرہوں تک اس کے خون میں حیض کی علامت اور باقی کے خون میں استحاضہ کی علامت ہو تو اس کی عادت کے دنوں کی تعداد پانچ دن ہو گی ۔
(۳)وہ عورت جسے دو مہینے برابر تین یا زائد خون آئے ایک دن یا زائد رک جائے پھر دوبارہ خون آئے اور پہلے یا دوسرے مہینے میں خون دیکھنے میں فرق ہو جائے کہ اگر وہ تمام دن جن میں خون آیا اور بیچ کے وہ دن جن میں رکا رہا سب دس روز سے زیادہ نہ ہوں اور ان دونوں کی تعداد بھی ایک اندازہ پر ہو تو وہ تمام دن جن میں آیا اور بیچ کے دن کہ جن میں رکا رہا سب دن اس کے حیض کی عادت میں شمار ہوں گے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ بیچ کے وہ دن کہ جن میں خون رکا رہا دونوں مہینوں میں ایک اندازہ پر ہو مثلاً اگر پہلے مہینے میں پہلی تاریخ سے تیسری تک خون آئے اور دو دن رک جائے اور دوبارہ تین دن آئے اور دوسرے مہینے میں گیارہ تاریخ سے تیرہ تاریخ تک خون آئے اور دو دن یا اس سے زیادہ یا کم رکا رہے اور دوبارہ خون آئے اور ان سب کا مجموعہ آٹھ دن سے زیادہ نہ ہو تو اس کی عادت آٹھ دن ہو گی ۔
مسئلہ ۵۴۲۔ وہ عورت جس کی عدد والی عادت ہو اسے اپنی عادت کے دنوں سے زیادہ خون آجائے اس دس دن سے زیادہ ہو جائے تو چند صورتیں ہیں(۱) یہ تمام خون جو آیا ہو اگر ایک جیسا ہو تو اسکی عادت کے دنوں کی تعداد کے مطابق خون دیکھنے کے وقت سے حیض اور باقی دنوںکے خون کو استحاضہ قرار دے (۲)اور اگر تمام خون جو آیا تھا ایک جیسا نہ ہو بلکہ ان میں سے چند دنوں میں حیض کی علامت اور دوسرے چنددنوں میں استحاضہ کی علامت ہو تو اگر وہ دن جن کے خون میںحیض کی علامت ہو اس کی عادت کے دنوں کی تعداد کے برابر ہوں تو ان تمام دنوں کو حیض اور باقی کو استحاضہ قرار دے (۳)اور اگر وہ دن جن کے خون میں حیض کی علامت ہو اسکی عادت کو دنوں سے زیادہ ہیں تو صرف اس کی عادت عادت کے دنوں کے برابر حیض اور باقی استحاضہ ہے(۴) اور اگر وہ دن جن کے خون میں حیض کی علامت ہے اس کی عادت کے دنوں سے کم ہیں تو ان دنوں کو مع چند دوسرے دنوں کے کہ جن کا مجموعہ اس کے سات دنوں کے برابر ہو جائے حیض اور باقی کو استحاضہ قرار دے ۔

۴۔عادت نہ رکھنے والی عورت
مسئلہ ۵۴۳۔مضطربہ :یعنی وہ عورت جس کو کئی مہینہ خون آئے لیکن کو ئی مقررہ عادت نہ بن سکی ہو اگر ا س عورت کو دس دن سے زیادہ خون آئے اور تمام خون ایک جیساہو اگر اس عورت کے رشتہ دار عورتوں کی عادت سات دن ہو تو یہ بھی سات دن حیض قرار دے اور باقی کو استحاضہ اور اگر ان کی عادت کم ہو مثلاً پانچ دن ہو تو اسی تعداد کو حیض قرار دے اور اس کے لئے احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کی عادت کی تعداد اور سات دن کے فرق میں کہ جو دو دن میں ہو تا ہے ان کاموں کو جو حیض والی عورت پر حرام ہے ترک کرے اور استحاضہ کے کاموں کو بجا لائے یعنی استحاضہ والی عورت کے لئے طریقہ بیان کیا جا چکا ہے اپنی عبادت کو انجام دے اور اگر اسکی رشتہ دار عورتوں کی عادت سات دن سے زیادہ ہو مثلا ً نو دن ہو تو اس کو چاہیئے کہ سات دن حیض قرار دے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ سات روز اور انکی عادت کے دنوں کے فرق میں کہ جو دو دن ہیں استحاضہ کے کاموں کو بجا لائے اور جو کام حیض والی عورتوں پر حرام ہے ترک کرے ۔
مسئلہ ۵۴۴۔ عادت نہ رکھنے والی کو اگر دس دن سے زیادہ خون آجائے کہ جن میں سے کچھ دنوں میں حیض کی علامت ہو اور دوسرے کچھ دنوں میں استحاضہ کی علامت ہو تو اگر وہ خون جس میں حیض کی علامتیں ہو تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ ہوں توگزشتہ مسئلہ میں بتائے گے طریقہ سے عمل کرے اور اگر وہ خون جس میں حیض کی علامتیں ہیں تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ نہ ہو تووہ سب کو حیض قرار دے لیکن اگر حیض کی علامت رکھنے والے خون کے بعد دس دن سے کم میں دوبارہ خون آئے اور اس میں بھی حیض کی علامتیں ہوں مثلا ً پانچ دن خون سیاہ اور نو دن خون زرد اور دوبارہ پانچ دن خون سیا ہ آئے تو اسی طریقہ کے مطابق عمل کرے کہ جو اس سے قبل والے مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے ۔

۵۔ وہ عورت جسے پہلی بار خون آئے
مسئلہ۵۴۵۔مبتدئۃ:یعنی وہ عورت جسے پہلی دفعہ خون آئے اگر دس دن سے زیادہ خون آئے اور سب خون ایک جیسا ہو تو پھر اسے اپنی رشتہ دار عورتوں کی عادت کے مطابق اس طریقہ سے جو وقت والی عورت کے لئے بیان کیا گیا ہے خون حیض قرار دے اور باقی کو استحاضہ قرار دے جیسا کہ مسئلہ ۵۴۳ میں گذر چکا ہے۔
مسئلہ ۵۴۶۔اگر پہلی مرتبہ خون دیکھنے والی عورت کو دس دن سے زیادہ خون آئے لیکن ان میں کچھ دنوں میں حیض کی علامتیں ہو ں اور دوسرے کچھ دنوں میں حیض کی علامتیں ہو اور دوسرے کچھ دنوں میں حیض کی علامتیں ہو تو اگر وہ خون جس میں حیض کی علامتیں ہیں تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو یہ سب حیض ہے لیکن اگر وہ خون جس میں حیض کی علامتیں ہیں اس کے بعد دس دن گذرنے سے پہلے دوبارہ خون آئے اور اس میں بھی حیض کی علامتیں ہومثلاً پانچ دن خون سیاہ اور نو دن زرد اور دوبارہ پانچ دن خون سیاہ آئے توچاہیئے کہ اپنی رشتہ دار عورتوں کی عادت کوحیض باقی دنوں کو استحاضہ قرار دے جیسا کہ ۵۴۳ مسئلہ میں بیان کیا گیا ۔
مسئلہ۵۴۷۔اگر پہلی دفعہ خون دیکھنے والی عورت کو دس دن سے زیادہ خون آئے جس میں کچھ دن حیض کی علامت کے ساتھ ہو اور دوسرے کچھ دن استحاضہ کی علامتیں ہوں تو اگر حیض کی علامتوں والا خون تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ ہو تو چاہیئے کہ اپنی رشتہ دار عورتوں کی مطابقت کرے اور باقی دنوں کو استحاضہ قرار دے جیسا کہ مسئلہ۵۴۳ میں کہا گیا ہے ۔

۶ ۔ بھولنے والی عورت
مسئلہ۵۴۸۔ناسیہ: یعنی وہ عورت جو اپنی عادت بھول چکی ہو اگر اسے دس دن سے زیادہ خون آئے تو جن دنوں میں اس کے خون میں حیض کی علامتیں ہوں حیض قرار دے اگر علامات سے حیض کو نہ پہچان سکے تو اسے چاہیئے کہ پہلے سات دن حیض اور باقی دنوں کو استحاضہ قرار دے ۔

حیض کے متفرق مسائل
مسئلہ۵۴۹۔ وہ عورت جس کو پہلی مرتبہ خون آیا ہو یا جس کی عادت نہ ہویا اپنی عادت بھول گئی ہو یا جس کی عادت عدد والی ہو اگر اسے خون آئے جس میں حیض کی علامتیں ہو یا یقین ہو کہ یہ خون تین دن تک آئے گا تو وہ عبادت کرنا چھوڑ دے اگر بعد میں سمجھے کہ وہ حیض نہیں تھا تو پھر وہ چھو ٹی ہوئی عبادت کی قضا بجا لائے لیکن اگر اس کو یقین نہ ہو کہ تین دن تک خون آئے گا اور اس میں حیض کے خون کی علامتیں بھی نہ ہوں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ تین دن تک استحاضہ والے کام بجا لائے اور وہ کا م جو حیض والی عورت پر حرام ہے ترک کر دے اور اگر یہ خون تین دن سے پہلے بند نہ ہو تو اس کو حیض قرار دے ۔
مسئلہ۵۵۰۔ جس عورت کی حیض کی عادت ہو خواہ وقت والی عادت ہو یا عدد والی یا دونوں عادتیں ہوں اور اسکو اپنی عادت کے خلاف دو مہینے برابر خون آئے کہ جس وقت یا جس کے دنوں کی تعداد یا وقت اور تعداد دونوں برابر ہوں تو اس کے عادت بدل کر وہ ہو جائے گی جو ان دو مہینوں کے خون آنے کی ہے مثلاً اگر اسے پہلی سے ساتوں تک اسے حیض آتا تھا اور پھر بند ہو جاتا تھا لیکن اب دو مہینے سے دسویں سے سترہویں تک خون آکر بند ہو گیا ہو تو اب اس کی عادت دسویں سے سترہویں تک ہو جائے گی ۔
مسئلہ۵۵۱۔ ایک مہینے سے مراد خو ن آنے کی ابتداء سے تیس دن تک ہے نہ کہ مہینے کی پہلی سے آخر تک ہاں اگر عادت چاند کی پہلی ہو چکی ہو تو وہ اسی کا اعتبار کرے گی ۔
مسئلہ۵۵۲۔جس عورت کو عام طور سے مہینے میں ایک مرتبہ خون آتا ہواگر کسی مہینے میں دو مرتبہ خون آئے اور اس خون میں حیض کی علامتیں ہو تو اگر درمیان کے وہ دن جن میں خون نہیں آیا دس دن سے کم نہ ہو ں تو دونوں کو حیض قرار دے۔
مسئلہ۵۵۳۔ اگر تین دن یاا س سے زیادہ خون آئے جس میں حیض کی علامتیں ہو ں پھر دس دن یا اس سے زیادہ مدت کے بعد خون آئے جس میں استحاضہ کی علامتیں ہو اور پھر دوبارہ تین دن خون آئے جس میں حیض کی علامتیں ہو تو وہ پہلے اور آخری خون کو جس میں حیض کی علامتیں تھیں حیض قراردے۔
مسئلہ۵۵۴۔اگر کوئی عورت دس دن سے پہلے پاک ہو جائے اور اسے یہ معلوم ہو کہ شرمگاہ کے اندر خون نہیںہے تو وہ اپنی عبادتوں کے لئے غسل کرے اگر چہ اسے گما ن ہو کہ دس دن تمام ہو نے سے پہلے دوبارہ خون آجائے گا لیکن اگر اسے یقین ہو کہ دس دن تمام ہو نے سے پہلے دو بارہ خون حیض آجائے گا تو اسے غسل نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اسکا پہلا دوسرا اور انکے درمیان کا عرصہ تمام حیض میں شمار ہو گا ۔
مسئلہ۵۵۵۔ اگر کوئی عورت دس دن سے پہلے پاک ہو جائے اور اسے یہ احتمال ہو کہ شرمگاہ میں خون ہے تو وہ تھوڑی سی روئی شر مگا ہ میں رکھے اور تھوڑا ا نتظار کرے اور پھر روئی باہر نکالے اگر وہ روئی صاف ہو تو غسل کرے اور اپنی عبادتیں بجا لائے اور اگر صاف نہ ہوتو اگر زرد رنگ کا پانی ہوتو اسے حیص نہیں کہا جا سکتا مگر( یہ کہ اسکی عادت کے دنوں میں ہو) اور وہ استحاضہ کے حکم میں ہے ،لیکن اگر روئی میں خون ائے تو اگر اسے حیض کی عادت نہ ہو یا دس دن کی عادت ہو تواسے چاہیئے کہ انتظا ر کرے کہ اگر دس دن سے پہلے خون رک جائے تو غسل کرے اور اگر دسویں دن رکے یا اسکا خون دس دن سے آگے بڑھ جائے تو وہ دسویں دن غسل کر لے اور اگرا سکی عادت دس دن سے کم ہو تو اس صورت میں جب کہ اسے معلوم ہو کہ دس دن تمام ہو نے سے پہلے یا دس دن پورے ہو نے پر خون بند ہو جائے گا تو اسے غسل نہیں کرنا چاہیئے اگر احتمال ہو کہ ا سکا خون دس دن سے آگے بڑھ جائے گا تو اگرخون میں حیض کی صفات ہو تو واجب ہو کہ دس دن تک احتیا ط کو ترک نہ کرے اگر علامات نہ بھی ہوں تو پھر بھی دس دن تک احتیاط کرے پہلے دن واجب کے قصد سے اور باقی ایام میں مستحب کی نیت سے اگر چہ احوط حا ئض اور مستحاضہ کے احکام کا بھی جمع کرنا ہے پس اگر دس دن ختم ہونے سے پہلے یا دسویں دن خون رک جائے تو تما م خون حیض ہے اور اگر دس دن سے بھی زیادہ گذر جائیں تو اسے چاہیئے کہ اپنی عادت کے دنوںکو اور باقی دنو ں کو استحاضہ قرار دے اور وہ عبادتیں جو اپنی عادت کے دنوں کے بعد بجا نہیں لائی تھی ان کی قضا بجا لائے ۔
مسئلہ۵۵۶۔ اگر چند دنوں کو حیض قرار دینے کی وجہ سے عبادت چھوڑ دی تھی لیکن بعد میں سمجھے کہ وہ حیض نہ تھا تو اسکو چاہیئے کہ ان دنوں میں نمازیں اور روزے جو نہیں بجا لائی تھی قضا کرے اور اگر اسی طرح وہ چند دن اس گمان میں کہ حیض نہیں ہے عبادت کرتی رہے اور بعد میں وہ سمجھے کہ وہ حیض تھا اگر دنوں میں روزے رکھے تو اسکی قضا کرے ۔

نفاس
مسئلہ۵۵۷۔جب بچہ کے بدن کا پہلا حصہ ماں کے پیٹ سے باہر آئے اس وقت جو خون عورت کوآتا ہے اگر دس دن سے پہلے یا دس دن پورے ہو نے پر بند ہو جائے وہ نفاس کو خون ہے اور عورت کو نفاس کی حالت میں (نفسائ)کہتے ہیں اور اگر دس دن سے زیادہ خون آئے تو اسکاحکم آگے مسئلہ ۵۶۶میں بیان ہو گا ۔
مسئلہ۵۵۸۔ وہ خون جو عورت کو بچہ کے بدن کا پہلا حصہ باہر آنے سے پہلے آئے وہ نفاس نہیں ہے۔
مسئلہ۵۵۹۔ ضروری نہیں ہے کہ بچہ کی خلقت پوری ہو بلکہ خون کا لوتھڑا بھی عورت کے رحم سے باہر آئے اور خود عورت جانتی ہو یا چار بچہ پیدا کرنے والی عورتیں گواہی دیں کے اگر یہ خون رحم میں رہ جاتا تو بچہ بن جا تا تو جو خون دس دن تک آئے نفاس ہے ۔
مسئلہ۵۶۰۔ ممکن ہے نفاس کاخون ایک سیکنڈ سے زیادہ نہ آئے لیکن دس دن سے زیادہ نہیں ہوتا ۔
مسئلہ۵۶۱۔ اگر شک کرے کہ کچھ اسقاط ہوا ہے یا نہیں جو اسقاط ہوا ہے اگر وہ رحم میں رہ جاتا تو بچہ بن جاتا یا نہیں تو اس صورت میںاحتیاط لازم یہ ہے کہ تحقیق کرے اوراگر وہ کسی نتیجہ تک نہ پہونچے تو جو خون آئے وہ شرعی طور سے نفاس کاخون نہیں ہے ۔
مسئلہ۵۶۲۔ مسجد میں ٹھہرنا اور بدن کے کسی حصہ کو قرآن کی تحریر سے مس کر نا اور دوسرے کام جو حیض والی عورت کے لئے حرام ہیں وہ نفاس والی پر بھی حرام ہیں اور جوکچھ حیض والی عورت پر واجب ، مستحب اور مکروہ ہے وہ نفاس والی پر بھی واجب، مستحب اور مکروہ ہے۔
مسئلہ۵۶۳۔ نفاس کی حالت میں عورت کو طلاق دینا باطل ہے مگر ان شرائط کے ساتھ جو کتاب طلاق میں ذکر ہوں گی اورشوہر کا اس سے مباشرت کر نا حرام ہے اور اگر اس کا شوہر اس سے مباشرت کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ جس طریقہ سے حیض کے احکام میں بیان کیا گیا ہے کفارہ دے۔
مسئلہ۵۶۴۔ جب عورت نفاس کے خون سے پاک ہو جائے تو غسل کر نا چاہئیے اور اپنی عبادتوں کو بجا لائے اگر دوبارہ خون آجائے تو جن دنوں میں خون آیا اور جن دنوں میں رکا رہا سب ملا کر دس دن یا دس دن سے کم ہوں تو وہ نفاس ہے اور جن دنوں میں خون رکا رہا روزہ رکھ لیا ہو تو اس کی قضا بجا لائے ۔
مسئلہ۵۶۵۔ اگر کسی عورت کے نفاس کاخون بند ہو جائے لیکن احتمال ہو کہ اندر خون ہے تو وہ تھوڑی سی روئی شرمگاہ کے اندرداخل کرے اور تھوڑی دیر ٹھہر جائے وہ صاف ہو تو اپنی عبادتوں کے لئے غسل کرے ۔
مسئلہ۵۶۶۔ اگر کسی عورت کے نفاس کا خون دس دن سے بڑھ جائے تو اگر اس کے حیض کی عادت ہو تو عادت کے دنوں کے مطابق نفاس اور باقی استحاضہ ہے اور اگر عادت نہ ہو تو دس دن تک نفاس اور باقی استحاضہ ہو گا۔
مسئلہ۵۶۷۔ جس عورت کی حیض کی عادت دس دن سے کم ہو اگر عادت کے دنوں سے زیادہ اسے نفاس کاخون آجائے تو اپنی عادت کے دنوں کے مطابق نفاس قرار دے اور اسکے بعد احتیاط مستحب کی بنا پر ایک دن عبادت کو چھوڑ دے اور دوسرے سے دسویں دن تک مستحب ہے کہ استحاضہ والے کام انجام دے اور جو امور نفاس والی عورت پر حرام ہیں انہیں ترک کر دے اور اگر دس دن سے بڑھ جائے تو استحاضہ ہے اور عادت کے دنوں سے دسویں تک بھی استحاضہ قرار دے اور جو عبادتیں ان دنوں میں بجا نہیں لا ئی ہے ان کی قضا کرے مثلا جس عورت کی عادت چھ دن تھی اور چھ دن سے زیادہ خون آجائے تو چھ دن تک کو نفاس قرار دے اور احتیاط واجب کی بنا پر ساتویں روز عبادت ترک کر دے آٹھویں سے دسویں تک مستحب ہے کہ استحاضہ والے کام انجام دے اور نفاس والے امور کو جو کہ حرام ہیں ترک کر دے اور اگر دس دن سے زیادہ خون آجائے تو عادت کے دنوں کے بعد کا خون استحاضہ ہے۔
مسئلہ۵۶۸۔ جس عورت کی حیض کی عادت ہو اگر اسے بچہ پیدا ہو نے کے بعد ایک مہینہ تک یا اس سے زیادہ برابر خون آئے تو اس کی عادت کے دنوں کے مطابق نفاس ہے اور نفاس کے بعد دس دن جو خون آئے اگر چہ وہ اس کی عادت کے دنوں میں ہواستحاضہ ہے ۔ مثلا جس عورت کی حیض کی عادت ہر مہینہ بیسویں سے ستائیسویں تک ہو اگر اسے مہینہ کی دس تاریخ کو بچہ پیدا ہو اور ایک ماہ اس سے زیادہ اسے برابر خون آئے تو سترہویں سے دس روز تک یہاں تک کہ وہ خون جو اس کی عادت کے دنوں یعنی بیسویں سے ستائیسویں تک آئے استحاضہ ہوگا اور اگر دس دن گزرنے کے بعد جو خون آئے وہ اس کی عادت والے دنوں میں ہو تو حیض ہے خواہ اس میں حیض کی علامتیں ہو ں یا نہ ہو ں اور اگر اس کی عادت والے دنو ں میںنہ ہو اگر چہ اس میں حیض کی علامتیں ہوں تو اس کو استحاضہ قرار دینا چاہئیے ۔لیکن وہ خون جو دس دن گذرنے کے بعد دیکھتی ہے اگر اسکے حیض کے ایام میں نہیں ہے اور نہ ہی حیض کی علامتیں پائی جاتی ہوں تووہ خون استحاضہ ہے۔
مسئلہ۵۶۹۔ جس عورت کی حیض میں عادت نہ ہو اگر اسے بچہ پیدا ہو نے کے بعد ایک مہینہ یا زیادہ خون آئے توپہلے دس دن نفاس اور دوسرے دس دن استحاضہ ہے اور اس کے بعد جو خون آئے اگر ا س میں حیض کی علامتیں ہو ں تو حیض ورنہ وہ بھی استحاضہ ہو گا ۔

غسل مس میت
مسئلہ۵۷۰۔ اگر کوئی شخص مردہ آدمی کا بدن جو ٹھنڈاہو چکا ہو اور غسل نہ دیا گیا ہو چھوئے یعنی اپنے بدن کے کسی حصہ کو اس سے ملائے تو اسے غسل مس میت کر نا چاہئیے نیند میں چھوئے یا جاگتے میں جان بوجھ کر چھوئے یا بے اختیار چھوئے یہاںتک کہ ا گر اس کا ناخن یا ہڈی مردہ کے ناخن یا ہڈی سے چھو جائے تو بھی غسل کر نا چاہئیے البتہ اگر مردہ حیوان کو چھوئے تو اس پر غسل واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ۵۷۱۔ اس مردہ کو چھونے سے جس کا تمام بدن ٹھنڈا نہیں ہوا ہے غسل واجب نہیں ہے اگر چہ اس جگہ کومس کرے جو کہ ٹھنڈی ہو چکی ہو ۔
مسئلہ۵۷۲۔ اگر اپنے بال کو میت کے بدن سے ملائے یا اپنے بدن کو میت کے بال سے یا اپنے بال کو میت کے بال سے ملائے اور بال بہت لمبے اور مقدارمتعارف سے خارج نہ ہو ں جب کہ عرف عام میں مس میت سے تعبیر کریں تو اسے غسل کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ۵۷۳۔مردہ بچے کو چھونے سے یہاں تک کہ وہ بچہ جو ساقط ہو گیا ہو اور چار مہینہ اس کے پورے ہو چکے ہوں غسل مس میت واجب ہے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس بچہ کو چھونے سے جسے چار مہینہ بھی تمام نہ ہوئے ہوںاور اسقاط ہو گیا ہو غسل کر نا چاہیئے اسی وجہ اگر کسی عورت کا چار ماہ کا بچہ مرا ہوادنیا میں آئے تو اس کی ماں کو غسل مس میت کر نا چاہئیے بنا بر احتیاط لیکن اگر چار ماہ سے کم کا ہو تو واجب نہیں ہے کہ اس کی ماں غسل کرے ۔
مسئلہ۵۷۴۔ جو بچہ ماںکے مر نے کے بعد دنیا میں آئے جب وہ بالغ ہو تو احتیاط کی بنا پر اس پر غسل مس میت کر ناچاہیئے ۔
مسئلہ۵۷۵۔ اگر کوئی شخص ایسی میت کو مس کرے جس کے تینوں غسل تمام ہو چکے ہوں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے لیکن اگر تیسرے غسل کے تمام ہو نے سے پہلے اس کے بدن کے کسی حصہ کو چھوئے اگر چہ کہ اس حصہ کا تیسرا غسل تمام ہو گیا ہو تو بھی غسل مس میت کرے ۔
مسئلہ۵۷۶۔ اگر کوئی دیوانہ یا نابالغ بچہ کسی میت کو چھوئے تو اس وقت غسل مس میت کر نا چاہئیے جب وہ بچہ بالغ ہو جائے اور دیوانہ عقلمند ہو جائے ۔
مسئلہ۵۷۷اگر کسی زندہ انسان کے بدن سے یا ایسے مردہ سے جسے غسل نہیں دیا گیا ہے ایک ٹکڑا جدا ہو جس میں ہڈی ہو اور اس جدا کئے ہوئے حصہ کو غسل دینے سے پہلے کوئی شخص مس کر لے تو اسے غسل مس میت کر نا چاہئیے ہاں اگر بدن کے جدا کئے ہوئے حصہ میں ہڈی نہ ہو تو پھر اس کے مس کر نے سے غسل واجب نہیں ہوتا۔
مسئلہ۵۷۸۔ جس ہڈی پر گوشت نہ ہو اور نہ ہی اسے غسل دیا گیا ہو چاہے مردہ سے جدا ہو یا زندہ سے اس کے مس کر نے کی بنا بر احتیاط واجب غسل کر نا چاہئیے اسی طرح مردہ کے دانتوں کو مس کر نے سے جب کہ اسے غسل نہ دیا جا چکا ہو غسل کر نا ہو گا البتہ جو دانت زندہ سے جدا ہوں اور ان پر گوشت نہ ہوں یا بہت کم ہو تو مس کر نے پر غسل واجب نہیں ہو گا ۔
مسئلہ۵۷۹۔ غسل مس میت جنابت کی طرح انجام دینا چاہئیے لیکن جس نے غسل مس میت کیا ہو اور نماز پڑھنا چاہے تو اس کو وضو کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ۵۸۰۔ اگر کسی میت کو چھوئے یا ایک میت کو کئی دفعہ چھوئے تو ایک غسل کافی ہے ۔
مسئلہ۵۸۱۔ اگر کسی شخص نے میت کو چھونے کے بعد غسل نہیں کیا ہے تو اس کے لئے مسجد میں ٹھہرنا مباشرت کر نا اور سورتوں کا پڑھنا جن میں سجدہ واجب ہے منع نہیں ہے لیکن نماز یا اس قسم کے کاموں کے لئے غسل اور وضو کر نا چاہئیے ۔

محتضر کے احکام
مسئلہ۵۸۲۔ جس مسلمان پر حالت موت طاری ہو یعنی جان دینے کا وقت ہو خواہ مرد ہو یا عورت ، بڑا ہو یا چھوٹا اس کو پیٹھ کے بل اس طرح لٹانا چاہئیے اس کے پاؤ کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں اگر اس کو پورے طور پر اس طرح لٹانا ممکن نہ ہو تو جتنا ممکن ہو اس پر عمل کریںاور اس کا لٹانا کسی طرح ممکن نہ ہو تو اس کو قبلہ رو بٹھا دیں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر اسے بائیں پہلو یا دائیں پہلو قبلہ کی طرف منھ کر کے سلائیں ۔
مسئلہ۵۸۳۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ جب تک غسل مکمل نہ ہو جا ئے میت کو رو بقبلہ لٹا ئیںجب غسل مکمل ہو جائے تو بہتر ہے کہ اسے اس طرح لٹا یا جائے جس طرح نماز پڑھتے ہیں ۔
مسئلہ۵۸۴۔ جو حالت موت میں ہو اس کو قبلہ رخ لٹانا ہر مسلمان پر واجب ہے اور میت کے ولی سے اجازت لیناضروری نہیں اور اگراس کام کو کوئی بھی شخص انجام دے دے تو دوسروں سے فرض ساقط ہو جا تا ہے۔
مسئلہ۵۸۵۔ جان کنی کے وقت مستحب ہے کہ اسے کلمہ شہادتین اور بارہ اماموں کا اقرار اور تمام صحیح عقیدے اس طرح پڑھائے جائیں کہ وہ اسے سمجھے اور مستحب ہے کہ جو چیزیں بیان کی گئی ہیں آخر وقت تک تکرار کی جائے۔
مسئلہ۵۸۶۔ ان دعاؤںکو مرنے والے کو اس طرح پڑھانا مستحب ہے کہ وہ سمجھے:
’’ اللھم اغفر لی الکثیر من معاصیک واقبل منی الیسیر من طاعتک یا من یقبل الیسیر ویعفو عن الکثیر اقبل منی الیسیر واعف عنی الکثیر انک انت العفو الغفور اللھم ارحمنی فانک رحیم‘‘
مسئلہ۵۸۷۔ جس کی جان مشکل سے نکل رہی ہو مستحب ہے کہ اگر اس کو تکلیف نہ ہو اور نہ ہی موت کی جلدی کا سبب بنے تو اسے اس جگہ لے جائیں جہاں وہ نماز پڑھتا تھا ۔
مسئلہ۵۸۸۔ جان کنی کی آسانی کے لئے مرنے والے کے سرہانے سورہ یٰسین ، الصافات اور احزاب اور آیۃ الکرسی اور سورہ اعراف کی آیت۵۴ اور سورہ بقرہ کی آخری تین آیات پڑھنا مستحب ہے اور جتنا ممکن ہو سکے اس کے سرہانے قرآن پڑھا جائے ۔
مسئلہ۵۸۹۔ مرنے والے کو تنہا چھوڑ دینااور اس کے پیٹ پر کوئی بھاری چیز رکھنامجنب اور حیض والے کا اس کے نزدیک ہو نا اور اسی طرح زیادہ باتیں کرنا ،رونااور عورتوں کو تنہا اس کے نزدیک چھوڑدینامکروہ ہے ۔
مرنے کے بعد کے احکام
مسئلہ۵۹۰۔مستحب ہے کہ مرنے کے بعد میت کے منھ کو بند کر دیں کہ کھلا نہ رہے اور اس کی آنکھیں اور ٹھڈی کو بند کر دیں ٹھڈی کو کپڑے کے ذریعہ سر سے ملا کر زور سے باندھیں تاکہ منھ بند رہے اور اس کے ہاتھوں اور پاؤں کو سیدھا کر دیں دونوں انگوٹھوں کو ملا کر باندھ دیں تاکہ پیر ٹیڑھا نہ ہو اور اس پر کپڑا ڈال دیا جائے اور اگررات کو مر جائے تو جہاں مرا ہے وہاں چراغ جلائیں اور جنازہ کی مشایعت کے لئے مومنین کو خبر دیں اور اس کے دفن کر نے میں جلدی جائے لیکن اگر اس کے مرنے کا یقین نہ ہو تو انتظار کیا جائے کہ یہاں تک کہ اس کے مرنے کا یقین ہو جائے اور اگر مرنے والی حاملہ عور ت ہو کہ جس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو تو اتنی دیر تک دفن میں تاخیرکی جائے کہ اس کا بایاں پہلو چاک کر کے بچہ کو باہر نکالیں اور اسکے پہلو کو سلا جائے ۔

میت کے غسل ،کفن ، نماز اور دفن کے احکام
مسئلہ۵۹۱۔ مسلمان میت کا غسل ، کفن ،نماز اور دفن کر نا ہر بالغ و عاقل پر واجب ہے خواہ وہ اثنا عشری نہ ہو اور اگر بعض مسلمان اس کو انجام دے دیں تو باقی سے ساقط ہو جاتا ہے اور اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو سب گنہگار ہو ں گے ۔
مسئلہ۵۹۲۔ اگر میت کے کاموں میں مشغول ہو جائے تو پھر دوسروں پر واجب نہیں ہے کہ اس کام کے لئے آگے بڑھیں لیکن اگر وہ کام نا مکمل چھوڑجائے تو پھر دوسروں کا پور اکر نا چاہئیے ۔
مسئلہ۵۹۳ ۔ اگر انسان یقین کرے کہ کوئی دوسرا میت کے کاموں میں مشغول ہو چکا ہے تو دوسروں پر واجب نہیں ہے کہ وہ میت کے کاموں میں آگے بڑھیں لیکن اگر شک یا گمان ہو تو دوسروں کو آگے بڑھنا چاہئیے ۔
مسئلہ۵۹۴۔اگر کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ غسل یا کفن ، یا نماز یا میت کا دفن باطل طریقہ پر کیا گیا ہے تودوبارہ انجام دے لیکن اگر گمان ہو کہ باطل تھا یا شک ہو کہ صحیح تھا یا نہیں ؟تو بجا لانا لازم نہیں ہے ۔
مسئلہ۵۹۵۔ غسل کفن نماز اور میت کے دفن کے لئے مرنے والے کے ولی سے اجازت لینی ضروری ہے ۔
مسئلہ۵۶۹۶۔ عورت کا ولی جوغسل کفن اور اس کے دفن میں دخل دے سکتا وہ اس کا شوہر ہے اور اس کے بعد وہ مرد جو اس کی میراث پاتے ہیں ان عورتوں پر جو وار ث ہیں مقدم ہیں اور ہر وہ شخص جو میراث ملنے میں مقدم ہے تو وہ اس کام میں بھی مقدم ہے ۔
مسئلہ ۵۹۷۔ اگر کوئی شخص کہے کہ میں مرنے والے کا وصی ہو ں یا ولی ہوں یا اس کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ مرنے والے کے غسل اور کفن اور د فن کے کاموں کو انجام دوں تو اس کی بات قابل قبول بھی ہو اور اگر دوسرا شخص بھی نہ کہے کہ میں مرنے والے کا ولی ہوں یا وصی ہو ںیا اس کے ولی نے مجھے اجازت دیدی ہے تو مرنے والے کہ تمام کاموں کو وہی انجام دے گا اگر پہلا قابل اطمینان نہ یا کوئی دوسرا شخص اسی طرح کا دعویٰ کرے تو پہلے کی بات اس وقت مانی جائے گی جب دو عادل آدمی اس کے متعلق گواہی دیدیں ۔
مسئلہ ۵۹۸۔اگر مرنے والا ولی کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنے غسل، کفن ،دفن اور نماز کے لئے معین کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ولی ان کاموں کے لئے اس آدمی کو اجازت دے دے اگر مرنے والا کسی شخص کو ان کاموں کی انجام دہی کے لئے معین کرے تو اس پر اس وصیت کا قبول کر نالازمی نہیں ہے ہاں اگرقبول کر لے تو پھر اس پر عمل کر نا چاہیئے ۔

غسل میت کے احکام
مسئلہ۵۹۹۔میت کو تین غسل دینا واجب ہے پہلا غسل ایسے پانی سے جس میں بیری کے پتہ کا سفوف ملا یا ہوا ہو اور دوسرا غسل ایسے پانی سے جس میں کافور ملا یا ہوا ہو ،اور تیسرا غسل خالص پانی سے ۔
مسئلہ۶۰۰۔ بیری کے پتوں کا سفوف اور کافور اتنا زیادہ نہ ہوں کہ پانی کومضاف کر دیں اور اتنا کم بھی نہ ہوں کہ کہا جائے کہ اس میں بیری کا سفوف اور کافور ملا یا ہوا نہیں ہے ۔
مسئلہ۶۰۱۔ اگر بیری کا سفوف اور کافور جس قدر ضروری ہیں نہ مل سکیں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ جتنا مل سکیں پانی میں ڈالے جائیں ۔
مسئلہ۶۰۲۔ جو آدمی حج کا احرام باندھے ہوئے ہو اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کر نے سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کو غسل دینے کے وقت کافور کے پانی سے غسل نہ دیا جائے بلکہ اس کے بجا ئے خالص پانی سے غسل دیں ۔
مسئلہ۶۰۳۔ اگر بیری کا سفوف اور کافور یا ان میں سے ایک بھی نہ مل سکے یا موجود ہو لیکن اس کاا ستعمال جائز نہ ہو جیسے وہ غصبی ہو تو ان میں سے ہر ایک کے بدلے خالص پانی سے میت کو غسل دیا جائے ۔
مسئلہ۶۰۴۔ جو شخص میت کو غسل دینا چاہے اسے مسلمان شیعہ اثنا عشری ، بالغ اور عاقل ہو نا چاہئیے اور مسائل غسل سے بھی واقف ہو لیکن اگر میت اثنا عشری نہیں ہے تو غسل دینے والے کے لئے بھی اثناعشری ہو نا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ۶۰۵۔ جو شخص میت کو غسل دے رہا ہے اسے چاہئیے کہ قصد قربت کرے یعنی خدا وند عالم کے حکم کو بجا لانے کے قصد سے غسل دے۔
مسئلہ۶۰۶۔ مسلمان کے بچہ کو غسل دینا واجب ہے اگر چہ وہ زنا سے پیدا ہوا ہو اور کافر اور اس کے اولاد کو غسل کفن اور د فن کر نا جائز نہیں ہے اگر کوئی بچپن سے دیوانہ ہوا ہو اوردیوانگی کی حالت میں بالغ ہو گیا ہو اور اس کے ماں یا باپ یا دونوں میں سے کوئی ایک مسلمان ہو تو اسے بھی غسل دینا چاہئیے اور اگر ان میںسے کوئی بھی مسلمان نہ ہو تو اس کو غسل دینا جائز نہیں ۔
مسئلہ۶۰۷۔ جو بچہ ساقط ہوا ہو اگر چار ماہ یا اس سے زیادہ کا ہو تو اسے بھی غسل دیا جائے اور اگر چار ماہ سے کم کا ہو تو پھر اسے کپڑے میں لپیٹ کر بغیر غسل کے دفن کر دیا جائے ۔
مسئلہ۶۰۸۔ اگر مرد عورت کو اور عورت مرد کو غسل دے حرام ہے صرف بیوی اپنے شوہر کو اور شوہر اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر کو اور شوہر اپنی بیوی کو غسل نہ دے ۔
مسئلہ۶۰۹۔مرد ایسی بچی کو جس کی عمر تین سال سے زیادہ نہیں اور عور ت ایسے بچے کو جس کی عمر تین سال سے زیادہ نہ ہوغسل دے سکتے ہیں ۔
مسئلہ۶۱۰۔ اگر مرد کی میت کو غسل دینے کے لئے مرد نہ مل سکے تو پھر اسے ہر وہ عورت جو اس کی رشتہ دار اور محرم ہو مثلا ماں ، بہن ، پھوپھی، خالہ ،یا وہ عورتیں جو دودھ پلانے کی وجہ سے اس کی محرم بن گئی ہوں اس میت کو کپڑے کے نیچے سے یا کسی ایسی چیز کے نیچے سے جسکو اس کے بدن کو چھپائے بنا بر احتیاط غسل دے سکتی ہیں ۔ اسی طرح اگر عورت کو غسل دینے کے لئے دوسری عورت ممکن نہ ہو تو اس کے رشتہ دار اور محرم مرد یا وہ مرد جو دودھ پینے کی وجہ سے محرم بن گئے ہوں بناء بر احتیاط اس میت کو کپڑے کے نیچے سے غسل دے سکتے ہیں ۔
مسئلہ ۶۱۱۔ اگر میت اور جوشخص اس کو غسل دے رہا ہے دونوں مرد ہو ں یا دونوں عورتیں ہو ں تو بہتر یہ ہے کہ شرمگاہ کے علاوہ میت کے بدن کے باقی حصہ کو برہنہ کر دیا جائے ۔
مسئلہ ۶۱۲۔ غسل دینے والے کے لئے میت کی شرمگاہ کو دیکھنا حرام ہے جب کہ زن و شوہر نہ ہو ں اور اگر دیکھ لیں تو گنہگار ہو گا لیکن غسل باطل نہیں ہو گا ۔
مسئلہ ۶۱۳۔ اگر میت کے بدن کی کوئی جگہ نجس ہے تو اس جگہ کو غسل دینے سے پہلے پاک کر لینا چاہئیے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ میت کے تمام بدن کو غسل دینے سے پہلے پاک کر لینا چاہئیے ۔
مسئلہ ۶۱۴۔ میت کو غسل دینے کا طریقہ وہی ہے جو غسل جنا بت کا ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ جب تک ترتیبی دینا ممکن ہو غسل ارتماسی نہیں دینا چاہئیے البتہ غسل ترتیبی میں بدن کے تینوں حصوں میں سے ہر ایک کو کثیر پانی میں ڈبویا جاسکتا ہے ۔
مسئلہ ۶۱۵۔ جو حالت جنابت میں یا حالت حیض میں مر جائے اس کو غسل جنابت یا حیض دینا ضروری نہیں ہے بلکہ غسل میت کافی ہے ۔
مسئلہ ۶۱۶۔ میت کو غسل دینے کی مزدوری لینا حرام نہیں ہے جبکہ اسکو بلایا گیا ہو ور نہ بہتر ہے کہ مزدوری نہ لی جائے اور اگر کوئی میت غسل دینے کے عنوان سے مزدوری لیتا ہے تو غسل باطل نہیں ہو گا البتہ لوازمات غسل کی مزدوری لینا حرام نہیں ہے ۔
مسئلہ ۶۱۷۔ اگر غسل کے لئے پانی موجود نہ ہو یا پانی میت پر ڈالنے سے کوئی چیز مانع ہو تو ظاہر یہ ہے کہ تینوں غسلوں کے عوض فقط ایک تیمم دیا جائے کافی ہے بلکہ مناسب یہ ہے کہ احتیاطا ًہر غسل کے بدلے ایک تیمم دیاجائے احتیاط مستحب ہے کہ پہلے ایک تیمم دیا جا ئے تمام اغسال کے عوض بعد میں ہر ایک کے بدلے ایک تیمم دیا جائے ۔
مسئلہ ۶۱۸۔ جو شخص میت کو تیمم دے رہا ہے اسے چاہئیے کہ اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارے اور اس سے منھ اور ہاتھوں کا مسح کرائے اور اگر ممکن ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ میت کے ہاتھوں سے بھی تیمم کرا یا جائے ۔

کفن کے احکام
مسئلہ ۶۱۹۔ ہر مسلمان میت کو تین کپڑوں کا کفن دینا چاہیئے یعنی لنگی، قمیص، اور چادر ۔
مسئلہ۶۲۰۔ لنگی اس قدر ہو نی چاہئیے کہ جو ناف سے گھٹنوں تک کو چھپالے اور بہتر یہ ہے کہ سینہ سے پاؤں کے اوپر تک پہنچ جائے اور قمیص ایسی ہو کہ کندھوں کے اوپر سے نصف پنڈلیوں تک پہنچے اور تمام حصوں کو آگے اور پیچھے سے چھپا لے اور بہتر یہ ہے کہ پاؤ تک جا پہنچے چادر کی لمبائی اسقدر ہو کہ دونوں طرف سے اسے گرہ لگانی ممکن ہو اور چوڑائی میں اتنی ہو کہ ایک کنارہ دوسرے کنارہ پر آجائے ۔
مسئلہ ۶۲۱۔ لنگی کی مقدار جو ناف سے زانو تک ہے اور قمیص جو کہ کندھوں سے نصف پنڈلی تک ہے یہ واجب کفن ہے اور اس مقدار سے زیادہ جو گذشتہ مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے مستحب کفن ہے ۔
مسئلہ ۶۲۲۔ اگر مرنے والے کے تمام وارث بالغ ہوں اوروہ اجازت دے دیں کہ واجب کفن کی مقدار سے زیادہ جو گذشتہ مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے ان کے حصے سے دیا جائے تو اشکال نہیں ہے اور واجب کفن کی مقدار سے زیادہ نابالغ وارث کے حصہ سے لینے میں اشکال نہیںہے ۔
مسئلہ ۶۲۳۔ جس شخص نے وصیت کی ہو کہ اس کے لئے مستحب کفن جو کہ اوپر کے دو مسئلوں میں بیان کیا گیا ہے اس کے مال کے تہائی حصہ سے لیا جائے یا وصیت کیا ہو کہ اس کے مال کے تہائی حصہ کو اس کے ذاتی خرچ میں لائیں لیکن خرچ کی جگہیں مقرر نہ کی ہوں یا تہائی مال سے کچھ خرچ مقرر کیاہو تو مستحب کفن اس کے تہائی مال سے لیا جاسکتا ہے ۔
مسئلہ ۶۲۴۔ اگر میت نے وصیت نہ کی ہو کہ کفن اس کے تہائی مال سے لیا جائے تو اصل مال سے لے سکتے ہیں اور مستحب ہے کہ کفن کی واجب مقدار سستی قیمت کے اندازہ سے لیا جائے البتہ اگر متعارف حالت سے زیادہ خریدنا چاہتے ہیں تو اجازت کی ضرورت ہے اور ضروری ہے کہ بالغ وارث زائد مقدار کی اجا زت دے دیں تاکہ اسی اندازہ سے ان سے وہ قیمت لی جائے ۔
مسئلہ ۶۲۵۔زوجہ کا کفن شوہر پر واجب ہے اگر چہ اس عورت کو ذاتی مال بھی موجود ہو اور اسی طرح اگر عورت کو طلاق رجعی اس طریقہ سے جو کتاب میں بیان کیا گیا ہے دی گئی ہو اور عدت ختم ہو نے سے پہلے مر جائے تو بھی اس کا کفن اس کے شوہر کو دینا چاہئیے اگر کسی عورت کو شوہر بالغ نہ ہو یا دیوانہ ہو تو شوہر کا ولی اسکے مال سے عورت کو کفن دے گا ۔
مسئلہ ۶۲۶۔ مرنے والے کا کفن اس کے رشتہ داروں پر واجب نہیں لیکن اگر زندگی میں اس کے اخراجات ان پر واجب تھے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ کفن بھی ان پر واجب ہو گا ۔
مسئلہ۶۲۷۔ کفن کے تین کپڑوں میں سے ہر ایک اس قدر باریک ہو کہ بدن کے نیچے سے ظاہر ہو لیکن تینوں کپڑے مل کر اس بدن کو چھپاتے ہوں تواحتیاط واجب کی بنا پر کفایت نہیں کرے گا ۔
مسئلہ۶۲۸۔کسی غصبی چیز سے کفن دینایا مردار کی کھال کا کفن دینا جائز نہیں اگر چہ کوئی دوسری چیز اس کے علاوہ موجود نہ ہو اگر کسی کو غصبی کفن پہناد یا جائے اور اس مالک راضی نہ ہو تو اس میت سے کفن اتار لیناچاہئیے اگر چہ میت دفن بھی ہو چکی ہو ۔
مسئلہ۶۲۹ ۔ مردہ کو نجس یا خالص ریشمی یا سونے کے تاروں سے بنے ہوئے کپڑوں میں کفن دینا جائز نہیں ہے لیکن اگر مجبوری ہو تو اس میں اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ۶۳۰۔ حالت اختیار میں ایسا کفن دینا جوحرام گوشت حیوان کی اون یا بالوں سے بنیا یا گیا ہو جائز نہیں اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ حلال گوشت حیوان کی کھال میں جو کہ شرع کے مطابق ذبح کیا گیا ہو کفن نہ دیں اور اسی طرح سے اگر کفن حلال گوشت حیوان کے بال اور اون سے بنایا گیا ہو تو اس میں اشکال نہیں ہے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان دونوں سے کفن نہ دیں ۔
مسئلہ ۶۳۱ اگر میت کا کفن خود اس کی نجاست یا دوسری نجاست سے نجس ہو جائے تو اگر کفن ضائع نہ ہو تو نجس حصہ کو دھوئیں یا کاٹ ڈالیں اگر چہ قبر میں رکھ چکے ہوں اور اگر دھونایا کاٹناممکن نہ ہو اور تبدیل کرنا ممکن ہو تو تبدیل کر دینا چاہئیے۔
مسئلہ ۶۳۲۔ جو شخص حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھے ہوئے ہو اگر مر جائے تو اسے بھی دوسروں کی طرح کفن دیا جائے اور اس کے سر اور منھ کو ڈھانپ دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۶۳۳ ۔ مستحب ہے کہ انسان صحت کی حالت میں اپنا کفن، بیری کی پتی کا سفوف اور کافور اپنے لئے تیار رکھے ۔

حنوط کے احکام
مسئلہ ۶۳۴۔غسل کے بعد واجب ہے کہ میت کو حنوط کریں یعنی اس کی پیشانی ، ہاتھوں کی ہتھیلیاں ، دونوں گھٹنوں کا اوپر کا حصہ اور دونوں پاؤ کے انگوٹھوں کے اوپر کے حصہ پر کافور ملا جائے اور مستحب ہے کہ میت کی ناک کے اوپر کے حصہ پر بھی کافور ملیں کافور پسا ہوا ہو تازہ ہوناچاہئیے اور اگر اتنا پرانا ہو کہ اس کی خوشبو ختم ہو گئی ہو تو وہ کافی نہیں ہوگا ۔
مسئلہ ۶۳۵۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ پہلے کافور کو میت کی پیشانی پر ملیں ۔
مسئلہ ۶۳۶۔ بہتر یہ ہے کہ میت کو کفن پہنانے سے پہلے کافور ملیں اگر چہ کفن پہنانے کی حالت میں یا اس کے بعد بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۶۳۷۔ جس نے حج یا عمرہ کے واسطے احرام باندھا ہو اگر صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے سے پہلے فوت ہو جائے تو اسے حنوط کر ناجائز نہیں ہے۔
مسئلہ ۶۳۸۔ جس عورت کو شوہر مر جائے اور وہ ابھی عدت وفات میں ہو اس پر اگر چہ خوشبو لگا نا حرام ہے لیکن اگر وہ مر جائے تو اس کو حنوط کر نا واجب ہے ۔
مسئلہ ۶۳۹۔ میت کو حنوط کر نے کے لئے مشک ،عنبر، عود یا دوسری کوئی خوشبو لگا نا مکروہ ہے یا ان چیزوں کو کافور سے ملا نا بھی مکروہ ہے بلکہ اسے احتیاط مستحب کی بنا پر ترک کرے ۔
مسئلہ ۶۴۰۔ مستحب ہے کہ کچھ خاک شفا کافور میں ملا دیں لیکن ایسا کافور ایسی جگہ نہ لگائیں جہاں بے احترامی ہو اور خاک شفا اس قدر زیادہ بھی نہ ہو کہ کافور کے ساتھ ملا نے پر اس کو کافور نہ کہا جاسکے ۔
مسئلہ ۶۴۱۔ اگر کافور نہ مل سکے یا فقط غسل کی مقدار مل سکے تو حنوط لازم نہیں ہے پس اگر غسل سے زیادہ ہو تو حنوط کریں اور اگر سات حصوں کے لئے کافی نہ ہو تو احتیاط کی بنا پر پہلے پیشانی پر ملیں ۔ اگر زیادہ ہو جائے تو باقی اعضاء پر ملیں ۔
مسئلہ ۶۴۲۔ مستحب ہے کہ میت کے ساتھ قبر میں دو ترو تازہ لکڑیاں رکھی جائیں ۔

نماز میت کے احکام
مسئلہ۶۴۳۔ مسلمان میت پر نماز پڑھنا واجب ہے اسی طرح جس بچہ کی عمر پورے چھ سال ہو اور اس بچہ کے ماں اور باپ یادونوں میں سے کوئی ایک کو مسلمان ہوتو اس کی میت پر بھی نمازپڑھنی چاہیئے ۔
مسئلہ۶۴۴۔جس بچہ کے چھ سال پورے نہیں ہوئے اس پر نماز پڑھنا مستحب ہے لیکن جو بچہ مرا ہوا ہو پیدا ہو اس پر نماز پڑھنا مستحب بھی نہیں ہے ۔
مسئلہ۶۴۵۔ نماز میت، غسل ،حنوط اور کفن پہنانے کے بعد پڑھنی چاہئیے اگر ان سے پہلے یا ان کے درمیان پڑھی جائے تو اگر چہ بھول جانے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے ہو کافی نہیں ہے ۔
مسئلہ۶۴۶۔ اگر کوئی نماز میت پڑھنی چاہے تو وضو ، غسل یا تیمم کر نا ضروری نہیں ہے اور بدن یا لباس وغیرہ کا پاک ہو نا بھی ضروری نہیں ہے البتہ اگر اس کا لباس غصبی ہو تو اشکال ہے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ تمام وہ چیزیں جو دوسری نمازوں میں لازم ہیں یہاں بھی ان پر عمل ہو نا چاہئیے۔
مسئلہ۶۴۷۔ جو شخص میت پر نماز پڑھے اس کا منھ قبلہ کی طرف ہو نا چاہئیے اور واجب ہے کہ میت اس کے سامنے پیٹھ کے بل اس طرح سے ہو کہ میت کا سر نماز پڑھنے والے کی دائیں جانب اور پاؤں نماز پڑھنے والے کے بائیں جانب ہو ۔
مسئلہ۶۴۸۔ نماز پڑھنے والے کی جگہ میت سے اونچی یا نیچی نہ ہو لیکن معمولی فرق میں اشکال نہیں ہے ضروری ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ غصبی نہ ہو ۔
مسئلہ۶۴۹۔ نماز پڑھنے والا میت سے دور نہیں ہو نا چاہیئے لیکن جو نماز میت کو باجماعت پڑھ رہا ہے اگر میت سے دور ہو اور صفیں ایک دوسرے سے ملی ہو ئی ہوں توا شکال نہیںہے ۔
مسئلہ ۶۵۰۔ نماز پڑھنے والے کو میت کے سامنے کھڑاہو نا چاہیئے لیکن اگر نماز باجماعت پڑھی جارہی ہو اور جماعت کی صف میت کے دونوں طرف سے بڑھ جائے تو جو لوگ میت کے سامنے نہیں ہیں انکی نماز میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۶۵۱۔ نماز پڑھنے والے اور میت کے درمیان پردہ،دیوار یا انکے مثل کوئی چیز حائل نہ ہو لیکن میت اگر تابوت یا اس جیسی کسی چیز میں ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۶۵۲۔نماز پڑھتے وقت میت کی شرمگاہ ڈھکی ہوئی ہو اور اگر میت کو کفن پہنانا ممکن نہ ہو تو میت کی شرمگاہ کو چھپانا چاہیئے اگر چہ لکڑی کے تختے یا اینٹ یا اس قسم کی چیزوں سے ہو۔
مسئلہ ۶۵۳۔ نماز میت کو کھڑے ہو کر اور قصد قربت کی نیت سے پڑھے اور نیت میں میت کو معین کرے مثلاًنیت کرے کہ میں اس میت پر نماز پڑھتا ہوں قربۃ ًالی اللہ ۔
مسئلہ ۶۵۴۔اگر کوئی ایسا آدمی نہ ہو کہ جو میت پر نماز کھڑے ہو کر پڑھے تو بیٹھ کر بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔
مسئلہ ۶۵۵۔اگر میت کی وصیت ہو کہ کوئی خاص شخص اس پر نماز پڑھے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ شخص میت کے ولی سے اجازت لے اور ولی پر بھی مستحب ہے کہ اس کو اجازت دے ۔
مسئلہ ۶۵۶۔میت پر کئی مرتبہ نماز پڑھنا مکروہ ہے لیکن اگر مرنے والا علم وتقویٰ والا ہو تو مکروہ نہیں ہے ۔
مسئلہ ۶۵۷۔اگر میت کو جان بوجھ کر یا بھول کر یا کسی عذر کی بنا پر بغیر نماز میت پڑھے دفن کر دیا جائے یا دفن کرنے کے بعد معلوم ہو کہ جو نماز اس پر پڑھی گئی ہے باطل ہے تو جب تک اس کا بدن پھٹ نہ جائے واجب ہے کہ ا سکی قبر پر نماز پڑھی جائے ۔
نماز میت پڑھنے کا طریقہ
مسئلہ ۶۵۸۔ نماز میت میں پانچ تکبیریں ہو تیں ہیں اور اگر نماز پڑھنے والا ان پانچ تکبیروں کو ترتیب کے ساتھ ادا کرے تو کافی ہے
نیت کر کے پہلی تکبیر کہنے کے بعد یہ کہے ’’اشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمد اً رسول اللہ ‘‘
اور دوسری تکبیر کے بعد کہے ’’اللھم صل علی محمد و آل محمدو صل علیٰ جمیع الانبیاء والمرسلین‘‘
اورتیسری تکبیر کے بعد کہے ’’اللھم اغفر للمومنین و المومنات ‘‘
اور چوتھی تکبیر کے بعد کہے ’’اللھم اغفر لھٰذا المیت ‘‘
اور میت عورت کی ہے تو یہ کہے’’اللھم اغفر لھٰذہ المیت‘‘
اس کے بعد پانچویں تکبیر کہے اور نماز تمام کر ے
مسئلہ ۶۵۹۔ بہتر یہ ہے کہ
پہلی تکبیر کے بعد یہ دعا کہے ’’اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ ارسلہ باالحق بشیراً و نذیرا ًبین یدی الساعۃ‘‘
اور دوسری تکبیر کے بعد کہے ’’اللھم صل علی محمد و آل محمد وبارک علیٰ محمد وآل محمد وارحم محمدا ً وآل محمد کافضل ما صلیت وبارکت و ترحمت علیٰ ابراھیم وآل ابراھیم انک حمید مجید و صل علیٰ جمیع الانبیاء و المرسلین و الشھداء والصدیقین و جمیع عباداللہ الصالحین‘‘

اورتیسری تکبیر کے بعد کہے ’’اللھم اغفر للمومنین و المومنات والمسلمین و المسلمات الاحیاء منھم والاموات تابع بیننا و بینھم بالخیرات انک مجیب الداعوات انک علیٰ کل شیٔ قدیر‘‘
اور چوتھی تکبیر کے بعد اگر میت مر د کی ہے تو یہ کہے ’’اللھم ان ھذا عبدک وابن عبدک وابن امتک نزل بک وانت خیر منزول بہ اللھم انا لا نعلم منہ الا خیرا و انت اعلم بہ منا اللھم ان کا ن محسنا ًفزد فی احسانہ و ان کا ن مسیئاً فتجاوز عنہ واغفر لہ اللھم اجعلہ عندک فی اعلیٰ علیین و اخلف علیٰ اھلہ فی الغابرین وارحمہ برحمتک یا ارحم الراحمین ‘‘اور اس کے بعد پانچویں تکبیر کہے
لیکن اگر میت عورت کی ہو تو چوتھی تکبیر کے بعد کہے ’’اللھم ان ھذہ امتک و ابنۃ عبدک و ابنۃ امتک نزلت بک وانت خیر منزول بہ اللھم انا لا نعلم منھا الا خیرا وانت اعلم بھا منا اللھم ان کانت محسنۃ ً فزد فی احسانھا و ان کانت مسیئۃ ًفتجاوز عنھا واغفر لھا اللھم اجعلھا عندک فی اعلیٰ علیین واخلف علیٰ اھلھا فی الغابرین وارحمھا برحمتک یا ارحم الراحمین ‘‘
مسئلہ ۶۶۰۔ تکبیر اور دعاؤں کو اس طرح یکے بعد دیگرے پڑھے کے نماز کی شکل خراب نہ ہو ۔
مسئلہ ۶۶۱۔جو شخص نماز میت کو جماعت کے ساتھ پڑھے اس کو چاہیئے کہ وہ تکبیرات اور دعائیں بھی پڑھے (یعنی امام کی تکبیر اور دعا پر اکتفا نہ کرے) ۔
نماز میت کے مستحبات
مسئلہ۶۶۲۔چند چیزیں نماز میت میں مستحب ہیں ۔
(۱)جو شخص نماز میت پڑھے وہ با وضو یا باغسل یا با تیمم ہو اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم اس وقت کرے جبکہ وضو یا غسل ممکن نہ ہو یا خوف ہو کہ اگر وضو یا غسل کرے گا تو نماز میت میں نہیں پہنچ سکے گا ۔
(۲)اگر میت مرد کی ہو تو امام یا جو تنہا اس میت پر نماز پڑھ رہا ہے وہ میت کے جسم کے وسط کے مقابل کھڑا ہو اور اگر عورت کی میت ہو تو اس کے سینے کے مقابل کھڑا ہو
(۳)ننگے پاؤں نماز پڑھے
(۴)ہر تکبیر پر ہاتھوں کوبلند کرے
(۵)میت سے اس کا اتنا کم فاصلہ ہو کہ اگر ہوا اس کے کپڑے کو ہلائے تو میت کے تابوت پر جالگے ۔
(۶)نماز میت جماعت کے ساتھ پڑھے
(۷)امام جماعت تکبیر اور دعائیں بلند آواز سے پڑھے اور اجو اس کے پیچھے پڑھ رہے ہیں وہ آہستہ آہستہ پڑھیں
(۸)جماعت کے ساتھ پڑھنے والوں کو امام کے پیچھے کھڑا ہو نا چاہیئے اگر چہ وہ ایک ہی کیوں نہ ہو ں
(۹)نماز پڑھنے والا میت اور مومنین کے لئے دعائیں کرے
(۱۰)نماز شروع ہونے سے پہلے تین دفعہ ’’الصلاۃ‘‘ کہے
(۱۱)ایسی جگہ نماز پڑھی جانی چاہیئے کہ جہاں لوگ نماز میت کے لئے زیادہ جمع ہوتے ہوں
(۱۲)اگر حائضہ عورت نماز میت جماعت کے ساتھ پڑھے تو ایک الگ صف میں اکیلی کھڑی ہو ۔
مسئلہ۶۶۳۔نماز میت مسجدوں میں پڑھنا مکروہ ہے لیکن مسجد الحرام میں مکروہ نہیں ۔

دفن کے احکام
مسئلہ۶۶۴۔میت کو اس طرح زمین میں دفن کر نا واجب ہے کہ اس کی بو باہر نہ آئے اورا س کے بدن کو درندے بھی باہر نہ نکال سکیں اور اگر درندوں کے باہر نکال لے جانے کا ڈر ہو تو قبر کو اینٹ یا اس قسم کی چیزوں سے مضبوط بنایا جائے ۔
مسئلہ۶۶۵۔ اگر میت کو زمین میں دفن کرنا ممکن نہ ہو تو اس کو دفن کرنے کے بجائے تابوت یا تعمیر (دیوار)میں رکھ سکتے ہیں ۔
مسئلہ۶۶۶۔میت کو قبر میں دائیں کروٹ اس طرح لٹانا چاہیئے کہ اس کے بدن کا سامنے کا حصہ قبلہ کی طرف ہو ۔
مسئلہ۶۶۷۔اگر کوئی پانی کے جہاز میں مر جائے تو اگر اس کا بدن خشکی تک خراب نہ ہو اور جہاز میں اسے رکھنے میں بھی کوئی رکاوٹ بھی نہ ہوتو پھر انتظار کر نا چاہئیے کہ خشکی پر پہنچ جائیں اور و ہاں پہنچ کر اسے خشکی میں دفن کیا جائے ورنہ جہاز میں اسے غسل کفن اور حنوط کیا جائے اور نماز میت پڑھ کر کوئی بھاری چیز اس کے پاؤں کے ساتھ باندھ کر دریا میں ڈال دیا جائے یا اسے بڑے مٹکے میں رکھ دیں اور اس کا منھ بند کر کے دریا میں ڈال دیا جائے ۔
مسئلہ۶۶۸۔ اگر ڈر ہو کہ دشمن میت کی قبر کھود دے گا اور اس کے بدن کو باہر نکالے گا اور اس کا کان ، ناک یا بدن کے دوسرے حصوں کو کاٹے گا تو اسے اس طرح چھپا کر دفن کیا جائے کہ دشمن وہاں نہ پہنچ سکے۔
مسئلہ۶۶۹۔ دریا میں ڈالنے اور قبر کو مضبوط کرنے کا خرچ میت کے اصل مال سے لیا جائے گا جب کہ اس کا مضبوط کر نایا دریامیں ڈالنا ضروری ہو ۔
مسئلہ۶۷۰۔ اگر کوئی کافر عورت مر جائے اور اس کے پیٹ میں مردہ بچہ ہو یا بچہ کے بدن میں ابھی تک روح داخل نہ ہوئی ہو اور بچہ کا باپ مسلمان ہو تو ایسی عورت کو قبر میں بائیں پہلو پر قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے لٹایا جائے تاکہ بچہ کا منھ قبلہ رخ ہو سکے ۔
مسئلہ۶۷۱۔ مسلمان کو کافروں کے قبرستان میں اور کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر نا جائز نہیں ہے ۔
مسئلہ۶۷۲۔ مسلمان کا ایسی جگہ دفن کر نا جہاں اس کی بے حرمتی ہو یعنی مثلا جہاں کوڑا کرکٹ یا گندگی ڈالی جاتی ہو جائز نہیں ہے ۔
مسئلہ۶۷۳۔ میت کو غصبی جگہ میں دفن نہیں کر نا چاہئیے اور ایسی جگہ پر جو دفن کے علاوہ کاموں کے لئے وقف ہے جیسے مسجدوغیرہ میں دفن کر نا جائز نہیں ہے ۔
مسئلہ۶۷۴۔ کسی میت کو دوسرے میت کی قبر میں دفن کر نا جائز نہیں ہے البتہ اگر قبر پرانی ہو چکی ہو اور پہلی میت ختم ہو چکی ہو تو جائز ہے اسی طرح چند طبقہ والی قبر میں بھی دفن کر نا جائز ہے ۔
مسئلہ۶۷۵۔ جو بدن کے حصے میت سے علیحدہ ہو جائیں اگر چہ ا سکے بال ، ناخن یا دانت ہوں ان کو بھی اس کے ساتھ دفن کر دیں لیکن جو دانت اور ناخن زندہ انسان سے علیحدہ ہو جائیں ان کا دفن کر نا مستحب ہے ۔
مسئلہ۶۷۶۔ اگر کوئی کنو ئیں میں مر جائے اور اس کا باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو اس کنوئیں کو بند کر دیں اور اسی کنوئیں کو اس کی قبر قرار دیا جائے ۔
مسئلہ۶۷۷۔ اگر کسی عورت کے پیٹ میں بچہ مر جائے اور اس بچہ کا رحم میں رہنا ماں کے لئے خطرے کا سبب ہو تو اسے آسان طریقہ سے باہر نکالا جائے اور اگر چہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے نکالنے پر مجبور ہوں تو ا سمیں اشکال نہیں ہے۔

دفن کے مستحبات
مسئلہ۶۷۸۔مستحب ہے قبر ایک متوسط انسان کے قد کے برابر کھودی جائے اور میت کو قریب ترین قبرستان میںدفن کیا جائے سوائے اس کے کہ دور والا قبر ستان کسی وجہ سے زیادہ بہتر ہو جیسے وہاں پر نیک لوگ دفن ہوں یا لوگ وہاں فاتحہ خوانی کو زیادہ جاتے ہوں ۔
مسئلہ۶۷۹۔ مستحب ہے کہ قبر سے چند گز پہلے جنازہ کو زمین پر رکھ دیا جائے اور پھر تین مرتبہ میں تھوڑا تھوڑا قبر سے نزدیک کریں اور ہر مرتبہ زمین پر رکھ کر اٹھائیں اور چوتھی مرتبہ قبر میں اتاریں اگر جنازہ مرد کو ہو تو پھر تیسری مرتبہ اس طرح زمین پر رکھیں کہ اس کا سر قبر کی پائنتی کے نزدیک ہو اور چوتھی دفعہ میں اس کو سر کی طرف سے قبر میں داخل کریں اور اگر عورت کا جنازہ ہو تو پھر تیسری مرتبہ میں اسے قبر کے قبلہ کی طرف رکھیں اور اسے چوڑائی میں داخل قبر کریں اور قبر میں اتارتے وقت کسی کپڑے سے قبر پر پردہ کریں ۔
مسئلہ۶۸۰۔ مستحب ہے کہ جنازہ کو آرام سے تابوت سے نکالیں اور قبر میں داخل کریں اور وہ دعائیں جو مقرر ہیں دفن سے پہلے اور دفن کے بعد پڑھی جائیں جب میت کو لحد میں رکھ چکیں تو اس کے کفن کی گرہیں کھول دی جائیں اور اس کے رخسار کو مٹی پر رکھا جائے اور مٹی جمع کر کے اس کے لئے تکیہ سر کے نیچے بنا دیا جائے اور میت کی پیٹھ کے پیچھے کچھ کچی اینٹیں ڈھیلے رکھ دئے جائیں تاکہ میت چت نہ ہو جائے ۔
مسئلہ۶۸۱۔ قبر کو بند کر نے سے پہلے دائیں ہاتھ کو مردہ کے دائیں کندھے پر اور بائیں ہاتھ کو مردہ کے بائیں کندھے پر رکھا جائے اور منھ کو اس کے کانوں تک لے جائے اور زور زور سے اس کے کندھے کو ہلا کر تین مرتبہ کہے ’’اسمع افھم یا فلان ابن فلان ‘‘اور بجائے فلاںکے میت اور اس کے باپ کا نام لے مثلا اگرا س کا نام محمد ہے اور اس کے باپ کا نام علی ہے تو تین مرتبہ اس طرح کہے ’’اسمع افھم یا محمد بن علی ‘‘اس کے بعد کہیں :
ھل انت علی العھد الذی فارقتنا علیہ من شھادتہ ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شرک لہ وان محمدا صلی اللہ علیہ و آلہ عبدہ و رسولہ و سید النبیین و خاتم المرسلین وان علیا امیر المومنین و سید الوصیین و امام ن افترض اللہ طاعتہ علی العالمین و ان الحسن والحسین و علی بن الحسین ومحمد بن علی وجعفر بن محمد و موسیٰ بن جعفر و علی بن موسیٰ و محمد بن علی و علی بن محمد و الحسن بن علی والقائم الحجۃالمھدی صلوات اللہ علیھم ائمۃالمو منین و حجج اللہ علی الخلق اجمعین و ائمتک ائمۃ ھدیٰ ابراریا فلان بن فلان (بجائے فلان بن فلان میت اور اس کے باپ کا نام لے اور پھر کہے )اذا اتاک الملکان المقربان رسولین من عند اللہ تبارک و تعالیٰ وسألا ک عن ربک و عن نبیک وعن دینک و عن کتابک وعن قبلتک وعن ائمتک فلا تخف ولا تحزن و قل فی جوابھما اللہ ربی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ نبیی و الاسلام دینی و القرآن کتابی و الکعبۃ قبلتی و امیر المومنین علی بن ابی طالب امامی والحسن بن علی مجتبیٰ امامی و الحسین بن علی شھید بکربلاامامی و علی زین العابدین امامی و محمد الباقر امامی و جعفر الصادق امامی و موسیٰ الکاظم امامی و علی الرضا امامی و محمد الجواد امامی وعلی الھادی امامی والحسن العسکری امامی و الحجۃ المنتظر المھدی امامی ھؤلاء صلوات اللہ علیھم اجمعین ائمتی و سادتی و قادتی و شفعائی بھم اتولیٰو من اعدائھم اتبرأفی الدنیا و الآخرۃثم اعلم یا فلان بن فلان (یہاں میت اور اس کے باپ کا نام لے اور پھر کہے)ان اللہ تبارک وتعالیٰ نعم الرب وان محمدا ً صلی اللہ علیہ وآلہ نعم الرسول و ان علی بن ابی طالب و اولادہ المعصومین الائمۃالاحد عشر نعم الائمۃوان ما جاء بہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ حق ، و ان الموت حق و سؤال منکر و نکیر فی القبرحق و البعث حق و النشورحق ، والصراط حق والمیزان حق ، و تطایر الکتب حق و ان الجنۃ حق و النار حق و ان الساعۃ آتیۃ لا ریب فیھا، و ان اللہ یبعث من فی القبور (پھر کہے)
افھمت یا فلان بن فلان (بجائے فلان میت کا نام لے پھر اس کے بعد کہے )ثبتک اللہ با لقول الثابت و ھداک اللہ الی صراط مستقیم و عرف اللہ بینک و بین اولیائک فی مستقر من رحمتہ
(پھر کہے)اللھم جاف الارض عن جنبیہ و اصعد بروحہ الیک و لقہ منک برھانا اللھم عفوک عفوک۔
مسئلہ۶۸۲۔ مستحب ہے کہ جو شخص میت کو قبر میں اتا ر رہا ہے وہ سر اور پاؤں سے ننگا ہو با وضو اور میت کی پاؤں کی طرف سے قبر سے باہر نکلے اور میت کے رشتہ داروں کے علاوہ جو لوگ وہاں موجود ہوں وہ ہاتھوں کی پشت سے قبر پرمٹی ڈالیں اور اس وقت پڑھیں ’’انا للہ و انا الیہ راجعون ‘‘اور میت عورت کی ہو تو اسے اس کے محرم قبر میں اتاریں اور اگر اس کا کوئی محرم نہ ہو تو پھر اس کے رشتہ دار اسے قبر میں اتاریں ۔
مسئلہ۶۸۳۔ مستحب ہے کہ قبر کو مربع یا مستطیل بنائیں اور چار انگلیوں کے برابر زمین سے بلند کریں اور کوئی نشان اس پر لگا دیا جائے تاکہ کسی کو پہچاننے میں اشتباہ نہ ہو اور قبر پر پانی چھڑکیں اور جو لوگ حاضر ہوں پانی چھڑکنے کے بعد ہاتھ کی انگلیوں کو پھیلا کر قبر کی مٹی پر اس طرح رکھیں کہ انگلیاں خاک میں گڑ جائیں اور سات مرتبہ سورہ انا انز لنا پڑھیں اور میت کے لئے دعائے مغفرت کریں اوریہ دعا پڑھیں ’’اللھم جاف الارض عن جنبیہ و اصعد الیک روحہ ولقہ منک رضوانا واسکن قبرہ من رحمتک ما تغنیہ عن رحمۃمن سواک‘‘ ۔
مسئلہ۶۸۴۔ تشیع جنازہ کے لئے جو لوگ آئے تھے ان کے واپس جانے کے بعد مستحب ہے کہ میت کا ولی یا جسے وہ اجازت دے وہ ایک دفعہ تلقین پڑھے ۔
مسئلہ۶۸۵۔ مستحب ہے کے دفن کے بعد میت کے سوگواروں کو پرسہ دیا جائے اور اگر زیادہ مدت گذر گئی ہو کہ پرسہ دینے سے ان کی مصیبت تازہ ہو جائے گی تو پرسہ نہ دینا بہتر ہے اور مستحب ہے کہ جن کے گھر میت ہوئی ہوان کے لئے تین دن تک کھانا بھیجا جائے اوران کے ساتھ یا ان کے گھر میں کھانا کھانا مکروہ ہے ۔
مسئلہ۶۸۶۔ مستحب ہے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کے مرنے پر خصوصا بیٹے کی موت پر صبر کرے اور جب بھی میت کو یاد کرے تو ’انا للہ وانا الیہ راجعون ‘‘کہے اور میت کے لئے قرآن پڑھے ماں اور باپ کی قبر پر جاکر خدا وند عالم سے حاجتیں طلب کرے اور قبر کو مضبوط بنائے تاکہ جلدی خراب نہ ہو جائے۔
مسئلہ۶۸۷۔ جائز نہیں ہے کہ انسان کسی کی میت پر منھ اور بدن کو نوچے یا طمانچے مارے ہاں ائمہ علیھم السلام کے غم میں ایسا کرنا جائز ہے بلکہ مستحب ہے ۔
مسئلہ۶۸۸۔ باپ اور بھائی کی موت کے علاوہ کسی کی موت پر گریبان چاک کرنا جائز نہیں ہے اگر چہ احوط یہ ہے کہ ان کی موت پر بھی گریبان چاک نہ کیا جائے ۔
مسئلہ۶۸۹۔ اگر کوئی شخص بیوی یا بیٹے کی موت پر اپنا گریبان یا لباس چاک کرے اور اگر عورت کسی عزیز کی موت پر اپنے چہرہ کو نوچے یا اپنے بال اکھاڑے تو اس کو چاہئیے کہ ایک غلام آزاد کرے یا دس فقیروں کو کھانا کھلائے یا لباس پہنائے۔یہی حکم اس مرد کے لئے بھی ہے جواپنی بیوی یا بیٹے کی موت پر ایسا کرے ۔
مسئلہ۶۹۰۔ میت پر روتے وقت آواز بہت بلند نہیں کرنی چاہئیے ، لیکن معصومین علیھم السلام کی مصیبت پر بلند آواز سے گریہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

نماز وحشت قبر
مسئلہ۶۹۱۔ مستحب ہے کہ دفن کی پہلی رات دو رکعت نماز وحشت میت کے لئے پڑھی جائے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد ایک مرتبہ آیۃالکرسی پڑھے اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سور ۂ انا انزلنا پڑھے اور سلام کے بعد کہے’’ اللھم صل علی محمد و آل محمد وابعث ثوابھا الی قبر فلان ‘‘اور فلان کی جگہ اس مرنے والے کا نام لے ۔
مسئلہ۶۹۲۔ نماز وحشت پہلی رات کے تمام حصوں میں پڑھی جاسکتی ہے لیکن بہتر یہ ہے رات کے پہلے حصہ میں عشاء کی نماز کے بعد پڑھی جائے ۔
مسئلہ۶۹۳۔ اگر میت کو کہیں دور لے جائیں یا اس کے دفن میں کسی اور وجہ سے تاخیر ہو جائے توبہتر ہے کہ نماز وحشت اس کے مرنے کے بعد جو پہلی رات میں ہی پڑھی جائے البتہ جمع کرنا یعنی مرنے کی پہلی رات اور دفن کی پہلی رات دونوں میں نماز وحشت پڑھنا احوط ہے۔

نبش قبر (قبر کا کھولنا )
مسئلہ۶۹۴۔ کسی مسلمان کی قبر کا کھولنا اگر چہ وہ بچہ یا دیوانہ ہی کیوں نہ ہو حرام ہے البتہ اگر اس کا بدن ختم ہو کر مٹی ہو چکا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ۶۹۵۔ پیغمبروں،اماموں،امام زادوں ، شھیدوں ، عالموں اور صالح لوگوں کی قبروں کو کھولنا حرام ہے اگر چہ ان پر کئی سال گزر چکے ہوں ۔
مسئلہ۶۹۶۔مندرجہ ذیل جگہوں میں قبر کا کھولنا حرام نہیں ہے ۔
(۱)جب میت کسی غصبی زمین میں دفن کی گئی ہواور زمین کا مالک راضی نہ ہوتا ہو ۔
(۲)کفن یا کوئی دوسری چیز جو میت کے ساتھ دفن ہو گئی ہے وہ غصبی ہو اور اس کامالک راضی نہ ہوتا ہو اور اسی طرح میت کا مال جو بعد میں وارثوں کو ملنے والا تھا اس کے ساتھ دفن ہو جائے اور وارث اس کے ساتھ رہنے میں راضی نہ ہوں ۔
(۳)میت کو بغیر غسل یا کفن کے دفن کر دیا گیا ہو یا بعد میں معلوم ہو کہ اس کا غسل باطل ہے یا کفن شرعی طور سے نہیں دیا گیا یا اس کو قبر میں قبلہ رو نہیں لٹایا گیا ۔
(۴)کسی حق کو ثابت کر نے کے لئے میت کو دیکھا جا نا ضروری ہو ۔
(۵) میت کو ایسی جگہ دفن کیا گیا ہو جہاں اس کی بے احترامی ہو رہی ہو مثلا کافروں کے قبر ستان میں دفن ہو یا گندگی یا کوڑا کرکٹ ڈالے جانے کی جگہ دفن ہو گیا ہو۔
(۶)کسی ایسی شرعی مطلب کے لئے قبر کا کھودنا ضروری ہو کہ ا سکی اہمیت اس سے زیادہ ہو مثلاً زندہ بچہ کو حاملہ میت کے پیٹ سے باہت نکالنا ہو ۔
(۷)ایسی جگہ میت دفن کی گئی ہو کہ ا سے درندوں کے نکال لے جانے کا خطرہ ہو یا سیلاب کے بہا لے جانے کا خطرہ ہویا دشمن کے نکال لینے کا خطرہ ہو ۔
(۸)جب میت کے جسم کا کوئی حصہ دفن نہ ہو اہو اور اسے اس کے ساتھ دفن کر نا چاہیں ، لیکن اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کے بدن کے اس حصہ کو اس کی قبر میں اس طرح کھود کر رکھیں کہ میت کا جسم نہ دیکھا جائے ۔

مستحب غسل
مسئلہ۶۹۷۔ شریعت مقدس اسلام میں مستحب غسل بہت ہیں اور ان میںسے غسل جمعہ ہے اس کا وقت صبح کی اذان سے لے کر ظہر تک ہے لیکن ظہر کے قریب کر نا بہتر ہے ۔
مسئلہ۶۹۸۔ روز جمعہ اگر ظہر تک غسل نہ ہو سکاہو تو پھر بہتر ہے کہ اس کے بعد غروب آفتاب تک ادا و قضاء کی نیت کے بغیر بجا لائے اور اگر جمعہ کے دن بالکل غسل نہ کر سکا ہو تو مستحب ہے کہ ہفتہ کی صبح سے لے کر غروب آفتاب تک قضا کی نیت کے ساتھ بجا لائے اگر ہفتہ کی رات کو بجا لائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کسی کو خوف ہو کہ وہ جمع کے دن پانی نہ ملنے کی وجہ غسل نہیں کر سکے گا تو جمعرات کے دن یا جمعہ کی رات کوغسل کرلے اوراگر جمعہ یا ہفتہ کے دن بجا نہیں لاسکا تو ہفتہ کے کسی بھی دن اس قصد سے کہ پروردگا ر کو مطلوب ہے بجا لاسکتا ہے ۔
مسئلہ۶۹۹۔مستحب ہے کہ جمعہ کے غسل کرتے وقت یہ دعا پڑھیں ۔ ’’اشھد ان لا الہ الا وحدہ لا شریک لہ وان محمد اعبدہ و رسولہ اللھم صل علی محمد وآل محمد واجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین‘‘۔
مسئلہ۷۰۰۔ماہ رمضان کی پہلی رات اور تمام طاق راتوں میں مثلا تیسری یا پانچویں اور ساتویں میں مستحب ہے لیکن اکیسویں سے لے کر آخر ماہ مبارک تک ہر رات میں غسل کر نا مستحب ہے اور خاص طور پر پہلی ، پندرہویں ، سترہویں ، انیسویں ، اکیسویں ، تئیسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں اور انتیسویں شب کو بہت زیادہ سفارش ہوئی ہے ۔
مسئلہ۷۰۱۔ ماہ رمضان کی راتوں کو غسل کا وقت تمام رات ہے لیکن غروب سے متصل بجا لانابہتر ہے لیکن اکیسویں تاریخ سے آخری تاریخ تک بہتر ہے کہ مغرب و عشاء کے درمیان غسل کرے اوریہ بھی مستحب ہے کہ تئیسویں رات کو اول شب کے غسل کے علاوہ ایک غسل آخر شب میں بھی بجا لائے ۔
مسئلہ۷۰۲۔عید فطر اور عید قربان کا غسل مستحب ہے اور اس کا وقت صبح کی اذان سے غروب آفتاب تک ہے اور بہتر ہے کہ عید کی نماز سے پہلے بجالائے اسی طرح عید فطر کی رات کا غسل اور اس کا وقت اول مغرب سے صبح کی اذان تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ اول شب میں بجا لایا جائے ۔
مسئلہ۷۰۳۔آٹھویں اور نویں ذی الحجہ کے دن غسل کرنا مستحب ہے اور نویں کا غسل ظہر کے نزدیک بجا لا نا بہتر ہے اسی طرح ماہ رجب کی پہلی ، پندرہویں ، ستائیسویں اور آخری تاریخ کا غسل مستحب ہے ،عید غدیر کے دن کا غسل مستحب ہے اور بہتر ہے کہ ظہر سے پہلے بجا لا یا جائے ،چوبیس ذی الحجۃعید مباہلہ کے دن کا غسل ،عید نوروز کے دن پندرہویں شعبان ، نویں اور سترہویں ربیع الاول اور پچیسویں ذیقعدہ کا غسل بھی مستحب ہے ۔
مسئلہ۷۰۴۔نو مولود کو غسل دینا مستحب اسی طرح کہ عورت کو جس نے اپنے شوہر کے سوا کسی اور کے لئے خوشبو استعمال کی ہو غسل کر نا ۔اس شخص کا غسل کر نا جو مستی میں سو گیا ہو ۔اس شخص کا غسل کرنا جب کسی کو غسل دیا ہومیت سے اس کے بدن کا کوئی حصہ چھو جائے ۔اسی طرح جس شخص نے جان بوجھ کر نماز آیا ت نہ پڑھی ہوجب کہ سورج یا چاند کوپورا گرہن لگا ہو اس کے لئے بھی غسل کرنا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۷۰۶۔مستحب ہے کہ جو شخص کسی پھانسی پر چڑھے ہوئی انسان کو دیکھنے گیا ہو اور پھر اس نے دیکھا بھی ہو تو غسل کرے البتہ اگر اتفاقا وہاں سے گزر ہو ایا مجبوری کی وجہ سے اسے دیکھا ہو یا مثلا گواہی دینے کے لئے گیا ہو تو پھر اس کے لئے غسل مستحب نہیں ہے ۔
مسئلہ۷۰۶۔ حرم مکہ معظمہ اور خود مکہ معظمہ ، مسجد الحرام ، خانہ کعبہ ، حرم مدینہ منورہ ، مدینہ منورہ کے شہر، مسجد پیغمبر اور ائمہ علیھم السلام کے حرم میں داخل ہونے سے پہلے انسان کے لئے غسل کر نا مستحب ہے ۔ اگر ایک دن میں چند مرتبہ حرم میں داخل ہو نا ہوتو پھر ایک غسل کا فی ہے ۔
مسئلہ۷۰۷۔ جو شخص ایک ہی دن حرم مکہ مسجد الحرام اور کعبہ میں داخل ہو نا چاہتا ہو اگر وہ سب کی نیت سے ایک غسل بجا لائے تو کافی ہے اور اگر ایک دن حرم مدینہ، شہر مدینہ اور مسجد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہو نا چاہتا ہو تو سب کے لئے ایک ہی غسل کافی ہے ۔
مسئلہ ۷۰۸۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیھم السلام کی زیارت کے لئے خواہ نزدیک سے پڑھے یا دور سے اللہ تعالیٰ سے کوئی حاجت طلب کر نے کے لئے ، اسی طرح توبہ کے لئے ، عبادت میں شگفتگی پیدا ہونے کے لئے ، سفر میں جانے کے لئے خصوصا امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے سفر کے لئے غسل کر نا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۷۰۹۔ ان غسلوں میں سے جو اس مسئلہ میں بیان ہوئے ہیں ایک غسل بجا لا یا ہو اور اس کے بعد کوئی ایسا کام کرے جس سے وضو باطل ہو جا تا ہے مثلا سو جائے تو اس کا غسل باطل نہیں ہو گا لیکن مستحب ہے کہ دوبارہ غسل بجا لائے ۔
مسئلہ ۷۱۰۔ انسان مستحب غسل سے ایسا کام بجا نہیں لا سکتا جس میں وضو ضروری ہو تا ہے جیسے واجب نماز ۔
مسئلہ ۷۱۱۔ جب کسی شخص پر کئی ایک غسل واجب یا کچھ واجب اور کچھ مستحب یا تمام مستحب ہوں تو تمام کی نیت سے ایک غسل کافی ہے ۔

تیمم کے احکام
مسئلہ۷۱۲۔ سات مقامات پر وضو اور غسل کے بدلے تیمم کرنا چاہئیے :
(۱) وضو اور غسل کے لئے جتنی مقدار پانی کی ضرورت ہے موجود نہ ہو۔
(۲)پانی کا مہیا کرنا ممکن نہ ہو
(۳)پانی کا استعمال نقصان دہ ہو
(۴)پیاس کا خطرہ ہو
(۵)موجودہ پانی فقط بدن اور کپڑے کی نجاست دور کرنے کے لئے ہو
(۶) پانی مباح نہ ہو
(۷)وقت تنگ ہو
تیمم کا پہلا مقام
مسئلہ۷۱۳۔ جب بھی وضو اور غسل کے لئے جتنی مقدار پانی کی ضرورت ہے موجود نہ ہوتو تیمم کرنا چاہیئے اگر کوئی انسان آبادی میں ہو تو پھر وضو اور غسل کے لئے پانی ملنے کی اتنی جستجو کرے کہ وہ پانی ملنے سے نا امید ہو جائے اور اگر وہ بیابان میں ہو جہاں زمین نشیب وفراز والی ہو تو ہر طرف ایک تیر کے اندازہ پر پانی کو ڈھونڈے ۔یعنی ایک تیر جس کو پہلے زمانہ میں کمان کے ذریعہ پھینکا جاتا تھا تو جتنی دور تک وہ جاسکے وہ ایک تیر کہلاتا ہے اور اگر زمین صاف ہو تو پھر ہر ایک طرف دو تیر کے اندازہ تک پانی ڈھونڈے۔
مسئلہ ۷۱۴۔اگر چاروں طرف میں سے کچھ طرف کی زمین ہموار ہو اورکچھ طرف کی نشیب و فراز والی ہو تو جو طرف صاف ہو ادھر دو تیر کے اندازہ سے اور نشیب و فراز والی زمین کی طرف ایک تیر کے اندزہ سے پانی تلاش کرے ۔
مسئلہ ۷۱۵۔ جس طرف یقین ہو کہ ادھر پانی با لکل نہیں ہے تو اس طرف پانی ڈھونڈنا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ ۷۱۶۔ جب نماز کا وقت تنگ نہ ہو اور پانی کو ڈھونڈنے کے لئے وقت بھی ہو تو اگرا سکو یقین ہو کہ ایک تیر یا دو تیر سے زیادہ فاصلہ پر پانی مل جائے گااور وہاں جا نا ضرر نہ رکھتا ہو تو پانی مہیا کرنے کے لئے جائے لیکن اگر گمان ہو کہ پانی مل جائے گا تو وہاں تک جانا ضروری نہیںہے ہاں اگر اطمینان ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ پانی کی تلاش میں وہاں جائے ۔
مسئلہ ۷۱۷۔ پانی کو ڈھونڈنے کے لئے خود انسان کا جا نا ضروری نہیں ہے بلکہ کسی ایسے آدمی کو بھیج سکتا ہے جس کے کہنے پر اطمینان ہو پس اگر کئی آدمیوں پر پانی ڈھونڈنا واجب ہے اور ان کی طرف سے ایک آدمی چلا جائے تو کافی ہے ۔
مسئلہ ۷۱۸۔ اگر احتمال ہو کہ گھر میں یا سامان میں یا قافلہ میں پانی موجود ہے تو پھر اتنا ڈھونڈے کہ اس کے نہ ہو نے کا یقین ہو جائے یا اس کے ملنے سے نا امید ہو جائے ۔
مسئلہ ۷۱۹۔ اگر نماز کے وقت سے پہلے تلاش کرے اور پانی نہ مل سکے اور وقت نماز تک وہیں رہے اگر احتمال عقلائی ہو کہ دو بارہ تلاش کرنے سے پانی مل جائے گا تو احتیاط یہ ہے کہ دوبارہ تلاش کرے۔
مسئلہ۰ ۷۲۔ اگر نماز کا وقت آگیا اور تلاش کرنے پر پانی نہیں ملااور دوسری نماز تک اس جگہ رہے اگر احتمال عقلائی ہو کہ دوبارہ تلاش کر نے سے پانی مل جائے گا تو احتیاط یہ ہے کہ دو بارہ تلاش کرے۔
مسئلہ ۷۲۱۔ اگر نماز کا وقت تنگ ہو یا چور اور درندوں کا خوف ہو یا پانی کا ڈھونڈنا اس قدر سخت ہو جو قابل برداشت نہ ہو تو پانی ڈھونڈنا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ ۷۲۲۔ اگر پانی ڈھونڈنے نہ جائے یہاں تک کہ نماز کا وقت تنگ ہو جائے تو گناہ کیا لیکن اس کی نماز تیمم کے ساتھ صحیح ہے ۔
مسئلہ۷۲۳۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ پانی نہیں ملے گا اس لئے وہ پانی ڈھونڈنے نہیں گیا اور تیمم کر کے نماز پڑھ لی اور نماز کے بعد معلوم ہو کہ اگر وہ تلاش کرتا تو پانی مل جاتا تو جو نماز پڑھی ہے اس کی نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۷۲۴ ۔اگر ڈھونڈنے کے باوجود پانی نہیں ملا اور تیمم کر کے نماز پڑھ لی لیکن بعد میں معلوم ہو کہ جس جگہ تلاش کیا تھا پانی موجود تھا اور اسکی یہ نماز صحیح ہے لیکن اگر وقت باقی ہو تو اس صورت میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کا اعادہ کرے ۔
مسئلہ ۷۲۵۔جس شخص کو یقین ہو کہ نماز کا وقت تنگ ہے اور بغیر پانی تلاش کئے تیمم کے ساتھ نماز پڑھ لے اور بعد میںمعلوم ہو کہ تلاش آب کے لئے تووقت موجودتھا اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہے تو قضا بجا لائے ۔
مسئلہ ۷۲۶۔ اگر کوئی شخص نما زکا وقت داخل ہو نے کے بعد باوضو ہو اور اسے معلوم ہو کہ اگراس نے وضو توڑ ڈالا تو پھر پانی حاصل نہیں کر سکے گا یا وضو نہیں کر سکے گا ۔ اگر اپنے وضو کو باقی رکھنے پر قادر ہے تو اس کو وضو نہیں توڑنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۷۲۷۔ اگر کوئی نماز کے وقت سے پہلے باوضو ہو اور جانتا ہو کہ اگر وہ وضو کو باطل کر دے تو پانی نہیں ملے گا اگر اپنے وضو کو باقی رکھ سکتا ہے تو احتیاط یہ ہے کہ اس کو باطل نہ کرے ۔
مسئلہ ۷۲۸۔ اگر کسی کے پاس صرف وضو یا غسل کی مقدار کا پانی موجود ہواور جانتا وہ کہ اگر وہ اس کو گرا دے گا تو دوبارہ اسے پانی نہیں مل سکے گا چنانچہ نماز کا وقت داخل ہوچکا ہو تواس کا پانی گرانا حرام ہے اور احتیاط یہ ہے کہ نماز کا وقت داخل ہو نے سے پہلے بھی پانی کو ضائع نہ کرے ۔
مسئلہ ۷۲۹۔ جس کو معلوم ہو کہ پانی نہیں ملے گا اگر نماز کے وقت کے داخل ہو نے کے بعد اپنے وضو کو باطل کرے یا جوپانی موجود ہو اس کو ضائع کردے تو گنہگار ہو گا البتہ اس کی نماز تیمم کے ساتھ صحیح ہے ۔اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا بھی کرے۔
تیمم کا دوسرا مقام
مسئلہ ۷۳۰۔ جو شخص بڑھاپے یا چور اور جانور وغیرہ کے ڈر سے کنوئیں سے پانی نکالنے کا سامان نہ رکھنے کی وجہ سے پانی تک نہ پہنچ سکتا ہو تو اسے چاہئیے کہ تیمم کرے اسی طرح اگر پانی حاصل کر نے میں یا استعمال کرنے میں اتنی مشقت ہو کہ قابل برداشت نہ ہو تو بھی تیمم کرے۔
مسئلہ ۷۳۱۔ کنوئیں سے پانی نکالنے کے لئے ڈول اور رسی یا ان جیسی چیزوں کہ جن کی ضرورت ہو تی ہے ان کا خریدنا یا کرایہ پر لینا ضروری ہے اگر چہ قیمت کئی گنا ہو ، اسی طرح اگر پانی خریدنا ضروری ہے اگر چہ اس کی قیمت کئی گنا ہے لیکن اگر ان چیزوں کوخریدنے میں اتنا پیسہ لگتا ہو کہ اس کی حیثیت کے لحاظ سے نقصان ہو تو حاصل کرنا واجب نہیں ہے اسی طرح اگر عرفی طور سے تکلیف حرج ہو تو بھی حاصل کرنا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ ۷۳۲۔ اگر پانی کے حاصل کرنے میں مجبوری ہو کہ کسی سے روپیہ قرض لے تو اسے روپیہ قرض لینا چاہئیے، البتہ اگر اسے معلوم ہو یا گمان پیدا ہو جائے کہ وہ قرض کو بعد میں ادا نہیں کر سکے گا تو اس کو قرض لینا واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۷۳۳۔ اگر کنواں کھودنے میں مشقت نہ ہو تو پانی حاصل کر نے کے لئے کنواں کھودے ۔
مسئلہ ۷۳۴۔اگر کوئی شخص احسان جتا ئے بغیر پانی دے تو ضرور قبول کر نا چاہیئے لیکن اگر احسان جتائے تو قبول کرنا لازم نہیں ہے ۔
تیمم کا تیسرا مقام
مسئلہ ۷۳۵۔ جب انسان پانی کے استعمال سے جان کا خطرہ محسوس کرے یا ڈرے کے پانی کے استعمال سے اس میں بیماری یا کوئی عیب پیدا ہو جائے گا یا ڈرے کے موجودہ مرض طویل ہو جائے گایا مرض سخت ہو جائے گا یا علاج دشوار ہو جائے گا تو اسے تیمم کر نا چاہئیے البتہ اگر گرم پانی اس کے لئے مضر نہ ہو تو اسے چاہئیے کہ گرم پانی سے وضو یا غسل کرے ۔
مسئلہ ۷۳۶۔ یہ لازم نہیں کہ یقین ہو کہ پانی اس کو نقصان دے گا بلکہ اگر نقصان کا احتمال بھی ہو اور یہ احتمال لوگوں کی نظر میں معقول بھی ہو اور اس احتمال سے اس ے ڈر بھی پیدا ہو جائے تو اسے تیمم کرنا چاہئیے۔
مسئلہ۷۳۷۔ جس شخص کی آنکھ میں درد ہواور پانی کا استعمال اس کے لئے مضر ہو تو وہ تیمم کرے ۔
مسئلہ ۷۳۸۔ اگر کوئی شخص نقصان کے یقین یا نقصان کے ڈر سے تیمم کرے اور نماز سے پہلے اسے معلوم ہو جائے کہ پانی کا استعمال اس کے لئے مضر نہیں ہے تو اس کا تیمم باطل ہے اور اگرنماز کے بعد علم ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وضو یا غسل کر کے نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا وہ تو اس کی قضا کرے ۔
مسئلہ ۷۳۹۔ اگر کسی شخص کو معلوم تھا کہ پانی اس کے لئے مضر نہیں اگر اسے وضو کرنے یا غسل بجا لانے کے بعد علم ہو کہ پانی کا استعمال اس کے لئے مضر تھا توا سکا وضو اور غسل صحیح ہے ۔
تیمم کا چوتھا مقام
مسئلہ ۷۴۰۔ جب کسی شخص کو یہ خوف ہو کہ اگرا سنے پانی کو وضو یا غسل کر نے میں خرچ کر لیا تو خود یا اس کے بال بچہ یاا سکے احباب اور وہ لوگ جو ا س سے واسطہ رکھتے ہیںمثلا نوکر وغیرہ یا ہر وہ انسان جس کے جان کی حفاظت واجب ہے پیاس کی سختی سے مر جائیں گے یا بیمار ہو جائیں گے یااتنے پیاسے ہو جائیں گے کہ برداشت کر نا مشکل ہو جائے گا توا سے چاہئیے کہ وضو اور غسل کے بجا ئے تیمم کرے اور اگر خوف ہو کہ وہ حیوان جو قابل احترام ہیںپیاس کی وجہ سے مر جائے گا تو چاہئیے کہ پانی ان کو پلا دے اور خود تیمم کرے اور اسی طرح ہے اگرخوف ہو کہ بعد میں پیاسارہ جائے گا تو اس صورت میں بھی پانی کو بچانا اور تیمم کرنا ضروری ہے ۔
مسئلہ ۷۴۱۔ اگر پاک پانی جو وضو یا غسل کے لئے ہے اس کے علاوہ نجس پانی بھی ہے جو اس کے اور اس کے متعلقین کے پینے کے لئے کافی ہوتو توا سے چاہئیے کہ پاک پانی پینے کے لئے رکھے اور تیمم کر کے نماز پڑھے اور اگر حیوانوں کے لئے پانی کی ضرورت ہو تو نجس پانی ان کو پلائے اور پاک پانی سے وضو یا غسل کرے۔
تیمم کا پانچواں مقام
مسئلہ ۷۴۲۔ جس شخص کا بدن یا لباس نجس ہو اور پانی تھوڑا ہو کہ اگر اس سے وضو یا غسل کرے تو بدن یا لباس پاک کر نے کو پانی باقی نہ رہے گا توا س کو چاہئیے کہ بدن یا لباس کو پانی سے پاک کرے اور تیمم کر کے نماز پڑھے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے نجاست کو دور کرے البتہ اگر کوئی ایسی چیز نہ ہوکہ جس پر تیمم کرے تو ا سکو چاہئیے کہ پانی کو وضو یا غسل میں خرچ کرے اور نجس بدن یا لباس میں نماز پڑھے۔
تیمم کا چھٹامقام
مسئلہ ۷۴۳۔ اگر پانی یا اس کا برتن ایسا ہو کہ جس کا استعمال کر نا حرام ہے اور کوئی دوسرا برتن یا پانی موجود نہ ہو مثلا پانی یا برتن غصبی ہواور اس کے علاوہ کو ئی پانی یا برتن موجود نہ ہو تو اس کو چاہئیے کہ بجا ئے وضو اور غسل کے تیمم کرے۔
تیمم کا ساتواں مقام
مسئلہ۷۴۴۔اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہو جائے کہ اگر وہ وضو یا غسل کرے تو ساری نماز یا اسکا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے گا توا س کو چاہئیے کہ تیمم کرے اور نماز کو وقت میں پڑھے۔
مسئلہ ۷۴۵۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز پڑھنے میں تاخیر کرے کہ وضو یا غسل کرنے کا وقت بھی نہ رہے توا س صورت میں اس نے گناہ کیا ہے لیکن نمازتیمم کر کے صحیح ہو گی ۔
مسئلہ ۷۴۶۔ اگر کسی کو شک ہو کہ اگر وضو یا غسل کرے گا تو پھر نماز کے لئے وقت ہو گا یا نہیں توا سکو وضو یا غسل کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۷۴۷۔ اگر کسی شخص نے وقت کی تنگی کی وجہ سے تیمم کیا اور وہ پانی جواس کے پاس موجود تھا وہ اس سے نماز کے بعد ضائع ہو جائے گا تو اگر چہ اس کا تیمم نہ ٹوٹاہو تو اگر اب بھی اس کا فریضہ تیمم کرنا ہو تو پھر اس کو دوبارہ تیمم کر نا چاہئیے اگر چہ ظاہرا ًوہی تیمم کافی ہے جب کہ نماز کے فورا بعد پانی ضائع ہو جائے ۔
مسئلہ ۷۴۸۔ جس شخص کے پاس پانی موجودہو لیکن وقت تنگ ہو نے کی وجہ سے تیمم کر کے نماز میں مشغول ہو اور نماز کی حالت میں پانی ضائع ہو تو بعد کی نمازیںبھی اسی تیمم سے پڑھ سکتا ہے ۔
مسئلہ۷۴۹۔اگر کسی شخص کے لئے اتنا وقت ہو کہ وضو یا غسل کر کے اور نماز کو بغیر مستحب کاموں کے مثلا ًبغیر اقامت و قنوت وغیرہ کے پڑھ سکے تو اس کو چاہئیے کہ غسل یا وضو کرے اور نماز کو بغیر مستحب کا موں کے بجا لائے بلکہ اگر سورہ پڑھنے کا بھی وقت نہ ہو تو اس کو غسل یا وضو کر نا چاہئیے اور نماز کو بغیر سورہ کے پڑھے۔

جن چیزوں پر تیمم کرنا صحیح ہے
مسئلہ ۷۵۰۔مٹی، ریت، ڈھیلیاور پتھر پر تیمم کرنا صحیح ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اگر مٹی ممکن ہو تو دوسری چیزوں پر تیمم نہ کرے اورمٹی نہ ملے سکے تو ریت پر ، اگر ریت نہ مل سکے تو ڈھیلے پر ، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوں تو پھر پتھر پر تیمم کرے۔
مسئلہ ۷۵۱۔ گچ کے پتھر اور چونے کے پتھر پر تیمم کر نا صحیح ہے ، پکے ہوئے گچ پر بھی صحیح ہے لیکن جواہرات مثلا عقیق وغیرہ پر تیمم کر نا باطل ہے ۔
مسئلہ ۷۵۲۔ اگر مٹی، ریت ڈھیلے اور پتھر نہ مل سکیں تو پھر اس گرد وغبار پر جو لباس اورفرش پر یا ان جیسی چیزوں پر ہو تا ہے ، تیمم کرے اور اگر گرد بھی نہ ملے توکیچڑ پر تیمم کرے اور اگر کیچڑ بھی نہ مل سکے توواجب ہے کہ بغیر تیمم کے نماز پڑھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ بعد میں قضابھی بجا لائے۔
مسئلہ ۷۵۳۔ اگر فرش وغیرہ کو جھاڑ کر مٹی جمع کرسکتا ہو تو گرد وغبار سے تیمم باطل ہے اور اگر کیچڑ کو خشک کر سکتا ہے توکیچڑ سے تیمم کر نا باطل ہے۔
مسئلہ ۷۵۴۔ اگرکسی کے پاس پانی موجود نہ ہو لیکن برف موجود ہو اگر اس برف سے پانی بنانا ممکن ہو تو پانی بنا کر وضو یا غسل کرے اگر چہ ملنے والے تیل کے مثل ہی کیوں نہ ہواوراگر ممکن نہ ہو اور کوئی ایسی چیز بھی موجود نہ ہو جس پر تیمم کر نا صحیح ہو تولازم نہیں ہے کہ برف کو وضویا غسل کے اعضاء پر ملے ، یا برف پر تیمم کرے، البتہ آخری صورت میں وہ نمازیں جو بغیر غسل ،وضویا تیمم کے پڑھی ہیں احتیاط مستحب کی بنا پر اس نماز کی دوبارہ قضا کرے ۔
مسئلہ ۷۵۵۔ اگر مٹی یا ریت میں گھاس یا ایسی ہی کوئی چیز ملی ہوئی ہو جس پر تیمم کرنا جائز نہیں ہے تو پھر اس پر تیمم نہیں کر سکتے البتہ وہ چیز اس قدر کم ہو کہ مٹی یا ریت میں ملی ہوئی معلوم نہ ہو تو اس مٹی یا ریت سے تیمم کر نا صحیح ہے ۔
مسئلہ ۷۵۶۔ اگر کوئی چیز نہ ہو کہ جس پر تیمم کرے اگر ممکن ہو تو خریدے یا کسی اور طریقہ سے حاصل کرے ۔
مسئلہ ۵۷ ۷۔ دیوار جو مٹی کی بنی ہوئی ہے اس پر تیمم کر نا صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر زمین یا خشک مٹی موجود ہو تو جس زمین یا مٹی میں نمی ہو اس پر تیمم نہ کرے ۔
مسئلہ ۷۵۸۔ جن چیزوں پر تیمم کیا جائے ان کو پاک ہو نا چاہئیے اگر پاک چیز جس پر تیمم کر ناصحیح ہو تاہے موجود نہ ہو تو نماز کو بجا لائے اوراحتیاط مستحب یہ ہے اس کی بعد میںقضا بھی کرے۔
مسئلہ ۷۵۹۔ اگر یقین ہو کہ جس چیز پر تیمم کر رہا ہے اس پر تیمم کرنا صحیح ہے اور تیمم کر لیا اور بعد میں معلوم ہو کہ اس پر تیمم کر نا باطل تھا تو وہ نمازیں جو اس تیمم سے پڑھ چکا ہے دوبارہ قضا کرے۔
مسئلہ ۷۶۰۔ جس چیز پر تیمم کیا جارہا ہے اور جس پر یہ چیز رکھی گئی ہے دونوں کو غصبی نہیں ہو نا چاہئیے پس اگر غصبی مٹی پر تیمم کرے یا مٹی تو اس کی ملکیت میں ہے لیکن جس پر رکھی گئی ہے اس مکان کا مالک راضی نہ ہو تو اس کا تیمم باطل ہے ۔
مسئلہ ۷۶۱۔ فضائے غصبی میں تیمم کرنا باطل ہے پس اگر ہاتھ اپنی ملکیت والی زمین پر مارے اور دوسرے کے ملک میں بغیراجازت داخل ہو جائے اور پیشانی پر ہاتھ پھیرے توا سکا تیمم باطل ہے ۔
مسئلہ ۷۶۲۔غصبی چیز ، غصبی فضا یا ایسی چیز پر جو کسی دوسرے کی ملکیت میں ہو ایسی صورت مین تیمم باطل ہو گا جب انسان اس کے غصی ہو نے کو جانتا ہو اور جان بوجھ کر تیمم کرے چنانچہ اگر اس کو علم نہ ہو یا بھول کر تیمم کرے تو تیمم صحیح ہے البتہ اگر کسی چیز کو خود ہی غصب کر کے بھو ل جائے اور ا سپر تیمم کرے یا کسی کے مال کو غصب کر کے بھول جائے اور تیمم کی چیز اس پر رکھ کر تیمم کرے یا اسی غصبی ملک میں تیمم کرے احتیاط یہ ہے کہ اس تیمم کو کافی نہ سمجھے اور اگر نماز پڑھی ہے تو ا سکو دوبارہ پڑھے۔
مسئلہ ۷۶۳۔ اگر کوئی شخص کسی غصبی جگہ قید کیا گیا ہے اوراسے یقین ہو کہ وہاں کا پانی اور مٹی بھی غصبی ہے تو احتیاط یہ ہے یہ شخص بغیر وضو یا تیمم کے نماز پڑھے اور احتیاط کی بنا پر نماز کی قضا بھی کرے ۔
مسئلہ ۷۶۴۔جس چیز پر تیمم کر رہا ہے مستحب ہے کہ اس پر اتنی مٹی ہو کہ اس کے ہاتھ پر لگ جائے اور اس کے لئے مستحب ہے کہ ہاتھوں کو جھاڑے تاکہ مٹی ہاتھوں سے گر جائے ۔
مسئلہ۷۶۵۔ نشیبی زمیں سڑک کی مٹی یا نمک زار زمین پر کہ جس پر نمک نہ جما ہو تیمم کر نا مکروہ ہے اور اگر زمین کے اوپرنمک جما ہو ا نظر آئے تو تیمم کر نا باطل ہے ۔

وضو کے بدلے تیمم کر نے کا طریقہ
مسئلہ۷۶۶۔ وضو کے بدلے تیمم کرنے میں چار چیز یں واجب ہے ۔
(۱)نیت
(۲) دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ملا کر اس چیز پر مارنا جس پر تیمم کرنا صحیح ہے
(۳)دونوں ہتھیلیوں سے تمام پیشانی اور اس کے دونوں کنا روں کو سر کے بال نکلنے کی جگہ سے شروع کر کے ابرو تک کھینچے یہاں تک کہ ناک کے اوپر والے حصہ تک ہاتھ پہنچ جائے احتیاط یہ ہے کہ ہاتھوں کو ابرؤں کے اوپر بھی کھینچا جائے
(۴)بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی تمام پشت پر کھینچے اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی تمام پشت پر کھینچے ۔

غسل کے بدلے تیمم کر نے کا طریقہ
مسئلہ۷۶۷۔غسل کے بدلے تیمم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نیت کر نے کے بعد سابقہ مسئلہ میں بیان شدہ طریقہ کے مطابق دونوں ہاتھوں کو زمین پر مار کر پیشانی پر پھیرے پھر دوسری مرتبہ ہاتھوں کو زمین پر مارے اور ہاتھوں کی پشت پر کھینچے اور تیمم خواہ وضو کے بدلے ہو یا غسل کے بدلے میں بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہاتھوں کو ایک مرتبہ زمین پر مار کر پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر کھینچے اور دوسری مرتبہ ہاتھوں کو زمین پر مار کر ہاتھوں کی پشت پر کھینچے ۔
تیمم کے متفرق احکام
مسئلہ۷۶۸۔اگر پیشانی یا ہاتھوں کی پشت سے مختصر سی جگہ پر مسح نہ کرے تو تیمم باطل ہے خواہ جان بوجھ کر ایسا کرے یا مسئلہ سے واقف نہ ہو یا بھول گیا ہو البتہ زیادہ دقت کی بھی ضرورت نہیں ہے بس اتنا کا فی ہے کی کہا جائے کہ اسنے تمام پیشانی اور ہاتھوں کا مسح کر لیا ہے ۔
مسئلہ۷۶۹۔ یہ یقین حاصل کرنے کے لئے کہ ہاتھ کے تمام پشت پر مسح ہو گیا ہے ضروری ہے کہ کلائی کے اوپر بھی کچھ مقدار میں مسح کرے البتہ انگلیوں کے درمیان مسح کرنا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ۷۷۰۔پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر مسح اوپر سے نیچے کی طرف کرے اور ان تمام کاموں کو پے در پے بجا لائے اور اگر ان میں کسی قدر فاصلہ ہو جائے کہ یہ نہ کہا جائے کہ تیمم کر رہا ہے تو تیمم باطل ہے ۔
مسئلہ۷۷۱۔نیت کے وقت یہ چیز بھی معین کرے کہ غسل کے بدلے تیمم ہے یا وضو کے بدلے اور اگر غسل کے بدلے تیمم ہو تو غسل کی قسم کو بھی معین کرے اگر غلطی سے وضو کے بدلے کے غسل کے بدلے کی نیت کرے یا غسل کے بدلے وضو کے بدلے کی نیت کرے یا مثلاً غسل جنابت کے بدلے غسل مس میت کی نیت کرے اگر یہ نیت بر وجہ تقئید نہ ہو یعنی قید لگانے کے ساتھ معین نہ کرے کہ یہ ہے دوسرا نہیں تو اس کا تیمم صحیح ہے۔
مسئلہ۷۷۲۔ تیمم کرنے سے پہلے پیشانی ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پشت پاک ہونی چاہیئے ، اگر ہاتھوں کی ہتھیلیاں نجس ہوں اور انکو پاک کرنا ممکن نہ ہو تو پھر انہی نجس ہتھیلیوں سے تیمم کر لے اگر نجاست دوسرے اعضاء میں سرایت کرنے والی ہو اور انکا خشک کرنا بھی ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں ہتھیلیوںکی پشت سے تیمم کیا جائے گا ۔
مسئلہ ۷۷۳۔تیمم کرنے کے وقت انسان کو چاہیئے کہ انگوٹھی وغیرہ کو اتار دے اور اسی طرح پیشانی پریا ہاتھوں کی پشت پر کوئی چیز اگر ہو تو اتار دے ۔
مسئلہ ۷۷۴۔اگر پیشانی یا ہاتھوں کی پشت پر زخم ہو اورا س پر کپڑا یا دوسری چیز بندھی ہوئی ہو اور اسکو دور کرنا ممکن نہ ہو تو ہاتھوں سے انکے اوپر مسح کرے اور اگر اسی طرح ہاتھ کی ہتھیلی پر زخم ہو جس پر کپڑا یا کوئی دوسری چیز بندھی ہوئی ہو اور اسکا اتارنا ممکن نہ ہو تو اسی کپڑوں کے ساتھ ہاتھوں کو اسی چیز پر مارے جس پر تیمم کرنا صحیح ہے اور پھر پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر مسح کرے ۔
مسئلہ ۷۷۵۔اگر پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر بال ہوں تو کوئی حرج نہیں البتہ اگر سر کے بال پیشانی پر آپڑیں تو انکو پیچھے کر دے ۔
مسئلہ ۷۷۶۔اگر کسی کو احتمال ہو کہ اسکی پیشانی یا ہاتھوں کی ہتھیلیوں یا ہاتھوں کی پشت پر شاید کوئی چیز موجود ہے اور یہ احتمال لوگوں کی نظروں میں درست ہو تو اتنی جستجو کرے کہ اسے یقین ہو جائے کہ وہاں کوئی چیز موجود نہیں ہے۔
مسئلہ ۷۷۷ ۔اگر کسی شخص پر تیمم واجب ہو اور وہ تیمم نہ کر سکے تو اسکو چاہیئے کسی کو نائب بنائے اور جوشخص نائب بنے وہ اس کے ہاتھوں سے تیمم کرائے نہ کی اپنے ہاتھوں سے اگر یہ ممکن نہ ہو تو نائب اپنے ہاتھوں کو اس چیز پر جس چیز پر تیمم کرنا صحیح ہے مار کر اسکی پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر مسح کرے۔
مسئلہ ۷۷۸۔اگر تیمم کے درمیان شک کرے کہ کسی حصہ کو چھوڑ دیا یا نہیں تو اسی حصہ پر اور اس کے بعد کے حصوں پر تیمم کرے۔
مسئلہ ۷۷۹۔ اگر بائیں ہاتھ کا مسح کرنے پر شک ہو کہ اس نے تیمم ٹھیک کیا ہے یا نہیں تو وہ اپنا تیمم صحیح سمجھے۔
مسئلہ ۷۸۰۔ جس شخص پر تیمم کر نا فرض ہو تووہ نماز کے لئے نماز کا وقت داخل ہو نے سے پہلے تیمم نہیں کرسکتاالبتہ اگر کسی اور واجب یا مستحب کام کے لئے تیمم کر چکا ہواور نماز کا وقت داخل ہو نے تک اس کاعذر باقی ہو تو اسی سابقہ تیمم سے نماز پڑھ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۷۸۱۔ جس شخص کا فرض تیمم کر نا ہو اور اسے معلوم ہو کہ جس عذر کی وجہ سے تیمم کیا ہے وہ عذر نماز کے آخری وقت تک باقی رہے گا تو وہ پورے وقت میں کبھی بھی نماز تیمم کے ساتھ پڑھ سکتا ہے البتہ اگر اسے معلوم ہو کہ آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے گا تو اسے انتظار کر نا چاہئیے اور نماز وضو یا غسل کے ساتھ پڑھنی چاہئیے یا وقت تنگ ہو جائے تو تیمم کر کے نماز بجا لائے ۔
مسئلہ ۷۸۲۔ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے وضویا غسل نہیں کر سکتا اور احتمال نہ دے کہ اسکا عذر جلدی ختم ہو جائے گاتو اپنی قضا نماز وں کو تیمم کے ساتھ پڑھ سکتا ہے لیکن اس کو احتمال ہو کہ اس کا عذر جلدی ہی دور ہو جائے گاتو قضا نماز وں کاپڑھنا اشکال سے خالی نہیں ۔
مسئلہ ۷۸۳۔جو شخص وضو یا غسل نہیں کر سکتا اس کے لئے جائز ہے کہ مستحبی نمازیں جیسے روزانہ کے نوافل جن کا وقت معین ہے اول وقت میں تیمم کے ساتھ پڑھ سکتا ہے لیکن اگر احتمال ہو کہ نوافل کے آخر وقت عذر دور جائے گا تو احتیاطا ًان کو اول وقت بجانہ لائے ۔
مسئلہ۷۸۴۔جو شخص غسل کے بدلے تیمم کرے اور اگر تیمم کے بعد اسے حدث اصغر مثلا ًپیشاب آجائے تو نماز کے لئے وضوکرنا کافی ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ تیمم بھی کرے ۔
مسئلہ ۷۸۵۔جب پانی موجود نہ ہونے کی وجہ یا کسی اور عذرکی وجہ سے تیمم کرے تو پھر عذر کے دور ہو جانے کے بعد اس کا تیمم باطل ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۷۸۶۔جو چیزیں وضو کو باطل کرتی ہیں وہی چیزیں اس تیمم کو جو وضو کے بدلے میں ہے باطل کرتی ہیں اور جو چیزیں غسل کو باطل کرتی ہیں وہی تیمم کو جو غسل کے عوض ہے باطل کرتی ہیں ۔
مسئلہ ۷۸۷۔ جو شخص غسل نہیں کر سکتا اگرا س پر کئی غسل واجب ہوں تو ہر غسل کے بدلے ایک تیمم کر لے توکافی ہے ۔
مسئلہ ۷۸۸۔جو شخص غسل نہیں کرسکتا جب چاہے کہ وہ ایساکام انجام دے جس کے لئے غسل ضروری ہے تو ایک تیمم غسل کے بدلے کر کے اس کام کو بجا لاسکتا ہے اسی طرح اگر وضو نہیں کر سکتا اور ایسا کام کرنا چاہے کہ اس کام کے لئے وضو کرنا ضروری ہے تو اسے چاہیئے کہ ایک تیمم وضو کے بدلے کر کے وہ کام انجام دے ۔
مسئلہ ۷۸۹۔جب غسل جنابت کے بدلے تیمم کرے تو نماز کے لئے وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ اگر دوسرے غسلوں کے بدلے تیمم کیا ہے تو اسے وضو کرنا چاہیئے اگر وضو نہ کر سکے تو وضو کے بدلے بھی دوسرا تیمم کرے ۔
مسئلہ ۷۹۰۔اگر کوئی شخص غسل کے بدلے تیمم کرے پھر ایسی چیز اس صادر ہو ہو جو وضو کو باطل کر دیتی ہے تو اسے چاہیئے کہ دوسری نمازوں کے لئے جبکہ غسل کرنا ممکن نہ ہو وضو کرے اور بنا بر احتیاط مستحب ،غسل کے بدلے تیمم کرے اور اگر وضو بھی نہ کر سکتا ہوتو دو تیمم کرے ایک وضو کے بدلے اور احتیاط مستحب کی بنا پر ایک غسل کے بدلے اور اگرا سکاتیمم غسل جنابت کے بدلے ہو تو ایک تیمم اس قصد سے کرے کہ جو اس کے ذمہ ہے انجام دے رہا ہے تو کافی ہے اور بنا بر اقویٰ وضو کے بدلے تیمم ہے۔
مسئلہ ۷۹۱۔جس شخص پر تیمم واجب ہے اگر وہ کسی کام کے لئے تیمم کر چکا تواس تیمم سے جب تک عذر باقی ہے دوسرے ہر کام جس میں غسل یا وضو شرط ہے بجا لا سکتا ہے اور اگر تنگی وقت کے لئے تیمم کیا تھا یا پانی کے ہوتے ہوئے صرف نماز میت کے لئے یا رات کو سونے کے لئے تیمم کیا تھا تواس تیمم سے صرف وہی کام کر سکتا ہے جس کے لئے تیمم کیا تھا ۔
مسئلہ ۷۹۲۔چند مقام پر مستحب ہے کہ وہ نمازیں جو تیمم کے ساتھ پڑھ چکا ہے دوبارہ پڑھے
(۱)وہ شخص جس کے لئے پانی کا استعمال سبب خوف تھا لیکن باوجود اس کے اس نے اپنے آپ کو مجنب کر لیا اور پھر تیمم کے ساتھ نمازیں پڑھی ہوں ۔
(۲)جو جانتا ہو یا اسے گمان تھا کہ پانی نہیں ملے گا پھر جان بوجھ کر اپنے آپ کومجنب کر لیا اور تیمم کے ساتھ نمازیں پڑھی ہوں۔
(۳)جمعیت کے اژدھام کی وجہ سے نماز جمعہ کے فوت ہو جانے کے خوف سے نماز جمعہ کو تیمم کے ساتھ پڑھا ہو ۔
مسئلہ ۷۹۳۔چند مقام پر احتیاط مستحب ہے کہ وہ نمازجنکو تیمم کے ساتھ پڑھا ہے دوبارہ پڑھے ۔
(۱)جس شخص نے آخر وقت تک عمدا ًپانی کی تلاش نہ کی ہو اور تیمم کر کے نماز پڑھی ہو پھر اس کے بعد معلوم ہو جائے کہ اگر پانی کی تلاش کرتا تو اسے پانی مل جاتا ۔
(۲)جان بوجھ کر نماز میں تاخیر کرے اور آخر وقت میں تیمم کے ساتھ نماز پڑھے۔
(۳)جو جانتا ہو یا گمان ہو کہ پانی نہیں ملے گا وہ اس پانی کو جو اس کے پاس تھا انڈیل دے اور پھر تیمم سے نماز پڑھے ۔

نماز کے احکام
مسئلہ ۷۹۴۔ فروع دین میں نماز ایک اہم فریضہ ہے اگر نماز قبول ہے تو دوسرے اعمال بھی بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت حاصل کریں گے ۔اگر یہ قبول نہیں تو دوسرے اعمال بھی قبول نہیں ہو سکتے جس طرح انسان رات دن میں پانچ مرتبہ کسی نہر میں غسل کرے تو اس کے بدن پر کوئی گندگی(میل)نہیں رہ جاتی اسی طرح نماز پنجگانہ بھی انسانوں کے گناہوں کو دھو ڈالتی ہیں ، مستحب ہے کہ انسان نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرے ، نماز کو سبک اور ناچیز سمجھنے والا شخص نماز نہ پڑھنے والے کے مانند ہے ۔رسول اکرم نے فر ما یا’’ وہ شخص جو نماز کو اہمیت نہ دے یا ہلکا شمار کرے وہ عذاب آخرت کا مستحق ہے‘‘رسول اکرم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھناشروع کر دی اور اسکا رکوع و سجدہ کامل نہیں تھا آنحضرت ؐنے فرمایا ’’اگر یہ شخص اسی حالت میں مر جائے تو میرے دین پر نہیں مرے گا‘‘ لہٰذا انسان کو چاہیئے کہ آرام ، سکون اور اطمینان کے ساتھ نماز کو پڑھے جلدی اور عجلت سے کام نہ لے اس بات کا خیال رکھے کہ کس سے محو گفتگو ہے اپنی ہستی کو ذات پروردگار کے سامنے ہیچ اور کمتر تصور کرے ۔
اگر انسا ن واقعا ًاس بات کا خیال کرے تو وہ اپنے آپ سے بے خبر ہو کر مکمل یکسوئی کے ساتھ خدا کا ہو جائے گا ۔جس طرح کہ حالت نماز میں امیر المومنین ؑ کے پیر سے تیر نکال لیا گیا اور آپ ؑ کو خبر تک نہ ہوئی کیونکہ آپ خضوع وخشوع کے اکمل درجہ پر فائز تھے نمازی کو چاہیئے کہ توبہ و استغفار کرے حسد ،تکبر ،غیبت ،حرام خوری نشے کا استعمال خمس و زکوٰۃ نہ دینا جیسے گناہوں سے پرہیز کرے جو نماز کی قبولیت سے مانع ہوتی ہیں اور ایسے کام بھی نہ کرے جو نماز کے ثواب کو کم کردیتی ہیں مثلاً پیشاب پاخانہ کو روک کر نماز پڑھنا یا نیند میں نماز پڑھنا یا نماز پڑھتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھنا وغیرہ بلکہ ایسے کام کرنا چاہیئے کہ جو ثواب میں اضافہ کا موجب ہوتے ہیں مثلاًعقیق کی انگوٹھی پہن کر پاک و پاکیزہ لباس زیب تن کر کے ،کنگھی کر کے مسواک کر کے ،خوشبو لگا کر نماز پڑھنا۔

واجب نمازیں
مسئلہ۷۹۵۔چھ نمازیں واجب ہیں
(۱)نماز پنجگانہ
(۲)نماز آیات
(۳)نماز میت
(۴)خانہ کعبہ کے واجب طواف کی نماز
(۵)ماں اور باپ کی قضا نماز یں جو بڑے بیٹے پر واجب ہیں
(۶)وہ نمازیں جو اجرت لینے یا نذر کرنے یا قسم کھانے یا کرنے کے سبب واجب ہوتی ہیں ۔

نماز پنجگانہ
مسئلہ۷۹۶۔ روزانہ پانچ نمازیں واجب ہیں ظہر اور عصر یہ دونوں چار چار رکعت ہیں مغرب تین رکعت عشاء چار رکعت اور صبح کی دو رکعت ہے
مسئلہ۷۹۷۔سفر میں چاہیئے کہ چار رکعتی نماز کو دو رکعت پڑھے ان شرائط کے ساتھ جو بیان کی جائیں گی ۔


نماز ظہر وعصر کا وقت
مسئلہ۷۹۸۔ اگر لکڑی یا ایسی ہی کوئی چیز ہموار زمین میں سیدھی گاڑ دیں تو صبح کو جب آفتاب نکلے گا تو اس لکڑی کا سایہ مغرب کی طرف پڑے گا اور جیسے جیسے آفتاب بلند ہو گا وہ سایہ کم ہو تا چلا جائے گا اور ہمارے شہر میں نماز کا جو پہلا وقت ہے اس وقت یہ سایہ سب سے کم ہو جاتا ہے اور ظہر کے بعد سایہ پورب کی طرف بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور جس قدر سورج مغرب کی طرف جاتا ہے سایہ بڑھتا جاتا ہے اس حساب سے جس وقت سایہ سب سے کم ہو جائے اورا س کے بعد دوبارہ بڑھنے لگے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ظہر شرعی کا وقت ہو گیا ہے ۔لیکن بعض شہروں میں جیسے مکہ ہے کہ سایہ وہاں کبھی ظہر کے وقت بالکل ختم ہو جاتا ہے تو جب سایہ دوبارہ ظاہر ہو تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ظہر کا وقت ہو گیا ۔
مسئلہ۷۹۹۔لکڑی یا دوسری چیز جو سایہ معلوم کرنے کے لئے نصب کی جاتی ہے اس کو ’’شاخص‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ ۸۰۰۔ظہر اور عصر دونوں نمازوں کے لئے خاص وقت بھی ہے اور مشترکہ وقت بھی ۔ظہر کی نماز کا خاص وقت اول ظہر سے اس وقت تک ہے جتنی دیر میں نماز پڑھی جائے ، پس اگر کسی نے اس دوران بھول کر نماز عصر پڑھ لی تو یہ نماز باطل ہے اور نماز عصر کا خاص وقت وہ ہے جب مغرب کا وقت ہونے میں صرف نماز عصر کا وقت باقی ہو یعنی اگر کسی نے اس وقت تک ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہے تو اس کی ظہر کی نماز قضا ہو گئی اور اسکو چاہیئے کہ عصر کی نماز ادا کرے اور ظہر کے خاص اور عصر کے خاص وقت کے درمیان کا وقت ظہر و عصر کے مشترکہ وقت ہے اور اگر اس وقت میں بھول کے ظہر کے بجائے عصر کی نماز پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہے اور وہ نماز عصر شمار ہو گی اور نماز ظہر کو بعد میں بجا لائے گا ۔بنا بر احتیاط نماز مافی الذمہ کے قصد سے ادا کرے ۔
مسئلہ ۸۰۱۔اگر ظہر کی نماز پڑھنے سے قبل بھول کر عصر کی نماز پڑھنے لگے اور نماز کے درمیان سمجھے کہ وہ بھول گیا ہے تو اگر مشترک وقت میں ایسا ہو اہے تو چاہیئے کہ نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹا دے یعنی نیت کرے کہ جو کچھ اب تک پڑھ چکا ہوں یا پڑھ رہا ہوں اور جو کچھ بعد میں پڑھوں گا سب نماز ظہر ہے اور جب نماز پوری کر لے تو نماز عصر پڑھے اور اگر وہ وقت مخصوص ظہر کی نماز کا تھا تو وہ نماز باطل ہوگی ،خواہ نماز کی حالت میں متوجہ ہو یا اس کے بعد۔
مسئلہ ۸۰۲۔جمعہ کے دن امام زمان ؑ کے ظہور کے زمانہ میں انسان پر واجب ہے کہ ظہر کی نماز کے بجائے دو رکعت نماز جمعہ پڑھے لیکن موجودہ زمانے میں اگر کوئی شخص نماز جمعہ پڑھے تو احتیاط مستحب ہے کہ نماز ظہر کو بھی بجا لائے ۔
نماز مغرب و عشاء کا وقت
مسئلہ ۸۰۳۔جب پورب کی سرخی جو آفتاب کے غروب ہونے کے بعد پیدا ہوتی ہے ،انسان کے سر سے گذر جائے تو وہ وقت مغرب کا ہے ۔
مسئلہ ۸۰۴۔مغرب اور عشاء کا مخصوص وقت بھی ہے اور مشتر ک بھی،مغرب کا مخصوص وقت اول وقت مغرب سے اتنی دیر تک ہے جس میں تین رکعت نماز پڑھی جائے کہ اگر مثال کے طور پر کوئی مسافر ہو اور اس وقت میں نماز عشاء پوری بھول کے پڑھ لے تو ا سکی نماز باطل ہے اور صاحب اختیار کے لئے عشاء کا مخصوص وقت وہ ہے جبکہ آدھی رات ہونے میں نماز عشاء پڑھنے بھر کاوقت باقی رہ جائے کہ اگر اس نے اس مخصوص وقت تک نماز مغرب نہ پڑھی ہو تو چاہیئے کہ پہلے نماز عشاء پھر نماز مغرب پڑھے اور مغرب کے مخصوص وقت میںبھول کر عشاء کی نماز پڑھ لی ہو اور نماز کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اسکے بعد مغرب کی نماز پڑھے۔
مسئلہ ۸۰۵۔نماز کا مخصوص وقت اور مشترک وقت جس کا مطلب گذشتہ مسئلے میں بیان کیا گیا ہے وہ مختلف افراد کے لئے مختلف ہے مثلاًاگر ظہر کے وقت ہونے کے بعد دو رکعت نماز کا وقت گذر چکا ہو تو یہ مسافر کے لئے ظہر کا مخصوص وقت تھا جو ختم ہو گیا اور اس کے لئے مشترک وقت شروع ہو گیا اور جو مسافر نہیں ہے اسکے لئے ضروری ہے کہ چار رکعت نماز کا وقت گذر جائے ۔
مسئلہ ۸۰۶۔اگر نماز مغرب پڑھنے سے قبل بھول کر عشاء کی نماز شروع کر دے اور نماز کے درمیان سمجھے کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے تو اگر اس نے اب تک جو پڑھا ہے یا اس کا کوئی جز مشترکہ وقت میں گذرا ہے اور ابھی چوتھی رکعت کے رکوع میں نہیں گیا ہے تو نیت کو نمازمغرب کی طرف لو ٹا دے اور نماز کو پو را کرے اور اس کے بعد نماز عشاء پڑھے اور اگر چوتھی رکعت کے رکوع تک پہنچ چکا ہے تو نماز کو پورا کرے اور ا سکے بعد نماز مغرب پڑھے اور اگر جو کچھ پڑھا ہے سب مغرب کے مخصوص وقت میں تھا تو نماز باطل ہے اور مغرب و عشاء کو ترتیب سے پڑھنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۸۰۷۔صاحب اختیار کیلئے عشاء کی نما زکا آخری وقت آدھی رات تک ہے اور مغرب کے وقت سے نماز صبح کے وقت تک کو رات کا حساب کرے نہ کہ طلوع آفتاب کے وقت کو۔
مسئلہ ۸۰۸۔کسی پریشان شخص ،یا وہ جو نماز بھول گیا ہو یا وہ نیند کی حالت میں ہو یا حالت حیض کی وجہ سے نماز میں تاخیر ہو گئی ہو ، اس کی مغرب و عشاء کی نمازیں صبح تک ہو سکتی ہیں ۔
مسئلہ ۸۰۹۔اگر گناہ یا کسی مجبوری کے سبب نماز مغرب و عشاء کو آدھی رات تک نہ پڑھ سکے تو احتیاط واجب ہے کہ اذان صبح سے قبل تک بغیر ادا یا قضا کی نیت سے بجا لائے ۔

نماز صبح کا وقت
مسئلہ ۸۱۰۔ صبح کی اذان کے قریب پورب سے ایک سفیدی اوپر کی طرف جاتی ہے اس کوفجراول کہتے ہیں ، جب یہ سفیدی پھیل جائے تو دوسری صبح اور نماز صبح کا اول وقت ہے اور نماز صبح کا آخری وقت وہ ہے جبکہ آفتاب نکل آئے ۔
وقت نماز کے احکام
مسئلہ ۸۱۱۔آدمی اس وقت نماز پڑھ سکتا ہے جب اس کو یقین ہو گیا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے ، یا دو عادل آدمی خبر دیں کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے یا قابل اطمینان شخص کہے۔
مسئلہ ۸۱۲۔ اگر بادل کی وجہ سے یا غبار کی بنا پر اسی طرح اگر کو ئی شخص اندھا ہو یا قید میں ہو کہ جہاں دن و رات کا علم نہ ہو سکے تو ان افراد کو چاہیئے کہ نماز میں تاخیر کریں یہاں تک کہ یقین ہو جائے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے ۔
مسئلہ ۸۱۳۔اگر دو عادل آدمی خبر دیں کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے یا آدمی خود یقین کرے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور نماز پڑھنا شروع کر دے اور نماز کے درمیان سمجھے کہ نماز کا وقت ابھی نہیں ہوا ہے تو اس کی نماز باطل ہے ، اسی طرح اگر نماز کے بعد یہ سمجھے کہ پوری نماز وقت سے پہلے پڑھ لی ہے تو ا سکی نما زباطل ہے لیکن اگر کوئی نماز کے درمیان یہ سمجھے کہ وقت داخل ہو گیا ہے یا نماز کے بعد سمجھے کہ نماز کے درمیان وقت ہو گیا تھا تو اس کی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۸۱۴ ۔ اگر کوئی آدمی متوجہ نہ ہو کہ وقت کا یقین ہونے کے بعد نماز پڑھنی چاہیئے ، اگر نماز کے بعد سمجھے کہ اس کی پوری نماز وقت کے اندر ادا ہوئی ہے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اگر سمجھے کہ پوری نماز وقت سے پہلے پڑھی یا یہ سمجھے کہ نماز پڑھنے کے درمیان نما زکا وقت ہو گیا تھا تو اس کی نماز باطل ہے بلکہ بنا بر احتیاط اگر نماز کے بعد سمجھے کہ نماز کے دوران وقت ہو گیا تھا تو چاہیئے کہ دوبارہ نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۸۱۵۔اگر یقین کرے کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے اور نماز شروع کردے اور نماز کے درمیان میں شک کرے کہ نماز کا وقت ہو ا ہے کہ نہیں تو اس کی نماز میں اشکال ہے لیکن نماز کے درمیان یقین رکھتا ہو کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے اور شک کرے کہ جو نماز کا حصہ پڑھ چکا ہے وہ وقت کے اندر تھا یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے
مسئلہ ۸۱۶۔اگر نماز کا وقت اس قدر کم رہ گیا ہو کہ اگر نماز کی کسی مستحب چیز کو اداکیا جائے تو اسکی وجہ سے نماز کا کچھ حصہ وقت سے باہر چلا جائے گا تو اس مستحب کام کو چھوڑ دینا چاہیئے مثال کے طور پر اگر قنوت پڑھا جائے تو اسکی وجہ سے نما زکا کچھ حصہ وقت میں ادا نہیں کر پائے گا تو قنوت نہیں پڑھنا چاہیئے۔
مسئلہ ۸۱۷۔جس آدمی کے پاس صرف ایک رکعت نماز پڑھنے کا وقت رہ گیا ہو تو اس کو چاہیئے کہ ادا کی نیت سے نماز پڑھے ،لیکن جان بوجھ کر اتنی دیر نماز میں نہیں کرنی چاہیئے ۔
مسئلہ ۸۱۸۔اگر مغرب کا وقت ہو نے میں پانچ رکعت کا وقت رہ گیا ہو تو جو مسافر نہیں ہے تو اس کو ظہر و عصر دونوں نمازیں پڑھنی چاہیئے اور اگر اس سے بھی کم وقت رہ گیا ہو تو صرف عصر کی نماز پڑھنی چاہیئے اسکے بعدظہر کی قضا پڑھے اگرآدھی رات ہونے میں صرف پانچ رکعت نماز پڑھنے کا وقت رہ گیا ہو تا چاہیئے کہ نماز مغرب اور عشاء دونوں پڑھے اور اگر اس سے کم وقت رہ گیا ہو تو چاہیئے کہ صرف عشاء کی نماز پڑھے اور اسکے بعد مغرب کی نماز قضا پڑھے ۔
مسئلہ ۸۱۹۔اگر مغرب کا وقت ہونے میں صرف تین رکعت نماز پڑھنے کا وقت رہ گیا ہو تو کوئی جو مسافر ہے ا سکے لئے ضروری ہے کہ ظہر اور عصر دونوں نمازیں پڑھے اور اگر اس سے کم وقت رہ گیا ہو تو صرف عصر کی نماز پڑھنا چاہیئے اس کے بعد ظہر کی قضا پڑھے اگر آدھی رات میں صرف چار رکعت نماز پڑھنے کا وقت رہ گیا ہو تو صاحب اختیار مغرب و عشاء کی دونوں نمازیں پڑھے اور اگر اس سے کم وقت رہ گیا ہو تا چاہیئے کہ صرف عشاء کی نماز پڑھے اور ا سکے بعد مغرب کی نماز قضا پڑھے اور عشاء کی نماز کے بعدمعلوم ہو کہ ابھی ایک رکعت یا اس سے زیادہ کا وقت آدھی رات ہو نے میں باقی ہے تو فوراًمغرب کی نماز ادا کی نیت سے پڑھنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۸۲۰۔مستحب کہ آدمی نما زکو اول وقت میں پڑھے اور اس بات کی بہت زیادہ سفارش کی گئی ہے اور جس قد ر اول وقت سے نماز نزدیک ہو بہتر ہے لیکن اگر کسی اوروجہ سے دیر ہو تو دیر کر سکتا ہے مثلاً انتظار کرے تا کہ نماز کو باجماعت پڑھے ۔
مسئلہ ۸۲۱۔اگر کسی انسان کو ایسا عذر ہو کہ اگر اول وقت میں نماز پڑھنا چاہے تو مجبوراً تیمم سے یا نجس لباس میں پڑھنی ہو گی تو اگر وہ جانتا ہو کہ نماز کے آخری وقت تک وہ عذر باقی رہے گا تو اول وقت میں نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر احتما ل ہو کہ اس کا عذر دور ہو جائے گا تو انتظار کرے تاکہ عذر دور ہو جائے اوراگر عذر دور نہ ہو تو آخر وقت میں نماز پڑھے ، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اس قدر انتظار کرے کہ نماز کے صرف واجب کام ادا کرنے کا وقت رہ جائے بلکہ اگر اس قدر وقت رہ جائے جس میں نماز کے مستحب عمل جیسے اذان و اقامت اور قنوت کو ادا کر سکتا ہو تو تیمم کر کے نماز کو ان مستحب کا موں کے ساتھ پڑھ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۸۲۲۔ جو آدمی نماز کے مسائل اور شک اور سہو (بھولنا)کے مسائل نہ جانتا ہو اور احتمال رکھتا ہو کہ نماز میں ان میں سے کسی ایک کی ضرورت پیش آئے گی تو وہ ان مسائل کو سیکھنے کے لئے نماز کو اول وقت سے دیر کرے ، لیکن اگر اطمینان ہو کہ نماز کو صحیح طریقے سے پورا کر لے گا تو وہ پہلے وقت میں نمازپڑھ سکتا ہے لہٰذا اگر نماز کے درمیان کوئی ایسا مسئلہ پیش نہ آئے جس کا حکم اس کو معلوم نہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اور اگر مسئلہ پیش آجائے جس کا حکم اس کو معلوم نہیں تو وہ اس شک کے مقام پر دو راستوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر سکتا ہے اور نماز کو پورا کرے لیکن نماز کے بعد مسئلہ معلوم کرے کہ اور معلوم ہو کہ اس نے جو نماز پڑھی ہے وہ باطل تھی تو دوبارہ نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۸۲۳۔اگر نماز کا وقت کافی ہو اور قرض خواہ اپنا قرض طلب کر رہا ہو اور ادا کرنا ممکن ہو تو پہلے قرض ادا کرے اور پھر نماز پڑھے اور یہی حکم ہے اگر کوئی دوسرا واجب کام پیش آئے کہ جس کا فوراً ادا کرنا ضروری ہو ، مثلا ً مسجد کو دیکھے کہ نجس ہے تو چاہیئے کہ پہلے مسجد کو پاک کرے اور پھر نماز پڑھے اور اگر پہلے نماز پڑھ لے تو ا س نے گنا ہ کیا ہے لیکن نماز اس کی صحیح ہے ۔

وہ نمازیں جو ترتیب سے پڑھنی ضروری ہیں
مسئلہ ۸۲۴۔ انسان کے لئے لاز م ہے کہ عصر کی نماز ظہر کے بعد اور عشاء کی نماز مغرب کے بعد پڑھے اور اگر جان بوجھ کر ظہر سے پہلے عصر اور مغرب سے پہلے عشاء کی نماز پڑھ لے تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۸۲۵۔ اگر ظہر کی نیت کر کے نماز شروع کی اور درمیان نماز یاد آیا کی ظہر کی نماز پڑھ چکا ہے تو نیت کو نماز عصر کی طرف نہیں پلٹا سکتا بلکہ چاہیئے کہ نماز کو توڑ دے اور عصر کی نماز پڑھے ،اسی طرح نماز مغرب و عشاء کا حکم ہے ۔
مسئلہ ۸۲۶۔ اگر عصر کی نماز کے درمیان یقین ہو جائے کہ ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہے تو نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹا دے اور پھر یا دآئے کہ ظہر کی نماز پڑھ چکا تھا تو پھر نیت کو نماز عصر کی طرف لوٹا دے تو اس کی نماز صحیح ہے مگر یہ کہ اس نے نماز کی کچھ مقدار کو ظھر کی نیت سے پڑھا ہو بطور مقید (یعنی یہ نماز فقط ظہر کی ہے اور دوسری نہیں)۔
مسئلہ ۸۲۷۔اگر عصر کی نماز کے درمیان میں شک ہو کہ ظہر کی نماز پڑھی ہے یا نہیں تو چاہیئے کہ نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹا دے اور نماز عصر کو اس کے بعد بجا لائے ، لیکن اگر وقت اس قدر کم ہو کہ نماز پوری ہونے کے بعد مغرب کا وقت آجائے تو چاہیئے کہ وہ عصر کی نیت سے نماز کو پورا کرے اور اس صورت میں احتیاط یہ ہے کہ نماز ظہر قضا پڑھے ۔
مسئلہ ۸۲۸۔اگر نماز عشاء کی چو تھی رکعت کے رکوع سے قبل شک ہو جائے کہ مغرب کی نماز پڑھی ہے یا نہیں اور اگر وقت اس قدر کم ہوکہ نما زپوری ہو نے کے بعد آدھی رات ہو جائے گی تو ا س نماز کو عشاء کی نیت سے پوری کرے اور اگر زیادہ وقت ہو تو چاہیئے کہ مغرب کی نماز کی طرف پلٹا دے اور نماز کو تین رکعت پر تمام کرکے پھر عشاء کی نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۸۲۹ ۔اگر نماز عشا میں چوتھی رکعت کے ر کوع میںپہنچنے کے بعد شک ہو کہ مغرب کی نماز پڑھی ہے یا نہیں تو نماز کو پورا کرے اور اس کے بعد مغرب کی نمازپڑھے ۔
مسئلہ ۸۳۰ ۔ اگر آدمی ایک نماز کو پڑھ چکا ہے اور احتیاطاً اسکو دوبارہ پڑھ رہا ہے اورا س نماز کے درمیان اس کو خیال آئے کہ اسکے قبل والی نماز اس نے نہیں پڑھی تھی تو اب نیت کو اس نماز کی طرف نہیںپلٹاسکتا مثلاً جب نماز عصر کو احتیاطاً پڑھ رہا ہو اگر اس کو یا د آئے کہ ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہے تو نیت کو ظہر کی طرف نہیں پلٹا سکتا ۔
مسئلہ ۸۳۱۔نماز قضا کی نیت کو نماز ادا کی طرف پلٹانا اور مستحب نماز کی نیت کو واجب نماز کی طرف پلٹانا جائز نہیں ہے ۔
مسئلہ ۸۳۲۔ اگر ادا نماز کا وقت کافی ہو تو انسان نماز کے درمیان نیت کو قضا کی طرف پلٹا سکتا ہے البتہ یہ ضروری ہے کہ نیت کو نماز قضا کی طرف پلٹا نا ممکن ہو مثلاً جب ظہر کی نماز پڑھ رہا ہو تو صرف اس صورت میں نیت کو صبح کی طرف پلٹا سکتا ہے جبکہ تیسری رکعت میں داخل نہ ہو اہو ۔

مستحب نمازیں
مسئلہ ۸۳۳۔ مستحب نمازیں بہت سی ہیں اور ان کو ’’نافلہ‘‘ کہتے ہیں مستحب نمازوں میں سے دن رات کی نمازوں کے نوافل کی زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔
مسئلہ ۸۳۴۔ دن اور رات کی نافلہ نمازیں ۳۴ رکعت (روز جمعہ کے بغیر)ہیں ، اس طرح کہ ظہر کی نافلہ ۸ !رکعت ، عصر کی ۸ !رکعت مغرب کی ۴! رکعت عشاء کی ۲! رکعت نماز شب ۱۱! رکعت اور صبح کی نافلہ ۲! رکعت اور چونکہ نافلہ عشاء بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے اس لئے اسے ایک رکعت حساب کیا جاتا ہے لیکن جمعہ کے روز ظہر وعصر کی ۱۶! رکعت نافلہ میں ۴ !رکعت اور بڑھ جاتی ہیں ۔
مسئلہ ۸۳۵۔ تمام نافلہ کو صبح کی نماز کی طرح دو دو رکعت کر کے پڑھنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۸۳۶۔ نماز شب کی گیارہ رکعتوں میں سے ۸! رکعت نماز شب کی نیت سے دو رکعت نماز شفع کی نیت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے پڑھنی چاہئیے نماز شب کا پورا طریقہ بیان کیاجائے گا۔
مسئلہ ۸۳۷۔ نافلہ کی نمازوں کو بیٹھ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ ہر دورکعت جو بیٹھ کر پڑھی جائے اس کو ایک رکعت شمار کیا جائے مثلا ًجو چاہے کہ ظہر کی نافلہ جو آٹھ رکعت ہے بیٹھ کر پڑھے تو بہتر یہ ہے کہ ۱۶! رکعت پڑھے اور جو وتر کی نمازبیٹھ کر پڑھنا چاہے وہ دونماز یں ایک ایک رکعت بیٹھ کر پڑھے ۔
مسئلہ ۸۳۸۔ظہر اور عصر کی نافلہ سفر میں نہیں پڑھنا چاہئیے البتہ عشاء کانافلہ اس نیت سے کہ شاید مطلوب ہو پڑھ سکتا ہے ۔
پنجگانہ نماز وں کے نافلہ کا وقت
مسئلہ ۸۳۹۔نماز ظہر کی نافلہ نماز سے پہلے پڑھی جاتی ہے اور اس کا وقت اول ظہر سے اس وقت تک ہے جب تک کہ شاخص کا سایہ (مسئلہ ۷۹۹میں جو بیان ہوا)جو ظہر کے بعد ظاہر ہو تا ہے وہ بڑھ کر اپنے سات حصوں میں سے دو حصہ کے برابر (۷/۲) ہو جائے مثلاً شاخص کی لمبائی سات بالشت ہے تو جس وقت شاخص کا سایہ جو ظہر کے بعد ظاہر ہوا تھا دو بالشت ہو جائے تو یہ نافلہ ظہر کا آخری وقت ہے۔
مسئلہ ۸۴۰۔ عصر کی نماز کی نافلہ نماز عصر سے قبل پڑھی جائے اور اس کا وقت اس وقت تک ہے جب کہ ظہر کے وقت شاخص کا جو سایہ ظاہر ہوا تھا وہ بڑھ کر اپنے سات حصوں میں سے ۴حصہ تک (۷/۴)پہنچ جائے ۔
مسئلہ ۸۴۱۔ اگر چاہے کہ ظہر یا عصر کی نافلہ اس کے وقت کے بعد پڑھے تو جائز ہے ۔
مسئلہ ۸۴۲۔ مغرب کی نافلہ کا وقت نماز مغرب ختم ہو نے کے بعد اس وقت تک ہے جب تک کہ پچھم کی وہ سرخی جو غروب آفتاب کے بعد آسمان میں ظاہر ہو تی ہے ختم ہو جائے اگر چہ بعید نہیں ہے کہ اس کا وقت لمبا ہو جتنا کی مغرب کا وقت عشاء کے مخصوص وقت تک ہو تا ہے۔
مسئلہ ۸۴۳۔ عشاء کی نافلہ کا وقت عشاء کے ختم ہو نے کے بعدآدھی رات تک ہے اور بہتر ہے کہ عشاء کے بعد فوراًپڑھے ۔
مسئلہ ۸۴۴۔ صبح کی نافلہ نماز صبح سے قبل پڑھا جاتا ہے اور اس کا وقت فجر اول کے بعد سے شروع ہو تا ہے اور مشرق کی طرف سے سرخی پیدا ہو نے تک باقی رہتا ہے اور فجر اول کے معنی نماز صبح کے وقت میں بیان ہو چکے ہیں(مسئلہ ۸۱۰میں)اور صبح کی نافلہ کونافلہ شب کے فورا ًبعد پڑھا جاسکتا ہے ۔
نماز شب (تہجد)
مسئلہ ۸۴۵۔ شب کی نافلہ کا وقت آدھی رات سے صبح کی اذان تک ہے اور بہتر ہے کہ صبح کی اذان کے قریب پڑھی جائے ۔
مسئلہ ۸۴۶۔ مسافر اور جس کے لئے نماز شب آدھی رات کے بعد پڑھنا مشکل ہو وہ رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۸۴۷۔ نماز شب کی گیارہ رکعتیں ہیں ۸!رکعت نافلہ شب کی ۲!رکعت نماز شفع ۱! رکعت نماز وتر ہے ۔ ہر دو رکعت کے بعد سلام ہے لیکن نماز وتر میںایک سلام ہے جو کہ پہلی رکعت کے بعد ہے ۔
مسئلہ ۸۴۸۔ مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں لمبے سورے اوردوسری رکعت میں چھو ٹے سورے پڑھے جائیں اور نماز شفع اور وتر میں سورہ فلق یا سورہ ناس اور توحید پڑھے یا ان سب میں سورہ توحید پڑھے۔
مسئلہ ۸۴۹۔ مستحب ہے کہ نماز وتر کے قنوت میں چالیس مومنین کے لئے اس طرح دعا مانگیں (اللھم اغفر لفلاں)اور (فلاں)کی جگہ مومن کا نام لے ۔ مستحب ہے کہ دعائے قنوت میں ستر مرتبہ استغفار کرے جب کہ الٹے ہاتھ کو دعا کے لئے بلند رکھے اور سیدھے ہاتھ سے اعدادشمارکرے اور کہے (استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ)اگر چہ ایک سو مرتبہ پڑھنا مستحب ہے اسی طرح مستحب ہے کہ سات مرتبہ (ھذا مقام العائذ بک من النار )اور تین سو مرتبہ کہے (العفو)اور (العفو)کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر پڑھے تو زیادہ بہتر ہے اور آخری کلمہ کو زبر کے ساتھ پڑھے(العفوَ العفوَ العفوَ)۔

نماز غفیلہ
مسئلہ ۸۵۰۔مستحب نماز وں میں سے ایک نماز غفیلہ ہے جو مغرب و عشاء کی نماز کے درمیان میں پڑھی جاتی ہے اور اس کی پہلی رکعت میں الحمد کے بعد دوسرے سورہ کے بجا ئے یہ آیت پڑھی جائے ’’وذاالنون اذ ذھب مغاصبا فظن ان لن نقدر علیہ فنادیٰ فی الظلمات ان لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین فا ستجبنا لہ و نجیناہ من الغم و کذالک ننجی المومنین ‘‘اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد سورے کے بجا ئے یہ آیت پڑھے’’ وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الاھو و یعلم ما فی البر و البحر وما تسقط من ورقۃ الا یعلمھا ولا حبۃ فی ظلمات الارض ولا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین ‘‘اور قنوت میں یہ دعا پڑھے ’’اللھم انی اسئلک بمفاتح الغیب التی لا یعلمھا الا انت ان تصلی علی محمد وآل محمد وان تفعل بی کذا وکذا ‘‘اور بجا ئے کلمہ کذا و کذا اپنی حاجتوں کو بیان کرے اور اسکے بعد کہے ’’اللھم انت ولی نعمتی والقادر علی طلبتی تعلم حاجتی فاسئلک بحق محمد و آلہ علیہ و علیھم السلام لما قضیتھا لی ‘‘۔

قبلہ کے احکام
مسئلہ ۸۵۱۔ خانۂ کعبہ جو مکہ معظمہ میں ہے قبلہ ہے اور چاہئیے کہ نماز اس کے سامنے پڑھی جائے لیکن جو دور ہیںوہ اگر اس طرح کھڑے ہوں کہ کہا جائے کہ قبلہ رو نماز پڑھ رہے ہیں تو کافی ہے اور دوسرے وہ کام بھی جیسے جانوروں کا سر کاٹنا جو کہ قبلہ رو انجام دینا ضروری ہے اس کابھی یہی حکم ہے ۔
مسئلہ ۸۵۲۔ جو شخص واجب نماز کھڑا ہو کر پڑھنا چاہتا ہے اس کو چاہئیے کہ اس طرح کھڑا ہو کہ اس کا چہرہ، سینہ، شکم اور پاؤں کااگلا حصہ قبلہ کی جانب ہوں اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ پاؤں کی انگلیاں بھی قبلہ کی طرف ہوں ۔
مسئلہ ۸۵۳۔ جس کو بیٹھ کر نماز پڑھنی چاہئیے اگر وہ حسب معمول نہ بیٹھ سکتا ہو اور بیٹھتے وقت پاؤں کے تلوے کو زمین پر نہ رکھ سکتا ہو اس کے لئے احتیاط یہ ہے کہ نماز کے وقت چہرہ ، سینہ ،پیٹ ،اور احتیاط کی بنا پرپنڈلیاںبھی قبلہ کی طرف ہوں ۔
مسئلہ ۸۵۴۔ جو آدمی بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اس کو نماز میں داہنے پہلو اس طرح لیٹنا چاہئیے کہ اس کے بدن کے سامنے کاحصہ قبلہ کی طرف ہو اگر یہ ممکن نہ ہو تو بائیں پہلو اس طرح لیٹے کہ اس کے بدن کے سامنے کا حصہ قبلہ کی طرف ہواور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پیٹھ کے بل اس طرح لیٹے کہ پاؤں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں ۔
مسئلہ ۸۵۵۔ نماز احتیاط ، سجدہ اور تشہد جو بھول گیا تھا اور دوسجدہ سہو قبلہ کی طرف رخ کر کے ادا کرے۔
مسئلہ ۸۵۶۔مستحب نمازیں راستہ چلتے یا سواری میں بھی پڑھی جا سکتی ہیں اور اگر ان دونوں حالتوں میں نماز مستحبی پڑھی جائے تو قبلہ کی طرف رخ کر نا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ ۸۵۷۔ جو شخص نماز پڑھنا چاہے اس کو چاہئیے کہ قبلہ معلوم کر نے کے لئے کوشش کرے اس کے لئے اس دو عادل اشخاص( جو کہ مورد اطمینان بھی ہوں )کی گواہی پر بھروسہ کر نا چاہئیے تاکہ اس کو یقین ہو جائے کہ قبلہ کس طرف ہے ۔
مسئلہ ۸۵۸۔ اگرکوئی شخص یقین پیدا نہیں کر سکتا کہ قبلہ کدھر ہے یا کوئی قابل اطمینان شخص نہ ہو کہ جو اس کو قبلے کے بارے میں بتائے تووہ گمان پر عمل کرے جو کہ مسلمانوں کے محراب سے یا ان کی قبروں سے یا دوسرے ذریعوں سے پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس شخص کے کہنے پر جو کہ علمی قاعدہ سے قبلہ کو پہچانتا ہے قبلہ کا گمان پیدا ہو تو کافی ہے ۔
مسئلہ ۸۵۹۔اگر کسی کو قبلہ کا گمان ہو اور اس سے پر زور گمان پیدا کر سکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اپنے گمان پر عمل نہیں کر سکتا مثلاً اگرکسی کے کہنے پر قبلہ کا گمان پیدا کرے لیکن اس کے علاوہ دوسرے ذریعہ سے پر زور گما ن پیدا کر سکتا ہو تو ا سکے کہنے پر عمل نہیں کر نا چاہئیے مگر یہ کہ اسکا قول قابل اطمینان ہو اور اسی طرح مہمان میزبان کے قول پر عمل کرسکتا ہے اگر گمان کا سبب ہو اور اس قوی گمان کا امکان نہ ہو بر بنا ئے احوط۔
مسئلہ۸۶۰۔ اگر قبلہ کا پتہ چلانے کا کوئی طریقہ نہ ہو یا اس کی کوشش کر نے کے باوجود کسی سمت کا گمان نہ ہو تو اگر نماز کے وقت میں گنجائش ہو تو اس کو احتیاط کی بنا پر چاہئیے کہ چار نمازیں چاروں طرف پڑھے تا کہ یقین ہو جائے کہ انمیں سے ایک نماز قبلہ کی طرف تھی یا تھوڑا سا ہی قبلہ سے منحرف تھااور اگر چاروں طرف نماز پڑھنے کا وقت نہ ہو تو جسقدر وقت ہو نماز پڑھے مثلاً اگر صرف ایک نماز پڑھنے کا وقت ہوتو جس طرف چاہے نماز پڑھے اگر چہ ان نمازوں میں سے ایک نمازکا کفایت کرنا بعید نہیں ہے ۔
مسئلہ ۸۶۱۔ اگر یقین یا گمان کرے کہ قبلہ دو طرف میں سے ایک طرف ضرور ہے تو چاہئیے کہ دونوں طرف نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۸۶۲۔ جس شخص کو کئی طرف نماز پڑھنا چاہئیے اگر چاہتا ہے کہ ظہر و عصر کی نماز یا مغرب وعشاء کی نماز پڑھے تو چاہیئے کہ ایک نماز دوسرے کے بعد پڑھی جائے اور لازم نہیں ہے کہ پہلی نماز کو چا روں طرف پڑھے اورپھر دوسری نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۸۶۳۔ جس کو قبلہ کا یقین نہ ہو اگر نماز کے علاوہ کوئی ایسا کام کر ناجس کو قبلہ رو کر نا چاہئیے مثلا ًجانور کا سر کاٹنا چاہے تو گمان پر عمل کر نا چاہئیے اور اگر ممکن نہ ہوتو بوقت ضرورت جس طرف انجام دے تو اشکال نہیں ہے ۔

نماز میں بدن کا چھپانا
مسئلہ ۸۶۴۔ مرد کے لئے لازم ہے کہ نماز کی حالت میں خواہ کوئی اسے نہ دیکھ رہا ہو پھر بھی اپنی دونوں شرمگاہوں کو چھپائے اور بہتر ہے کہ ناف سے گھٹنوں تک بھی چھپائے۔
مسئلہ ۸۶۵۔ عورت کے لئے نماز میں لازم ہے کہ پورے بدن کو یہاں تک کہ بال اور ناخن تک کو چھپائے اوراحتیاط مستحب ہے کہ پاؤں کے تلوؤں کو بھی چھپائے لیکن چہرہ جس قدر وضو میں دھلنا واجب ہے اسی قدر چھپانا اور ہتھیلی کلائی تک اور پیروں کو ٹخنے تک چھانا لازم نہیں ہے البتہ یقین کر نے کے لئے واجب جگہوں کو چھپا لیا ہے ضروری ہے کہ چہرہ کا کچھ حصہ اور کلائی اور ٹخنے سے نیچے تک کا کچھ حصہ بھی چھپائے ۔
مسئلہ ۸۶۶۔ جب انسان بھولے ہوئے سجدوں کویا بھولے ہوئے تشھد کی قضا بجا لائے ضروری ہے کہ خود کو حالت نماز کی طرح چھپائے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ سجدہ سہو کے وقت بھی خود کو حالت نماز کی طرح چھپائے ۔
مسئلہ ۸۶۷۔ اگرکوئی جان بوجھ کر نماز میں اپنی شرمگاہ کو نہ چھپائے تو اس کی نماز باطل ہے لیکن اگر کوئی شخص یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے شرمگاہ نہ چھپائے تو احتیاط کی بنا پر نماز دوبارہ پڑھے ۔
مسئلہ ۸۶۸۔ اگر درمیان نماز سمجھے کہ اس کی شرمگاہ کھلی ہے تو چاہئیے کہ اس کو چھپائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کو مکمل کر نے کے بعد دوبارہ پڑھے خصوصا اگر چھپانے میں وقت کی زیادہ ضرورت ہو لیکن اگر نماز کے بعد سمجھے کہ نماز میں اس کی شرمگاہ کھلی تھی تو اس کی نماز صحیح تھی ۔
مسئلہ ۸۶۹۔ اگر کھڑے رہنے میں اس کا کپڑا اس کی شرمگاہ کو چھپائے لیکن ممکن ہو دوسری حالتوں میں مثلا ًرکوع میں اور سجدوں میں نہ چھپائے تو اگر جس وقت ا سکی شرمگاہ کھلے اس وقت کسی اور طریقہ سے اس کو چھپا لے تو اس کی نمازصحیح ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہیکہ ایسے لباس میں نماز نہ پڑھے ۔
مسئلہ ۸۷۰۔ نماز میں آدمی گھاس یا درختوں کے پتوں سے اپنی شرمگاہ کو چھپا سکتا ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ انسان خود کو لباس یا ایسی ہی کسی چیز سے امکان کی صورت میں چھپائے ۔
مسئلہ ۸۷۱۔ انسان خود کو گیلی مٹی سے چھپا کرنماز پڑھ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۸۷۲۔ اگر کوئی چیز ایسی نہ ہو کہ جس سے نماز میں خود کو چھپایا جائے تو اگر اسے احتمال ہو کہ کوئی چیز مل جائے گی تو اقویٰ یہ ہے کہ نماز میں تاخیر کرے اور اگر کوئی چیز نہ ملے تو آخر وقت میں جواسپر فرض ہے اس طرح سے نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۸۷۳۔جو آدمی نمازپڑھنا چاہے اور خو کو چھپانے کے لئے اس کے پاس نہ تو گھاس ،پتے ، گیلی مٹی اور نہ ہی کوئی ایسا گڑھا ہو جس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکے اور نہ یہ امید ہو کہ آخر وقت تک کوئی ایسی چیز مل سکتی ہے جس سے خود کو چھپا سکے ساتھ ہی یہ احتمال بھی ہو کہ کوئی نامحرم اسے دیکھ سکتا ہے تو اسے چاہیئے کہ بیٹھ کر نماز پڑھے اور رکوع و سجود کے لئے صرف اتنا جھکے کہ اسکی شرمگاہ ظاہر نہ ہونے پائے ،البتہ سجدے کے لئے رکوع کی بنسبت زیادہ جھکے اور سجدہ گاہ کو اٹھا کر پیشانی پر رکھے اور اگرا سے اطمینان ہو کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ کھڑے ہو کردو نمازیں پڑھے اور قیام کی حالت میں اپنے آگے کو ہاتھ سے چھپائے اور دو نمازوں میں سے ایک میںرکوع اور سجود کو بجا لائے اور دوسری میں رکوع و سجود کرنے کے لئے سر سے اشارہ کرے ،اگرچہ ظاہراً اشارہ سے ایک ہی نماز کافی ہے۔

نمازی کا لباس
مسئلہ ۸۷۴۔نمازی کے لباس میں چھ شرطیں ہیں :
(۱)لباس پاک ہو
(۲)مباح ہو
(۳)مردار کے جز کانہ ہو۔
(۴)ان جانوروں سے تیار نہ کیا گیا ہو جن کا گوشت کھا نا حرام ہے
(۵)اور (۶)اگر نمازی مر دہے تو اس کا لباس خالص ریشم یا سونے سے بنا ہوا نہ ہو اورا سکی تفصیل آئندہ مسئلوں میں آئے گی ۔
پہلی شرط
مسئلہ۸۷۵۔نماز گذار کا لباس پاک ہو نا چاہیئے اور اگر جان بوجھ کر نجس بدن یا نجس کپڑوں میں نماز پڑھے تو اسکی نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۸۷۶۔جو آدمی نہیں جا نتا کہ نجس بدن اور نجس کپڑوں کے ساتھ نماز باطل ہے اور اپنی جہالت کی وجہ سے معذور ہے ایسی صورت میں نجس بدن یا لباس سے نماز پڑھے اس کی نماز صحیح ہے اگر مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی نجس چیز کو نہ سمجھے کہ نجس ہے اور اپنی جہالت کی وجہ سے معذور ہو مثلاًخون کو نجس نہ سمجھے اور اسکے ساتھ نماز پڑھے تو اسکی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۸۷۷۔اگر پتہ نہ ہو کہ اسکا کپڑا یا بدن نجس ہے اور نماز کے بعد سمجھے کہ وہ نجس تھا تو اس کی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ۸۷۸۔اگر بھول جائے کہ اسکا کپڑا یا بدن نجس ہے اور دوران نماز یا بعد میں یاد آجائے تو احتیاط کی بنا پر نماز دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر چکا ہو تو قضا کرے ۔
مسئلہ۸۷۹۔جو کوئی نماز پڑھنا شروع کرے اور وقت کافی ہو اور نماز کے درمیان اس کا کپڑا یا بدن نجس ہو جائے اور قبل اس کے کہ نمازنجاست کے ساتھ کچھ پڑھے وہ متوجہ ہو جائے کہ نجس ہو گیا یا سمجھے کہ اس کا بدن یا کپڑا نجس ہے لیکن اس کو شک ہو کہ پہلے ہی سے یہ نجس ہے یا یہ اس وقت نجس ہو اہے تو اگر بدن یا کپڑے کو پاک کرنا ، یا لباس کو بدلنا یا لباس کو اتارکر الگ کردینا نماز کو باطل نہ کر دے تو اسے چاہیئے کہ نماز کے اندر ہی بدن یا کپڑے کو پاک کر ے یا کپڑے کو بدلے یا الگ کر دے لیکن اگر بد ن یا لباس کو پاک کرنے کی صورت میں نماز باطل ہو جائے گی یا ننگا رہ جائے گا تو نماز توڑ دے اور پاک جسم اور کپڑوں میں نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۸۸۰۔جو شخص نماز کو تنگ وقت میں پڑھتا ہے اگر نماز کے درمیان میں اسکا لباس نجس ہو جائے اور قبل اس کے کہ کچھ نماز نجاست کے ساتھ پڑھے سمجھ جائے کہاس کا لباس نجس ہو گیا ہے یا سمجھے کہ اس کا لباس نجس ہے اور شک کرے کہ اسی وقت نجس ہوا یا پہلے سے نجس تھا اس صورت میں جبکہ پاک کرنا یا بدلنا یا لباس کو اتار دینا نماز کو نہیں تو ڑتا اور لباس کو اتار سکتا ہے تو لباس کو پاک کرنا چاہیئے یا بدل دینا چاہیئے یا اگر کوئی دوسری چیز اس کی شرمگاہ کو چھپائے ہو تو لباس کو اتار ڈالے اور نماز کو پورا کرے لیکن اگر کوئی دوسری چیز اسکی شرمگاہ کو نہ چھپائے ہواور لباس کو بھی پاک نہیں کر سکتا اور نہ بدل سکتا ہو تو لباس کو اتاردینا چاہیئے اور جس طریقہ سے کہ برہنہ لوگوں کے لئے بیان کیا گیا ہے(مسئلہ ۸۷۳میں) نماز کو پورا کرے البتہ اگر ایسا ہے کہ لباس کو پاک کرے یا بدلے تو نماز ٹوٹ جائے گی اور سردی یا اس جیسی چیزوں کی وجہ سے لباس نہ اتار سکتا ہو تو اسی حالت میں نماز کو پورا کرے اورا س کی نماز صحیح ہے اور احتیاط مستحب کی بناپر بعد میں پاک لباس پہن کر نماز کی قضا کرے ۔
مسئلہ ۸۸۱۔ جو شخص کہ نماز کو تنگ وقت میں پڑھے اگر نماز کے درمیان میں اس کا بدن نجس ہو جائے اور قبل اس کے کہ وہ نماز کو نجاست کے ساتھ پڑھے وہ متوجہ ہو جائے کہ نجس ہو گیا ہے یا سمجھے کہ اسکا بدن نجس ہے اور شک کرے کہ اسی وقت نجس ہو اہے یا پہلے سے نجس تھا تو اس صورت میں جبکہ بدن کا پاک کرنا نماز کو نہیں توڑتا تو پاک کرنا چاہیئے اور اگر نماز کو باطل کر تا ہو تو اس حالت میں نماز کو پورا کرے اور اسکی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۸۸۲۔ جو آدمی اپنے بدن یا کپڑے کے پاک ہو نے میں شک کر رہا ہو اگر نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد سمجھے کہ اس کا بدن یا کپڑا نجس تھا تو اس کی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۸۸۳۔اگر لباس کو پاک کرے اور یقین کر لے کہ پاک ہو گیا ہے اور اسی کپڑے سے نماز پڑھ لے اور بعد میں سمجھے کہ کپڑا پاک نہیں ہو اتھا تو واجب نہیں ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے اگر چہ احوط ہے کہ نماز کااعادہ کرے ۔
مسئلہ ۸۸۴۔اگر اپنے بدن یا کپڑے پر خون دیکھے اور یقین کرے کہ یہ نجس خون میں سے نہیں ہے مثلا ًاس کو یقین ہو کہ مچھر کا خون ہے تو اگر نماز کے بعد سمجھے کہ وہ ایسے خون میں سے تھا کہ جس کے ساتھ نماز نہیں پڑھی جا سکتی تو اس کی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۸۸۵۔جس وقت یقین ہو کہ بدن یا کپڑے پر ایسا نجس خون ہے جس کے ساتھ نماز صحیح ہے مثلا ً یقین کرے کہ زخم یا پھوڑے کا خون ہے اگر نماز کے بعد سمجھے کہ وہ ایسا خون تھا کہ نماز اس کے ساتھ پڑھنا باطل ہے تو اسکی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۸۸۶۔ اگر کسی چیز کے نجس ہو نے کو بھول جائے اور اسکا بدن یا کپڑا جو گیلا ہو وہ اس جگہ سے لگ جائے اور بھول کر نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسکو یاد آئے تو اسکی نماز صحیح ہے لیکن اگر اسکا بدن جو گیلا ہو کسی ایسی چیز سے متصل ہو جائے جس کے نجس ہونے کو بھول گیا ہو اور بغیر اپنے بدن کو پاک کئے ہوئے غسل کر لے اور نماز پڑھ لے تو اس کا غسل اور نمازباطل ہے اور اسی طرح اگر وضو کہ کوئی جگہ یا وضو کا کوئی عضو جو گیلا ہو کسی ایسی چیز سے جس کے نجس ہونے کو وہ بھول گیا ہو لگ جائے اور وہ اس حصہ کو پاک کرنے سے پہلے وضو کرے اور نماز پڑھے تو اسکا وضو اور نماز باطل ہے۔
مسئلہ ۸۸۷۔ جس کے پاس ایک کپڑا ہو ، اگر اسکا بدن اور کپڑا نجس ہو جائے اور ان میں سے کسی ایک کو پاک کرنے کے لئے اسکے پاس پانی ہو توان میں سے کسی کو بھی پاک کر سکتا ہے لیکن اگر مثلا ً ایک کی نجاست پیشاب ہو جو قلیل پانی کے دو مرتبہ ڈالنے سے پاک ہو تی ہے اور دوسرے کی خون ہو جوایک مرتبہ پانی ڈالنے سے پاک ہو جاتی ہے تو اس چیز کو پاک کرنا چاہیئے جو پیشاب سے نجس ہوئی ہے ۔
مسئلہ ۸۸۸۔جس کے پاس نجس کپڑے کے علاوہ دوسرا کپڑا نہ ہو اور خاص کر سردی وغیرہ کی وجہ سے لباس کو نہیں اتار سکتا تو اسے چاہیئے کہ بنا بر احتیاط واجب نجس لباس ہی میں نماز پڑھے اور وہ نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۸۸۹۔جس آدمی کے پاس دو کپڑے ہوں اگر وہ یہ جانتا ہو کہ ان میں سے ایک نجس ہے اور ان کو پاک نہ کرسکتا ہو اورپتہ نہ ہو کہ کون سا نجس ہے تو اگر وقت ہو تو دونوں کپڑوں سے نماز پڑھے مثلاً اگر ظہر وعصر کی نماز پڑھنا چاہتا ہے تو ہر ایک کپڑے میں ایک ظہر کی نماز اور ایک عصرکی نماز پڑھے اور اگر وقت تنگ ہو تو اسی طرح نماز پڑھے جس طرح برہنہ آدمیوں کے لئے بیان کیا گیا ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کو پاک کپڑے میں قضا کرے ۔

دوسری شرط
مسئلہ ۸۹۰۔ نماز پڑھنے والے کا کپڑا مباح ہو نا چاہیئے اور جو شخص جانتا ہو کہ غصبی کپڑا پہننا حرام ہے اگر جان بوجھ کے غصبی یا ایسے کپڑے میں جس کا دھاگہ یا بٹن یا اس میں کوئی دوسری چیز غصبی ہو ، نماز پڑھے تو نماز باطل ہے اور یہی حکم جاہل مقصر کا بھی ہے ۔
مسئلہ ۸۹۱۔جو جانتا ہو کہ غصبی کپڑا پہننا حرام ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ نماز کو باطل کر تا ہے اگر جان بوجھ کر غصبی کپڑے میں نماز پڑھے تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ۸۹۲۔اگر علم نہ ہو یا بھول جائے کہ اس کا کپڑا غصبی ہے اور اس میں نماز پڑھی ہو تو ا سکی نماز صحیح ہے لیکن اگر کسی نے لباس کو خو د غصب کیا ہو اور بھول جائے کہ اس کو غصب کیا ہے اور اس میں نماز پڑھ لے تو احتیاط مستحب یہ ہے مباح لباس کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۸۹۳۔ اگر علم نہ ہو یا بھو ل گیا ہو کہ اس کا لباس غصبی ہے اور نماز کے درمیان اسے یاد آئے تو اگر کوئی اور چیز اس کی شرمگاہ کو چھپائے ہوئے ہو اور وہ فوراً یا موالات یعنی نماز کا ہر کام ایک کے بعددوسرا پے در پے ہونے کو خرا ب کئے بغیر غصبی کپڑے کو الگ کر سکتا ہے تو چاہیئے کہ اس کو الگ کر دے اور اسکی نماز صحیح ہے اور اگر دوسری کوئی چیز اسکی شرمگاہ کو چھپائے ہوئے نہ ہو تو نماز کی حالت میں کپڑا الگ کر دے اور برہنہ آدمیوں کے طریقہ کے مطابق نمازکو پورا کرے ۔
مسئلہ۸۹۴۔اگر کوئی اپنی جان کی حفاظت کے لئے غصبی کپڑے میں نماز پڑھے یا مثلا ً اس لئے کہ چور غصبی کپڑا نہ لے جائے اس میںنماز پڑھے تو اسکی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۸۹۵۔ اگر خود اس رقم سے جسکی زکوٰ ۃ یا خمس ادا نہ کیا ہو اگر لباس خریدے تو اس میں نماز پڑھنا اشکال رکھتا ہے ۔
تیسری شرط
مسئلہ ۸۹۶۔ نماز پڑھنے والے کا کپڑا ایسے مردہ جانور کے بدن کے حصوں سے نہ ہو جس کا خون اچھل کر نکلتا ہے یعنی وہ جانور کہ اگر اس کی رگ کو کاٹیں تو خون اس سے اچھلے گابلکہ اگر سانپ اور مچھلی جیسے جانوروں کے جو اچھلنے والا خون نہیں رکھتے کے بدن کے حصوں سے بنا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس سے نماز نہ پڑھے ۔
مسئلہ ۸۹۷۔ اگر مردار جانور کی کوئی چیز جیسے اس کا گوشت اور چمڑا جن میں جان ہوتی ہے نمازی کے پاس ہو اگر چہ وہ اس کا لباس بھی نہ ہو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہوگی ۔
مسئلہ ۸۹۸۔ اگر حلال گوشت مردار جانور کی کو ئی چیز جیسے بال اور اون جن میں جان نہ ہونمازی کے ساتھ ہو یا ایسے لباس سے جو ان چیزوں سے بنا ہے نماز پڑھے تو ا سکی نما زصحیح ہے۔
چوتھی شرط
مسئلہ۸۹۹۔ نماز پڑھنے والے کا لباس ایسے جانور کے چمڑے سے نہ بنا ہو جس کا گوشت حرام ہے اور اگر اس کابال بھی نماز ی کے پاس ہو تو اس کی نما زباطل ہے ۔
مسئلہ ۹۰۰۔ایسے جانور جن کا گوشت حرام ہے جیسے بلی کا تھوک یا ناک کا پانی یا اس کی کوئی اور رطوبت نمازی کے بدن کا یا لباس پر ہو اگر تر ہو تو نماز باطل ہے اور اگر سوکھ گئی ہو اور وہ خود دور ہو گئی ہو تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ۹۰۱۔ اگر کسی کے بال ، پسینہ یا تھو ک نماز پڑھنے والے کے بدن یا کپڑے پر ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اسی طرح اگر مروارید(موتی)اورموم اور شھد اس کے ساتھ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۹۰۲۔ اگر یہ شک ہو کہ لباس حرام گوشت جانور سے ہے یا حلال گوشت جانور سے تو اگر اسلامی ملک سے خریدا گیا ہو تو اس میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ۹۰۳۔ سیپ کا شمار حرام گوشت جانور میں ہو تا ہے اگر انسان کو احتمال ہو (یعنی خیال ہو )کہ اس سیپ کا بٹن یا اس جیسی کوئی چیز اس جانور سے ہے تو اس کے ساتھ نماز پڑھناجا ئز ہے۔
مسئلہ ۹۰۴۔ خزاور سنجاب کی کھال سے بنے لباس میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ۹۰۵۔ اگر حرام گوشت جانور کے اجزاء سے بنے ہوئے لباس میں ساتھ نماز پڑھے تو بنا بر احتیاط واجب اس کی نماز باطل ہے اگر وحکم یا موصوع کی نسبت جاہل مقصر ہو۔اسی طرح اگر بھول کر اس لباس میں نماز پڑھ لے تب بھی یہی حکم ہے ۔
پانچویں شرط
مسئلہ ۹۰۶۔ سونے سے بنے ہوئے کپڑے کا پہننا مرد کے لئے حرام ہے اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا باطل ہے لیکن عورت کے لئے نماز میں اور نماز کے علاوہ کوئی حرج نہیں۔
مسئلہ ۹۰۷۔ مرد کے لئے سونے کی چیز سے زینت کر نا جیسے سونے کی زنجیر گلے میں ڈالنا ، سونے کی انگوٹھی ہاتھ میں پہننا یا سونے کی گھڑی ہاتھ میں باندھنا حرام ہے اور اس کے ساتھ نماز باطل ہے اور واجب ہے کہ سونے کے چشمہ سے بچے لیکن عورت کے لئے سونے سے زینت کر نا نماز میں اور نماز کے علاوہ میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۰۸۔ اگر کوئی آدمی بھول جائے یا اسے شک ہو کہ اس یا کپڑایا انگوٹھی سونے کی ہے اور اس کے ساتھ نماز پڑھ لے تو ا سکی نماز صحیح ہے ، اسی طرح اگر جاہل قاصر ہو لیکن شک کی صورت میں غور وفکر کر نا ضروری ہے اسی طرح باقی مسائل میں بھی سوچ بچار لازمی ہے ۔
چھٹی شرط
مسئلہ۹ ۹۰۔ نماز پڑھنے والے مرد کا لباس خالص ریشم کا نہیں ہو نا چاہئیے اور علاوہ نماز کے بھی مرد کے لئے اس کا پہننا حرام ہے لیکن ٹوپی اور کمر بند یا ان جیسی چیزوں کا استعمال کہ جن کو تنہا پہن کر نماز نہیں ہو سکتی خلاف احتیاط ہے۔
مسئلہ ۹۱۰۔ اگر پورے لباس کا استر یااس کے کسی حصہ کا استر خالص ریشم کا ہو تو اس کا پہننا مرد کے لئے حرام ہے اور اسمیں نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۹۱۱۔ جن کپڑوں کے بارے میں علم نہ ہو کہ خالص ریشم کا ہے یا کسی اور چیز کا ، اگر اسے پہن کر نماز پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۹۱۲۔ اگر ریشم کا رومال یا اس قسم کی چیز مرد کے جیب میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور نماز کو باطل نہیں کرتی۔
مسئلہ ۹۱۳۔ عورتوں کے لئے ریشم کا لباس نماز میں یا نماز کے علاوہ میں پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۱۴۔ مجبوری کی حالت میں غصبی لباس پہننا یا خالص ریشم کا پہننا یا سونے سے بنا ہو ایا جو مردار جانور سے تیار کیا گیا ہو پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے اور ان لباس کے ساتھ نماز بھی پڑھ سکتا ہے لیکن اگر لباس پہننے کی احتیاج نہ ہو تو اس حکم پر عمل کرے جو مسئلہ ۸۷۳میں برہنہ افراد کے لئے بیان کیا گیا ہے ۔

چند مسائل
مسئلہ ۹۱۵ ۔اگر کوئی چیز ایسی نہ ہو جس سے اپنی شرمگاہ کو نماز کے اندر چھپائے تو واجب ہے کہ حاصل کرے چاہے کرایہ پر ہو یا خرید کر لیکن اگرا سکے مہیا کر نے میں اس قدر مال ضروری ہے کہ اس کی حیثیت کے لحاظ سے زیادہ ہو یااس طرح ہو کہ لباس پر مال خرچ کر دیگا تو ا سکی حالت کے لئے نقصان دہ ہے یا بہت تکلیف کا موجب ہے تو چاہئیے کہ جس طرح برہنہ آدمیوں کے لئے طریقہ بیان کیا گیا ہے نماز پڑھے (مسئلہ ۸۷۳میں) ۔
مسئلہ ۹۱۶۔ جس کے پاس کپڑا نہ ہو اگر کوئی اس کو کپڑا بخش دے یا تھوڑی دیر کے لئے دے دے اگر اس کو لے لینے میں تکلیف نہ ہو تو اس سے لے لے بلکہ اگر کسی سے مانگنایا تھوڑی دیر کے لئے لینا اس کیلئے دشوار نہ ہو تو اس آدمی کو چاہئیے کہ جس کے پاس کپڑا ہو اس سے مانگ لے یا تھوڑی دیر کے لئے لے لے ۔
مسئلہ ۹۱۷۔ احتیاط واجب کی بنا پر انسان ایسے کپڑے کو پہننے سے سے پرہیز کرے جس کا کپڑا یا رنگ یا سلائی جو پہننا چاہتا ہے اس کے لئے رواج کے مطابق نہ ہو ، مثلا علماء دین کا فوجی لباس کا پہن لینا ، لیکن اگر ایسے کپڑے سے نماز پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۱۸۔ احتیاط یہ ہے کہ مرد عورتوں کے کپڑے اور عورت مردوں کے کپڑے ہمیشہ نہ پہنیں لیکن اگر ایسے لباس میں نماز پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے یا وقتی طور سے پہنیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۹۱۹۔ جس کو لیٹ کر نماز پڑھنا چاہئیے اگر وہ برہنہ ہو اور اس کالحاف یا کمبل نجس ہو یا خالص ریشم یا حرام گوشت جانور کے اجزاء سے بنا ہوا ہو اگر نماز میں اس لباس کا پہننا صادق آئے تو نماز میں خود کوان چیزوں سے نہ چھپائے۔
جن مقامات پر بدن اور لباس کا پاک ہو نا ضروری نہیں ہے
مسئلہ ۹۲۰۔تین صورتیں ایسی ہیں جن میں اگر نماز پڑھنے والے کا کپڑا یا بدن نجس ہو تو اس کی نماز صحیح ہے ان کی تفصیل آئندہ بیان کی جائے گی ،
(۱) زخم یا پھوڑا یا پھنسی جو اس کے جسم پر ہیں ان کا خون بدن یا کپڑے میں لگا ہو ،
(۲) اس کا بدن یا کپڑا یے پر ایک درہم سے کم خون لگا ہواور در ھم کی مقدراحتیاط واجب کی بناپرانگشت شھادت کے پورکے برابرہے ۔
(۳) مجبور ہو کہ نجس بدن یا نجس کپڑے میں نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۹۲۱۔ دو صورتیں ایسی ہیں کہ اگر نماز پڑھنے والے کا صرف کپڑا نجس ہو تو اس کی نماز صحیح ہے ۔
پہلے یہ کہ اس کے چھوٹے کپڑے مثلا ٹوپی یا موزہ وغیرہ نجس ہو ں
دوسرے یہ کہ ایسی عورت کا کپڑا جو بچہ کی پرورش کر رہی ہے بچہ کے پیشاب سے نجس ہوان کے احکام تفصیل کے ساتھ آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے ۔
مسئلہ ۹۲۲۔ اگر نماز پڑھنے والے کے بدن یا کپڑ پر زخم یا پھوڑ ے یا پھنسی کا خون ہو ، اگر اسطرح وہ کہ کپڑے یا بدن کو پاک کر نا اس کپڑے کو بدلنا اس کے دشوار ہو تو جب تک زخم پھوڑا یا پھنسی اچھی نہ ہو ئی ہو اس وقت تک اسی خون کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے اور یہی حکم ہے کہ اگر خون کے ساتھ پیپ باہر آگئی ہو یا جو دوا زخم کے اوپر لگائی ہو وہ نجس ہو گئی ہواور اس کے بدن یا کپڑے پر لگی ہو ۔
مسئلہ ۹۲۳۔ اگر کٹ جانے کی وجہ سے خون یا ایسے زخم کا خون جو جلدی اچھا ہوجا تاہے اوراس کا دھونا آسان ہے اور نمازی کے کپڑے یا بدن پر لگا ہو تو علی الاحوط اسکو پاک کر لینا چاہیئے ۔
مسئلہ۹۲۴۔ اگر زخم کے پانی سے بدن کا کوئی حصہ یا لباس جو فاصلہ پر نجس ہو جائے تو اسکے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن اگر زخم کے پانی سے بدن کے اس حصے کا کپڑا نجس ہو جائے کہ عام طور سے زخم کا پانی اس میں لگ جاتا ہے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۲۵۔ اگر منھ اور ناک کے اندر یا کسی ایسی دوسری جگہ زخم ہو اور خون نکل کر بدن یا کپڑے پر پہنچے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کے ساتھ نماز نہ پڑھے لیکن بواسیر کے خون کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے چاہے اس کے مسے اندر ہوں یا باہر۔
مسئلہ ۹۲۶۔ جس آدمی کے بدن میں زخم میں ہو اگر اپنے بدن یا کپڑے میں خون دیکھے اور اس کو معلوم نہ ہو کہ یہ خون زخم کا ہے یا باہر کا تو اسکے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۲۷۔ اگر کئی زخم بدن میں ہوں اور اس قدر نزدیک بھی ہوں کہ ایک زخم کہا جائے تو جب تک تمام ٹھیک نہ ہو جائے ان کے خون کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر زخم الگ الگ ہو اور اس قدر ایک دوسرے سے دور ہوں کہ ہر ایک علیحدہ زخم سمجھا جائے تو زخم اچھا ہو جائے تو اسے چاہئیے نماز کے لئے بدن اور لباس کو اس کے خون سے پاک کرے ۔
مسئلہ ۹۲۸۔ اگر حیض نفاس ، استحاضہ ، کتے خنزیر اور مردار کا خون سوئی کی نوک کے برا بر بھی نماز ی کے بدن یا کپڑے پر لگا ہو تو اس کی نمازاحتیاط کی بنا پر باطل ہے ۔ اسی طرح ہے احتیاط کی بنا پر حرام گوشت جانور کا خون لیکن دوسرے خون جیسے انسان کے جسم کا خون یا حلال گوشت جانور کاخون اگر بدن اور لباس میں کئی جگہ ہو اور ہر جگہ کا خون مل کر ایک درھم سے کم(تقریبااشرفی کے برابر )ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۲۹۔جو خون ایسے کپڑے پر پڑے جس کا استر نہ ہو اور وہ دوسری طرف پہنچ جائے اگر لباس نازکہ ہو تو ایک خون سمجھاجائے گالیکن اگر کپڑے کے دوسرے طرف دوسرا خون ہو تو دونوں کا الگ الگ حساب کرے لہذا اگر کپڑے کے سامنے اور اندر کاخون ملا کر ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساتھ نماز صحیح ہے اور اگر زیادہ ہو تو ا سکی نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۹۳۰۔ اگر خون ایسے کپڑے پر گر جائے جس کا استر لگا ہو اور خون استر تک جاپہنچے یا استر پر خون گرے اور وہ خون اوپر کے کپڑے تک پہنچ جائے تو چاہئیے کہ دونوں کا حساب الگ الگ کرے اس لئے اگر کپڑے اور استر کاخون مل کر ایک درہم سے کم ہو تو اس میں نماز صحیح ہے اور اگر زیادہ ہو تو نماز اس کے ساتھ باطل ہے۔
مسئلہ ۹۳۱۔ اگر بدن یا کپڑے کا خون ایک درہم سے کم ہو اور کوئی گیلی چیز اس میں مل جائے اگر خون اور وہ رطوبت جو اس میں ملی ہے ایک درہم یا زیادہ ہو اور کناروں تک پھیل جائے تو اس کے ساتھ نماز باطل ہے بلکہ اگر خون اور تری مل کر ایک درہم نہ ہو تواحتیاط مستحب کی بنا پر اس کے ساتھ نماز پڑھنا مشکل ہے ۔
مسئلہ ۹۳۲۔ اگر کپڑے یا بدن میں خون نہ لگا ہو لیکن خون سے لگ کر نجس ہو گیا ہو تو اگر چہ کہ جو جگہ نجس ہوئی ہے وہ ایک درہم سے کم ہو پھر بھی احتیاط مستحب کی بنا پر اس کے ساتھ نماز نہ پڑھے ۔
مسئلہ ۹۳۳۔ اگر جسم یا کپڑے پر ایک درہم سے کم خون ہو اور کوئی اور نجاست لگ جائے جیسے پیشاب کا قطرہ ا سپر پڑ جائے تو اسکے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۳۴۔ اگر نمازی کے چھوٹے کپڑے مثلا ٹوپی اور موزہ جن سے شرمگاہ کو چھپایا نہ جا سکے نجس ہو جائیں تو اگر مردار جانور اور حرام گوشت جانور سے نہ بنا ہو تو ان کے ساتھ نماز صحیح ہے ، اسی طرح اگر نجس انگوٹھی کے ساتھ نماز پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۳۵۔ نجس رومال ، چابی یا چاقونماز ی اپنے ہمراہ رکھ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۹۳۶۔ ایسی عورت جو بچے کے پرورش کر رہی ہے اور اس کا لباس بچے کے پیشاب سے نجس ہو جائے اوراس کے پاس ایک ہی کپڑا ہو اور دوسرا کپڑا نہ تو خرید سکتی ہے اور نہ کرایہ پر عاریتا کسی سے لے سکتی ہے دن اور ارت میں وہ ایک مرتبہ اپنے کپڑے کو پاک کرے اگر چہ دوسرے روز تک اس کا کپڑا بچہ کے پیشاب تک نجس ہو جائے تو اس کپڑے سے نماز پڑھ سکتی ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ عصر کے قریب اپنے کپڑوں کو پاک کرکے اسی سے ظہر اور عصر کی نماز پڑھے ،لیکن اگر کیس پاس ایک سے زیادہ لباس ہوں اور وہ ان سب کو پہننے پر مجبور ہواور وہ اان سب کو دن و رات میں ایک مرتبہ پاک کر لے تو کافی ہے ۔
مسئلہ ۹۳۷۔ایسی عورت جو بچہ کی پرورش کر رہی ہو لیکن بچہ ا سکا اپنا نہ ہو اگر اس کا لباس بچہ کے پیچاب سے نجس ہو جائے اور وہ دن اور رات میں ایک مرتبہ پاک کرلے اور دوسرا لباس مہیا کرنا ممکن نہ ہوتو اس لباس کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے ۔

نمازی کے لباس کی مستحب چیزیں
مسئلہ ۹۳۸۔نمازی کے لباس میں چند چیزیں مستحب ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں عمامہ تحت الحنک کے ساتھ ، عبا پہننا ، سفید کپڑا، سب سے زیادہ صاف ستھرے کپڑے پہننا خوشبو کا استعمال اور ہاتھ میں عقیق کی انگوٹھی پہننا ۔
نمازی کے لباس کی مکروہ چیزیں
مسئلہ ۹۳۹۔ چند چیزیں نماز ی کے کپڑوں میں مکروہ ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں ، سیاہ لباس پہننا ، مگر معصومین علیھم السلام کی سوگواری کی وجہ سے سیاہ لباس پہننا جائز ہے ۔ گندا اور تنگ لباس پہننا اور شراب پینے والے کا لباس اور اس آدمی کا کپڑا پہننا جو نجاست سے پر ہیز نہیں کر تا اور ایسا کپڑا جس پر شکل کی نقاشی ہو ، کپڑوں کے بٹن کا کھلا ہو نا اور ایسی انگوٹھی ہاتھ میں پہننا جس پر کسی شکل کی نقاشی ہو۔

نماز پڑھنے کی جگہ
مسئلہ ۹۴۰۔ نماز پڑھنے کی جگہ میں نو شرطیں ہیں ۔ پہلی شرط یہ ہے کہ مباح(پاک)ہو ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ جگہ کو ہلتا ہوا نہیں ہو نا چاہئیے۔تیسری شرط یہ ہے کہ پو ری نماز اس جگہ پر تمام کرسکتا ہو۔چوتھی شرط یہ ہے کہ اس جگہ پر رکنا حرام نہ ہو ۔پانچویںشرط یہ ہے کہ اس جگہ پر کھڑا ہونا یا بیٹھنا حرام نہ ہو ۔چھٹی شرط یہ ہے کہ قیام، رکوع اور سجود آسانی سے ادا کر سکتا ہو ۔ ساتویں شرط یہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام علیہ السلا م کی قبر کے آگے نماز نہ پڑھے ۔ آٹھویں شرط یہ ہے کہ جگہ نجس اور مرطوب نہ ہو ۔نویں شرط یہ ہے کہ نمازی کے سجدہ کا مقام اور اس کے گھٹنوں اور پاؤں کے انگوٹھوں کے ٹیکنے کی جگہ ایک بالشت سے زیادہ بلند یا پست نہ ہو۔
پہلی شرط
مسئلہ ۹۴۱۔جو آدمی غصبی جگہ میں نماز پڑھے اگر چہ وہ فرش یا تخت یا اس قسم کی چیزوں پر ہو جو مباح ہوں تو ایسی نماز باطل لیکن غصبی چھت یا غصبی خیمہ کے نیچے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۴۲۔ (نماز پڑھنے والے کی جگہ پاک ہو )وہ ملکیت جس کا نفع کسی اور کا مال ہے بغیر اس آدمی کی اجازت کے جو ا سکے نفع کا مالک ہے ایسی ملکیت میں نماز پڑھنا باطل ہے ، مثلا کرایہ کے مکان میں مکان کا مالک یا کوئی اورآدمی کرایہ پر جس نے مکا ن لیا ہے اس کی اجازت کے بغیر نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے اسی طرح اگر ایسی ملکیت میں کوئی نماز پڑھے جس ملکیت میں کسی اور آدمی کا کوئی حق ہو مثلاً مرنے والا وصیت کر کے مرا ہو کہ اس کی ملکیت کا تہائی کسی کام میں صرف کیا جائے تو جب تک ایک تہائی حصہ الگ نہ کیا جائے گا اس ملکیت میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔
مسئلہ ۹۴۳۔ جو آدمی مسجد میں بیٹھا ہے اگر کوئی اس کی جگہ کو غصب کر کے وہاں نماز پڑھے تو اس نماز میں اشکال ہے ۔
مسئلہ ۹۴۴ ۔ اگر ایسی جگہ جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ یہ غصبی ہے یا نہیں اور اس جگہ نماز پڑھ لے اور نماز پڑھنے کے بعد وہ سمجھے کہ یا وہ بھو ل گیا ہو کہ وہ غصبی جگہ تھی اور بعد نماز یاد آجائے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر اس نے خود ہی غصب کیا ہو اور بھول اس میں نماز پڑھ لے اگر چہ اس کی نماز کو باطل تو نہیں کہا جاسکتا لیکن احتیاط یہی ہے کہ اس نماز کو کافی نہیں سمجھے بلکہ کسی دوسری جگہ نماز دوبارہ پڑھے ۔
مسئلہ ۹۴۵۔ اگر یہ معلوم ہو کہ ایک جگہ غصبی ہے لیکن اس کو پتہ نہ ہو کہ غصبی جگہ پر نماز باطل ہے اور وہ وہاں نماز پڑھے اور وہ جاہل مقصر ہو تو اس کی نماز باطل ہو گی ۔
مسئلہ ۹۴۶۔ جو مجبور ہو کہ سواری پر واجب نماز پڑھے اگر سواری کا جانور یا اس کی زین یا اس کی نعل غصبی ہو تو ا سکی نماز باطل ہے اور یہی حکم اس وقت ہے جب وہ مستحبی نماز کو سواری پر پڑھنا چاہے ۔
مسئلہ ۹۴۷۔ جو کسی کی ملکیت میں دوسرے کے ساتھ شریک ہو ۔ اگر اس کا حصہ الگ نہ ہو تو اپنے شریک کی اجازت کے بغیر نہ تو اسے استعمال کر سکتا ہے اور نہ ہی نماز پڑھ سکتا ہے مگر اس حصہ میں جس کوعرفاً اس کا حصہ کہا جا تا ہے۔
مسئلہ ۹۴۸۔ اگر عین روپیہ سے کوئی ملکیت خریدی جائے جس روپیہ کا خمس یا زکوٰۃادانہ کی گئی ہو تو ایسی ملکیت میں اس کا تصرف کر نا حرام ہے اوراس میں نماز پڑھنا اشکال رکھتا ہے ۔
مسئلہ ۹۴۹۔ اگرکسی ملکیت کا مالک زبان سے نماز پڑھنے کی اجازت دے اور آدمی جانتا ہو کہ دل سے راضی نہیں ہے تو اس کی ملکیت میں نماز پڑھنا باطل ہے اور اگر اجازت نہ دے اور آدمی یقین کرے کہ دل سے راضی ہے تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۹۵۰۔ کسی میت کی ملکیت میں جس کے ذمہ زکوٰۃ یا خمس باقی ہو تو تصرف حرام ہے اور اس میں نماز پڑھنا اشکال رکھتا ہے مگر یہ کہ اس کے ذمہ جو قرض ہے اسے ادا کر دیا جائے یا اسکی آدائیگی کی ضمانت دیدی جائے تو نمازپڑھنے میں اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۵۱۔ کسی میت کی ملکیت میں جس کے ذمہ لوگو ں کا قرض ہو تصرف حرام اور اس میں نماز باطل ہے لیکن اگر اس کی آدئیگی کی ضمانت دیدی جائے یا قرض خواہ اور میت کا وصی یا قرض خواہ اور حاکم شرعاس میں نماز پڑھنے اور تصرف کی اجازت دیدیںتو نماز پڑھنے میں اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۵۲۔ اگر میت پر قرض نہ ہو لیکن اس کا کوئی وارث بچہ یا مجنون یا غائب ہو تو ولی کی اجازت کے بغیراس کی ملکیت میں تصرف کر نا حرام ہے اور اس میں نماز باطل ہے ۔ہاں ولی کی اجازت یا اتنی مقدار میں تصرف کہ عموماً اس طرح کے تصرف کو حق چھیننا نہیں سمجھا جاتا،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۹۵۳۔ ایسے مسافر خانہ اور غسل خانے اور اسی قسم کی چیزیں جو وہاں آنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہوں چونکہ ان میں رضامندی کا اطمینان حاصل ہو تا ہے لہذا ان میں نمازپڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ایسی جگہوں کے علاوہ دوسری جگہ میں اس وقت نماز پڑھی جا سکتی ہے کہ اس کا مالک اجازت دیدے یا ایسی کوئی بات کہے کہ جس سے معلوم ہو کہ نماز پڑھنے کے لئے اجازت دی ہے مثلا کسی کو اجازت دی ہو کہ اس کی ملکیت میں بیٹھے اور سوئے کہ اس سے یہ سمجھا جائے گا کے نماز پڑھنے کے لئے بھی اس نے اجازت دیدی ہے کیونکہ اس قسم کی گفتگو سے سمجھا جاتا ہے کہ اس نے نما زپڑھنے کی اجازت بھی دیدی ہے ۔

دوسری شرط
مسئلہ ۹۵۴۔ نماز پڑھنے والے کی جگہ ہل نہ رہی ہو اگر وقت کی کمی یا کسی اور سبب سے مجبوری ہو کہ ایسی جگہ نماز پڑھے جو ہل رہی ہو جیسے، موٹریں کشتی اور ریل تو اس میںجس قدر ہو سکے حرکت کی حالت میں کچھ نہ پڑھے جبکہ موالات میں خلل نہ ہو رہا ہو لیکن اگر موالات میں خلل ہو رہا ہو تو حرکت کی حالت میں بھی پڑھے اور اگر یہ چیزیں قبلہ سے دوسری طرف حرکت کریں تو وہ قبلہ کی طرف مڑ جائے ۔
مسئلہ ۹۵۵ ۔ جب موٹر کشتی یا ریل یا اس قسم کی چیزیں ٹھہری ہوئی ہوں تو ان میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۵۶۔ گیہوں یا جو یا اس قسم کی چیزوں کے ڈھیر جس میں ممکن نہیں کہ حرکت نہ ہو ان پر نمازباطل ہے ۔

تیسری شرط
مسئلہ ۹۵۷۔ جن مقامات پر ہوا ، بارش یا لوگوں کاہجوم یا اس قسم کی دوسری چیزوں کی وجہ سے اطمینان ہو کہ نماز کونہیں پورا کر سکے گاتو وہاں نماز نہیں پڑھ سکتالیکن اگر اسے شک یا احتمال ہوکہ نما ز کو پورا کر لے گا تونماز شروع کر سکتا ہے اور اگر نماز تمام ہوجائے تو نماز صحیح ہے ۔

چوتھی شرط
مسئلہ ۹۵۸۔ یہ ہے کہ ایسی جگہ نماز نہ پڑھے جہاں ٹھہرنا حرام ہے مثلا ایسی چھت کے نیچے نماز نہ پڑھے جو گر نے کے قریب ہو ۔
پانچویں شرط
مسئلہ ۹۵۹۔ جس چیز پر کھڑا ہو نا یا بیٹھنا حرام ہے اس پر نماز نہ پڑھے مثلا ایسے فرش پر نماز نہ پڑھے جس پر خدا کا نام تحریر ہو ۔
چھٹی شرط
مسئلہ ۹۶۰۔یہ ہے کہ ایسی جگہ کہ جہاں چھت نیچی ہو اور وہاں سیدھا کھڑا ہو نا ممکن نہ ہو ایسی چھوٹی جگہ ہو کہ سجدہ اور رکوع کی جگہ نہ ہو وہاں نماز نہ پڑھے اور اگر ایسی جگہ پر نماز پڑھنے پر مجبور ہو تو جس قدر ممکن ہو کھڑا ہو یا رکوع وسجود کرے ۔
ساتویںشرط
مسئلہ ۹۶۱۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام علیہ السلام کے قبر کے آگے نماز نہ پڑھے اسی طرح احتیاط واجب کی بنا پر پیغمبر اور ائمہ علیھم السلام کی قبر کے برابرکھڑے ہو کر بھی نماز نہ پڑھے ۔
مسئلہ ۹۶۲۔ اگر نماز میں نماز ی اور قبر مبارک کے درمیان کوئی دیوار یا اس قسم کی کوئی چیز ہو جس کے سبب بے احترامی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن قبر کا صندوق یا ضریح یا کپڑ ا جو اس پر پڑا ہوا ہے اس کا فاصلہ کافی نہیں ہے ۔
آٹھویں شرط
مسئلہ ۹۶۳۔ اگر نماز پڑھنے والے کہ جگہ اگر نجس ہو تو اس قدر گیلی نہ ہوکہ اس کی رطوبت اس کے بدن یا کپڑے میں پہنچ جائے لیکن پیشانی کو جہاں رکھا جاتاہے وہ جگہ اگر نجس ہو تو اس صورت میں جب کہ خشک بھی ہو نماز باطل ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز پڑھنے والے کی جگہ بالکل نجس نہ ہو ۔
نویں شرط
مسئلہ ۹۶۴۔نمازی کے سجدہ کا مقام اس کے گھٹنوں اور پاؤں کے انگوٹھوں کے ٹیکنے کی جگہ سے چار انگلیوں سے زیادہ بلند یا پست نہ ہو ۔ اس مسئلہ کی تفصیل احکام سجدہ میں بیان ہو گی ۔

چند مسائل
مسئلہ ۹۶۵۔ نماز جماعت کے علاوہ عورت کا مرد کے پیچھے کھڑا ہونا ضروری نہیں ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اس کے سجدہ کی جگہ مرد کے کھڑے ہو نے کی جگہ سے ذرا پیچھے ہو ۔اگر چہ بہتر ہے۔
مسئلہ ۹۶۶۔ مکروہ ہے کہ عورت مرد کے برابر یا اس کے آگے کھڑی ہو اور ایک ساتھ نماز میں داخل ہوںاور اگر ایسا ہو جائے تو واجب نہیں ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھیں ۔ اگر ان دونوں میں کوئی ایک نماز کے لئے پہلے کھڑا ہو توواجب نہیں ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے ۔
مسئلہ ۹۶۷۔ اگر مرد اور عورت کے درمیان دیوار یا پردہ یا کوئی اور چیز ہو کہ جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں یا ان کا آپس کا فاصلہ دس ہاتھ کا ہو یا ان میں سے کسی ایک کی نماز کی جگہ اس قدر بلند ہو کہ عورت کو مرد سے آگے یا اس کے برابر نہ کہا جاسکے تو اس صورت میں کراہت بر طرف ہو جاتی ہے ۔
مسئلہ ۹۶۸۔ نامحرم مرد اور عورت کا ایسے کمرہ میں رہناحرام ہے کہ جہاں کوئی نہیں رہتا اور نہ کوئی وہاں آسکتا ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر نماز وہاں صحیح نہیں ہے لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک نماز شروع کر دے اور کوئی دوسرا نامحرم وہاں آجائے توکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ ۹۶۹۔ جہاں ستار اور سارنگی وغیرہ استعمال کی جاتی ہیں اگران کے گناہ میںمدد نہ ہو تو اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۷۰۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر اور اس کے چھت پر واجب نماز نہ پڑھی جائے ۔
مسئلہ ۹۷۱۔ مستحب نماز خانہ کعبہ کے اندر اور اس کی چھت پر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر ہررکن کے سامنے دورکعت نماز پڑھے ۔

وہ جگہیں جہاں نماز پڑھنا مستحب ہے
مسئلہ ۹۷۲۔ اسلام کی مقدس شریعت میںبہت زیادہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نماز کو مسجد میں پڑھا جائے اور تمام مسجدوں سے بہتر مسجد الحرام اور اس کے بعد مسجد نبوی ؐاور اس کے بعد مسجد کوفہ اور ا سکے بعد بیت المقدس کی مسجد اور بیت المقدس کی مسجد کے بعد ہر شہر کی جامع مسجد اور اس کے بعد محلہ کی مسجد اور اس کے بعد بازار کی مسجد ہے ۔
مسئلہ ۹۷۳۔عورتوں کے لئے گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے اور اگر خود کو پورے طور سے نا محرم سے محفوظ رکھ سکیں تو بہتر ہے کہ مسجد میں نماز پڑھیں ۔
مسئلہ ۹۷۴۔ ائمہ طاہرین علیھم السلام کے حرم میں نماز پڑھنا مستحب ہے بلکہ مسجد سے بھی زیادہ بہتر ہے اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے حرم میں نماز پڑھنا دو لاکھ نمازوں کے برا بر ہے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر کے نزدیک ہر رکعت ہزار حج اور ہزار عمرہ اور ہزار غلام آزاد کرنا اور نبی مرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہزار مرتبہ جہاد کر نے کے برابر ہے ۔
مسئلہ ۹۷۵۔ مسجدوں میں زیادہ جانا اور ایسی مسجد میں جانا جہاں نماز پڑھنے والے نہ ہوں مستحب ہے ۔
مسئلہ ۹۷۶۔ مسجد کے ہمسایہ والے کو اگر کوئی عذر نہ ہو تو مسجد کے علاوہ نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔
مسئلہ ۹۷۷۔ جو مسجد میں نہ آتا ہو مستحب ہے کہ آدمی اس کے ساتھ کھا نا نہ کھائے اور اس سے کاموں میںمشورہ نہ کرے اور اس کا ہمسایہ نہ بنے اورنہ اس کی لڑکی لے اور نہ ہی اس کو لڑکی دے۔

وہ جگہیں جہاں نماز پڑھنا مکروہ ہے
مسئلہ ۹۷۸۔چند جگہوں پر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور وہ یہ ہیں حمام، نمک والی زمین ، کسی آدمی کے سامنے ، ایسے دروازے کے سامنے جو کھلا ہو ، راستہ ، شاہراہ اور گلی میں اگر گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو تو اور اگرتکلیف ہو تو حرام ہے اوربنا بر احتیاط واجب نماز کا دوبارہ پڑھے ،آگ کے سامنے ، چراغ کے سامنے ، باورچی خانہ میںاورہر اس جگہ جہاں آگ کی بھٹی ہو ، کنواں اور اس گڑھے کے سامنے جہاں پیشاب کیا جا تا ہو ، تصویر اور جاندار چیزوں کے مجسمہ کے سامنے ، مگر یہ کہ اس کے اوپر پردہ دال دیں ، ایسے کمرہ میں جہاں کوئی جنابت والا ہو ، ایسی جگہ جہاں تصویر ہو ، اگر چہ نماز پڑھنے والے کے سامنے نہ ہو ، قبر کے سامنے ، قبر کے اوپر، دو قبروں کے بیچ میں اور قبرستان میں ۔
مسئلہ ۹۷۹۔ جو آدمی لوگوں کے گزرنے کی جگہ نماز پڑھ رہا ہو یا کوئی ا سکے سامنے ہو تو مستحب ہے کہ اپنے سامنے کوئی چیز رکھ لے اگر لکڑی یا رسی بھی ہو تو کافی ہے ۔

مسجد کے احکام
مسئلہ ۹۸۰۔ مسجد کی زمین اس کی چھت کا اندرونی اور بیرونی حصہ یعنی اوپر کا حصہ اور دیوار وںکے اندر کا حصہ نجس کر نا حرام ہے اور جو بھی سمجھے کہ نجس ہوئی ہے تو چاہیئے کہ فوراً اس کی نجاست کو دور کرے اور احتیاط واجب ہے کہ مسجد کی دیوار کے باہر کے حصہ کو بھی نجس نہ کریں اور اگر نجس ہو تو اس کی نجاست کو دور کریں ۔
مسئلہ ۹۸۱۔اگر مسجد کو پاک نہ کر سکتا ہو یا مدد ضروری ہو اور وہ مدد نہ حاصل ہو تو مسجد کو پاک کرنا اس پر واجب نہیں ہے لیکن احتیاط واجب ہے کہ ایسے آدمی کو اطلاع دے جو مسجد کو پاک کر سکتا ہو ۔
مسئلہ ۹۸۲۔اگر مسجد کی کوئی جگہ نجس ہو اور اس کو پاک کرنا بغیر اس کو کھودے ہوئے ممکن نہ ہو تو چا ہیئے کہ اس جگہ کو کھود دیا جائے یا اگر اس کا پاک کرنا ممکن نہ ہو مگر تھوڑا سا خراب کئے ہوئیتو اس تھوڑی سی مقدار کو خراب کریںلیکن اگر مسجد کی اینٹوں جیسی کوئی چیزنجس ہو جائے اگر ممکن ہو تو اسے پاک کرنے کے بعد اپنی جگہ رکھ دیا جائے ۔
مسئلہ ۹۸۳۔اگر کسی مسجد کو غصب کر لیا جائے اور اس جگہ مکان یا ا یسی ہی کوئی دوسری چیز بنا لی جائے یا اسے اسطرح خراب کر دیا جائے کہ وہاںنماز پڑھنا ممکن نہ ہو اس کے باوجود احتیاط واجب کی بنا پر اس کو نجس کرنا حرام اور پاک کرنا واجب ہے مگر یہ کہ مسجد کے حکم سے باہر ہو جائے تو اس صورت میں مسجد کا حکم نہیں رکھتی۔
مسئلہ ۹۸۴۔ائمہ طاہرین علیھم السلام کے حرم کو نجس کرنا حرام ہے اور اگر نجس ہو جائے تو پاک کرنا واجب ہے ۔
مسئلہ ۹۸۵۔ مسج کی چٹائی اگر نجس ہو جائے تو اسکو پاک کردیا جائے اور اگر اس پر پانی ڈالنے کی وجہ سے وہ خراب ہو جائے اور جو جگہ نجس ہے اس کو کاٹنا بہتر ہو توچاہیئے کہ اسے کاٹ دیں ۔
مسئلہ ۹۸۶۔ اصل نجس چیز جیسے خون وغیرہ کو مسجد میں لے جانا اگر مسجد کی بے حرمتی ہو تو حرام ہے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر بے حرمتی نہ بھی ہو تو بھی اسے مسجد میں نہ لے جائیں لیکن وہ چیز جو نجس ہو گئی ہو کو اس کو لے جانا اگر مسجد کی بے حر متی ہورہی ہو تو حرام ہے۔
مسئلہ ۹۸۷۔اگر مسجد میں مجلس برپا کرنے کے لئے چادر ڈالیں یا فرش کریں اور کا لا کپڑا لگائیں اور تبرک وغیرہ کا سامان اس میں لے جائیں اگر ان سب کاموں کی وجہ سے مسجد کو نقصان نہ پہنچے اور نماز پڑھنے میں رکاوٹ نہ پیدا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ۹۸۸۔ احتیاط کی بنا پر مسجد کو سونے سے آرائش نہیں کرنا چاہیئے لیکن ائمہ معصومین ؑ کے حرم پر سونے کی آرائش میں کوئی حرج نہیں ہے ، احتیاط کی بنا پر مسجد میں ایسی چیزوں کی شکل نہیں بنانا چاہیئے جن میں جان ہو تی ہے لیکن پھول ،پتی ، پھل وغیرہ کے مثل بنا نا مکروہ ہے ۔
مسئلہ ۹۸۹۔اگر مسجد خراب بھی ہوجائے تو اس کو بیچ نہیں سکتے اور نہ ہی ملکیت اور سڑک میںداخل کر سکتے ۔
مسئلہ ۹۹۰۔مسجد کا دروازہ اور کھڑکی اور دوسری چیزوں کا بیچنا حرام ہے اور اگر مسجد خراب ہو جائے تو ان چیزوں کو اسی مسجد کی تعمیر میں استعمال کرنا چاہیئے اور اگر مسجد کے کام نہ آسکیں تو چاہیئے کہ دوسری مسجد میں استعمال کریں لیکن اگر دوسری مسجد کے بھی کام نہ آئے تو اسکو بیچ سکتے ہیں اور اگر ممکن ہو تو اس کی قیمت کو اسی مسجد کے بنانے میں صرف کیا جائے اور اگر ممکن نہ ہو تو دوسری مسجد کے بنانے میں صرف کیا جائے ۔
مسئلہ ۹۹۱۔ مسجد بنانا اور ایسی مسجد جو خراب ہو نے کے قریب ہے اس کو درست کرنا مستحب ہے اور اگر کوئی مسجد اس طرح خراب ہو جائے کہ اس کو درست کرنا ممکن نہ ہو تو اس مسجد کو از سر نو بنا یا جاسکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسی مسجد جو خراب نہ ہو اس کو لو گوں کی ضرورت کے لئے خراب کیا جائے اور بڑی بنایا جائے ۔
مسئلہ ۹۹۲۔ مسجد کو صا ف کرنا اور مسجد میں چراغ جلا نا مستحب ہے اور جو مسجد میں جا نا چاہتا ہے اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ خوشبو لگائے اور عمدہ اور صاف ستھرے اور قیمتی کپڑے پہنے اور جوتوں کے تلووں کی دیکھ بھال کرے کہ اسمیں نجاست نہ لگی ہو اور مسجد کے اندر جاتے وقت پہلے دایاں پیر رکھے اور مسجد سے باہر آنے کے وقت پہلے بایاں پیر رکھے اسی طرح مستحب ہے کہ سب سے پہلے مسجد میں آئے اور سب کے بعد مسجد سے باہر جائے ۔
مسئلہ ۹۹۳۔ جس وقت انسان مسجد میں آئے مستحب ہے کہ مسجد کی تحیت اور احترام کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھے اور اگر واجب یا کوئی مستحب نماز پڑھے تو کافی ہے ۔
مسئلہ ۹۹۴۔ اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو مسجد میں سونا اور دنیاوی کاموں کے بارے میں بات چیت کرنا اور کوئی چیز بنانا اور ایسا شعر پڑھنا جو نصیحت یا اس قسم کا نہ ہو مکروہ ہے اور اسی طرح تھوک ، ناک کا پانی ، سینہ کا بلغم مسجد میں ڈالنا یا جو شخص گم ہو اس کو تلاش کرنا اور اپنی آواز کو بلند کرنا مکروہ ہے لیکن اذان میں اپنی آواز کو بلند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۹۹۵۔ مسجد میں بچہ اور پاگل کو آنے دینا مکروہ ہے اور جو آدمی پیاز یا لہسن اور ایسی چیزیں کھائے ہوئے ہو کہ اس کے منھ کی بو سے دوسرے لوگوں کو تکلیف ہو تو اسے مسجد میں جا نا مکروہ ہے ۔
اذان اور اقامت
مسئلہ ۹۹۶۔ نماز پنجگانہ سے پہلے مرد اور عورت کے لئے مستحب ہے کہ اذان اور اقامت کہے بلکہ اقامت کو ترک کرنا مناسب نہیں ہے البتہ نماز پنجگانہ کے علاوہ دوسری واجب نمازوں مثلاً نماز آیات سے پہلے تین مرتبہ ’’الصلوٰۃ‘‘ کہنا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۹۹۷۔ اذان کے بیس جملے ہیں
اللہ اکبر چار مرتبہ
اشھد ان لاالہ الا اللہ ۲ مرتبہ
اشھد ان محمدا رسول اللہ ۲ مرتبہ
اشھد ان علیا ً ولی اللہ ۲ مرتبہ
حی علیٰ الصلوٰۃ ۲ مرتبہ
حی علی الفلاح ۲ مرتبہ
حی علی خیر العمل ۲ مرتبہ
اللہ اکبر ۲ مرتبہ
لاالہ الا اللہ دو مرتبہ
مسئلہ ۹۹۸۔ اقامت انیس جملے پر مشتمل ہے
اللہ اکبردو مرتبہ اور آخر میں سے لاالہ الا اللہ ایک مرتبہ کم ہو جائے گا اور ’’حی علی خیر العمل‘‘کے بعد دو مرتبہ ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ کا اضافہ کر دینا چاہیئے ۔
مسئلہ۹۹۹۔’’اشھد ان علیا ولی اللہ ‘‘اذان اور اقامت کا جز ہے جیسا کہ بعض روایات میں اس کی طرف اشارہ ہو ا ہے ۔
اذان واقامت کا ترجمہ
’’اللہ اکبر‘‘ اللہ تعالیٰ کی ذات اس بات سے بلند ہے کہ اس کی تعریف ہو سکے
’’اشھد ان لاالہ الا اللہ‘‘یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اس اکیلے اور بے مثل خدا کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں ہے
’’اشھد ان محمدا رسول اللہ ‘‘یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد بن عبد اللہ ؐ خدا کے بھیجے ہوئے رسول ہیں
’’اشھد ان علیا ً ولی اللہ‘‘ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی ؑ تمام مخلوقات پر خدا کے ولی ہیں
’’حی علیٰ الصلوٰۃ‘‘ یعنی نماز کے لئے جلدی کرو
’’حی علی الفلاح‘‘یعنی کامیابی کے لئے جلدی کرو
’’حی علی خیر العمل ‘‘یعنی بہترین کام کے لئے جلدی کرو
’’قد قامت الصلاۃ ‘‘ یعنی یقینا ً نماز قائم ہو گئی
’’لاالہ الا اللہ‘ ‘یعنی کوئی خدا عبادت کے لائق نہیں ہے سوائے اس واحد اور بے مثال خدا کے ۔
اذان اور اقامت کے احکام
مسئلہ ۱۰۰۰۔اذان اور اقامت کے جملوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہو نا چاہیئے اور اگر ان کے درمیان معمول سے زیادہ فاصلہ قرار دے تو چاہیئے کہ ان کو شروع سے دوبارہ کہے ۔
مسئلہ ۱ ۱۰۰ ۔اگراذان اور اقامت میں آواز اس طرح سے نکالے کے وہ غنا ہو جائے یعنی اس طرز(دُھن)پر جس طرح لہو لعب کے اجتماعات میں عام طور پر ہو تا ہے اذان اور اقامت کہے تو حرام ہے اور اگر غنا نہ ہو توحرام نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۰۰۲ ۔ پانچ نمازوں میں اذان ساقط ہو جاتی ہے ۔
(۱)جمعہ کے دن عصر کی نماز
(۲)عرفہ کے دن عصر کی نماز یعنی ذی الحجہ کی ۹! تاریخ
(۳)عید قربان کے قبل والی رات میں جو آدمی مشعر الحرام میں ہو ا سکی عشاء کی نماز
(۴)استحاضہ والی عورت کی عصر اور عشاء کی نماز
(۵)وہ آدمی جو پیشاب یا پاخانہ کو باہر آنے سے روک نہ سکتا ہو ا سکی عصر اور عشا کی نماز ۔ان پانچ نمازوں میں اذان اس صورت میں ساقط ہو گی کہ اس سے پہلے والی نماز سے فاصلہ نہ ہو یا اس کے درمیان فاصلہ کم ہو
مسئلہ ۱۰۰۳۔ اگر جماعت کی نماز کے لئے اذان اور اقامت کہی گئی ہو تو جو اس جماعت کے ساتھ نما زپڑھے اس کو خود اپنی نماز کے لئے اذان و اقامت نہیں کہنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۰۰۴۔ اگر نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کے ارادے سے مسجد پہنچے اور وہاں جا کر دیکھے کہ نمازجماعت ختم ہو چکی ہے تو جب تک صفیں منظم ہوں اور لوگ ادھر اُدھر نہ گئے ہوں تو اس کے لئے چھوٹ ہے کہا پنی نماز کے لئے اذان واقامت نہ کہے ۔
مسئلہ ۱۰۰۵۔ جس جگہ کچھ لوگ اپنی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ رہے ہوں یا ان کی نماز فوراً ختم ہوئی ہو اور صفیں خراب نہ ہوئی ہو ں اگر آدمی چاہے کہ اپنی نماز اکیلے پڑھے یا کوئی اور نماز جماعت ہونے والی ہو اس کے ساتھ نماز پڑھے تو تین شرطوں کے ساتھ اذان اور اقامت اس سے ساقط ہو جاتی ہے (۱) اس نماز کے لئے اذان و اقامت کہی گئی ہو (۲) جماعت باطل نہ رہی ہو (۳)اس کی نماز اور نماز ایک ہی جگہ ہو۔ لہٰذا اگر جماعت کی نماز مسجد کے اندر ہوئی ہو اوروہ مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا چاہے تو ا سکے لئے مستحب یہ ہے کہ اذان اور اقامت کہے ۔
مسئلہ ۱۰۰۶۔ اوپر والے مسئلہ میں جو شرطیں بیان کی گئی ہیں انمیں سے دوسری شرط میں شک ہو یعنی یہ شک ہو کہ نماز جماعت صحیح تھی یا نہیں تو اس کے لئے اذان اور اقامت ساقط ہے اور اگر دوسری شرطوں میں شک کرے تو مستحب سمجھ کر یا امید منظور ی(رجاء مطلوب)کے ساتھ اذان اور اقامت کہے ۔
مسئلہ ۱۰۰۷۔ جو دوسرے آدمی کی اذان و اقامت کو سنے اس کے لئے مستحب ہے کہ جس حصے کو سنے ا س کی تکرار(دھرائے ) کرے ۔
مسئلہ ۱۰۰۸۔جو کسی اور آدمی کی اذان و اقامت سنے ،چاہے وہ اس کے ساتھ دھرائے یا نہ اگر اس اذان و اقامت کے بعد یہ آدمی جس نمازکو پڑھنا چاہتا ہے اس میں زیادہ فاصلہ نہ ہو گیا ہو وہ اپنی نماز کے لئے اذا ن اقامت کو چھوڑ سکتا ہے ۔
مسئلہ۱۰۰۹۔ اگر کوئی مردکسی عورت کی اذان لذت کے ارادہ سے سنے تو اس کے لئے اذان ساقط نہیں ہو گی اور اگر لذت کا ارادہ نہ ہو تو اس پر سے اذان ساقط ہے ۔
مسئلہ ۱۰۱۰۔ نماز جماعت کے لئے اذان واقامت مرد کو کہنا چاہئیے لیکن عورت کی جماعت میں عورت اذان واقامت کہ سکتی ہے ۔
مسئلہ ۱۰۱۱۔ اقامت کو اذان کے بعد کہنا چاہئیے اور اگر اذان سے پہلے کہیں تو صحیح نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۰۱۲۔ اگر اذان کے جملوں کی ترتیب بگاڑ کر کہے مثلا حی علی الصلوٰۃسے پہلے حی علی الفلاح کہے تو چاہئیے کہ جہاں سے ترتیب بگاڑی ہے وہاں سے دوبارہ کہے۔
مسئلہ ۱۰۱۳۔ اذان اوراقامت کے درمیان فاصلہ نہیں دینا چاہئیے اور اگر دونوں کے درمیان اس قدر فاصلہ کردے کہ جو اذان کہی ہے وہ اقامت کی اذان نہ کہی جائے تو مستحب ہے کہ دوبارہ اذان اوراقامت کہے۔ اگر اذان اوراقامت اور نماز کے درمیان اس قدر دیر کر دے کہ اذان اوراقامت اس نمازکی نہ کہی جائے تو مستحب ہے کہ دوبارہ اس نماز کے لئے اذان اوراقامت کہے۔
مسئلہ ۱۰۱۴۔ اذان اوراقامت کو صحیح عربی میں کہنا چاہئیے اگر غلط عربی میں کہے یا کسی ایک حرف کے بدلے دوسرا کوئی حرف کہے یا مثلا اس کا ترجمہ فارسی،اردویا کسی اور زبان میں کہے تو صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۰۱۵۔ اذان اوراقامت نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعد کہنی چاہیں اگر جان بوجھ کر یا بھول کر نماز کا وقت ہو نے سے پہلے کہے تو باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۰۱۶۔اقامت کہنے سے قبل اگر شک کرے کے اذان کہی ہے یا نہیں تو چاہئیے کہ اذان کہے اور اگر اقامت کہنا شروع کر دے اور شک کرے کہ اذان کہی ہے یا نہیں تو اذان کہنا ضروری ہے ۔
مسئلہ ۱۰۱۷۔ اگر اذان اوراقامت کہنے کے درمیان کسی جملہ سے قبل یہ شک پیدا ہو جائے کہ اس جملہ سے پہلے والا جملہ کہا جائے کہ نہیں تو چاہئیے کہ جس جملہ کے بارے میں شک ہو اس کو ادا کرے اور اگر اذان اوراقامت کے کسی حصہ کو ادا کرنے کے درمیان یہ شک ہو کہ اس سے پہلے والا حصہ کہا ہے کہ نہیں تو اس کو کہنا ضروری ہے ۔
مسئلہ ۱۰۱۸۔ اذان کہتے وقت مستحب ہے کہ آدمی قبلہ کی طرف منھ کرے اور وضو یا غسل کئے ہواور ہاتھوں کو کانوں پر رکھے اور آواز بلند کرے اور کھینچ کر ادا کرے اور اذان کے درمیان کم فاصلہ دے اور جملوں کو ادا کرنے کے درمیان بات نہ کرے۔
مسئلہ ۱۰۱۹۔ مستحب ہے کہ آدمی چلتے ہوئے اقامت نہ کہے اور اس کو اذان سے آہستہ کہے اوراس کے جملوں کو ایک دوسرے سے نہ ملا دے لیکن اذان کے جملوں میں جس قدر فاصلہ دیتا ہے اقامت کے جملوں میں اس قدر فاصلہ نہ دے ۔
مسئلہ ۱۰۲۰۔ اذان اوراقامت کے درمیان مستحب ہے کہ ایک قدم آگے بڑھے یا تھوڑا بیٹھ جائے یا سجدہ کرے یا کوئی بھی خدا کا ذکر کرے یا دعا پڑھے یا زیادہ دیر خاموش ہو جائے یا کوئی گفتگوکرے یا دو رکعت نمازپڑھے ۔لیکن نماز مغرب اور صبح کے قبل جو اذان و اقامت کہی جائے اس کے درمیان گفتگو کر نا مستحب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۰۲۱۔ مستحب ہے کہ اذان دینے کے لئے جس آدمی کو معین کیا جائے وہ عادل ہو نماز کے اوقات کی اس کو پہچان ہو ، آوازاس کی بلند ہو اور وہ اذان اونچی جگہ پر کہے۔

واجبات نماز
مسئلہ ۱۰۲۲۔جو چیزیں نماز میں واجب ہیں وہ گیارہ ہیں ۔
(۱)نیت
(۲)قیام (یعنی سیدھا کھڑا ہو نا)
(۳)تکبیرۃ الاحرام(یعنی نماز کے شروع میں اللہ اکبرکہنا )
(۴)رکوع
(۵)سجود
(۶)قرائت
(۷)ذکر
(۸)تشھد
(۹)سلام
(۱۰)ترتیب
(۱۱)موالات(یعنی اجزاء نماز کا پے در پے ایک دوسرے کے بعد مسلسل انجام دینا)۔
مسئلہ ۱۰۲۳۔ واجبات نماز میں سے بعض’’رکن‘‘ ہیں یعنی اگر کوئی انسان ان کوانجام نہ دے یا نماز میں ان کا اضافہ کرے خواہ عمداً یا بھول کر تو نماز باطل ہو جاتی ہے اور بعض واجب رکن نہیں ہے یعنی اگر جان بوجھ کر ان میں کمی یا زیادتی کی جائے تب تو نماز باطل ہو گی لیکن اگر بھول جانے کی وجہ سے ان میں کمی یا زیادتی کی جائے تو تب نماز باطل نہیں ہو تی ۔ ارکان نماز پانچ ہیں (۱)نیت(۲)تکبیرۃ الاحرام (۳)قیام یعنی تکبیرۃ الاحرام کے وقت کا قیام اور رکوع سے متصل یعنی رکوع سے پہلے کا قیام (۴)رکوع(۵)دو سجدے۔

۱۔ نیت
مسئلہ۱۰۲۴۔ انسان کو چاہئیے کہ نماز قربت کی نیت سے پڑھے یعنی حکم خدا کی تعمیل میں اور یہ ضروری نہیں کہ نیت کو دل میں لائے یا مثلا زبان سے کہے کہ ظہر کی چار رکعت پڑھتا ہو ں ۔ قربۃ الی اللہ ۔
مسئلہ ۱۰۲۵۔ اگر ظہر یا عصر کی نماز میں فقط یہ نیت کرے کہ چار رکعت نماز پڑھتا ہو ں اور یہ تعین نہ کرے کہ ظہر کی یا عصر کی تو ا سکی نمازمیں اشکال ہے اسی طرح مثلا کسی پر ظہر کی نماز کی قضا واجب ہے اور وہ ظہر کی نماز کے وقت قضا یا اس دن ظہر کی اد انماز پڑھنا چاہتا ہو تو چاہئیے کہ وہ نیت میں یہ معین کرے کہ وہ کون سی نماز ادا کر رہا ہے ۔
مسئلہ ۱۰۲۶۔ انسان کو چاہئیے کہ نماز میں شروع سے آخر تک اپنی نیت پر باقی رہے اور ایسا غافل نہ ہو کہ اگر اس سے یہ پوچھا جائے کہ تم کیا کر رہے ہو ؟تو وہ یہ نہ بتلا سکے کہ وہ کیا کر رہا ہے ایسی نمازباطل ہے ۔
مسئلہ ۱۰۲۷۔ انسان کو فقط اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں نماز پڑھنا چاہئیے اور اگر کوئی ریا کاری یعنی لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے خواہ وہ نماز فقط لوگوں کو دکھانے کے لئے ہو یا خدااور دیکھنے والے لوگو ںدونوں کے لئے ہو ۔
مسئلہ ۱۰۲۸۔ اگر نماز کا کوئی حصہ بھی غیر اللہ کے لئے بجا لایا جائے تو نماز باطل ہو گی خواہ وہ حصہ واجب ہو مثلا سورہ الحمد اوردوسرے سورہ کی تلاوت یا وہ قنوت کی طرح مستحب ہو بلکہ اگر پوری نماز بھی کوئی خدا کے لئے انجام دے مگر لوگوں کو دکھا نے کے لئے کسی خاص جگہ مثلا مسجد میں یا خا ص وقت مثلا اول وقت یا خاص طرز سے مثلا باجماعت نماز پڑھے گا تب بھی اس کی نماز باطل ہو گی۔
۲۔ تکبیرۃ الاحرام
مسئلہ ۱۰۲۹۔ ہر نماز کے شروع میں ’’اللہ اکبر‘‘کہنا واجب ہے اور رکن ہے اور حرف’’اللہ‘‘اور ’’اکبر‘‘دونوں کو متصل کہے اور چاہئیے کہ ان دونوں کلمات کو صحیح عربی میں کہے اور اگر عربی میں غلطی ہو یا ان کا ترجمہ اردو یا کسی اور زبان میں کہے گا تو صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۰۳۰۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ تکبیرۃ الاحرام کو اس سے پہلے پڑھی جانے والی دعاؤںیا اقامت وغیرہ سے نہ ملائے ۔
مسئلہ ۱۰۳۱۔اگر کوئی’’اللہ اکبر‘‘کو بعد میں پڑھی جانے والی اشیاء ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘سے ملانا چاہے تو اسے احتیاط کی بنا پرچاہئیے کہ اکبر کی ’’ر‘‘کو پیش کے ساتھ پڑھے یعنی کہے ’’اللہ اکبر‘‘ ۔
مسئلہ ۱۰۳۲۔ تکبیرۃ الاحرام کہنے کی حالت میں جسم کو ساکن ہو نا چاہئیے اور عمداًایسی حالت میں کہ جب بدن ہل رہا ہو تکبیرۃ الاحرام کہے تو باطل ہو گی ۔
مسئلہ ۱۰۳۳۔ تکبیر، حمد، سورہ، ذکر اور دعااس طرح ادا کرے کہ خود سن سکے اور اگر اونچا سنتا ہو یا بہرا ہو یا شور کی وجہ سے سننا ممکن نہ ہو تو یوں ادا کرے کہ اگر مانع نہ ہو تے تو وہ خود اپنی زبان سے ان کو اد اکر کے اپنی آواز سن سکتا تھا ۔
مسئلہ ۱۰۳۴۔ اگر کوئی گونگا ہو یا اس کی زبان میں مرض ہو کہ’’ اللہ اکبر‘‘ ٹھیک سے ادا نہ کر سکتا ہو تو اسے چاہئیے کہ جس طرح سے بھی کہہ سکتا ہوکہے اور اگر با لکل نہ کہہ سکتا ہو تو اپنے دل میں کہے اور تکبیر کے لئے اشارہ کریاور اگر زبان کو حرکت دے سکتا ہو تو دے ۔
مسئلہ ۱۰۳۵۔ تکبیرۃالاحرام کے بعد یہ کہنا مستحب ہے ۔
’’یا محسن قد اتاک المسی وقد امرت المحسن ان یتجاوز عن المسی وانت المحسن و انا المسی بحق محمد و آل محمد صل علی محمد و آل محمد و تجاوز عن قبیح ما تعلم منی‘‘(یعنی اے خدا جو بندوں پر احسان کر تا ہے یہ بندہ گنہگار تیرے در پر آیا ہے اور تیرا حکم ہے کہ نیک آدمی گنہگار سے در گزر کرے ، توتو احسان کر نے والااور میں خطا وار ہوں بحق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کر اور میری جن برائیوں سے تو واقف ہے ان سے درگزر فرما )۔
مسئلہ ۱۰۳۶۔ اول نماز میں اور درمیان نماز میں تکبیر کہتے ہوئی ہاتھوں کو اوپر اپنے کانوں کے سامنے لے جا نا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۱۰۳۷۔ اگر یہ شک ہو جائے کہ تکبیرۃالاحرام کہی ہے یا نہیں کہی ہے اور وہ تلا وت وغیرہ میں مشغول ہو چکا ہو تو اس شک پر کوئی توجہ نہیں کر نی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۰۳۸۔ اگر تکبیرۃالاحرام کہنے کے بعد شک ہو کہ آیا صحیح طریقہ سے کہی ہے یا نہیں چاہے وہ کسی چیز کے پڑھنے میں مشغول ہو چکا ہویا نہ شک کی پرواہ نہ کرے اسی طرح سے اگر وہ شک کرے کہ آیا اس نے تکبیرۃ الاحرام کہا ہے یا نہیں اگر قرائت کی حالت میں ہو چاہے بسم اللہ کے شروع ہی میں کیوں نہ ہو بلکہ یہاں تک کہ قرائت شروع کرنے سے پہلے بھی لیکن خود کو نماز کی حالت میں دیکھ رہا ہو اس صورت میں بھی شک کی پرواہ نہ کرے اگر چہ احتیاط مستحب کی بنا پر دوسری صورت میں نما زکو تمام کرکے دوبارہ نماز پڑھے۔

۳۔قیام (کھڑاہونا)
مسئلہ ۱۰۳۹۔تکبیرۃالاحرام کہنے کے وقت قیام اور رکوع سے قبل قیام جس کو قیام متصل بہ رکوع کہتے ہیں، یہ رکن نماز ہے مگر سورۂ الحمد اور دوسرے سورے کی تلاوت کے وقت اور رکوع کے بعد قیام رکن نہیں ہے ۔اگر کسی سے بھول کر یہ ترک ہو جائے تو اس کی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۰۴۰۔احتیاط کی بنا پر تکبیر کہنے سے پہلے اور اس کے بعد اتنی دیر ضرور کھڑا رہے کہ یہ بات یقینی ہو جائے کہ تکبیر حالت قیام میں ہی کہا ہے۔
مسئلہ ۱۰۴۱۔اگر رکوع کرنا بھو ل جائے اور الحمد و سورے کی تلاوت کے بغیر بیٹھ جائے اور یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو چاہیئے کہ پہلے کھڑا ہو اور پھر رکوع میں جائے ۔ اگر بغیر کھڑے ہوئے جھکے جھکے رکوع کرے تو اسکی نماز باطل ہے اسلئے کہ قیام متصل بہ رکوع (جو رکن ہے) نہیں بجا لایا ۔
مسئلہ ۱۰۴۲۔ نماز میں کھڑے ہونے کے عالم میں مجبوری کے علاوہ بدن کو حرکت نہیں دینا چاہیئے اور کسی طرف جھکنا نہیں چاہیئے ، نہ کسی چیز سے ٹیک لگانا چاہیئے ہاں اگر مجبوری ہو یا رکوع میں جھکتے ہوئے پاؤں کو حرکت دے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۰۴۳۔حالت قیام میں اگر بھولے سے بدن کو حرکت دے یا کسی طرف جھک گیا یا ٹیک لگائی تو کوئی حرج نہیں ہے البتہ اگر تکبیر ۃ الاحرام کے موقع پر قیام متصل بہ رکوع میںبھولے سے بھی ایسا کیا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز پوری کرنے کے بعد دوبارہ نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۱۰۴۴۔احتیاط واجب یہ ہے کہ حالت قیام میں دونوں پاؤں زمیں پر ہوں مگر یہ ضروری نہیں کہ جسم کا بوجھ دونوں پیروں پر ہو اگر ایک پیر پر بھی یہ بوجھ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ ۱۰۴۵۔اگر کوئی سیدھا کھڑا ہو سکتا ہو اور وہ دونوں پاؤں اتنے زیادہ پھیلائے کہ وہ معمولاً کھڑے ہونے کی حالت نہ کہی جائے تو اس کی نماز باطل ہو گی ۔
مسئلہ ۱۰۴۶۔جس وقت انسان نماز میں کوئی ذکر پڑھ رہا ہو اگر مستحب نہ ہو تو بدن کو ساکن ہو نا چاہیئے اگر کوئی شخص نماز میں کچھ آگے یا پیچھے ہو نا چاہے یا جسم کو تھوڑا سا دائیں یا بائیں حرکت دے تو ایسے موقع پر زبان سے کچھ ادا نہ کرے البتہ’’بحول اللہ و قوتہ اقوم واقعد‘‘ کو کھڑے ہوتے ہوئے کہنا چاہیئے ، ۔
مسئلہ ۱۰۴۷۔ اگر بدن کی حرکت کے عالم میں کوئی ذکر کرے مثلا ً سجدہ یا رکوع میں جاتے ہوئے تکبیر کہے اور اس کی نیت سے یہ ذکر نماز میں جو حکم ہے وہ ذکر ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے البتہ اگر اس نیت سے نہ ہو اور وہ فقط ذکر ہو تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۰۴۸۔ سورۂ الحمد پڑھتے ہوئے ہاتھوں یا انگلیوں کو حرکت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر چہ مستحب یہ ہے کہ ان کو بھی نہ ہلائے ۔
مسئلہ ۱۰۴۹۔ اگر سورۂ الحمد اور دوسرے سورے یا تسبیحات کی تلاوت کرتے ہوئے بے اختیار اتنی حرکت کرے کہ جسم سکون کی حالت میں نہ رہے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ جسم کے عالم سکون میں آجانے کے بعدوہ چیز دوبارہ پڑھے جو حرکت کے عالم میں پڑھی تھی ۔
مسئلہ ۱۰۵۰۔ اگر نماز پڑھتے ہوئے کھڑے رہنا ممکن نہ ہو تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھنا بھی دشوار ہو تو لیٹ جائے مگر جب تک جسم سکون نہ پا جائے کچھ نہ پڑھے۔
مسئلہ ۱۰۵۱۔ جب تک کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ممکن ہے ، بیٹھنا نہ چاہیئے ، مثلا ً قیام کے عالم میں جس کا بدن ہلتا ہو یا ٹیک لگا نے پر مجبور ہو یا خم ہونے کی وجہ سے مجبورہو یا معمول سے زیادہ پاؤں کھولنے پر مجبور ہو جس طرح بھی ہو سکے حتیٰ الامکان کھڑا ہو کر نماز پڑھے اگر کسی طرح قیام ممکن نہ ہو حتیٰ رکوع کرنے کی طرح بھی کھڑا نہ رہ سکے تو بیٹھ کے نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۱۰۵۲۔اگر کوئی شخص بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہو تو اسے لیٹ کر نماز نہیں پڑھنا چاہیئے اور اگر سیدھا نہ بیٹھ سکے تو جس طرح بھی بیٹھ سکتا ہو بیٹھ کر نماز ادا کرے اور اگر کسی طرح سے بھی بیٹھنا ممکن نہ ہو تو جس طرح احکام قبلہ میں (مسئلہ ۸۵۴)ذکر ہو چکا ہے داہنے پہلو لیٹ کر پڑھے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو بائیں پہلو لیٹ کر پڑھے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو چت لیٹ کر پڑھے اس طرح کہ پاؤں کے تلوے یا سر قبلہ رخ ہو۔
مسئلہ ۱۰۵۳۔ جو بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر سورہ الحمد اور دوسرے سورہ کے بعد کھڑا ہو سکتا ہو تو اور رکوع کھڑے ہو کر بجا لا سکتا ہو تو اس کو چاہئیے کہ وہ کھڑا ہو جائے اور پھر رکوع میں جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو رکوع بھی بیٹھ کر بجا لائے ۔
مسئلہ ۱۰۵۴۔ جو شخص لیٹ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر نماز پڑھنے کے درمیان بیٹھ سکتا ہو تو جتنی دیر بیٹھ سکتا ہو بیٹھ کر نماز پڑھے لیکن جب تک اس کا بدن ساکن نہ ہو جائے کوئی ذکر نہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۰۵۵۔ جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر نماز کے درمیان کھڑا ہو نے کے قابل ہو تو جتنی دیر کھڑا ہو سکتا ہو کھڑے ہو کے نماز پڑھے مگر جب تک جسم کو سکون نہ ہو کوئی چیز نہ پڑھے۔
مسئلہ۱۰۵۶۔ اگر کوئی کھڑے ہو کر نماز تو پڑھ سکتا ہے لیکن خطرہ یہ ہو کہ کھڑے ہو نے کی وجہ سے مریض ہو جائے گا یا اس کا کوئی نقصان پہنچے گا تو بیٹھ کر نماز پڑھنی چاہئیے اور اگر بیٹھنے میں بھی کوئی خطرہ ہو تولیٹ کر نماز پڑھ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۰۵۷۔ اس احتمال کے باوجود کے آخر وقت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکے گا ، چاہئیے کہ نماز کو آخر وقت میں پڑھے ،پھر بھی اگر وہ کھڑا نہیں ہو سکتا ہوتو آخر وقت میں جو کچھ اس پر واجب ہے اسی طرح پڑھے گا ۔
مسئلہ ۱۰۵۸۔ قیام کی حالت میں بدن کو سیدھا رکھنا،سر کو سیدھا رکھے نہ نیچے کی طرف ہو نہ اوپر کی جانب، شانوں کو جھکائے رکھنا ، اور ہاتھوں کو رانوں پر رکھنا ، انگلیوں کو ایک دوسرے سے ملائے رکھنا ،سجدہ گاہ پرنگاہ رکھنا ، بدن کے بوجھ کو دونوں پیروں پر برابر ڈالنا ، خشوع وخضوع سے ہو نا، پیروں کو آگے پیچھے نہ کر نا ، مردکے پیروں کے درمیا ن کا فاصلہ تین کھلی ہوئی انگلیوں سے لے کر ایک بالشت کا ہو نا ، عورت کے پیروں کا ملا ہوا ہو نا ، یہ سب چیزیں مستحب ہیں ۔
۴۔قرائت
مسئلہ ۱۰۵۹۔نماز پنجگانہ میں پہلی اور دوسری رکعت میں پہلے سورہ حمد اور اس کے بعد کوئی ایک اور مکمل سورہ پڑھنا چاہئیے۔
مسئلہ ۱۰۶۰۔ وقت کی تنگی کی وجہ سے یا کسی مجبوری کی بنا پر اگر کوئی اور سورہ نہ پڑھ سکے مثلا خطرہ ہو کہ سورہ پڑھنے سے چور یا درندہ یا کوئی دوسری چیز اسے نقصان پہنچا دے گی تو سورہ کو نہیں پڑھنا چاہئیے۔
مسئلہ ۱۰۶۱۔ حمد سے پہلے جان بوجھ کر کوئی دوسرا سورہ پڑھنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اور اگر بھولے سے کوئی اور سورہ ، حمد سے پہلے پڑھنے لگے اور درمیان میں یاد آجائے کہ ابھی حمد نہیں پڑھی تو سورہ کو چھوڑ کر حمد پڑھنا چاہئیے اور حمد کے بعد سورہ شروع سے پڑھے ۔
مسئلہ ۱۰۶۲۔ اگرحمد اور سورہ دونوں یا کسی ایک کو بھول جائے اور رکوع میں جانے کے بعد یا د آئے تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۰۶۳۔ رکوع کے لئے جھکنے سے پہلے اگر یاد آجائے کہ حمد یا سورہ نہیں پڑھا ہے تو دونوں کو پڑھ لینا چاہئیے اور اگر یاد آجائے کہ صرف سورہ نہیں پڑھا ہے تو سورہ کو پڑھ لینا چاہئیے اگر یہ یاد آجائے کہ صرف حمد نہیں پڑھا تو پہلے حمد پڑھے اس کے بعد دوبارہ سورہ بھی پڑھے نیز جھکنے کے بعد اور رکوع میںپہنچنے سے پہلے یاد آجائے کہ حمد وسورہ دونوں یا فقط حمد یا فقط سورہ نہیں پڑھا تب بھی اسی قاعدہ پر عمل کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۰۶۴۔ اگر روزانہ کی نماز میں ان سوروں میں سے کوئی سورہ جن میں سجدہ کرنا واجب ہوتا ہے جو کہ مسئلہ ۴۰۲میں ذکر کیا گیا ہے عمداً پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۰۶۵۔ اگر بھولے سے سورہ سجدہ کو پڑھنے میں مشغول ہو جائے اور آیت سجدہ سے پہلے یاد آجائے تو اس سورہ کوتمام کرے اور نماز کے بعد سجدہ کرے اور بنابر احتیاط نماز کی حالت میں سجدہ تلاوت کے بجائے اشارے سے سجدہ کرے۔
مسئلہ ۱۰۶۶۔ اگر نماز کی حالت میں سجدہ کی آیت کو سن لے تو ا سکی نماز صحیح رہے گی ، نماز کے بعد سجدہ کرے گا اور نماز کی حالت میںاشارہ کرے۔
مسئلہ ۱۰۶۷۔ سنتی نمازوں میں دوسرے سورہ کا پڑھنا ضروری نہیں ہے ۔ چاہے وہ نمازیں نذر کی وجہ سے واجب ہو گئی ہو ں البتہ بعض سنتی نمازیں ایسی ہیں جن میں مخصوص سورہ پڑھنا چاہئیے ، جیسے نماز وحشت ۔ اگر اس نماز کے قاعدہ پر عمل کر نا چاہتا ہے تو پھر انھیں سوروں سے نماز پڑھنی چاہئیے۔
مسئلہ ۱۰۶۸۔ جمعہ کے دن نماز ظہر اور نماز جمعہ میں پہلی رکعت میں حمد کے بعد سورہ جمعہ اور دوسری میں حمد کے بعد سورہ منافقون پڑھنا مستحب ہے احتیاط واجب کی بناپر ان سوروں کوشروع کر نے کے بعد انہیں چھوڑ کر دوسرا سورہ نہیں پڑھ سکتا ۔
مسئلہ ۱۰۶۹۔ اگر حمد کے بعد ’’قل ھو اللہ یا قل یا ایھا الکافرون‘‘شروع کر دیا ہے تو انہیں چھوڑ کر دوسرا سورہ نہیں پڑھ سکتا ، البتہ جمعہ کے دن نماز ظہر میں یا نماز جمعہ میں بھولے سے سورہ جمعہ یا منافقون کے بدلے ان دونوں کو سوروں کوشروع کر دیا ہے اور ابھی نصف تک نہ پہنچا ہو تو انہیں چھوڑ کر سورہ جمعہ و منافقون پڑھ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۰۷۰۔ جمعہ کے دن نماز ظہر یا نماز جمعہ میں اگر جان بوجھ کر ’’قل ھو اللہ یا قل یا ایھا الکافرون ‘‘کو پڑھنے لگاہے تو چاہے نصف تک بھی نہ پہنچا ہو ، احتیاط کی بناپر ان سوروں کو چھوڑ کر سورہ جمعہ یا منافقون نہیں پڑھ سکتا ۔
مسئلہ ۱۰۷۱۔ نمازمیں’’قل ھواللہ، یا قل ھویا ایھاالکافرون ‘‘کے علاوہ کسی بھی سورہ کو نصف تک پہنچنے سے پہلے چھوڑ کر دوسرا سورہ پڑھ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۰۷۲۔ اگر سورہ کا کچھ حصہ بھول جائے یا وقت کی کمی یا کسی اور وجہ سے پورا سورہ نہ پڑھ سکتا ہو تواس سورہ کو چھوڑ کر دوسرے سورہ کو پڑھ سکتا ہے ، چاہے نصف سے آگے بڑھ چکا ہویا جس سورہ کو پڑھ رہا ہو وہ ’’قل ھو اللہ یا قل یا ایھا الکافرون‘‘ہو۔
مسئلہ ۱۰۷۳۔ نماز صبح اور مغرب و عشاء میں مرد پر واجب ہے کہ حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھے اور نماز ظہرین میںمرد و عورت دونوں پر واجب ہے کہ حمد وسورہ آہستہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۰۷۴ ۔ نماز صبح اور مغرب و عشاء میں مرد کو اس بات کا پابند ہو نا چاہئیے کہ حمد وسورہ کے تمام کلمات کو یہاں تک کہ آخری حرف کو بھی بلند آواز سے پڑھے ۔
مسئلہ ۱۰۷۵۔۔ نماز صبح اور مغرب و عشاء میں عورت کو اختیار ہے کہ حمد و سورہ کو آواز سے پڑھے یا آہستہ لیکن اگر کوئی نا محرم اس کی آواز کو سن رہا ہو تو احتیاط کی بنا پر آہستہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۰۷۶۔ آہستہ پڑھنے کی جگہ پر جان بوجھ کر زور سے پڑھنے سے اور زور سے پڑھنے کی جگہ پر جان بوجھ کر آہستہ پڑھنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے ۔ البتہ اگربھول کر ایسا ہو جائے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے اور پوچھنے اور یا د کرنے کی طرف بھی توجہ نہ ہو ، ایسا ہو جائے تو نماز صحیح ہو گی اگر حمد وسورہ پڑھتے وقت سمجھ جائے مجھ سے بھولی ہوئی ہے تو جتنا حصہ پڑھ چکا ہے اس حصہ کو دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۰۷۷۔ حمد وسورہ پڑھتے وقت اگر کوئی معمول سے زیادہ آواز بلند کرے مثلا چیخ چیخ کر پڑھنے لگے تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۰۷۸۔انسان کو چاہئیے کہ نما ز سیکھے تا کہ غلط نہ پڑھے اور اگر کوئی شخص کسی طرح سے صحیح نہیں سیکھ سکتا تو جس طرح بھی پڑھ سکتا ہو پڑھے ۔ایسے شخص کے لئے احتیاط مستحب یہ ہے کہ اپنی نمازوں کو جماعت سے پڑھے ۔
مسئلہ ۱۰۷۹۔ جو شخص حمد سورہ یا نماز کی کسی دوسری چیزوں کو اچھی طرح نہیں جانتا اور سیکھ سکتا ہے تو اگر نماز کا وقت کافی ہے تو اسے سیکھ لینا چاہئیے اور اگر وقت تنگ ہو توامکان کی صورت میں احتیاط مستحب کی بنا پر واجب نما زکو با جماعت پڑھے ۔
مسئلہ۱۰۸۰۔واجبات نماز کے سکھانے کی مزدوری لینا خلاف احتیاط واجب ہے ۔ البتہ مستحبات کو سکھانے کی مزدوری لینے میں اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۰۸۱۔اگر حمد وسورہ کے کسی ایک کلمہ کو نہیں جانتا یا جان بوجھ کر نہیں کہتا یا ایک حرف کی جگہ پر دوسرا حرف کہتا ہے مثلا ’’ض‘‘کی جگہ’’ظ‘‘یا جہا ں پر بغیر زیر و زبرکے پڑھنا چاہئیے وہاں پر زیر و زبر کے ساتھ پڑھتا ہے یا جہاں پر تشدید دینا چاہئیے وہاں پر تشدید نہ دے تو وہ کلمہ باطل ہے اور چاہیئے کہ دو بارہ صحیح نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۱۰۸۲۔ اگر کسی کلمہ کو صحیح سمجھتے ہوئے نماز میں اسی طرح پڑھے اور بعد میں معلوم ہو کہ غلط پڑھا ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر وقت نماز باقی ہے تو نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر چکا ہو ہے تو قضا کرے ۔
مسئلہ ۱۰۸۳۔ اگر کسی کلمہ کے زیر و زبر کو نہیں جانتا اور نہ ہی یہ جانتا ہے کہ فلاں کلمہ’’س‘‘سے ہے یا’’ص‘‘سے تو اسے سیکھنا چاہئیے اور اگر وہ ا س کلمہ کودو یا اس زیادہ طریقے سے پڑھے مثلاً ’’اھداالصراط المستقیم ‘‘کی ’’صراط‘‘کو ایک مرتبہ ’’س‘‘اور دوسری مرتبہ ’’ص‘‘سے پڑھے تو نماز باطل ہو جائے گی اور احتیاط کی بنا پر نماز دو بارہ پڑھے
مسئلہ ۱۰۸۴۔ اگر کسی کلمہ میں ’’واو‘‘ہواور’’ واو‘‘ سے پہلے والے حرف کو ’’پیش ‘‘ہو اور’’واو‘‘ کے بعد والا حرف ’’ہمزہ‘‘ ہو جیسے ’’سوئ‘‘ تواحتیاط مستحب کی بنا پر اس’’ واو‘‘مد کے ساتھ یعنی کھینچ کر پڑھے ۔ اسی طرح کسی کلمہ میں’’ الف ‘‘ہو اور’’ الف ‘‘سے پہلے والے حرف پر’’ زبر‘‘ ہو اور’’ الف‘‘ کے بعد’’ ہمزہ ‘‘ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر واو پر ’’مد‘‘ دے یعنی کھینچ کرپڑھے جیسے جاء اسی طرح اگر کسی کلمہ میں ’’ی ‘‘ہو اور اس کے پہلے والے حرف کو’’ زیر‘‘ ہو اور’’ ی ‘‘کے بعد’’ ہمزہ‘‘ ہوجیسے’’ جیء ‘‘تواحتیاط مستحب کی بنا پر ا سکو’’مد ‘‘کے ساتھ یعنی کھینچ کر پڑھے اور اگرایسے ’’واو اور الف اوری‘‘ کے بعد ’’ہمزہ‘‘ کے بجائے کوئی حرف ساکن ہویعنی زیر و زبر یا پیش نہ ہو تو بھی ان تینوں حرف کو مد کے ساتھ پڑھنا بہتر ہے جیسے ’’ولا الضالین ‘‘کی الف کے بعد جو لام ہے وہ بھی ساکن ہے اس لئے الف کا ’’مد‘‘کے ساتھ پڑھنا بہتر ہے اور اگر اس دستور کی خلاف ورزیکرے مسئلہ جانتے ہوئے اور عمداً تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز مکمل کر نے کے بعد اسے دوبارہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۰۸۵۔احتیاط مستحب ہے کہ نماز میں وقف بحرکت اور وصل بہ سکون نہ کرے ۔وقف بہ حرکت کا مطلب یہ ہے کہ آخری کلمہ کے زیر یازبریا پیش کو ظاہر کرے اور اس کلمہ کے بعد والے کلمہ میں فاصلہ دیدے مثلا ’’ الرحمنِ الرحیم‘‘کہے اور ’’الرحیمِ ‘‘کے میم کو زیر دے اور تھوڑے سے وقفہ کے بعد ’’مالک یوم الدین ‘‘کہے۔ وصل بہ سکون کا مطلب یہ ہے کہ کلمہ کے زیر یا زبر یا پیش کو ادا نہ کریاور اس کے بعد والے کلمہ سے ملا دے ، جیسے’’الرحمن الرحیم ‘‘میں ’’رحیم ‘‘کے میم کو زبر نہ (یعنی بغیر حرکت)دے اور فورا ’’مالک یوم الدین ‘‘پڑھ دے۔
مسئلہ ۱۰۸۶۔نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہ حمدآہستہ سے یا ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ یعنی’’سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر‘‘پڑھ سکتا ہے ۔ تین مرتبہ پڑھنا مستحب ہے اور اگر وقت وسیع ہو تو اپنے آپ کو ثواب سے محروم نہ کرے لہذا ایک رکعت میں الحمد اور دوسری میں تسبیحات اربعہ پڑھے لیکن بہتر یہی ہے کہ دونوں میں تسبیحات اربعہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۰۸۷۔ اگر وقت کم ہو تو تسبیحات اربعہ کو صرف ایک مرتبہ پڑھنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۰۸۸۔ عورت ومرد دونوں پر واجب ہے کہ تیسری اور چوتھی رکعت میںحمد یا تسبیحات اربعہ کو آہستہ پڑھیں۔
مسئلہ ۱۰۸۹۔ اگر تیسری یا چوتھی رکعت میں سورہ حمد پڑھیںتو احتیاط مستحب کی بنا پر بسم اللہ بھی آہستہ پڑھیں۔
مسئلہ ۱۰۹۰۔ جو تسبیحات اربعہ کو سیکھ نہیں سکتا یا صحیح نہیں پڑھ سکتا اسے تیسری اورچوتھی رکعت میں سورۂ حمد پڑھنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۰۹۱۔ اگر پہلی دو رکعتوں میں یہ خیال کرتے ہوئے کہ آخری دو رکعتیں ہیں تسبیحات اربعہ پڑھ لے اور رکوع میں جانے سے پہلے یاد آجائے تو حمد وسورہ پڑھنا چاہیئے اور رکوع میں یا رکوع کے بعد یا د آئے تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۰۹۲۔ آخری دو رکعتوں کو پہلی دو رکعتیں خیال کرتے ہوئے سورۂ حمد پڑھے یا پہلی دو رکعتوں میں یہ گمان کرتے ہو ئے کہ آخری دو رکعتیں ہیں سورۂ حمد پڑھے تو چاہے رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد اسے یاد آجائے تو اسکی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۰۹۳۔ تیسری یا چوتھی رکعت میں ا گر کوئی حمد پڑھنا چاہتا تھا لیکن تسبیحات اربعہ زبان پر جاری ہو گئے یا تسبیحات اربعہ پڑھنا چاہتا تھا اور زبان پر سورۂحمد جاری ہو گیا تو وہ اسکو تمام کر سکتا ہے اور اسکی نماز صحیح ہے۔
مسئلہ ۱۰۹۴۔ جسے تیسری یا چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ پڑھنے کی عادت ہو ، اگر بغیر ارادہ حمد پڑھنا شروع کردے تو لازم نہیں ہے کہ حمد چھوڑ کر تسبیحا ت اربعہ پڑھیاگر چہ بہتر ہے ۔
مسئلہ ۱۰۹۵۔ تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات کے بعد استغفار کرنا مستحب ہے مثلاً ’’استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ‘‘ یا ’’اللہم اغفر لی‘‘کہے اور اگر کوئی شخص استغفار پڑھنے میں مشغول ہو اور شک کرے کہ حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھی ہے یا نہیں تو احتیاط مستحب ہے کہ پلٹ کر حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھے لیکن اگر اس کی عادت بن چکی ہو کہ وہ صرف تسبیحات اربعہ کے بعد ہی استغفار پڑھتا ہے تو اسے شک کی پرواہ نہیں کر نی چاہیئے اور اگر نماز کے کسی اور مقام پر بھی استغفار پڑھتا تھا تو اسے حمد اور سورہ د وبارہ پڑھناضروری نہیں لیکن اگر اسے رکوع میں جانے سے پہلے جبکہ استغفار کرنے میں مشغول نہ ہو ،شک ہو جائے کہ حمد یا تسبیحات پڑھی ہے یا نہیں تو حمد یا تسبیحات کو پڑھنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۰۹۶۔ تیسری یا چوتھی رکعت کے رکوع کی حالت میں شک کرے کہ حمد یا تسبیحات کو پڑھا ہے یا نہیں تو ا س شک کا اعتبار نہ کرنا چاہیئے لیکن اگر رکوع میں جاتے ہوئے شک کرے اور یہ شک پہلے ہی آن میں ہو ا ہو تو پلٹ کر حمد یا تسبیحات کو قربۃ مطلقہ کے قصدسے پڑھے اور اگر رکوع کے زیادہ نزدیک جا کر متوجہ ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر قیام کی طرف پلٹ کر حمد یا تسبیحات اربعہ کو قربت مطلقہ کے قصد سے پڑھے۔
مسئلہ ۱۰۹۷۔ اگر کسی آیت یا کلمہ کے درست پڑھنے یا نہ پڑھنے میں شک ہو تو اگر اس کے بعد والی چیز میں ابھی مشغول نہیں ہو ا ہو تو آیت یا کلمہ کو صحیح پڑھ لینا چاہیئے اور اگر بعد والی چیز میں مشغول ہو گیا ہے اور وہ چیز رکن بھی ہو تو شک کا اعتبار نہیں کرنا چاہیئے مثلاًرکوع کی حالت میں شک ہو جائے کہ سورہ کے فلاں کلمہ کو صحیح پڑھا ہے یا نہیں تو اس شک کی پرواہ نہیں کرنا چاہیئے لیکن اگر بعد والی چیز رکن نہ ہو تو مثلاًاللہ الصمد کہتے وقت شک ہو کہ قل ھواللہ کو صحیح کہا یا نہیںتو اس صورت میں وہ اپنے شک کی پرواہ نہ کرے لیکن احتیاطاً اس آیت یا کلمہ کو صحیح طریقہ پر کہہ لے تو حرج نہیں ہے اور اگر چند بار یہ شک ہو جائے تو چند بار بھی کہہ سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ وسواس کی حد تک پہنچ جائے اور پھر بھی کہہ دے تو بنابر احتیاط نماز دوبارہ پڑھنی چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۰۹۸۔چند چیزیں نماز میں مستحب ہے
(۱) پہلی رکعت میں سورۂ الحمد سے پہلے ’’اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم‘‘ کہنا
(۲) ظہرین کی پہلی اور دوسری رکعت میں بسم اللہ کا بلند آواز سے پڑھنا
(۳)حمد و سورہ کے بیچ میں تھوڑاٹھہرنا
(۴)ہر آیت کے آخر میں وقف کرنا یعنی ایک آیت بعد والی آیت سے نہ ملائے
(۵)حمد و سور ہ پڑھتے وقت آیات کے معنی کی طرف توجہ کرنا
(۶)نماز جماعت میں امام کی حمد تمام ہونے کے بعد اور فرادیٰ میں اپنی حمد تمام ہو نے کے بعد ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘کہنا
(۷)سورۂ قل ھو اللہ پڑھنے کے بعد ’’کذالک اللہ ربی ‘‘ کہنا
(۸)سورہ کے پڑھنے کے بعد تھوڑا سا صبر کر کے رکوع سے پہلے والی تکبیر کہنا یا قنوت پڑھنا
مسئلہ ۱۰۹۹۔ تمام نمازوں میں پہلی رکعت میں حمد کے بعد سورۂ’’انا انزلنا ‘‘ اور دوسری میں’’ قل ھو اللہ ‘‘ پڑھنا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۱۱۰۰۔ تمام دن کی نماز وں میں کسی ایک نماز میں بھی سورہ ’’قل ھو اللہ ‘‘کا نہ پڑھنا مکروہ ہے ۔
مسئلہ ۱۱۰۱۔ ایک سانس میں پورے سورۂ قل ھو اللہ کا پڑھنا مکروہ ہے ۔
مسئلہ ۱۱۰۲۔ جس سورہ کو پہلی رکعت میں پڑھ چکا ہے اس کو دوسری رکعت میں پڑھنا مکروہ ہے البتہ سورہ قل ھو اللہ کو دونوں رکعتوں میں پڑھنامکروہ نہیں ہے ۔
۵۔ رکوع
مسئلہ۱۱۰۳۔ ہر رکعت میں قرائت کے بعد اتنا جھکنا کہ ہاتھ زانوؤں پر رکھ سکے اس کو رکوع کہتے ہیں ۔
مسئلہ ۱۱۰۴۔ اگر رکوع کے اندازہ تک جھک جائے لیکن ہاتھ زانوؤں پر نہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۱۰۵۔ غیر معمولی طریقہ پر رکوع کو بجا لائے مثلا دائیں طرف یا بائیں طرف جھک جائے چاہے ہاتھ زانوؤں تک پہنچ جائیںصحیح نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۱۰۶۔ رکوع کے ارادہ سے جھکنا چاہئیے اگر کسی دوسری نیت سے جھکا مثلا کسی جانور کو مارنے کے لئے تو اسے رکوع میں حساب نہیں کر سکتا بلکہ کھڑے ہو کر دوبارہ رکوع کے لئے جھکنا چاہئیے اور اس عمل کی وجہ سے چونکہ رکن زیادہ نہیں ہوااس لئے نماز باطل نہیں ہو گی۔
مسئلہ ۱۱۰۷۔ جس کا ہاتھ یا زانودوسرے لوگوں سے مختلف ہوں مثلا اس کا ہاتھ اتنا لمبا ہے کہ اگر ذرا سا بھی جھکے تو زانوؤں تک پہنچ جاتا ہے یا زانوں اتنے نیچے ہیں کہ جب تک زیادہ نہ جھکے اس کے ہاتھ زانوؤں تک نہیں پہنچے تو ایسے شخص کو معمول کے مطابق جھکنا چاہئیے۔
مسئلہ ۱۱۰۸۔ بیٹھ کر رکوع کر نے والے کو اتنا جھکنا چاہئیے کہ اس کا چہرہ زانوؤں کے برابر آجائے اور اتنا جھکے جس سے چہرہ سجدہ گاہ کے قریب آجائے بہترہے۔
مسئلہ ۱۱۰۹۔ احتیاط کی بنا پر رکوع میںتین مرتبہ ’’سبحان اللہ ‘‘یا ایک مرتبہ ’’سبحان ربی العظیم و بحمدہ ‘‘سے کم نہ کہے ۔ البتہ وقت کی کمی یا مجبوری کی حالت میں ایک مرتبہ’’سبحان اللہ‘‘ کہنا کافی ہے ۔
مسئلہ ۱۱۱۰۔ذکر رکوع یکے بعد دیگرے ہو نا چاہئیے اور صحیح عربی میں کہنا چاہئیے تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ یا سات مرتبہ بلکہ اس سے زیادہ ذکر رکوع کر نا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۱۱۱۱۔ رکوع میں واجبی ذکرکرتے ہوئے بدن کو حرکت نہیں دینا چاہئیے اور ذکر مستحب میں بھی اگر اس قصد سے ذکر ہو کہ جو رکوع کے لئے مستحب ہے تو احتیاط مستحب کی بنا پر بدن کو حرکت نہیں دینا چاہئیے۔
مسئلہ ۱۱۱۲۔ ذکر واجب کہتے ہوئے بے اختیاری طور پر اگر بدن میں حرکت پیدا ہو جائے تو جب بدن ساکن ہو جائے تو ذکر کو دوبارہ کہنا چاہئیے لیکن اگرحرکت اتنی کم ہو کہ بد ن کو متحرک نہ کہا جاسکے یا فقط انگلیوں کو حرکت دی ہو ، تب بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۱۱۳۔ اگر رکوع کے اندازہ تک جھکنے اور بدن کو ساکن ہو نے سے پہلے جان بوجھ کر ذکر رکوع کر نے لگے تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۱۱۴۔ واجب ذکر کے تمام ہو نے سے پہلے اگر جان بوجھ کر سر اٹھا لے تو نماز باطل ہے اور اگربھولے سے سراٹھا لے اور رکوع کی حالت سے خارج ہو نے سے پہلے یاد آجائے کہ ذکر رکوع کو تمام نہیں کیا ہے تو بدن کے سا کن ہو نے کے حال میں دوبارہ ذکر رکوع کرے اور رکوع کی حالت خارج ہو نے کے بعد یاد آئے تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۱۱۵۔ اگر رکوع کے ذکر کی مقدار کو رکوع میں پورا نہیں کر سکتا تو احتیاط واجب یہ ہے کہ بقیہ ذکر کو کھڑے ہونے کی حالت میںکہے ۔
مسئلہ ۱۱۱۶۔ اگر مرض یا کسی اور وجہ سے رکوع کو اطمینان سے بجا نہیں لا سکتا تو نماز صحیح ہے لیکن حالت رکوع سے خارج ہو نے سے پہلے ذکر واجب کر لینا چاہئیے ۔ یعنی ’’سبحان ربی العظیم وبحمدہ‘‘ ایک مرتبہ یا تین مرتبہ’’ سبحان اللہ‘‘ کہہ لینا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۱۱۷۔ اگر رکوع کی مقدار بھر نہ جھک سکتا ہو تو کسی چیز پرٹیک لگا کر رکوع کر نا چاہئیے اور اگر ٹیک لگا کر بھی بطور معمول رکوع نہیں کر سکتا تو جتنا جھک سکتا ہو اتنا ہی جھک جائے اور اگر بالکل نہیں جھک سکتا تو رکوع کے وقت بیٹھ جائے اور بیٹھ کر رکوع کرے یا رکوع کے لئے سر سے اشارہ کرے ۔
مسئلہ ۱۱۱۸۔ جو شخص کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتا ہے لیکن قیام اور بیٹھنے کی حالت میں رکوع نہیں کرسکتا تو نماز کھڑے ہو کر پڑھے اور رکوع سر کے اشارہ سے ادا کرے اور اگر اشا رہ سے بھی ادا نہیں کر سکتا تو رکوع کی نیت سے آنکھوں کو بند کر کے رکوع کرے اور رکوع سے اٹھنے کے لئے آنکھوں کو کھول دے اور اگر اس سے بھی عاجز ہو تودل میں نیت رکوع کر کے ذکر رکوع کرے ۔
مسئلہ ۱۱۱۹۔ اگر کوئی قیام اور بیٹھنے کی حالت میں رکوع نہیں کر سکتا البتہ بیٹھنے کی حالت میں تھوڑا سا جھک سکتا ہے یا قیام کی حالت میں رکوع کے لئے سر سے اشارہ کر سکتا ہے تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنی چاہئیے اور رکوع کو سر کے اشا رہ سے ادا کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۱۲۰۔ اگر رکوع کی حد میں پہنچنے اور بدن کو آرام حاصل کر لینے کے بعد سراٹھا کر دوبارہ رکوع کی نیت سے رکوع کی حد تک جھکے تو اس کی نماز باطل ہے لیکن اگر رکوع کے اندازے تک جھکنے اور بدن کو آرام حاصل کر لینے کے بعد رکوع کے ارادہ سے اتنا جھک جائے جو رکوع کی حالت سے زیادہ ہو اور دوبارہ رکوع کی طرف پلٹ آئے تو احوط یہ ہے کہ نما ز دوبارہ پڑھے لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب رکوع کی حالت میں رکوع کی نیت سے پلٹے۔
مسئلہ ۱۱۲۱۔ ذکر رکوع مکمل کر نے کے بعدسیدھا کھڑا ہو نا چاہئیے اور جب بدن ساکن ہو جائے تب سجدہ میں جانا چاہئیے اور جان بوجھ کرکھڑے ہو نے سے پہلے یا بدن کے ساکن ہو نے سے پہلے سجدہ میں چلا جائے تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۱۲۲۔ اگر رکوع بھول کر سجدہ کے لئے جھک جائے اور سجدہ میں پہنچنے سے پہلے یاد آجائے تو پہلے کھڑا ہو جائے اس کے بعد رکوع کرے اور اگر سجدہ ہی سے رکوع کی حد تک پلٹے تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۱۲۳۔ اگر سجدہ میں پیشانی پہنچ جا نے کے بعد یا پہلے سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا توپہلے کھڑا ہوجائے اور پھر رکوع کرے اوررکوع کے بعد دو سجدے انجام دے اور نماز مکمل کر نے کے بعد دو سجدہ سہو بھی بجا لائے اور احتیاط واجب کی بنا پر دوسری صورت میں نماز کو دوبارہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۱۲۴۔ رکوع میں جانے سے پہلے جب کہ سیدھا کھڑا ہے، اسی وقت تکبیر کہنا مستحب ہے حالت رکوع میں گھٹنوں کو پیچھے کی طرف رکھنا اور پشت کو سیدھا رکھنا ، گردن کو پیٹھ کے برابر سامنے کی طرف کھینچے رکھنا ، دونوں کے پیروں کے درمیان نگاہ رکھنا ، ذکر رکوع سے سے پہلے یا بعد میں درود پڑھنا ،رکوع سے سیدھا کھڑے ہو کر بدن کے ساکن ہو نے کی حالت میں ’’سمع اللہ لمن حمدہ ‘‘کا کہنا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۱۱۲۵۔ عورتوں کو رکوع میں ہاتھوں کو زانوؤں سے کچھ اوپر رکھنا چاہئیے اور زانوؤں کو پیچھے کی طرف موڑنا نہیں چاہئیے۔
۶۔سجدہ
مسئلہ ۱۱۲۶۔ ہر نماز پڑھنے والے کو واجبی اور مستحبی نماز وں میں رکوع کے بعد ہر رکعت میں دو سجدے کرنے چاہئیں ۔ سجدہ کا مطلب یہ ہے کہ پیشانی دونوں ہاتھوں کو ہتھیلیاں ،دونوں گھٹنے اور دونوں پیروں کے انگوٹھوں کو زمین پر رکھے۔
مسئلہ ۱۱۲۷۔ دونوں سجدے ملا کر ایک رکن ہو تے ہیں ، اگر بھولے سے یا جان بوجھ کر نماز واجب میں دونوں سجدہ چھوٹ جائیں یا علاوہ دو سجدوں کے دوسرے دوسجدہ کا اضافہ ہو جائے تو نماز باطل ہو جائیگی۔
مسئلہ ۱۱۲۸۔ جان بوجھ کر ایک سجدہ کم یا زیادہ کر نے سے نما زباطل ہو جاتی ہے اور اگر بھول کر ایک سجدہ کم کر دے تو اس کا حکم بعد میں بیان کیا جائے گا ۔
مسئلہ ۱۱۲۹۔ اگر پیشانی کو جان بوجھ کر یا بھولے سے زمین پر نہ رکھے ، چاہے دوسرے جگہیں زمین پر پہنچ جائیں تو یہ سجدہ نہیں ہوتالیکن اگر پیشانی کو زمین پر رکھ دے اور بھولے سے دوسرے اعضاسجدہ زمین تک نہ پہنچیں یا بھولے سے ذکر سجدہ نہ کیا جائے تو سجدہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۱۳۰۔احتیاط یہ ہے کہ سجدہ میں تین مرتبہ ’’سبحان اللہ ‘‘یا ایک مرتبہ ’’سبحان ربی الاعلیٰ و بحمدہ ‘‘کہے اور ذکر سجدہ پے در پے صحیح عربی میں ہو اور ’’سبحان ربی الاعلیٰ و بحمدہ‘‘کو تین یا پانچ یا سات مرتبہ کہنا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۱۱۳۱۔ سجدہ میں ذکر واجب کی مقدارتک بدن کوساکن ہو نا چاہئیے اورذکر مستحب کرتے وقت بھی اگر اس کو اس ذکر کی نیت سے کہے جو سجدہ کے لئے حکم ہے تو بدن کا سکون میں ہو نااحوط استحبابی ہے ۔
مسئلہ ۱۱۳۲۔زمین پر پیشانی پہنچنے سے پہلے اور بدن کو ساکن ہو نے سے پہلے جان بوجھ کر ذکر سجدہ کرے یا ذکر سجدہ تمام ہو نے سے پہلے جان بوجھ کر سجدہ سے سر کو اٹھا لے تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۱۳۳۔ زمین پر پیشانی پہنچنے اور بدن کو آرام حاصل ہو نے سے پہلے اگر بھولے سے ذکر سجدہ کرے اور سجدہ سے سر اٹھانے سے پہلے معلوم ہو جائے کہ وہ بھول گیا تھا تو بدن کو ساکن ہونے کی حالت میں دوبارہ ذکر سجدہ کرے۔
مسئلہ ۱۱۳۴۔ سجدہ سے سراٹھانے کے بعد معلوم ہو کہ بدن کو آرام ہو نے سے پہلے ذکر سجدہ کر لیا تھا یا یہ کہ ذکر سجدہ تمام ہو نے سے پہلے سر اٹھا لیا تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۱۳۵۔ ذکر سجدہ کرتے وقت ساتوں اعضا سجدہ میں سے اگر کسی عضو کو جان بوجھ کر زمین سے اٹھا لے تو نماز باطل ہے لیکن اگر ذکر نہیں کر رہا ہے اس وقت پیشانی کے علاوہ کسی اور عضو کو زمین سے اٹھا لے اور دوبارہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۱۳۶۔ ذکر سجدہ تمام ہو نے سے پہلے اگر بھولے سے پیشانی کو زمین سے اٹھا لے تو دوبارہ زمین پر نہیں رکھ سکتا اور اسے ایک سجدہ شمار کر لینا چاہئیے لیکن اگر کسی دوسرے عضو کو بھولے سے زمین سے اٹھا لے تو دوبارہ زمین پر رکھ کر ذکر سجدہ کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۱۳۷۔ پہلے سجدہ کے ذکر تمام ہو نے کے بعد بیٹھ جا نا چاہئیے تاکہ بدن ساکن ہوجائے اور اس کے بعد دوسرا سجدہ کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۱۳۸۔ نماز پڑھنے والے کے سجدہ کر نے کی جگہ کو گھٹنے کی جگہ سے چار ملی ہو ئی انگلیوں سے زیادہ بلند یا پست نہ ہونا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۱۳۹۔ایسی اونچی نیچی زمین میں کہ جس کا نشیب و فراز صحیح طریقہ سے معلوم نہ ہو اگر سجدہ کی جگہ گھٹنے اور انگوٹھے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے تھوڑی زیادہ یا بلند ہو تو کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ ۱۱۴۰۔پیشانی کو ایسی جگہ پر رکھ دے جو انگوٹھے اور گھٹنے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ بلند ہو اور اس کی بلندی اتنی ہو کہ یہ نہ کہا جاسکے کہ یہ شخص سجدہ کی حالت میں ہے تو اسے چاہئیے کہ پیشانی کو اس جگہ سے کھینچ کر ایسی جگہ رکھے کہ جس کی بلندی چار ملی ہوئی انگلیوں کے برابر ہو یا اس سے کم ہو اور اگر بلندی اتنی ہو کہ یہ کہا جا سکے کہ یہ شخص سجدہ کی حالت میں ہے تو اقویٰ یہ ہے کہ پیشانی کو کو اس جگہ سے کھینچ کر ایسی جگہ رکھے کہ جس کی بلندی چار ملی ہوئی انگلیوں کے برابر ہو یا اس سے کم ہو اور اگر پیشانی کا کھینچنا ممکن نہ ہو تو بنا بر اقویٰ سر کو اٹھا کر پھر رکھے اور نماز کو تما م کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔
مسئلہ ۱۱۴۱۔ چاہئیے کہ پیشانی اور جس پر سجدہ کیا جائے اس کے درمیان کوئی چیز نہ ہوپس اگر سجدہ گاہ پر اتنی میل ہو کہ پیشانی سجدہ گاہ پر نہ پڑتی ہو تو سجدہ باطل ہے لیکن میل کی وجہ سے صرف سجدہ گاہ کا رنگ بدل گیا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۱۴۲۔ سجدہ میں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنا چاہئیے البتہ مجبوری کی صورت میں ہتھیلی کی پشت بھی رکھی جاسکتی ہے اور اگر ہاتھ کی پشت کا رکھنا ممکن نہ ہو تو کلائی کو زمین پر رکھے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کہنی تک جو بھی حصہ زمین پر رکھنا ممکن ہواسی کو رکھے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو بازو کا رکھنا کافی ہے ۔
مسئلہ ۱۱۴۳۔ سجدہ میں پیروں کے انگوٹھوں کی نوک کو زمین پر رکھنا چاہئیے اگر چہ ان دونوں بڑی انگلیوں کے ظاہر ی یا باطنی حصیکا کافی ہو نا بعید نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۱۴۴۔ اگر انگوٹھے کا تھوڑا سا حصہ کٹا ہو اہو تو بقیہ حصہ کو زمین پر رکھے اور اگر انگوٹھے کاکوئی حصہ ہی باقی نہ ہو یا بہت ہی تھوڑا باقی ہو تو بقیہ انگلیوں کو زمین پر رکھے اور اگر کوئی انگلی بھی نہ ہو تو پیر کا جتنا حصہ باقی ہو اس کو زمین پر رکھے ۔
مسئلہ ۱۱۴۵۔ اگر غیر معمولی طریقہ سے سجدہ کرے مثلاًسینہ اور پیٹ کو زمین سے ملا دے یا پاؤں کو کھینچ لے اس طرح سے کہ اسکو سجدہ نہ کہا جاسکے اگر چہ سات اعضاء زمین پر لگیں پھر بھی اسکی نمازصحیح نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۱۴۶۔ سجدہ گا یا کوئی دوسری چیز جس پرسجدہ کریں پاک ہو نی چاہئیے لیکن اگر مثلا سجدہ گاہ کو نجس فرش پر رکھ کر سجدہ کریں یا سجدہ گاہ ایک طرف نجس ہو اور دوسری طرف سجدہ کریں جو پاک ہے تو کوئی حرج نہیں ہے
مسئلہ ۱۱۴۷۔ اگر پیشانی میںپھوڑا وغیرہ جیسی کوئی چیز ہو تو اگر ممکن ہو کہ پیشانی کے اس حصہ پر سجدہ کرسکیں جو صحیح و سالم ہے توایسا کر نا چاہئیے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو زمین پر یا سجدہ گاہ میںایک گڑھا کر دیں اور پھر پھوڑے کو اس گڑھے میں رکھ کر پیشانی کے ان حصوں کو زمین پر رکھیں جو صحیح سالم ہیںاور سجدے کے لئے کافی ہیں ۔
مسئلہ ۱۱۴۸۔ اگر پھوڑا یا زخم پو ری پیشانی پر ہو تو پیشانی کی دونوں طرف میں سے کسی ایک طرف سجدہ کریں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ٹھوڑی پر سجدہ کریں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو توچہرہ کے جس حصہ پر سجدہ کر نا ممکن ہو اس جگہ سجدہ کریں اور اگر چہرہ کے کسی حصہ پر بھی سجدہ کر نا ممکن نہ ہو تو سر کے اگلے حصے سے سجدہ کریں ۔
مسئلہ ۱۱۴۹۔ اگر کوئی پیشانی کو زمین پر نہیں رکھ سکتاتو جتنا جھک سکتا ہو اتنا جھک جائے اور سجدہ گاہ یا کسی ایسی چیز کو جس پر سجدہ صحیح ہے کسی بلند چیز پر رکھ کر پیشانی اس چیز پر اس طرح رکھیں کہ کہ یہ کہا جاسکے کہ یہ سجدہ کر رہا ہے اور احتیاط یہ ہے کہ ہتھیلیوں کو ، گھٹنوں کو ،پیروں کے انگوٹھوں کو ، زمین پر صحیح طریقے سے رکھیں ۔
مسئلہ ۱۱۵۰۔ اگر کوئی بالکل نہ جھک سکے تو احتیاط کی بنا پر سجدہ کے لئے بیٹھ جائے اور سر سے اشارہ کرے اور اگر یہ نہیں کر سکتا تو آنکھوں سے اشارہ کرے اوراگر یہ بھی نہ کر سکتا ہو تو تو دل میں سجدہ کی نیت کرے اور احتیاط مستحب کی بنا پر ہاتھ وغیرہ سے سجدہ کا اشارہ کرے ۔
مسئلہ ۱۱۵۱۔ جو شخص بیٹھ نہیں سکتا ہوکھڑے ہو کر ہی سجدہ کی نیت کرے اور اگر ممکن ہو تو سجدہ کے لئے سر سے اشارہ کرے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو آنکھوں سے اشارہ کرے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل میں سجدہ کی نیت کر لے اور احتیاط مستحب کی بنا پر ہاتھ وغیرہ سے سجدہ کے لئے اشارہ کرے ۔
مسئلہ ۱۱۵۲۔ اگر بے اختیار سجدہ کی جگہ سے پیشانی اٹھ جائے تو اگر ممکن ہو تو اسے روک لے اور دوبارہ سجدہ گاہ تک نہ پہنچنے دے اور اس کو ایک سجدہ شمار کر لے چاہے ذکر سجدہ کیا ہو یا نہ کیا ہو اور اگر اٹھنے کے بعد سر کو نہ روک سکے اور بے اختیار ودبارہ پیشانی سجدہ گاہ پر گر پڑے تو ان دونوں کو ایک سجدہ شمار کر نا چاہئیے۔
مسئلہ ۱۱۵۳۔ جب تقیہ کر نا لازم ہو تو فرش وغیرہ پر سجدہ کیا جاسکتا ہے اور نماز کے لئے کسی دوسری جگہ جا نا ضروری نہیں ہے لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ اگر چٹائی وغیرہ پر سجدہ کر نے کے لئے اسے تکلیف نہ کر نی پڑتی ہے تو اسے فرش وغیرہ پر سجدہ نہیں کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۱۵۴۔ اگر پیروں کے کمبل یا بستر یا اسی قسم کی کسی دوسری چیز پر سجدہ کیا جائے کہ جس پر جسم سکون سے کچھ دیر ٹھہر سکے تو نماز صحیح ہے اور اگر جسم سکون سے نہ ٹھہر سکے تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۱۵۵ ۔ اگر انسان کچڑے پر نماز پڑھنے پر مجبور ہو اور بدن و لباس کا آلودہ ہو جانا اس کے باعث مشقت و زحمت نہ ہو تو بنابر احتیاط واجب تشہد اور سجدے کو معمول کے مطابق اداد کر نا چاہیئے اور اگر مشقت اور زحمت کاباعث ہوتو کھڑے ہو کر سجدہ کے لئے سر سے اشارہ کرے اور تشہد کھڑے ہو کر پڑھے لیکن اگر سجدہ اور تشہد کھڑے ہو کر معمول کے مطابق بجا لائے پھر بھی اس کی نماز صحیح ہے۔
مسئلہ۱۱۵۶۔ پہلی اور تیسری رکعت کہ جن میں تشہد نہیں ہے جیسے ظہر اور عصر اور عشاء کی پہلی اور تیسری رکعت میں ان میں احتیاط واجب یہ ہے کہ دوسرے سجدہ کے بعد تھوڑی دیر سکون کے ساتھ بیٹھے اور پھر اٹھے اور اس عمل کو ’’جلسہ استراحت‘‘کہتے ہیں ۔

جن چیزوں پر سجدہ کر نا صحیح ہے
مسئلہ ۱۱۵۷۔ زمین اور زمین سے ایسی اگنی والی چیزیں جو کھائی نہ جا تی ہوں جیسے لکڑی ، درخت کے پتے، ان پر سجدہ کر نا صحیح ہے اور جو چیزیں کھائی یا پہنی جاتی ہیں نیز معدنی چیزوں پر بھی سجدہ باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۱۵۸۔اگر درخت کے پتے خشک ہو چکے ہوں تو ان پر سجدہ کر نے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر وہ پتے کھانے کے لئے خشک نہ کئے گئے ہوں ، البتہ تازہ پتوں پر سجدہ کر نے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۱۵۹۔ زمین سے اگنے والی چیزیں جو حیوان کی خوراک ہوں ان پر سجدہ صحیح ہے ، جیسے گھاس وغیرہ۔
مسئلہ ۱۱۶۰۔ نہ کھائے جانے والوں پھولوں پر سجدہ صحیح ہے کھانے والی دوائیں جو زمین سے اگتی ہیں ان پر سجدہ صحیح نہیں ہے جیسے گل بنفشہ اور گل گاؤزبان وغیرہ۔
مسئلہ ۱۱۶۱۔ ایسی اگنے والی چیز جو بعض شہروں میں عام طور سے کھائی جاتی ہے اور بعض شہروں میں نہیں کھائی جاتی ہواورکچے میوہ پر سجدہ صحیح نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۱۶۲۔ چونے کا پتھر اور گچ کا پتھر پر سجدہ صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اختیاری حا لت میں گچ اور پکا ہو ا چونااور اینٹ اور ٹھیکری وغیرہ پر سجدہ نہ کرے۔
مسئلہ ۱۱۶۳۔ اگر کاغذ کو ایسی چیزوں سے بنائیںجن پر سجدہ صحیح ہے مثلا گھاس وغیرہ سے تو اس پر سجدہ کیا جا سکتا ہے۔ روئی وغیرہ سے بنائے ہوئے کاغذپر بھی سجدہ کر نے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۱۶۴۔ سجدہ کے لئے سب سے بہتر چیز خاک شفا ہے اس کے بعد مٹی اس کے بعد پتھر اور اس کے بعد گھاس ۔
مسئلہ ۱۱۶۵۔ اگر کسی کے پاس ایسی چیز نہ ہو جس پر سجدہ کر نا صحیح ہے یا اگر ہے بھی تو سخت گرمی یا سخت سردی کی وجہ سے اس پر سجدہ نہیں کر سکتا تو اپنے لباس پر جو کہ روئی یا کتان سے بنایا گیا ہو سجدہ کرے اور دوسری چیز سے بنایا گیا ہے تو ہاتھ کی پشت یا کسی معدنی چیز مثلا عقیق وغیرہ پر سجدہ کرے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ جب تک کسی معدنی چیز پر سجد ہ کر نا ممکن ہو ہاتھ کی پشت پر سجدہ نہ کرے ۔
مسئلہ ۱۱۶۶۔ ایسی خاک یا گیلی مٹی جس پر پیشانی نہ ٹھہرتی ہو ، سجدہ کر نا باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۱۶۷۔ اگر پہلے سجدہ میں سجدہ گاہ پیشانی سے چپک جائے تو احتیاط یہ ہے کہ اسے دوسرے سجدہ کے لئے پیشانی سے جدا کرے ۔ اسی طرح اگر مٹی وغیرہ پیشانی پر لگ جائے ۔
مسئلہ ۱۱۶۸۔ اگر نماز کے درمیان وہ چیز غائب ہو جائے کہ جس پر سجدہ کیا جا سکتا ہے اور کوئی ایسی چیز پا سمیں موجود نہ ہوجس پر سجدہ صحیح ہو تو ایسی صورت میں اگرنماز کا وقت کافی ہے تو نماز کو توڑ دے اور اگر وقت تنگ ہے تو اپنے اس لباس پر جو روئی یا کتان سے بنا ہے سجدہ کر لے اور اگر دوسری چیزسے بناہے توہاتھ کی پشت یا کسی معدنی چیز پر سجدہ کرے ، جیسے عقیق کی انگوٹھی اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جب تک کسی معدنی چیز پر سجد ہ کر نا ممکن ہو ہاتھ کی پشت پر سجدہ نہ کرے ۔
مسئلہ ۱۱۶۹۔ اگر سجدہ کی حالت میں معلوم ہو جائے کہ پیشانی ایسی چیز پر رکھی ہے جس پر سجدہ باطل ہے تو اگر ممکن ہو تو پیشانی کو اس چیز سے کھیچ کر ایسی چیز پر لے جائے جس پر سجدہ صحیح ہو اور اگر ممکن نہ ہو اور وقت بھی وسیع ہو تو نماز کو توڑ دے اور اگر وقت تنگ ہے اور اس کا لباس روئی یا پٹ سن کا ہو تو پیشانی کو اسی لباس پر رکھے اور اگر روئی یا پیٹ سن کا لباس نہ ہو تو پیشانی کو ہاتھ کی پشت یا کسی معدنی چیز کی طرف کھینچ کر لے جائے ۔
مسئلہ ۱۱۷۰۔ اگر سجدہ کر نے کے بعد معلوم ہو کہ پیشانی ایسی چیز پر رکھی تھی جس پر سجدہ باطل ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۱۷۱۔ پروردگار عالم کے علاوہ کسی اور کے لئے سجدہ کر نا حرام ہے بعض عوام جو ائمہ علیہ السلام کی قبور کے سامنے پیشانی کو زمین پر رکھتے ہیں اگر وہ خدا وند عالم کے لئے بعنوان ادائے شکر ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، ورنہ حرام ہے۔ ائمہ علیہ السلام اطہار کے مزار کی چوکھٹ کو چومنا جائز بلکہ مستحب ہے اور اسے سجدہ نہیں کہا جاتا ۔
سجدہ کے مستحبات اور مکروہات
مسئلہ ۱۱۷۲۔ مندرجہ ذیل چیزیں سجدہ میں مستحب ہیں ۔
(۱)جو شخص کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہا ہو رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اور مکمل کھڑے ہونے کے بعد، اور جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اس کے لئے مکمل بیٹھ جانے کے بعد سجدہ کے لئے تکبیر کہنا ۔(۲)مرد کے لئے سجدہ میں جاتے وقت پہلے دونوں ہاتھوں کواور پھر گھٹنوں کو زمین پر رکھنا ۔(۳)سجدہ گاہ یا جس چیز پر سجدہ صحیح ہو اس پر ناک رکھنا ۔(۴)سجدہ کی حالت میں انگلیوں کوملا کر کانوں کے برابر اس طرح رکھنا کہ انگلیوں کا سرا قبلہ کی طرف ہو ۔(۵)سجدہ میں دعا کر نااور خدا سے اپنی حاجتوں کو مانگنا اور اس دعا کا پڑھنا ’ ’یا خیر المسؤلین ویا خیر المعطین ارزقنی ورزق عیالی من فضلک الواسع فا نک ذو الفضل العظیم ‘‘یعنی اے بہترین ذات کہ جس سے لوگ سوال کرتے ہیں اور عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر مجھے اور میرے عیال کو اپنے فضل و کرم سے روزی دے ۔ اس لئے کہ تو واقعاصاحب فضل وبزرگی ہے ۔(۶)سجدہ کے بعد بائیں ران پر بیٹھنا اور داہنے پیر کی پشت کو بائیں پیر کے تلوے پر رکھنا ۔(۷)ہر سجدہ کے بعد آرام و اطمینان سے بیٹھ کر تکبیر کہنا (۸)پہلے سجدہ کے بعد جب آرام و اطمینان سے بیٹھ جائے تو’’استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ ‘‘کہنا ۔(۹)سجدہ کو طول دینا ۔(۱۰)بیٹھتے وقت ہاتھوں کو رانوں پر رکھنا۔(۱۱)دوسرے سجدہ میں جانے کے لئے بدن کے سکون کے حال میں ’’اللہ اکبر‘‘ کہنا ۔(۱۲)سجدوں میں درود بھیجنا(۱۳)کھڑے ہو تے وقت ہاتھوں کو گھٹنوں کے بعد زمین سے اٹھانا ۔(۱۴)مردوں کے لئے کہنیوں اور پیٹ کو زمین سے نہ ملانا اور بازوؤں کو پہلوسے الگ رکھنا اور عورتوں کے لئے کہنیوں اور پیٹ کو زمین پر رکھنا اور اعضاء بدن کو ایک دوسرے سے ملا کر رکھنا ۔
مسئلہ ۱۱۷۳۔گرد وغبار دور کرنے کے لئے سجدہ کی جگہ کو پھونکنا مکروہ ہے اور اگر پھونکتے وقت دو حرف منہ سے نکل آئے اور جان بوجھ کر ہوتو نماز باطل ہے ۔
قرآن کے واجب سجدے
مسئلہ ۱۱۷۴۔قرآن کے چار سوروں میں ایک ایک سجدہ کی آیت ہے ۔ اگر انسان ان آیتوں کو پڑھے یا اس کی طرف کان لگائے توآیت کے تمام ہو نے بعد سجدہ کر نا واجب ہے ۔ اگر بھول گیا ہے تو جس وقت بھی یاد آئے سجدہ کر لے وہ چار سورہ یہ ہیں (۱)النجم (۲)علق (۳)سجدہ (۴)فصلت
مسئلہ ۱۱۷۵۔ سجدہ وا جب ہو جا تا ہے اگر تمام آیت کو پڑھ لیا جائے ۔ لیکن اگر اس آیت کو کچھ حصہ پڑھا جائے تو سجدہ واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۱۷۶۔ سجدہ کی آیت کو پڑھتے وقت اگر کسی دوسرے پڑھنے والے سے بھی آیت سجدہ کو سنے تو احتیاط مستحب کی بنا پر دو سجدے کرے ، لیکن اگر سجدہ کر نے کے بعد دو بار آیت کو پڑھے تو ضروری ہے کہ دو بارہ سجدہ کرے ۔
مسئلہ ۱۱۷۷۔ نماز کے علاوہ اگر سجدہ کی حالت میںآیت سجدہ کو پڑھے یا کان لگا کر سنے تو سجدہ سے سر اٹھا کر دو بارہ سجدہ کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۱۷۸۔ اگر کوئی ان آیا ت کو لکھے یا ان کا مشاہدہ کرے تو سجدہ واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۱۷۹۔ اگر کوئی شخص غیر ممیزیعنی وہ بچہ جو اچھائی اور برائی کے درمیان فرق نہیں کر سکتا یا ایسے شخص سے جو قرآن پڑھنے کا قصد نہ رکھتا ہو آیت سجدہ کو سنے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ سجدہ کرے ۔ اگر ٹیپ ریکارڈ یا ریڈیوسے آیت سجدہ سننے کا بھی یہی حکم ہے ۔
مسئلہ ۱۱۸۰۔ قرآن کے واجب سجدوں میں بھی جگہ کو غصبی نہیں ہو نا چاہئیے اور پیشانی رکھنے کی جگہ پاؤں کی انگلیوں کے سرے سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ بلند نہیں ہو نی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۱۸۱۔ قرآن کے واجبی سجدہ کے لئے وضو یا غسل یا قبلہ رو ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی شرمگا ہ کو چھپانا ، نہ بدن اور جائے سجدہ کا پاک ہونا ضروری ہے اور جو شرطیں نماز ی کے لباس کے لئے ہیں وہ شرطیں اس سجدہ میں ضروری نہیں ہیں لیکن اگر لباس غصبی ہو اور سجدہ کر نے کی وجہ سے اس نماز میں تصرف ہو تا ہو تو احتیاط کی بناپرسجدہ باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۱۸۲۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ قرآن کے واجبی سجدوں میں پیشانی کو سجدہ گاہ یا ایسی چیز پر رکھے جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو اور بدن کے اعضاء کو ایسے زمین پر رکھے جیسے نماز کے سجدہ میں ان کے زمین پر رکھنے کا حکم مسئلہ ۱۱۲۶ میں بیان ہو اہے ۔
مسئلہ ۱۱۸۳۔ قرآن کے واجبی سجدہ کے لئے پیشانی کوسجدہ کے ارادہ سے زمین پر رکھ دینا کافی ہے چاہے ذکر سجدہ نہ بھی کرے ہاں ذکر کرنا مستحب ہے ، بہتر ہے کہ سجدہ میں یہ دعا پڑھے۔
’’لاالہ الا اللہ حقاًحقاً لا الہ الااللہ ایمانًا و تصدیقاً لا الہ الااللہ عبودیۃً و رقاً سجدت لک یا رب تعبداً و رقا ًلا مستنکفاً و لامستکبراً بل انا عبد ذلیل ضعیف خائف مستجیر‘‘

۷۔ تشہد
مسئلہ ۱۱۸۴۔ تمام واجبی نمازوںکی دوسری رکعت اور آخری رکعت میں دوسرے سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد سکون کی حالت میں تشہد پڑھنا چاہیئے یعنی ’’اشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لا شریک لہ و اشہد ان محمداً عبدہ و رسولہ اللھم صل علیٰ محمد و آل محمد ‘‘کہنا چاہیئے احتیاط واجب ہے کہ اسی ترتیب سے کہے۔
مسئلہ۱۱۸۵۔تشہد کے کلمات کو صحیح عربی میں اور معمول کے مطابق پے در پے پڑھنا چاہیئے۔
مسئلہ ۱۱۸۶۔ اگر تشہد بھول کر کھڑا ہو جائے اور رکوع سے پہلے یاد آجائے کہ تشہد نہیں پڑھا تو بیٹھ کر تشہد پڑھ کے دوبارہ کھڑا ہو نا چاہیئے اور جو کچھ اس رکعت میں پڑھنا چاہیئے اسے پڑھ کر نماز تمام کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر نماز قائم کرنے کے بعد بے جا قیام کی وجہ سے دو سجدہ سہو بجا لائے ۔ لیکن اگر رکوع میں یا رکوع کے بعد یاد آئے تو نما زکو تمام کر کے اور سلام کے بعد بلا فاصلہ تشہد کی قضا کرے اور بھولے ہو ئے تشہد کے لئے دو سجدہ سہو بھی کرے ۔
مسئلہ ۱۱۸۷۔ تشہد کی حالت میں بائیں ران پر اسطرح بیٹھنا مستحب ہے کہ داہنے پیر کی پشت بائیں پیر کے تلوے پر ہو اور تشہد سے پہلے الحمد للہ یا بسم اللہ و باللہ والحمد للہ و خیر الاسماء للہ بھی کہے ۔نیز ہاتھوں کو رانوں پر رکھنا بھی مستحب ہے ۔ اس طریقے سے کہ انگلیاں آپس میں ملی ہو ئی ہوں اور نظر گود میں ہو تشھد کے تما م ہو نے کے بعد ’’و تقبل شفاعتہ و ارفع درجتہ‘‘ کہنا بھی مستحب ہے ۔
مسئلہ ۱۱۸۸۔ تشہد پڑھتے وقت عورتوںکے لئے را نوں کو آپس میں ملا کر رکھنا مستحب ہے ۔

۸۔ سلام
مسئلہ ۱۱۸۹۔ ہر نماز کی آخری رکعت میں تشہد کے بعد سکون کی حالت میں بیٹھ کر’’ السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ کہے ۔
مسئلہ۱۱۹۰۔ سلام میں’’ السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبر کاتہ‘‘ کہنا مستحب ہے لیکن اس کے بعد ’’السلام علیکم ‘‘کہنا چاہیئے اور احتیاط مستحب کی بنا پر ’’ ورحمۃ اللہ و برکاتہ ‘‘ بھی کہنا چاہیئے یا یہ کہے ’’ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین ‘‘لیکن اگر اس سلام کو کہے توبنا بر احتیاط مستحب اس کے بعد ’’ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘کہے۔
مسئلہ ۱۱۹۱۔ اگر نماز میں سلام بھول گیا ہو اور اس وقت یاد آئے کہ شکل نما زابھی باقی ہو اور صورت حال یہ ہو کہ جان بوجھ کر یا بھولے سے کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جس سے نماز باطل ہو جاتی ہے جیسے قبلہ سے منحرف ہو جانا تو سلام پڑھ لینا چاہیئے اور نماز صحیح ہے۔
مسئلہ ۱۱۹۲۔اگر سلام بھول گیا ہو اور ایسے وقت میں یاد آئے کہ شکل نماز ختم ہو گئی ہو تواحتیاط واجب کی بنا پر سجدہ سھو انجام دے اور احتیاط مستحب کی بنا پر نماز دو بارہ پڑھے ۔

۹ ۔ترتیب
مسئلہ ۱۱۹۳۔ اگر جان بوجھ کر نما زکی ترتیب کو غلط کر دے مثلاً سورہ حمد سے پہلے کوئی اور سورہ پڑھ لے یا رکوع سے پہلے سجدہ بجا لائے تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۱۹۴۔ اگر نماز کے کسی رکن کو بھول گیا ہو اور اس کے بعد والے رکن کو بجا لایا ہو تب بھی نماز باطل ہے مثلاً رکوع سے پہلے دونوں سجدے کر لئے ہوں تو نماز باطل ہے۔
مسئلہ ۱۱۹۵۔ اگر رکن بھول گیا ہو اور اس کے رکن کے بعد والی ایسی چیز جو رکن نہ ہو اس کو بجا لایا ہو مثلا ً دونوں سجدوں سے پہلے تشہد پڑھ لیا ہو تو رکن کو ادا کر کے جو چیز بھولے سے پڑھ لی ہو اسے دوبارہ پڑھنا چاہیئے۔
مسئلہ۱۱۹۶۔اگر ایسی چیز کو بھول جائے جو رکن نہ ہو اور اس کے بعد والے رکن کو بجا لائے مثلا ً سورہ حمد کو بھول کر رکوع میں مشغول ہو جائے تو ا سکی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۱۹۷۔ اگر غیر رکن بھول جائے اورا س کے بعد والی وہ چیز کہ جو رکن نہیں ہے اس کو بجا لائے مثلا ً سورۂ حمد کو بھول کر سورہ پڑھنے لگے تو اگر دوسرے رکن میں مشغول ہو چکا ہے مثلا ً رکوع میں یاد آئے کہ سورۂ حمد نہیں پڑھی ہے تو نماز پڑھتا رہے نماز صحیح رہے گی اور اگر ابھی رکن میں مشغول نہیں ہو اتھا کہ اسے یا د آگیا کہ میں نے حمد نہیں پڑھی تھی تو سورۂ حمد پڑھ لینا چاہیئے اور اس کے بعد دوسرا سورہ پڑھنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۱۹۸۔اگر پہلے سجدہ کو اس خیال سے کہ دوسرا سجدہ ہے یا دوسرے سجدہ کو اس خیال سے کہ پہلا سجدہ ہے بجا لائے تو اسکی نماز صحیح ہے اور ا سکا پہلا سجدہ ،سجدہ اول شمار ہو گا اور دوسرا سجدہ ،سجدہ دوم شمار ہو گا ۔
۱۰ ۔موالات
مسئلہ۱۱۹۹۔نماز موالات کے ساتھ پڑھنی چاہیئے یعنی نماز کے افعال مثلاً رکوع و سجود و تشہد کو یکے بعد دیگرے بجا لا نا چاہیئے اور اگر ان کے درمیان میں اتنا فاصلہ کر دے کہ یہ نہ کہا جاسکے کہ نماز پڑھ رہا ہے تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۲۰۰۔اگر نماز میں بھولے سے حروف یا کلمات میں اتنا فاصلہ کر دے کہ جس سے نماز کی صورت بگڑ تی ہو اور بعد والے رکن میں ابھی مشغول نہیں ہو ا ہو تو ان حروف یا کلمات کو معمو ل کے مطابق پڑھ لینا چاہیئے اور اگر بعد والے رکن میں مشغول ہو چکا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۲۰۱۔ رکوع اور سجود میں طو ل دینا ، لمبے سوروں کا پڑھنا موالات کے لئے مضر نہیں ہے۔
قنوت
مسئلہ ۱۲۰۲۔ تمام واجبی اور مستحبی نماز وںمیں دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا مستحب ہے بلکہ واجبی نمازوں میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ قنوت کو ترک نہ کیا جائے البتہ نماز وتر اگر چہ ایک ہی رکعت ہے پھر بھی رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا اس میں بھی مستحب ہے ،نماز جمعہ کہ ہر رکعت میں قنوت ہے نماز آیات میں پانچ اور نماز عید الفطر اور عید قربان کی پہلی رکعت میں پانچ اور دوسری رکعت میں چار قنوت ہیں اور احتیاط یہ ہے کہ نماز عید الفطر اور عید قربان میں قنوت کو ترک نہ کیا جائے ۔
مسئلہ ۱۲۰۳۔قنوت پڑھتے وقت ہاتھوں کو چہرہ کے مقابل اس طرح بلند کرنا مستحب ہے کہ ہتھیلیاں آسمان کی طرف ہو ں اور انگوٹھے کے علاوہ تمام انگلیاں ملی ہوئی ہوں اور نگاہ ہتھیلیوں پر ہو۔
مسئلہ ۱۲۰۴۔ قنوت میں جو بھی ذکر کرے چاہے ایک مرتبہ ’’سبحان اللہ‘‘ ہی کہے کافی ہے بہتر ہے کہ یہ پڑھے ’’ لاالہ الااللہ الحلیم الکریم لا الہ الااللہ العلی العظیم سبحان اللہ رب السموات السبع و رب الارضین السبع وما فیھن وما بینھن و رب العرش العظیم و الحمد للہ رب العالمین‘‘
مسئلہ ۱۲۰۵۔قنوت کا بلند آواز سے پڑھنا مستحب ہے البتہ اگر ماموم کی آواز امام جماعت سن رہا ہو تو زور سے قنوت پڑھنا مستحب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۲۰۶۔ اگر جان بوجھ کر قنوت نہ پڑھے تو اس کی قضا نہیں ہو تی اگر بھولے سے قنوت نہ پڑھے اور پوری طرح رکوع میں جھک جانے سے پہلے یاد آجائے تو کھڑے ہو کر پڑھ لینا مستحب ہے اور اگر رکوع کی حالت میں یا د آئے تو رکوع کے بعد قضا کرنا مستحب ہے اور اگر سجدے میں جانے کے بعد یاد آئے تو پھر سلام کے بعد قضا کرنا مستحب ہے ۔
ترجمہ نماز
سورۂ الحمد کا ترجمہ
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘ یعنی شروع کرتا ہوں اس خدا کے نام سے جو دنیا اور آخرت میں اپنی ظاہر ی اور باطنی نعمتوں کے ساتھ اپنے بندوں کے ساتھ عمل کرتا ہے ۔
’’الحمد للہ رب العالمین‘‘یعنی تعریف مخصوص ہے اس خدا کے لئے جو تمام موجودات کا پالنے والا ہے
’’الرحمن الرحیم‘‘وہ خدا جودنیا اور آخرت میں اپنی ظاہر ی اور باطنی نعمتوں سے اپنے بندوں کے ساتھ عمل کرتا ہے
’’مالک یوم الدین‘‘ یعنی قیامت کے دن کا بادشاہ اور صاحب اختیار ہے
’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘یعنی ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ہمیں سیدھے راستے پر ثا بت قدم رکھ
’’صراط الذین انعمت علیھم ‘‘ یعنی ایسے لو گوں کا راستہ کہ جن پر تو نے احسان کیا ہے وہ انبیاء علیہ السلام اور ان کے جانشین علیہ السلام ہیں
’’غیر المغضوب علیھم ولا الضالین‘‘یعنی نہ ان لوگوں کا راستہ کہ جن پر تو نے غضب کیا ہے اور نہ وہ لوگ جو گمراہ ہیں ۔

سورۂ توحید کا ترجمہ
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ یعنی شروع کرتا ہوں اس خدا کے نام سے جو دنیا اور آخرت میں اپنی ظاہر ی اور باطنی نعمتوں کے ساتھ اپنے بندوں کے ساتھ عمل کرتا ہے ۔
’’قل ھو اللہ احد ‘‘اے محمد ؐ کہہ دو کہ خدا یکتا ہے
’’اللہ الصمد‘‘ یعنی وہ خدا جو تمام موجودات سے بے نیاز ہے
’’لم یلد ولم یو لد ‘‘نہ اس نے کسی کو پیدا کیا نہ اسے کسی نے پیدا کیا
’’و لم یکن لہ کفو اً احد ‘‘یعنی مخلوقات میں اسکا کوئی مثل نہیں ۔
ذکر کرکوع و سجود اور دیگرمستحب اذکار کا ترجمہ
’’سبحان ربی العظیم و بحمدہ‘‘ یعنی میرا پروردگار عظیم پالنے والا ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے اور میں اس کی تعریف میں مشغول ہوں ۔
’’سبحان ربی الاعلیٰ و بحمدہ‘‘یعنی میرا پالنے والا جو ہر ایک سے با لا تر ہے ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے اور میں اس کی تعریف میں مشغول ہوں
’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘یعنی خدا سنتا اور قبول کرتا ہے اس کی حمد و ثنا جو اس کی تعریف کرے ۔
’’استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ‘‘ یعنی میں مغفرت طلب کرتا ہوں اس خدا سے جو میرا پالنے والا ہے اور میں اسکی طرف رجوع کرتا ہوں۔
’’بحول اللہ وقوتہ اقوم و اقعد‘‘ یعنی خدا کی مدد اور قوت سے میں اٹھتا اور بیٹھتا ہوں ۔
ترجمہ قنوت
’’لاالہ الا اللہ الحلیم الکریم ‘‘ یعنی کوئی پرستش کے لائق نہیں ہے سوائے خدائے یکتا کے جو صاحب حلم و کرم ہے۔
’’ لاالہ الا اللہ العلی العظیم‘‘یعنی خدائے بلند مرتبہ اورصاحب بزرگی و عظمت کے علاوہ کوئی خدا بندگی کے لائق نہیں۔
’’سبحان اللہ رب السموات السبع و رب الارضیین السبع ‘‘ یعنی پاک و منزہ ہے وہ خدا جو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا مالک ہے
’’وما فیھن و ما بینھن و رب العرش العظیم ‘‘ہر چیز کا پروردگار ہے جو آسمانوں و زمینوں میں ہے اور اس کے درمیان ہے اور عظیم ترین عرش کا پیداکرنے والا ہے
’’والحمد للہ رب العالمین‘‘تمام حمد و ثنا اللہ کے لئے مخصوص ہے جو تمام موجودات کا پالنے والا ہے
تسبیحات اربعہ کا ترجمہ
’’سبحان اللہ والحمد للہ و لاالہ الا اللہ واللہ اکبر‘‘ یعنی پاک و منز ہ ہے خدائے تعا لیٰ اور حمد و ثنا ء مخصوص ہے اللہ کے لئے اور اللہ کے علاوہ کوئی لائق پرستش نہیں ہے اور خدا ا س سے بزرگ ہے کہ اس کی تعریف ہو سکے ۔
تشہد اور سلام کا ترجمہ
’’الحمد للہ اشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ‘‘ یعنی تعریف مخصوص ہے اللہ تعالیٰ کے لئے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ صرف اللہ ہی لائق عبادت ہے وہ ایسا یگانہ ہے کہ اسکا کوئی شریک نہیں ۔
’’و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ‘‘یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ؐ اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے ہیں
’’اللھم صل علیٰ محمد و آل محمد ‘‘یعنی خدایا رحمت نازل کر محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی ال پاک پر۔
’’و تقبل شفاعتہ و ارفع درجتہ‘‘ یعنی سرکار رسالت کی شفاعت کو قبول اور ان کے درجہ کو بلند فرما
’’السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘یعنی سلام ہو آپ ؐ پر اے نبی اکرم ،اور رحمت و برکات خدا وندی آپ ؐ پر نازل ہو
’’السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین ‘‘ یعنی خدا کا سلام ہم نمازیوں اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر ہو
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘یعنی خدا کا سلام ،رحمت اور برکتیں تم مومنین پر ہوں ۔
تعقیبات نماز
مسئلہ ۱۲۰۷۔نماز کے بعد تھوڑی دیر تعقیب پڑھنا مستحب ہے ۔ تعقیب سے مراد قرآن و دعاؤں وغیرہ کا پڑھنا ہے ، اپنی جگہ سے اٹھنے اور وضو یا غسل یا تیمم کے باطل ہونے سے پہلے قبلہ کی طرف منھ کر کے تعقیب پڑھے یہ بہتر ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ تعقیبات عربی ہی میں ہو البتہ دعاؤں کی کتابوں میں جس طرح لکھا ہوا ہو اس طرح پڑھنا بہتر ہے ، جن تعقیبات کی بہت زیادہ تاکید آئی ہے ان میں تسبیح حضرت فاطمہ زہرا صلوٰۃ اللہ علیھا کا پڑھنا ہے جس کی ترکیب یہ ہے کہ چو نتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ الحمد للہ تینتیس مرتبہ سبحان اللہ ۔ سبحان اللہ کو الحمد للہ سے پہلے بھی کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ الحمد للہ کے بعد سبحان اللہ کہا جائے ۔
مسئلہ ۱۲۰۸۔نماز کے بعد سجدہ شکر کرنا مستحب ہے ، سجدۂ شکر میں صرف پیشانی کا شکر کے ارادہ سے زمین پر رکھ دینا ہی کافی ہے البتہ بہتر ہے کہ دو بار پیشانی کو زمین پر رکھے اور شکراً للہ یا شکراً یا عفواً سو مرتبہ یا تین مرتبہ یا ایک مرتبہ کہے تو بہتر ہے اسی طرح جس وقت بھی کوئی نعمت انسان کو اللہ کی طرف سے ملے یا کوئی مصیبت دور ہو تو سجدہ شکر کرنا مستحب ہے ۔


پیغمبر اکرم ؐ پر درود
مسئلہ۱۲۰۹۔جب بھی انسان سرکار رسالتؐ کا نام یا لقب و کنیت کہے یا سن لے تو چاہے حالت نماز ہی میں کیوں نہ ہو ، درود بھیجنا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۰ا۱۲۔ سرکار رسالت مآب ؐ کا نام لکھتے وقت درود کو بھی لکھ دینا مستحب ہے نیز جس وقت بھی آنحضرت ؐ کو یاد کرے اس وقت درود بھیجنا مستحب ہے۔
مبطلات نماز
مسئلہ۱۲۱۱۔ بارہ چیزیں نماز کو باطل کر دیتی ہیں انکو ’’مبطلات نماز‘‘ کہتے ہیں :
(۱) نماز کی حالت میں نماز کی شرطوں میں سے کوئی شرط ختم ہو جائے
(۲)وضو یا غسل باطل ہو جائے
(۳)دوسرے مسلمانوں کی طرح ہاتھوں کا باندھنا (سنیوں کی طرح)
(۴)سورۂ الحمد کے بعد آمین کہنا
(۵)قبلہ کی طرف پشت کرنا
(۶)کوئی بات کرنا
(۷)ہنسنا
(۸)دنیاوی معاملات کے لئے رونا
(۹)نماز کی شکل کو بگاڑ دینا
(۱۰)کھانا یا پینا
(۱۱) کچھ دوسرے شک
(۱۲)رکن یا غیر رکن کا کم یا زیادہ کرنا اور ان کی تفصیل آگے مسائل میں بیان کی جائے گی ۔
مسئلہ۱۲۱۲۔مبطلات نمازمیں سے پہلی چیز:نماز کی حالت میں نمازکی شرطوں میں سے کوئی ایک شرط ختم ہو جائے مثلا ً حالت نماز میں معلوم ہو جائے کہ یہ جگہ غصبی ہے
مسئلہ۱۲۱۳۔مبطلات نماز میںسے دوسری چیز:نماز کی حالت میں جان بوجھ کر یا بھولے سے یا مجبوری کی وجہ سے کوئی ایسی چیز سر زد ہو جائے جس سے وضو یا غسل باطل ہوجائے مثلاً پیشاب آجائے۔
مسئلہ۱۲۱۴۔اگر کوئی پیشاب و پاخانہ کو نہیں روک سکتا اور اس کو دوران نماز پیشاب و پاخانہ آجائے اور جیسا کہ وضو کے احکام میں مسئلہ نمبر ۳۴۸تا۳۵۴میں بیان کیا گیا ہے عمل کرے تو اس کی نماز باطل نہیں ہو گی نیز اگر نماز کی حالت میںمستحاضہ کو خون آجائے اور اگر اس نے استحاضہ کے طریقہ پر عمل کیا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ۱۲۱۵۔ جسے بے اختیار نیند آگئی ہو اگر یہ معلوم نہ ہو کہ نماز کی حالت میں نیند آئی ہے یا بعد میں تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے اگر وقت گذر گیا ہو تو دوبارہ نماز پڑھنی چاہئیے اوراگر وقت ہو تو احتیاط واجب کی بنا پردو بارہ نماز پڑھنی چاہیئے ۔
مسئلہ۱۲۱۶۔ اگر یہ معلوم ہو کہ اپنے ارادہ واختیار سے سویا ہے اور اس میں شک ہے کہ نیند نماز کے بعد آئی ہے یا نماز میں تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ۱۲۱۷۔ اگر سجدہ کی حالت میں آنکھ کھل جائے اور شک ہو کہ یہ نماز کا آخری سجدہ تھا یا سجدہ شکر تو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے اگر وقت گذر گیا ہو تو دوبارہ نماز پڑھنی چاہئیے اوراگر وقت ہو تو احتیاط واجب کی بنا پردو بارہ نماز پڑھنی چاہیئے ۔
مسئلہ۱۲۱۸۔ مبطلات نمازمیںسے تیسری چیز : حالت نماز میں ہاتھوں کا باندھنا جیسا کہ بعض مسلمان کرتے ہیں اس سے بھی نماز باطل ہو جاتی ہے ۔
مسئلہ۱۲۱۹۔ اگر ادب کے لئے نماز میں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھے اگر چہ کہ ان لوگوں کی طرح نہ کیا ہو نماز دوبارہ پڑھنی چاہئیے لیکن اگر بھولے سے یا مجبوری سے یا کسی اور وجہ سے مثلا ہاتھوں کو کھجلانے کی کے لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ۱۲۲۰۔ مبطلات نمازمیںسے چوتھی چیز:سورہ حمد کے بعد ’’آمین ‘‘کہنے سے بھی نمازباطل ہو جاتی ہے ۔ البتہ بھولے سے یا تقیہ کی وجہ سے ’’آمین ‘‘کہے تو نماز باطل نہیں ہو گی ۔
مسئلہ۱۲۲۱۔ مبطلات نمازمیںسے پانچویں چیز:جان بوجھ کر یا بھولے سے پشت کو قبلہ کی طرف کر لینا یا داہنی یا بائیں طرف مڑ جانا بلکہ جان بوجھ کر اتنا مڑ جائے کہ قبلہ کی طرف منھ کئے ہو ئے نہ کہا جاسکے اگر چہ وہ دائیں یا بائیں طرف تک نہ پہنچ گیا ہو تو اس سے بھی نماز باطل ہو جاتی ہے ۔
مسئلہ۱۲۲۲۔ اگر جان بوجھ کر یا بھول کر سر کو پیچھے کی طرف اتنا پھیر دے کہ پشت کی جانب کو آسانی سے دیکھ سکے تو اس سے نماز باطل ہو جائے گی لیکن اگر سر کو اتنا تھوڑ اسا جان بوجھ کر یا بھول کر موڑ لے تو نماز باطل نہیں ہو گی ۔
مسئلہ۱۲۲۳۔ مبطلات نمازمیںسے چھٹی چیز:جان بوجھ کر ایسا کلمہ زبان پر جاری کر نے سے نماز باطل ہو جاتی ہے جس کے دو یا دو سے زیادہ حرف ہوں اگر چہ اس کا کوئی معنیٰ نہ ہو البتہ بھول کر کہہ دینے سے نماز باطل نہیں ہو تی ہے ۔
مسئلہ۱۲۲۴۔ اگر کوئی ایسای کلمہ زبان پر جاری کرے جو ایک حرفی ہو اور اس کے معنی بھی ہوںمثلاً ’’ ق‘‘جو کہ عربی زبان سے ہے اور جس کے معنی ہیں ’’حفاظت کر ‘‘تو کہنے والا اگر معنی کو جانتا ہے اور اس کے معنی کا ارادہ بھی کیا ہے تو نماز باطل ہے ۔ بلکہ اگر معنی کا ارادہ نہ بھی کرے لیکن معنی کی طرف متوجہ ہو تب بھی احتیاط واجب کی بنا پر نماز دوبارہ پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ۱۲۲۵۔ کھانسی کر نا ، ڈکار لینا ، آہ کھینچنا ، ان چیزوں سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ البتہ آخ یا آہ اس قسم کے ایسے الفاظ کو جو دو حرفی ہوں اگر انہیں جان بوجھ کر ادا کیا ہے تو نماز باطل ہو جائے گی ۔
مسئلہ۱۲۲۶۔ اگر کسی کلمہ کو ذکر کے ارادہ سے کہے مثلا ً’’اللہ اکبر ‘‘ذکر کے ارادہ سے کہے اور کہتے وقت آواز کو بلند کر دے اور اس سے کسی کو کوئی اور بات سمجھانا چاہتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر کسی دوسرے کو سمجھانے کے لئے کہے تو ذکر کا قصدنہ رکھتا ہونماز باطل ہو جاتی ہے ۔
مسئلہ۱۲۲۷۔ نماز میں ان سوروں کے علاوہ جن میں سجدہ واجب ہے ۔ تفصیل کے ساتھ جس کا ذکر مسئلہ۱۱۷۴میں کیا جاچکا ہے نیز نماز میں اللہ کا ذکر اور دعا کر نے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں دعا نہ کرے ۔
مسئلہ۱۲۲۸۔ حمد یا سورہ یا کسی بھی ذکر نماز کو احتیاط کے طور پر چند مرتبہ کہیتو کوئی حرج نہیں ہے اور یہی حکم ہے اس صورت میں جب جان بوجھ کر جزئیت کے قصد کے بغیر کہے لیکن اگر وسواس کی وجہ سے چند مرتبہ کہے تواحتیاط کی بنا پر نماز باطل ہو جائے گی ۔
مسئلہ۱۲۲۹۔ نماز کی حالت میں کسی کو سلام نہیں کر نا چاہئیے اور اگر کوئی دوسرا سلام کر ے تو اجس طرح سے اس نے اسکو سلام کیا ہے اسی طرح اس کو جواب دے مثلاً اگر اسنے ’’سلام علیکم ‘‘کہا ہے تو جواب میں ’’سلام علیکم ‘‘ہی کہے لیکن علیکم السلام کے جواب میں سلام علیکم کہنا بہتر ہے۔
مسئلہ۱۲۳۰۔ سلام کا جواب چاہے نماز کی حالت میں ہو یا نہ ہو فوراً دینا چاہئیے اور اگر جان بوجھ کر یا بھولے سے سلام کے جواب میں اتنی دیر ہو جائے کہ اگر جواب دیتا تو اس کو سلا م کا جواب نہ سمجھا جائے گا تو اگر وہ نماز کی حالت میں ہے تو جواب نہ دینا چاہئیے اور اگر نمازکی حالت میں نہیں ہے تو جواب دینا واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ۱۲۳۱۔ سلام کا جواب اس طرح دینا چاہئیے کہ سلام کر نے والا سن لے اور اگر سلام کر نے والابہرا ہو تو معمول کے مطابق جواب دے دینا کافی ہے ۔
مسئلہ۱۲۳۲۔ واجب نہیں کہ نمازی سلام کا جواب دعا کے قصد سے دے اس طرح کے سلام کر نے والے کے لئے خدا سے اس کی سلامتی کا طلبگار ہو بلکہ صرف تحیت کے پلٹانے کے قصد سے ہو تو کافی ہے ۔
مسئلہ۱۲۳۳۔ عورت یا نامحرم مرد یا سمجھدار بچہ نماز پڑھنے والے پر اگر سلام کرے تو نمازی کو احتیاطاًچاہئیے بلکہ واجب ہے کہ تحیہ کے پلٹانے کے قصد سے سلام کو جواب دے ۔
مسئلہ۱۲۳۴۔ نماز کی حالت میں سلام کا جواب نہ دینے سے انسان گنہ گارہوتا ہے لیکن اس کی نماز صحیح رہتی ہے۔
مسئلہ۱۲۳۵۔ اگر نماز پڑھنے والے پر غلط سلام کرے اس طرح کے اسے عرفا ً سلام کہا جا تا ہومثلاً سلامکی حرکت میں غلطی کر دے توواجب ہے کہ اسکا جواب دیا جائے لیکن اگر عرفا ًا اسکو سلام نہ سمجھا جائے تو اس کا جواب دینا واجب نہیں ہے بلکہ نمازمیں جائز بھی نہیں ہے ۔
مسئلہ۱۲۳۶۔ مسخرہ پن یا شوخی ،مذاق سے سلام کر نے والے کا جواب واجب نہیں ہے اورنمازمیں جائز بھی نہیں ہے ۔
مسئلہ۱۲۳۷۔ اگر ایک جماعت پر سلام کیا جائے تو پوری جماعت پر جواب دینا واجب ہے لیکن اگر ایک بھی جواب دیدے تو کافی ہے ۔
مسئلہ۱۲۳۸۔ اگر کسی نے ایک جماعت پر سلام کیااور ایسے شخص نے جواب دیا جو سلام کر نے والے کا مقصود نہیں تھاتو اس جماعت پر سلام کا جواب پھر بھی واجب ہے ۔
مسئلہ۱۲۳۹۔ اگر کوئی ایک جماعت پر سلام کرے اور ان میں سے کوئی نماز میں مشغول ہواوراسے یہ شک ہوکہ سلام کر نے والے نے مجھ پر بھی سلام کیا ہے یا نہیں تو اسے جواب نہیںدینا چاہئیے ، اسی طرح اگر اسے معلوم ہو جائے کہ سلام کر نے والے نے اس کو بھی سلام کیا ہے لیکن دوسرا جواب دے چکا ہے تو اس پر واجب نہیں ہے۔ البتہ اگر جانتا ہے کہ سلام کر نے والے نے اس پر بھی سلام کیا ہے اور دوسرے نے جواب نہیںدیا ہے تواس پرجواب دینا واجب ہے ۔
مسئلہ۱۲۴۰۔ سلام کر نا مستحب ہے اس کی بہت زیادہ تاکید ہے کہ سوار کو پیدل چلنے والے پر اور جو کھڑا ہے اسے بیٹھے ہوئے لوگوں پر اور چھوٹوں کو بڑوں پر سلام کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ۱۲۴۱۔ اگر دو آدمی ایک دوسرے پر سلام کریں تو بنا بر احتیاط ہر ایک دوسرے کے سلام کا جواب دے۔
مسئلہ۱۲۴۲۔ نماز کے علاوہ سلام کا جواب سلام سے بہتر دینا چاہئیے مثلاً اگر کوئی’’ السلام علیکم ‘‘کہے تو جواب میں ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘‘ کہنا چاہئیے ۔
مسئلہ۱۲۴۳۔ مبطلات نمازمیںسے ساتویں چیز:جان بوجھ کر یا مجبور ہو کر بلند آواز سے ہنسنا بھی نماز کو باطل کر دیتا ہے ، البتہ اگر بھولے سے بلند آواز سے ہنسنے اور نماز کی حالت سے خارج نہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے ،اسی طرح مسکرانے سے نماز باطل نہیںہو تی۔
مسئلہ۱۲۴۴۔ہنسی کی آواز روکنے سے اگر حالت متغیر ہوجائے مثلاً ہنسی روکنے کی وجہ سے چہرہ سرخ ہو جائے بنا بر احتیاط مستحب نماز کو دوبارہ پڑھے لیکن اگر ا سکو یہ کہا جائے کہ نمازی کی شکل باقی نہیں رہی تو نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔
مسئلہ۱۲۴۵۔ مبطلات نمازمیںسے آٹھویں چیز:دنیا کے کاموں کے لئے جان بوجھ کر بلند آواز سے رونے سے نماز باطل ہو جاتی ہے ، احتیاط مستحب ہے کہ دنیا کے کاموں کے لئے بغیر آواز کے بھی نہ روئے ہاں خوف خدا یاآخرت کے لئے رونے میں چاہے آہستہ ہو یا بلند آواز سے ، کوئی اشکال نہیں ہے بلکہ بہترین عمل ہے ۔
مسئلہ۱۲۴۶۔ مبطلات نمازمیںسے نویں چیز:ایسا کام کرنا جس سے نماز کے صورت ختم ہو جائے مثلاً ہوا میں اچھلنا ،تالی بجانا، چاہے کم ہو یا زیادہ جان بوجھ کر ہو یا بھولے سے اس سے بھی نماز باطل ہو جاتی ہے البتہ ایسا جس سے نماز کی صورت خراب نہ ہوتی ہو جیسے ہاتھ سے اشارہ کرنا ، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ۱۲۴۷۔اگر نماز پڑھتے ہوئے اتنی دیر چپ رہ جائے کہ اسے نہ کہا جاسکے کہ یہ نماز پڑھ رہا ہے تو اس کی نماز باطل ہے ۔
مسئلہ۱۲۴۸۔اگر نماز کے درمیان کسی کام کو انجام دے یا تھوڑی دیر خاموش رہے اور شک ہو کہ نماز ٹوٹ گئی ہے یا نہیں تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ۱۲۴۹۔ مبطلات نمازمیںسے دسویں چیز: اگرنماز میں کھانا ، پینااس طرح ہو کہ دیکھنے والا کہے کہ نماز نہیں پڑھ رہا ہے تو اس شخص کی نماز باطل ہے خواہ عمداً کھا رہا ہو یا بھولے سے۔
مسئلہ ۱۲۵۰۔ جو شخص روزہ رکھنا چاہتا ہے اور صبح کی نماز سے پہلے نماز وتر میں مشغول ہو اور پیا سا بھی ہو اور اسے خوف ہو کہ اگر نماز کو تمام کرے گا صبح نمودار ہو جائے گی اور پانی اسکے سامنے دو تین قدم کے فاصلہ پر رکھا ہو تو نماز میں پانی پی سکتا ہے البتہ اس دوران دوسرا کوئی کام انجام نہ دے جو نماز کو باطل کر دیتا ہے مثلاً قبلہ سے منحرف نہ ہو۔
مسئلہ۱۲۵۱۔ نماز کی حالت میں دانتوں میں رہ جانے والی غذا نگل لے تو نماز باطل نہیں ہوتی اور اگر قند یا شکر یا اس قسم کی کوئی چیز منھ میں ہو جو نماز کی حالت میں تھوڑی تھوڑی گھل کر منھ کے اندر پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے
مسئلہ۱۲۵۲۔ مبطلات نمازمیںسے گیارہویں:دو رکعتی یا سہ رکعتی نمازوں رکعتوں کے بارے میں شک ہو نے سے یا چار رکعتی نمازوں میں پہلی اور دوسری رکعت میں شک ہو نے سے نماز باطل ہو جاتی ہے ۔
مسئلہ۱۲۵۳۔ مبطلات نمازمیںسے بارہویں :نماز کے رکن کو جان بوجھ کر یا بھولے سے کم یا زیادہ کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے ، اسی طرح غیر رکن کو جان بوجھ کر کم یا زیادہ کر دینے سے بھی نماز باطل ہو جاتی ہے ۔
مسئلہ۱۲۵۴۔نماز کے بعد اگر شک ہو جائے کہ نماز پڑھنے میں کوئی ایسا کام ، جس سے نماز باطل ہو جاتی ہے انجام دیا ہے نہیں تو نماز صحیح ہے ۔

مکروہات نماز
مسئلہ۱۲۵۵۔نماز میں تھوڑا سا بھی دائیں یا بائیں طرف چہرہ کو موڑنا ، آنکھوں کو بند رکھنا یا پتلیوں کو داہنی یا بائیں طرف پھرانا ، داڑھی اور ہا تھوں سے کھیلنا ، انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسانا ،تھوکنا ، خط قرآن یا خط کتاب یا انگشتر پر نگاہ کرنا یہ سب چیزیں مکروہ ہیں اسی طرح حمد و سورہ پڑھتے وقت یا ذکر کرتے وقت کسی کی بات سننے کے لئے چپ ہو جانا بلکہ ہر وہ کام جو خضوع وخشوع میں رکاوٹ پیدا کرے ا سکاانجام دینا مکروہ ہے ۔
مسئلہ۱۲۵۶۔ جس وقت نیند آرہی ہو، اسی طرح پیشاب یا پاخانہ روک کر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور اسی طرح تنگ موزہ(جوراب) پہن کر بھی نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔


جن جگہوں پر واجب نمازوں کو توڑا جا سکتا ہے
مسئلہ۱۲۵۷ ۔اختیاراً نماز واجب کو نہیں توڑنا چاہیئے البتہ حفاظت مال کے لئے اور جانی نقصان سے محفوظ رہنے کے لئے نماز توڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۲۵۸۔ اگر اپنی جان کی حفاظت یا کسی ایسی جان کی حفاظت جسکی حفاظت واجب ہے یا ایسا مال کہ جس کی حفاظت واجب ہے بغیر نما زتو ڑے ممکن نہ ہو تو نماز توڑ دینا چاہیئے ، البتہ ایسا مال کہ جس کی کوئی اہمیت نہ ہو ، اس کے لئے نماز تو ڑنا مکروہ ہے ۔
مسئلہ ۱۲۵۹۔اگر وقت کافی ہونے کی صورت میں نماز پڑھنے میں مشغول ہو اور قرض خواہ اپنے قرض کا مطالبہ کرے تو اگر نماز کی حالت میں قرض کا ادا کرنا ممکن ہو تو ادا کرنا چاہیئے اور اگر بغیر نماز توڑے قرض ادا کرنا ممکن نہیں ہے تو نما زکو توڑدے اور قرض ادا کرنے کے بعد دوبارہ نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۱۲۶۰۔ اگر نماز کی حالت میں معلوم ہو جائے کہ مسجد نجس ہے تو اگر نماز کا وقت تنگ ہے تب نماز تمام کر لینی چاہیئے اور اگر وقت کافی ہے اور مسجد کو پاک کرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی ہے تو نماز کی حالت میں مسجد کو پاک کرنے کے بعد باقی نماز کو پڑھے اور اگر نماز ٹوٹ جاتی ہے تو اگر نماز کے بعد مسجد کوپاک کرنا ممکن ہو تو نما ز کو توڑنا جائز نہیں ہے لیکن اگر نجاست کا رہنا مسجد کی بے حرمتی کا سبب ہو تو ا س صورت میں اگر نماز کے بعد مسجد کی طہارت ممکن نہ ہو تو نماز کو توڑ کو مسجد کو پاک کرے اس کے بعد نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۱۲۶۱۔جسے نماز توڑ دینا چاہیئے اگر وہ نماز کو نہیں توڑتا تو گنہگار ہے لیکن ا سکی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۲۶۲۔رکوع کی مقدار تک جھکنے سے پہلے یاد آجائے کہ اذان واقامت نہیں کہی ہے اور نما زکا وقت بھی کافی ہے تو اذان و اقامت کہنے کے لئے نما زکو توڑ دینا مستحب ہے ۔
شکیات نماز
مسئلہ ۱۲۶۳۔شکیات نما زتیئیس(۲۳)قسم کے ہیں ، جن میں سے آٹھ (۸) اقسام نماز کو باطل کر دیتی ہیں ، چھ(۶) اقسام کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے اور بقیہ شک کی نو (۹)اقسام صحیح ہیں۔
وہ شک جو نماز کو باطل کر دیتے ہیں
مسئلہ ۱۲۶۴ ۔شک کی آٹھ قسمیں جو نماز کو باطل کر دیتی ہیں ۔
(۱)دو رکعتی واجبی نماز میں اگر رکعتوں کے بارے میں شک ہو جائے تو نماز باطل ہو جاتی ہے مثلا ً قصر کی نمازوں اور صبح کی نماز میں اگر رکعتوں کے بارے میں شک ہو جائے تو نمازباطل ہے۔ البتہ احتیاطی نمازوں اور مستحب نماز میں یہ شک نماز کو باطل کرنے والا نہیں ہے۔
(۲)تین رکعتی نماز میں رکعتوں میں شک کہ وجہ سے نما زباطل ہو جاتی ہے
(۳)چار رکعتی نماز وں میں شک ہو جائے کہ پہلی رکعت ہے یا زیادہ تو نما زباطل ہو جاتی ہے
(۴)چار رکعتی نمازوں میں دوسرا سجدہ مکمل ہونے سے پہلے شک ہو جائے کہ دو رکعت ہے یا زیادہ تو نما زباطل ہو جاتی ہے
(۵)یہ شک ہو جائے کہ دوسری رکعت ہے یا پانچویں یا دوسری یا پانچویں سے زیادہ اس سے بھی نماز باطل ہو جاتی ہے
(۶)یہ شک ہو کہ یہ تیسری یا چھٹی یا چھٹی سے زیادہ تو نماز باطل ہو جاتی ہے
(۷)اگر یہ ہی نہ معلوم ہو کہ کتنی رکعت نماز پڑھی ہے تو اس صورت میں نماز باطل ہو جاتی ہے
(۸)دو سجدے مکمل کرنے سے پہلے اگر یہ شک ہو جائے کہ چوتھی رکعت ہے یا چھٹی یا چوتھی یا چھٹی سے زیادہ تو ا س صورت میں نماز باطل ہو جاتی ہے ، لیکن اگر شک دوسرے سجدہ کے مکمل کرلینے کے بعد ہو تو احتیاط یہ ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نماز کو مکمل کرے اس کے بعد دو سجدہ سہو بجا لائے اور نما زکوبھی دوبارہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۲۶۵۔ اگر انسان کو نماز باطل کر دینے والے شکوک میں سے کوئی شک در پیش ہو جائے تو انسان نماز کو توڑسکتا ہے یا اتنی دیر سونچنا چاہیئے کہ نماز کی صورت خود بخود ختم ہو جائے یا یقین و گمان کے حاصل ہو نے سے نا امید ہو جائے ۔
وہ شک جن پر تو جہ نہیں کرنا چاہیئے
مسئلہ۱۲۶۶۔جن شکوک کا اعتبار نہیں کرنا چاہیئے وہ چھ ہیں
(۱)ایسی چیز میں شک جسکے بجا لانے کا موقع گزر چکا ہے مثلا ً رکوع میں شک ہو کے سورۂ حمد پڑھا یا نہیں۔
(۲)سلام کے بعد شک ہو
(۳)نما زکا وقت ختم ہو نے کے بعد شک ہو
(۴)کثیر الشک یعنی جو زیادہ شک کرتا ہے ا سکے شک کا کوئی اعتبار نہیں
(۵)امام کا رکعتوں کے بارے میں شک کرنا جبکہ ماموم کو یا د ہو ں، اسی طرح ماموم کا رکعتوں کے بارے میں شک جبکہ امام کو یاد ہوں
(۶)مستحبی نمازوں میں شک ہو نا ۔
(۱) ایسی چیزوں کا شک جن کا موقع گذر چکا ہو
مسئلہ ۱۲۶۷۔اگر نما زکی حالت میں کسی واجب فعل کے لئے شک ہو جائے کہ اسے بجا لایا ہے یا نہیں مثلا ً حمد کے پڑھنے نہ پڑھنے میں ایسے وقت شک ہو جائے کہ ابھی اس کے بعد والے کام میں مشغول نہ ہو ا ہو تو جس کے انجام دینے نہ دینے میں شبہ ہو رہا ہے اسے بجا لانا چاہیئے اور اگر اس کے بعد والے فعل میں مشغول ہو چکا ہے تو شک کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۲۶۸۔کسی آیت کے پڑھتے وقت یہ شک ہو کہ پہلی والی آیت کو پڑھا یا نہیں یا آخری آیت پڑھتے وقت یہ شک ہو کہ پہلی آیت پڑھی ہے یا نہیں تواسے اپنے شک کی پرواہ نہیں کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۲۶۹ ۔ رکوع یا سجدوں کے بعد ان کے واجبات میں شک ہو مثلا ً ذکر کے حالت میں بدن کے ساکن ہونے کا شک ہو تب بھی اس کا اعتبار نہیں کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۲۷۰۔سجدہ کے لئے جاتے ہو ئے شک ہو جائے کہ رکوع کیا ہے یا نہیں یا یہ کہ رکوع کے بعد کھڑا ہوا تھا یا نہیں تواس شک کی پرواہ نہ کرے ۔
مسئلہ ۱۲۷۱۔کھڑے ہونے پر اگر سجدہ یا تشھد کے کرنے یا نہ کرنے میں شک ہو تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے مسئلہ ۱۲۷۲۔ بیٹھ کر یا لیٹ کر نما زپڑھنے والے کو حمد یا تسبیحات پڑھتے وقت سجدہ یا تشہد کے بجا لانے میں شک ہو تو اپنے شک کی پرواہ نہیں کرنا چاہیئیاور اگ اس سے پہلے کہ تسبیح یا حمد پڑھنا شروع کرے شک کرے کہ سجدہ یا تشہد بجا لایا ہے یا نہیں تو انہیں بجا لانا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۲۷۳۔اگر یہ شک کرے کہ نماز کے کسی ایک رکن کو انجام دیا ہے یا نہیں اگر اس کے بجا لانے کا موقع گذر چکا ہے تو پھر شک کی پرواہ نہ کرے اور اگر ابھی اس رکن کے بجا لانے کاموقع نہیں گذرا ہے تو اس کو بجا لائے لیکن اگر اس صورت میں بعد میں یاد آئے کہ اس رکن کو انجام دے چکا تھا تو اس کی نماز باطل ہے اس لئے کہ رکن میں اضافہ ہو گیا ہے جو کہ نما زکو باطل کر دیتا ہے۔
مسئلہ ۱۲۷۴۔ اگر کسی ایسے کام کے بجا لانے میں شک ہو کہ جو رکن نہیں ہے اور ا سکے بعد والے فعل میں مشغول ہو چکا ہے تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے لیکن اگر ابھی اسکے بعد والے فعل میں مشغول نہیں ہوا ہے تو اسے بجا لائے اور اگراسکو انجام دینے کے بعد یاد آئے کہ اسے انجام دے چکا تھا تو اسکی نماز صحیح ہے اس لئے کہ رکن میں اضافہ نہیں ہوا ہیاور بنا بر احتیاط واجب دو سجدہ سہو بھی انجام دے
مسئلہ ۱۲۷۵۔اگر شک کرے کہ کسی رکن کو انجام دیاہے یا نہیں اور اسکے بعد والے عمل میں مشغول ہو چکا ہے مثلاتشھد میں شک کرے کہ دو سجدے کئے ہیں یا نہیںتو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے لیکن اگر یاد آجائے کہ اس رکن کو انجام نہیں دیاہے اور بعد والے رکن میںمشغول بھی نہیں ہوا ہے تو اسے بجا لائے اور اگر مشغول ہو گیا ہے تو نماز باطل ہے مثلاً بعد والی رکعت میں رکوع سے پہلے یا دآجائے کہ دونوں سجدے نہیں بجا لایا تب تو بجا لائے لیکن اگر رکوع کی حالت میں یا رکوع کے بعد یاد آئے کہ دونوں سجدوں کو نہیں بجا لا یا تو نما ز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۲۷۶۔ ایسا فعل کہ جو رکن نہیں ہے اس کے بجا لانے کے بارے میں اگر ایسے وقت میں شک ہو جائے جب اس کے بعد والے فعل میں مشغول ہو چکا ہو تو ا س شک کی پرواہ نہیں کرنا چاہیئے مثلاً سورہ پڑھتے وقت حمد کے پڑھنے یا نہ پڑھنے میں شک ہو تو اس شک پر توجہ نہیں دینی چاہیئے اور اگر بعد میں یاد آجائے کہ اس کو انجام نہیں دیا تھا تو اگر بعد والے رکن میں مشغول نہ ہو چکا ہو تو اس کو انجم دے لیکن اگر مشغول ہو چکا تھا تو اسکی نماز صحیح ہے لہٰذا اگر مثلاً قنوت میں یا دآجائے کہ سورۂ حمد نہیں پڑھا ہے تو سورۂ حمد پڑھ لینا چاہیئے اور رکوع میں یا د آئے کے سورۂ حمد نہیں پڑھا شک کی پرواہ نہ کرے اور اسکی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۲۷۷۔سلام پڑھنے نہ پڑھنے یا صحیح ادا کرنے یا نہ کرنے میںکسی دوسری نمازکی تعقیبات یا کسی دوسری نماز میں مشغول ہونے کے بعد شک ہو یا کسی ایسے کام کے بعد کہ جس سے نماز کی حالت ختم ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں شک کی پرواہ نہیں کرنا چاہیئے البتہ اگر اس سے پہلے شک ہو جائے تو سلام پڑھنا چاہیئے ۔
(۲)سلام کے بعد کا شک
مسئلہ ۱۲۷۸۔نماز کے سلام کے بعد نما زکے صحیح ہونے یا نہ ہونے میں شک ہو جائے مثلا ً شک ہو جائے کہ رکوع بجا لایا تھا یا نہیں یا چار رکعتی نماز کے سلام کے بعد شک ہو کہ چار رکعت نماز پڑھی یا پانچ تو شک کا اعتبار نہیں کرنا چاہیئے لیکن اگر شک کے دونوں طرف نماز کو باطل کر دینے والے ہوں مثلاً چار رکعتی نمازکے بعد شک ہو کہ دو رکعت نماز پڑھی یا پانچ رکعت تو نماز باطل ہے ۔
(۳)وقت گذرنے کے بعد شک
مسئلہ ۱۲۷۹۔ نماز کا وقت گذر جانے کے بعد نما زپڑھنے یا نہ پڑھنے کا شک یا گما ن ہو کہ نماز نہیں پڑھی تو نماز پڑھنا ضروری نہیں لیکن اگر وقت کے اندر نما زپرھنے یا نہ پڑھنے میں شک ہو یا نما زنہ پڑھنے کا گما ن ہو تو پڑھ لینی چاہئے اور اگر پڑھ لینے کا گمان ہو تب بھی پڑھ لینی چاہیئے۔
مسئلہ ۱۲۸۰۔نماز کا وقت گذر جانے کے بعد اگر یہ شک ہو کہ نماز کو صحیح طریقہ سے ادا کیا ہے یا نہیں تو ا س شک کی پرواہ نہیں کرنا چاہیئے۔
مسئلہ۱۲۸۱۔ظہرین کا وقت گذر جانے کے بعد اگر یہ معلوم ہو کہ چار رکعت نما زتو پڑھی ہے لیکن یہ یاد نہیں ہے کہ ظہر کی نیت سے پڑھی یا عصر کی نیت سے تو چار رکعت نما زاس نیت سے پڑھے کہ جو نما زمجھ پر واجب ہے پڑھتا ہوں ۔
مسئلہ ۱۲۸۲۔ مغربین کا وقت گذر جانے کے بعد اگر یہ معلوم ہو کہ ایک نما زتو پڑھی ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ تین رکعتی پڑھی یا چار رکعتی تو مغرب و عشاء دونوں کی قضا کرنی چاہیئے ۔

(۴)احکام کثیر الشک
مسئلہ ۱۲۸۳۔ ایک نماز میں تین مرتبہ شک ہو جائے یا تین نمازوں میں پے در پے شک ہوجائے مثلا ً صبح ، ظہر اور عصر تینوں میں شک ہو تو ایسا شخص کثیر الشک کہلا تاہے ، ایسے شخص کو اگر ا سکا شک غصہ یا خوف یا پریشانی کی وجہ سے نہ ہو تو اس شک کی پرواہ نہیں کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۲۸۴۔کثیر الشک کو اگر کسی ایسی چیز کے بجا لانے میں شک ہو جس کے بجا لانے سے نماز باطل نہیں ہوتی ہو تو اسے یہی سمجھنا چاہئیے کہ بجا لا چکا ہے ۔مثلارکوع کے کرنے نہ کر نے میں شک ہو تو اسے یہ سمجھنا چاہئیے کہ کر لیا ہے اور اگر کسی ایسی چیز میں شک ہو جس کے بجا لانے سے نماز باطل ہو جاتی ہو تب اسے یہ سمجھنا چاہئیے کہ بجا نہیں لا یا ہے مثلا یہ شک ہو کہ ایک رکوع بجا لا یا ہے یا زیادہ تو چونکہ رکوع کی زیادتی سے نماز باطل ہو جاتی ہے اس لئے یہ سمجھنا چاہئیے کہ ایک سے زیادہ رکوع بجا نہیں لا یا ہے ۔
مسئلہ۱۲۸۵۔ اگر کوئی ایک ہی چیز کے بارے میں کثیر الشک ہو تو اگر وہ کسی دوسری چیز کے بارے میں شک کرے تو ا س شک کے طریقہ پر عمل کر نا چاہئیے مثلا اگر کوئی سجدہ نہ کر نے میں کثیر الشک ہے اور اس کو ایک مرتبہ رکوع کے بجا لانے میں شک ہو گیاہو تو شک کے طریقہ کے مطابق عمل کر نا چاہئیے یعنی اگر کھڑا ہے تو رکوع بجا لانا چاہئیے اور اگر سجدہ میں جا چکا ہے تو شک کی پرواہ نہیں کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۲۸۶۔ اگر کو ئی شخص مخصوص نماز میں کثیر الشک ہو مثلاً نماز ظہر میں زیادہ شک ہو تا ہو تو ایسے شخص کو اگر کبھی نماز عصر میں شک ہو جائے تو شک کے قاعدہ پر عمل کر نا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۲۸۷۔ اگر کسی شخص کو مخصوص جگہ نماز پڑھنے سے زیادہ شک ہوتا ہو تو اگر اس جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ نماز پڑھ رہا ہو اور شک ہو جائے تو شک کے قاعدہ پر عمل کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۲۸۸۔ اگر کسی کو اپنے کثیر الشک ہو نے میں شک ہو توشک کے قاعدہ پر عمل کر نا چاہئیے اور جب تک کثیر الشک کویہ یقین نہ ہو جائے کہ میری حالت عام لوگوں کی طرح ہو گئی ہے اس وقت تک اپنے شک پر توجہ نہیں کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۲۸۹۔ کثیر الشک کو اگر رکن کے بجا لانے میں شک ہو اور اس کے قاعدہ کے مطابق اس شک کی پرواہ نہ کی لیکن بعد میں یاد آگیا کہ اس نے رکن کو انجام نہیں دیا ہے تو ایسی صورت میں اگر بعد والے رکن میں مشغول نہیں ہو اتو اسے بجالا نا چاہئیے اور اگر بعد والے رکن میں مشغول ہو گیا ہے تو ا سکی نماز باطل ہو جائے گی مثلاً رکوع کے کرنے نہ کرنے کے بارے میں شک کی پرواہ نہیں کی تو اگر سجدہ سے پہلے یا د آگیا کہ رکوع نہیں کیا تب رکوع کر لے اور اگر دوسرے سجدہ میں یا د آیا تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۲۹۰۔کثیر الشک کو اگر کسی ایسی چیز کے بارے میں شک ہو جو رکن نہیں ہے اور وہ ا س شک کی پرواہ نہ کرے لیکن بعد میں یاد آجائے کہ اس فعل کو جو رکن نہیں ہے بجا نہیںلا یا ہے تو اگر موقع گزر گیا ہے تو نماز صحیح ہے مثلا سورہ حمد پڑھنے نہ پڑھنے کے شک کو نا قابل اعتبار سمجھا اور قنوت میں یا دآگیاکہ سورہ حمد نہیں پڑھی ہے تو پڑھ لے اور اگر رکوع میں یا دآیا تو نماز صحیح ہے ۔

(۵)امام اور ماموم کا شک
مسئلہ ۱۲۹۱۔ اگر امام کو رکعتوں میں شک ہو مثلا ًاما م کو شک ہو کہ تین رکعت پڑھی ہے یا چار لیکن ماموم کو یقین ہو کہ چار رکعت پڑھی ہے اور اس نے امام کو سمجھا دیاکہ چار رکعت نمازہو چکی ہے تو اما م کو نماز تمام کر دینی چاہئیے ۔ ایسی صورت میں نماز احتیاط بھی لازم نہیں ہے اسی طرح اگر امام کو یقین ہو اورماموم کو اس کے خلاف شک ہو تو ماموم کو اپنے شک کی پرواہ نہیں کر نی چاہئیے ۔

(۶)مستحبی نماز میں شک
مسئلہ ۱۲۹۲۔ مستحبی نماز کی رکعتوں میں اگر شک ہو جائے تو اگر شک کی زیادہ والی کی طرف نماز کو باطل کر دیتی ہے تو کم والی کو اختیا رکر نا چاہئیے مثلااگر نماز صبح کے نافلہ میں شک ہو کہ دو رکعت پڑھی ہے یا تین تو دو کو اختیار کر نا چاہئیے اور اگر شک کی زیادہ والی طرف نماز کو باطل نہیں کر تی مثلاً شک ہو کہ دو رکعت پڑھی ہے یا ایک تو جس طرف چاہے، اختیار کرے اس کی نماز صحیح اگرچہ اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ بنا کم پر رکھے ۔
مسئلہ ۱۲۹۳۔ نافلہ میں رکن کم ہو جائے تو نماز باطل ہو جا تی ہے لیکن زیادہ ہو جائے تو نماز باطل نہیں ہو تی ۔ پس اگرنافلے کے کسی عمل کو بھول گیا ہے اور ایسے وقت میں یا د آئے کہ جب وہ بعد والے رکن میں مشغول ہو چکا ہو تواسے چاہیئے کہ جس چیز کو بھول گیا ہے اسکی طرف پلٹے اور جس جگہ سے بھولا ہے وہاں سے انجام دے مثلاً رکوع میں یا د آجا ئے کہ سورہ نہیں پڑھا تو پلٹ کر سور ہ پڑھنا چاہئیے اور دوبارہ رکوع بھی کر نا چاہئیے
مسئلہ ۱۲۹۴۔ نماز نافلہ کہ کسی کا م میں چاہے وہ رکن ہو یا غیر رکن اگر موقع گزر جا نے سے پہلے شک ہو جا ئے تو اسے بجا لا نا چاہئیے اور اگر موقع گزرجانے کے بعد شک ہو تواس شک کی پرواہ نہیں کر نی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۲۹۵۔ اگر دورکعتی مستحبی نماز میں گمان ہو جائے کہ اس نے تین رکعت نماز پڑھی ہے یا ا س سے زیادہ اس شک کی پرواہ نہیں کر نی چاہئیے نماز صحیح ہے اور اگر گمان ہو جائے کہ دو رکعتی نماز پڑھی ہے یا اس سے کم تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے اسی گمان پر عمل کر نا چاہئیے مثلا اگر ایک رکعت پڑھنے کا گمان ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک رکعت اور پڑھ لینی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۲۹۶۔ اگر نافلہ نماز میں کوئی ایسا کام کرے جس سے سجدہ سہو واجب ہو جا تا ہو یاایک سجدہ یا تشھد بھول جائے تو نماز کے بعد سجدہ سہو یا تشھد یا سجدہ کی قضا بجا لانا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۲۹۷۔ اگر کسی ایسی مستحب نمازکے پڑھنے نہ پڑھنے میں شک ہو کہ جس کا کوئی معین وقت نہیں ہے جیسے نماز جعفر طیار علیہ السلام ، تو اسے نہ پڑھنے پر بنا رکھنا چاہئیے ،ا سی طرح اگر نافلہ یو میہ کہ جس کے اوقات معین ہیں اور وقت گزرنے سے پہلے شک ہو رہا ہو کہ اسے بجالا یا ہے یا نہیںتو اسے بجا لا نا چاہئیے البتہ اگر وقت گزرنے کے بعد شک ہو تو شک کی پرواہ نہیں کرنی چاہئیے۔

صحیح شک
مسئلہ ۱۲۹۸۔ چار رکعت نمازوں میں نو صورتیں ایسی ہیں کہ اگر ان میں رکعتوں کے بارے میں شک ہو جائے تو نماز باطل نہیں ہو گی بلکہ یہ سونچنا چاہئیے کہ اگر ایک طرف شک ، یا گمان پیدا ہو جائے تو دوسری طرف صحیح سمجھ کر نماز تمام کر نی چاہئیے ۔ ورنہ مندرجہ ذیل تفصیل پر عمل کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۲۹۹۔ اول:دوسرے سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد اگر شک ہو کہ دوسری رکعت ہے یا تیسری تو تیسری سمجھ کر نماز تمام کر نی چاہئیے اور اس کے بعد ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر یا دو رکعت بیٹھ کر اس قاعدہ کے مطابق پڑھے جو بیان کیا جائے گا ۔
مسئلہ۱۳۰۰۔ دوم:دوسرے سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد شک ہو جائے کہ دوسری رکعت ہے یا چوتھی تو چوتھی فرض کر کے نماز تمام کرے ۔ اس کے بعد دو رکعت کھڑے ہو کر نماز احتیاط پڑھے ۔
مسئلہ۱۳۰۱۔ سوم :دوسرے سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد اگر شک ہو کہ دوسری رکعت تیسری یا چوتھی تو چوتھی فرض کر کے نماز کو تمام کر دے اور اس کے بعد پہلے دورکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر اور پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھے ۔
مسئلہ ۱۳۰۲۔چہارم : دوسرے سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد اگر شک ہو کہ چوتھی رکعت ہے یا پانچویں تو چوتھی رکعت فرض کر کے نماز تمام کرے اور بعد میں دو سجدہ سہو بجا لا ئے ۔
مسئلہ ۱۳۰۳۔ اگرذکر کے بعد اور دوسرے سجدہ سے سر اٹھانے سے پہلے ان چار صورتوں میں کوئی شک در پیش ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر اسی طریقہ پر عمل کرے جو بیان کیا جا چکا ہے اور پھر نماز بھی دو بارہ پڑھے اوراگر صرف نماز کو دو بارہ پڑھ لے تو کافی ہے ۔
مسئلہ ۱۳۰۴۔ پنجم:نماز میں کسی جگہ بھی شک ہو کہ تیسری رکعت ہے یا چوتھی تو چار فرض کر کے نماز تمام کرے اور ا سکے بعد ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر یا دورکعت بیٹھ کر پڑھے ۔
مسئلہ ۱۳۰۵۔ ششم :قیام کی حالت میں اگر شک ہو جائے کہ چوتھی رکعت ہے یا پانچویں تو بیٹھ جا نا چاہئیے، تشھد پڑھنے کے بعد سلام پڑھ کر نماز تمام کرے اور بعد میں ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر یا دورکعت بیٹھ کر بجا لا ئے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ بے جا قیام کے بدلے دو سجدہ سہو بجا لا ئے ۔
مسئلہ ۱۳۰۶۔ ہفتم : قیام کی حالت میںتین اور پانچ میںشک ہو تو چاہیئے کہ بیٹھ جائے تشہد وسلام پڑھے اور دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اور احتیاط واجب کی بنا پر دو سجدۂ سہو اضافی قیام کی بنا پر انجام دے۔
مسئلہ ۱۳۰۷۔ہشتم:نماز میں قیام کی حالت میں شک ہو کہ تیسری رکعت ہے یاچوتھی یا پانچویں تو بیٹھ کر تشھد و سلا م پڑھ کر نماز تمام کرے اور اس کے بعد دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے پھر اس کے بعد دو رکعت بیٹھ کراوراحتیاط واجب کی بنا پر قیام بے جا کے بدلے دوسجدہ سہو بھی بجا لا ئے ۔
مسئلہ ۱۳۰۸۔ نہم :قیام کی حالت میں اگر شک ہو جائے کہ پانچویں رکعت ہے یا چھٹی تو بیٹھ کر تشھد و سلا م پڑھنے کے بعد نماز تمام کرے اور دوسجدہ سہو بجا لا ئے اور احتیاط واجب کی بنا پر دو سجدہ سہو بے جا قیام کی وجہ سے اور بھی بجا لا ئے ۔
چند مسائل
مسئلہ ۱۳۰۹۔ صحیح شکوک میں سے اگر کوئی شک انسان کو در پیش ہو تو احتیاط کی بنا پر نماز نہیں تو ڑنا چاہیئے لیکن اگر اس نے نما زتوڑ دیا اور دوبارہ نماز میں مشغول ہو گیا تو دوسری والی نما زصحیح ہے۔
مسئلہ ۱۳۱۰۔ جن شکیات کے لئے نماز احتیاط واجب ہوتی ہے ان میں سے اگر کوئی شک در پیش ہو اور انسان نماز تمام کر کے بغیر نماز احتیاط پڑھے اس نماز کو دوبارہ پڑھے تو پس اگر کسی ایسے کام سے پہلے جو نماز کو باطل کر دیتا ہے دوبارہ نماز پڑھی تو احتیاط مستحب کی بنا پردوسری نماز بھی باطل ہے اور اگر نما ز کو باطل کر دینے والے کام کو انجام دینے کے بعد نماز پڑھی تو دوسری نماز صحیح ہے لیکن اسکی پہلی والی نماز دونوں صورتوں میں باطل ہے۔
مسئلہ ۱۳۱۱۔صحیح شکوک میں سے کوئی شک جس وقت انسان کو در پیش ہو فوراً سونچنا چاہیئے لیکن اگر اسے معلوم ہو کہ تھوڑی دیر میں کسی چیز کو نہیں بھول سکتا تو وہ بعد میں اس کے بارے میں فکر کر سکتا ہے مثلاً سجدہ میں شک ہو جائے تو سجدہ کے بعد سونچ سکتا ہے۔
مسئلہ ۱۳۱۲۔ اگر شروع میں گمان کسی ایک طر ف ہو ا سکے بعد دونوں طرف برابر ہو جائے تو شک کے قاعدہ پر عمل کرنا چاہیئے اور اگر شروع میں دونوں طرف برابر ہو ں اور حکم شک پر عمل کرے اور بعد میں گمان دوسری طرف کے لئے قائم ہو گیا تو اسی طرف کو اختیا ر کر کے نماز تمام کرنی چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۳۱۳۔ جو شخص یہ طے نہ کر سکے کہ اسکا گمان کسی ایک طر ف زیادہ ہے یا دونوں طرف برابر ہے تو ایسے شخص کو شک کے قاعدہ پر عمل کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۳۱۴۔ اگر نما زکے بعد معلوم ہو کہ نماز پڑھتے وقت متردد تھا مثلا دو رکعت پڑھی یا تین اور تین پر بنا رکھی ہو لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس کاگمان تین رکعت پڑھ لینے کی طرف تھا یا اس کی نظر میں دونوں طرف برابر تھیں توپرواہ کرنا ضروری نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ نما زاحتیاط پڑھ لے۔
مسئلہ ۱۳۱۵۔ تشہد پڑھتے وقت یا کھڑے ہونے کے بعد شک ہو کہ دونوں سجدوں کو بجا لایا ہے یا نہیں اور اسی موقع پر کوئی ایسا شک در پیش ہو جائے کہ جو دونوں سجدوں کے بعد ہوتا ہے ا مثلاً شک ہو کہ دو رکعت نماز پڑھی ہے یا تین تو شک کے طریقہ پر عمل کرنا چاہیئے اور اس کی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۳۱۶۔تشہد سے پہلے یا ایسی رکعتوں میںجن میں تشہد نہیں کھڑے ہونے سے پہلے شک ہو کہ دونوں سجدے بجا لا یا ہے یا نہیں اور اسی موقع پر ایسا شک بھی در پیش ہوجائے کہ اگر وہ شک دونوں سجدوں کے بعد ہو تا تو نماز صحیح ہو تی تو ایسی صورت میں نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۳۱۷۔قیام کی حالت میں شک ہو جائے کہ وہ رکعت تیسری ہے یا چوتھی ، یا تیسری ہے یا چوتھی یا پانچویں اور یاد آجائے کہ پہلی رکعت میں دونوں سجددے نہیں بجا لایا ہے تو نما ز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۳۱۸۔ اگر شک ختم ہو نے کے بعد دوسرا شک پیش آجائے مثلا ً پہلے شک ہو کہ دو رکعت پڑھی تھی یا تین، پھر دوبارہ شک ہو جائے کہ تین رکعت پڑھی یا چار رکعت پڑھی توحکم شک کے مطابق عمل کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۳۱۹۔نماز کے بعد اگر شک ہو جائے کہ نما زکی حالت میں شک ہو اتھا کہ دوسری رکعت ہے یا چوتھی رکعت یا تیسری ہے یا چوتھی تو واجب ہے کہ دونوں شکوں کے مطابق عمل کرے اور بنا بر احتیاط مستحب نماز بھی دوبارہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۳۲۰۔اگر نما زکے بعد یاد آجائے کہ نماز کی حالت میں کوئی شک ہوا تھا لیکن یہ معلوم نہ ہو کہ وہ شک باطل شک میں سے تھا یا صحیح شک میں سے اور اگر صحیح شک میں سے تھا تو کون سی قسم تھی تو چاہیئے کہ نماز دو بارہ پڑھے۔
مسئلہ ۱۳۲۱۔ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو اگر ایسا شک ہو جائے کہ جس کے لئے ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر یا دو رکعت بیٹھ کر پڑھنی چاہیئے تو اسے ایک رکعت نمازاحتیاط بیٹھ کر پڑھنی چاہیئے اور اگر ایسا شک ہو جائے کہ جس کے لئے دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر بجا لانا چاہیئے تو دو رکعت بیٹھ کر پڑھ لینا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۳۲۲۔کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والا نماز احتیاط پڑھتے ہوئے اگر کھڑے ہو نے سے عاجز ہو جائے تو اسے بیٹھ کر نما زاحتیاط پڑھنے والے کی طرح نماز احتیاط بجا لانا چاہیئے جس کا حکم سابقہ مسئلہ میں گذر چکا ہے ۔
مسئلہ ۱۳۲۳۔بیٹھ کر نما زپڑھنے والا اگر نما زاحتیاط پڑھتے ہوئے اپنے کھڑے ہونے کی صلاحیت پاتا تو کھڑے ہو کر اس طرح سے نمازپڑھنی چاہیئے جیسے دوسرے لوگ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں ۔

نماز احتیاط
مسئلہ۱۳۲۴۔ جس پر نماز احتیاط واجب ہو ا سکو نما زکے سلام کے بعد فوراًنماز احتیاط کی نیت کر کے اور تکبیر کہہ کر سورۂ حمد پڑھنا چاہیئے ، اس کے بعد رکوع اور دونوں سجدے بجا لائے پس اگر ایک رکعت نما زاس پر واجب تھی تو تشہد و سلام پڑھ کر نما زتمام کرے اور اگر دو رکعت نماز واجب تھی تو دونوں سجدوں کے بعد پہلی رکعت کے طریقہ سے ایک رکعت اور پڑھے اور تشہد کے بعد سلام پڑھے ۔
مسئلہ ۱۳۲۵۔نماز احتیاط میں سورہ و قنوت نہیں ہے اس نما زکو آہستہ پڑھنا چاہیئے اور نہ ہی نیت کو زبان پر جاری کرنا چاہیئے بلکہ احتیاط واجب کی بنا بر بسم اللہ بھی آہستہ کہے ۔
مسئلہ ۱۳۲۶۔ نما ز احتیاط پڑھنے سے پہلے اگر یا د آجائے کہ نما زصحیح ہے تو نماز احتیاط کا پڑھنا ضروری نہیں ہے اور اگر نماز احتیاط پڑھتے ہوئے یاد آجائے تو مکمل کرنا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۳۲۷۔ نماز احتیاط پڑھنے سے پہلے اگر یاد آجائے کہ اسکی نما زکم ہوئی ہے اور ابھی کوئی ایسا کام بھی انجام نہیں دیا جس سے نما زباطل ہو جاتی ہے تو نما زمیں جتنی کمی رہ گئی ہے اسکو پورا کرے اور سلام بے جا کی وجہ سے دو سجدۂ سہو کرے ،اور اگر اس وقت میں یاد آئے جب وہ کوئی ایسا کام کر چکا ہے جس سے نما زباطل ہو تی ہے مثلا ً قبلہ کی طرف پشت کر چکا ہو تو دوبارہ نما زپڑھے۔
مسئلہ ۱۳۲۸۔ اگر نماز احتیاط پڑھ لینے کے بعد معلوم ہو جائے کہ نماز کی کمی اتنی ہی تھی جتنی نماز احتیاط پڑھی گئی تو نماز صحیح ہے مثلا اس شک کی بنا پر کہ تیسری رکعت تھی یا چوتھی ایک رکعت نماز پڑھے اور نماز کے بعد یا د آجائیکہ میں نے اصل نماز تین رکعت ہی پڑھی تھی تو نماز صحیح رہے گی ۔
مسئلہ ۱۳۲۹۔ نماز احتیاط پڑھ لینے کے بعداگر معلوم ہو جائے کہ نماز کی کمی نماز احتیاط سے کم تھی مثلا دوسری اور چوتھی میں شک ہو ا تھا اور اس نے دو رکعت نماز احتیاط پڑھی تھی بعد میں یاد آگیا کہ نماز تین رکعت پڑھی تھی تو اسے دو بارہ نماز پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۳۰۔ا گر نماز احتیاط پڑھ لینے کے بعد معلوم ہو جائے کہ نماز کی کمی نماز احتیاط سے زیادہ تھی مثلا تین اور چار میں شک ہو اتھااس لئے اس نے ایک رکعت نماز احتیاط پڑھی ، بعد میں معلوم ہو کہ اصل نماز تو دو ہی رکعت پڑھی تھی تو ایسی صورت میں اگر نماز احتیاط کے بعد اس نے کوئی ایسا کام کیا ہے جس سے نماز باطل ہو جاتی ہے مثلا قبلہ کی طرف پشت کر لی تھی تو نماز دوبارہ پڑھنے چاہئیے اور اگر کوئی ایسا کام انجام نہیں دیا تو نماز کو کامل کرے اور زیا دتی کے لئے سجدۂ سہوکرے اور احتیاط مستحب کی بناپر دوبارہ نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۱۳۳۱۔ اگر دو، تین اور چار کو شک ہو اور دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھنے کے بعد یا د آئے کہ نماز دو ہی رکعت پڑھی تھی تو ضروری نہیں ہے کہ وہ دو رکعت نماز احتیاط بیٹھ کر پڑھے ۔
مسئلہ ۱۳۳۲۔ اگر تین اور چار کا شک ہو اور دو رکعت نماز احتیاط بیٹھ کر پڑھتے وقت یا ایک رکعت کھڑے ہو کر پڑھتے وقت یا دآجائے کہ نماز تین رکعت پڑھی ہے تو نماز احتیاط کو مکمل کر لے، نماز صحیح ہو گی ۔
مسئلہ ۱۳۳۳۔ اگر دو ، تین چار کا شک ہو اور جس وقت وہ دو رکعت نمازاحتیاط کھڑ اہو کرپڑھ رہا ہواور دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے یا د آجائے کہ نماز کو تین ہی رکعت پڑھی ہے تو اسے وہیں بیٹھ جا نا چاہئیے اور ایک رکعت نماز احتیاط پڑھنی چاہئیے یہی کا فی ہے ۔
مسئلہ ۱۳۳۴۔ نماز احتیاط پڑھتے وقت معلوم ہو جائے کہ نماز کی کمی نماز احتیاط سے کم یا زیادہ تھی اور ممکن نہ ہو کہ نماز احتیاط کو اس کمی کے مطابق پو را کرے تو نماز احتیاط کو چھوڑ دے اور دو بارہ نماز پڑھے اور احتیاط مستحب کی بنا پر اس نماز کو توڑنے کے لئے کوئی ایسا کام کرے جس سے نماز باطل ہو جائے مثلا منھ قبلہ سے پھیر لے اور نماز کو دوبارہ پڑھے ۔ اور تین اور چار کے شک میں جس وقت کے دو رکعت نماز احتیاط پڑھ رہاتھااس کی آخر ی رکعت میںرکوع کے بعد یا د آجائے کہ نماز دو ہی رکعت پڑھی ہے تونماز احتیاط کو چھوڑ دے اور نماز کو تمام کر دے ۔
مسئلہ ۱۳۳۵۔ اگر یہ شک ہو جائے کہ مجھ پرجو نماز احتیاط واجب تھی اسے پڑھ لیا ہے یا نہیں اگر وقت گزر چکا ہے تو شک کی پرواہ نہیںکر نی چاہئیے اور اگر وقت باقی ہے اور کسی دوسرے فعل میں مشغول نہیں ہو ا ہے اور نماز کی جگہ سے بھی ابھی نہیں اٹھا ہے نیز نماز کو باطل کر نے والا فعل بھی بجا نہیں لا یا ہے مثلا قبلہ سے منھ نہیں پھیرا تونماز احتیاط پڑھ لینی چاہئیے لیکن اگر نماز کو باطل کر نے والا کوئی فعل بجا لا یاہو یا نماز اور شک میںکافی مدت گزر چکی ہو تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔
مسئلہ ۱۳۳۶۔ اگر نماز احتیاط میں کسی رکن کا اضافہ ہو جائے یا مثلا ایک رکعت کے بجا ئے دو رکعت پڑھ لے تو نماز احتیاط باطل ہو جاتی ہے اور اصلی نماز دو بارہ پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۳۷۔ نماز احتیاط پڑھتے وقت اگر کسی فعل میں شک ہواگر اس کاموقع نہ گزرا ہوتو اسے بجا لا نا چاہئیے اور اگر اس کا موقع گزر چکا ہے تو شک کی پرواہ نہیں کر نی چاہئیے مثلاً سورہ حمد کے پڑھنے نہ پڑھنے میں شک ہو اور ابھی رکوع میںنہیں گیا ہے تو پڑھ لینا چاہئیے اور اگر رکوع میں مشغول ہو گیا ہے تو پھر اس شک کی پرواہ نہیں کر نی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۳۸۔ اگر نماز احتیاط کی رکعتوں کی تعداد میں شک کرے اوراگر زیادتی کی طرف کرے شک تو نماز باطل ہو جائے گی تو کم پر بنا رکھے اور اگر زیادتی پر بنا رکھنا باطل کر دینے کا سبب نہ ہو تو زیادہ پر بنا رکھے مثلا دو رکعت نماز احتیاط پڑھتے وقت شک کرے کہ دو رکعت نماز پڑھی ہے یا تین رکعت تو دو پر بنا رکھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اصل نمازکو دوبارہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۳۳۹۔ نماز احتیاط میں غیر رکن کی بھولنے سے کمی یا زیادتی سے احتیاط مستحب کی بنا پر دو سجدہ سہو بجا لا نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۴۰۔ نماز احتیاطکے سلام پڑھنے کے بعد اگر کسی جز یا شرط کے بارے میں شک ہو جائیکہ اس کو بجا لا یا ہے یا نہیںتو اس شک کی پرواہ نہیں کر نی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۴۱۔ نماز احتیاط میں ایک سجدہ یا تشہد بھول جائے تو احتیاط واجب کی بناپر سلام نماز کے بعد اس کی قضا پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۴۲۔ اگر کسی پر نماز احتیاط یا ایک سجدہ یا تشھد کی قضا یا دو سجدئہ سہو واجب ہو ں تو پہلے نماز احتیاط پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۴۳۔ رکعتوں کے بارے میں گمان ،یقین کا حکم رکھتا ہے لیکن جو گمان نماز کے باطل ہو نے کا سبب بنے وہ یقین کا حکم نہیں رکھتا۔ البتہ افعال نماز میں گمان کو اگر چہ یقین کے ساتھ ملحق کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود احتیاط مستحب کی بناپر گمان کی پرواہ کر نے کے بعد اپنے عمل کو پورا کرے اور اصل نماز کو دو بارہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۳۴۴۔ شک میں بھول اور گمان کا حکم نماز یومیہ اور دوسری واجب نمازوں میں ایک ہی ہے مثلاً اگر نماز آیات میں شک ہو جائے کہ ایک رکعت نماز پڑھی ہے یا دورکعت تو چونکہ شک دو رکعتی نماز میں ہو رہا ہے اس لئے نماز باطل ہے ۔
سجدہ سہو
مسئلہ ۱۳۴۵۔ نماز کے سلا م کے بعد پانچ چیزوں کے لئے بیان کئے جا نے والے قاعدہ کے مطابق دو سجدہ سہو ادا کر نا چاہئیے ۔
(۱)نماز کی حالت میں بھولے سے گفتگو کر نا
(۲)جہاں نماز کا سلا م نہیں کہنا تھا وہاں سلا م کہنا مثلا بھول کر پہلی رکعت میں سلام کہہ دینا
(۳)ایک سجدہ بھول جا نا ۔
(۴)تشھد بھول جا نا ۔
(۵)چار رکعتی نماز میں دوسرے سجدہ کے بعد شک ہو کہ یہ چوتھی رکعت ہے یا پا نچویں ۔
مسئلہ ۱۳۴۶۔ جہاں کھڑا ہو نا تھا وہاں بیٹھ جائے مثلا سور ۂ حمد اور دوسرے سورہ پڑھنے کی جگہ بھول کر بیٹھ جائے یا جہاں بیٹھنا چاہئیے تھا وہاں کھڑا ہو جائے جیسے تشھد پڑھنے کے موقع پر کھڑا ہو جائے ۔ احتیاط واجب کی بنا پر دوسجدہ سہو بجا لائے بلکہ نماز میں ہر کمی یا زیادتی کی وجہ سے احتیاط واجب کی بنا پر دو سجدہ سہو بجا لا نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۴۷۔ اگر انسان بھولے سے اس خیال سے کہ نماز تمام ہو گئی ہے گفتگو کرے تو دو سجدہ سہو کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۴۸۔ ٹھنڈی سانس کھینچنے یا کھانسنے سے جو حرف پیدا ہو تا ہے اس کے لئے سجدہ سہو واجب نہیں ہے البتہ اگر بھولے سے یا آہ یا آخ کہے تو سجدہ سہو کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۴۹۔ غلط چیزوں کو دوبارہ صحیح پڑھنے کی وجہ سے سجدہ سہو واجب نہیں ہو تا ۔
مسئلہ ۱۳۵۰۔ بھولے سے اگر نماز میں کافی دیر تک بات کر تا رہے اور وہ ایک ہی مرتبہ شمار ہو تو نماز کے بعد دو سجدہ سہو کر لینا کافی ہیں ۔
مسئلہ ۱۳۵۱۔ اگر بھولے سے تسبیحا ت اربعہ تین مرتبہ سے زیادہ کہہ لے تو ضروری نہیں ہے کہ سجدہ سہو بجا لا ئے ۔
مسئلہ ۱۳۵۲۔ جہا ں پر سلام نہیں کر نا چاہئیے اگر بھولے سے سلام کہہ دے یعنی ’’السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین‘‘ یا’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ‘‘کہے تو دو سجدہ سہوکرے لیکن اگر بھولے سے ان دونوں سلاموں کا تھوڑا سا حصہ کہے یا ’’السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ کہے تو سجدہ سہو بجا لا ناصرف احتیاط واجب کی بنا پرہے ۔
مسئلہ ۱۳۵۳۔ بھولے سے جہاں پر سلام نہیں کہنا چاہئیے وہاں پرتینوں سلام کہہ لے تو دو سجدہ سہو کافی ہے ۔
مسئلہ ۱۳۵۴۔ اگر ایک سجدہ یا تشھد کو بھول جائے اور بعد والی رکعت کے رکوع سے پہلے یا دآجائے تو سجدہ یا تشہد کو پلٹ کر بجا لانا چاہیئے اور نماز کے بعد احتیاطاً بے جا قیام کی وجہ سے دو سجدۂ سہو بجا لائے ۔
مسئلہ ۱۳۵۵۔اگر رکوع کی حالت میں یا رکوع کے بعد یاد آئے کہ ایک سجدہ یا تشہد پہلی رکعت کا بھول گیا ہے تو نماز ختم کر نے کے بعد سجدہ یا تشہد کی قضا کرے اور اس کے بعد دو سجدۂ سہو بجا لائے ۔
مسئلہ ۱۳۵۶۔نماز ختم کر نے کے بعد اگر جان بوجھ کر سجدۂ سہو بجا نہ لائے تو گنہگار ہے اور جتنی جلدی ہو اس کو بجا لا نا واجب ہے البتہ اگر بھولے سے نہیں بجا لا سکا تو جس وقت بھی یاد آجائے فوراً بجا لانا چاہیئے ،نماز کا دو بارہ پڑھنا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۳۵۷۔ اگر شک ہو کہ سجدۂ سہو واجب ہوا یا نہیں تو اس کا بجا لانا واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۳۵۸۔اگر کسی کو شک ہو کہ اس پر دو سجدۂ سہو واجب ہیں یا زیادہ اور وہ دو سجدۂ سہو بجا لائے تو کا فی ہے ۔
مسئلہ ۱۳۵۹۔اگر یہ معلوم ہو جائے کہ دونوں سجدۂ سہو میں سے کسی ایک کو نہیں بجا لایا تو اسے دو سجدۂ سہو اور بجا لا نا چاہیئے اور اگر معلوم ہو جائے کہ بھولے سے تین سجدے کر لئے ہیں تو دوبارہ دو سجدۂ سہو بجا لانا ضروری ہے ۔
مسئلہ ۱۳۶۰۔اگر شک کر ے کہ ایک سجدہ سہو کیا ہے یا دو یا شک کرے کے دو سجدۂ سہو کئے ہیں یا تین اور ابھی تک تشہد کو پڑھنا شروع نہ کیا ہو تو کم تر پر بنا رکھے۔

سجدۂ سہو کا طریقہ
مسئلہ۱۳۶۱۔سجدۂ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ نماز کے فو راً بعد سجدۂ سہو کی نیت کرے اور پیشانی کو ایسی چیز پر رکھے کہ جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے اور یہ پڑھے ’’بسم اللہ و باللہ و صلی اللہ علی محمد وآلہ ‘‘ یا یہ پڑھے ’’بسم اللہ و باللہ اللھم صل علیٰ محمد و آل محمد‘‘ البتہ یہ پڑھنا بہتر ’’بسم اللہ و باللہ السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘اس کے بعد بیٹھ جائے بھر دوسرا سجدہ کرے اور لکھے گئے تینوں اذکا ر میںسے کوئی ایک ذکر پڑھے ، اس کے بعد بیٹھا جائے اور تشہد و سلام پڑھ کر نماز تمام کرے۔
بھولے ہو ئے سجدہ اور تشہد کی قضا
مسئلہ ۱۳۶۲۔ بھولا ہوا سجدہ یا تشہد جس کی قضا ، نماز کے بعد کی جاتی ہے اس میں شرائط نماز مثلاً لباس و بدن کا پاک ہو نا ، رخ قبلہ کی جانب ہو نا وغیرہ کی پابندی لازمی ہے ۔
مسئلہ ۱۳۶۳۔ اگر سجدہ یا تشہد کو چند مرتبہ بھول جائے مثلا ً پہلی رکعت میں ایک سجدہ اور دوسری رکعت میں بھی ایک سجدہ بھول جائے تو نما زکے بعددونوں سجدوں کی قضا مع سجدۂ سہو کے بجا لانا چاہیئے ۔ البتہ ضروری نہیں ہے کہ معین کرے کہ یہ سجدہ کو ن سی رکعت کا ہے اور اگر ایک سجدہ پہلی رکعت سے اور ایک سجدہ آخری رکعت سے بھولا جائے یا دو تشہد فراموش کر دے تو بنا براحتیاط واجب پہلے آخری سجدہ اور اس کے بعد احتیاط مستحب کی بنا پر تشہد و سلام بجا لائے اور پھر پہلے سجدے کی قضا بجا لائے ، اسی طرح واجب ہے کہ وہ آخری تشہد کہ جسکو وہ بھولا ہے اور سلام کو احتیاط مستحب کی بنا پر بجا لائے اور پھر پہلے تشہد کی قضا کرے ، یہ سب اس صورت میں ہے جب عمداً یا بھول کر کو ئی ایسا کام نہ کر چکا ہو جس سے نماز باطل ہو جاتی ہے اور اگر کوئی فعل مبطل نما زبجا لا یا ہو تو اصل نما زکا اعادہ کرے ۔
مسئلہ ۱۳۶۴۔ اگر ایک سجدہ اور تشہد بھول جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر جس کو پہلے بھولا ہے اس کی قضا بھی پہلے کرے اور یہ نہ جانتا ہوکہ پہلے سجدہ بھولا تھا یا تشہد تو احتیاطاً ایک سجدہ اور تشہد بجا لائے ، اس کے بعد دوسرا سجدہ بجا لائے یا ایک تشہد اور ایک سجدہ اور اس کے بعد ایک دوسرا تشہد اور بجالائے تاکہ یہ یقین ہو جائے کہ سجدہ و تشہد جس ترتیب سے بھی بھولا ہے اس کے مطابق ادا کر لیا ہے ۔
مسئلہ ۱۳۶۵۔ یہ خیال کرتے ہو ئے کہ پہلے سجدہ بھولا ہے اس نے سجدہ کی قضا کی اور اس کے بعد تشہد کی جب تشہد پڑھ چکا تو یا د آیا کہ تشہد پہلے بھولا تھا اور سجدہ بعد میں تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے دوبارہ سجدہ کی قضا کرنی چاہیئے، اسی طرح اگر یہ سمجھتے ہوئے کہ پہلے تشہد بھولا تھا تشہد کی قضا پہلے کی اور سجدہ کی قضا کے بعد یاد آیا کہ پہلے سجدہ بھولا تھا تو احتیاط واجب کی بنا پر دوبارہ تشہد کی قضا کرنی چاہیئے۔
مسئلہ ۱۳۶۶۔ اگر سلام نماز اور سجدہ کی قضا یا تشہد کی قضا کے درمیان کو ئی ایسا کام کرے کہ اگر وہ جان بوجھ کر یا بھولے سے نماز میں ہو تو اس سے نما زباطل ہو جاتی ہے جیسے قبلہ سے منحرف ہو جانا تو احتیاط یہ ہے کہ سجدہ اور تشہد کی قضا کے بعد نماز کو دوبارہ پڑھے اور یہ اس صورت میں ہے جبکہ بھولا ہو ا سجدہ یا تشہدآخری رکعت کا نہ ہو اور اگر آخری رکعت کا ہو تو اقویٰ یہ ہے کہ اصل نما زکو دوبارہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۳۶۷۔ اگر سلام کہنے کے بعد یا د آجائے کہ آخری رکعت کے ایک سجدہ کو بھول گیا ہے اور جان بوجھ کر یا بھول کر کوئی ایسا کام بھی نہ کیا ہو جو نما زکو توڑ دیتا ہے جیسے قبلہ سے منحرف ہو جانا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اپنے فریضہ کو انجام دینے کے قصد سے اسکو انجام دے ،اور اسی طرح اس کے بعد تشہد اور سلام اور بعد میں دو سجدہ سہو کو بجا لائے اور آخری رکعت کے تشہد کو بھول جانے کا بھی یہی حکم ہے ،اگر چہ ان دونوں موارد میںبعید نہیں ہے کہ تشہد ،سلام اور دو سجدۂ سہو کافی ہو۔
مسئلہ ۱۳۶۸۔ اگر سلام نماز اور سجدہ یا تشھد کی قضا کے درمیان کہ جو پہلی رکعت کا چھوٹ گیا تھا کوئی ایسا کام کرے جس سے سجدہ سہو واجب ہو جا تا ہو جیسے بھولے سے بات کر لے تو سجدہ یا تشھد کی قضاکرے اور اس سجدے کہ جو تشھد یا سجدے کی قضاکے لئے ضرروی تھا دوسرا سجدہ ضرروی نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۳۶۹۔ اگر یہ نہ معلوم ہو کہ سجدہ بھولا ہے یا تشھد دو نو ں کی قضا کر نی چاہئیے اور ان دونوں میں سے جس کو چاہے پہلے بجا لائے ۔
مسئلہ ۱۳۷۰۔ اگر سجدہ یا تشھد کے بھولنے میں شک ہو تو قضا واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۳۷۱۔ اگر یہ معلوم ہو کہ سجدہ یا تشھد بھول گیا ہے لیکن اس میں شک ہو کہ اس کے بعد والی رکعت کے رکوع سے پہلے اس کو بجا لا یا تھا یا نہیں تو احتیاط مستحب یہ ہے کہااس کی قضا کرے ۔
مسئلہ ۱۳۷۲۔ جس کو سجدہ یا تشھد کی قضا کر نا چاہئیے اگر اس پر کسی اور وجہ سے بھی سجدہ سہو واجب ہو تو نماز کے بعد پہلے سجدہ یا تشھد کی قضا کرے اس کے بعد سجدہ سہو بجا لا ئے ۔
مسئلہ ۱۳۷۳۔ اگر شک ہو کہ نماز کے بعد بھولے ہوئے سجدہ یا تشھدکی قضا کر لی ہے یا نہیں تو اگر نماز کا وقت باقی ہے تو سجدہ یا تشھد کی قضا کر لینی چاہئیے اور اگر وقت نماز گزر گیا ہو تو سجدہ یا تشھد کی قضا کر ناضروری نہیںہے ۔
اجزاء و شرائط نماز کا کم یا زیادہ کر نا
مسئلہ۱۳۷۴۔ واجبا ت نماز میں سے کسی چیز کے عمدا ًکم یا زیادہ کر نے سے نماز باطل ہو جاتی ہے چاہے وہ چیز ایک حرف ہی کیوں نہ ہو ۔
مسئلہ ۱۳۷۵۔ مسئلہ سے نا واقف ہو نے کی وجہ سے اجزاء نماز میں سے کسی چیز کو کم یا زیادہ کر ے تو احتیاط کی بنا پر اسکی نماز باطل ہے لیکن اگر مسئلہ سے نا واقف ہو نے کی وجہ سے صبح ، مغرب اور عشاء کی حمد اور سورہ کو آہستہ پڑھ لے یا ظہر اور عصر کی نماز میں حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھے یا مسافرت میں ظہر ، عصر اور عشاء کی چار رکعت پڑھ لے تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۳۷۶۔ اگر نماز پڑھتے وقت معلوم ہو جائے کہ اس کا وضو یا غسل باطل ہے یا یہ معلوم ہو جائے کہ بلا وضویا غسل کے نمازپڑھ لی ہے تو نماز توڑ دینی چاہئیے اور دوبارہ وضویا غسل کے ساتھ نماز پڑھنی چاہئیے اور اگر نماز تمام کر نے کے بعد معلوم ہو تو دوبارہ وضو یا غسل کے ساتھ نماز پڑھنی چاہئیے اور اگر وقت نماز ختم ہو گیا ہو تو قضا کر نی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۷۷۔اگر حالت رکوع میں یا د آجائے کہ اس سے پہلے والی رکعت کے دونوں سجدہ بھول گیا ہے تو اس کی نماز باطل ہے لیکن اگر رکوع میں پہنچنے سے پہلے یادآجائے تو پلٹ کر دونوں سجدے بجا لائے اورکھڑا ہو کر حمد سورہ یا تسبیحات اربعہ پڑھ کر نماز تمام کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کے بعد بے جا کھڑا ہو نے کی وجہ سے دو سجدہ سہو بھی بجا لائے ۔
مسئلہ ۱۳۷۸۔ اگر السلام علینا اور السلام علیکم پڑھنے سے پہلے یا دآجائے کہ آخری رکعت کے دونوں سجدہ بھول گیا ہے تو دونوں سجدے بجا لانا ضروری ہیںاور پھر تشھد و سلام پڑھ کر نماز تمام کر نی چاہئیے۔
مسئلہ ۱۳۷۹۔ اگر نماز ختم کر نے سے پہلے یاد آجائے کہ ایک رکعت یا اس سے زیادہ نماز نہیں پڑھی تو بھولی ہوئی مقدار کو بجا لانا چاہئیے۔
مسئلہ ۱۳۸۰۔اگر نماز کے مکمل ہو نے کے بعد یاد آجائے کہ آخری ایک رکعت یا اس سے زیادہ نماز چھوٹ گئی ہے تو اگر کوئی ایسای کام کر لیا ہو جس سے عمدا ًیا سہوا ًبجا لا نے سے نماز باطل ہو جاتی ہے مثلا یہ کہ قبلہ کی طرف پیٹھ کر لی ہو تو نماز باطل ہے اور اگر کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے تو بھولی ہوئی مقدار کو فوراً ابجا لا نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۸۱ ۔ اگر سلام پھیرنے کے بعد قبلہ کی طرف پیٹھ کر لی ہو یا اسی طرح کا کوئی اور کام کر لیا ہو جو اگر حالت نماز میں خوہ عمداً ہو تا ہو یا سہواً تو اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے اور اس کے بعد یاد آجائے کہ آخری دونوں سجدے نہیں بجا لایا تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر نماز کو باطل کر دینے والی چیز کے انجام دینے سے پہلے یاد آجائے تو بھولے ہوئے سجدوںکو بجا لائے اور دوبارہ تشہد و سلام پڑھ کر نما زتمام کرے اور تشہد اور سلام اول کی وجہ سے دو سجدۂ سہو بھی بجا لائے ۔
مسئلہ ۱۳۸۲۔اگر معلوم ہو جائے کہ نما زکو وقت سے پہلے یا قبلہ کی طرف پشت کر کے پڑھ لیا ہے یا اس طرح ادا کی ہے کہ قبلہ داہنی طرف تھا یا بائیں طر ف تھا تو نما ز کو دوبارہ پڑھنا چاہیئے اور اگر وقت گذر گیا ہو تو قضا کرنی چاہیئے ۔

نماز مسافر
مسئلہ ۱۳۸۳۔ہر مسا فر کو نما ز ظہر ، عصر اور عشا کو آٹھ شرطوں کے ساتھ قصر پڑھنی چاہیئے یعنی چار رکعت کے بجائے دو رکعت پڑھے ۔
(۱)سفر آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ کا ہو
(۲)شروع سفر سے آٹھ فرسخ کا ارادہ رکھتا ہو
(۳)درمیان سفر اپنے ارادہ سے باز نہ آئے
(۴)آٹھ فرسخ پہنچنے سے پہلے وطن سے گذر نے یا کسی جگہ راستہ میں دس دن رہنے کا ارادہ نہ ہو
(۵)حرام کا م کے لئے سفر نہ ہو
(۶)ایسا صحرا نشین جو بیابانوں میں گھو ماکرتے ہیں ان میں سے نہ ہو
(۷)س کا مشغلہ سفر نہ ہو
(۸)حد ترخص تک جا پہنچے ۔
ان کی تفصیل آگے مسائل میں بیان کی جائے گی ۔

پہلی شرط
مسئلہ۱۳۸۴۔ سفر آٹھ فرسخ شرعی سے کم نہ ہو اور فرسخ شرعی تقریباً ساڑھے پانچ کلو میٹر ہے ۔
مسئلہ ۱۳۸۵۔اگر آنے جانے کو ملا کر آٹھ فرسخ پو را ہو جا تا ہو اگر ایک دن رات میں جا ئے اور واپس آجائے مثلاا گر دن کو جائے اور اسی روزیا رات کو پلٹ آئے اگر اس کا جا نا چار فرسخ سے کم نہ ہویا یہ کہ مختلف ہو تو ا سے نماز قصر پڑھنی چا ہئیے۔
مسئلہ ۱۳۸۶۔ اگر آمد و رفت آٹھ فرسخ ہواس صورت میں جب کہ اس کا سفر دس دن تک کا نہ ہومثلاًآج جائے اور کل یا کچھ دنوں کے بعد واپس لوٹ آئے تو نماز کو بھی قصر پڑھے گا اور روزہ بھی نہیں رکھے گا بلکہ روز ہ کی قضا بجا لائے گا ۔
مسئلہ ۱۳۸۷۔ اگر سفر آٹھ فرسخ سے کچھ کم ہو یا نہ معلوم ہو کہ اسکا سفر آٹھ فرسخ ہے یا نہیں تو نماز قصر نہیں پڑھنی چاہئیے اور اگر شک ہو کہ آٹھ فرسخ ہے یا نہیں تو ایسی صورت میں واجب ہے کہ تحقیق کرے پس اگر دو عادل گواہی دے دیں یا ایک عادل یالوگوں میں مشہو رہو ، اس طرح سے کہ اسے اطمینان حاصل ہو جائے کہ اسکا یہ سفر آٹھ فرسخ کا ہے تو نماز قصر پڑھے گا ۔
مسئلہ ۱۳۸۸۔ اگر ایک مورد اطمینان شخص گواہی دے کہ یہ سفر آٹھ فرسخ کا ہے تو نماز کو قصر پڑھنا چاہئیے اور روزہ نہیںرکھنا چاہئیے اور اس روزہ کی قضا کر نا چاہئیے
مسئلہ ۱۳۸۹۔ جسے آٹھ فرسخ کا یقین ہو اور اسے قصر نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ مسافت آٹھ فرسخ نہیں تھی تو اسے نماز پوری پڑھنی چاہئیے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو قضا کر نی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۹۰۔ جسے یقین ہو کہ سفر آٹھ فرسخ کا نہیں ہے یا آٹھ فرسخ کے ہو نے میں شک ہو اور دوران سفر معلوم ہو جائے کہ سفر آٹھ فرسخ کا ہے تو چاہے تھوڑی سی راہ باقی رہ گئی ہو نماز قصر پڑھنی چاہئیے شرط یہ ہے کہ پلٹنے کا قصد دس دن کے اندر ہو اور اگر نماز پوری پڑھ لی ہے تو پھر اسے قصر پڑھے ۔
مسئلہ۱۳۹۱۔ اگر دو جگہوں کا فاصلہ چار فرسخ سے کم ہے اور ان کے درمیان کوئی انسان کئی مرتبہ آمد ورفت کرے تو چاہے سب ملا کر آٹھ فرسخ ہو جا تا ہو نماز پوری ہی پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۹۲۔ اگر کسی جگہ کے دو راستہ ہوں ایک راستہ آٹھ فرسخ سے کم ہو اور دوسراآٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ تو اگر انسان اس راستہ سے جائے جو آٹھ فرسخ سے کم ہے تو نماز پو ری پڑھے گا اور اگرا س راستہ سے جائے جو آٹھ فرسخ سے زیادہ ہو تو نماز قصر پڑھے گا ۔
مسئلہ ۱۳۹۳۔ اگر شہر کے ارد گرد دیوار ہو تو آٹھ فرسخ کی ابتدا کا حساب دیوار شہر سے کیا جا ئے گا اور اگر دیوار نہیں ہے تو شہر کے آخری گھروں سے حساب کیا جا ئے گا ۔

دوسری شرط
مسئلہ ۱۳۹۴۔ شروع سفر سے آٹھ فرسخ سفر کا ارادہ رکھتا ہو پس اگر ایسی جگہ جائے جو آٹھ فرسخ سے کم ہے اور وہاں سے ارادہ کر کے کسی اور جگہ چلا جا ئے یہ دونوں سفر ملا کر آٹھ فرسخ ہو جاتے ہوں تو چونکہ شروع سفر سے آٹھ فرسخ کا ارادہ نہیں تھا اس لئے نماز پو ری پڑھنی چاہئیے البتہ اگر اس جگہ سے آٹھ فرسخ یا چار فرسخ جا ئے اور اپنے وطن یا ایسی جگہ جہاں دس دن رہنے کا ارا دہ ہو وہاں پر واپس آئے تو نماز قصر پڑھنی چاہئیے۔
مسئلہ ۱۳۹۵۔ جسے یہ معلوم نہ ہو کہ کتنے فرسخ کا سفر کر نا ہے مثلا کسی گمشدہ چیز کو تلاش کر نے جا رہا ہے اور یہ نہیں معلوم کہ کتنا فاصلہ طے کر نا پڑے گا تو اس کو پوری نماز پڑھنی چاہئیے ۔البتہ اگر واپسی میں اس کے وطن تک یا اس جگہ تک جہاں وہ دس دن تک رہنا چاہتا ہے ، آٹھ فرسخ کی مسافت پو ری ہو جا تی ہو تو واپسی میں نماز قصر پڑھے گا اسی طرح اگر راہ چلتے میں یہ ارادہ کرے کہ یہاں سے چار فرسخ جا کر اسی دن یا رات کو یا دس دن سے کم عرصہ میں واپس آجائے گا اورآمد ورفت آٹھ فرسخ ہو جا تی ہو تو بھی نماز قصر پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۹۶۔ مسافر اسی صورت میں نماز قصر پڑھ سکتاہے جب آٹھ فرسخ جا نے کا حتمی ارادہ رکھتا ہو پس اگر کو ئی شخص شہر سے اس نیت سے باہر نکلے کہ اگر کوئی ساتھ مل گیا تو آٹھ فرسخ کا سفر کرے گا اگر ساتھی کے مل جا نے کا اطمینان ہو تو قصر نماز پڑھے ورنہ پوری پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۳۹۷۔ جو آٹھ فرسخ کا ارا دہ رکھتا ہو ، چاہے ہر روز تھوڑا تھوڑا ہی سفر کرے تو جس وقت شہر کی دیوار اس کی نگاہوں سے پو شیدہ ہوجا ئیں اور اذان کی آواز سنائی نہ دے اس وقت نماز قصر پڑھنی چاہئیے لیکن اگر ہر روزتھوڑا سا سفر کرے مثلاً تفریح وغیرہ کے لئے روزانہ آدھا فرسخ سفرکرے۔
مسئلہ ۱۳۹۸۔ اگر کوئی اپنے سفر میں کسی دوسرے کا تا بع ہو جیسے نوکر اپنے آقا کا تابع ہو ا کرتا ہے تو اگر اسے معلوم ہو کہ آٹھ فرسخ تک سفر کر نا ہے تو نماز کو قصر پڑھے اور اگر نہیں جانتا تواحتیاط واجب یہ ہے کہ اس سے پوچھے اگر سفر آٹھ فرسخ کا ہو تو نماز قصر پڑھے ۔
مسئلہ۱۳۹۹۔ جو شخص اپنے سفر میں کسی دوسرے کا تابع ہو اگر اسے علم یا گمان ہو کہ چار فرسخ پہنچنے سے پہلے یا اس سے جدا ہو جا ئے گا تو اسے پوری نماز پڑھنی چاہئیے مگر یہ آنا جانا ملا کر آٹھ فرسخ ہو تو نماز قصر پڑھے گا۔
مسئلہ ۱۴۰۰۔ جو اپنے سفر میں کسی دوسرے کا تابع ہو اگر اسے شک ہو کہ چار فرسخ پہنچنے سے پہلے اس سے جدا ہو سکے گا یا نہیں تو نمازقصرپڑھے گا ، نیز اگر اسے شک اس وجہ سے ہو رہا ہو کہ ممکن ہے کہ سفر کے لئے کوئی مانع پیدا ہو جا ئے اور وہ احتمال لو گو ں کی نظر میں معقول نہ ہو تو نماز قصر پڑھنی چاہئیے ۔

تیسری شرط
مسئلہ ۱۴۰۱۔ درمیان راہ اپنے ارادہ سے باز نہ آئے پس اگر کوئی شخص چار فرسخ پہنچنے سے پہلے اپنے ارادہ سے باز آجائے یا متردد ہو جائے تو پوری نماز پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۰۲۔ اگر چار فرسخ جانے کے بعد سفر کا ارادہ ختم ہو تو اگر وہ اس جگہ کا حتمی ارادہ رکھتا ہو یا دس دن کے بعد پلٹنے کا ارادہ بھی ہو یا واپسی یا ٹھہرجانے میں تردد ہو تو نماز پوری پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۰۳۔ چار فرسخ سفر کرنے کے بعد اگر سفر کو ملتوی کر دے او ر واپسی کا حتمی ارادہ رکھتا ہو تو اسی دن یا رات کو واپس آجائے بلکہ دس دن سے کم عرصہ میں واپس آئے تو نماز قصر پڑھنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۰۴۔ اگرکسی جگہ جانے کے ارادہ سے نکلا ہو اور تھوڑی دور جانے کے بعد کسی دوسری جگہ جانے کا ارادہ کر لے تو ایسی صورت میں جہاں سے اس کا سفر شروع ہوا ہے اور اب جہاں تک جا نا چاہتا ہے آٹھ فرسخ کی مسافت ہو تو نماز قصر پڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۰۵۔ اگر آٹھ فرسخ پہنچنے سے پہلے تردد ہو جا ئے کہ بقیہ سفر تمام کر ے یا نہیںاور جس جگہ تردد ہو رہا ہے وہاں سے سفر نہ کرے بلکہ ٹھہر جائے اور اس کے بعد حتمی ارادہ کر لے کہ بقیہ راہ طے کرے گا تو آخر سفر تک نماز قصر پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۰۶۔ اگر آٹھ فرسخ پہنچنے سے پہلے بقیہ راستہ طے کرنے نہ کرنے میں تردد ہو جائے اور جہاں یہ تردد ہو رہا ہے وہاں سے تھوڑی دیر چل کر پکا ارادہ کر لے کہ یہاں سے آٹھ فرسخ جائے گا یا یہ ارادہ کر لے کہ چار فرسخ جا کراسی دن یا رات یا دس دن سے کم عرصہ میں واپس آئے گاتو ایسے شخص کو آخر سفر تک نماز قصر پڑھنی چاہئیے۔
مسئلہ ۱۴۰۷۔ اگر آٹھ فرسخ جا نے سے پہلے تردد ہو جائے کہ بقیہ را ہ کو طے کرے یا نہیں اور جہاں تردد ہوا ہے وہاں سے تھوڑی راہ طے کر نے کے بعد عزم محکم کر لے کہ بقیہ راہ کو طے کرے گا تو اگر باقی ماندہ سفر آٹھ فرسخ سے کم ہو اور اسی دن یا رات یا دس دن سے کم عرصہ میں واپس نہی لوٹنا چاہتا تو نماز کو پورا پڑھے لیکن اگر جہاں سے تردد ہو اہے اس سے پہلے والی راہ اور جہاں تک جا ئے گا وہ سب راہ ملا کر آٹھ فرسخ ہو تو احتیاط کی بنا پر نماز کو قصر بھی پڑھے اور تمام بھی پڑھے اگر چہ نماز قصر کا کافی ہو نا بعید نہیں ہے۔
چوتھی شرط
مسئلہ۱۴۰۸۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ آٹھ فرسخ پہنچنے سے پہلے وطن سے گزرنے یا کسی جگہ راستہ میں دس دن رہنے کا ارادہ نہ ہو پس اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرنے کا ارادہ رکھتا ہو یا کسی جگہ دس دن ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو نمازپو ری پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۰۹۔ جسے معلوم نہ ہی ہو کہ آٹھ فرسخ سے پہلے وطن سے گزرنا پڑے گا یا نہیں یا کسی جگہ دس دن ٹھہرنا پڑے گا یا نہیںتو اسے نماز پوری پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۱۰۔ جوشخص آٹھ فرسخ سے پہلے اپنے وطن سے گزرنا چاہتا ہو یا کسی جگہ دس دن ٹھہرنا چاہتا ہو اور اسی طرح وہ شخص کہ جسے آٹھ فرسخ سے پہلے وطن سے گزرنے میں ترد د ہو یا کسی جگہ دس دن ٹھہرنے میں تردد ہو ۔ اگر کسی جگہ دس دن ٹھہرنے یا وطن سے گزرنے کے ارادہ کو ختم بھی کر دے تب بھی نماز پو ری ہی پڑھنی چاہئیے۔ البتہ اگر باقی ماند ہ فاصلہ آٹھ فرسخ ہو یا چار فرسخ ہولیکن پلٹ آنے کا ارادہ ہو تو تب نماز قصرپڑھے ۔
پانچویں شرط
مسئلہ ۱۴۱۱۔حرام کام کے لئے سفر نہ ہو ۔ پس اگر کسی نے حرام کام کے لئے مثلا چوری کر نے کے لئے سفر کیا ہو تو نماز پوری پڑھنی چاہئیے ۔ اسی طرح اگر سفر خود حرام ہو مثلا سفر اس کے لئے مضرہو اور وہ سفر کرے یا عورت بغیر شوہرکی اجازت کے ایسا سفر کرے یا اولاد والدین کی ممانعت کے باوجود اس قسم کا سفر کرے جو ان لوگوں پر واجب نہ ہو ، تب بھی نماز پوری پڑھنی چاہئیے البتہ اگر واجب حج کے لئے سفر کر رہا ہو تو نماز قصرپڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۱۲۔ایسا سفر جو والدین کی اذیت کا سبب ہواور سفر کا ترک کرنا بیٹوں کے لئے ضرر کا باعث نہ ہو تو حرام ہے ایسے سفر میں انسان کو نماز پوری پڑھنی چاہئیے اور روزہ بھی رکھنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۱۳۔ اگر کسی کا سفر حرام نہیں ہے اور وہ حرام کام کے لئے بھی سفر نہیں کر رہا ہے اور درمیان سفر میں معصیت بھی کر لے مثلا شراب پی لے یا لوگوں کی غیبت کرے تو اسے نماز قصر پڑھنا چاہئیے۔
مسئلہ ۱۴۱۴۔ اگر سفر محض واجبی کام کو چھوڑنے کر ارادہ سے ہو تو نماز پوری پڑھنی چاہئیے پس اگر کوئی مقروض کسی قرض خواہ کر قرض کو ادا کر سکتا ہو اور قرض خواہ اپنے قرض کا مطالبہ بھی کر رہا ہو تو ایسی صورت میں اگر وہ سفر میں قرض ادا نہ کر سکے اور محض قرض دینے سے بچنے کے لئے سفر کرے تو سفر میں نماز پوری پڑھنی پڑے گی ۔
مسئلہ ۱۴۱۵۔ اگر سفر تو حرام نہ ہو لیکن سواری غصبی ہو یا زمین غصبی ہو کہ جس میں سفر کر رہا ہے تو نماز قصر پڑھے گااور احتیاط مستحب کی بناپر قصر بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۱۶۔ اگر کوئی شخص ظالم کے ساتھ سفر کر نے پر مجبور نہ ہو اور اس کے ساتھ سفر کرنے سے ظالم کی امداد ہو تی ہوتو نماز پوری پڑھنی چاہئیے ہاں اگر مجبور ہو یا کسی مظلوم کو نجات دلانے کے لئے ظالم کے ساتھ سفر کرے تو نماز قصر پڑھنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۱۷۔ سیر وسیاحت کی غرض سے سفر کر نا حرام نہیں ہے ایسے سفر میں نماز قصر پڑھنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۱۸۔ اگر محض لہو لعب کے لئے اور خوش گزرانی کے لئے شکار پر جائے تو نماز پوری پڑھنی چاہئیے البتہ اگر تلاش معاش کے لئے سفر پر جائے تو قصر پڑھے گا اگر مال میں اضافہ کی نیت سے شکار پر جائے یہی حکم ہے ۔
مسئلہ ۱۴۱۹۔ جس نے سفر معصیت کیا ہو پلٹتے وقت اگر تو بہ کر لی ہو تو نماز قصر پڑھے گا اور اگر توبہ نہیں کی تو نماز تمام پڑھے گا مگر یہ کہ اس کے پلٹنے پر حلال کا عنوان صدق کرے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہے توبہ نہ کرنے کی صورت میں قصر و تمام دونوں طرح سے پڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۲۰۔ جو شخص سفر معصیت کر رہا ہو اگر درمیان راہ معصیت کا ارادہ ترک کر دے تو اگر باقی راہ آٹھ فرسخ ہو یا چار فرسخ ہو لیکن واپسی کا ارادہ اسی دن یا رات میں یا دس دن سے کم عرصہ میں تمام ہو تو نماز قصر پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۲۱۔ جس نے بقصد معصیت سفر نہیں کیا اور درمیان راہ سے قصد معصیت سے سفر کر نے لگا تو نماز پوری پڑھنی چاہئیے البتہ جو نماز قصر پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہے ۔
چھٹی شرط
مسئلہ ۱۴۲۲۔یہ ہے کہ ایسا صحرا نشین نہ ہو جو بیابانوں میںگھوما کرتے ہیں جہاں بھی پا نی و خوراک مل جا ئے وہیں ٹھہر جاتے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد کوچ کر جاتے ہیں اس قسم کے صحرا نشینوں کو اپنے اس طرح کے سفر میں نماز پوری پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۲۳۔ اگر کوئی صحرا نشین منزل و چراگاہ کی تلاش میں آٹھ فرسخ کا سفر طے کرے تو نماز کو تمام پڑھنی چاہئیے حتیٰ اگر زندگی کے لوازم اس کے ساتھ نہ ہوں ۔
مسئلہ ۱۴۲۴۔ اگر صحرا نشین زیارت یا حج یا تجارت یا اسی مثل کسی کام کیلئے سفر کرے تو نماز قصر پڑھے گا ۔
ساتویںشرط
مسئلہ ۱۴۲۵۔ سفر پیشہ نہ ہو ،مثلاً اونٹ والے ، ڈرائیور، ملاح جیسے لوگ چاہے اپنے گھریلو سامان لے جانے کے لئے سفر کریں تو وہ پہلے سفر کے علاوہ ہر سفر میں نماز پوری پڑھیں گے البتہ پہلے سفر میں نماز قصر ہے خواہ پہلا سفر بہت طولانی ہی کیوں نہ ہو ۔
مسئلہ ۱۴۲۶۔ پیشہ ور مسافر کو حج و زیارت کے سفر میں نماز قصر پڑھنی چاہئیے البتہ ڈرائیور اپنی گاڑی کوزیارت کے لئے کرایہ پر دید ے اور خود بھی ضمناً سفر کرے تو اس کو پوری نماز پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۲۷۔ جولوگ حاجیوں کو مکہ لے جا نے کا کام کرتے ہیں اگر ان کا پیشہ پورے سال مسافرت ہے تو نماز پوری پڑھنی چاہئیے اور اگر مسافرت پیشہ نہ ہوبلکہ کچھ ہفتے سفر کرے تو نماز قصر پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۲۸۔ جس شخص کا پیشہ حملہ داری ہو اگر وہ حاجیوں کو مکہ مکرمہ اور مقامامات مقدسہ وغیرہ ایسی راہ سے لے جائے جس میں پورا سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ راستہ میں ہی لگ جا تا ہو تو اسے پوری نماز پڑھنی چاہئیے۔
مسئلہ ۱۴۲۹۔ جس کا پیشہ سال کے کچھ حصہ میں مسافرت ہو مثلا ًوہ ڈرائیور جو اپنی گاڑی صرف گرمیوں میں یا صرف سردیوں میں کرایہ پرچلا تا ہواس کو اپنے مشغلہ کے دوران والے سفر میں پوری نماز پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۳۰۔ جس ڈرائیور ی یا پھیری لگانے والے کو دو تین فرسخ شہر سے آمد ورفت کر نا پڑتی ہو اگر کبھی آٹھ فرسخ کا سفر اتفاق ہو جا ئے تو نماز قصر پڑھے لیکن اگر لوگ کہیں کہ اس کا پیشہ سفرہے اگر وہ آٹھ فرسخ تک جائے تو اقویٰ کی بنا پر نمازپوری پڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۳۱۔ پیشہ ور مسافر بقصد و ارا دہ یا بغیر ارادہ اپنے وطن میں دس دن یا اس سے زیادہ قیام کرے تو دس دن کے بعد جو پہلا سفر کرے گا اس میں نماز قصر پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۳۲۔ پیشہ ور مسافر اگر وطن کے علاوہ جوکسی اور جگہ دس دن قیام کرے تو اگر پہلے ہی اس کا دس دن رہنے کا قصد ہو د س دن کے بعد جو پہلا سفر کرے گا اس میں نماز قصر پڑھے اور اگر پہلے سے دس دن رہنے کا قصد نہ ہو تو پہلے سفر میں نماز پوری پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۳۳۔ پیشہ ور مسافر کو اپنے وطن کا کسی اور جگہ دس دن قیام کرنے میں شک ہو تو نماز پوری پڑھنی چاہئیے
مسئلہ ۱۴۳۴۔ اگر سیاح نے اپنا وطن نہیں بنایا ہے تو زمانہ سیاحت میںنماز پوری پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۳۵۔ اگر مسافرت اس کا پیشہ نہیں ہے اور کسی شہر یا دیہات میں کوئی کام ہو مثلاً سامان پڑا ہوا ہے جس کے لئے اسے با ر بار سفر کر نا پڑتا ہے تو وہ نماز قصر پڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۳۶۔ اگر کوئی اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسری جگہ کو وطن بنانا چاہتا ہو تو اس سفر میں نماز قصر پڑھے گابشرطیکہ مسافرت اس کا پیشہ نہ ہو اور اگر کوئی دوسراایسا عنوان بھی نہ ہوجو نمازپوری پڑھنے کا سبب بنتا ہو ۔

آٹھویں شرط
مسئلہ ۱۴۳۷۔جب مسافر حد ترخص تک پہنچے تو قصر پڑھنا شروع کرے ، حد ترخص کا مطلب یہ ہے کہ اپنے وطن سے یا احتیاط واجب کی بنا پر جہاں سے دس دن رہنے کا ارادہ ہو وہاں سے اتنی دور نکل آئے کہ شہر کی دیواریں نہ دکھائی دیں اور اذان کی آواز نہ سنائی دے اذان نہ سنائی دینے نہ سنائی دینے اور دیوار نہ دکھائی دینے کی وجہ یہ نہیںہو نا چاہیئے کہ ہو ا میں اتنا گرد و غبار یا دوسری چیز ہو کہ جس سے دیوار دکھائی نہ دے اور اذان کی آوازیں سنائی نہ دیں ، البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اتنی دور نکل آئے جہاں سے مینار اور گنبد اور دیوار کا تھوڑا سا بھی حصہ دکھائی نہ دے بلکہ بس اتنا کافی ہے کہ شہر کی دیوار صاف نہ دکھائی دے رہی ہو ۔
مسئلہ ۱۴۳۸۔ اگر کوئی ایسی جگہ تک آجائے کہ جہاں اسے اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی ہے لیکن دیوار دکھائی دیتی ہو یا بالعکس اور وہ شخص اس جگہ نماز پڑھناچاہے تو اسے نماز پو ری پڑھنی چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۴۳۹۔اگر کوئی مسافر اپنے واطن واپس جا رہا ہو تو واپسی میں جہاں سے شہر کی دیوار دکھائی دینے لگے اور اذان سنائی دینے لگے تو اسے چاہیئے کہ نما ز تمام پڑھے اور یہی حکم ہے اس مسافر کا جو کسی جگہ پردس دن رکنے کا ارادہ ہو۔
مسئلہ ۱۴۴۰۔ اگر کوئی شہر اتنی بلندی پر ہو کہ بہت دور سے دکھائی دیتا ہو یا اتنی گہرائی میں ہو کہ اگر شہر سے تھوڑی دور نکل آئے تو دیوار شہر نہ دکھائی تو ایسے شہروں میں جب اتنی دور چلا جائے جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ اگر یہ شہر برابر زمین پر ہو تا تو دکھائی نہ دیتا تب وہاں سے نما زقصر پڑھنا چاہیئے، اسی طرح اگر مکانوں کی پستی اور بلندی معمول سے بہت زیادہ ہو تو معمولی کا لحاظ کر نا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۴۴۱۔اگر کسی ایسی جگہ سے سفر کرے جہاں پر مکانات اور دیوار نہ ہوں تو اس وقت نما زقصر پڑھنی چاہیئے جب ایسی جگہ پر پہنچا جائے کہ اگر اس جگہ پر دیوار ہوتی تو یہاں سے نہ دکھائی دیتی ۔
مسئلہ ۱۴۴۲۔ اگراتنی دور جائے کہ آنے والی آواز نہ معلوم کر سکے کہ یہ آواز اذان ہے یا کوئی دوسری آواز تو نما زقصر پڑھے لیکن اگر یہ سمجھے کہ اذان ہو رہی ہے لیکن کلمات میں تمیز نہیں کر سکتا تب نمازتمام پڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۴۳۔ اگر اتنی دور ہو جائے کہ جہاں گھروں کی اذانیں تو نہ سنائی دیتی ہوں لیکن شہر کی اذان جو عموماً بلند جگہوں پر کہی جاتی ہے وہ سنائی دیتی ہو تو نماز قصر نہ پڑھنی چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۴۴۴۔ اگر اتنی دور پہنچ جائے کہ شہر کی وہ اذان جو متعارف و معمولی بلند جگہ پر کہی جاتی ہے اس کی آواز تو سنائی نہ دے لیکن جو اذان بہت زیادہ بلندی پر کہی جارہی ہو اس کی آواز سنائی دے رہی تو نما زقصر پڑھنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۴۴۵۔ اگر کسی کی قوت بینائی یا قوت سامعہ غیر معمولی ہو یا آوازاذان غیر معمولی ہو تو ایسے شخص کو اس جگہ سے نما زقصر پڑھنی چاہیئے جہاں سے متوسط بینائی رکھنے والوں کو گھروں کی دیوار نہ دکھائی دے اور متوسط قوت سامعہ رکھنے والوں کو معمول والی اذان کی آواز نہ سنائی دے ۔
مسئلہ ۱۴۴۶۔ اگر کسی ایسی جگہ پر نما زپڑھنا چاہے جہاں پر شک ہو کہ یہ حد ترخص ہے یا نہیں تب نما زپوری پڑھے اور واپسی پر اگر حد ترخص تک پہنچنے اور نہ پہنچنے کا شک ہو تو نما ز قصر پڑھے بشرطیکہ آنے اور جانے کے وقت اس کی نما زایک جگہ نہ ہو البتہ دونوں صورتوں میں احتیاطاًتحقیق کرنا ضروری ہے ۔
مسئلہ ۱۴۴۷۔ جس مسافر کو اپنے سفر میں وطن سے گذرنا پڑے تو جہاں سے وطن کی دیوار دکھائی دینے لگیں اور آواز اذان سنائی دینے لگیں وہاں سے نما زتمام پڑھنی چاہیئے
مسئلہ ۱۴۴۸۔ جو مسافر دوران سفر اپنے وطن پہنچ جائے تو جب تک وہاں رہے نماز پوری پڑھے البتہ اگر وہاں سے آٹھ فرسخ جائے یا چار فرسخ جا کر اسی دن رات میں یا دس دن کے کم عرصہ میں واپس آئے تو جہاں سے وطن کی دیوار دکھائی نہ دے اور آواز اذان سنائی نہ دے وہاں سے نما ز قصر پڑھنی چاہیئے ۔

وطن کے احکام اور دس روز کی اقامت
مسئلہ ۱۴۴۹۔اپنی زندگی بسر کر نے کے لئے جس جگہ کا انتخاب کرے اسی کو وطن کہتے ہیں ، خواہ وہ وہاں پیدا وہا ہو یا ماں باپ کا وطن ہو یا خود اس نے اس کو اپنی زندگی بسر کر نے کے لئے منتخب کیا ہواور لوگوں کی نگاہوں میں وہ اس کا وطن شمار ہوتا ہو ۔
مسئلہ ۱۴۵۰۔ اگر کسی ایسی جگہ جو اس کا اصلی وطن شمار نہ ہوتا ہو کچھ دن رہ کر دوسری جگہ جانے کا ارادہ ہو تو وہ جگہ وطن میں شمار نہیں ہو گی مگر یہ کہ وہ اس جگہ بہت دنوں تک رکنا چاہے مثلاً کچھ سال پس اس بنا پر طلاب یا اسٹو ڈنٹس کہ جو علم حاصل کرنے کے لئے کسی جگہ جاتے ہیں وہ انکے وطن کے حکم میں تھا اور انہیں چاہیئے کہ نماز تما م پڑھے اور روزہ رکھیںاور اسی طرح وہ فوجی کہ جو کسی جگہ پر زیادہ مدت کے لئے مقرر ہوں۔
مسئلہ ۱۴۵۱۔ جس جگہ انسان یہ ارادہ کرے کہ اس جگہ بہت دنوں تک رہے گا مثلاً انسان نے چار یا پانچ سال یا اس سے زیادہ عرصہ رہنے کے قصد سے کسی جگہ کوانتخاب کیا ہو تو وہ جگہ اس کاعرفی وطن کہلائیگا لہذا اگر کوئی سفر اس کو درپیش آجائے اور وہ دوبارہ وہاں لوٹ آئے تو وہاں نماز پوری پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۵۲۔ جو شخص دو جگہوں پر اپنی زندگی بسر کر تا ہو مثلاً چھ مہینہ ایک شہر میں رہتا ہو اور چھ مہینہ دوسرے شہر میں تو دونوں جگہیں اس کا وطن ہیں ۔ اسی طرح اگر دو سے زیادہ جگہوں کو زندگی بسر کر نے کے لئے اختیار کرے تو سب جگہیں وطن ہو ں گی اور انہیںنماز تمام پڑھنا ہو گی۔
مسئلہ ۱۴۵۳۔ اگر کوئی شخص وطن کے قصد سے کسی جگہ رہے جب بھی اسے مسافرت درپیش آئے گی وہ وہاں پہنچے گا تو نماز کو پوری پڑھے گا جب تک کہ اس جگہ سے صرف نظر نہ کر لے اور اگر اس کے قصد سے منصرف ہو جا ئے تو نماز قصر پڑھے گا ۔
مسئلہ ۱۴۵۴۔ اگر کسی ایسی جگہ چلا جائے جو کبھی اس کا وطن رہا ہو لیکن اب وطن نہ ہو تو پوری نماز پڑھنی چاہئیے چاہے ابھی تک اپنے لئے دوسرے وطن کا انتخاب نہ کیا ہو ۔
مسئلہ ۱۴۵۵۔ اگر کسی کا متواتر دس دن رہنے کا ارادہ ہو یا معلوم ہو کہ بلا ارادہ دس دن رکنا پڑے گا تو وہاں پر نماز پوری پڑھے گا ۔
مسئلہ ۱۴۵۶۔ اگر کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ ہو تو پہلی رات یا گیارہویں رات کے رہنے کا ارادہ کر نا ضروری نہیں ہے ، پس اگر پہلے د ن کی اذان صبح سے دسویں دن کے غروب آفتاب تک رہنے کا ارادہ ہو تولازم نہیں ہے کہ نماز پوری بھی پڑھے اور قصربھی پڑھے بلکہ پوری نمازپڑھ لینا کافی ہے ۔
مسئلہ ۱۴۵۷۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو وہ اسی صورت میںپو ری نماز پڑھ سکتا ہے جب دس دن ایک ہی جگہ پر رہنے کا ارادہ ہو پس اگر کوئی شخص نجف و کوفہ میںدس دن رہنا چاہے یا کربلا ئے معلی وحرہ یا تہران و قم مقدسہ دونوں جگہ ملا کر رہنا چاہے تو نماز قصر پڑھنی چاہئیے یہ اس صورت میں ہے جب وہ شہر آپس میں متصل نہ ہوں اور اگر متصل ہو تو ایک شہر شمار ہو ں گے مثلاًآج کے زمانے میں نجف اشرف و کوفہ ایک شہر میںشمار ہو تا ہے۔
مسئلہ ۱۴۵۸۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہے اگر پہلے سے اس کا یہ قصد ہو کہ اس دس دنوں میں اپنے قیام کی جگہ سے کسی ایسی جگہ بھی جا ئے گا جس کا فاصلہ آٹھ فرسخ سے کم ہے چنانچہ وہاں جا کر آدھے دن سے زیادہ نہ رہے اور اپنے قیام کی جگہ واپس آجائے تو اس کے قصد اقامت میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور وہ نماز پوری پڑھے گا ۔
مسئلہ ۱۴۵۹۔ جس مسافر کا کسی جگہ دس دن رہنے کا حتمی ارادہ نہ ہولیکن کسی بھی وجہ سے جیسے اس کا ارادہ یہ ہو کہ اگر کوئی دوست مل گیا یا کوئی اچھا سا مکان مل گیا تب دس دن رہوں گا ورنہ نہیں تو نمازقصر پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۶۰۔ اگر کسی جگہ دس دن رہنے کا حتمی ارادہ رکھتا ہو تو چاہے یہ احتمال رکھتا ہو کہ کسی رکاوٹ کی وجہ سے یہاں دس دن نہ رہ سکوں گا اور یہ احتمال لوگوں کی نظر میں معقول نہ ہو تو نماز پوری پڑھنی چاہئیے ورنہ قصر ۔
مسئلہ ۱۴۶۱۔ اگر مسافر کو معلوم ہو کہ مہینہ کے ختم ہو نے میں دس دن یا اس سے زیادہ باقی ہیں اور وہ ارادہ کرے کے میں آخر مہینہ تک یہاں ٹھہروں گا تب تو نماز کو تمام پڑھے گا لیکن اگر اسے یہ معلوم نہ ہو کہ مہینہ کے ختم ہو نے میں کتنے دن باقی ہیں اور وہ آخر مہینہ تک رکنے کا ارادہ کرے تونماز قصر پڑھنی چاہئیے اگر چہ جس دن سے اس نے ارادہ کیا ہے اس دن سے آخر مہینہ تک دس دن یا اس سے زیادہ مدت باقی ہو ۔
مسئلہ ۱۴۶۲۔ اگر کسی جگہ دس دن رہنے کا اردہ ہو اور کوئی چار رکعتی نماز پڑھنے سے پہلے وہاں نہ رکنے کا ارادہ کر لے یا رہنے یا نہ رہنے میں تردد ہو جا ئے یہاں رہے یا کسی اور جگہ چلا جائے تو نماز قصر پڑھناچاہئیے اور اگر کوئی چار رکعتی نماز پڑھ چکا ہو اور اس کے بعد سفر کا ارادہ ہو ا ہو یا تردد ہو گیا ہوتو جب تک وہاں رہے نماز پو ری پڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۶۳۔اگر کسی جگہ دس دن رہنے کا اردہ ہواور وہاں پر روزہ بھی رکھ لے اور ظہر کے بعد نہ رہنے کا فیصلہ کر لے تو ایسی صورت میں اگر کوئی چار رکعتی نماز پڑھ چکا ہو تب تو روزہ صحیح ہے اور جب تک وہاں رہے نماز پوری پڑھے لیکن اگر چار رکعتی نمازنہیں پڑھی تو اس دن کا روزہ تو صحیح ہے لیکن نمازوں کو قصر پڑھنی چاہئیے اور اس دن کے بعد روزہ نہیں رکھ سکتا ۔
مسئلہ ۱۴۶۴۔ اگر کسی جگہ دس دن رہنے کا اردہ ہواور پھر قیام کا رادہ ختم کردے لیکن اس میں شک ہو کہ قیام کا ارادہ ختم کر نے سے پہلے کوئی چار رکعتی نماز پڑھی ہے یا نہیں تو نماز وں کو قصر پڑھنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۴۶۵۔اگر مسافر قصر کی نیت سے نماز شروع کرے اور نماز کے درمیان میں دس د ن یا اس سے زیادہ رکنے کا ارادہ ہو جائے تو نیت بدل کر پوری کی نیت کرے ۔
مسئلہ ۱۴۶۶۔ جس مسافر کا کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ ہو ، اگراپنی پہلی چار رکعتی نما زمیں اس کا ارادہ بدل جائے اور ابھی تیسری رکعت کے رکوع میں نہ پہنچا ہو تو اس نماز کو قصر کر دے اور اس کے بعد بقیہ نمازوں کو بھی قصر پڑھے لیکن اگر تیسری رکعت کے رکوع میں مشغول ہو گیا ہو تونماز توڑ دے اورپھر دوبارہ نماز قصر پڑھے اور جب تک وہاں رہے اپنی نمازوں کو قصر پڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۶۷۔اگرمسافر کسی جگہ دس دن رہنے کا قصد کرے اور دس دن سے زیادہ رہ جائے تو جب تک وہاں سے سفر نہ کرے نماز پوری پڑھتا رہے ،دوبارہ دس دن کی نیت کرنا ضروری نہیں ۔
مسئلہ ۱۴۶۸۔جس مسافر کا کسی جگہ دس دن رہنے کا قصد ہو اسے وہاں واجبی روزہ رکھنا چاہیئے ، مستحبی روزہ بھی رکھ سکتا ہے اور نماز جمعہ ، نافلہ ظہرین و نافلہ عشا بھی پڑھ سکتا ہے ۔
مسئلہ۱۴۶۹۔ جس مسافر کا کسی جگہ دس دن رہنے کا اردہ ہو اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد ایک دن کے لئے کسی ایسی جگہ جا کر پلٹے جو چار فرسخ سے کم اور واپس اگر دوبارہ دس دن رکنے کا ارادہ ہو تو تمام مدت نما ز پو ری پڑھے گا،اس طرح اگر لوٹنے کے بعد دس دن تک رکنے کا ارادہ نہ ہو تو جو جگہ چار فرسخ سے کم ہو وہاں جاتے وقت اور جتنے دن وہاں رکے اور وہاں سے لوٹتے وقت اور پہلی جگہ پہنچنے کے بعد اقویٰ یہی ہے کہ نماز پوری پڑھے،لیکن اگر چار فرسخ یا اس سے زیادہ کا فاصلہ ہو اور وہاں دس دن رکنے کا ارادہ بھی نہ ہو تو جاتے وقت اور جتنے دن بھی وہاں رکے اپنے نماز قصر کرے گا۔
مسئلہ ۱۴۷۰۔ اگر مسافر کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کرے اور ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد کسی ایسی جگہ جا نا چاہے جو آٹھ فرسخ سے کم ہو اور وہاں دس دن رکنے کا ارادہ ہو، تو جس وقت وہ جا رہا ہے اورجس جگہ دس دن رک رہا ہے ،اپنی نماز پو ری پڑھے گا لیکن اگر وہ جگہ آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ ہواور وہاں دس دن رکنے کا ارادہ بھی نہ ہو تو راستہ میں اورجتنے دن بھی وہاں ہے اپنے نماز قصر کرے گا۔
مسئلہ ۱۴۷۱۔جس مسافر کا کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ ہو اگر کوئی چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعدکسی ایسی جگہ جانا چاہے جو چار فرسخ سے کم ہو اور پہلی جگہ واپسی میں تردد ہو یا بالکل پلٹنے سے غافل ہو یا پلٹنے کا ارادہ تو ہو لیکن دس دن ٹھہرنے میں شک ہو یا دس دن ٹھہرنے یا سفر کرنے سے غافل ہو تو سفر کے وقت سے واپسی کے وقت تک اور واپسی کے بعد نمازوں کو پورا پڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۷۲۔اگر اس خیال سے کہ دوستوں کا دس دن ٹھہرنے کا ارادہ ہے خود دس دن قیا م کا ارادہ کر لیا ہو اور کوئی چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ دوستوں نے دس دن رہنے کا ارادہ نہیں کیا ہے تو چاہے وہ خود بھی ٹھہرنے کے ارادے کو ختم کر دے جب تک وہاں موجود ہے نماز پوری پڑھے گا ۔
مسئلہ ۱۴۷۳۔اگر مسافر چار فرسخ جانے کے بعد کسی جگہ تیس دن قیام کرے اور تیس دنوں میں جانے نہ جانے میں تردد کی حالت میں رہا ہو تواسکی نماز قصرہے اور تیس دن گزر جانے کے بعد چاہے تھوڑی ہی دیر وہاں رہنا ہو نماز پوری پڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۷۴۔اگر کوئی مسافر کسی جگہ نو دن سے کم یا نو دن رہنا چاہتا ہے اور نو دن یا اس سے کم کی مدت تما م ہو نے کے بعد پھر نو دن یا اس سے کم رہنے کا رادہ کرے اسی طرح تیس دن گذر جائیں تواسے ان دنوں میں نماز قصر پڑھنی چاہیئے اور اکتیسویں دن سے نماز پور ی پڑھنی چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۴۷۵۔جو مسافر تیس دن تک تردد میں رہا ہو تو ایسی صورت میں نماز وں کو پورا پڑھے جب تیس دن ایک ہی جگہ رہا ہولیکن اگر کچھ دن ایک جگہ رہا اور کچھ دن دوسری جگہ تو تیس دن کے بعد بھی نما زقصر پڑھنی چاہیئے ۔

مسافر کی نماز کے متفرق مسائل
مسئلہ ۱۴۷۶۔ مسجد الحرام ، مسجد النبی ؐ اور مسجد کو فہ میں مسافر پوری نماز پڑھ سکتا ہے البتہ اگر ان مسجدوں میں اس حصہ میں نماز پڑھنا جو ائمہ اطہار علیہم السلام کے زمانہ میں مسجد کا جز نہ رہا ہو لیکن بعد میں مسجد میں شامل کر لیا گیا ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر اس حصہ میں نما زقصر پڑھنی چاہیئے اسی طرح مسافر امام حسین ؑ کے حائر اقدس میں بھی نما زپوری پرھ سکتا ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر قبر مطہر سے ۲۵ ہاتھ دور ہو کر نما زپڑھنا چاہے تو قصر پڑھے، اگرچہ یہ بعید نہیں ہے کہ یہ اختیار ان تمام چار شہروں مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ،کوفہ،کربلائے معلی کو شامل ہو۔
مسئلہ ۱۴۷۷۔جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ وہ مسافر ہے اور اسے نماز قصر پڑھنی چاہیئے اگر وہ عمداً نماز پو ری پڑھے تو اسکی نماز باطل ہے ۔ اسی طرح اگر یہ بھول کر کہ مسافر کو نماز قصر پڑھنی چاہیئے ، نماز پوری پڑھ لے ، اگر وقت موجود ہو تو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گذرنے کے بعد یا دآئے تو احتیاطاًاس کی قضا بجا لائے ۔
مسئلہ ۱۴۷۸۔جس شخص کو معلوم ہو کہ وہ مسافر ہے اور نماز قصر پڑھنا چاہے اگر غفلت کی وجہ سے پوری پڑھ لے تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۴۷۹۔جس مسافر کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اسے قصر پڑھنی چاہیئے تو اور وہ پوری پڑھے تواس کی نماز صحیح ہے
مسئلہ ۱۴۸۰۔جس مسافر کو یہ معلوم ہو کہ نمازقصرپڑھنی چاہیئے لیکن بعض خصوصیات کو نہ جانتا ہو مثلاًاسے یہ نہ معلوم ہو کہ آٹھ فرسخ کے بعد نماز قصر پڑھی جاتی ہے ایسا مسافراگر نماز پوری پڑھ لے تواگر وقت گذرنے سے پہلے معلوم ہو جاے تو بنا بر احتیاط واجب دوبارہ قصر نمازپڑھے اور اگر وقت کے بعد سمجھے تو قضا کرنا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۴۸۱۔جسے معلوم ہو کہ سفر میں نماز قصر پڑھنی چاہیئے اگر وہ اس گمان سے نماز پوری پڑھ لے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ سے کم ہے تو جس وقت اسے علم ہوکہ اس کا سفر آٹھ فرسخ کا تھا تو پوری پڑھی ہوئی نماز کو احتیاط کی بنا پراگر وقت گذرنے سے پہلے معلوم ہو جائے تو دوبارہ قصر پڑھے اگر وقت باقی نہ ہو تو قضانہیں ہے
مسئلہ ۱۴۸۲۔ اگر مسافر ہو نے کو بھول کر پوری نماز پڑھ لے اور وقت کے اندر یاد آجائے تو دوبارہ قصر پڑھے اور اگر وقت کے اندر یاد نہ آئے تو قضا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۴۸۳۔جسے نماز پوری پڑھنی چاہیئے اگر وہ قصر پڑھ لے تو ہر صورت میں اس کی نماز باطل ہے۔
مسئلہ ۱۴۸۴۔ اگر چار رکعتی نماز میں مشغول ہونے کے بعد یاد آئے کہ وہ مسافر ہے یا اس طرف متوجہ ہو جائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے اور ابھی تیسری رکعت کے رکوع میں نہیں پہنچا تو نماز کو دو رکعتی کر کے تمام کرے اور اگر تیسری رکعت کے رکوع میں پہنچ چکا ہو تو نماز باطل ہے اور اگر ایک رکعت نما زکا بھی وقت باقی ہو تو نماز قصر کو ادا کی نیت سے پڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۸۵۔ اگر مسافر نماز قصر کی بعض خصوصیات سے واقف نہ ہو مثلاً اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اگرکوئی شخص چا ر فرسخ جائے اور اسی دن یا یا اسی رات پلٹ آئے تو نماز کو قصر پڑھنی چاہیئے اور وہ شخص چار رکعتی نماز میں مشغول ہو جائے اور تیسری رکعت کے رکوع سے پہلے مسئلہ یا دآجائے تو نماز کو دو رکعتی کر کے تمام کرے اور اگر رکوع میں جانے کے بعد متوجہ ہوا ہو تو نماز باطل ہے اور اگر ایک رکعت کا بھی وقت باقی ہو تو نماز قصر کو ادا کی نیت سے پڑھے ۔
مسئلہ ۱۴۸۶۔جس مسافر کو نماز پوری پڑھنی چاہیئے اگر وہ مسئلہ نہ جاننے کی بنا پر قصر کی نیت سے نماز شروع کر دے اور نماز ہی کی حالت میں مسئلہ معلوم ہو جائے تو نماز کو چار رکعت پوری کرے ۔
مسئلہ ۱۴۸۷۔جس مسافر نے نماز نہیں پڑھی اگر وقت کے اندر اپنے وطن پہنچ جائے یا ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں دس رہنے کا ارادہ ہو تب اسے پوری نماز پڑھنی چاہیئے اور اگر کوئی شخص مسافر نہیں ہے اور اس نے اول وقت میں نماز نہیں پڑھی اور اسے سفر در پیش ہو تو سفر میں نماز کو قصر پڑھے گا ۔
مسئلہ ۱۴۸۸۔جس مسافر کو قصر نماز پڑھنی چاہیئے اگر اس کی ظہرین یا عشا کی نماز چھوٹ جائے اسے چاہیئے کہ ان نمازوں کی قضا بطور قصر کرے اگر چہ قضا اپنے وطن ہی میں بجا لائے اور اگر کوئی شخص مسافر نہیں ہے اور اس سے ظہرین یا عشاء کی نماز چھوٹ گئی ہو تو ان نمازوں کی قضا چار رکعت ہی پڑھنی چاہیئے خواہ وہ سفر میں ہی بجالائے ۔
مسئلہ ۱۴۸۹۔ مسافر کے لئے ہر نماز کے بعد تیس مرتبہ’’سبحان اللہ والحمد للہ و لاالہ الا اللہ و اللہ اکبر ‘‘پڑھنا مستحب ہے اور ظہر ، عصر اور عشا کی نماز کی تعقیبات میں ان کی کافی تاکید کی گئی ہے بلکہ بہتر ہے کہ ان تینوں نمازوں کی تعقیبات میں ساٹھ ساٹھ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے ۔

قضا نمازوں کے احکام
مسئلہ ۱۴۹۰۔جس نے اپنی واجب نماز وقت میں نہ ہو چاہے پورے وقت میں سوتا رہا ہو یا مستی و بے ہو شی جو اپنے اختیار سے ہے کی وجہ سے نمازنہ پڑھ سکا ہو اس پر چھوٹی ہوئی واجب نمازوں کی قضا کرنا واجب ہے ، صرف عورتوں پر حیض و نفاس میں پنجگانہ نمازوں کی قضا نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۴۹۱۔اگر وقت ختم ہو جانے کے بعد معلوم ہو کہ پڑھی ہو ئی نماز باطل تھی تو اس کی قضا بجا لانی چاہیئے۔
مسئلہ ۱۴۹۲۔جس کے ذمہ نماز قضا ہو، پڑھنے میں کو تاہی نہیں کر نی چاہیئے ہاں فوراً بجا لا نا بھی ضروری نہیں۔
مسئلہ ۱۴۹۳۔ جس کے ذمہ قضا نمازیں ہوں وہ مستحبی نمازیں پڑھ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۴۹۴۔ اگر کسی کو یہ شک ہو کہ اسکے ذمے قضا نمازیں باقی ہیں یا جو نمازیں پڑھی تھیں وہ باطل تھیں تو احتیاطاً ایسی نمازوں کی قضا کرنا مستحب ہے۔
مسئلہ ۱۴۹۵۔پنجگانہ نمازوں کی قضا میں ترتیب ضروری ہے مثلا ً کسی نے ایک دن ظہر و عصر کی ایک دن کی نماز اور مغرب و عشا کیایک رات کی نماز نہیں پڑھی ہو ، تو انکی قضا کو ترتیب کے ساتھ پڑھے اس کے علاوہ نمازوں میں بھی احتیاط مستحب کی بناپر ترتیب کا لحاظ کرے۔
مسئلہ ۱۴۹۶۔ اگر نماز یو میہ کے علاوہ دوسری چند نمازیں مثلاً نماز آیات پڑھنا چاہتا ہو یا ایک نماز یو میہ اور بقیہ غیر یو میہ نمازوں کی قضا کرنا چاہتا ہو تب ترتیب ضروری نہیںہے ۔
مسئلہ ۱۴۹۷۔چھوٹی ہوئی نمازوں کے بارے میں اگر معلوم نہ ہو کہ کون سی نماز پہلے چھوٹی ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ انھیں اس طریقہ سے پڑھے کہ یقین حاصل ہو جائے کہ قضا شدہ ترتیب کے ساتھ پڑھی چکی ہے مثلاً اگی کسی پر ایک نماز ظہر اور ایک نماز مغرب کی قضا واجب ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ کو نسی نماز پہلے چھوٹی ہے تو احتیاط مستحب کی بنا پر پہلے ایک نماز مغرب اور بعد میں ایک نماز ظہر اور اور پھر ایک نماز مغرب کی قضا پڑھے یا پہلے ایک نمازظہر بعد میں ایک نماز مغرب اور پھر ایک نما زظہر پڑھے تاکہ یقین حاصل ہو جائے جو پہلے چھوٹی ہے وہ پہلے پڑھی جاچکی ہے ۔
مسئلہ ۱۴۹۸۔اگر کسی سے ایک دن کی نماز ظہر اور دوسرے دن کی نماز عصر یا دونوںنمازیں عصر کی قضا ہو ئی ہوں اور یہ نہ جانتا ہو کہ کونسی نماز پہلے قضا ہوئی ہے تو اگر دو نمازیں چار رکعتی اس نیت سے پڑھے کہ پہلی نماز پہلے دن کی قضا اور دوسری نماز دوسرے دن کی قضا تو ترتیب کے حصول کے لئے کافی ہے ۔
مسئلہ ۱۴۹۹۔اگر کسی سے ایک نماز ظہر اور ایک نماز عشاء یا ایک نماز عصر اور ایک نماز عشا ء قضاہو جائے اور معلوم نہ ہو کہ کونسی نماز پہلے قضا ہوئی ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس طرح ان کو پڑھے کہ یقین حاصل ہو جائے کہ جس ترتیب سے قضا ہوئی تھی اسی ترتیب سے بجا لایا ہے مثلا ًاگر ایک نماز ظہر اور ایک نماز عشاء قضا ہوئی ہو اور ان میں سے کون سی پہلے قضا ہوئی ہے معلوم نہ ہو تو پہلے ایک نماز ظہر اس کے بعد نماز عشاء پھر دوبارہ ایک نماز ظہر پڑھے یا پہلے نماز عشا ء اس کے بعد ایک نماز ظہر پھر دوبارہ ایک نماز عشاء پڑھے تاکہ ترتیب کے حصول کا یقین ہو جائے ۔
مسئلہ ۱۵۰۰۔جس شخص کو معلوم ہو کہ ایک چار رکعتی نماز مجھ سے قضا ہوئی ہے لیکن یا دنہ ہو کہ ظہر کہ نماز قضا ہو ئی ہے یا عصر کی تو ایک نماز چار رکعتی اس نیت سے پڑھے کہ جو نماز چار رکعتی میرے ذمہ ہے اس کو پڑھتا ہوں کافی ہے ۔
مسئلہ ۱۵۰۱۔جس شخص سے پانچ نمازیں پے در پے قضا ہوئی ہوں اور معلوم نہ ہو کہ ان میں سے پہلے کونسی قضا ہوئی ہے تو احتیاط مستحب کی بنا پر ترتیب کی رعایت کرے یعنی نو(۹)نمازوں کو ترتیب سے پڑھ لے جیسے نماز صبح سے پڑھنی شروع کرے اور جب ظہر و عصر و مغرب و عشاء کو پڑھ لے تو دومرتبہ نماز صبح وظہر و عصر اور مغرب کو پڑھے اور اگر چھ نمازیں پے در پے قضا ہوئی ہوں اور ان میں سے پہلی قضا شدہ کو نہ جانتا ہو تو مذکورہ ترتیب کے ساتھ دس نمازیں پڑھے اسی طرح ہر نماز کے لئے ایک ایک نماز کا اضافہ ہو تا جائے گا مثلا ً اگر سات نما زیں قضا ہو ئیں ہوںاوان میں سے پہلے کون سی قضا ہوئی ہے نہیں معلوم تو مذکورہ طریقے سے گیارہ نمازیں پڑھے ۔
مسئلہ ۱۵۰۲۔جس شخص سے پانچ دن کی نماز قضا ہوئی ہوں اور ترتیب یاد نہ ہوتو احتیا ط مستحب کی بنا پرترتیب کی رعایت کرے یعنی پانچ دن کی نمازیں پڑھے اور اگر چھ دن کی نمازیں قضا ہوئی ہوں تو چھ دن کی نمازیں پڑھے ،اسی طرح قضا نمازیں جتنی بڑھتی جائیں اسی کے اعتبار سے پنجگانہ نمازیں پڑھے گا تاکہ ترتیب حا صل ہو جائے اور یقین ہو جائے کہ ان کے درمیان ترتیب آچکی ہے مثلا ً اگر سات نمازیں قضا ہوئی ہوں تو سات دن کی نماز یں پڑھے ۔
مسئلہ ۱۵۰۳۔جس شخص سے مثلا ًصبح کی یا ظہر کی کئی نمازیں قضا ہو ئی ہوں لیکن تعداد معلوم نہ ہو جیسے معلوم نہ ہو کہ تین نمازیں تھیں یا چار یا پانچ تو اگر کم تعداد کو پڑھ لے تو کافی ہیں لیکن اگر تعداد کو جانتا تھا لیکن بھول گیا ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر اتنی نمازیں پڑھے کہ اسے یقین ہوجا ئے کہ قضا نمازیں پڑھ چکا ہے مثلاًاگر صبح کی کئی نمازیں قضا ہو ئی ہوں لیکن تعداد معلوم نہ ہو البتہ یہ یقین ہو کہ ہو دس سے زیادہ نہیں تھیں تو احتیاطا ًدس نمازیں پڑھ لے ۔
مسئلہ ۱۵۰۴۔ اگر کسی شخص سے گذشتہ دن کی ایک یاکئی نمازیں قضا ہو گئی ہو ں توآج کی ادا نماز پڑھنے سے پہلے گذشتہ دن کی قضا کر نا ضروری نہیں ہے اسی طرح اگر اسی دن کی ایک یا چند نمازیں قضا ہوں۔لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے اس دن کی قضا نماز کو پڑھے اس کے بعد ادا نماز پڑھے ۔
مسئلہ۱۵۰۵۔ اگر کسی کو نماز کی حالت میں یاد آجائے کہ اسی دن کی ایک نماز یا ایک سے زیادہ نماز قضا ہیں تو اگر نماز کا وقت وسیع ہو اور نیت کو قضا کی طرف بدلنا ممکن ہوتو احتیاط مستحب یہ ہے کہ قضا نماز کی نیت کرے مثلا نماز ظہر میں تیسری رکعت کے رکوع کے کامل ہونے سے پہلے یاد آجائے کہ اسی دن کی نماز صبح قضا ہو ئی ہے اور نماز ظہر کا وقت بھی تنگ نہ ہو تو نیت کو صبح کی طرف تبدیل کرسکتا ہے اور نماز کو دو رکعت پر تمام کر دے اور اس کے بعدظہر کی نماز پڑھے ۔ ہاں اگر وقت تنگ ہو یا نماز کو قضا کی طرف بدل نہ سکے مثلاً تیسری رکعت کے رکوع میں یاد آئے کہ نماز صبح نہیں پڑھی تو چونکہ اگر نیت کو نماز صبح کی طرف پلٹائے گا تو ایک رکوع کی زیادتی لازم آئے گی جو کہ رکن ہے اور رکن کی زیادتی موجب بطلان نماز ہے لہذا نیت کو تبدیل نہیں کرسکتا ۔
مسئلہ۱۵۰۶۔اگر کسی شخص کی گذشتہ چند روز کی نما زیں قضا ہوں اور ایک نماز یا زیادہ اس دن کی بھی قضاہو ں اور گذشتہ تمام نمازوں کو پڑھنے کا وقت نہ رکھتا ہو یا تمام نمازوں کو اسی دن نہ پڑھنا چاہتا ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس دن کی قضا نماز کو اسی دن کی ادا سے پہلے پڑھے لیکن اگر چاہتا ہو کہ استحبابی ترتیب کی رعایت کرے تو جب پہلے دونوں کی قضا نمازوں کو پڑھے تو ا ن کے آخر میں اس دن کی وہ نمازجو کہ ادا نماز سے پہلے پڑھی گئی ہے اس کو دوبارہ پرھے ۔
مسئلہ۱۵۰۷۔ جب تک انسان زندہ ہے اگر اپنی قضا نمازوں کو پڑھنے سے عاجزہو دوسرا کوئی اس کی قضا نمازوں کو نہیں پڑھ سکتا ۔
مسئلہ۱۵۰۸۔قضا نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے چاہے امام کی نمازقضاہویااداضروری نہیں ہے کہ امام و ماموم ایک ہی نماز پڑھ رہے ہوں مثلاً اگر صبح کی نماز قضا کو امام کی نماز ظہر یا عصر کے ساتھ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ۱۵۰۹۔ مستحب یہ ہے کہ ممیز بچہ کو یعنی وہ بچہ جو اچھے برے کو سمجھتا ہو نماز اور دیگر عبادات بجا لا نے کی عادت ڈالی جائے بلکہ مستحب ہے کہ اس کو قضا نماز پر بھی آمادہ کیا جائے جائز ہے کہ بچے نماز جماعت کا اقامہ کریں اورایک بچہ دوسرے بچوں کا پیش نمازہو ۔

ماں ، باپ کی قضا نمازیں
مسئلہ ۱۵۱۰۔ اگر باپ اپنے نماز یا روزے کو بجا نہ لا یا ہو اور روزہ بغیر قصد نافرمانی چھوٹ گئے ہوں اور وہ ان کی قضا کر نے پر قادر رہے ہوں تو بڑے بیٹے پرو اجب ہے کہ ان کے مرنے کے بعد خود ان نمازوں اور روزوں کو بجا لائے یا اجرت دے کر کسی سے ادا کر وائے لیکن اگر بغیر کسی عذر کے ترک کیا ہے تو احتیاط مستحب کی بنا پر بڑا بیٹا اسکی قضاکرے لیکن جو روزہ سفر میں چھوٹ گئے ہوں اور ان کے قضاکر نے پر قادر نہ تھاتو احتیاط واجب یہ ہے کہ بڑا بیٹایا تو خود ادا کرے یا اجرت دے کر ادا کروائے اور احتیاط مستحب کی بنا پر ماں کی نما زو روزہ کا بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ ۱۵۱۱۔ اگر بڑے بیٹے کو شک ہو کہ میرے والدین پر قضا نمازیں تھیں یا نہیں تو پھر اس پر کچھ واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۵۱۲۔ اگر بڑے بیٹے کو علم ہو کہ والدین پر قضا نمازیں تھیں لیکن شک ہو کہ ان کو بجا لا ئے یا نہیں تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان کو بجالا ئے ۔
مسئلہ ۱۵۱۳۔ اگر معلوم نہ ہو کہ مرنے والے کا کون سا لڑکا بڑا ہے تواحتیاط یہ ہے کہ آپس میں نماز وںاور روزوں کو تقسیم کر لیں یا قرعہ ڈال لیں ۔
مسئلہ ۱۵۱۴۔ اگر خود مرنے والے نے اپنی نمازوں کے لئے اجرت پر پڑھوانے کی وصیت کر دی ہواور اجرت لینے والا صحیح طریقہ سے نماز وں کی قضابجا لا یا ہو تو بڑے لڑکے پر واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۵۱۵۔ بڑا بیٹا ماں باپ کی قضانمازکو پرھتے وقت اپنی تکلیف کے مطابق عمل کرے گا مثلا ماں کی صبح مغرب عشاء کی نمازوں بلند آواز سے پڑھے گا ۔
مسئلہ ۱۵۱۶۔ جس کے ذمہ اپنے روزے اورنماز کی قضا ہو ں اور ماں باپ کی نمازیں اور روزے بھی اس کے ذمہ ہوں تو ا سکو اختیار ہے کہ جس کو چاہے پہلے ادا کرے ۔
مسئلہ ۱۵۱۷۔ ماں یا باپ کے مرتے وقت بڑا بیٹا اگر دیوانہ یا نا با لغ تھا تو جب وہ بالغ و عاقل ہو جا ئے اس وقت ان کے روزے اور نماز کی قضا کرے اور اگر بالغ و عاقل ہو نے سے پہلے مر جا ئے تو دوسرے لڑکے پر کچھ بھی واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۵۱۸۔ اگر بڑا بیٹا کہ جو بالغ و عاقل تھاباپ کی قضا نماز وروزے کے پورا کر نے سے پہلے مر جا ئے تو دوسرے بیٹے پر کچھ بھی واجب نہیں ہے ۔

نماز اجارہ
مسئلہ ۱۵۱۹۔انسا ن کے مرنے کے بعد نماز اور اس کی دوسری عبادات کو جو وہ زندگی میں نہیں بجا لا یا اس کے لئے کسی اور کو اجیر بناسکتے ہیں لیکن اس کو مزدوری دیں کہ ان عبادتوں کو بجا لا ئے اور اگر کوئی بلا اجرت بھی بجا لا ئے تو بھی صحیح ہے ۔
مسئلہ۱۵۲۰۔ مستحبی چیزیں جیسے رسول اللہ ؐاور آئمہ معصومین علیھم السلام کے قبور کی زیارتوں کو انسان زندہ لوگوں کی طرف سے اجرت پر انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح مستحب اعمال انجام دے کر اس کا ثواب مردوں اور زندہ افراد کو ہدیہ کر سکتے ہیں ۔
مسئلہ ۱۵۲۱۔ میت کی اجارہ پر نماز پڑھنے والے کو چاہئیے کہ مجتھد ہو یا صحیح تقلید سے نماز کے مسائل کو جا ننے والا ہو ۔
مسئلہ ۱۵۲۲۔ اجرت پر نماز پڑھنے والے کو چاہئیے کہ نیت کے وقت میت کو معین کرے اور ضروری نہیں ہے کہ اس کے نام کو جانتاہواگر اس طرح ہو کہ وہ نیت کرے کہ جس کی طرف سے میں نے اجرت لی ہے اس کی طرف سے میں نماز پڑھتا ہو ں تو کا فی ہے ۔
مسئلہ ۱۵۲۳۔ اجیر(یعنی جو شخص اجرت لے کر نماز پڑھے )کو چاہئیے کہ وہ نیت کرے جو کچھ میت کے ذمہ ہے ، میں اس کو بجا لا رہاہوں ۔
مسئلہ ۱۵۲۴۔ ایسے شخص کو اجیر بنانا چاہئیے جس کے بارے میں یقین ہو کہ اعمال کو صحیح بجا لا تا ہے ۔
مسئلہ ۱۵۲۵۔ اگر کسی کو اجیر کیا کہ میت کی نمازیں انجام دے اور معلوم ہو جا ئے کہ اس نے کام کو پورا نہیں کیا یا باطل طریقہ سے بجا لا یا ہے تو کسی دوسرے شخص کو اجیر بنانا چاہئیے۔
مسئلہ ۱۵۲۶۔ اگر شک ہو جا ئے کہ اجیر کے ذمہ جو عمل مثلاً نماز تھی وہ بجا لا یا یا نہیںاور اجیر کہہ دے کہ میں بجالا یا ہوں اگر وہ با وثوق ہو تو ا سکا کہنا ہی کا فی ہے، اور اگر شک ہو کہ اجیر اس عمل کو صحیح بجا لا یا ہے یا نہیں تو کسی دوسرے شخص کو اجیر بنا نا لازم نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۵۲۷۔ جو مجبور ہو مثلا بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو، میت کی نمازوں کے لئے اجیر نہیں بنایا جا سکتا اگر چہ احتیاط کی بنا پر میت کی نمازیں بھی اسی طرح قضا ہو ئی ہوں ۔
مسئلہ ۱۵۲۸۔مرد ، عورت کے لئے اور عورت ،مرد کے لئے اجیر ہو سکتے ہیںاور یہ اجیر کی تکلیف پر منحصر ہے کہ وہ نماز کو بلند آواز سے پڑھے یا آہستہ آواز کے ساتھ ۔
مسئلہ ۱۵۲۹۔میت کی قضا نمازوں کے سلسلے میںاگر اسکی ادا نمازوں میںترتیب معتبر تھی مثلاً ایک دن کی ظہر و عصرکی نماز تواس کو ترتیب کے ساتھ پڑھا جائے گا لیکن اگر انکی ترتیب معلوم نہ ہو توترتیب کی رعایت لازم نہیں ہے لہٰذا واجب نہیں ہے کہ اجیر سے شرط کرے کہ اتنی نماز پڑھو کہ ترتیب حا صل ہو جائے۔
مسئلہ ۱۵۳۰۔اگر اجیر سے کسی مخصو ص طریقہ سے ادائیگی کی شرط کر لی گئی ہو اور وہ اسکی نظر میں باطل نہ ہو تو اجیر اس کا پابند ہے کہ اسی طرح بجا لائے ، البتہ اگر شرط نہ ہو تو اجیر کو اپنے فرض کے لحاظ سے پڑھنا چاہیئے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ فریضہ میت اور اپنے طریقہ میں جو احتیاط سے قریب ہو اس پر عمل کرے مثلا ً اگر فریضہ میت تسبیحات اربعہ کو تین مرتبہ پڑھنا تھا اور اجیر کا طریقہ ایک ہی مرتبہ کا ہے تو تین مرتبہ کہے۔
مسئلہ ۱۵۳۱۔اگر اجیر سے شرط نہ کی گئی ہو کہ نما زکو کس قدر مستحب کا موں کے ساتھ ادا کرے گا تو اجیر کو چاہیئے کہ عام طور سے لو گ جن مستحبات کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں وہ بھی انہی مستحبات کے ساتھ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۵۳۲۔اگر کوئی شخص کئی لوگوں کو میت کی قضا نماز وں کے لئے اجیر کرے تو احتیاط مستحب کی بنا پر اجیروں کے اوقات معین کر دینا بہتر ہے مثلا ً ایک سے طے کر لے کہ تم صبح سے لے کر ظہر تک پڑھا کرو اور دوسرے سے طے کر لے تم ظہر سے لیکر شب تک کی پڑھا کرو اسی طرح ہر مرتبہ شروع ہونے والی نماز کو بھی معین کر دینا چاہیئے مثلا ً یہ طے کر لینا چاہیئے کہ پہلے نماز صبح کی یا ظہر کی یا عصر کی پڑھنی پڑے گی اسی طرح اجیروں سے یہ بھی طے کر لینا چاہیئے ہر مرتبہ ایک دن کی پو ری نماز پڑھنی پڑے گی اور اگر ایک دن کی پو ری نہ پڑھ سکیں تو ا سکو شمار نہ کریں اور دوبارہ رات دن کی نمازوںکو شروع سے انجام دیں ۔
مسئلہ ۱۵۳۳۔ اگر کسی کو مثلا ً سال بھر میں میت کی نماز وں کو پڑھنے کے لئے اجیر کیا جائے اور وہ شخص سال تمام ہو نے سے پہلے مر جائے تواحتیاط واجب کی بنا پر جن نمازوں کے لئے معلوم ہے کہ اجیر نہیں پڑھ سکایا احتمال ہو کہ نہیں پڑھ سکا ہے ان کے لئے دوسرا اجیر کرنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۵۳۴۔ اگر کسی کو اس شرط سے کہ تمام نمازیں وہ خود ہی پڑھے میت کی نمازوں کا اجیر بنا یا جائے اجیر بنا کر پوری اجرت دے دی جائے اور اجیر نمازیں پوری ہو نے سے پہلے مر جائے تو اجیر کے مال سے باقی رہ جانے والی نماز وں کی اجرت سے میت کے ولی کو واپس کر دینی چاہیئے مثلا ً اگر آدھی نمازیں نہیں پڑھی ہیں تو چاہیئے کہ جو مال لیا تھا اس کا آدھا اس کے مال سے لے کر میت کے ولی کو دے دیں اور اگر اجیر سے خود پڑھنے کی شرط نہ کی گئی ہو تو اجیر کے ورثا ء کو چاہیئے کہ باقی بچے ہوئے پیسے سے دوسرا اجیر کریں لیکن اگر اجیر نے مرنے کے بعد ترکہ میں کچھ مال چھوڑا ہی نہ ہو ، تب اجیر کے ورثا ء کے ذمہ کچھ واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۵۳۵۔ اگر اجیر میت کی نمازیں پوری کرنے سے پہلے مر جائے اور خود اجیر کے ذمہ بھی قضا نمازیں ہو ں تو اس کے مال سے ان نمازوں کے لئے کہ جس کی اجرت لی تھی دوسرا اجیر معین کرنا چاہیئے اب اگر کچھ مال بچ جائے اور اجیر بھی اپنی قضا نمازوں کی وصیت کرکے مرا ہو اورا س کے ورثا ء بھی اجازت دے دیں تو اس کی تما م نمازوں کے لئے اجیر معین کیا جائے لیکن اگر ورثا ء راضی نہ ہوں تو اجیر کے صرف ایک تہائی مال سے اس کی قضا نمازوں کے لئے خرچ کرنا چاہیئے ۔
نماز آیات
مسئلہ ۱۵۳۶۔نماز آیات جس کا طریقہ آئندہ بیان ہو گا چار چیزوں سے واجب ہوتی ہے ۔
اول ۔سورج گہن
دوم ۔ چاندگہن چاہے گہن تھوڑا سا ہی ہوا ہو اور چاہے کوئی آدمی اس سے خوفزدہ نہ ہوا ہو ۔
سوم ۔زلزلہ چاہے کو ئی خوف زدہ نہ ہوا ہو
چہارم۔بجلی کی شدیدچمک و کڑک ، سرخ و سیاہ آندھیاں اور ا س قسم کی چیزیں جبکہ ان چیزوں سے زیادہ تر لوگ خوفزدہ ہو جائیں ۔
مسئلہ ۱۵۳۷۔اگر نماز آیات کے سبب ایک سے زیادہ واقع ہو جائیں مثلاً سورج گہن ہو جائے اور زلزلہ بھی آجائے تو ہر ایک کے لئے الگ االگ نماز آیات پڑھنی چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۵۳۸۔ اگر کسی پر کئی نماز آیات واجب ہوں اور وہ سب کی سب ایک ہی سبب سے واجب ہوں مثلاً تین مرتبہ سورج کو گہن لگا ہو اور اس نے تینوں مرتبہ نماز نہیں پڑھی تو قضا کرتے وقت یہ ضروری نہیں کہ نیت میں یہ بھی معین کرے کہ یہ فلاں دفعہ سورج گہن کی قضا ہے ،اسی طرح اگر رعد و برق سیاہ وسرخ آندھیاں اورا سی قسم کی چیزوں کی وجہ سے کئی نمازیں واجب ہو گئی ہوں تو قضا کرتے وقت معین کرنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر سورج گہن چاند گہن اور زلزلہ کی وجہ سے تین نمازیں واجب ہو گئی ہوں یا ان میں سے دو کی وجہ سے واجب ہو ئی ہوں تو بنا بر احتیاط مستحب قضا کرتے وقت یہ معین کر لینا چاہیئے کہ یہ کون سے گہن کی نماز ہے ۔
مسئلہ ۱۵۳۹۔جن چیزوں کی وجہ سے نماز آیات واجب ہو تی ہے وہ چیز یں جس شہر میں واقع ہوئی ہوں اسی شہر والوں پر نماز آیات واجب ہو گی ،دوسری جگہ کے رہنے والوں پر واجب نہیں ہے ہاںاگر وہ بستیاں اتنی قریب ہو ں کہ سب ایک ہی شہر کی شمار ہوتی ہوں تو ایسی صورت میں سب پر نماز آیات واجب ہو گی ۔
مسئلہ ۱۵۴۰۔جس وقت سے چاند یا سورج میں گہن لگنا شروع ہو جائے اسی وقت نماز آیات پڑھنی چاہیئے اور بنا بر احتیاط مستحب اتنی دیر نہ کرنی چاہیئے کہ گہن ختم ہو نا شروع ہو جائے ۔
مسئلہ ۱۵۴۱۔اگر نماز آیات پڑھنے میں اتنی دیر کرے کہ گہن ختم ہونے لگا ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پرنماز فقط قربت کے قصد پڑھے اور ادا و قضا کی نیت نہ کرے اور اسی طرح جب پورا گہن ختم ہو جائے اس کے بعد نماز آیات پڑھے تو ادا و قضا کی نیت نہ کرے۔
مسئلہ ۱۵۴۲۔اگر سورج یا چاند کے گہن لگنے کی مدت ایک رکعت پڑھنے کے برابر یااس سے بھی کم ہو تو نماز کو ادا کے قصد سے پڑھے اسی طرح اگر ان کے گہن لگنے کی مدت نماز کی ایک رکعت پڑھنے کی مقدار سے زیادہ ہو اور انسان نماز کو نہ پڑھے تو ا سنے گنا ہ کیا ہے ، لہٰذا اس پرعمر کے آخری حصے تک واجب ہے کہ وہ قضا کے قصد سے نماز پڑھے ۔
مسئلہ ۱۵۴۳۔ کڑک ، بجلی زور زلزلہ کے موا قع پر فوراً نماز آیات پڑھنی چاہیئے اور اگر نماز نہ پڑھے تو گنہگار ہے لیکن آخر عمر تک وہ نماز واجب رہے گی اور جس وقت بھی پڑھے گا ادا میں شمار ہو گی ۔
مسئلہ ۱۵۴۴۔اگرکسی شخص کو یہ علم نہ ہو کہ سورج گہن یا چاند گہن لگاہے اگر گہن کے ختم ہو جانے کے بعد معلوم ہو کہ پورا گہن لگا تھا تو نماز آیات کی قضا واجب ہے لیکن اگر یہ معلوم ہو جائے کہ تھوڑا سا گہن لگا تھا تو قضا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۵۴۵۔ اگر کچھ لوگوں کی چاند گرہن اور سورج گرہن کی خبر سے کسی کو یقین پیدا ہو اور وہ نماز آیات نہ پڑھے لیکن بعد میں معلوم ہو کہ ان لوگوں کی خبر صحیح تھی اور گرہن بھی پورا لگا تھا تب نماز آیات کی قضا کر نی چاہئیے لیکناکر تھوڑا سا گہن لگا تھا تو نماز آیات پڑھنا واجب نہیں ہے ۔اگر دو ایسے آدمی جن کی عدالت معلوم نہ ہو سورج یا چاند گرہن کی خبر دیں اوربعد میں معلوم ہو جا ئے کہ یہ لوگ عادل تھے تو نماز آیات پڑھنی چاہئیے بلکہ بنابر اقویٰ ایک با وثوق شخص کے کہنے پر بھی نماز آیات پڑھنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۵۴۶۔ اگر انسان ان لوگوں کے کہنے پر جو قواعد علمی کی بنا پر سورج یا چاند گرہن کے وقت کو جانتے ہیںاور انسان کواطمینان ہو جائے کہ سورج یا چاند گہن ہو اہے توبنا بر احتیاط واجب نماز آیا ت پڑھنی چاہئیے اسی طرح اگر وہ لوگ کہہ دیں کہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک سورج یا چاند گرہن ہو گا اور انسان کو ان کے کہنے سے اطمینان بھی پیدا ہو جا ئے تو بنا بر احتیاط واجب ان کے کہنے پر عمل کر نا چاہئیے مثلا اگر وہ لوگ بتا ئیں کہ فلاں وقت سے گرہن کھلنا شروع ہو گا تو احتیاط واجب کی بنا پرنماز کواس وقت تک تاخیر نہ کرے ۔
مسئلہ ۱۵۴۷۔ اگر نماز آیات جو پڑھی ہے ،اس کے باطل ہو جا نے کا علم ہو جا ئے تو دوبارہ پڑھنی چاہئیے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو قضا کر نی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۵۴۸۔ اگر نماز یومیہ کے وقت نماز آیات واجب ہو جا ئے اور دونوں نمازوں کے لئے و قت ہو توجس نماز کو چاہے پہلے پڑھے کوئی اشکال نہیں ہے اور اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کا وقت تنگ ہو تو پہلے اسی کو پڑھے اور اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو پہلے نمازیومیہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۵۴۹۔ نماز یومیہ پڑھتے وقت اگر نماز آیات کی تنگی وقت کا علم ہو جا ئے اور نماز یومیہ کا بھی وقت تنگ ہو ، تب نماز یومیہ تمام کر کے نماز آیات پڑھے اور اگر نماز یومیہ کا وقت وسیع ہو تو اس کو توڑ کر پہلے نماز آیات پڑھے ، پھر یومیہ نماز بجالائے ۔
مسئلہ ۱۵۵۰۔ نمازآیات پڑھتے وقت اگر نماز آیات کی تنگی وقت کا علم ہو جا ئے تو نماز آیات کو توڑ کر نماز یومیہ پڑھنی چاہئیے اور نماز ختم کر کے بغیر کوئی ایسا کام کئے جس سے نماز باطل ہو جا تی ہے نماز آیات کو جہاں سے چھوڑا ہے وہیں سے تمام کرے اور احتیاط مستحب کی بناپرنماز آیات کو دوبارہ پڑھے۔
مسئلہ ۱۵۵۱۔ اگر سورج یا چاندگہن و غیرہ عورت کے زمانہ حیض و نفاس میں لگے تب نہ اس پر نما زآیات واجب ہے اور نہ اس کی قضا واجب ہے ،البتہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ پاک ہو نے کے بعداس کی قضا کرے ۔
نماز آیات کا طریقہ
مسئلہ ۱۵۵۲۔نماز آیات کی دو رکعتیں ہیں اور ہر رکعت میں پا نچ رکوع ہیں ، نماز آیات کا طریقہ یہ ہے کہ نیت کے بعد تکبیرۃ الاحرام کہے اورا سکے بعد سورہ الحمد اور کوئی دوسرا سورہ مکمل پڑھے اور پھر رکوع میں جا ئے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد دوبارہ سورہ حمد و سورہ پڑھ کر رکوع میں جا ئے اسی طرح پانچ رکوع کرے پانچویں رکوع کے بعد دونوں سجدے کر کے کھڑا ہوجا ئے اور پہلی رکعت کے مانند دوسری رکعت پڑھ کر تشھد و سلام کے بعد نماز کو تمام کر دے ۔
مسئلہ ۱۵۵۳۔ نماز آیات میں یہ بھی جا ئز ہے کہ نیت و تکبیر و سورہ حمد پڑھنے کے بعد کسی سورہ کے پانچ حصے کر کے ایک آیت یا اس سے زیادہ کو پڑھ کر رکوع میں چلا جا ئے اور رکوع سے کھڑا ہو کر بغیر حمد پڑھے سورہ کا دوسرا حصہ پڑھ کر رکوع میں چلا جا ئے اور پھر رکوع سے کھڑا ہو کر تیسرا حصہ پڑھے اور رکوع کرے اسی طرح پانچویں رکوع سے پہلے سورہ مکمل کر لے مثلاً سورہ توحمد کے بعدسورہ توحید کی نیت سے ’’بسم اللہ الر حمن الرحیم ‘‘ پڑھ کر رکوع میں چلا جا ئے ، اور دوبارہ رکوع سے کھڑا ہو کر صرف’’قل ھو اللہ احد‘‘پڑھ کر رکوع میں چلا جا ئے ، پھر رکوع سے کھڑا ہوکر ’’اللہ الصمد ‘‘پڑھ کر رکوع میں چلا جا ئے اس کے بعد رکوع سے کھڑا ہو کر ’’لم یلد ولم یولد ‘‘ پڑھ کر رکوع میں چلا جا ئے پھر کھڑا ہو کر ’’ولم یکن لہ کفواًاحد‘‘پڑھ کر پانچواں رکوع کرے اور پانچویں رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور پہلی رکعت کے طریقہ پر دوسری رکعت بھی پڑھے اور دونوں سجدوں کے بعد تشہد سلام پڑھ کر نماز تمام کر دے ۔
مسئلہ ۱۵۵۴۔ اگر نماز آیات کی ایک رکعت میں پانچ مرتبہ حمد وسورہ پڑھے اور دوسری رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور ایک سورہ کو پانچ حصے کر کے پڑھے تب بھی کو ئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۵۵۵۔ جو چیزیں نماز یومیہ میں واجب یا مستحب ہیں وہی چیزیں نماز آیات میں بھی واجب و مستحب ہیں البتہ نمازآیات میں اذان واقامت کے بدلے تین مرتبہ ’’الصلوٰۃ ‘‘کہنا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۱۵۵۶۔ پانچویں اور دسویں رکوع کے بعدکھڑے ہو کر ’’سمع اللہ لمن حمد ‘‘ کہنا مستحب ہے اسی طرح ہر رکوع سے پہلے اور بعد میں تکبیر کہنا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۱۵۵۷۔ دوسرے اور چوتھے، چھٹے اور آٹھویں اور دسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا مستحب ہے اور اگر صرف دسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھے تب بھی کا فی ہے ۔
مسئلہ ۱۵۵۸۔ اگر نمازآیات میں شک ہو جا ئے کہ کتنی رکعتیں پڑھیں ہیں اور فکر کسی چیز کو طے نہ کر سکے تو نماز باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۵۵۹۔ اگر شک ہو جا ئے کہ پہلی رکعت کے آخری رکوع میں ہے یا دوسری رکعت کے پہلے رکوع میںہے اور ذہن کسی بات کو طے نہ کر سکے تو نماز باطل ہے لیکن اگر یہ شک ہو جا ئے کہ چار رکوع کئے ہیں یا پانچ اور ابھی سجدہ تک نہیں پہنچا ہے تو جس رکوع کے بجا لانے میں شک ہواہے اس کو بجا لا نا چاہئیے اور اگر سجدہ کو پہنچ چکا ہو تو اس شک کی پرواہ نہیں کر نی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۵۶۰۔ نماز آیات کا ہر رکوع رکن ہے جس کی سہواً یا عمداً کمی یا زیادتی سے نماز باطل ہو جا تی ہے ۔

نمازعیدین
(عید الفطر و عید قربان )
مسئلہ ۱۵۶۱۔ نماز عید فطر و قربان ، امام علیہ السلام کے حاضر ہو نے کے زمانے میں واجب ہے اور جماعت سے پڑھناچاہئیے اوراس زمانے میں جبکہ امام علیہ السلام غائب ہیں نماز عیدین مستحب ہے اور اسے تنہا یا جماعت دونوں طریقہ سے پڑھا جا سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۵۶۲۔ عید فطر (یکم شوال)عید قربان(دھم ذی الحجہ) کی نماز کاوقت طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے ۔
مسئلہ ۱۵۶۳۔ عید قربان کی نماز آفتاب چڑھنے کے بعد پڑھنامستحب ہے اور عید فطر میں آفتاب چڑھنے کے بعد افطار کر نا مستحب ہے اور زکوٰۃفطرہ دینا بھی اور پھر نماز عید پڑھنی چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۵۶۴۔ عید فطر و قربان کی نما ز دو رکعت ہے ، پہلی رکعت میں حمد وسورہ کے بعد پانچ تکبیر کہنا چاہئیںاور ہر تکبیر کے بعد ایک قنوت پڑھنا چاہئیے اورپانچویں قنوت کے بعد ایک اورتکبیر کہہ کر رکوع میں جانا چاہئیے اور رکوع کے بعد دو سجدے بجا لا ئے اور دونوں سجدوں کے بعد کھڑے ہو کر دوسری رکعت میں حمد وسورہ کے بعدچار تکبیر کہنا چاہئیے اور ہر تکبیر کے بعد ایک قنوت پڑھنا چاہئیے اور پانچویں تکبیر کہہ کر رکوع میں جا نا چاہئیے اور رکوع کے بعد دونوں سجدے کر کے تشہدو سلام پڑھے ۔
مسئلہ ۱۵۶۵۔ عید فطر وقربان کے قنوت میں کوئی بھی دعا یا ذکر پڑھا جا ئے کا فی ہے لیکن ان دو دعاؤں میں سے کسی ایک کو پڑھنا بہتر ہے ۔
اول’’اللھم اھل الکبریاء والعظمہ واھل الجود والجبروت واھل العفو والرحمۃو اھل التقوٰی و المغفرۃاسئلک بحق ھذا الیوم الذی جعلتہ للمسلمین عیداً و لمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ ذخراً وشرفا ًو مزیدا ، ان تصل علیٰ محمدٍو آل محمد وان تدخلنی فی کل خیرا دخلت فیہ محمد اًوآل محمدٍوان تخرجنی من کل سوءٍاخرجت منہ محمداًو آل محمدٍ ، صلواتک علیہ وعلیھم اللھم انی اسئلک خیر ما سئلک منہ عبادک الصالحون واعوذ بک مما استعاذمنہ عبادک المخلصون ‘‘
دوم ’’اللہ ربی ابداً واالاسلام دینی ابداً ، و محمد نبیی ابداً ، والقرآن کتابی ابداًوالکعبۃ قبلتی ابداً، وعلی ولیی ابدا ًوالاوصیاء الحسن والحسین وعلی ومحمد وجعفر وموسیٰ وعلی ومحمد وعلی و الحسن والمھدی المنتظر علیہم السلام آئمتی ابداً‘‘۔
مسئلہ ۱۵۶۶۔ امام علیہ السلام کے زمانہ غیبت میں مستحب ہے کے نماز عید فطر و قربان کے کے بعد دو خطبہ پڑھے جا ئیں اور بہتر ہے کہ عید فطر کے خطبہ میں زکوٰۃفطر ہ کے احکام بیان ہوں اور عید قربا ن کے خطبہ میں قربانی کے احکام بیان کئے جا ئیں ۔
مسئلہ ۱۵۶۷۔ عید فطر وقربان کی نماز میں کوئی سورہ مخصوص نہیں ہے لیکن پہلی رکعت میں حمد کے بعد سورہ شمس (س۹۱)اور دوسری رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ غاشیہ (س۸۸)کا پڑھانا بہتر ہے یا پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ اعلیٰ(س۸۷)اور دوسری رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ شمس پڑھے ۔
مسئلہ ۱۵۶۸۔ نماز عید صحرا اور بیابان میں پڑھنا مستحب ہے لیکن مکہ میں مستحب ہے کہ مسجدالحرام میں پڑھی جا ئے ۔
مسئلہ ۱۵۶۹۔ مستحب ہے کہ نماز عید پڑھنے کے لئے پیادہ وپابرہنہ اور وقار کے ساتھ جا ئیں اور نماز پڑھنے سے پہلے غسل کریں اور سر پر عمامہ سفید باندھیں ۔
مسئلہ ۱۵۷۰۔ مستحب ہے کہ نماز عید میں زمین پر سجدہ کرے اور تکبیر کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کرے اور اگر امام جماعت ہے یا اکیلے نماز پڑھ رہا ہے تو بلند آواز سے نماز پڑھنا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۱۵۷۱۔ شب عید فطر نماز مغرب و عشاء کے بعد اور روز عید نماز صبح کے بعد اور خود نماز عید فطر کے بعد ان تکبیروں کا پڑھنا مستحب ہے ’’اللہ اکبر ، اللہ اکبر ،لا الہ الا اللہ واللہ اکبر وللہ الحمد ، الحمد للہ علی ما ھدانا ولہ الشکر علیٰ ما اولانا ‘‘
مسئلہ ۱۵۷۲۔ نماز عید قربان میں دس نماز وں کے بعد تکبیروں کا پڑھنا مستحب ہے کہ جنکی پہلی نماز ع عید کے دن کی ظہر کی نماز اورآخری نمازبارہویں ذی الحجہ کی صبح کی نماز ہے وہ تکبیر جوپہلے مسئلہ میں بیان کی جا چکی ہیں ’’علیٰ ما ھدانا ‘‘تک تکبیر پڑھے اور اس کے بعد یہ بھی پڑھے ’’اللہ اکبرعلی ما رزقنا من بھیمۃ الانعام والحمد للہ علی ما ابلانا ‘‘لیکن عید قربان کے دن اگر کوئی میدان منیٰ میں ہو تو اس کے لئے پندرہ نمازوں کے بعد تکبیر کہنا مستحب ہے یعنی عید قربان کی نماز ظہر کے بعد تیرہویں ذی الحجہ کی نماز صبح کے بعد تک نماز وں میں ان تکبیروں کو پڑھے ۔
مسئلہ ۱۵۷۳۔اگر قنوت کے عدد یا رکوع کے عدد میں شک کرے اور بعد والے عمل میں مشغول ہو گیا ہو تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے والابنا کم پر رکھے ۔
مسئلہ ۱۵۷۴۔ نماز عیدیں میں بھی ماموم کو چاہئیے کہ باقی نماز وںکی طرح حمد وسورہ کے سواتمام چیزیں خود پڑھے ۔
مسئلہ۱۵۷۵۔ اگر اماموم اس وقت پہنچے جب امام نماز کی کچھ تکبیریں کہہ چکا ہوتو جب امام رکوع میں جا ئے تو ماموم کو چاہئیے کہ جتنی تکبیریں اور قنوت نہیں پڑھا تھاخود پڑھے اور اگر ہر قنوت میں ایک مرتبہ سبحان اللہ یا الحمد للہ کہہ دے پھر بھی کا فی ہے ۔
مسئلہ ۱۵۷۶۔ اگر ماموم اس وقت پہنچے جب امام رکوع کی حالت میں ہو تو نیت کرے اور پہلی تکبیر کہہ کر رکوع میں امام کے ساتھ شریک ہو جا ئے ۔
مسئلہ ۱۵۷۷۔ اگر نماز عید میں تشہد یا ایک سجدہ بھول جا ئے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کو نماز کے بعد بجا لا ئے اگر نماز عیدمیں کوئی ایسا فعل کرے جس کی وجہ سے نماز یومیہ میں سجدہ سہو واجب ہو جا تا ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کے بعد دو سجدہ سہو بجا لا ئے ۔

نماز جمعہ
مسئلہ ۱۵۷۸۔ ’’نماز جمعہ‘‘زمانہ غیبت امام علیہ السلام میں واجب تخیری ہے یعنی اس روز بجا ئے نماز ظہر کے نماز جمعہ پڑھ سکتا ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر بھی پڑھے ۔
مسئلہ ۱۵۷۹۔ نماز جمعہ، صبح کی نماز کی طرح دو رکعت ہے احتیاط مستحب یہ ہے کہ سورہ حمد اور دوسرا سورہ بلند آواز سے پڑھے ۔ تاکیدا ًمستحب یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ جمعہ پڑھے اور دوسری رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ منافقون پڑھے ، نماز جمعہ میں دو قنوت مستحب ہیں ، ایک قنوت پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے اور دوسرا قنوت دوسری رکعت میں رکوع کے بعد ہے اور دوسری رکعت میں قنوت کے بعد دوبارہ رکوع میں نہیں جانا چاہئیے ، اگر چلا گیا تو نماز باطل ہوجا ئے گی ۔
مسئلہ ۱۵۸۰۔ نماز جمعہ کی دو رکعتوں میں شک ہو جا ئے تو نماز باطل ہے۔
مسئلہ ۱۵۸۱۔ نماز جمعہ میں دوسری نماز کے عام شرائط کے علاوہ چند چیزیں ضروری ہیں ۔(اول)نماز جمعہ، با جماعت پڑھی جا ئے۔(دوم)امام وماموم ، کم از کم سات شخص بالغ ہو نے چاہئیں اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ مسافر جس کی نماز قصر ہے ، ان سات اشخاص میں شامل نہ ہو ں اور اگر امام وماموم کل پانچ شخص ہو ں تو نماز صحیح ہو گی لیکن واجب نہیں ہو گی ۔(سوم)نماز سے پہلے ، امام جمعہ کو دو خطبہ پڑھنے چاہئیں جن کی تفصیل آگے ہے ۔(چہارم)جن دو جگہوں پر نماز جمعہ کا انعقاد برپا ہے ، ان کے درمیان فاصلہ کم ازکم ایک فرسخ شرعی (ساڑھے پانچ کیلومیٹر) ہو نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۵۸۲۔ اگر نماز، خطبہ جمعہ کے دوران یا نماز شروع ہو نے سے پہلے منتشر ہو جا ئیں اور چار شخص (شرائط سے کم )ہو جا ئیں تو نماز جمعہ صحیح نہیں ہو گی ، اس صورت میں نماز ظہر پڑھنی چاہئیے لیکن اگر نماز شروع ہو نے کے بعد ، نمازی نماز توڑ کر ادھر ادھر جا ئیں تو احتیاط یہ ہے کہ امام جمعہ ، نماز جمعہ مکمل کر نے کے بعد نماز ظہر بھی پڑھے ۔
مسئلہ ۵۸۳ا۔ احتیاط واجب کی بنا پر پہلے خطبہ میں حمد و ثناء خدا ئے تعالیٰ، محمد و آل محمد پر صلوات اور لوگوں کو تقویٰ اور پرہیز گا ری کی دعوت دی جا ئے اور ایک سورہ مکمل پڑھا جا ئے اور دوسرے خطبہ میں آئمہ معصومین علیہم السلام کے نام کے ساتھ صلوات پڑھے اور مومین کے لئے استغفار کیا جا ئے ۔
مسئلہ ۱۵۸۴۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ حمد و ثناء خدا تعالیٰ اور درود وسلام و فضائل محمد و آل محمد عربی زبان میں بیان کئے جا ئیں لیکن لوگوں کو دعوت تقویٰ وپرہیز گا ری اور سیاسی ، سماجی اور اجتماعی مسائل اپنی زبان میں اگر بیان کئے جا ئیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۵۸۵۔نماز جمعہ کے دونوں خطبے امام جمعہ خود پڑھینہ یہ کہ کوئی دوسرا شخص اور کھڑے ہو کر پڑھے ،اور دونو ںخطبوں کے درمیان تھوڑی دیر کے لئے بیٹھنا واجب ہے ، خطبوں کو بلند آواز سے پڑھنا چاہیئے کم از کم چار واجد شرائط تک آواز پہنچنا چاہیئے لیکن اچھی بات یہی ہے کہ سارے حاضرین سنیں ۔
مسئلہ ۱۵۸۶۔احتیاط یہ ہے کہ امام جمعہ کو خطبوں کے دوران با وضو ہو نا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۵۸۷۔مستحب ہے کہ امام جمعہ کو دوران خطبہ ، سر پر عمامہ ہو نا چاہیئے ، ہاتھ میں عصا یا لو ہے کا ہتھیار ہو نا چاہیئے ، اذان کے دوران منبر کے درمیان بیٹھ جانا چاہیئے اور خطبے شروع کرنے سے پہلے حاضرین کو سلام کرنا چاہیئے اور امام کے سلام کا جواب مامومین پر واجب کفائی ہے ۔
مسئلہ ۱۵۸۸۔احتیاط واجب یہ ہے کہ حاضرین خطبہ جمعہ کو بڑے سکون وآرام سے سنیں آپس میں گفتگو نہ کریں ، حتیٰ کہ نماز نافلہ بھی نہ پڑھیں ،بنا بر احتیاط مستحب امام جمعہ کی طرف رخ کر کے بیٹھیں ، دائیں بائیں نہ دیکھیں ، ادھر ادھر نہ جائیں لیکن خطبوں کے مکمل ہو نے کے بعدسے نماز شروع ہونے تک ان سب کاموں میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۵۸۹۔ اگر مامومین خطبوں کو نہ سنیں،خطبوں کے درمیان دائیں بائیں دیکھیں یا گفتگو کریں تو انکی نماز جمعہ تو صحیح ہے لیکن انہوں نے احتیاط کے خلاف عمل کیاہے ۔
مسئلہ ۱۵۹۰۔امام جمعہ کو بالغ ، عاقل ،مرد، شیعہ اثنا عشری ، حلال زادہ ، عادل اور کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنے پر قادر ہونا چاہیئے ، لیکن احتیاط واجب کی بنا پر امام کو کوڑھ یا سفید داغ نہ ہو،اور اس پر شرعی حد جاری نہ ہوئی ہو ، احتیاط واجب کی بنا پر مرجع تقلید کی طرف سے واجد شرائط کا تعین ہو نا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۵۹۱۔ نماز جمعہ بچوں ، پاگلوں ، سن رسیدہ ، مریضوں ، نابیناؤں، مسافروں ، عورتوں اور جو لوگ نماز جمعہ کی جگہ سے دو فرسخ سے زیادہ دور ہیں اور انکے لئے نمازجمعہ کے لئے آنا سخت ہے اسی طرح بارش کے وقت واجب نہیں ہے اگر چہ یہ لو گ نماز میں آجائیں تو انکی نماز صحیح ہے اور نماز ظہر کا بدل ہوگی ، لیکن احتیاط مستحب کی بنا پر نما زجمعہ کے بعد ظہر کی نماز بھی پڑھنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۵۹۲۔ نماز جمعہ کا وقت ، اول ظہر سے لیکر جب شاخص کا سایہ خود شاخص کے برابر ہو جانے تک ہے ، اس بنا پر ظہر شرعی کے اول وقت پر فوراً اذان اورا س کے بعد خطبۂجمعہ شروع کیا جائے، ظہر شرعی سے پہلے خطبوں کا پڑھنا ٹھیک نہیں ہے ، تو اس صورت میں جب وقت ہو جائے تو خطبے کی اتنی مقدار دوبارہ پڑھی جائے ۔
مسئلہ ۱۵۹۳۔اگر شک کرے کہ نماز جمعہ کا وقت ابھی باقی ہے یا نہیں احتیاط واجب کی بنا پر اس کی تحقیق کرے اور اگر نما ز جمعہ کے درمیان وقت گذر جائے اور ایک رکعت نمازپڑھی ہے تو صحیح ہے وگر نہ بنا بر احتیاط نماز جمعہ کو مکمل کرے اور نماز ظہر بھی پڑھے ۔
مسئلہ ۱۵۹۴۔اگر نماز جمعہ شروع ہو جائے اور خطبوں کو نہیں سنا ، نماز میں شرکت کر سکتا ہے ۔ بلکہ اگر کوئی دوسری رکعت میں بھی پہنچ جائے تو کافی ہے لہٰذا امام جمعہ کے سلام کے بعد دوسری رکعت خود پڑھے تو اسکی نماز صحیح ہو گی ۔



نماز جماعت
مسئلہ ۱۵۹۵۔واجبی نمازیں خصوصاً پنجگانہ نمازوں کوجماعت سے پڑھنا مستحب ہے نماز صبح ، مغرب ، عشا کے لئے اور خصوصاً مسجد کے پڑوسیوں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو مسجد کی اذان کو سنیں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔
مسئلہ ۱۵۹۶۔روایت میں ہے کہ امام جماعت کے ساتھ اگر ایک آدمی اقتدا کر کے نماز پڑھے تو ہر رکعت پر ایک سو پچاس نمازوں کو ثواب ملتا ہے اور اگر دو آدمی ہوں تو چھ سو نمازوں کا ثواب ہر رکعت پر ملتا ہے اور جتنے آدمیوں کا اضافہ ہو تا جائے گا اسی قدر ثواب بھی بڑھتا جائے گا یہاں تک کہ دس آدمی ہو جائیںلیکن اگر دس آدمیوں سے زیادہ تعداد ہو جائے تو اگر تمام آسمان کاغذ بن جائیں اور تمام دریا روشنائی بن جائیں اور تمام درخت قلم بن جائیں اور سارے جن و انس و ملائکہ لکھنے والے ہوجائیں تب بھی ایک رکعت کا ثواب نہیں لکھ سکتے ۔
مسئلہ ۱۵۹۷۔ بے پرواہی کر کے نماز جماعت کا چھوڑ دینا جائز نہیں ہے انسان کو بلا کسی عذر کے جماعت نہیں چھوڑنی چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۵۹۸۔ نماز جماعت کے لئے انتظا ر کرنا مستحب ہے ، اول وقت میں تنہا نماز جماعت زیادہ بہتر ہے اسی طرح نماز جماعت اگر مختصر بھی پڑھی جائے تو اس فرادیٰ نما زسے بہتر ہے جو کافی لمبی پڑھی جائے۔
مسئلہ ۱۵۹۹۔جو شخص فرادیٰ نماز پڑھ چکا ہو اس کے لئے بھی جماعت سے اس نماز کو دوبارہ پڑھنا مستحب ہے اور اگر نماز جماعت کے بعد معلوم ہو کہ فرادیٰ نماز باطل تھی تو جماعت والی نماز کافی ہے ۔
مسئلہ ۱۶۰۰۔امام یا ماموم جماعت سے پڑھی ہو ئی نماز کو اگر دوبارہ جماعت ہی سے پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں ۔
مسئلہ ۱۶۰۱۔ جس وسواسی آدمی کو صرف اس وقت وسواس نہ ہو تا ہو جب نماز جماعت کے ساتھ ادا کرے اور اس کا وسواس اس حد تک ہو کہ اسکی نماز باطل ہو جاتی ہو تو اسے جماعت ہی سے نماز ادا کر نا چاہئیے۔
مسئلہ ۱۶۰۲۔ اگر ماں یا باپ اپنے لڑکے کو جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم دیں تو صرف ان کے حکم سے اس پر نماز جماعت واجب نہیں ہو گی ۔
مسئلہ ۱۶۰۳۔ مستحب نماز کو جماعت کے ساتھ نہیں پڑھا جا سکتا مگر نمازاستسقاء کے جس کو بارش کے لئے پڑھاجا تا ہے اور اس نماز کو بھی جماعت کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے جو کسی وجہ سے مستحب ہو گئی ہو جیسے عید فطر یا قربان کی یہ نماز یں زمانہ حضور امام علیہ السلام میں واجب تھیں اور غیبت امام علیہ السلام میں مستحب ہو گئی ہیں ۔
مسئلہ ۱۶۰۴۔ جب امام یو میہ نماز میں سے کسی بھی نماز کو پڑھ رہا ہو تو اس کے ساتھ نماز پنجگانہ میں سے کوئی بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے ۔ البتہ اگر امام نماز یو میہ کو احتیاطا دوبارہ پڑھ رہا ہو تو ماموم کا اس صورت میں اقتداء کر نا مشکل ہے ۔
مسئلہ ۱۶۰۵۔ اگر امام جماعت اپنی پنجگانہ نماز کی قضا پڑھ رہا ہویا کسی دوسرے شخص کی قضا نماز پڑھ رہا ہے تو اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے لیکن اگر اپنی یومیہ نماز کی قضا احتیاطا پڑھ رہا ہو یا احتیاطاً کسی دوسرے شخص کی قضا نماز پڑھ رہا ہو تو اس کی اقتدا کر نے میں اشکال ہے ۔
مسئلہ ۱۶۰۶۔ اگر یہ معلوم نہ ہو کہ امام یومیہ نماز پڑھ رہا ہے یاکوئی مستحب نماز تو اس کی اقتدا نہیں کی جا سکتی ۔
مسئلہ ۱۶۰۷۔ اگر امام محراب کے اندر نماز پڑھ رہا ہواور اس کی پشت پر کوئی اقتدا کر نے والا نہ ہو تو محراب کے دونوں طرف کے لوگ جو امام کو نہیں دیکھ رہے ہیں وہ امام کی اقتدا نہیں کر سکتے ۔
مسئلہ ۱۶۰۸۔ اگر پہلی صف کی لمبائی کی وجہ سے وہ لوگ جو صف کے ودنوں طرف کھڑے ہوئے ہیں امام کو نہ دیکھ سکیں تب بھی اقتدا کر سکتے ہیں ، اسی طرح کسی بھی صف کی لمبائی کی وجہ سے اس صف کے کنارہ پر جو لوگ کھڑے ہیں اور اپنے آگے والی صف کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں وہ بھی اقتدا کر سکتے ہیں ۔
مسئلہ ۱۶۰۹۔ اگر جماعت کی صفیں مسجد کے دروازے تک ہوں جو لوگ دروازے کے مقابل صف کے پیچھے کھڑے ہیںان کی نماز صحیح ہے اسی طرح ان لوگوں کی نماز بھی صحیح ہے جو ان لوگوں کے پیچھے کھڑے ہیں البتہ وہ لوگ جواسکے دونوں طرف کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے سامنے والی صف کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں تو یہ احتیاط مستحب کے خلاف ہے ۔
مسئلہ ۱۶۱۰۔ جو شخص ستون کے پیچھے کھڑ اہواگر دائیں یا بائیں والے ماموم کے ذریعہ سے امام سے متصل نہ ہو تو وہ شخص اقتدا نہیں کر سکتا ۔
مسئلہ ۱۶۱۱۔ امام کے کھڑے ہو نے کی جگہ ماموم کے کھڑے ہو نے کی جگہ ایک بالشت سے بلند نہیں ہو نا چاہئیے لیکن اگر ماموم کی جگہ تھوڑا سی بلند ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ، اسی طرح اگر زمین اونچی نیچی یا نا ہموار ہو اور امام اس زمین پر کھڑ اہو جو بلند ہے تو اگر اس زمین کی اونچائی ، گہرائی یا ڈھلوان بہت زیادہ نہ ہو اور اسے زمین مسطح کہہ سکیں تو جماعت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ۱۶۱۲۔ نماز جماعت میں اگر مقتدی کے کھڑے ہو نے کی جگہ امام کی جگہ سے بلند ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ۱۶۱۳۔ جو لوگ ایک صف میں کھڑے ہو ں ، ان کے درمیان اگر سمجھدار بچہ کھڑا ہو جا ئے اور اس بچہ کی نماز باطل ہو نے کا علم نہ ہو تو ایسی صورت میں اقتدا کی جا سکتی ہے ۔
مسئلہ ۱۶۱۴۔ امام کی تکبیرۃ الاحرام کے بعد اگر پہلی صف والے نماز کے لئے آمادہ ہو ں اور تکبیر کہنا ہی چاہتے ہوں تو جو لوگ بعد والی سف میں کھڑے ہیں وہ بھی تکبیر کہہ سکتے ہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ انتظار کریں جب تک کہ پہلی صف والوں کی تکبیر تمام ہو جا ئے ۔
مسئلہ ۱۶۱۵۔ اگر اگلی صفوں میں سے ایک صف کی نماز باطل ہونے کا علم ہو تو بعد والی صفوں کے لوگ اقتدا نہیں کر سکتے لیکن اگر یہ معلوم نہ ہو کہ پہلی صفوں کے لوگوں کی نماز صحیح ہے یا نہیں تو اقتدا کی جا سکتی ہے ۔
مسئلہ ۱۶۱۶۔ جب یہ معلوم ہو جا ئے کہ امام کی نماز باطل ہے تو اس کی اقتدا نہیں کی جا سکتی مثلاً یہ معلوم ہو کہ امام بے وضو ہے خواہ امام اس بات کی طرف متوجہ نہ ہو ۔
مسئلہ ۱۶۱۷۔ اگر نماز پڑھ لینے کے بعد یہ معلوم ہو کہ امام عادل نہیں تھا یا کا فر تھا یا کسی اور وجہ سے اس کی نماز باطل تھی مثلا ًامام نے بغیر وضو نماز پڑھی تھی تو ماموم کی نماز صحیح ہے۔
مسئلہ ۱۶۱۸ ۔ اگر نماز پڑھنے میں شک ہو کہ اقتدا کر لی ہے یا نہیں اور ایسی حالت میں ہو کہ جو حالت ماموم کے لئے مخصو ص ہے مثلا جس وقت کے امام کے حمد و سورہ کو سن رہا ہو تواس کی نماز صحیح ہے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کو جماعت کی نیت سے نہ پڑھے اور اگر ایسے فعل میں مشغول ہو جو امام اور ماموم دونوں میں مشترک ہو مثلا رکوع یا سجدہ میں ہو تو نماز کوجماعت کی نیت سے تمام نہ کرے ۔
مسئلہ ۱۶۱۹۔احتیاط مستحب کی بنا پر نماز جماعت کے درمیان جب تک انسان مجبور نہ ہو جا ئے فرادیٰ کی نیت نہ کرے ہاں بہتر بلکہ احتیاط یہ ہے کہ شروع سے درمیان نماز جماعت سے جدا ہونے کا قصد نہ رکھے ۔
مسئلہ ۱۶۲۰۔ اگر کسی عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے ماموم اس وقت فرادیٰ کی نیت کرے جب امام حمد و سورہ پڑھ چکا ہو تو ماموم پر حمدوسورہ کا پڑھنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر ماموم نے حمد وسورہ تمام ہو نے سے پہلے فرادیٰ کی نیت کر لی ہو تو جتنا امام نے نہیں پڑھا ہے اتنا پڑھ لینا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۶۲۱۔اگر جماعت پڑھتے پڑھتے فرادیٰ کی نیت کر لے تو دوبارہ جماعت کی نیت نہیں کر سکتا البتہ اگر اسے تردد ہو جا ئے کہ فرادیٰ کی نیت کرے یا نہ کرے اور بعد میں طے کر لے کہ نماز کو جماعت سے پڑھے گا ، تب اس کی نماز صحیح ہو گی ۔
مسئلہ ۱۶۲۲۔ اگر فرادیٰ کی نیت نہ کر نے میں شک ہو تو اسے یہ سمجھنا چاہئیے کہ فرادیٰ کی نیت نہیں کی ہے۔
مسئلہ ۱۶۲۳۔اگر امام رکوع میں ہو اور کوئی شخص اقتدا کر کے امام سے رکوع میںجا ملے اگر چہ امام ذکر رکوع تمام کر چکا ہو تو اس شخص کی نماز جماعت صحیح ہے اور یہ ایک رکعت شمار کر لی جا ئے گی لیکن اگر بمقدار رکوع تو جھکا مگر امام کو رکوع میں نہ پا سکاتو اسکی نماز تو صحیح ہے لیکن وہ جامعت کے ساتھ نماز کو ادامہ نہیں دے سکتا چاہے اسے ابتدا سے یہ یقین ہو کہ امام کے ساتھ رکوع میں پہونچ جائے گا یا یہ یقین نہ ہو ہاں جب یقین نہیں تھا اس صورت میں نماز کا اعادہ کرنا اولیٰ و بہتر ہے۔
مسئلہ۱۶۲۴۔ جب امام رکوع میں ہو اگر کوئی اس وقت شریک جماعت ہو کر بمقدار رکوع جھک جا ئے اور شک ہو کہ امام کو رکوع میں پا یا ہے یا نہیںتو اس کی نمازصحیح توہے لیکن وہ نماز کوجماعت کے ساتھ ادامہ نہیں دے سکتا اور یہی حکم ہے جب یقین ہو کہ امام کورکوع میںنہیں پا سکتا اگر چہ احتیاط استحبابی یہ ہے کہ نمازدونوں صورتوں میں دوبارہ پڑھے ۔
مسئلہ ۱۶۲۵۔ اگر امام رکوع میں ہو اور کوئی اقتدا کرے اور رکوع بھر جھکنے سے پہلے امام رکوع سے پہلے اٹھ جا ئے تو وہ اتنی دیر انتظار کرسکتا ہے کہ امام بعد والی رکعت کے لئے کھڑا ہو اور اسمیں امام کے ساتھ شریک جماعت ہو جا ئے اور اس کو اپنی پہلی رکعت شمار کرے یا فرادیٰ کی نیت کرلے ہاںلیکن اگر امام کے اٹھنے میں اتنی دیر ہو جا ئے کہ اس شخص کے لئے یہ نہ کہا جا سکے یہ جماعت سے نماز پڑھ رہا ہے تو اسے فرادیٰ کی نیت کر نا چاہئیے۔
مسئلہ ۱۶۲۶۔ اگر شروع نماز سے یا حمد و سورہ کے درمیان میں امام کی اقتداء کرے اور رکوع میں جانے سے پہلے امام رکوع سے سر اٹھا لے تو اسکی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۶۲۷۔اگر جماعت میں اس وقت شریک ہو کہ جب امام آخری تشہد پڑھ رہا ہو اور یہ شخص جماعت کا ثواب حاصل کرنا چاہے تو وہ نیت تکبیر ۃ الاحرام کہنے کے بعد بیٹھ جائے اور تشہد کو امام کیساتھ پڑھے لیکن سلام نہ پھیرے اور اتنی دیر صبر کرے کہ امام سلام پڑھ لے اور یہ بھی جائز ہے کہ صبر نہ کرے اور کھڑا ہو جائے اور کھڑے ہو کر بغیر نیت و تکبیر ۃ الاحرام کہتے ہو ئے حمد و سورہ پڑھے اور اسکو اپنی پہلی رکعت شمار کرے ۔
مسئلہ ۱۶۲۸۔ماموم کو امام کے آگے نہیں کھڑا ہو نا چاہیئے البتہ اگر امام کے برابر کھڑا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر ا سکا قد امام سے اتنابلند ہو کہ رکوع وسجدہ میں اس کا سر امام سے آگے بڑھ جا تا ہو تو بنا بر احتیاط استحبابی اس طرح کھڑا ہو کہ اس کا سر امام سے آگے نہ بڑھے ۔
مسئلہ ۱۶۲۹۔ نماز جماعت میں امام و ماموم کے درمیان پردہ یا کوئی ایسی چیز کہ جس کی وجہ سے امام کی پشت نہ دکھائی دیتی ہو حائل نہیں ہو نا چاہیئے اور اسی طرح اس شخص اور دوسرے مامومین کے درمیان کہ جس کی وجہ سے یہ امام سے متصل ہو کسی ایسی چیز کا فاصلہ نہیں ہو نا چاہیئے ہاں اگر امام مرداور ماموم عورت ہوں تو انکے درمیان یا اس عورت و مر کے درمیان کہ جو عورت اسی مرد کی وجہ سے امام سے متصل ہو تی ہے پردہ وغیرہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۶۳۰۔اگر نماز کے دوران امام اور ماموم کے درمیان میں یا دو ایسے ماموم کے درمیان کہ جن میں ایک ماموم دوسرے ماموم کے واسطے سے امام سے متصل ہو رہا ہو پردہ وغیرہ حائل ہو جائے تو اسکی نماز فرادیٰ ہو جائے گی اگر نماز فرادیٰ کے طریقے پر عمل کرے تو صحیح رہے گا ۔
مسئلہ ۱۶۳۱۔مستحب ہے کہ ماموم کے سجدہ کی جگہ اورا مام کے کھڑے ہونے کی جگہ میں ایک قدم سے زیادہ فاصلہ نہ ہو اسی طرح دو ایسے ماموم جو ایک دوسرے کے پیچھے ہیں مستحب یہ ہے کہ ان کے سجدہ کی جگہ اور کھڑ ہونے کی جگہ میں ایک قدم سے زیادہ کا فاصلہ نہ ہو ۔
مسئلہ۱۶۳۲۔اگر ماموم اپنے دائیں یا بائیں والے شخص کے ذریعہ امام سے متصل ہو اور سامنے سے اتصال نہ ہو تو مستحب یہ ہے کہ جو اس کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوئے ہیں ا ن کے درمیان ایک قدم سے زیادہ فاصلہ نہ ہو ۔
مسئلہ ۱۶۳۳۔اگر درمیان نمازماموم اورا مام کے درمیان یا ان دو ماموم کے درمیان جن میں ایک دوسرے کے واسطے سے امام سے متصل ہو اگر بہت زیادہ فاصلہ ہو جائے تو اسکی نماز فرادیٰ ہو جائے گی ۔ اگر نماز ی نے فرادیٰ کے طریقہ پر عمل کیا تو اس کی نماز صحیح رہے گی۔
مسئلہ ۱۶۳۴۔اگر پہلی صف کے تما م لو گوں کی نماز تمام ہو جائے یا سب کے سب فرادیٰ کی نیت کر لیں تو دوسری صف والوں کی نماز فرادیٰ ہو جائے گی ، اگر نمازی فرادیٰ والے طریقے پر عمل کریں تو انکی نماز صحیح رہے گی۔
مسئلہ ۱۶۳۵۔ اگر دوسری رکعت میں کوئی جماعت میں شریک ہو تو ضروری نہیں ہے کہ حمد و سورہ پڑھے لیکن قنوت وتشہد امام کے ساتھ پڑھے اور احتیاط یہ ہے کہ تشہد پڑھتے وقت ہاتھوں کی انگلیاں اور پیروں کی پشت زمین پر ہوںاور زانو زمین سے اٹھے ہو ئے ہوں اور اسکو یہ بھی چاہیئے کہ تشہد کے بعد امام کے ساتھ کھڑا ہو کر حمد و سورہ(خود) پڑھے ، اگر سورہ کا وقت نہ ہو تو صرف حمد پڑھ کر خود کو رکوع یا سجدہ میں امام کے ساتھ پہنچا دے اور اگر حمد کا بھی وقت نہ ہو تواسے چاہیئے کہ حمد کو کامل کرے اور خود کو امام تک پہونچائے یایہ کہ فرادیٰ نیت کر کے علیحدہ نماز پڑھ لے ۔
مسئلہ ۱۶۳۶۔ اگر چار رکعتی نماز میں امام کی دوسری رکعت میں کوئی جماعت میں شریک ہو تو اپنی دوسری رکعت ( جو امام کی تیسری رکعت ہے ) میں دونوں سجدوں کے بعد بیٹھ کر واجبی تشہد پڑھے اور کھڑا ہو جائے اور اسکے لئے جائز ہے کہ مستحبی تشھد پڑھے ۔ اب اگر تین مرتبہ تسبیحا ت اربعہ کے پڑھنے کا موقع نہیں ہے تو ایک ہی مرتبہ پڑھ کر خود کو امام کے ساتھ رکوع میں پہنچا دے ۔
مسئلہ ۱۶۳۷۔اگر امام کی تیسری یا چوتھی رکعت ہو اور ماموم کو معلوم ہو کہ اقتداء کے بعد سورۂ حمد پڑھ کر امام کے ساتھ رکوع میں نہیں پہنچ سکا تو احتیاط واجب کی بنا پر انتظار کرے اور جب امام رکوع میں جائے تب جماعت میں شریک ہو ۔
مسئلہ ۱۶۳۸۔اگر تیسری یا چوتھی رکعت میں جماعت میں شریک ہو تو حمد و سورہ دونوں پڑھنا چاہیئے لیکن اگر سورہ کے لئے گنجائش نہ ہو تو صرف حمد پڑھ کر خود کو رکوع میں امام کے ساتھ پہنچا نا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۶۳۹۔ کوئی شخص امام کی تیسری یا چوتھیرکعت میں اقتدا کرے اور معلوم ہو کہ اگر سورہ یا قنو ت پڑھے گا تو امام کو رکوع میںنہیں پائے گا اگر اس نے جان بوجھ کر سورہ یا قنوت پڑھ لیااور امام کے رکوع تک نہ پہنچ سکا تو اس کی نماز فرادیٰ ہو جائے گی ، اگر اس نے فرادیٰ کے طریقہ پر عمل کیا تو نما زصحیح رہے گی ۔
مسئلہ ۱۶۴۰۔کوئی شخص امام کی تیسری یا چوتھی رکعت میں اقتدا کرے اوراس کو اطمینا ن ہو کہ اگر سورہ شروع کرے یا پورا پڑھے تب بھی امام کو رکوع میں پالے گا تو احتیاط واجب یہ ہے کہ سورہ شروع کرے اگر شروع کر چکا ہو تو تما م کرے ۔
مسئلہ ۱۶۴۱۔کوئی شخص امام کی تیسری یا چوتھی رکعت میں اقتدا کرے اوراسے یقین ہو کہ سورہ پڑھ کر بھی امام سے رکوع میں مل جائے گا ، اگر اس نے سورہ پڑھ لیا لیکن رکوع میں امام سے ملحق نہ ہو سکا تو اس کی نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۶۴۲۔اگر امام حالت قیام میں ہو اور ماموم کو معلوم نہ ہو کہ کون سی رکعت ہے تب بھی وہ اقتدا کر سکتا ہے لیکن حمد و سورہ کو بقصد قربت پڑھ لے ،اب اگر بعد میں پتہ چلے کہ امام کی دوسری یا پہلی رکعت ہے تو اس کی نماز صحیح ہو گی ۔
مسئلہ ۱۶۴۳۔اگر ماموم نے اس خیال سے کہ امام پہلی یا دوسری رکعت میں ہے حمد و سورہ کی تلاوت نہیںکی اور رکوع کے بعد معلوم ہو کہ امام کی تیسری یا چوتھی رکعت تھی تو ماموم کی نماز صحیح ہے البتہ اگر رکوع سے پہلے معلوم ہو جائے تو حمد و سورہ پڑھ لینا چاہیئے اور اگر وقت نہ ہو تو صرف حمد پڑ ھ کر رکوع میں امام سے ملحق ہو جانا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۶۴۴۔ اگر ماموم یہ خیال کر کے امام تیسری یا چوتھی رکعت میں ہے حمد و سورہ کی تلاوت کر لے پھر رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد معلوم ہو کہ امام کی پہلی یا دوسری رکعت ہے تو نماز صحیح ہے اوراگر حمد و سورہ کے درمیان سمجھے کہ امام کی پہلی یادوسری رکعت تھی تو لازم نہیں ہے کہ اس کو تمام کرے ۔
مسئلہ ۱۶۴۵۔ مستحبی نماز پڑھتے وقت اگر نماز جماعت شروع ہو جائے اور اسکو خطرہ ہو کہ اگر میں مستحبی نماز مکمل کر لوںتو جماعت کے ساتھ شریک نہ ہوسکوں گا تو ایسی صورت میں مستحب ہے کہ مستحبی نمازوں کو توڑ کر جماعت میں شریک ہو بلکہ اگر اطمینان نہ ہو کہ پہلی رکعت میں مل سکے گی تب بھی مستحب ہے کہ نماز کو توڑ کر جماعت میں شریک ہوجائے ۔
مسئلہ ۱۶۴۶۔ اگر تین رکعتی یا چار رکعتی نماز پڑھتے وقت جماعت شروع ہو جا ئے اور یہ شخص ابھی تیسری رکعت کے رکوع میں نہ پہنچا ہو اور یہ بھی اطمینان نہ ہو کہ اگر میں نماز مکمل کر لوں تو جماعت مل جا ئے گی تو ایسی صورت میں مستحب ہے کہ نماز کو دو رکعتی ختم کر دے اور جماعت میں شریک ہو جا ئے ۔
مسئلہ۱۶۴۷۔ اگر امام کی نماز تمام ہو جا ئے اور ماموم ابھی تشہد یا سلام ہی پڑھ رہا ہو تو ماموم کے لئے ضروری نہیں ہے کہ فرادیٰ کی نیت کرے۔
مسئلہ ۱۶۴۸۔ اگر کوئی شخص امام سے ایک رکعت پیچھے رہ گیا ہوتو جس وقت امام آخری رکعت کا تشہد پڑھنے لگے تو مستحب ہے کہ ہا تھوں کی انگلیوں اور پیروں کی پشت کو زمین پر رکھ کر اور زانوؤں کو زمین سے اٹھا کر بیٹھا رہے اورتشھد کو امام کیساتھ پڑھے جب امام سلام کہہ رہا ہو اس وقت ذکر کہے اور پھر کھڑا ہواور اپنی نماز مکمل کرے ۔

امام جماعت کی شرائط
مسئلہ ۱۶۴۹۔امام جماعت کو بالغ ، عاقل ، شیعہ اثنا عشری ، عادل، حلال زادہ اور نماز صحیح پڑھنے والا ہو نا چاہئیے، اگر ماموم مرد ہو تو امام کو بھی مرد ہو نا چاہئیے ، سمجھدار بچوں کی امامت سمجھدار بچہ کر سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۶۵۰۔ اگر کوئی شخص کسی پیش امام کو عادل سمجھتاہو اور بعد میں شک ہو جا ئے کہ یہ پیش امام اب بھی عادل ہے یا نہیں تو اس کی اقتدا کر سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۶۵۱۔ جو شخص نماز کھڑے ہو کر پڑھتا ہو وہ اس شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا جو کہ بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھا رہا ہو اور جو شخص بیٹھ کر پڑھتا ہو وہ لیٹ کر نماز پڑھنے والے شخص کی اقتدا نہیں کر سکتا ۔
مسئلہ ۱۶۵۲۔ جو شخص لیٹ کر یا بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو وہ بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی اقتدا کر سکتا ہے اور جو شخص لیٹ کر نماز پڑھتا ہو وہ لیٹ کر یا بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی اقتدا کر سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۶۵۳۔ اگر پیش امام عذر کی بنا پرنجس لباس یا تیمم یا وضو جبیرہ سے نماز پڑھ رہا ہو تو دوسرے لوگ اس کی اقتدا کر سکتے ہیں ۔
مسئلہ ۱۶۵۴۔ ایسے پیش نماز کی اقتدا کی جا سکتی ہے جو کسی مرض کی وجہ سے پیشاب یا پا خانہ کو حالت نماز میں بار بار آنے سے نہیں روک سکتا ہو اسی طرح غیر مستحاضہ ، مستحاضہ کی اقتدا کر سکتی ہے ۔
مسئلہ ۱۶۵۵۔ احتیاط کی بنا پر جب کسی کوجذام یا برص کا مرض ہو وہ پیش نماز ی نہ کرے ۔

نماز جماعت کے احکام
مسئلہ ۱۶۵۶۔ نیت کرتے وقت پیش نماز کو معین کر لینا چاہئیے البتہ پیش نماز کا نام جاننا ضروری نہیں ہے مثلا اگر کوئی امام موجود کی نیت سے بھی اقتدا کر لے تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۶۵۷۔ امام کو سورہ حمد اور دوسرے سورہ کے علاوہ پوری نماز خود پڑھنی چاہئیے اور اگر امام کی تیسری یا چوتھی رکعت ہو اور ماموم کی پہلی یا دوسری رکعت ہو تو ایسی صورت میں ماموم کو سورہ حمد اور دوسرا سورہ بھی پڑھنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۶۵۸۔ نماز مغرب و عشاء اور صبح کی پہلی اور دوسری رکعت میں اگر ماموم ، امام کے سورہ حمد پڑھنے کی آوازسن رہا ہو چاہے لفظوں میں فرق نہ کر سکتا ہو تو اسے سورہ و حمد نہیں پڑھنا چاہئیے اور اگر امام کی آواز سنائی نہ دے رہی ہو تو حمد و سورہ کا آہستہ آہستہ پڑھنا مستحب ہے اور اگر بھول کر زور سے پڑھے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۶۵۹۔ امام کے حمد و سورہ کے بعض کلمات بھی اگر ماموم سن رہا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے حمد و سورہ نہیں پڑھنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۶۶۰۔ ماموم بھولے سے سورہ حمدپڑھ لے یا یہ سمجھتے ہوئے کہ آنے والی آواز امام کی نہیں ہے حمد وسو رہ پڑھے اور بعد معلوم ہو جا ئے کہ امام ہی کی آواز تھی تو اس کی نماز صحیح ہے۔
مسئلہ ۱۶۶۱۔ اگر ماموم کو شک ہو کہ امام کی آواز سن رہا ہے یا نہیں یا آواز سن رہا ہے لیکن یہ نہ معلوم ہورہاہو کہ یہ امام کی آواز ہے یا کسی اور کی، تو حمد و سورہ پڑھ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۶۶۲۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ظہرین کی پہلی اور دوسری رکعت میں ماموم کو حمد وسورہ نہیں پڑھنی چاہئیے اور اس کے بجائے کوئی اور ذکر کر نا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۱۶۶۳۔ امام کی تکبیرۃ الاحرام سے پہلے ماموم تکبیرۃ الاحرام نہیں کہہ سکتا ، احتیاط مستحب یہ ہے کہ جب تک امام کی تکبیر تمام نہ ہو جائے ، ماموم اس وقت تک تکبیر نہ کہے ۔
مسئلہ ۱۶۶۴۔ واجب نہیں ہے کہ ماموم ، امام سے پہلے سلام نہ کہے اگر عمدا ًبھی امام سے پہلے سلا م کہہ دے تو اس کی نماز صحیح ہے اور ضروری نہیں ہے کہ امام کے ساتھ دوبارہ سلا م کہے البتہ پہلے سلام کہنے سے نماز کا ثواب ضرور کم ہو جا تا ہے۔
مسئلہ ۱۶۶۵۔ تکبیرۃ الاحرام اور سلام کے علاوہ نماز کی دوسری چیزوں کو ماموم امام سے پہلے پڑھ سکتا ہے ، البتہ اگر ان چیزوں کو سنے یا معلوم ہو کہ امام کس وقت کہے گا تو احتیاط مستحب کی بنا پر امام سے پہلے نہیں کہنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۶۶۶۔ پڑھی جا نے والی چیزوں کے علاوہ دوسے کام جیسے رکوع و سجود کو امام کے ساتھ یا امام سے بالکل تھوڑی دیر کے بعد بجا لا نا چاہئیے ، اگر عمدا پیش نماز سے پہلے یا کچھ دیر کے بعد بجا لا ئے تو گنہگار ہے لیکن نماز صحیح ہے اور اسکی جماعت باطل ہو جائے گی۔
مسئلہ ۱۶۶۷۔ اگر بھول کر امام سے پہلے سر کو اٹھا لے اور ابھی امام رکوع ہی میں ہو تو دوبارہ رکوع میں چلا جا ئے اور امام کے ساتھ سر اٹھائے تو اس صورت میں رکن کی زیادتی سے نماز باطل نہ ہو گی لیکن جب دوبارہ رکوع میں جا رہا ہو اور رکوع میں پہنچنے سے پہلے امام سر اٹھا لے تو نماز صحیح ہو نا مشکل ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کو تمام کرے اسکے بعد نماز دوبار ہ پڑھے۔
مسئلہ ۱۶۶۸ ۔ اگربھولے سے سجدہ سے سر اٹھا لے اور دیکھے کہ امام ابھی سجدہ ہی میں ہے تو اسے بھی سجدہ میں پلٹ جا نا چاہئیے اور اگر دونوں سجدے میں یہی اتفاق ہو جا ئے تو رکن کی زیادتی کی وجہ سے نماز باطل نہیں ہو گی ۔
مسئلہ ۱۶۶۹۔ اگربھولے سے امام کے سر اٹھانے سے پہلے ماموم سر اٹھا لے اور دوبارہ سجدہ میں پہنچنے سے پہلے امام سجدہ سے سر اٹھا لے تو ماموم کی نما زصحیح ہے لیکن اگر دونوں سجدوںمیں یہی اتفاق ہو جا ئے تو نماز کا صحیح ہو نا بعید نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۶۷۰۔ اگرغلطی سے رکوع یا سجدہ سے سر اٹھائے اور بھول کریا اس خیال سے کہ امام کو نہ پا سکے گا ، رکوع یا سجدہ میں نہیں گیا تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۶۷۱۔ اگر سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد دیکھے کہ امام سجدہ ہی میں ہے اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ امام کا پہلا سجدہ ہے ۔ امام کے ساتھ شریک ہو نے کی نیت سے سجدہ میں چلا جا ئے اور بعد میں معلوم ہو کہ امام کا دوسرا سجدہ تھا تو یہ اس کا دوسرا سجدہ شمار ہو گا اور اگریہ خیال ہو کہ امام کا دوسرا سجدہ ہے ، سجدہ میں گیا اور بعد میں معلوم ہو کہ امام کا پہلا سجدہ تھا تو اسے چاہئیے کہ قصد کر ے کے امام کے ساتھ سجدہ کر رہا ہوں اور اس سجدہ کو تمام کرے ۔
مسئلہ ۱۶۷۲۔ اگر بھول کر امام سے پہلے رکوع میں چلا جا ئے اور صورت حال یہ ہو کہ اگر سر اٹھا لے تو امام کی تھوڑی سی قرائت پا لے گا تو اسے چاہئیے کہ لوٹ جا ئے اور امام کے ساتھ رکوع بجا لا ئے اور ضروری نہیں ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر جان بوجھ کر واپس نہیں گیا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کو جماعت سے مکمل کر نے کے بعد دوبارہ بھی پڑھے ۔
مسئلہ ۱۶۷۳۔ اگر بھول کر امام سے پہلے رکوع میں چلا جا ئے اور صورت حال یہ ہو کہ اگر سر اٹھاتاہے تو امام کی قرائت کا کوئی حصہ نہیں پا سکے گا تو اسے صبر کر نا چاہئیے تا کہ امام سے آملے ، اس صورت میں نماز صحیح رہے گی اسی طرح اگر اس قصد سے رکوع سے پلٹا ہو کہ امام کے ساتھ نماز پڑھے گا ، سر اٹھا کر امام کے ساتھ رکوع میں چلا جا ئے تب بھی اس کی نماز صحیح ہو گی ۔
مسئلہ ۱۶۷۴۔ اگر بھول کر امام سے پہلے سجدہ میں چلا جا ئے تو اتنا صبر کرے کہ امام اسے سجدہ میں آملے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اگرا س قصد سے پلٹے کہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اور اس کے ساتھ سجدہ میں جا ئے تو نماز صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۶۷۵۔ اگر امام اشتباہا ًجس رکعت میں قنوت نہیں ہے اس میں قنوت پڑھنے لگے یا جس رکعت میں تشہد نہیں ہے تشہد پڑھنے لگے تو ماموم کو امام کے ساتھ تشہد و قنوت نہیں پڑھنا چاہئیے لیکن امام سے پہلے رکوع میں نہیں جا سکتا اورنہ ہی امام کے کھڑے ہو نے سے پہلے کھڑا ہو سکتا ہے بلکہ امام کے تشہد و قنوت پڑھتے وقت صبر کر نا چاہئیے اور بقیہ نماز امام کے ساتھ ادا کرے ۔
نماز جماعت کے مستحبات
مسئلہ ۱۶۷۶۔ اگر ماموم ایک مرد ہوتواسے امام کے داہنی طرف کھڑا ہو نا مستحب ہے اور اگر ماموم ایک عورت ہو تو اسے امام کے داہنی طرف اس طرح سے کھڑی ہونا مستحب ہے کہ امام کی سجدہ کی جگہ امام کے زانوں یا قدم کے برابر ہو اور اگر ما موم ایک مرد اور ایک عورت ہو ں یا ایک مرد اور چند عورتیں ہوں تو مرد کو امام کی داہنی طرف کھڑا ہو نا چاہئیے اور عورتوں کا امام کے پیچھے کھڑ اہو نا مستحب ہے اور اگر چند مرد یا صرف عورتیں ہوں تو امام کے پیچھے کھڑا ہو نا مستحب ہے اور اگر چند مرد اور چند عورتیں ہوں تو احتیاط مستحب کی بنا پر مردوں کو امام کے پیچھے اور عورتوں کومردوں کے پیچھے کھڑاہو نا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۶۷۷۔ اگر امام و ماموم دونوں عورتیں ہو ں تو دونوں کوبرابر کھڑا ہو نا چاہئیے ،پیش نماز عورت کو دوسری عورتوں کے آگے نہیں کھڑا ہو ناچاہئیے۔
مسئلہ ۱۶۷۸۔ امام کے لئے صف کے بیچ میںکھڑا ہوں اور اہل علم وکمال و تقویٰ کا پہلی صف میں کھڑا ہو نا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۱۶۷۹۔ جماعت کی صفوں کا منظم رکھنامستحب ہے اور جو لوگ ایک صف میں کھڑے ہوں ان کے درمیان فاصلہ نہیں ہو نا چاہئیے اور ایک شانہ دوسرے کے شانے کے برابر ہو نا چاہیئے۔
مسئلہ ۱۶۸۰۔ ’’قد قامت الصلوۃٰ‘‘کہنے کے بعد مومنین کا کھڑا ہو نا مستحب ہے ۔
مسئلہ ۱۶۸۱۔مقتدیوں میں جو سب سے زیادہ کمزور ہو پیش نماز کے لئے مستحب ہے کہ اس کی حالت کا لحاظ رکھے اسی طرح قنوت ورکوع و سجود میں طو ل نہ دینا مستحب ہے البتہ اگر تمام مومنین طول دینے کی طرف مائل ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۶۸۲۔ سورہ حمد اور جن اذکارکو بلند آواز سے پڑھنا چاہئیے ان میں امام جماعت کے لئے مستحب ہے کہ اتنی زور سے پڑھے کہ دوسرے سن لیں البتہ بہت زور سے بھی نہیں پڑھنا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۶۸۳۔ اگر پیش نماز کو معلوم ہو جا ئے کہ کوئی نیا جماعت میں شریک ہو جا نا چاہتا ہے توہمیشہ کی عادت سے رکوع کودگنا کر نا مستحب ہے اس کے بعد کھڑا ہو جائے چاہے یہ معلوم ہو کہ دوسرا بھی اقتدا کرنے کے لئے آپہنچا ہے ۔
جوچیزیں نماز جماعت میں مکروہ ہیں
مسئلہ ۱۶۸۴۔ اگر جماعتوں کی صفوں میں جگہ موجود ہو تو علیحدہ تنہا کھڑاہو نا مکروہ ہے ۔
مسئلہ ۱۶۸۵۔ ماموم کا اتنی ز ور سے نماز کے ذکر کو ادا کر نا مکروہ ہے کہ امام سن لے ۔
مسئلہ ۱۶۸۶۔ نماز ظہرین و عشاء میں مسافر کو ایسے شخص کے پیچھے اقتدا کرنا مکروہ ہے جو مسافر نہ ہو، اسی طرح جو مسافر نہ ہواس کے لئے مکروہ ہے کہ ان نمازوں میں مسافر کی اقتدا کرے۔
روزہ کے احکام
روزہ یہ ہے کہ انسان خدا کے احکام بجا لانے کے لئے صبح کی اذان سے مغرب تک ان چیزوں سے باز رہے جو روزے کو باطل کرتی ہیں ۔ ان کی تفصیل آگے بیان کی جا ئے گی ۔
نیت
مسئلہ ۱۶۸۷۔ انسان کیلئے ضروری نہیں ہے کہ روزہ کی نیت اپنے دل میں گزارے مثلاً اس طرح کہے کہ کل روزہ رکھوں گا بلکہ اتنا کافی ہے کہ خدا وند عالم کے احکام کوانجام دینے کے لئے صبح کی اذان سے مغرب تک کوئی ایسا کام نہیں کریگا جس سے روزہ باطل ہو جا تا ہے اور ا س بات کا یقین حاصل کرنے کے لئے کہ اس پوری مدت میں روزہ سے تھا تو اسے چاہئیے کہ صبح کی اذان سے کچھ دیر پہلے اورمغرب کی اذان کے کچھ دیر بعد بھی ان کا موں سے با زرہے جو روزہ کو باطل کرتے ہیں ۔
مسئلہ ۱۶۸۸۔ ماہ رمضان کی ہر رات انسان دوسرے دن کا روزہ رکھنے کے لئے نیت کر سکتا ہے اور بہتر ہے کہ ماہ رمضان کی پہلی رات پورے مہینہ کے روزے کی نیت کر لے ۔
مسئلہ ۱۶۸۹۔ ماہ رمضان کی اول شب سے صبح کی اذان ہونے تک روزہ کی نیت کر سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۶۹۰۔ مستحبی روزہ کی نیت کا وقت اول شب سے اس وقت تک ہے جب تک کہ مغرب میں صرف نیت کرنے کا وقت باقی رہ جا ئے اگر اس وقت تک کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جس سے روزہ باطل ہو جا تا ہے اور نیت مستحبی روزہ رکھنے کی کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۶۹۱۔ وہ شخص جو صبح کی اذان سے پہلے روزہ کی نیت کئے بغیر سویا ہے اگر وہ ظہر سے پہلے جاگے اور نیت کر لے تو اس کا روزہ صحیح ہے خواہ اس کا روزہ واجبی ہو یا مستحبی اور اگر ظہر کے بعد جاگے تو واجبی روزہ کی نیت نہیں کر سکتا ۔
مسئلہ ۱۶۹۲۔ اگر کوئی شخص رمضان کے علاوہ روزہ رکھنا چاہتا ہے تو اس کو معین کر نا چاہئیے مثلا ًنیت کرے کہ قضا روزہ یا نذر کا روزہ رکھتا ہو ں لیکن ماہ رمضان میں رمضان کے روزہ کی نیت کر نالازم نہیں ہے بلکہ اگر نہ جا نتا ہو کہ ماہ رمضان ہے یا بھول جا ئے اور دوسرے روزہ کی نیت کر لے تو وہ ماہ رمضا ن کا روزہ ہی شمار ہو گا ۔
مسئلہ ۱۶۹۳۔ اگر جانتا ہو کہ ماہ رمضان ہے اور جان بوجھ کر دوسرے روزہ کی نیت کر لے تو تو وہ روزہ نہ تو رمضان کا شمار ہو گا اور نہ ہی وہ روزہ ہوگا جس کا ارادہ کیا ہے ۔
مسئلہ ۱۶۹۴۔ اگر کسی نے مثلاً ماہ رمضان کے پہلے روزہ کی نیت سے روزہ رکھا اور بعد میں معلوم ہوا کہ دوسرا یا تیسرا تھا تو اس کا روزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۶۹۵۔ اگر اذان صبح سے پہلے نیت کر لے اور بیہوش ہو جا ئے اور دن کے درمیان ہوش آجا ئے تو احتیاط مستحب کی بنا پر اس دن کا روزہ پو را کرے اور اس کی قضا بھی بجا لائے۔
مسئلہ ۱۶۹۶۔ اگر صبح کی اذان سے پہلے نیت کر ے اور مست ہو جا ئے اور دن میں ہو ش آجا ئے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ کو پورا کرے اور اس روزہ کی قضا بھی بجا لا ئے ۔
مسئلہ ۱۶۹۷۔ اگر صبح کی اذان سے پہلے نیت کر کے سو جا ئے اور مغرب کی نماز کے بعد جاگے تو ا سکا روزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۶۹۸۔ اگر معلوم نہ ہو یا ماہ رمضان کو بھول جا ئے اور ظہر سے پہلے متوجہ ہو جا ئے اور کسی ایسے کام کو نہ کیا ہو جس سے روزہ باطل ہو جا تا ہے تو اسکو چاہیئے کہ نیت کرے اور اس کا روزہ صحیح ہے اور اگر کسی ایسے کام کو کیا ہو جس سے روزہ باطل ہو جا تا ہے یا ظہر کے بعد متوجہ ہوا کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہو گالیکن ضروری ہے کہ مغرب تک کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے روزہ باطل ہو جا تا ہے اور رمضان کے بعد اس روزہ کی قضا بھی بجا لا ئے ۔
مسئلہ ۱۶۹۹۔ اگر بچہ ماہ رمضان کی صبح کی اذان سے پہلے بالغ ہو جا ئے تو اس پر روزہ رکھنا لازم ہے اور اگر اذان کے بعد بالغ ہوا ہے تو اس کاروزہ اس پر واجب نہیں ہے چاہے روزہ کی نیت پہلے سے کیا ہو یا نہ اور چاہے ظہر سے پہلے افطار کیا ہو یا نہیںلیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر روزہ کی نیت فجر سے پہلے کیا ہو اورظہر سے پہلے افطار نہ کیا ہو تو اس دن کا روزہ رکھے ۔
مسئلہ ۱۷۰۰۔ جس شخص نے میت کی جانب سے روزہ رکھنے کی اجرت لی ہو اور اگر وہ مستحبی روزہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن جس شخص کے ذمہ قضا روزے ہیں تو مستحبی روزہ نہیں رکھ سکتا چنانچہ بھول کر اس نے مستحبی روزہ رکھ لیا اور اگراس کو ظہر سے پہلے یا د آیا توا سکا روزہ مستحبی ختم ہو جا ئے گا اور وہ اپنی نیت کو قضا روزہ کی طرف لوٹا سکتا ہے اور اگر ظہر کے بعد متوجہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کاروزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۷۰۱۔ اگر ماہ رمضان کے علاوہ کوئی دوسرا معین روزہ کسی شخص پر واجب ہو مثلا نذر کی ہو کہ فلا ں روز روزہ رکھوں گا چنانچہ اس نے جان بوجھ کر صبح کی اذان تک نیت نہیں کی تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر نہ معلوم ہو کہ اس روز کا روزہ اس پر واجب ہے یا بھول جا ئے اور ظہر سے پہلے یا دآئے اور اس نے کوئی ایسا کا م نہ کیا ہو جس سے روزہ باطل ہو جا تا ہے تو نیت کر لے اس کا روزہ صحیح ہے ورنہ باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۷۰۲۔اگر غیر معین واجب روزہ کے لئے مثلا ًکفارہ کے روزہ کے لئے جان بوجھ کر ظہر کے قریب تک نیت نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر نیت سے پہلے اس کا روزہ نہ رکھنے کا پکا ارادہ ہو یا متردد ہو کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے چنانچہ کوئی ایسا کا م نہ کیا ہو جس سے روزہ باطل ہو جا تا ہے اور ظہر سے پہلے نیت کر لے تو ا سکا روزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ۱۷۰۳۔ اگر ماہ رمضان میں ظہر سے پہلے کافر شخص مسلمان ہو جا ئے اگر چہ اس نے کوئی چیز نہ بھی کھائی ہو توا س کا روزہ صحیح نہیں ہے چاہے اس نے روزہ کی نیت ظہر سے پہلے کر بھی لی ہو ۔
مسئلہ ۱۷۰۴۔ اگر بیمار ماہ رمضان میں ظہر سے پہلے شفا پا جائے اور صبح کی ا ذان سے اس وقت تک کسی ایسے کام کو نہ کیا ہو جس سے روزہ باطل ہو جا تا ہے ، احتیاط مستحب کی بنا پر اس کو روزہ کی نیت کر لینی چاہئیے اور اس روز کا روزہ رکھے اور اگر ظہر کے بعد شفا پا ئے تو اس روز کاروزہ اس پر واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۷۰۵۔ جس دن انسان کو شک ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا ماہ رمضان کی پہلی ہے تو روزہ رکھنا واجب نہیں ہے اور اگرروزہ رکھنا چاہتا ہو تو رمضان کے روزہ کی نیت نہیں کر سکتا ، اور احتیاط مستحب کی بنا پر یہ نیت نہ کرے کہ اگر ماہ رمضان ہے تو ماہ رمضان کا روزہ ہو گا اور اگر ماہ رمضان نہیں ہے تو قضا وغیرہ لیکن اگر قضا روزہ کی نیت یا مثل اس کے کرے اور بعد میں معلوم ہو جا ئے کہ رمضان تھا تو رمضان سے منسوب ہوجا ئے گا ۔
مسئلہ ۱۷۰۶۔ اگر اس دن جب کہ شک ہو کہ آخر ماہ شعبان ہے یا اول رمضان تو قضا کی نیت سے یا مستحبی یا اس قسم کے روزہ کی نیت سے روزہ رکھے اور دن میں معلوم ہو کہ ماہ رمضان ہے تو نیت ماہ رمضان کے روزہ کی نیت کر لے ۔
مسئلہ ۱۷۰۷۔ اگر واجب معین روزہ میں مثل رمضان کے روزہ رکھنے کی نیت سے پلٹ جا ئے یا ورزہ کو باطل کر نے کا قصد کر لے تو اس کا روزہ باطل ہو جا ئے گا اگر چہ کہ اس اپنے مقصد سے توبہ بھی کر لے اور ایسا کام بھی نہ کرے جو روزہ کو باطل کر دیتا ہے لیکن جب کہ ایسے کام کی وجہ سے تردد میں پڑ جا ئے جس کے متعلق یہ نہیں جانتا کہ روزہ کوباطل کر تا ہے یا نہیں اور کوئی روزہ کو باطل کر نے والا کام بھی انجام نہ دیا ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے جب کہ اس کی نیت میں تردد نہ ہو ۔
مسئلہ ۱۷۰۸۔ واجبی روزہ میں جس کا وقت معین نہیں ہے جیسے کفارہ کا روزہ ، اگر ارادہ کرے کہ ایسا کا م جو روزہ کا باطل کر دیتا ہے انجام دے یا متردد ہو کہ بجا لا ئے یا نہیں ، چنانچہ بجا نہ لا ئے اور ظہر سے پہلے دوبارہ نیت کر لے تو اس کا روزہ صحیح ہے اور مستحب روزہ میں اگر مغرب سے پہلے نیت کر لے تو صحیح ہے ۔

روزہ کو باطل کر نے والی چیزیں
مسئلہ ۱۷۰۹۔نو چیزیں روزہ کو باطل کر دیتی ہیں ۔
(۱)کھانا اور پینا (۲)مباشرت (۳)استمناء ۔استمناء یہ ہے کہ انسان اپنے ساتھ ایسا کام کرے جس سے منی باہر نکلے (۴)خدا ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ائمہ معصومین علیہم السلام اور حضرت زہرا علیہا السلام ، کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا (۵)گرد و غبار کا حلق میں پہنچانا (۶)پورے سر کو پانی میں ڈبونا (۷)صبح کی اذان تک جنابت اور حیض و نفاس کی حالت پر باقی رہنا (۸)بہنے والی چیزوں سے انیما لینا (۹)قے کر نا ،ان کے احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جا ئیں گے ۔
۱۔ کھانا پینا
مسئلہ ۱۷۱۰۔ اگرروزہ دار جان بوجھ کر کوئی چیز کھائے یا پی لے تو اس کا روزہ باطل ہو جا تا ہے خواہ وہ عام طور سے کھائی اور پی جاتی ہو مثلا روٹی اور پانی یا عام طور پر کھائی اور پی نہ جا تی ہومثلا مٹی یا درخت سے نکلنے والا شیرہ کم یا زیادہ یہاں تک کہ اگر مسواک کو منھ سے باہر نکالے اور دوبارہ داخل کرے اور اس کی رطوبت کو نگل جا ئے تو روزہ باطل ہو جا ئے گا مگر یہ کہ مسواک کی رطوبت تھوک کے ساتھ مل گئی ہو کہ اسے باہر کی رطوبت نہ کہا جا سکے ۔
مسئلہ ۱۷۱۱۔اگر ا س قوت جب کہ غذا کھانے میں انسان مشغول ہو معلوم ہو جا ئے کہ صبح ہو گئی ہے تو لقمہ کو منھ سے باہر نکالنا چاہئیے اور جان بوجھ کر وہ لقمہ نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہے اور جیسا کہ بعد میں اس قاعدہ بیان کیا جا ئے گا کفارہ بھی اس پرواجب ہو گا ۔
مسئلہ ۱۷۱۲۔ اگر روزہ دار بھول کر کوئی چیز کھا پی لے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہو گا ۔
مسئلہ ۱۷۱۳۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ روز ہ دار ایسا انجیکشن (ٹیکہ )جو غذا کی جگہ کام آتا ہو استعمال نہ کرے لیکن دوسرے انجیکشن کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۷۱۴۔ اگر روزہ دار اس چیز کو جو دانتوں کے درمیان باقی ہے جان بو جھ کر نگل جا ئے تو اس کا روزہ باطل ہو جا ئے گا ۔
مسئلہ ۱۷۱۵۔ جو شخص کے روزہ رکھنا چاہتا ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ اذان سے پہلے دانتوں میں خلال کرے لیکن اگر یہ معلوم یا اطمینان ہو کہ جو غذا دا نتوں کے درمیان رہ گئی ہے دن کے وقت وہ حلق کے اندر چلی جا ئے گی چناچہ اس نے خلال نہیں کیا اور کوئی چیز ا ندر چلی گئی تو اس کا روز ہ احتیاط کی بنا پر باطل ہو جا ئے گا ۔
مسئلہ ۱۷۱۶۔ لعاب دہن نگلنے سے روزہ باطل نہیں ہو تا اگر چہ کہ کسی کھٹی چیز یا کسی اور ایسی ہی چیز کا خیال کر نے سے لعاب دہن منھ میں جمع ہو گیا ہو ۔
مسئلہ ۱۷۱۷۔ سر اور سینہ کے بلغم کا نگلنا جب تک کہ منھ کی فضا تک کہ نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر بلغم منھ کی فضا میں داخل ہو جا ئے تو احتیاط یہ ہے کہ اس کو نہ نگلے ۔
مسئلہ ۱۷۱۸۔ اگر روزہ دار اس قدر پیا سا ہو کہ اسے خوف ہو کہ پیا س سے مر جا ئے گا تو اتنی مقدار میں وہ پانی پی سکتا ہے کہ جس سے کہ وہ مرنے سے نجات پا جائے لیکن اس کا روزہ باطل ہو جا ئے گا اور اگر ماہ رمضان ہو تو وہ پانی پینے کے بعد افطار کے وقت تک پورے دن میں ایسا کام کر نے سے باز رہے جو کہ روزہ کو باطل کر تا ہے اور پھر اس کی قضا کرے۔
مسئلہ۱۷۱۹۔ بچہ یا پرندے کے لئے غذا کا چبانا اور کھانے یا اس قسم کی کسی چیز کو چکھنا جو کہ عموما ًحلق تک نہیں پہنچتی ، اگرچہ اتفاقا ًحلق میں چلی جا ئے تو روزہ کو باطل نہیں کرتی لیکن اگر پہلے سے معلوم ہو کہ وہ چیز حلق میں پہنچ جا تی ہے چنانچہ حلق کے اندر چلی جا ئے تو اس کا روزہ باطل ہو جا ئے گا اور اس روزہ کی قضا رکھنا واجب ہے اور کفارہ بھی اس پر واجب ہے ۔
مسئلہ ۱۷۲۰۔ انسان کمزوری کی وجہ سے روزترک نہیں کر سکتا لیکن اس کی کمزوری اس حد تک ہو کہ عام طور سے ا س قدر کمزوری کو برداشت نہیں کیا جا سکتا تو روزہ توڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

۲۔ مباشرت
مسئلہ ۱۷۲۱۔ مباشرت روزہ کو باطل کرتی ہے ، اگر چہ بقدر ختنہ گاہ داخل ہو اور منی بھی نہ نکلے ۔
مسئلہ ۱۷۲۲۔ اگر ختنہ گاہ سے کمتر مقدار داخل ہو اور منی بھی نہ نکلے تو روزہ باطل نہیں ہو گا۔
مسئلہ ۱۷۲۳۔ اگر شک کرے کہ بقدر ختنہ گاہ داخل ہو اہے یا نہیں تو اس کا روزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۷۲۴۔ اگر بھول جا ئے کہ روزہ سے ہے اور مباشرت کرے یا اس کو مباشرت کرنے پر مجبور کیا جائے اس طرح سے کہ اختیاری نہ ہو تو اس کا روزہ باطل نہیں ہو گا لیکن اگر مباشرت کے درمیان میں اس کو یاد آجا ئے یا اب مجبور نہ ہو تو فورا ًمباشرت کی حالت سے علیحدہ ہو جا ئے اور اگر مباشرت کی حالت خارج نہ ہو تواس کا روزہ باطل ہے ۔
۳۔ استمناء
مسئلہ ۱۷۲۵۔ اگر روزہ دار منی نکالے یعنی ایسا کام کرے جس سے اس کی منی باہر نکلے تو ا سکا روزہ باطل ہو جا ئے گا ۔
مسئلہ ۱۷۲۶۔ اگر بے اختیار اس کی منی باہر نکلے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہے لیکن اگر کوئی ایسا کام کرے جس سے اس کی منی بے اختیار باہر نکل آئے تو اس کا روزہ باطل ہو جا ئے گا ۔
مسئلہ ۱۷۲۷۔ جب کہ روزہ دار کو یہ معلوم ہو کہ اگر وہ دن میں سو جا ئے گا تو وہ محتلم ہو جا ئے گا یعنی سونے کی حالت میں اس کی منی باہر آجا ئے گی توواجب نہیں ہے کہ نہ سوئے اوراگر سوجائے اورپھر وہ محتلم بھی ہو جا ئے تو اس کاروزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۷۲۸۔ اگر روزہ دار منی نکلنے کی حالت میں جاگ جا ئے تو واجب نہیں ہے کہ منی کو باہر نکلنے سے روکے ۔
مسئلہ ۱۷۲۹۔ وہ روزہ دار جو کہ محتلم ہو گیا ہو وہ پیشاب کرے اور مسئلہ ۷۷میں جو قاعدہ بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق استبراء کر ے اگر چہ اسے معلوم ہو پیشاب یا کہ استبراء کرنے کی وجہ سے باقی بچی ہو ئی منی عضو سے باہر آجائے گی۔
مسئلہ ۱۷۳۰۔ وہ روزہ دار جو محتلم ہو گیا ہو اور اسے معلوم ہو کہ منی عضو میں رہ گئی ہے اور اگر غسل سے پہلے پیشاب نہیں کرے گا تو غسل کر نے کے بعد منی باہر نکل آئے گی تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ غسل سے پہلے پیشاب کرے ۔
مسئلہ ۱۷۳۱۔ اگر منی نکالنے کے قصد سے کوئی کام کرے اور منی نہ نکلے تو اس کا روزہ احتیاط کی بنا پر باطل ہو جا ئے گا ۔
مسئلہ ۱۷۳۲۔ اگر روزہ دار منی کے نکالنے کا قصد کئے بغیرکسی سے بوس و کنار (شوخی )کرے اور اسے اطمینان ہو کہ منی خارج نہیں ہو گی اور اتفاقا منی نکل آئے تو اس کا روزہ صحیح ہے لیکن اگر اسے منی نکلنے کا اطمینان نہ ہو اور بو س وکنار کو جاری رکھے یہاں تک کہ ایسی حالت کے قریب ہو جا ئے کہ منی خارج ہو جا ئے اوراپنے کو اس فعل سے نہ روکے اور منی نکل آئے تو روزہ باطل ہے ۔

۴۔ خدا، پیغمبرؐاور آئمہ معصومین علیھم السلام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا
مسئلہ ۱۷۳۳۔اگر روزہ دار کہنے یا لکھنے یااشارہ سے یا مثل اس کے کسی اور طریقہ سے خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیھم السلام کی جانب جان بوجھ کر جھوٹ کی نسبت دے ، اگر چہ فورا کہہ دے کہ میں نے جھوٹ کہا یا توبہ کر لے پھربھی اس کا روزہ باطل ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر حضرت زہراعلیہا السلام کے متعلق بھی یہی حکم ہے ۔
مسئلہ ۱۷۳۴۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ جس خبر کو وہ نہیں جانتاکہ سچ ہے یا جھوٹ بیان کرے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ جس شخص نے اس خبر کو بیان کیا ہے یا جس کتاب سے اس نے پڑھا ہو، اس کا حوالہ دے یا یہ کہے کہ اس طرح روایت ہوئی ہے ۔
مسئلہ ۱۷۳۵۔ اگر کسی چیز کو اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ چیز سچ ہے خدا یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول سے نقل کرے اور بعد میں سمجھے کے جھوٹ تھا تو اس کا روزہ باطل نہیں ہو گا ۔
مسئلہ ۱۷۳۶۔ اگر یہ جانتا ہو کہ جھوٹ کی نسبت خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب دینے سے روزہ باطل ہو جا تا ہے اور جس چیز کو جانتا ہے کہ جھوٹ ہے ان حضرات علیھم السلام کی طرف نسبت دے اور بعد میں سمجھے کہ جو کچھ بھی کہا ہے وہ سچ تھا تو احتیاط واجب کی بنا پر اس روز کے روزے کی قضا کرے ۔
مسئلہ ۱۷۳۷۔ اگر اس جھوٹ کو جسے دوسرے شخص نے اڑایا ہے جان بوجھ کے خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیھم السلام کی جانب نسبت دے تو اس کا روزہ باطل ہو جا تا ہے لیکن ا س شخص کے حوالہ سے اس گڑھے ہو ئے جھوٹ کو بیان کرے تو اسکا روزہ باطل نہیں ہو گا۔
مسئلہ ۱۷۳۸۔ اگر روزہ دار سے پوچھیں کہ کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہا ں کوئی بات ارشاد فرمائی ہے اور وہ بجا ئے اس کے کہ جواب میں ’’نہ ‘‘ کہے جان بوجھ کے ’’ہاں ‘‘ کہہ دے جس موقع پر اس کو ہاں کہنا چاہئیے عمدا نہ کہہ دے یا اشارہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہو جا ئے گا ۔
مسئلہ ۱۷۳۹۔ اگر خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قو ل سے کوئی سچ بات کہے اور بعد میں کہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا یا کوئی رات کے وقت جھوٹ کی نسبت ان حضرات علیھم السلام کی طرف دے اور دوسرے جس دن روزہ سے ہو یہ کہے کہ گذشتہ رات جو میں نے کہا تھا وہ سچ ہے تو اس کاروزہ باطل ہو جا ئے گا ۔

۵۔ گرد و غبار کا حلق میں پہنچانا
مسئلہ ۱۷۴۰۔گر د وغبار کا حلق تک پہنچانا روزہ کو باطل کر تا ہے ، خواہ غبار اس چیز کا ہو جس کا کھانا حلال ہو جیسے آٹا یا غبار اس چیز کا ہو جس کا کھانا حرام ہو جیسے خاک وغیرہ احتیاط کی بنا پر اس غبار کو بھی حلق تک نہ پہنچائے جو گاڑھا نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۷۴۱۔ اگر ہوا کے ذریعہ گرد وغبار پیدا ہو جا ئے اور انسان با وجود ا سکے کہ جانتا ہو پھر بھی خیال نہ کرے اور وہ حلق تک پہنچ جا ئے تو اس کا روزہ باطل ہو جا ئے گا ۔
مسئلہ ۱۷۴۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار گاڑھی بھا پ اور سگریٹ کا دھواں اور حقہ کا دھواںاور اس قسم کی چیزوں کا دھواں بھی حلق تک نہ پہنچائے لیکن وہ بھاپ جو معمولاً حمام میں ہوتی ہے اشکال نہیں رکھتی۔
مسئلہ ۱۷۴۳۔ اگر توجہ نہ کرے اور غبار یا بھاپ یا دھواں یا اس قسم کی چیز حلق کے اندر داخل ہو جا ئے جب کہ اسے یقین یا اطمینان ہو کہ یہ چیز حلق میں نہیں پہنچے گی تو اس کا روزہ صحیح ہے اور اگر گمان ہو کہ یہ چیز حلق تک پہنچے گی تو احتیا ط مستحب کی بناپر اس روزہ کی قضا بجا لا ئے ۔
مسئلہ ۱۷۴۴۔ اگر بھول جا ئے کہ روزہ ہے اور توجہ نہ کرے یا بے اختیار غبار یا اس قسم کی کوئی اور چیزاس کے حلق میں پہنچے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہو گا ۔
۶۔ سر کا پانی میں ڈبونا
مسئلہ ۱۷۴۵۔ اگر روزہ دار جان بوجھ کر پو رے سر کو پانی میں ڈبو دے اگر چہ اس کا باقی بدن پانی کے باہر ہوتو اس کاروزہ احتیاط کی بنا پر باطل ہو جا ئے گا لیکن اگر پورے بدن کو پانی میں ڈبو دے اور سر کا کچھ حصہ پانی سے باہر ہو تو روزہ باطل نہیں ہو گا ۔
مسئلہ ۱۷۴۶۔اگر سر کا نصف حصہ ایک دفعہ اور دوسرا نصف حصہ دوسر ے دفعہ پانی میں ڈبوئے تو اس کا ورزہ باطل نہیں ہو گا ۔
مسئلہ ۱۷۴۷۔ اگر شک کرے کہ پو را سر پانی میں ڈوبا ہے یا نہیں تو اس کاروزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۷۴۸۔ اگر پورا سر پانی کے اندر چلا جا ئے لیکن بالوں کا کچھ حصہ باہر رہ جا ئے تو روزہ باطل ہو جا ئے گا ۔
مسئلہ ۱۷۴۹۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ سر کو مضاف پانی میں نہ ڈبوئے ۔
مسئلہ۱۷۵۰۔ اگر روزہ دار بے اختیار پانی میں گر پڑے اور اس کا پو را سر پانی میں چلا جا ئے یا بھول جا ئے کہ وہ روزہ سے ہے اور سر پانی میں ڈبو دے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہو گا۔
مسئلہ ۱۷۵۱۔ اگر کوئی شخص یہ اطمینان کرے کہ سر پانی میں نہیں ڈبو ے گا اپنے آپ کو پانی میں گرادے اور سر پانی میں چلا جا ئے تو اس کے روزہ میں کو ئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اسے اطمینان نہ ہو اور اپنے کو پانی میں گرا دے اور پورا سرپانی میں ڈوب جا ئے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس روزہ کی قضا کرے ۔
مسئلہ ۱۷۵۲۔ اگر بھو ل جا ئے کہ روزہ سے ہے اور سر پانی میں ڈبو دے یا دوسرا شخص زبر دستی اس کے سر کو پانی میں ڈبو دے تو اگر پانی کے اندر ا سکو یا د آجا ئے کہ وہ روزے سے ہے یا وہ شخص جس نے ڈبویا ہے اپنا ہاتھ ہٹا لے تو اسے چاہئیے کہ فوراً سر پانی سے باہر نکالے اور اگر اس نے سر باہر نہ نکالا تو اس کا روزہ باطل ہو جا ئے گا ۔
مسئلہ ۱۷۵۳۔ اگر بھول جا ئے کہ روزہ سے ہے اور غسل کی نیت سے پانی میں سر ڈبو دے تو اس کا روزہ اور غسل دو نوںصحیح ہے۔
مسئلہ ۱۷۵۴۔ اگر یہ جانتا ہو کہ روزہ سے ہے اور جان بوجھ کے غسل کے واسطے سر کو پانی میں ڈبوئے تو اگر روزہ اس کا ماہ رمضان کے روزے جیسا ہوکے و قت معین ہو تو روزہ اور غسل دونوں باطل ہیں اور اگر مستحبی روزہ یا واجبی روزہ کا کفارہ وغیرہ ہو جس کا وقت معین نہیں ہے تو غسل صحیح ہے اور روزہ باطل ہو جا ئے گا ۔
مسئلہ ۱۷۵۵۔اگر کسی کو ڈوبنے سے بچائے اور اس کا سر پانی میںچلا جائے اگر چہ اس کا بچانا واجب ہو لیکن اس کا روزہ باطل ہو جا ئے گا ۔

۷۔ صبح کی اذان تک جنابت اور حیض ونفاس پر باقی رہنا
مسئلہ ۱۷۵۶۔ اگر مجنب جان بوجھ کرصبح کی اذان تک غسل نہ کرے یا اگر اسکا وظیفہ تیمم ہو اور تیمم بھی نہ کرے تو ا سکا روزہ گر ماہ رمضان یا اسکی قضا کا ہو تو باطل ہے لیکن اگر ایسا واجبی روزہ ہو جس کا وقت وسیع ہویا مستحبی روزہ ہو تو باطل نہیں ہو گا ۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ صبح کی اذان سے پہلے غسل یا تیمم کو ترک نہ کرے خاص کر ومعین واجب روزے میں جیسے کسی خاص دن کے روزے کی نذر کی ہو اس دن ۔
مسئلہ ۱۷۵۷۔ اگر ماہ رمضان کے روزے کے لئے اذان صبح تک غسل یا تیمم نہ کرے لیکن جان بوجھ کرنہ ہومثلاً وہ اپنے اعتبار سے پوری کو شش کرے کہ تیمم یاغسل کرے لیکن نہ کر سکے تو اسک روزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ۱۷۵۸۔ وہ شخص کہ جو جنابت والا ہو اور وہ ماہ رمضان کا روزہ رکھنا چاہتا ہو اور وہ جان بوجھ کر غسل نہ کرے یہاں تک کہ وقت تنگ ہو جا ئے تو تیمم سے روزہ رکھ سکتا ہے اوراس کا روزہ صحیح ہے اور اسے روزہ کی قضا بھی بجا لانی چاہیئے ۔
مسئلہ۱۷۵۹۔ اگرمجنب شخص ماہ رمضان میں غسل کر نا بھول جا ئے اور ایک روز کے بعد ا س کو یاد آئے تو اس روز کے روزے کی قضا کر نی چاہئیے اور اگر چند روز کے بعد اس کو یاد آئے تو چند دن کا ورزہ جس کا اس کو یقین ہو کہ مجنب تھا قضا کرے مثلا اگر یہ نہیں معلوم کہ تین روز یا چار ورز سے مجنب تھا تو ا سکو کم از کم تین روز روزے کی قضا کر نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۱۷۶۰۔ وہ شخص کہ جو ماہ رمضان کی رات میں غسل یا تیمم کسی ایک کے لئے بھی وقت نہ رکھتا ہو اور اپنے کو مجنب کر لے تو اس کا روزہ باطل ہے اور قضا و کفارہ اس پر واجب ہے لیکن اگر تیمم کے لئے وقت رکھتا ہو اور اپنے کو مجنب کر لے تو تیمم کے ساتھ اس کاروزہ صحیح ہے اور بہتر یہ ہے کہ اس کی قضا بھی بجا لا ئے ۔
مسئلہ ۱۷۶۱۔ اگر وقت جاننے کے لئے جستجو کرے اور گمان کرے کہ بقدر غسل وقت رکھتا ہے اور اپنے کو مجنب کر لے اور بعد میں سمجھے کے وقت تنگ تھا اور تیمم کر لے تو اسکا روزہ صحیح ہے اور اگر بغیر جستجو کئے گمان کرے کے وقت رکھتا ہے اور اپنے آپ کو جنب کرے اور بعد میں سمجھے کے وقت تنگ تھا اور تیمم کے ساتھ روزہ رکھ لے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس روزہ کی قضا بجا لا ئے ۔
مسئلہ ۱۷۶۲۔ وہ شخص جو کہ ماہ رمضان کی رات کو مجنب ہو اور یہ معلوم ہو کہ اگر وہ سو جا ئے گا تو صبح تک نہ جا گے گا تو اس کو نہیں سو نا چاہئیے اور اگر سو جا ئے اور صبح تک نہ جا گے تو اس کا روزہ باطل ہے اور قضا و کفار اس پر واجب ہو گا ۔
مسئلہ ۱۷۶۳۔اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی رات میں مجنب ہواور وہپ جانتا ہو یا اسکی عادت ہو کہ اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گااور یہ ارادہ رکھتا ہو کہ جاگنے کے بعد غسل کرے گا اور اسی ارادے سے سو جائے اور اذان تک سوتا رہے تو اسکا روزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۷۶۴۔ وہ شخص جو کہ ماہ رمضان کی شب میں مجنب ہو اہے اور جانتا ہے یا اس کی عادت ہے کہ اگر سو جا ئے گا تو صبح کی اذان سے پہلے جاگ جا ئے گا چنانچہ وہ اگر غافل ہو کہ جاگنے کے بعد اسے غسل کر نا ہے اور اس صورت میں وہ سو جا ئے اور صبح کی اذان تک سوتا رہے اگر غفلت میںاس نے کوتاہی کی ہے تو احتیاط واجب یہ ہے اس روز کے روزہ کی قضا کرے اگر کوتاہی نہیں کی ہے تو احوط استحبابی یہ ہے کہ روزے کی قضا کرے ۔
مسئلہ ۱۷۶۵۔ وہ شخص جو کہ ماہ رمضان کی شب میں مجنب ہو اہے اور جانتا ہے یا اس کو احتمال ہو تا ہے کہ اگر سو جا ئے گا تو صبح کی اذان سے پہلے جاگ جا ئے گا چنانچہ اگر وہ جاگنے کے بعد غسل کر نا نہ چاہے یااسے تردد ہو کہ غسل کرے یا نہ کرے توا س صورت میں اگر وہ سوجائے اور بیدار نہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہے اور قضا اور کفارہ بھی ہے ۔
مسئلہ ۱۷۶۶۔ اگر مجنب ماہ رمضان کی شب میں سو جا ئے اور پھر جاگیاور اسے معلوم ہو یا ا سکی عادت ہے کہ اگر دو بارہ سو جا ئے گا تو صبح کی اذان سے پہلے جاگ جا ئے گا اور اس کا پکا ارادہ ہو کہ اگر جاگ جا ئے گا تو غسل کرے گا چنانچہ اگر وہ دوبارہ سوگیا ہواور صبح کی ا ذان تک نہ جاگا تو اسے اس روز کے روزے کی قضا کر نی چاہئیے اور اسی طرح سے اگر دوسری مرتبہ جاگے اورتیسری مرتبہ سو جا ئے اور اذان صبح تک سو تا رہے تو قضا اس پر واجب ہوجائے گی اوراحتیاط مستحب کی بنا پر کفارہ بھی دے ۔
مسئلہ ۱۷۶۷۔ ضروری نہیں ہے کہ جس نیند میں وہ محتلم ہوا ہے اسے پہلی نیند شمار کرے اگر چہ بہتر یہی بہتر ہے پس اگرا س نیند سے جاگیاور دیکھے کہ مجنب ہے اوردوبارہ سو جا ئے اور جانتا ہو یا اس کی عادت ہو کہ بیدا ہو جا ئے گا اور اس کا پختہ ارادہ بھی ہو کہ بیدار ہو نے کے بعد غسل کرے گا اگر اذان صبح تک سوتا رہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس روزہ کی قضا کرے اور اگر دوبارہ بیدار ہوجائے اور جانتا ہو یا اس کی عادت یہ ہو کہ بیدار ہو جا ئے گااور اس کا پختہ ارادہ بھی ہو کہ بیدار ہو نے کے بعد غسل بھی کرے گا ایسی صورت میں پھر وہ سوجا ئے اور اذان تک سویا رہے تو اس دن کے روزہ کی قضا کرے اور بنا بر احتیاط مستحب کفارہ بھی اس پر واجب ہو گا ۔
مسئلہ۱۷۶۸۔ اگر روزہ دار دن میں محتلم ہو جا ئے تو فورا غسل کر نا واجب نہیں ہے ،اگر چہ بہتر ہے ۔
مسئلہ ۱۷۶۹۔جب کوئی ماہ رمضان کی رات میں مجنب ہو جائے اور سوجائے اور پھر جاگے تو جائز ہے کہ غسل سے پہلے سو جائے البتہ اگراسے دوبارہ جاگنے کی عادت ہو یا نہ بھی ہو تب بھی سوسکتا ہے اس صورت میں جب کہ اسے احتمال ہو کہ اگر دو بارہ سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے جاگ جائے گا اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ دو بارہ نہ سوئے تاکہ غسل کر لے۔
مسئلہ ۱۷۷۰۔ اگر ماہ رمضان میں صبح کی اذان کے بعد بیدار ہو اور دیکھے کہ محتلم ہو گیا ہے اگر چہ یہ معلوم ہو کہ ا ذان سے پہلے محتلم ہو ا تھاپھر بھی ا سکا روزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ۱۷۷۱۔ وہ شخص جو صبح کی اذان تک جنابت کی حالت پر باقی رہے اوروہ ماہ رمضان کے روزہ کی قضا رکھنا چاہتا ہے تو اگر چہ کہ جان بوجھ کر نہ بھی ہو تو ا س دن کا روزہ نہیں رکھ سکتا۔
مسئلہ ۱۷۷۲۔ وہ شخص جو ماہ رمضان کے روزہ کی قضا رکھنا چاہتا ہے اگر وہ صبح کی اذان کے بعد جاگے اور دیکھے کہ محتلم ہو گیا ہے اور یہ بھی معلوم ہو کہ اذان سے پہلے محتلم ہو اہے چنانچہ قضاروزہ کا وقت تنگ ہے مثلا پانچ دن رمضان کے روزہ کی قضا کے ہیں اور پانچ ہی دن رمضان کو شروع ہو نے میں باقی ہیں توبہتر ہے کہ اس دن روزہ رکھے اور ماہ رمضان کے بعد احتیاط واجب کی بنا پر اس کی قضا بھی کرے اگر روزہ کی قضا کا وقت تنگ نہیں ہے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۷۷۳۔ اگر رمضان کے روزے کے علاوہ واجبی روزہ یا اس کی قضا رکھنے کے لئے صبح کی اذان تک جنابت کی حالت پر باقی رہے لیکن اگر عمدا ًنہ ہو اور اس روزہ کا وقت مقرر بھی ہو جیسے کہ وہ نیت کرے فلاں دن کا روزہ رکھے گا تو ا سکا روزہ صحیح ہے اور اگر ا سکا وقت مقررنہ ہو جیسے کفارہ کاروزہ تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس دن کو چھوڑ کر دوسرے دن روزہ رکھے ۔
مسئلہ ۱۷۷۴۔ اگر عورت ماہ رمضان میںصبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جا ئے اور جان بوجھ کر غسل نہ کرے یا اگر اس کا فریضہ تیمم کر نا ہو عمدا ًتیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے ،لیکن ماہ رمضان کے قضا روزیاور ہر معین یا غیر معین واجب روزے اور اسی طرح مستحب روزے میں بھی احتیاط مستحب کی بنا پر اس روز کی قضا کرے ۔
مسئلہ ۱۷۷۵ ۔اگر عورت اذان صبح سے پہلے حیض یا نفا س سے پاک ہو جائے اور غسل کا وقت نہ ہوتو روزہ رکھنے کیلئے اسے تیمم کرنا چاہیئے اور اس کا روزہ بنا بر اقویٰ صحیح ہے چاہے وہ ماہ رمضان کا روزہ ہو یااس کی قضا لیکن واجب معین یا غیر معین یا مستحب روزہ میں اس روز کی قضا کرے ،لیکن مجنب شخص کے قضا کا حکم خود ماہ رمضان کا حکم ہے۔
مسئلہ۱۷۷۶۔اگر عورت اذان صبح کے قریب حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل وتیمم کا وقت نہ رکھتی ہو یا اذان کے بعد یہ پتہ چلے کہ اذان سے پہلے پاک ہو گئی تھی تو اگر وہ روزہ ماہ رمضان یا اسکی قضا ہے توروزہ صحیح ہے اورا سی حکم میں ہے اگر مستحبی یاواجب معین یا غیر معین روزہ ہو جیسے وہ کفارہ کا روزہ کہ جسکا وقت معین ہے بنا بر اقویٰ یہ روزے بھی صحیح ہیں ۔
مسئلہ ۱۷۷۷۔اگر عورت اذان صبح کے بعد حیض یا نفا س سے پاک ہو یا دن میں حیض یا نفاس کا خون دیکھے اگر چہ مغرب کے نزدیک ہو اس کا روزہ باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۷۷۸۔ اگر عورت حیض یا نفاس کے غسل کو بھول جائے اور اسے ایک یا کئی دن کے بعد یاد آئے تو درمیان میں جو روزہ رکھے ہیں وہ صحیح ہیں۔
مسئلہ ۱۷۷۹۔اگر عورت اذان صبح سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل کرنے میں کوتاہی کرے اور اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اگر کو تاہی نہ کرے مثلاً منتظر ہو کہ زنانہ حمام کھلے اگر چہ اس درمیان تین مرتبہ سو جائے اور اذان تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے ،البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ جب غسل کرنے کی امید رکھتی ہو ورنہ واجب ہے کہ تیمم کرے اور اگر تیمم نہ کرے تو اسکا روزہ باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۷۸۰۔ جو عورت استحا ضہ کی حالت میں ہے اگر اپنے واجب غسلوں کو بجا لائے( جنکی تفصیل احکام استحاضہ میں گذر چکی) تو اس کا روزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۷۸۱۔ جس شخص نے میت کو مس کیا ہو یعنی اپنے بدن کے کسی حصے کو میت کے بدن کے کسی حصے سے ملایا ہے تو ایسا شخص بغیر غسل مس میت کے روزہ رکھ سکتا ہے اور اسی طرح اگر روزے کی حالت میں میت کو چھو لے تو اسکا روزہ باطل نہیں ہو گا ۔
۸۔بہنے والی چیزوں سے انیما لینا
مسئلہ ۱۷۸۲۔بہنے والی چیزوں سے انیما لینااگر چہ مجبورا ًاور علاج ہی کے لئے ہو تو یہ روزہ کو باطل کر دیتا ہے ، اگر وہ بہنے والی چیز نہ ہو تو اشکال نہیں ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ اس سے اجتنا ب کی جائے ۔
۹۔قے کرنا
مسئلہ ۱۷۸۳۔اگر روزہ دار جان بوجھ کر قے کرے چاہے بیماری کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے قے کر نے پر مجبور ہو تو اسکا روزہ باطل ہو جائے گا جسکی اسکو قضا کرنی ہو گی لیکن کفارہ واجب نہیں ہے،لیکن اگر بھول کر قے کرے یا بے اختیار قے آجا ئے تو اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۷۸۴۔اگر رات کو کوئی ایسی چیز یہ جان کے کھالے کہ اسکی وجہ سے اسے دن میں بے اختیار قے آجا ئے گی تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس دن کے روزہ کی قضا کرے۔
مسئلہ ۱۷۸۵۔اگر روزہ درا خود کو قے کرنے سے روک سکتا ہو اور اس کیلئے ایسا کرنا نقصان یا مشقت کا باعث نہ ہو تو اسے احتیاط مستحب کی بنا پرخود کو قے کرنے سے روکنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۷۸۶۔اگر روزہ دار کے حلق میں کوئی کیڑاچلاجائے اور اسکا نکالنا ممکن ہو تو اسے نکالنا چاہیئیاور اس سے روزہ باطل نہیں ہو تا لیکن اگر اسے نکالنے میں قے کے آجانے کا خطرہ ہو تو اسکا نکالنا واجب نہیں ہے اور اسکا روزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۷۸۷۔اگر بھول کر کسی چیز کو نگل لے اور پیٹ میں پہنچنے سی پہلے اسے یاد آجائے کہ روزے سے ہے اگر اسکا باہر نکالنا ممکن ہو تو نکالے اور اسکا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ ۱۷۸۸۔اگر یقین رکھتا ہو کہ ڈکار لینے کی وجہ سے کوئی چیز حلق سے باہر آجائے گی تو اسکو ڈکار نہیں لینا چاہیئے لیکن اگر یقین نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ۱۷۸۹۔اگر ڈکار لے اور کوئی چیز اس کے حلق یا منہ میں آجائے تو اسے باہر پھینک دینا چاہئے اور اگر بے اختیار اندر چلی جائے تو اسکا روزہ صحیح ہے ۔






روزہ کو باطل کرنے والی چیزوں کے احکام
مسئلہ۱۷۹۰۔ اگر انسان جان بوجھ کر اور اپنے اختیار سے کوئی ایسا کام انجام دے جو کہ روزہ کو باطل کرتا ہے تواسکا روزہ باطل ہو جائے گا اور اگر جان بوجھ کو نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر مجنب اس تفصیل سے کہ جو مسئلہ ۱۷۶۷مین بیان کی گئی ہے سوجائے اور صبح کی اذان تک غسل بھی نہ کرے تو اسکا روزہ باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۷۹۱۔اگر روزہ دار بھول کر کوئی ایک کام ان کاموں میں سے انجام د ے جو روزہ کو باطل کرتا ہے اور اس خیال سے کہ اس کا روزہ باطل ہو گیا ہے جان بوجھ کر ایک اور کام انہی میں سے بجا لائے تو اسکا روزہ باطل ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۱۷۹۲۔اگر کوئی چیز زبر دستی روزہ دار کے حلق میں ڈال دی جائے یا اس کے سر کو زبر دستی پانی میں ڈبو دیا جائے تو اسکا روزہ باطل نہیں ہو گا لیکن اگر اسکو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے روزہ کو باطل کرے مثلاً اس سے کہا جائے کہ اگر تم غذا نہ کھاؤ گے تو جانی یا مالی نقصان اٹھاؤ گے اور وہ نقصان کو روکنے کے واسطے کوئی چیز کھالے تو اسکا روزہ باطل ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۱۷۹۳۔روزہ دار کو ایسی جگہ نہیں جا نا چاہیئے جہاں اسے معلوم ہو کہ اس کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ خود اپنا روزہ باطل کر دے ، اگر مجبوری کی بنا پر ایسا کام انجام دے جو روزہ کو باطل کرتا ہو تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

روزہ دار کے لئے مکروہ چیزیں
مسئلہ ۱۷۹۴۔ چند چیزیں روزہ دار کے لئے مکروہ ہیں انکی تفصیل مندرجہ ذیل ہے ۔
(۱)آنکھوں میں دوا ڈالنا
(۲)سرمہ لگا نا اس صورت میں جبکہ اس کا ذائقہ یا بو حلق میں پہنچے
(۳)ہر اس کام کا انجام دینا جو کمزوری کا باعث ہو جیسے خون نکالنا اور حمام جا نا
(۴)ناس لینا جبکہ یہ نہ جانتا ہو کہ حلق میں پہنچے گی اور اگر جانتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر جائز نہیں ہے ۔
(۵)خوشبو دار گھاس سونگھنا
(۶)عورت کا پانی میں بیٹھنا
(۷)شیاف ( بتی) کا استعمال کرنا
(۸)بدن پر جو لباس ہے اس کو گیلا کرنا
(۹)دانت نکلوانا یا ہر وہ کام جس کی وجہ سے منھ سے خون نکل آئے
(۱۰)تر لکڑی سے مسواک کرنا
(۱۱)بلا وجہ پانی یا پانی کے مثل کوئی چیز منھ میں ڈالنا
(۱۲)اپنی زوجہ کا بوسہ لینا جبکہ منی نکلنے کا احتمال نہ ہو یا ایسا کام کرنا جس سے شہوت ابھرتی ہو ،اگر منی باہر آنے کے قصد سے ایسا کرے تو احتیاطاً اس کا روزہ باطل ہو جائے گا ۔

جن مقامات پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں
مسئلہ ۱۷۹۵۔اگر رمضان کے روزہ میں جان بوجھ کر قے کرے یاپانی میںسر ڈبوئے،یا بہنے والی چیز سے انیما لے یا رات میں مجنب ہو جائے اور پھر بیدار ہو پھر سوجائے اور صبح کی اذان تک بیدارنہ ہو پائے جیسا کہ مسئلہ (۱۷۶۷)میں بیان ہوا تو صرف اس روز کے روز کی قضا کرنا چاہیئے لیکن اگر دوسرا کوئی کام عمداً ایسا انجام دے جو روزہ کو باطل کرتا ہے تو اس صورت میں جبکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کام روزہ کو باطل کرتا ہے تو اس پر قضا و کفارہ دونوں واجب ہے لیکن بعض صورتوں میں کفارہ مثلاً خدا یا پیغمبر یا ائمہ علیھم السلام پر بہتان باندھنے کی صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہو جا تا ہے۔
مسئلہ ۱۷۹۶۔اگر مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے کوئی ایسا کام انجام دے جو روزہ کو باطل کرتا ہے تو اگر وہ مسئلہ سیکھ سکتا تھا تو ا س پر کفارہ واجب ہو گا اور اگر مسئلہ نہیں سیکھ سکتا تھا یا اصلاً مسئلہ کی طرف متوجہ ہی نہیں تھا تو ا س پر کفارہ واجب نہیں ہے،اور احتیاط واجب کی بنا پر غافل انسان کا بھی یہی حکم ہے ۔

روزہ کا کفارہ
مسئلہ ۱۷۹۷۔جس شخص پر رمضان کے روزہ کا کفارہ واجب ہے اس کو ایک غلام آزاد کرنا چاہیئے یا اس قاعدہ کے مطابق جو بعد میں بیان کیا جائے گا دو مہینے روزہ رکھے یا ۶۰ فقیروں کو کھانا کھلائے یاہر ایک کو ایک مد (جو کہ تقریباً سات سو پچاس گرام )گیہوں یا جو یا ایسی ہی چیز دے اور اگر اس کے لئے یہ سب نا ممکن ہو تو اسے اختیار ہے کہ یا اٹھارہ روزے پے در پے رکھے یا چند مد جو کہ فقیروں (محتاجوں )کودے سکتا ہے دے اور اگر نہیں دے سکتا تو استغفار کرنا چاہئیے اگر چہ ایک ہی مرتبہ استغفر اللہ کہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جب بھی کفارہ دینے پر قدرت ہو کفارہ دے۔
مسئلہ۱۷۹۸۔ جو شخص رمضان کے روزہ کا کفارہ دو مہینے روزہ رکھنا چاہتا ہو تو اسے اکتیس (۳۱)دن مسلسل روزہ رکھنا چاہیئے اور اگر باقی ماندہ روزے لگا تار نہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۷۹۹۔وہ شخص جو رمضان کے روزے کا کفارہ دو مہینے روزہ رکھنا چاہتا ہو تو اسے ایسے وقت سے روزہ رکھنا شروع نہیں کرنا چاہیئے کہ اس ۳۱ روز کے درمیان میں کوئی ایسا دن واقع ہو جس میں روزہ رکھنا حرام ہو جیسے عید الفطر و عید الاضحی۔
مسئلہ ۱۸۰۰۔ جو شخص مسلسل روزہ رکھنا چاہتا ہے اگر ان کے درمیان میں بغیر عذر کے ایک روزہ نہ رکھے یاعمداً ایسے وقت سے روزے رکھنا شروع کرے کہ ان کے درمیان میں کوئی ایسا روز ہو کہ اس روز کا روزہ اس پر واجب ہو مثلاً اس دن نذر کی ہو کہ روزہ رکھے گا تو ا سکو چاہیئے کہ کفارہ کے روزوں کو پھر سے شروع کرے ۔
مسئلہ ۱۸۰۱۔اگر ان روزوں کے درمیان جن کو مسلسل رکھنا چاہتا ہے کوئی عذر مثلا ًایساسفر جس میں جانے کے لئے وہ مجبور ہو پیش آجائے یا حیض یا نفاس پیش آجائے تو عذر ختم ہوجانے کے بعد واجب نہیں ہے کہ وہ روزوںکو پہلے سے شروع کرے بلکہ باقی روزوں کو عذر حتم ہو جانے کے بعد پورا کرے ۔
مسئلہ ۱۸۰۲۔اگر کسی حرام چیز سے اپنے روزہ کو باطل کرے خواہ وہ چیز اصل میں حرام ہو جیسے شراب اور زنا یا کسی وجہ سے حرام ہوئی ہو جیسے حلال غذا کا کھانا اگر انسان کے لئے مضر ہو یا حیض کی حالت میں اپنی زوجہ سے مباشرت کرنا تو احتیاط کی بنا پر تینوں کفارہ اس پر واجب ہوں گے یعنی ایک غلام آزاد کرے اور دو مہینے روزہ رکھے اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ، یا ہر ایک کو ان میں سے ایک مد (سات سو پچاس گرام)گیہوں یا جو یا روٹی یا کشمش یا کھجور دے ۔اگر تینوں کفارہ اس کے لئے ممکن نہ ہو تو جو بھی ان میں سے ممکن ہو انجام دے۔
مسئلہ ۱۸۰۳۔اگر روزہ دار کسی جھوٹ کو خدا اور پیغمبر ؐ کی جانب نسبت دے اگر چہ اس نے روزہ کو حرام چیز سے باطل کیا ہے لیکن تینوں کفارے جیسا کہ تفصیلی طور پر سابقہ مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے اس پر واجب نہیں ہو ں گے ۔
مسئلہ ۱۸۰۴۔اگر روزہ دار ماہ رمضان میں ایک روز چند مرتبہ جماع کرے تو احتیاط مستحب کی بنا پر اسے پر مرتبہ کے لئے کفا رہ د ے لیکن اگر اس کا جماع کرنا حرام ہوتواحتیاط مستحب کی بنا پر ہر دفعہ کے لئے اس پر کفارۂ جماع واجب ہو گا (غلام آزاد کرنا ، کھانا کھلا نا ،روزہ رکھنا )
مسئلہ ۱۸۰۵۔اگر روزہ دار ایک روز ماہ رمضان چند مرتبہ جماع کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام کرے جو کہ روزہ کو باطل کرتا ہے تو سب کے بدلے ایک کفارہ کافی ہے ۔
مسئلہ ۱۸۰۶۔ اگر روزہ دار جماع کے علاوہ کسی دوسرے ذریعہ سے روزے کو باطل کردے اور بعد میں اپنی بیوی سے جماع کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ہر ایک کے لئے ایک کفارہ واجب ہو گا ۔
مسئلہ ۱۸۰۷۔اگر روزہ دار جماع کے علاوہ اور کام جو کہ حلال ہے اور روزہ کو باطل کرتا ہے انجام دے مثلاً پانی پی لے اور جماع کے علاوہ اس طرح کا کام کہ جو حرام ہے انجام دے مثلا ًحرام غذا کھالے تو ایک کفارہ کافی ہے۔
مسئلہ ۱۸۰۸۔اگر روزہ دار ڈکار لے اور اس کے منھ میں کوئی چیز آجائے اور اسے وہ جان بوجھ کر نگل جائے تو ا سکا روزہ باطل ہے اور ا س روزہ کی قضا رکھنا بھی واجب ہے اور کفارہ بھیاس پر واجب ہے اور اگر اس چیز کا کھانا حرام ہو مثلا ً ڈکار لیتے وقت خون اس کے منھ میں آجائے اور جان بوجھ کر اس کو نگل جائے تو اس روزہ کی قضا اس کو رکھنا چاہیئے اور احتیاط کی بنا پر کفارۂ جمع اس پر واجب ہے۔
مسئلہ ۱۸۰۹۔اگر نذر کر کے کسی مقرر ہ دن روزہ رکھے گا اور اس دن وہ جان بوجھ کر اپنا روزہ باطل کر لے تو اس کو ایک غلام آزاد کرنا چاہیئے یادس محتاجوں کو کھانا کھلائے یا کپڑا پہنا ئے اور اگر ممکن نہ ہو تو تین روزے رکھے ۔
مسئلہ ۱۸۱۰۔وہ شخص جو کہ وقت کو پہچان سکتا ہو ،اور اگر کسی شخص نے کہ جو قابل اطمینان نہیں ہے کہا کہ مغرب ہو گئی اورا سنے جان بوجھ کر افطار کر لیا اور بعد میں معلوم ہو کہ مغرب نہیں ہوئی تھی تو اس پر قضا و کفارہ دونوں واجب ہوں گے لیکن اگر قابل اطمینان تھا تو فقط قضا کافی ہے ۔
مسئلہ ۱۸۱۱۔جس شخص نے جان بوجھ کر اپنا روزہ باطل کر لیا ہے اگر ظہر کے بعد سفر کرے یا ظہر سے پہلے کفارہ سے بچنے کے لئے سفر کرے تو ا سکا کفارہ ساقط نہیں ہو گا اگر ظہر سے پہلے اس کو سفر در پیش آجائے اور وہ سفر کرے تو ا س پر کفارہ واجب ہے ۔
مسئلہ ۱۸۱۲۔اگر جان بوجھ کر کوئی اپنا روزہ باطل کرے اور بعد میں کوئی عذر مثلاً حیض نفاس یا کوئی بیمار ی اسے لاحق ہو جائے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۸۱۳۔اگر یقین کرے کہ آج ماہ رمضان کا پہلا دن ہے اور جان بوجھ کر اپنا روزہ باطل کرے بعد میں معلوم ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ تھی تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۸۱۴۔اگر انسان شک کرے کہ آخر ی رمضان ہے یا پہلی شوال اور جان بوجھ کر اپنے روزہ کو باطل کر دے اور بعد میں معلوم ہو کہ شوال کی پہلی تاریخ تھی تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۸۱۵۔اگر روزہ دار ماہ رمضان میں اپنی زوجہ سے کہ جو روزہ دار ہے جماع کرے چنانچہ اگر بیوی کو مجبور کیا ہو تو اس کو اپنے روزے اور اپنی بیوی دونوں کا کفارہ واجب ہے اور اگر بیوی مباشرت کرنے پر رضا مند تھی تو ہر ایک پر اپنا کفارہ واجب ہے ۔
مسئلہ ۱۸۱۶۔اگر کوئی بیوی اپنے روزہ دار شوہر کو جماع کرنے پر مجبور کرے یا دوسرا کام جو کہ روزہ کو باطل کرتا ہے انجام دے تو شوہرکاکفارہ اس پر واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۸۱۷۔اگر روزہ دار ماہ رمضان میں اپنی زوجہ سے مباشرت کرے اور جماع کے درمیان میں زوجہ راضی ہو جائے تو ہر ایک کو ایک کفارہ دینا چاہیئے اور احتیاط مستحب کی بنا پرشوہر کو دو کفارہ اور زوجہ کوایک کفارہ دینا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۸۱۸۔اگر روزہ دار ماہ رمضان میںاپنی روزہ دار بیوی سے کہ جو سوئی ہوئی ہو جماع کرے تو ایک کفارہ اس پر واجب ہو گااور زوجہ کا روزہ صحیح ہے اوراس پر کفارہ بھی واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ۹ ۱۸۱۔اگر مرد اپنی بیوی کو مجبور کرے کہ جماع کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا کام انجام دے کہ جس سے روزہ باطل ہو جاتا ہو تو زوجہ کا کفارہ نہیں دینا چاہیئے اور خود زوجہ پر بھی کفارہ واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۸۲۰۔جو شخص سفر کرنے یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا تو وہ اپنی روزہ دار زوجہ کو مباشرت کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا لیکن اگر اس کو مجبور کیا ہو تو مرد پر کفارہ واجب نہیں ہے اور نہ ہی بیوی پر۔
مسئلہ ۱۸۲۱۔انسان کو کفارہ کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیئے لیکن لازم نہیں ہے کہ اس کو فوراً انجام دے ۔
مسئلہ ۱۸۲۲۔اگر انسان پر کفارہ واجب ہو اور چند سال تک اس کو ادا نہ کرے تو اس پر کسی چیز کا اضافہ نہیں ہو تا ۔
مسئلہ ۱۸۲۳۔جس شخص کو ایک روزہ کا کفارہ ساٹھ محتاجوں کو کھانا کھلانا ہو اگر ساٹھ محتاج ملیں تو ہر ایک کو ان میں سے ایک مد ( سات سو پچاس گرام)سے زیادہ نہیںدینا چاہیئے یا ایک محتاج کو ایک مرتبہ سے زیادہ سیر نہیں کرنا چاہیئے لیکن محتاج کے اہل و عیال میں سے ہر ایک کے لئے اگر چہ وہ کمسن ہوں ایک مد اس محتاج کو دے سکتا ہے۔
مسئلہ ۱۸۲۴۔جس شخص نے کہ رمضان کے روزہ کی قضا رکھی ہے اگر ظہر کے بعد جان بوجھ کر ایسا کام کرے جو روزہ کو باطل کرتا ہے تو اسے چاہیئے کہ دس محتاجوں کو ہر ایک کو ایک ایک مد طعام دے اور اگر نہ دے سکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر تین دن روزہ رکھے ۔
جہاں صرف روزہ کی قضا واجب ہے
مسئلہ ۱۸۲۵۔چند صورتوں میں انسان پر صرف روزہ کی قضا واجب ہے اور کفارہ واجب نہیں ہے
(۱)ماہ رمضان میں روزہ دار کا جان بوجھ کر قے کرنا
(۲)ماہ رمضان میں مجنب ہو اور صبح کی اذان تک دوسری نیند سے نہ جاگے (تفصیلی مسئلہ۱۷۶۷)
(۳)وہ کام جو روزہ کو باطل کر دیتا ہے بجا نہ لائے لیکن روزہ کی نیت نہ کرے یا ریا کاری کی نیت ہو ،یاقصد کرے کی روزے سے نہیں ہے یا روزہ کو باطل کر دینے والی کسی چیز کا قصد کرے (احتیاطاً)
(۴)ماہ رمضان میں غسل جنابت کرنا بھول جائے اورا سی حالت میں ایک روزہ یا چند روزروزہ رکھے
(۵)ماہ رمضان میں بغیر تحقیق کئے ہوئے کہ صبح ہوئی ہے یا نہیں ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کردیتا ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ اس وقت صبح تھی نیز اگر تحقیق کرنے کے بعد یہ گمان ہو جانے کے باوجود کہ صبح ہوگئی ہے وہ ایسا کام کرے جو روزہ کو باطل کرتا ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ اس وقت صبح تھی تو اس روزہ کی قضا کرنا اس پر واجب ہے بلکہ اگر تحقیق کے بعد یہ شک کرے کہ صبح ہو گئی ہے یا نہیںہوئی اور کوئی ایسا کام جو روزہ کو باطل کر دیتا ہے انجام دے اور بعد میں معلو م ہو کہ اس وقت صبح ہوگئی تھی تو قضا واجب ہے۔
(۶)کوئی شخص کہے کہ صبح نہیں ہوئی اور اس کے کہنے پر وہ ایسا کام کر ے جو روزہ کو باطل کرتا ہے بعد میں معلوم ہو کہ اس وقت صبح تھی۔
(۷)کوئی شخص کہے کہ صبح ہو گئی اور انسان اس کے کہنے پر یقین نہ کرے یا خیال کرے کہ وہ مذاق کر رہا ہے اور ایسا کام کرے جو کہ روزہ کو باطل کرتا ہے بعد میں معلوم ہو کہ اس وقت صبح تھی ۔
(۸)اندھا یا اس جیسا کوئی شخص کسی کے کہنے پر افطار کر لے اور بعد میں معلوم ہو کہ اس وقت مغرب نہیں تھی ۔
(۹)آسمان صاف ہونے کی صورت میں اندھیرے کی وجہ سے یہ یقین کر لے کہ مغرب ہو گئی اور افطار کر لے اور بعد میں معلوم ہو کہ مغرب کا وقت نہیں تھا تو احتیاط کی بنا پر قجا واجب ہے لیکن آسمان پر بادل ہونے کی صورت میں اگر یہ گمان کرے کہ مغرب کا وقت ہو گیا ہے اور افطار کر لے بعد میں معلوم ہو کہ اس وقت مغرب نہیں تھی تو قضا لازم نہیں ہے ۔
(۱۰)ٹھنڈک پہنچانے کے لئے یا بے سبب کلی کرے اور وہ پانی حلق میں چلا جائے لیکن اگر بھول جائے کہ روزہ سے ہے اور پانی کو نیچے اتار دے یا وضو کے لئے کلی کرے اور بے اختیار پانی حلق میں چلا جائے تو ا سپر قضا واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۸۲۶۔اگر پانی کے علاوہ کوئی دوسری چیز منھ میں لے جائے اور بے اختیار وہ اندر چلی جائے یا پانی ناک میں ڈالے او ر وہ بے اختیار اندرچلا جائے تو ا س پر قضا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۸۲۷۔روزہ دار کے لئے زیادہ کلی کرنا مکروہ ہے اور اگر کلی کے بعد چاہتا ہے کہ لعاب دہن (تھوک)کو نگل جائے تو بہتر ہے کہ تین مرتبہ تھوک کو باہر پھینکے بعد میں لعاب دہن کو نگلے ۔
مسئلہ ۱۸۲۸۔اگر انسان کو معلوم ہو کہ اگر کلی کرے تو بے اختیار یا بھولے سے پانی حلق میں چلا جائے تو اس کو کلی نہیں کر نا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۸۲۹۔اگر روزہ دار ماہ رمضان میں تحقیق کے بعد یقین کرے کہ صبح نہیں ہوئی اور ایسا کام کرے جو کہ روزہ کو باطل کرتا ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ صبح ہو گئی تھی تو قضا لازم نہیں ہے اگر چہ احوط ہے ۔
مسئلہ ۱۸۳۰۔اگر انسان شک کرے کہ مغرب ہوئی ہے یا نہیں ہوئی تو افطار نہیں کر سکتا ، لیکن اگر شک کرے کہ صبح ہوئی ہے یا نہیں تو تحقیق کرنے کے بعدبھی اگر اپنے شک پرباقی ہو تو ایسا کام کر سکتا ہے جو کہ روزہ کو باطل کرتا ہے۔
قضا روزہ کے احکام
مسئلہ ۱۸۳۱۔اگر دیوانہ عاقل ہو جائے تو اس زمانہ کی قضا جب کہ وہ دیوانہ تھا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۸۳۲۔اگر کافر مسلمان ہو جائے تو اس زمانہ کی قضا اس پر واجب نہیں ہے جب وہ کافر تھاہاں اگر مسلمان کافر ہوجائے اور دوبارہ مسلمان ہو جائے تو ان روزوں کی قضا واجب ہے جبکہ وہ کافر تھا ۔
مسئلہ ۱۸۳۳۔انسان سے جو روزہ مستی کی وجہ سے ترک ہو گئے ہو ں تو ان کی قضا واجب ہے اگرچہ جس چیز کی وجہ سے وہ مست ہوا ہے اسے اس نے علاج کی غرض سے کھایا تھا ۔
مسئلہ ۱۸۳۴۔اگر کسی عذر کی وجہ سے چند روز روزہ نہ رکھے اور بعد میں شک ہو کہ اس کا عذر کس وقت ختم ہو ا ہے اوراس بھول میں اس نے کو تاہی کی ہے تو احتیاط واجب کی بنا پرجو زیادہ مقدار ہے یعنی جتنی مقدار کا اسے احتمال ہے کہ روزہ نہیں رکھا اسی قدر قضا کرے مثلا ً جو شخص ماہ رمضان سے پہلے سفر کرے اور اسے نہیں معلوم خود کی کوتاہی کی بنا پر کہ پانچویں کو لوٹا ہے یا چھٹی ماہ رمضان کو سفر سے واپس لوٹا ہے تووہ احتیاط کی بنا پر چھ دن روزہ رکھے اور جو شخص یہ نہیں جانتا کہ کس وقت اس کو عذر لاحق ہوا ہیاور وہ اس بھول میں مقصر نہ ہو تو وہ کم تر مقدار یعنی پانچ دن کی قضا کر سکتا ہے اگر چہ احتیاط مستحب ہے کہ زیادہ یعنی چھ دن کی قضا کرے ۔
مسئلہ ۱۸۳۵۔اگر چند ماہ رمضان کے قضا روزے کسی کے ذمہ ہوں تو جس رمضان کی بھی قضا پہلے رکھے کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر آخر ی رمضان کی قضا کا وقت تنگ ہو مثلا ً پانچ دن آخری رمضان کی قضا باقی ہو اور پانچ ہی دن رمضان کے آنے میں ہوں تو احتیاط یہ ہے کہ پہلے آخری رمضان کی قضا کرے ۔
مسئلہ ۱۸۳۶۔اگر کسی پر چند ماہ رمضان کے روزوں کی قضا واجب ہو اور نیت کرنے میں یہ معین نہ کرے کہ کس رمضان کی قضا ہے تو پہلے سال کی قضا شمار ہو گی ۔
مسئلہ ۱۸۳۷۔جس شخص نے رمضان کا قضا روزہ رکھا ہے اگر اس کے قضا روزہ کا وقت تنگ نہ ہو تو ظہر سے پہلے اپنے روزہ کو توڑ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۸۳۸۔اگر کسی میت کے روزہ کی قضا رکھی ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ظہر کے بعد روزہ کو باطل نہ کرے ۔
مسئلہ ۱۸۳۹۔اگر مرض ، یا حیض یا نفاس کی وجہ سے رمضان کا روزہ نہ رکھ سکے اور رمضان ختم ہونے سے پہلے مر جائے تو وہ روزے جو اس نے نہیں رکھے ہیں ان کی قضا رکھوا نا لازم نہیںہے ۔
مسئلہ ۱۸۴۰۔اگر کسی بیماری کی وجہ سے یا کسی عذر مثلاً مسافرت کی بنا پررمضان کا روزہ نہ رکھے اور اس کی بیماری یا اسکا عذردوسرے سال رمضان تک باقی رہے تو وہ روزے جو اس نے نہیں رکھے تھے ان کی قضا اس پر واجب نہیں اور ہر روز کے لئے ایک مد طعام یعنی گیہوں یااسکی روٹی یا جو یااسکی روٹی یا کشمش یا کھجور محتاج کو دے لیکن بنا بر احتیاط مستحب ان کی قضا کرے اور روز کے لئے ایک مد طعام بھی محتاج کو دے ۔
مسئلہ ۱۸۴۱۔ اگر کسی مرض کی وجہ سے رمضان کاروزہ نہ رکھے اور رمضان کے بعد اسکا مرض دور ہو جائے لیکن دوسرا عذر لا حق ہو نے کی وجہ سے دوسرے رمضان تک روزہ کی قضا نہ رکھ سکے تو وہ روزے جو اس نے نہیں رکھے ہیں تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان کی قضا کرے اور واجب ہے کہ ہر روزے کے بدلے فقیر کو ایک مد طعام بھی دے نیز یہ کہ اگر ماہ رمضان میں بیماری کے علاوہ دوسرا عذر ہو گیا ہو اور رمضان کے بعد اس کا عذر دور ہو گیا ہو اور دوسرے رمضان تک بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو بنا بر احتیاط مستحب ان روزوں کی قضا کرنا چاہیئے جسے وہ نہیں رکھ سکا اور ہر روزے کے بدلے ایک مد طعام بھی دے ۔
مسئلہ ۱۸۴۲۔اگر ماہ رمضان میں کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے اور رمضان کے بعد اس کا عذر دور ہو جائے اور دوسرے رمضان تک جان بوجھ کر روز ہ کی قضانہ کرے تو روزہ کی قضا کرنی چاہیئے اور ہر روزہ کے لئے ایک مد گیہوں یااسکی روٹی یا جو یااسکی روٹی یا کشمش یا کھجور محتاج کو دے ۔
مسئلہ ۱۸۴۳۔اگر روزہ کی قضا رکھنے میں کو تاہی کرے یہاں تک کہ وقت تنگ ہو جائے اور وقت کی تنگی میں ایک عذر لاحق ہو جائے تو اس کو قضا رکھنا واجب ہے اور ہر روزے کے بدلے ایک مد گیہوں یا جو یا انکی روٹی یا کشمش یا کھجور محتاج کو دے لیکن جس وقت عذر رکھتا تھا اس وقت پکا ارادہ ہو کہ عذر دور ہونے کے بعد اپنے روزوں کی قضا رکھے گا اور قبل اس کے کہ قضا رکھے وقت کی تنگی میں کوئی عذر لاحق ہو جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ قضا کرے اور ایک مد طعام فقیرکو دے۔
مسئلہ ۱۸۴۴۔اگر کسی انسان کا مرض چند سال تک مسلسل باقی رہے اس کے بعد جب اسے صحت حاصل ہو جائے تو آخری رمضان کی قضا کرنی چاہیئے اور اس کے پہلے برسوں کے ہر روز کے لئے ایک مد (۷۵۰گرام)طعام یعنی گیہوں یا جو یا ان کی روٹی یا کشمش یا خرما محتاج کو دے ۔
مسئلہ ۱۸۴۵۔جس شخص کو ہر روز کے عوض ایک مد طعام محتاج کو دینا چاہیئے وہ چند دن کاکفارہ ایک محتاج کو دے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۸۴۶۔اگر رمضان کے روزے کی قضا کے لئے چند سال کی تاخیر کرے تو قضا کرنی چاہیئے اور ہر روز کے لئے ایک مد طعام محتاج کو دے ۔
مسئلہ ۱۸۴۷۔اگر رمضان کے روزہ کو جان بوجھ کر نہ رکھے تو اس کی قضا کرنی چاہیئے اور ہر روزہ کے لئے دو مہینہ روزہ رکھے یا ۶۰ محتاجوں کو طعام دے یا ایک غلام آزاد کرے اور اگر آئندہ رمضان تک اس روزہ کی قضا نہ کرے توقضا کے علاوہ ہر روزہ کے لئے ایک مد طعام لازم ہے ۔
مسئلہ ۱۸۴۸۔اگر رمضان کا روزہ جان بوجھ کر نہ رکھے اور دن میں کئی مرتبہ جماع کرے تو کفارہ بھی بڑھتا جائے گا بنا بر احتیاط واجب لیکن اگر کئی دفعہ ایسا کام کرے جو روزہ کو باطل کرتا ہے مثلا کئی دفعہ کھانا کھا لے تو ایک کفارہ کا فی ہے ۔
مسئلہ ۱۸۴۹۔باپ کے مرنے کے بعد بڑے لڑکے کو باپ کی نماز اور روزہ کی قضا اس تفصیل کے ساتھ جو (مسئلہ ۱۵۱۰) میں بیان کیا گیا ہے بجا لا نا چاہیئے اسی طرح احتیاط مستحب کی بنا پر ماں کے مرنے کے بعد بھی ۔
مسئلہ ۱۸۵۰۔اگر باپ نے ماہ رمضان کے روزہ کے علاوہ دوسرے واجب روزہ کو جیسے نذر کا روزہ نہیں رکھا تو احتیاط واجب کی بنا پربڑے لڑکے پر قضا بجا لا نا لازم ہے اور اسی طرح اگر ماں نے روزہ نہیں رکھا تو احتیاط مستحب کی بنا پر بڑے لڑکے پر قضا رکھنا لازم ہے ۔

جن لو گوں پر روزہ واجب نہیں ہے
مسئلہ ۱۸۵۱۔جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا یا اس کے لئے باعث مشقت ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے لیکن احتیاط کی بنا پرہر روز کے بدلے ایک مد گیہوں یا جو یا ان کی روٹی یا کشمش یا خرما محتاج کو دے ۔
مسئلہ ۱۸۵۲۔جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا ، اگر وہ ماہ رمضان کے بعد روزہ رکھ سکے تو احتیاط کی بنا پر جن روزوں کو نہیں رکھا ہے ان کی قضا بجا لائے ۔
مسئلہ ۱۸۵۳۔اگر انسان کو ایسا مرض ہو جس میں پیاس زیادہ لگتی ہو اور وہ پیاس برداشت نہ کر سکتا ہو یا اس کے لئے باعث مشقت ہو تو روزہ اس پر واجب ہے لیکناس کے لئے جائز ہے کہ صرف پانی پی لے اور ہر روزہ کے بدلے ایک مد (سات سو پچاس گرام) گیہوں یا جو یا انکی روٹی یا کشمش یا خرما محتاج کو دے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مجبوری سے زیادہ مقدار میں پانی نہ پئے (صرف بقدر ضرورت )اور اگر بعد میں روزہ رکھ سکتا ہے تو جن روزوں کو نہیں رکھا ہے تو احتیاط استحبابی یہ ہے کہ ان کی قضا کرے ۔
مسئلہ ۱۸۵۴۔وہ عورت جس کے یہاں ولادت ہونے والی ہو اور روزہ اسکے لئے یا اس کے بچے کے لئے نقصان دہ ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے اور ہر روزہ کے عوض ایک مد طعام یعنی گندم یا جو یا ان کی روٹی یا کشمش یا خرما محتاج کو دے ۔ اور اسی سال وہ روزہ رکھ سکتی ہے توجن روزہ کو نہیں رکھا ہے انکی قضا کرے اگر اسکا یہ عذر ائندہ رمضان تک باقی نہ رہاتب لیکن اگر باقی رہا تو قضا نہیں ہے لیکن مستحب ہے کہ قضا کرے اور قضا کے ترک کے لئے ایک مد طعام بھی دے۔
مسئلہ ۱۸۵۵۔وہ عورت جو بچہ کو دودھ پلاتی ہو اور اسکا دودھ کم ہو خواہ بچہ کی ماں ہو یا اسکی دایہ ہو ، یا دودھ پلاتی ہو اور اسکی اجرت نہ لیتی ہویا اھرت لیتی ہو اگر روزہ اسکے لئے یا اس بچہ کے واسطے جسے وہ دودھ پلا تی ہے نقصان دہ ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے اور ہر روزہ کے بدلے ایک مد طعام محتاج کو دے اوراگر اسی سال وہ روزہ رکھ سکتی ہو تو روزہ رکھے لیکن اگر کوئی دوسری عورت مل جائے جو بچہ کو بلا اجرت دودھ پلائے یا بچہ کو دودھ پلانے کے لئے اس بچہ کا باپ یا ماں یا کوئی دوسرا اس کو اجرت دے اور وہ اجرت لے لے تو یہ لازم نہیں ہے کہ بچہ کی ماںبچہ کو اس کے سپر د کرے اور خود روزہ رکھے ۔
مسئلہ ۱۵۵۶۔وہ عورت جو کہ سال کے دوران حاملہ ہونے کی وجہ سے یا بچہ کو دودھ پلانے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے وہ روزے اورا س کی قضا اس پر واجب نہیں ہے اسے چاہیئے کہ ہر روزے کے بدلے دو مد(پندرہ سوگرام)طعام محتاج کو دے ،ایک مد ماہ رمضان ختم ہونے کے بعد اور دوسرا مد اگلا رمضان آنے سے پہلے ۔
مسافر کے روزہ کے احکام
مسئلہ ۱۸۵۷۔جو مسافر سفر میں چار رکعتی نماز کو دو رکعت پڑھے اس کو روزہ نہیں رکھا چاہیئے اور وہ مسافر جو کہ نما ز کو پو را پڑھتا ہے جیسے وہ شخص جس کا کام ہی سفر کرنا ہے یا اسکا سفر گناہ کا سفر ہے تو اس کو سفر میں روزہ رکھنا چاہیئے۔
مسئلہ۱۸۵۸۔ماہ رمضان میں سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر روزہ رکھنے سے بچنے کے لئے سفر کرے تو مکروہ ہے ۔
مسئلہ ۱۸۵۹۔اگر رمضان کے علاوہ دوسرا کوئی معین روزہ انسان پر واجب ہو مثلاً نذر کی ہو کہ فلاں معین روزہ رکھے گا جب تک مجبور نہ ہواحتیاط واجب یہ ہے کہ اس وقت تک اس کو اس روز سفر نہیں کرنا چاہیئے اور اگر سفر میں ہو تو اس جگہ دس دن تک قیام کرنے کا ارادہ کر لینا چاہیئے اور اس روز روزہ رکھنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۸۶۰۔اگر نذر کرے کہ روزہ رکھے گا اور اس کا دن معین نہ کرے تو اسکو سفر میں نہیں بجا لاسکتا اور اگر نذر کرے کہ فلاں دن روزہ رکھے گا چاہے سفر میں رہے یا نہ رہے تو اس روز کو سفر میںہی کیوں نہ ہوروزہ رکھے ۔
مسئلہ ۱۸۶۱۔مسافر طلب حاجت کے لئے تین دن مدینہ طیبہ میں مستحبی روزہ رکھ سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۸۶۲۔جو شخص نہیں جانتا کہ مسافر کا روزہ باطل ہے وہ اگر سفر میں روزہ رکھے اور دن کے درمیان میں مسئلہ کو جان لے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور اگر مغرب تک نہ جان سکے تو اس کا روزہ صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۸۶۳۔اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ مسافر ہے یابھول جائے کہ مسافرکاروزہ باطل ہے اور سفر میں روزہ رکھے تو ا سکا روزہ باطل ہے ۔
مسئلہ ۱۸۶۴۔اگر روزہ دار ظہر کے بعد سفر کرے تو اسکو اپنا روزہ پورا کرنا چاہیئے اور اگر ظہر سے پہلے سفر کرے اور وہ مسافت شرعی کو طے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو(جیسا کہ مسافر کی نماز میں گذر گیا) تو جس وقت وہ حد ترخص تک پہنچے یعنی ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں سے اسکو شہر کی دیوار نہ دکھائی دیتی ہو یا اذان کی آواز نہ سنائی دی تو اسے اپنے روزے کو توڑ دینا چاہیئے اور اگر اس پہلے اپنے روزہ کو باطل کردے تو احتیاط کی بنا پر اس پر کفارہ واجب ہے ۔
مسئلہ ۱۸۶۵۔اگر مسافر ظہر سے پہلے اپنے وطن پہنچ جائے یا ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں اس کو دس دن رکنا ہے تو اگر ایسا کام نہ کرچکا ہو جس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے تو اس کو اس روز کا روزہ رکھنا چاہیئے اور اگر کوئی ایسا کام کر چکا ہے جس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے تو اس پر اس روز کا روزہ واجب نہیںہے ۔
مسئلہ ۱۸۶۶۔اگر مسافر ظہر کے بعد اپنے وطن پہنچے یا ایسی جگہ پہنچے جہاں وہ دس دن رکنا چاہتا ہے تو اس کو اس روزہ کا روزہ نہیں رکھنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۸۶۷۔مسافر اور جو شخص کہ روزہ رکھنے سے معذور ہو تو ان افراد کو ماہ رمضان میں جماع کرنا مکروہ ہے اور پیٹ بھر کر کھانا پینا بھی مکروہ ہے ۔

مہینہ کی پہلی تاریخ کے ثابت ہونے کا طریقہ
مسئلہ ۱۸۶۸۔پانچ چیزو ں کے ذریعہ مہینہ کی پہلی تاریخ ثابت ہوتی ہے ۔
(۱)خود انسان چاند دیکھے
(۲)وہ گروہ کہ جن کے کہنے سے یقین ہو جائے وہ یہ کہیں کہ ہم لوگوں نے چاند دیکھا ہے ۔
(۳)دو عادل شخص یہ کہیںکہ رات ہم نے چاند دیکھا ہے لیکن اگر چاند کی تاریخ ایک دوسرے خلاف بیان کریں تو چاند کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوگی ۔
(۴)۳۰دن ماہ شعبان کی پہلی تاریخ سے پورے ہو جائیں کہ ان دونوں کے پورے ہونے کے ذریعہ سے ماہ رمضان کی پہلی تاریخ ثابت ہوگی اور تیس دن ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے پورے ہوجائیں تو ان کے ذریعہ سے ماہ شوال کی پہلی تاریخ ثابت ہوگی ۔
(۵)حاکم شرع حکم دے کہ آج پہلی تاریخ ہے۔
مسئلہ۱۸۶۹۔اگر حاکم شرع حکم دے کہ مہینہ کی پہلی تاریخ ہے تو جو شخص اس کی تقلید نہ بھی کرتا ہو اسے بھی حکم پر عمل کرنا چاہیئے البتہ اس صورت میں جب کہ دوسرا حاکم شرع اس کے خلاف حکم نہ کرے لیکن جس شخص کو معلوم ہو کہ حاکم شرع نے اشتباہ کیا ہے تو وہ اس کے حکم پر عمل نہیںکر سکتا ۔
مسئلہ ۱۸۷۰۔مہینے کی پہلی تاریخ نجومیوں کی پیشن گوئی یادوربین وغیرہ سے ثابت نہیں ہو گی بلکہ فقط نگاہوں کے ذریعے (غیر مسلح آنکھ)سے ثابت ہو گی ۔
مسئلہ ۱۸۷۱۔چاند کا بلند ہونا یا دیر میں ڈوبنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ گذشتہ رات چاند کی پہلی تاریخ تھی ۔
مسئلہ ۱۸۷۲۔ اگر ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کسی کے لئے ثابت نہ ہو اور وہ روزہ نہ رکھے تو اگر دو عادل شخص یہ کہیں کہ گذشتہ رات ہم نے چاند دیکھا تو اس روز کے روزہ کی قضا واجب ہے ۔
مسئلہ ۱۸۷۳۔ اگر کسی شہر میں پہلی تاریخ ثابت ہو جائے تو دوسرے شہر والوں کے لئے فائدہ نہیں ہے مگر یہ کہ دونوں شہر آپس میں قریب ہوں یا انسان کو یہ علم ہوکہ ان کا افق ایک ہی ہے ۔
مسئلہ ۱۸۷۴۔ ٹیلیگرام (تار )کے ذریعہ تاریخ ثابت نہیں ہو گی مگر وہ دو شہر جہاں سے ایک نے دوسرے کو ٹیلیگرام دیا ہے ان کا افق آپس میں نزدیک ہو انسان کو یہ بھی علم ہو کہ حاکم شرع کے حکم سے ٹیلیگرام کیا گیا ہے یا دو عادل شخص کی گواہی دی جارہی ہو۔
مسئلہ ۱۸۷۵۔جس دن کے بارے میں انسان کو معلوم نہیں ہے کہ وہ آخر رمضان ہے یا شوال کی پہلی تاریخ ہے تو اس دن کا روزہ رکھنا چاہیئے لیکن اگر مغرب سے پہلے علم ہو جائے کہ شوال کی پہلی تاریخ ہے تو افطار کر لینا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۸۷۶۔طلوع فجر ، تحقق مغرب اور اول ماہ رمضان ، عید فطر اور عید قربان کے سلسلے میں قیدی اور آزاد شخص کے لئے ایک ہی حکم ہے ۔
حرام روزے
مسئلہ ۱۸۷۷۔عید فطر اور عید قربان کا روزہ حرام ہے اور نیز اس دن کا جبکہ انسان کو معلوم نہ ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان کی پہلی اگر رمضان کی پہلی تاریخ کی نیت سے روزہ رکھے تو حرام ہے ۔
مسئلہ ۱۸۷۸۔اگر زوجہ کے مستحبی روزہ رکھنے سے اس کے شوہر کا حق پامال ہوتا ہو تو روزہ رکھنا حرام ہے بلکہ اگر شوہر کا حق پامال نہ بھی ہو اور وہ زوجہ کو مستحبی روزہ رکھنے سے منع کر رہا ہو تو زوجہ کواس کی اجازت کے بغیر روزہ نہیں رکھنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۸۷۹۔اولاد کا مستحبی روزہ رکھنا اگر ماں یاباپ یا دادا کی تکلیف کا سبب ہو تو حرام ہے ۔
مسئلہ ۱۸۸۰۔اگر لڑکا بغیر باپ کی اجازت کے مستحبی روزہ رکھے اور دن میں باپ اس کو منع کرے تو افطار کر لینا چاہیئے بشرطیکہ روزہ رکھنا باپ کی تکلیف کا سبب ہو اورا گر تکلیف کا سبب نہ بنے تو افطار کرنا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۸۸۱۔جس شخص کو معلوم ہو کہ روزہ اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہے اگر چہ ڈاکٹر کہے کہ نقصان دہ ہے تو اسکو کو روزہ رکھنا چاہیئے اور جس شخص کو یقین یا گمان ہو کہ روزہ اس کے لئے نقصان دہ ہے اگر چہ ڈاکٹر کہے کہ نقصان دہ نہیں ہے تو اس کو روزہ نہیں رکھنا چاہیئے اور اگر روزہ رکھے گا تو صحیح نہ ہو گا ۔
مسئلہ ۱۸۸۲۔اگر انسان کو احتمال ہو کہ روزہ رکھنا اس کے لئے باعث ضرر ہے اور اس احتمال سے اسے خوف پیدا ہو جائے تو اگر اس کا احتمال لوگوں کی نظر میں درست ہو تو اس کو روزہ نہیں رکھنا چاہیئے اگر روزہ رکھے تو صحیح نہ ہو گا۔
مسئلہ ۱۸۸۳۔ جس شخص کا خیال ہو یہ ہو کہ روزہ اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہے اگر روزہ رکھ لے اور مغرب کے بعد پتہ چلے کہ روزہ اس کے نقصان دہ تھا تو اس کی قضا بجا لانا واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۸۸۴۔ ان روزوں کے علاوہ جو بیان کئے گئے ہیں دوسرے بھی روزے حرام ہیں جو بڑی کتابوں میں مفصل طریقہ سے بیان کئے گئے ہیں ۔
مستحب اور مکروہ روزے
مسئلہ ۱۸۸۵۔سال کے تمام دنوں میں روزہ رکھنا مستحب ہے سوائے ان دنوں کے جن میں روزہ رکھنا حرام یا مکروہ ہیںاور بعض روزوں کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
(۱)ہر مہینہ کی پہلی جمعرات اور آخری جمعرات اور پہلا بدھ جو کہ دس تاریخ کے بعد آتا ہے اور اگر کوئی شخص ان روزوں کو نہ رکھ سکے تو مستحب ہے کہ ان کی قضا کرے اور جو بالکل روزہ نہ رکھ سکے تو اسکے لئے ہر روزے کے بدلے ایک مد طعام محتاج کو دینا مستحب ہے یا ساڑھے بارہ معمولی چنے کے برابر چاندی محتاج کو دے
(۲)ہر مہینہ کی ۱۳، ۱۴،۱۵ تاریخ کو
(۳)ماہ رجب اور شعبان کا پورا مہینہ یا ان دو مہینوں میں سے کچھ دن اگر چہ ایک دن ہی کیوں نہ ہوں
(۴)عید نو روز کے دن
(۵)شوال کی چوتھی تاریخ سے نویں تاریخ تک
(۶)ذی القعدہ کی پچیسویں اور انتیسویں تاریخ کو
(۷)ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک (یعنی روز عرفہ تک) اگر روز عرفہ روزہ رکھنے کی وجہ سے ضعف پیدا ہو جائے کہ عرفہ کی دعاؤں کو نہ پڑھ سکے تو پھر اسکے لئے اس دن کا روزہ مکروہ ہے ۔
(۸)عید غدیر کا روزہ (۱۸ذی الحجہ)
(۹) عید مباہلہ(۲۴) ذی الحجہ کا روزہ
(۱۰)محرم کی پہلی ، تیسری ، ساتویں تاریخ کا روزہ
(۱۱)عید میلاد النبی ؐکے دن کا روزہ (۱۷!ربیع الاول)
(۱۲)رسول اللہؐکے مبعوث ہونے کے دن کا روزہ (۲۷!رجب المرجب)
مسئلہ ۱۸۸۶۔اگر کوئی مستحب روزہ رکھے تو اس روزہ کو آخری دن تک پورا کرنا واجب نہیں ہے ، بلکہ اگر کوئی برادر مومن اس کو کھانے کی دعوت دے تو مستحب ہے کہ اس کی دعوت کو قبول کر لے اور دن میں افطار کر لے ۔
مسئلہ ۱۸۸۷۔عاشورا کے دن کا روزہ اور اس دن کا روزہ جس دن کے بارے میں شک ہو کہ عرفہ کا دن ہے یا عید قربا ن کا دن تو اس دن روزہ رکھنا مکروہ ہے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ عاشور کے دن کے روزے کو ترک کر دے۔
وہ مقامات جہاں روزہ کو باطل کر دینے والی چیزوں سے بچنا مستحب ہے
مسئلہ۱۸۸۸۔چھ آدمیوں کے لئے اگر چہ وہ روزہ دار نہ بھی ہوں مستحب ہے کہ ان کاموں سے بچیں جو روزہ کو باطل کر دیتے ہیں
(۱)وہ مسافر جس نے سفر کے دوران روزہ کو باطل کرنے والا کام انجام دیا ہو اور ظہر سے پہلے وطن یا اس جگہ جہاں دس روز رہنے کا ارادہ ہے پہنچ جائے۔
(۲)وہ مسافر جو ظہر کے بعد اپنے وطن یا اس جگہ جہاں اس کو دس دن رہنا ہے پہنچ جائے مذکورہ فرض کی صورت میں۔
(۳)وہ بیمار جو ظہر سے پہلے ٹھیک ہو جائے لیکن اس نے روزہ کو باطل کرنے والا کام انجام دے دیا ہو ۔
(۴)وہ مریض جو ظہر کے بعد ٹھیک ہو جائے ۔
(۵)وہ عورت جو دن کے کسی حصہ میں خون حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے ۔
(۶)وہ کافر جوماہ رمضان میں ظہر کے بعد مسلمان ہو جائے۔
مسئلہ ۱۸۸۹۔روزہ دار انسان کے لئے مستحب ہے کہ نماز مغرب اور عشاء افطار سے پہلے پڑھ لے اور اگر کوئی شخص اسکا انتظار کر رہا ہو یا خو د اس کو کھانے کا زیادہ شوق ہو جس کی وجہ سے وہ حضور قلب سے نماز ادا نہیں کرسکتا تو اسکے لئے بہتر ہے کہ پہلے افطار کرے لیکن جتنا ممکن ہو نماز کو فضیلت کے وقت بجا لائے ۔

اعتکاف کے احکام
مسئلہ ۱۸۹۰۔’’اعتکاف ‘‘اللہ کی عبادت اور اسکا قرب حاصل کرنے کے لئے جامع مسجد میں قیام کرنے کو کہتے ہیں اس عمل کا بے حد ثواب ہے اور مستحب ہے۔
مسئلہ ۱۸۹۱۔مسجد کی چھت،مسجدکا تہ خانہ ، مسجدکا محراب مسجدکا حصہ شمار ہوتا ہے اسی طرح اگر مسجد کی توسیع ہوئی ہے تو توسیع شدہ حصہ بھی مسجد ہی شمار ہو گا ، حالت اعتکاف میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان کھڑا ہو یا بیٹھا ہو یا کھڑا ہو یا جاگ رہا ہو یا سو رہا ہو۔
مسئلہ ۱۸۹۲۔اگر ہر وقت روزہ رکھنا صحیح ہے تو اعتکاف بھی صحیح ہے اور اعتکاف کا بہترین وقت ماہ رمضان ہے ۔
مسئلہ ۱۸۹۳۔اعتکاف کے لئے چند شرطیں ہیں (۱)ایمان (۲)عقل (۳)قربت کی نیت(۴) روزہ رکھنا (۵)تین روز سے کم نہ ہو
مسئلہ ۱۸۹۴۔اعتکاف کے لئے روزہ رکھنا شرط ہے اور وہ کم از کم تین دن ہو نا چاہیئے چاہے وہ روزہ واجب ہو یا مستحب ،یہاں تک کہ قضا روزہ یا اجارہ کے روزہ پر بھی اعتکاف صحیح ہے ۔
مسئلہ ۱۸۹۵۔اعتکاف میں بیٹھنے کیلئے ماں باپ کی اجازت اس صورت میں کہ بچہ کا اعتکاف میں بیٹھناوالدین کے لئے باعث تکلیف ہو ، اسی طرح بیوی کو اپنے شوہر سے اور غلا م کو اپنے آقا سے اجازت لینی ضروی ہے ۔
مسئلہ ۱۸۹۶۔اعتکاف کم از کم تین روز کے لئے ہے اگر صرف ایک روز یا دو روز کی نیت کرے تو اعتکاف باطل ہے ،مگر تین روز سے زیادہ کی نیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۸۹۷۔اعتکاف کی مدت کے دوران مسجد میں اعتکاف کے ارادہ سے رہنا چاہیئے لیکن ضروری کاموں کے لئے یا واجب کاموںکے لئے مثلا ًکوئی گواہی دینا یا کسی مومن کی تشیع جنازہ میں شرکت کرنا یا رشتہ داروں کے ساتھ کوئی بھلائی کا کام کرنا ،اگر مسئلہ کو نہ جانتا ہو یا بھول چکا ہو تو مسجد سے باہر آنے میں کوئی حرج نہیںہے
مسئلہ۱۸۹۸۔اعتکاف کے لئے سب سے بہتر ین جگہ مسجد الحرام ، مسجد نبوی ؐ، مسجد کوفہ اور مسجد بصرہ ہیں۔
مسئلہ ۱۸۹۹۔چند چیزیں اعتکاف میں رہنے والے شخص پر حرام ہیں اور اعتکاف کو باطل کر دیتی ہیں :
(۱) جماع کرنا ،حتیٰ کہ احتیاط کی بنا پر مرد اور عورت نہ ایک دوسرے کو چھو سکتے ہیں اور نہ بوسہ لے سکتے ہیں اور اسی طرح استمنا بھی حرام ہے اور احتیاط کی بنا پر اعتکاف کو باطل کر دیتا ہے۔
(۲) خوشبو لگانا اور پھولوں کو سونگھنا بھی حرام ہے لذت کے لئے
(۳)بحث و مباحثہ کرنا اور اپنی علمی فضیلت کی برتری ثابت کرنا بھی حرام ہے، اور اگر حق کی خاطر ہو تو کوئی حرج نہیں ۔
(۴)خرید و فروش ،احتیاط واجب کی بنا پر ہر قسم کیتجارت سے اجتناب کرنا چاہیئے لیکن اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کا خریدنا حرام نہیں ہے ۔
مسئلہ۱۹۰۰۔وہ چیزیں جو اعتکاف کرنے والے پر حرام ہیں چاہے دن ہو یا رات اس سے فرق نہیں پڑتا اور وہ چیزیں جو احکام روزہ میں بیان کی گئی ہیں اور روزہ کو باطل کرتی ہیں وہ چیزیں اعتکاف کو بھی باطل کرتی ہیں اگر وہ دن میں انجام دے ۔
مسئلہ ۱۹۰۱۔انسان مستحب اعتکاف کو پہلے دو دن توڑ سکتا ہے ، لیکن اگر دو روز گذر جائیں تو تیسرے روز اعتکاف واجب ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۱۹۰۲۔انسان کے لئے جائز ہے ،اعتکاف کی نیت کرتے وقت شرط کرے کہ جب وہ چاہے گا اعتکاف کو ختم کر دے گا اگر چہ وہ تیسرا دن ہی کیوں نہ ہو ۔
مسئلہ ۱۹۰۳۔ اگر انسان مسجد میں اعتکاف کی حالت میں مجنب ہو جائے تو اس پر مسجد سے باہر جا کر غسل کرنا لازم ہے ۔

خمس کے احکام
مسئلہ ۴ ۱۹۰۔ خمس سات چیزوں پر واجب ہو تا ہے۔
(۱)کسب منفعت(کمائی کا فائدہ)
(۲)کانیں(معدنیات)
(۳)دفینہ (خزانہ)
(۴)حلال مال جو حرام سے مل جائے
(۵)جواہرات جو غوطہ لگا کر سمندر سے حاصل کئے جائیں
(۶)مال غنیمت
(۷)ایسی زمین جسے کافر ذمی کسی مسلمان سے خریدے ۔

۱۔کسب کی منفعت(کمائی کا فائدہ)
مسئلہ ۱۹۰۵۔جب کوئی شخص تجارت ، صنعت یا دوسرے پیشوں کے ذریعہ مال حاصل کرے مثلا ً کسی میت کی نماز یا روزہ اجرت پر بجا لایا ہو تو ان تمام ذریعوں سے جو مال حاصل ہو ، اگر اس کے اپنے اور اپنے عیال کے سال بھر کے اخراجات سے کچھ فائدہ اس میں بچ جاتا ہو تو اس بچت میں خمس یعنی پانچواں حصہ نکالے جس کا قاعدہ آنے والے صفحات میں بیان کیا جائے گا ۔
مسئلہ ۱۹۰۶۔اگر کوئی شخص کوئی مال بغیر کمائی کے حاصل کرتا ہے مثلا ً کوئی شخص اسے کوئی چیز بخش دیتا ہے یا وصیت کے ذریعے اسے کوئی مال حاصل ہو ا ہو یا کہیں سے اسے انعام ملا ہو یا دیت ملی ہو ،اگر ا س رقم یامال سے اس کے سال بھر کے اخراجات سے کچھ رقم بچ جاتی ہے تو اقویٰ یہ ہے کہ اس میں سے بھی خمس نکالے۔
مسئلہ ۱۹۰۷۔عورت کو جو مہر ملے اس پر خمس واجب نہیں ہے،یہی حکم میراث کا ہے لیکن اگر کوئی وارث اپنے موروث سے کوئی دور کا رشتہ رکھتا ہو اور اسے اس رشتہ کا علم نہ رہا ہو تو احتیاط واجب ہے کہ جو میراث اس سے ملے اس میں خمس نکالے ۔
مسئلہ ۱۹۰۸۔اگر کوئی مال کسی شخص کو میراث میں ملے اور اسے علم ہو کہ اس کے مورث نے اپنے مال میں خمس نہیں نکالا تھا تو وارث کو اس مال سے خمس نکالنا چاہیئے اور اگر اس کے علم میں یہ ہے کہ جو مال اسے میراث میں ملا ہے اس پر خمس واجب نہیں ہے مگر اس کے مورث کے ذمہ کچھ اور خمس واجب الادا تھا تو وہ اس کے مال سے خمس کو ادا کرے ۔
مسئلہ ۱۹۰۹۔اگر کسی نے سال بھر کفایت شعاری کے ذریعہ اپنے سال بھر کے اخراجات پورا کرنے کے بعد کچھ مال بچ گیا ہو تو اس بچت سے خمس نکالے۔
مسئلہ ۱۹۱۰۔کفن ،چادر یمانی اور وہ قبر جسے مکلف سال کے درمیان فائدے کے مال سے خریدے ان چیزوں خمس واجب ہے اسی طرح وہ عقیق جو میت کی زبان کے نیچے دفن سے پہلے رکھا جا تا ہے یا وہ انگوٹھی جو میت کی انگلیوں میں پہنا نے لے لئے مہیا کی جاتی ہے یا اسکے مثل دوسری چیزیں ان سب پر خمس واجب ہے چاہے ان چیزوں کو خمس نکا لنے سے پہلے خرید ا ہو یا خمس نکالنے کے بعدہاں اگر ایک دفعہ ان مال کا خمس نکال دیا گیا تو دوبارہ خمس واجب نہیں ہو گا چاہے کئی سال بغیر استفادہ کئے رکھا رہے ہاں اگر اسکی قیمت میں اضا فہ ہو گیا تو جتنا قیمت میں اضا فہ ہوا ہے اس کا خمس دیان ہو گا چاہے اسی سال انسان مر جائے یا بعد میں مرے ۔
مسئلہ ۱۹۱۱۔ایسا شخص جس کے اخراجات کوئی دوسرا شخص دے تو اسے حاصل ہونے والے تما م مال سے خمس نکالنا ہو گا جب کہ دوسرے سال شروع ہونے تک باقی رہے۔
مسئلہ ۱۹۱۲۔اگر کوئی شخص اپنی جائیداد مخصوص افراد مثلاً اپنی اولاد کیلئے وقف کرے اور پھر وہ لوگ اس جائیداد پر کھیتی کریں یا درخت وغیرہ لگائیں اور اس طرح کچھ مال حاصل کریں تو اگر ا س میں سے ان افراد کے سال بھر کے اخراجات میں سے کچھ بچت ہوجائے تو اس کا خمس نکالنا واجب ہے بلکہ اگر اس جائیداد سے دوسرے ذرائع سے مال حاصل کریں مثلا ً اس کا اجارہ لیتے ہیں اس صورت میں بھی سال بھر کے اخراجات کے بعد بچت پرخمس دینا چاہیئے۔
مسئلہ ۱۹۱۳۔جو مال کوئی محتاج لے اور اس میں سے اس کے سال بھر کے اخراجات کے بعد کچھ بچ جائے ، اگر وہ مال زکات یا صدقۂ مستحبی تھا تو اس کا خمس نکالنا واجب ہے لیکن اگر وہ مال جوفقیر کو ملا ہے خمس ہے تو اس پر خمس واجب نہیں ہے ہاں اگر اس حاصل شدہ مال سے چاہے خمس کا ہو یا غیر خمس کا کوئی بھی نفع حاصل کرتا ہے مثلاً یہ کہ خمس میں کوئی درخت ملا ہے اور اس سے پھل حاصل ہوتا ہے تو سال بھر کے اخراجات سے بچ جانے والی رقم یا مال سے خمس نکالنا چاہیئے ۔
مسئلہ ۱۹۱۴۔اگر کوئی شخص کسی ایسی رقم سے جس کا خمس نہ نکالا گیا ہو کوئی مال خریدے تو اگر حاکم شرع اس خرید و فروخت کے پانچویں حصہ کی اجازت دے دے تو معاملہ صحیح ہے اور اس شخص کو چاہیئے کہ جو مال خریدا ہے اس کا پانچواں حصہ حاکم شرع کو پہنچا دے اور اگر حاکم شرع اجازت نہ دے تو پانچویں حصہ کے بقدر معاملہ باطل ہوگا اور وہ رقم جو بیچنے والے نے وصول کی ہے اگر باقی رہے تو حاکم شرع اس رقم سے پانچواں حصہ وصول کر لے گا اور اگر وہ رقم باقی نہیں رہی تو حاکم شرع بیچنے والے یاخرید نے والے کسی ایک سے بھی ادائیگی خمس کا مطالبہ کرے گا ۔
مسئلہ ۱۹۱۵۔اگر کوئی شخص کوئی مال خریدے اور معاملہ ہو جانے کے بعد اس مال کی قیمت ایسی رقم سے ادا کرے جس کا خمس ادا نہیں کیا ہے تو ایسی صورت میں معاملہ صحیح ہو گا لیکن چونکہ قیمت کی ادائیگی ایسی رقم سے ہوئی ہے جس پر خمس واجب تھا لہٰذا یہ شخص اس رقم کے پانچویں حصہ کے بقدر بیچنے والے کا مقروض رہے گا چونکہ وہ پانچواں حصہ اس کا مال نہیں ہو بلکہ مستحقین خمس کا مال ہے اور وہ رقم جو خریدارنے بیچنے والے کو ادا کی ہے اگر باقی ہے تو حاکم شرع اس کا پانچواں حصہ وصول کرے گا اور رقم باقی نہیں ہے تو حاکم شرع بیچنے والے یا خریدنے والے کسی سے بھی خمس کی ادائیگی کا مطالبہ کر سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۹۱۶۔اگر کوئی شخص ایسا مال خریدے جسکا خمس ادا نہیں کیا گیا ہے تو اگر حاکم شرع اس مال کے پانچویں حصہ میں معاملہ خرید کی اجازت نہ دے تو پانچویں حصہ کے خرید و فروخت کا معاملہ باطل ہو گا اور حاکم شرع کو اختیار ہو گا کہ اس مال کا پانچواں حصہ وصول کر لے اور اگر حاکم شرع اجازت دے دے تو معاملہ خرید و فروخت صحیح ہے اور مال کے خریدار کو اس مال کے پانچویں حصہ کی قیمت حاکم شرع کو دینی ہوگی اور اگر خریدار رقم بیچنے والے کے حوالے کر چکا ہے تو اس سے واپس لے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۹۱۷۔اگر کوئی ایسی رقم یا ایسا مال جس کا خمس ادا نہیں کیا گیا ہے کسی شخص کو بخش دیا جائے تو اس مال یا رقم کا پانچواں حصہ اس شخص کی ملکیت نہیں ہو گا ۔
مسئلہ ۱۹۱۸۔اگر کافر یا خمس کا عقیدہ نہ رکھنے والے مسلمان سے کوئی مال حاصل ہو جائے تو اس مال کا خمس مال لینے پر واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۹۱۹۔تاجر پیشہ ور اہل صنعت اور ان جیسے افراد جب اپنے کارو بار کا سلسلہ شروع کریں اور اس وقت سے ایک سال کا عرصہ گذر جائے تو انہیں اپنے سال بھر کے اخراجات کے بعد ہونے والی بچت پر خمس ادا کرنا چاہیئے لیکن ایسا شخص جس کا کام کارو بار نہیں ہے اور اتفاقی طور پر کوئی فائدہ حاصل ہو جائے مثلا کوئی اسے ھدیہ دے دے یا انعام مل جائے تو سرسال اس کے اخراجات سے کچھ مال بچ بھی جائے تو اس بچت پر خمس ادا کرے ۔
مسئلہ ۱۹۲۰۔ہر شخص کو اختیار حاصل ہے کہ دوران سال جب کوئی نفع حاصل کرے تو چاہے اسی وقت اس کا خمس ادا کردے اور اگر چاہے تو اختتام سال تک ادائیگی خمس میں تاخیر کرے ،اگر کسی شخص کا سر سال کوئی خمس نہ نکلا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پرجس وقت بھی اسکو کوئی فائدہ ہو اس مال میں سے خمس نکال دے ،خمس کو آئندہ سال تک کے لئے موخر نہ کرے
مسئلہ ۱۹۲۱۔کوئی بھی شخص مثلا ً تاجر یا کاسب اپنے خمس کی ادائیگی کے لئے سال مقررکرے اور اسی دوران وہ مر جائے اور اسے فائدہ بھی حاصل ہوا ہو تو اس حاصل شدہ منافع سے اس کی موت کے وقت تک کے اخراجات الگ کرنے کے بعد بقیہ مال میں خمس ادا کیا جائے ۔
مسئلہ ۱۹۲۲۔اگر کوئی مال تجارت کی غرض سے خریدا گیا ہو اور اس کی قیمت بڑھ جائے اور مالک اسے نہ بیچے اور پھر دوران سال ہی اس مال کی قیمت کم ہو جائے تو مالک پر بڑھی ہو ئی مقدار قیمت کا خمس واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۹۲۳۔اگر کوئی مال تجارت کی غرض سے خریدا گیا ہو اور اسکی قیمت بڑھ جائے مگر اس امید میں کہ مال کی قیمت اور زیادہ ہو جائے گی سال کے تما م ہو نے پر بھی فروخت نہ کیا جائے اور پھر اس کی قیمت کم ہو جائے تو جتنی قیمت کم ہوئی ہے اسکے خمس کا ضامن وہ شخص ہو گا مگر یہ کہ خمس ناکلنے میں جو تاخیر کی ہے وہ حاکم شرع کی اجازت سے کی ہو۔
مسئلہ ۱۹۲۴۔اگر مال تجار ت کے علاوہ کوئی اور مال ہو جس کا خمس ادا کر دیا گیا ہو یا یہ کہ ا س مال پر خمس واجب ہی نہ ہو تا ہو اور ایسے مال کی قیمت بڑھ جائے اور اسے بیچ بھی دیا جائے تو اس بڑھی ہوئی مقدار قیمت پر خمس ادا کرنا واجب ہے مثلاً اگر کوئی درخت خریدا ہو اور وہ پھل بھی دے یا گوسفند ہو جو موٹا تازہ ہو جائے تو اگر ان کی حفاظت کا مقصد فائدہ حاصل کرنا تھا تو اس مال پر جو زیادہ ہوا ہے خمس ادا کرنا چاہیئے اور اگران کی حفاظت کا مقصد فائدہ حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ زندگی گزارنا تھا توایسی صورت میں سالانہ اخراجات سے جو بچ جائے اسکا خمس ادا کرے۔
مسئلہ ۱۹۲۵۔اگر کوئی شخص باغ لگائے کہچاہے اس لئے کہ اس کی قیمت بڑھ جانے پر فروخت کرے گا یا چاہے باغ کو یوں ہی رکھنا چاہتا ہو اور فقط اس کے پھل کو بیچے تو اس کے پھل ، اور درختوںکے بڑھنے اور باغ کا خمس ادا کرے لیکن اگر باغ کو پھل کے کھانے کے لئے یا اس سے خرچ چلانے کے لئے ہو تو جب تک اس پر مؤنہ کا عنوان ثابت ہو گا اس وقت تک اس پر خمس واجب نہیںہو گا۔
مسئلہ۱۹۲۶۔اگر کوئی شخص بید اور چنار (شیشم )یا اسی قسم کے دوسرے درخت لگائے ،اس کا خمس ادا کر دینا چاہیئے لیکن ان کی شاخوں سے جو عام طور پر ہر سال کاٹی جاتی ہیں زندگی بسر کرنے کے لئے اگر فقط اس سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے یا دوسرے کاروبار اورپیشہ سے حاصل ہونے والے منافع کو ملا کر کچھ سال بھر کے اخراجات سے باقی بچے اس پر خمس ادا کرے۔
مسئلہ ۱۹۲۷۔اگر کوئی شخص کئی ذرائع معاش رکھتا ہو مثلاً جائیداد کا کرایہ حاصل کرتا ہو خرید و فروخت اور زراعت بھی کرتا ہو تو سال کے آخر میں اخراجات کے بعد جو کچھ بچ جائے اس کا خمس دینا چاہیئے اور اگر ایک چیز سے فائدہ اور دوسری چیز سے نقصان ہو تو نقصان کی فائدہ سے تلافی کرنے کے بعد جو بچ جائے اس کا خمس ادا کرے ۔
مسئلہ ۱۹۲۸۔وہ اخراجات جو حصول منفعت کے سلسلے میں کئے جائیں مثلاً دلالی اور سامان کے نقل و حمل وغیرہ کے اخراجات تو انہیں سالانہ اخراجات کا جز سمجھ سکتا ہے ۔
مسئلہ۱۹۲۹۔اگرکوئی شخص تجارت یا دوسرے پیشوں کے منافع سے دورا ن سال میں طعام ، لباس ، گھر کے سامان ، مکان کی خریداری ،شادی ، لڑکی کے جہیز ، زیارت یا اسی قسم کے دوسرے چیزوں پر خرچ کرتا ہے بشرطیکہ اس کی شان سے زیادہ نہ ہو اور بے جا خرچ بھی نہ کیا ہو تو ان چیزوں پر خمس واجب نہیں ہے ،اسی طرح گھر کا کرایہ جو کرایدار ادا کرتا ہے اس کے سال کے خرچ میں شمار کیا جائے گا،جس جگہ گھر کے کرایہ کو کم کرنے کے لئے کرایدار مالک کو کچہ قرض دیتا ہے جیسا کہ بعض شہروں میں رایج ہے تو اگر اس کے گھر کا مسئلہ اس قرض کو دئے بغیر حل نہیں ہو سکتا تو کرایہ دار پر واجب ہے کہ قرض کی رقم کا خمس ادا کرے اور اگر پوری رقم کا خمس ایک ساتھ نہیں دے سکتا ہو تو امکان کی صورت میں قسطوں میں خمس ادا کرے و گرنہ قرض واپش ملنے پر ادا کرے۔
مسئلہ ۱۹۳۰۔وہ رقم یا مال جو انسان نذر اور کفارہ پر خرچ کرتا ہے تو وہ اس کے سالانہ اخراجات کا جز ہے اسی طرح اگر کوئی مال کسی شخص کو بخشش یا انعام کے طور پر دیتا ہے تو وہ بھی اس کے سال بھر کے اخراجات میں شمار ہو گا بشرطیکہ یہ بخشش اور انعام اس کی شان سے بڑھ کر نہ ہو ۔
مسئلہ ۱۹۳۱۔اگر کوئی شخص کسی ایسے شہر میں ہو جہاں عام رواج یہی ہو کہ بیٹی کا جہیز سال بہ سال تیار ہوتا رہے تو جائز ہے کہ دوران سال میں اسی سال کے منافع سے جہیز کا سامان خریدے اور اس کا خمس نہ دے اور اگر اسی سال کے منافع سے دوسرے سال جہیز خریدے تو اس کا خمس دیناواجب ہے ۔
مسئلہ ۱۹۳۲۔وہ رقم جو حج اور زیارات کے سفر پر خرچ کی جائے تو وہ خرچ اسی سال کے اخراجات میں شمار کیا جائے گا جس سال میں آغاز سفر کیا گیا ہے اگر اس کا سفر دوسرے سال کے کچھ حصہ میں شامل ہو گیا تو وہ مقدار کہ جو متعارف ہے پہلے سال کے مخارج میں شما رہوگی اور وہ مقدار کہ جو متعارف ہیان کے دوسرے سال کے سفر میں دوسرے سال کے مخارج میں شما رکی جائے گی ۔
مسئلہ ۱۹۳۳۔اگر کوئی شخص تجارت یا دوسرے پیشوں سے منافع حاصل کرے اور اس کے پاس کے علاوہ دوسرا مال بھی موجود ہو جس پر خمس واجب نہیں ہے تو وہ (اس مال کو چھوڑ کر)اپنے سال بھر کے اخراجات اپنی تجارت وغیرہ کے منافع سے وضع کر سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۹۳۴۔ اگر کسی شخص نے اپنے منافع سے سال بھر کے لئے کھانے پینے کا سامان خرید کیا ہے اور اختتام سال پر اس میں کچھ بچ جائے تواس کا خمس اد کرناچاہیئے اور اگر خمس میں مال کی قیمت دینی چاہے تو قیمت بھی دے سکتا ہے اس صورت میں جب کہ قیمت زیادہ یا کم ہو گئی ہوتو وہ قیمت دے گا جو آخر سال میںہو ۔
مسئلہ۱۹۳۵۔اگر کوئی شخص اپنے کارو بار کے منافع سے خمس ادا کرنے سے پہلے اپنے گھر کے لئے کچھ سامان خریدے اور دوران سال میں اس کی ضرورت ختم ہو جائے تو ا سکا خمس ادا کرے اسی طرح دوران سال میں اگر عورتوں کی زینت کا وقت گذر جائے یا اس کے شان کے مطابق نہ ہو مثلاًبڑھاپے میں بعض زینت کے آلات پہننا مناسب نہیں ہے تو ان زیورات کے لئے بھی یہی حکم ہے ۔
مسئلہ ۱۹۳۶۔اگر کسی سال میں منافع حاصل نہ ہو تو جائز نہیں ہے کہ اس سال کے اخراجات بعد کے منافع والے سال وضع کرے ۔
مسئلہ ۱۹۳۷۔اگر ابتدا سال میں منافع حاصل نہ ہو اور اصل سرمایہ سے اپنے اخراجات پورا کرے اور پھر سال تمام ہونے سے پہلے کچھ منافع حاصل ہو جائے تو جو رقم اصل سرمایہ سے خرچ کی تھی منافع میں سے حاصل کرسکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۹۳۸۔اگر اصل سرمایہ کا کچھ حصہ کہ جس کا خمس دیا جا چکا ہے کسی صورت میں ضا ئع ہو جائے اور باقی ماندہ سرمایہ سے اتنا فائدہ حاصل ہو جائے جو اس کے سال بھر کے اخراجات سے بچ جائے تو اصل سرمایہ کی ضائع ہونے والی مقدار منافع سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔
مسئلہ۱۹۳۹۔اگر کسی شخص کے اصل سرمایہ کے علاوہ اس کے مال و اسباب میں سے کوئی چیز ضائع ہو جائے تو اس چیز کو اس سال کے منافع سے کم نہیں کر سکتا لیکن اگر اسی سال میں اس ضائع شدہ چیز کی احتیاج ہو تو دوران سال میں منافع سے مہیا کر سکتا ہے ۔
مسئلہ۱۹۴۰۔اگر کسی شخص کو پورے سال نفع نہ ہوا ہواور اپنے اخراجات کے لئے قرض لے اور سال کے ختم ہونے سے پہلے اسے منافع حاصل ہو تو وہ اپنے قرض کی رقم اس منافع سے حاصل کرسکتا ہے،لیکن احتیاط مستحب کی بنا پر اس کا خمس دے۔
مسئلہ ۱۹۴۱۔ دوکان کا وہ سامان جو اصل سرمایہ میں حساب کیا گیا ہے اور ان کا خمس ادا کیا جا چکا ہو اگر ائندہ سال اس کی قیمت بڑھ جائے تو حساب کرتے وقت اس کی حال کی قیمت کا حساب کیا جائے ۔
مسئلہ۱۹۴۲۔اگر کوئی شخص مال وا سباب کے بڑھانے یا کسی ایسی جائیداد کی خرید کے لئے قرض لے جس کی اسے احتیاج نہ ہو تو اپنے منافع سے اس قرض کو ادا نہیں کرسکتا البتہ جو مال قرض لیا ہے یا جو چیز قرض سے خریدی ہے اگر ضائع ہو جائے اور ادائیگی قرض سے مجبور ہو تومنافع سے اپنا قرض ادا کر سکتا ہے چونکہ عرفاً وہ مال سال کے مخارج میں شمار ہو تا ہے۔
مسئلہ ۱۹۴۳۔ہر چیز کا خمس اسی چیز سے (عین مال سے)ادا کیا جاسکتا ہے اور اگر چاہے تو قیمت بھی ادا کرسکتا ہے یا کوئی دوسری جنس بھی دے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۱۹۴۴۔ اگر کوئی شخص مخارج کے بعض موارد میں شک کرے کہ سال کے خرچ کا جز ہے کہ جو خمس سے مستثنیٰ ہے یا ان میں سے نہیں ہے اور اسکی تعین تحقیق وغیرہ سے ممکن نہ ہوااگر وہ سال کے خرچ میں شمار نہیں ہو رہا تھااور حرام تھاتو اظھریہ ہے کہ خمس اس سے متعلق نہیں ہو گا اگر جائز تھا تو خمس ادا کرے ۔
مسئلہ ۱۹۴۵۔اگر کسی شخص کے ذمہ خمس واجب الادا ہو تو جائز نہیں ہے کہ حاکم شرع کی اجزت کے بغیر وہ خمس کی رقم یا مال اپنے ذمہ لے لے یعنی اپنے آپ کو اہل خمس کا مقروض سمجھ کر تمام مال کو اپنے تصرف میں لے لے اور اگر تصرف کرے اور مال تلف ہو جائے تو خمس کی پوری مقدار ادا کرنی ہوگی ۔
مسئلہ ۱۹۴۶۔کسی شخص کے ذمہ خمس واجب الادا ہو اوروہ حاکم شرع سے مصالحت کر لیتا ہے تو وہ تمام مال میں تصرف کر سکتا ہے اور مصالحت کے بعد اس مال سے جو منافع حا صل ہو گا وہ اس کا اپنا مال ہو گا ۔
مسئلہ۱۹۴۷۔اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ کاروبار میںشریک ہے اور وہ اپنے مال کے منافع میںسے خمس ادا کر دے لیکن اس کا شریک اپنے نفع کا خمس ادا نہ کرے اور آئندہ سال بغیر خمس دئے ہوئے مال سے کارو بار میں سرمایہ لگائے وہ شخص جس نے اپنے مال سے خمس ادا کر دیا ہے وہ منا فع میں تصرف کرسکتا ہے اور اگر راس المال جو کارو بار میں لگایا ہے اس کا خمس نہ دیا ہو تو واجب ہے کہ حاکم شرع سے اجازت لے ۔
مسئلہ ۱۹۴۸۔اگر کوئی نابالغ بچہ یا دیوانہ کسی ایسے سرمایہ کا مالک ہو جس پر خمس واجب ہو تواس کے ولی پر واجب ہے کہ اس کی طرف سے خمس ادا کرے و اگرنہ بالغ ہونے پربچہ خود اس خمس کو ادا کرے ۔اور دیوانہ عاقل ہونے کے بعد ادا کرے اور اگر دیوانہ عاقل نہ ہو تو حاکم شرح خوداس کے مال کا خمس لے لے۔
مسئلہ۱۹۴۹۔کسی بھی شخص کو حق حاصل نہیں ہے کہ کسی ایسے مال پر تصرف کرے جس کے لئے یقین ہو کہ اس کا خمس ادا نہیں کیا گیا ہے لیکن جس مال کے بارے میں شک ہو کہ آیا اس کا خمس اداکیا گیا ہے یا نہیں تو اس مال پر تصرف کر سکتا ہے۔
مسئلہ۱۹۵۰۔اگر کسی شخص نے ابتدائے تکلیف (سن بلوغ کے وقت)سے یا یہ کہ جب سے خمس واجب ہوا ہے اس وقت سے اب تک خمس نہیں نکالا ہو اور ایسی رقم سے کوئی چیز یا جائیداد خرید ے اور اسکی قیمت بڑھ جائے تو اس جائیداد کی موجودہ قیمت کا خمس دینا چاہیئے اگر اس کی قیمت کم ہو جائے تو اس کمی کا ضامن ہو گا۔
مسئلہ ۱۹۵۱۔اگر کسی شخص نے ابتدائے تکلیف ہی سے خمس نہیں دیا ہے اور اپنے کارو بار کے منافع سے کوئی ایسی چیز خرید ی کہ جس کی اسے احتیاج نہ تھی اس کا خمس ادا کرے اوریہی حکم ہے جب گھر کے سامان اور دوسری چیزیں جن کی احتیاج اور ضرورت رہتی ہے خریدے تو اسکا خمس دے یا حاکم شرع سے مصالحت کر لے۔

۲۔کانیں(معدنیات)
مسئلہ ۱۹۵۲۔ اگر کان سے سونا ، چاندی ،سیسہ ،تانبا ، لوہا ، مٹی کا تیل ، پتھر کاکوئلہ ، فیروزہ ،عقیق ،پھٹکری ، نمک اور دوسری معدنی اشیاء حاصل ہوں اور مقدار نصاب کے برابر ہوں تو اس کا خمس واجب ہے ۔
مسئلہ ۱۹۵۳۔معدنیات کا نصاب ۱۵ !مثقال معمولی سونا یا ۱۰۵مثقال معمولی چاند ی(یعنی ۴۲ تولہ چاندی سکہ دار ،یا ۶ تولہ سکہ دار سونا ہے)یعنی جو چیز کان سے نکالی گئی ہے اور اس پر جو اخراجات کئے گئے ہیں انکے جدا کرنے کے بعد اگر اس چیز کی قیمت۱۵ !مثقال سونا یا ۱۰۵!مثقال چاندی کے برابر رہ جائے تو ا سکا خمس ادا کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جو امور سونا ، چاندی کی زکوٰۃ میں مد نظر ہوتے ہیں وہ یہاں بھی رکھے ۔
مسئلہ ۱۹۵۴۔معدنی اشیاء سے جو منفعت ہوئی ہے اگر انکی قیمت ۱۵ !مثقال سونا یا ۱۰۵!مثقال چاندی کے برابر نہ پہنچی ہو توپھر خمس صرف اس صورت میں واجب ہو گا جبکہ تنہا یا دوسرے کاروبار کے منافع کو شامل کر کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو جائے ۔
مسئلہ۱۹۵۵۔گچ (خاص قسم کا چونا)کا شمار معدنیات میں نہیں ہے لہٰذا جو شخص یہ حاصل کرے گا اس کا اس صورت میں خمس ہو گا جبکہ تنہا گچ یا دوسرے کاروبار کے منافع کو شامل کرکے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو جائے۔
مسئلہ ۱۹۵۶۔جب کوئی شخص کان سے کوئی چیز حاصل کرے تو اسکا خمس ادا کرے خواہ وہ کان سطح زمین پر ہو یا زیر زمین خواہ ایسی زمین میں ہو جو ملکیت میں ہے یا ایسی زمین میں ہو جسکا کوئی مالک نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۹۵۷۔جو چیز کان سے حاصل سے ہوئی ہے اگر اسکی قیمت کے متعلق علم نہ ہو۱۵ !مثقال سونا یا ۱۰۵!مثقال چاندی کے برابر ہے یا نہیں ،تو ایسی صورت میں وزن کرائے یا دوسرے طریقوں سے اس کی قیمت معلوم کرے ۔
مسئلہ ۱۹۵۸۔اگر چند آدمیوں نے مل کر کان سے کوئی چیز نکالی ہے تو اس سلسلہ میں ہونے والے اخراجات کو جدا کرنے کے بعد اگر ہر ایک کا حصہ نصاب کے برابر ہے تو ا سکا خمس ادا کریں۔
مسئلہ۱۹۵۹۔اگر کوئی شخص ایسی کان جو دوسرے کی ملکیت میںہواس کی اجازت کے بغیر نکالے تو جو کچھ بھی اس کان سے حاصل ہو گا وہ مالک کا مال ہو گا اور چونکہ مالک نے اس کان کے نکالے جانے پر کچھ خرچ نہیں کیا ہے لہٰذا کان سے حاصل ہونے والی تمام چیزوں کا خمس ادا کرنا لازم ہوگا ۔

۳۔خزانہ(دفینہ)
مسئلہ۱۹۶۰۔خزانہ اس مال کو کہتے ہیں جو زمین ،درخت پہاڑیا دیوار میں چھپا ہوا ہو اور کوئی شخص اسے ظاہر کرے اور اس انداز میں ہو کہ اسے خزانہ کہا جا سکے ۔
مسئلہ ۱۹۶۱۔اگر کوئی شخص ایسی زمین سے خزانہ دریافت کرے جو کسی کی ملکیت میں نہیں ہے تو وہ اس خزانہ کا مالک ہو گا اور اس کا خمس ادا کرے گا ۔
مسئلہ ۱۹۶۲۔خزانے کا نصاب اگر سونا چاندی ہو تو وہی نصاب ہے جو زکوٰۃ کا پہلا نصاب ہے (زکوٰۃکے باب میں ذکر ہو گا )،اخراجات کے جدا کرنے کے بعد اگر خزانہ نصاب تک پہنچ جائے تب خمس دینا ہوگا۔
مسئلہ ۱۹۶۳ ۔اگر خزانہ کسی ایسی زمین میں ہو کہ جو کسی دوسرے سے خریدی گئی ہے اور اسے اس بات کاعلم بھی ہو کہ یہ خزانہ ان لوگوں کا نہیں ہے جن سے یہ زمین خریدی ہے تو یہ خزانہ خود اس کی ملکیت قرار پائے گا اور وہ اس کا خمس اداکرے گا لیکن اگر یہ احتمال ہو کہ خزانہ زمین کے سابقہ ما لکوں میں سے کسی ایک کا ہوگاتو اسے چاہیئے کہ خزانہ کی اطلاع دے اور اگر معلوم ہو کہ یہ مال اس مالک کا نہیں ہے تو پھر اس پہلے والے مالک کو خبر پہنچائی جائے ،اسی ترتیب کے ساتھ ان تمام لوگوں کو خزانہ کی خبر پہنچائی جائے جو اس زمین کے مالک رہ چکے ہیں اور پھر بھی معلوم ہو کہ یہ خزانہ ان سابقہ مالکوں میں سے کسی ایک کا بھی نہیں تو خزانہ حاصل کرنے والا خود اسکا مالک ہوگااور اسکا خمس ادا کرے گا ۔
مسئلہ ۱۹۶۴۔اگر کئی برتنوں میں ایک ہی جگہ مدفون اتنا مال ملے کہ ان سب کی قیمت ملا کر ۱۰۵مثقال چاندی یا ۱۵ مثقال سونا کے برابر ہو تواس کا خمس نکالے، لیکن اگر متعدد جگہوں سے کے جو ایک دوسرے سے دور ہوںاور وہاں سے خزانہ حاصل کرے اور ان میں سے جس کسی خزانہ کی قیمت اس مقدار کے مطابق ہو اس کا خمس نکالے اور جس کی مقدار اس کے برابر نہ ہو لیکن سب کو ملا کر اسی مقدار تک پہنچ جائے تب بھی اس کا خمس نکالنا واجب نہ ہو گا ،اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسکا خمس دے اگر کئی خزانے ایک دوسے کے قریب ہو ں تو ا س پر خمس واجب ہے۔
مسئلہ ۱۹۶۵۔اگر دو آدمی مل کر کوئی خزانہ حاصل کریں جس کی قیمت۱۵ !مثقال سونا یا ۱۰۵!مثقال چاندی کے برابر ہولیکن ان افراد میں سے کسی کا بھی حصہ اس مقدار تک نہ پہونچے تو ان پر خمس واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۹۶۶۔اگر کوئی شخص کسی جانور کو خریدے جیسے مچھلی اور ا سکے پیٹ میں سے کوئی مال حاصل ہو اور احتمال ہو کہ یہ مال فروخت کرنے والا کا ہے تو اسے اس مال کی اطلاع دے اور اگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ مال اس فروخت کرنے والا کا نہیں ہے تو جانور کے سابقہ مالکوں کو بالترتیب اطلاع دے جبکہ یہ احتمال ہو کہ ان میں سے کسی ایک کا ملا ہے ،لیکن پھر بھی یہی معلوم ہو کہ یہ مال ان مالکوں میں کسی کا نہیں ہے یا سابقہ ملک کو نہ پہچانے تویہ مال اس کے سال کے منافع میں شمار ہو گا اگر سال کے خرچ سے بچ جائے تو اس کا خمس دے گا۔

۴۔وہ حلا ل مال جو حرام میں مل گیا ہو
مسئلہ ۱۹۶۷۔ اگر کوئی حلال مال کسی حرام مال میں اس طرح مل جائے کہ اس میں کوئی امتیاز نہ ہو سکے اور اس حرام مال کے مالک اور مال کے مقدار کا علم بھی نہ ہو تو مال کا خمس نکالے خمس نکالنے کے بعد بقیہ مال حلال ہو جائے گا ۔
مسئلہ ۱۹۶۸۔اگر کوئی حلال مال کسی حرام مال میں مخلوط ہو جائے اور اس حرام مال کی مقدار تو معلوم ہو لیکن اس کے مالک کا علم نہ ہو تو مال حرام کی مقدرا کے برابر اس مالک کی نیت سے صدقہ دے دے اور احتیاط واجب کی بنا پر صدقہ حاکم شرع کی اجازت سے دے ۔
مسئلہ۱۹۶۹۔اگر کسی حلال مال میں حرام مال مخلوط ہو جائے اور اس حرام مال کی مقدارکا علم نہ ہو مگر اس کے مالک کو پہچانتا ہو تو چاہیئے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کسی ایک مقدار پر رضا مندی کرلیں ،اگر صاحب مال راضی نہ ہو تو ایسی صورت میں اگر علم ہو کہ ایک معینہ حد تک اس دوسرے شخص کا مال ہے اور اس سے زیادہ کے بارے میں شک ہو کہ اس شخص کا مال ہے یا نہیں تو جس مقدار کے لئے یقین ہے کہ یہ اس شخص کا مال ہے وہ اسے دے دے اور جتنی مقدار میں احتمال ہے کہ وہ اسکا ہے یا نہیں اس کو آدھا آدھا کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مال کی جتنی مقدار کے متعلق شک ہو رہا ہے کہ یہ دوسرے شخص کا مال ہو سکتا ہے تو مال کی وہ مقدار بھی اسکے حوالے کر دے اور یہ اس صورت میں ہے جب کہ حرام مال میں مخلوط ہونے یا اس کے نہ جاننے میں کو تاہی نہ کی ہواور اگر کوتاہی کی ہو تو چاہے ان دونوں میں سے کسی ایک میں یعنی مال کے مخلوط ہونے میں یا نہ جاننے میں تو اس صورت میں زیادہ مال دے۔
مسئلہ۱۹۷۰۔اگر کوئی شخص ایسے حلال مال کا جو حرام سے مخلوط ہو خمس نکال دے اور پھر بعد میں معلوم ہو کہ جو خمس نکالا ہے اس کے مقابلے میں حرام مال کی مقدار زیادہ تھی تو بنا بر احتیاط واجب مال کی وہ مقدارجو خمس سے زیادہ ہے اسے اس کے مالک کی جانب سے خدا کے نام پر صدقہ دے دے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ کسی سید فقیر کو دے ۔
مسئلہ ۱۹۷۱۔اگر کوئی شخص ایسے حلال مال کا جو حرام سے مخلوط ہو خمس نکال دے یا یہ کہ وہ مال کہ جس کے مالک کا علم نہیں تھا اوت تلاش کے بعد اس کی جانب سے صدقہ دے چکا ہے اور پھر بعد میںوہ مالک حاضر ہو جائے تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے مال کی اتنی مقدار اسے واپس کرے جب صاحب مال خمس اور صدقہ دینے پر راضی نہ ہو اگر راضی ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے اور کوئی چیز لازم نہیں ہے ۔
مسئلہ ۱۹۷۲۔اگر کوئی حلال مال حرام میں مخلوط ہو جائے اور حرام مال کی مقدار معلوم ہو اوریہ بھی جانتا ہو کہ اس مال کا مالک چند معین اشخاص میں سے کوئی ایک ہے مگر ان اشخاص میں سے ایک فرد کا تعین نہ کرسکتا ہواور اس نے حرام مال کے مخلوط ہونے میں یا اس کے مالک کے سلسلے سے جاھل ہونے میں کوئی کوتاہی کی ہو تو ان سب کو راضی کرے ،لیکن اگر دونو ں میں کو تاہی نہ کی ہو تو مستحب ہے کہ سب کو راضی کریاور اگر راضی نہ ہوتے ہوں تو مال کو ان سب میں برابر تقسیم کرے ۔

۵۔جواہرات جو سمندر میں غوطہ لگا کر حاصل کئے جائیں
مسئلہ ۱۹۷۳۔اگر غواصی کے ذریعہ یعنی سمندر میں غوطہ لگا کر موتی، مونگا یا اسی طرح کے دوسرے جواہرات جو سمندر میں غوطہ زنی سے حاصل ہوتے ہیں ،نکالے جائیں تو خواہ نمو کرنے والے ہوں یا معدنی ان کے نکالے جانے پر جو اخراجات آئیں ان کے الگ کرنے کے بعد جو کچھ بچے اگر اس کی قیمت ۱۸!چنے سونے کے برابر ہو تو اس کا خمس نکالنا چاہیئے خواہ ایک ہی مرتبہ میں سمندر سے نکالا ہو یا کئی مرتبہ میں اور جو کچھ نکالا ہے خواہ ایک ہی جنس سے ہوں یا کئی جنسوں سے ہو ۔
مسئلہ ۱۹۷۴۔اگر سمندر میں غوطہ زنی کے علاوہ کسی اور سبب یا وسیلہ سے جواہرات نکالے جائیں اور اس طرح جواہرات کے نکالنے پر جو اخراجات ہوئے ہیں ان کے وضع کر لینے کے بعد اگر اس کی قیمت ۱۸! چنے سونے کے برابر ہو تو اس کا خمس نکالنا واجب ہے اور یہی حکم ہے اگر سمندر کی سطح یا سمندر کے کنارے سے جواہرات حاصل ہوں تو اسکا خمس بھی واجب ہو گالیکن غوطہ لگانے والوں سے جواہر کا لینا غوطہ لگانے کے حکم میں نہیں ہے مگر یہ کہ اس سے لے اور وہ خود بھی دریا میں گیا ہو ۔
مسئلہ ۱۹۷۵۔مچھلی یادوسرے سمندری جانور جوسمندر میں غوطہ زنی کے بغیر حاصل کئے جائیںان کاخمس اس صورت میں واجب ہو گا جب تنہا یااس کے دوسرے منافع کو ملا کر سال بھر کے اخراجات سے بچ جائے ۔
مسئلہ ۱۹۷۶۔اگر کوئی شخص کسی چیز کے نکا لنے کا ارادہ کئے بغیر سمندر میں غوطہ لگائے اور اتفاقاًکچھ جواہرات ہاتھ لگ جائیںتوواجب یہ ہے کہ اس کا خمس نکالے اور اقویٰ یہ ہے کہ اگر اس چیز کو نکالتے وقت اسے اپنی ملکیت بنا نا چاہتا ہے تو اس کا خمس نکال دے ۔
مسئلہ ۱۹۷۷۔اگر کوئی شخص سمندر میں غوطہ لگا ئے اور کسی حیوان کو باہر نکالے جس کے شکم سے جواہرات حاصل ہوں اور ان کی قیمت ۱۸! چنے سونے کے برابریا اس سے زائد ہو تو ا س حیوان کی حیثیت صدف کے مانند ہے کیونکہ نوعاً اس کے شکم میں جواہر ہیں لہٰذا اسکا خمس نکالے او ر اگر اس حیوان نے اتفاقیہ طور پر جواہر نگلا ہوا ہو تو اس صورت میں خمس واجب ہو گاکہ تنہا یا دوسرے کاروبار کے منافع کو ملا کر سال بھر کے اخراجات سے کچھ بچت ہو جائے ۔
مسئلہ ۱۹۷۸۔اگر دجلہ یا فرات جیسے بڑے بڑے دریاؤں میں کوئی شخص غوطہ زنی کرے اور جوہرات نکالے تو اگر ایسا ہو کہ ان دریاؤں میں جواہرات پائے جاتے ہوں تو اس کا خمس نکالے ۔
مسئلہ ۱۹۷۹۔اگر سمندر میں غوطہ لگائے اور عنبر کی کچھ مقدار نکال لائے جس کی قیمت ۱۸ !چنے سونے کے برابریا اس سے زیادہ ہو تو ا سکا خمس نکالے اور یہی حکم ہے جب عنبر پانی کی سطح یا سمندر کے کنارے سے حاصل کرے ۔
مسئلہ۱۹۸۰۔اگر کسی شخص کا کام ہی غواصی(غوطہ خوری)یامعدنیات کا نکالنا ہو اور وہ اپنے اس کاروبار کا خمس ادا کر چکا ہو اور کوئی چیز اس کے سال بھر کے اخراجات سے بچ جائے تو احتیا ط مستحب کی بنا پراس کا دوبارہ خمس نکالے ۔
مسئلہ ۱۹۸۱۔اگر کوئی غیر بالغ یا دیوانہ کوئی معدنی چیز نکالے ،یا اس کے پاس ایسا مال حلال ہو جو حرام سے مخلوط ہو ، یا کوئی خزانہ پائے ،یا سمندر میں غوطہ لگا کر جواہرات نکالے تو اس کے ولی کوخمس نکالناواجب ہے و الا حاکم شرع کے ذمہ ہے کہ اس سے خمس نکالے اگر حاکم شرع نہ نکالے توپھر وہ خود ہی بالغ ہونے یا عاقل ہونے کے بعد خمس نکالے ،اگر اس سے پہلے مر جائے تو اس کے چھوڑے ہوئے مال میں شمار ہو گا ۔

۶۔غنیمت
مسئلہ۱۹۸۲۔اگر مسلمان امام علیہ السلام یا اس کے نائب یہاں تک کہ فقیہ جامع الشرائط بھی ہوکی اجازت سے کافروں سے جنگ کرے اورا س جنگ میں کچھ ما ل واسباب مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائے تو اسے غنیمت کہتے ہیں ۔مال غنیمت کی حفاظت حمل و نقل وغیرہ کے اخراجات یا وہ مقدار جسے امام علیہ السلام اپنی مصلحت کے لئے چاہیں صرف کر یں ،یا وہ چیزیں جو امام علیہ السلام کے لئے مخصوص ہوں ’’غنیمت ‘‘سے علیحدہ کر لی جائیں اور باقی ماندہ کاخمس ادا کیا جائے اوران ما بقی مال کو مجاھدین کے درمیان تقسیم کیا جائے ۔

۷۔جو زمین کافر ذمی سے خریدے
مسئلہ ۱۹۸۳۔ اگر کافر ذمی کسی مسلمان سے کوئی زمین خریدے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ا س کا خمس اسی زمین یا کسی اور مال سے ادا کرے لیکن اگر مکان یا دوکان یا اسی طرح کی کوئی دوسری چیز کسی مسلمان سے خریدے تو اس صورت واجب ہے کہ ان زمینوںکا خمس دے اور خمس کے دینے میں قصد قربت بھی ضروری نہیں ہے بلکہ حاکم شرع کہ جو اس سے خمس وصول کرے گا اس کے لئے بھی ’’قصد قربت‘‘ ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۹۸۴۔اگر کافر ذمی نے جو زمین مسلمان سے خریدی ہے اسے خمس کے ادا کرنے سے پہلے پھر کسی دوسرے مسلمان کے ہاتھ فروخت کرے تب بھی اس زمین کا خمس ادا کرے گا اور اگر کافر ذمی مر جائے اور کوئی دوسرا کافر ذمی یا مسلمان ا س زمین کو میراث کے طور پر پائے تواس کافر ذمی یا مسلمان پرکہ جو وارث ہوا ہے واجب ہے کہ اسی زمین سے یا اپنے دوسرے مال سے اس کا خمس اداکرے ۔
مسئلہ ۱۹۸۵۔اگر کافر ذمی زمین کی خرید کے وقت شرط لگا دے کہ وہ خمس ادا نہیں کرے گا تو شرط باطل ہے لیکن اگر یہ شرط لگا دے کہ فروخت کرنے والا خمس ادا کر یگا تو اس کی شرط صحیح ہے اورمسلمان بیچنے والے پر خمس واجب ہے۔
مسئلہ ۱۹۸۶۔اگر کوئی مسلمان خرید وفروخت کے علاوہ کسی اور طریقے سے کسی زمین کو کافر کی ملکیت میں دے دے اور اس کا کوئی بدلہ حاصل کر لے مثلاً اس کافر کے ساتھ مصالحت کر لے تب بھی اس کافر ذمی کو اس زمین کا خمس دینا ہو گا ۔
مسئلہ ۱۹۸۷۔اگر کافر ذمی بچہ ہو اور اس کا ولی اس کے لئے زمین خریدے تو اس زمین سے خمس متعلق ہو گا اور اس کو چاہیئے کہ اس زمین کا خمس دے ۔

خمس کا مصرف
مسئلہ ۱۹۸۸۔ خمس کو دو حصوں پر تقسیم کرنا چاہیئے جس میں سے ایک حصہ سادات کا ہے جو محتاج سید ،یتیم سید یا کسی ایسے سید کو جو مسافرت میں محتاج ہو جائے خمس دیا جانا چاہیئے دوسرا حصہ سہم امام علیہ السلام ہے جو موجودہ زمانے میں مجتہد جامع الشرائط کو دینا چاہیئے یا اس مصرف میں لانا چاہیئے جس کی وہ مجتہد جامع الشرائط اجازت دے ۔
مسئلہ ۱۹۸۹۔ جس یتیم سید کو خمس دیا جائے اسے محتاج بھی ہو نا چاہیئے مگر ایسا سید جو حالت سفر میں ہو اور اس کا خرچ ختم ہو گیا ہو تو چاہے وہ اپنے وطن میں محتاج نہ بھی ہو پھربھی اسے خمس دیا جاسکتا ہے ۔
مسئلہ۰ ۱۹۹۔ایسا سید جو حالت سفر میں محتاج ہو گیا ہو اگر اس کا سفرسفر معصیت ہے تو اسے خمس نہیں دیناچاہیئے مگر یہ کہ توبہ کر لے۔
مسئلہ ۱۹۹۱۔ایسا سید جو عادل نہ ہو اسے خمس دیا جاسکتا ہے لیکن جو سید اثنا ء عشری نہیں ہے اسے خمس نہیں دیا جائے گا ۔
مسئلہ ۱۹۹۲۔ایسا سید جو گناہ گار ہے ، اگر خمس کے دئے جانے سے اس کے گناہوں میںمدد ہوتی ہے تو اسے خمس نہیں دینا چاہیئے اور اسی طرح سے اس سید کو کھلم کھلا گناہوں کا مرتکب ہو تا ہو اگر چہ خمس کے دئے جانے سے ا سکے گناہوں میں مدد نہ بھی ہوتی ہو مگر پھر بھی بنا بر احتیاط واجب اسے خمس نہیں دیا جائے ۔
مسئلہ ۱۹۹۳۔اگر کوئی شخص کہے کہ میں سید ہوں تو اس کے کہنے پر خمس نہیں دیا جائے گا مگر یہ کہ اس کے سچے ہونے کا علم ہو جائے یا دو عادل شخص اس کے سید ہونے کی تصدیق کریں یا یہ کہ لوگوں میں اس کے سید ہونے کی شہرت ہو ۔
مسئلہ ۱۹۹۴۔ سید مرد یا سیدہ عورت کہ جس پر کسی شخص کا خرچہ واجب ہے مثلاً ہمسر یابیٹے یا ماں،باب اگر فقیر ہوں توانہیں خمس کا مال نہیں دے سکتا اور یہی حکم نواسوں اور داد دادی نا نا نانی کا بھی ہے ۔
مسئلہ ۱۹۹۵۔اگرسیدہ عورت پر کسی دوسرے شخص کے خرچ واجب ہوں اور وہ انکے خرچ کو ادا نہ کر سکے تو شوہر اپنی بیوی کو خمس دے سکتا ہے تاکہ انکے مصارف کو پوار کر سکے۔
مسئلہ۱۹۹۶۔اگر کسی ایسی سیدانی کے اخراجات کسی شخص پر واجب ہوں جو اس کی زوجیت میں نہ ہو تووہ شخص خمس سے ا س کے طعام و لباس پرخرچ نہیں کر سکتا ۔
مسئلہ ۱۹۹۷۔ایسا محتاج سید جس کے اخراجات کسی دوسرے شخص پر واجب ہیںاور وہ شخص اس سید کے اخراجات پورا کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہویا خرچ تو کر سکتا ہو لیکن نافرمانی کی بنا پرنہیں دیتا تو ایسے سید کو خمس دیا جاسکتا ہے۔
مسئلہ ۱۹۹۸۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ کسی محتاج سید کو اس کے ایک سال کے اخراجات سے زیادہ خمس نہ دیا جائے ۔
مسئلہ۱۹۹۹۔اگر کسی شہر میں کوئی مستحق سید نہ ہو اور کسی ایسے مستحق سید ملنے کا احتمال بھی نہ ہو یا مستحق کے پیدا ہونے تک خمس کی حفاظت بھی ممکن نہ ہو تو پھر خمس کو دوسرے شہر میں لے جائے اور مستحق تک پہنچائے اور خمس کو دوسرے شہر لے جانے کے سلسلے میں جو اخراجات ہوں وہ خمس سے لے سکتا ہے اور اگر خمس ضائع ہو جائے اورا س نے اسکی حفاظت میں کوتاہی کی ہو تو اسکا عوض دینا ہو گا اور اگر کوتاہی نہیں کی ہے تواس پر کوئی چیز واجب نہیںہے ۔
مسئلہ۲۰۰۰۔جب خود اپنے شہر میں مستحقین خمس میں سے کوئی موجود نہ ہو لیکن احتمال ہو کہ ائندہ مستحق پیدا ہو سکتے ہیں تو اگر چہ مستحق کے پیدا ہونے تک مال کی حفاظت بھی ممکن ہو مگر وہ خمس کا مال دوسرے شہر لے جا سکتا ہے اور اگر اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرے اور راستہ میں وہ مال ضائع ہو جائے تو اس صورت میں اس کا کوئی بدلہ دینا واجب نہیں ہے لیکن اس کے لے جانے کے اخراجات خمس سے نہیں لے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۲۰۰۱۔اگر خود اپنے شہر میں خمس کا مستحق موجود ہو تب بھی مال خمس کو دوسرے شہر میں لے جاکر مستحق تک پہنچا سکتا ہے لیکن دوسرے شہر تک مال خمس لے جانے کے اخراجات خود ادا کرے گااور اس صورت میں اگر مال تلف ہو جائے تو اگر چہ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کی ہو پھر بھی اس کی ادائیگی کا ذمہ دار ہو گا۔
مسئلہ۲۰۰۲۔ اگر حاکم شر ع کی اجازت سے خمس کو دوسرے شہر لے جائے اور مال تلف ہو جائے دراحالیکہ اس نے اس کی حفاظت میں کو تاہی نہ کی ہو تو دوبارہ خمس کی ادائیگی واجب نہیں ہے اور یہی حکم ہے جب کہ کسی ایسے شخص کو دے جو حاکم شرع کا وکیل ہو جو کہ خمس کووصول کرے اور وہ دوسرے شہر میںلے جائے ۔
مسئلہ ۲۰۰۳۔ اگر کوئی شخص کس ما ل کا خمس عین مال سے نہ نکالے اور دوسری جنس سے ادا کرے تو چاہیئے کہ اس جنس کی حقیقی قیمت کا لحاظ رکھے اور اگر ا سنے حقیقی قیمت سے بڑھا کر قیمت لگائی ہو تو قیمت کی جو مقدار زیادہ لگائی ہے اس کو دوبارہ دینا ہو گا اگر چہ مستحق اس کی لگائی ہوئی قیمت پر راضی ہی کیوں نہ ہو چکا ہو مگر یہ کہ حاکم شرع اسی قیمت پر راضی ہو جائے۔
مسئلہ۲۰۰۴۔اگر کوئی شخص کسی مستحق سے اپنا قرض لینا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ خمس قرض میں محسوب کرے تو جائز ہے ۔
مسئلہ ۲۰۰۵۔مستحق کو حق نہیں ہے کہ وہ خمس لے کر پھر مالک کو بخش دے البتہ اگر کسی شخص پر بہت زیادہ خمس واجب ہو گیا تھا اور وہ خود محتاج ہو گیا ہے اور چاہتا ہے کہ صاحبان خمس کا مقروض نہ رہے تو ایسی صورت میں اگر مجتہد راضی ہو جائے کہ اس سے خمس لے کر اسی کو پھر بخش دے یا اسکو بری الذمہ کر دے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
زکوٰۃ کے احکام
مسئلہ ۲۰۰۶ ۔زکوٰۃ نو چیزوں پر واجب ہے (۱)گیہوں (۲)جو (۳)خرما (۴)کشمش (۵)سونا ( ۶)چاندی (۷)اونٹ (۸)گائے (۹)بھیڑ بکری
اگر کوئی شخص ان نو چیزوں میں سے کسی ایک کا مالک ان شرائط کے ساتھ ہو جو بعد میں بیان کی جائیں گی تو اس چیز کی ایک خاص مقرر مقدار ان مصارف میں سے کسی ایک مصرف میں لائے جن کا حکم دیا گیا ہے ۔
مسئلہ ۲۰۰۷۔سلت جوگیہوں کی طرح نرم دانہ ہے اور جس کی خاصیت جو کی ہے اور علس جو مثل گندم کے ہے اور باشندگان صنعا کی غذا ہے ،بنا بر احتیاط مستحب ان کی زکوٰۃدینا چاہیے ۔

زکوٰۃ کے واجب ہو نے کی شرطیں
مسئلہ۲۰۰۸۔ زکوٰۃ اس صورت میں واجب ہو تی ہے جب کہ مال ،مقدارنصاب کے برابر ہو جس کی تفصیل بعد میں بیان کی جائے گی اور اس کا مالک بالغ،عاقل اور آزاد ہو اور اس مال میں تصرف کر سکتا ہو ۔
مسئلہ۲۰۰۹۔جب کو ئی شخص گائے بھیڑ اونٹ یا سونے چاندی کا گیارہ مہینوں تک مالک رہ چکا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ اسے ان چیزوں کی زکوٰۃ بارہویں مہینے کی ابتدامیں دینی چاہیے ،لیکن بارہویں مہینے کے ختم ہونے کے بعد دوسرے سال کو شمار کرے ۔
مسئلہ۲۰۱۰۔ اگر گائے بھیڑ، اونٹ اور سونے چاندی کا کوئی مالک درمیان سال میں بالغ ہو جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے وہ ان چیزوں کی زکوٰۃ دے ،مثلاً اگر بچہ اول محرم کو چالیس گوسفندوں کا مالک ہو جائے اور وہ دو ماہ گزرنے کے بعد بالغ ہو جائے ،اول محرم سے گیارہ ماہ گزرنے کے بعد اگر دوسری شرائط بھی پائی جائیں تو احتیاط مستحب یہ ہے اسے زکوٰۃ دینی چاہیے
مسئلہ۲۰۱۱۔گندم اور جو کی زکوٰۃ اس وقت واجب ہو تی ہے جب کہ انہیں جو اور گندم کہا جاسکے اورکشمش کی زکوٰۃ بنا بر احتیاط اس وقت واجب ہو تی ہے جبکہ غورہ (سبز رنگ کا خام پھل جو اکثر کھٹا ہو تا ہے )ہو اور اس موقع پر جب کہ کھجور کا رنگ زرد یا سرخ ہو جائے تو احتیاطا زکوٰۃ واجب ہو گی لیکن گندم اور جو کی زکوٰۃ دینے کا موقع اس وقت ہو گا جب کہ فصل تیاری کے بعد کاٹی جائے اور ان کے دانہ بھوسے سے الگ کر لئے جائیں ،کھجور اور کشمش کی زکوٰۃ دینے کا موقع اس وقت ہو گا جب کہ یہ خشک ہو جائیں ۔
مسئلہ۲۰۱۲۔جیسا کہ پہلے مسئلہ میں بیان ہو چکا ہے کہ اگر گندم جو ، کشمش اور کھجور کی زکوٰۃکے واجب ہو نے کے وقت اس کا مالک بالغ ہو جائے تو اسے زکوٰۃ نکالنی پڑے گی ۔
مسئلہ۲۰۱۳۔اگر گائے، بھیڑ، اونٹ ،سونے اور چاندی کا کوئی مالک تمام سال دیوانا رہا ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی لیکن اگر سال کے کسی حصہ میں دیوانہ رہا ہو اور آخر سال میں صاحب عقل وہوش ہو جائے تو بنا بر احتیاط مستحب وہ زکوٰۃدے ۔
مسئلہ۲۰۱۴۔ اگر گائے ،بھیڑ، اونٹ، سونے اور چاندی کا مالک سال کے کچھ حصہ میں مست یا بیہوش ہو جائے تو اس سے زکوٰۃ ساقط نہ ہو گی اور ایسا ہی حکم اس وقت بھی ہے جبکہ گندم جو ،کھجور ،کشمش کی زکوٰۃ واجب ہو نے کے وقت وہ مست یا بیہوش ہو ۔
مسئلہ۲۰۱۵۔اگر کسی شخص سے اس کا مال غضب کر لیا گیا ہو اور وہ اس پر تصرف کی قدرت نہ رکھتا ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ہاں اگر کسی شخص سے اس کی زراعت غصب کر لی جائے اورجس موقع پر اس کی زراعت پر خمس واجب ہو تی ہووہ غضب کرنے والے کے قبضہ میں ہو اور پھر بعد میں زراعت اس کو واپس ملے تو احتیاط یہ ہے اس کی زکوٰۃ دے ۔
مسئلہ۲۰۱۶۔ اگر سونا چاندی یا کوئی اور چیز جس پر زکوٰۃ واجب ہو تی ہے بطور قرض لے اور ایک سال اس کے پاس رہے تو اس کی زکوٰۃ ادا کرے اور قرض دینے والے پر کوئی چیز واجب نہیں ہے ۔

گندم ،جو،اور کھجور کی زکوٰۃ
مسئلہ۲۰۱۷۔ گندم، جو ،کھجور ،اور کشمش کی زکوٰۃ اس وقت واجب ہو گی جب مقدار نصاب کے برابر پہنچ جائے اور ان سب کا نصاب ’’۲۰۷.۸۴۷‘‘کیلوگرام ہے ۔
مسئلہ۲۰۱۸۔ انگور، کھجور، اور جو گندم کی زکوٰۃ واجب ہو گئی ہو اور اس کی زکوٰۃ دینے سے پہلے خود یا اس کی عیال اس میں سے کھا لیں یا فقیر کو دے دیں تو جتنی مقدار کو خرچ کیا ہے اس کی زکوٰۃ دینی چاہیے ۔
مسئلہ۲۰۱۹۔اگر گندم ،جو کھجور اور انگور کی زکوٰۃواجب ہو نے کے بعد اس کا مالک وفات پا جائے تو اس کے مال سے زکوٰۃ دینی چاہیے لیکن اگر زکوٰۃ واجب ہونے سے پہلے ہی انتقال ہو جائے تو اس کے وارثوں میں سے جس کسی کا حصہ نصاب کے برابر ہو وہ اپنے حصہ کی زکوٰۃ دے گا ۔
مسئلہ۲۰۲۰۔ اگر کوئی شخص حاکم شرع کی جانب سے زکوٰۃ جمع کرنے پر مامور ہو ،تو وہ گندم اور جو کے ڈھیر لگ جانے اور دانہ صاف ہو جانے پراور اسی طرح کھجورا ور انگور کے خشک ہو جانے پر زکوٰۃ کا مطالبہ کر سکتا ہے ،اور اگر مالک ان چیزوں کی زکوٰۃ نہ دے اور وہ چیزیں کے جس کی زکوٰۃ واجب ہوگئی ہے، تلف ہو جائے تو مالک کو ان چیزوں کا معاوضہ دینا پڑے گا ۔
مسئلہ ۲۰۲۱۔اگر کوئی شخص کھجور اور انگور کے درخت یا گندم اور جو کی زراعت کا مالک ہو جائے اور اسکی ملکیت میں آ جانے کے بعد زرد یا سرخ ہو جائے تو چاہیئے کہ ان چیزوں کی زکوٰۃ دے ۔
مسئلہ۲۰۲۲۔اگر کوئی شخص گندم ،جو کھجور اور انگور کی زکوٰۃ واجب ہو نے کے بعد انہیں فروخت کر دے تو اس فروخت کرنے والے کو ان چیزوں کی زکوٰۃادا کرنی پڑے گی۔
مسئلہ ۲۰۲۳۔اگر کوئی شخص گندم ،جو کھجور یاانگور خرید ے اور اسے علم ہو کے بیچنے والے نے زکوٰۃ دید ی ہے یا شک ہو کہ بیچنے والے نے زکوٰۃ دے دی ہے یا نہیں ؟تو (دونوں صورتوں میں) اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی اور اگر وہ جانتا ہو کہ بیچنے والے نے اس مال کی زکوٰۃ نہیں دی ہے تو اگر حاکم شرع مقدار زکوٰۃ کے معاملہ کی اجازت نہ دے تو اس مقدار کا معاملہ خرید و فروخت باطل ہے اور حاکم شرع کو حق حاصل ہے کہ مقدار زکوٰۃخریدار سے حاصل کر لے اور اگر حاکم شرع مقدار زکوٰۃ کے معاملہ میں خرید وفروخت کی اجازت دے دے تو معاملہ صحیح ہو گا مگر خریدار حاکم شرع کوزکوٰۃ کی مقدار کے برابر قیمت ادا کر دے اور اگر خریدار مقدار زکوٰۃ کی قیمت بیچنے والے کو دے چکا ہو تو اس سے واپس لے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۲۰۲۴۔ اگر گندم ،جو ، کھجور اور کشمش کا وزن گیلا ہو نے کی صورت میں ۲۰۷!۸۴۷ کیلو گرام ہو اور خشک ہو جانے کے بعد اس مقدار سے کم ہو جائے تو پھر اس زکوٰۃ واجب نہ ہو گی۔
مسئلہ۲۰۲۵۔اگر گندم ،جو یا کھجور کو خشک ہو نے سے پہلے ہی مصرف میں لا یا جائے ،اگر خشک ہو جا نے پر یہ چیزیں مقدار نصاب کے برابر ہو جائیں تو اسکی زکوٰۃ دینی چاہیئے ۔
مسئلہ۲۰۲۶۔ایسی کھجور جو تازہ تازہ کھائی جاتی ہے اور جسے چھوڑدیا جائے تو بہت کم ہو جاتی ہے ،تو اگر ایسی کھجور اس مقدارمیں ہو کہ خشک ہونے پر بھی اسکا وزن ۲۰۷!۸۴۷ کیلو گرام تک پہنچ جائے تواس پر زکوٰۃ واجب ہے اگر خشک ہونے کے بعد اسے کھجور نہ کہیں یا مقدار زکات سے کم ہو جائے تو زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ۲۰۲۷۔گندم ،جو ،کھجور یا کشمش کہ جس کی زکوٰۃ اس شخص نے دیدی ہے اگر چند سال تک اس کے پاس یہ اشیاء رہیں تو اس پر دو بارہ زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔

زکوٰۃ کی مقدار
مسئلہ ۲۰۲۸۔اگر گندم ، جو کھجور اور انگور بارش یا نہر کے پانی سے سینچے جائیں یا انکی سینچائی زمین کی رطوبت سے ہوئی ہو تو اس صورت میں ان چیزوں کی زکوٰۃ دسواں حصہ ہے اور اگر ڈول کے ذریعہ کنوئیں سے پانی کھینچ کر یا اسی طرح کے دوسرے طریقوں سے آب پاشی ہوئی ہو تو پھر زکوٰۃ بیسواں حصہ ہے اور اگر کچھ حصے کی سینچائی بارش یا نہر کے پانی یا زمین کی رطوبت سے ہوئی ہو اور اتنی ہی مقدار کی آبپاشی کنوئیں اور ڈول یا اسی طرح کے دوسرے ذریعوں سے ہوئی ہو تو نصف (پیداوار )کی زکوٰۃ دسواں حصہ ہو گی اور بقیہ نصف (پیداوار)کی زکوٰۃ بیسواں حصہ ہو گی یعنی چالیس حصہ میں سے تین حصے زکوٰۃ کے دئے جائیں گے ۔
مسئلہ۲۰۲۹۔اگر گندم ، جو کھجور اور انگور کو بارش یا اسی طرح کے دوسرے ذرائع سے سینچا گیا ہو اور ساتھ ہی ساتھ کنوئیں اور ڈول یا اس قسم کے طریقوں سے بھی سینچا ئی کی گئی ہو یو تو ایسی صورت میں اگر سینچائی اس انداز سے ہو کہ کہا جا سکے کہ ڈول کے ذریعے ہوئی ہے نہ کہ بارش سے تو زکوٰۃ بیسواں حصہ ہو گی اور اگر یہ کہا جاسکے کہ سینچائی بارش کے پانی سے ہوئی ہے نہ کہ ڈول کے ذریعہ تو زکوٰۃ دسواں حصہ ہوگی بلکہ اگر یہ نہ کہا جا سکے کہ سینچائی بارش کے پانی سے ہوئی ہے نہ کہ ڈول کے ذریعہ سے یا بارش یا نہر سے زیادہ ہو ئی ہے لیکن نہر یا بارش کے پانی سے بہ نسبت ڈول وغیرہ کے زیادہ سینچائی ہوئی ہو توبنابر احتیاط واجب زکوٰۃ دسواں حصہ ہوگی ۔
مسئلہ ۲۰۳۰۔اگرتحقیق و جستجو کے بعد شک ہو کہ سینچائی بارش کے پانی اور ڈولوں سے ایک اندازہ میں ہوئی ہے یا بارش کا پانی زیادہ تھا تو اس صوورت میں آدھے حصے سے دسواں اور دوسرے نصف سے بیسواں حصہ زکوٰۃ دے سکتا ہے نیز اگر شک ہو کہ دونوں صورتوں میں سینچائی برابر رہی یا ڈولوںسے زیادہ ہوئی تو تمام کی زکوٰۃبیسواں حصہ دے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۲۰۳۱۔اگر کسی جگہ گندم ،جو، کھجور ،اور انگور کو بارش اور نہر کے پانی سے سیراب کیا جائے اور کنوئیں اور ڈول یا اس قسم کے دوسرے ذرائع کی احتیاج نہ ہو اور اس کے باوجود ڈول کے ذریع آبپاشی ہو اور آبپاشی کے اس طریقہ سے پیداوار کے بڑھنے میں مدد نہ ملے تو ایسی صورت میں ان چیزوں کی زکوٰۃدسواں حصہ ہو گی اور اگر ڈول یا اس قسم کے طریقوں سے آبپاشی کی جائے اور بارش یا نہر کے پانی سے آب پاشی کی ضرورت نہ ہونے کے باوجودبارش یا نہر کے پانی سے آبپاشی کی جائے اور پھر بھی پیداوار کے بڑھنے میں مدد پہنچے تو پھر بھی زکوٰۃ بیسواں حصہ ہو گی ۔
مسئلہ۲۰۳۲۔اگر کسی زراعت کو کنوئیں اور ڈول یا اس قسم کے ذرائع سے سیراب کیا جائے اور اس کے پہلو کی زمین پرجو زراعت ہو وہ پہلی زراعت کی ز مین کی رطوبت سے فائدہ حاصل کرے اور اسے مزید سیراب کئے جانے کی ضرورت نہ ہو تو اس صورت میں جس زراعت کی کنوئیں اور ڈول کے ذریعہ آبپاشی ہوئی ہے اس کی زکوٰۃ بیسواں حصہ ہوگی اور اسکے پہلو والے زراعت کی زکوٰۃدسواں حصہ ہوگی ۔
مسئلہ۲۰۳۳۔وہ اخراجات جوگندم،جو، کھجوراور انگور کے پیدا کرنے پر کئے جائیں یہاں تک کہ اسباب اور پوشاک جو زراعت کے سلسلہ میں استعمال کی وجہ سے کم ہوگئے ہوں ان کی قیمت سے کچھ حصہ جو کچھ پیداوار ہوئی ہے اس سے وضع (منہا)کرسکتا ہے اور اگرا ن اخراجات کو وضع کرنے کے بعد پیداوار ۲۰۷!۸۴۷کیلو گرام کو پہنچے تو ان کی زکوٰۃ دے ۔
مسئلہ۲۰۳۴۔جب زراعت کے لئے بیج ڈالا جائے اگر خوداسی سے ہو توا س وزن کی مقدار زراعت سے وضع(کم) کرسکتا ہے اور اگر خرید ا ہو تو جو بیج کی قیمت ہو اس کو اخراجات میںحساب کر سکتا ہے ۔
مسئلہ۲۰۳۵۔اگر زمین اور آلات زراعت یا ان دونوں میں سے کوئی ایک چیزخود اس شخص کی ملکیت میں سے ہو تو ا سکے کرایہ کو اخراجات میں شامل نہیں کرنا چاہیئے اسی طرح زراعت کے سلسلہ میں جو کام وہ خود انجام دے یا کوئی دوسرا بغیر مزدوری کے انجام دے تو اس کے لئے کوئی چیز پیداوار سے کم نہیں ہوگی ۔
مسئلہ۲۰۳۶۔اگر کوئی شخص انگور یا کھجور کا درخت خریدے تو احتیاط کی بنا پر اس کی قیمت اخراجات کا جز قرار نہیں پائے گی لیکن اگر کھجور اور انگور کے توڑے جانے سے پہلے ہی خرید لے تو جو رقم اس کے لئے صرف کی ہے وہ خراجات میں شامل ہو گی ۔
مسئلہ۲۰۳۷۔اگر کوئی شخص زمین خریدے اور اس پر گندم یا جو کی کاشت کرے تو جو رقم اس نے زمین کے خریدنے میں صرف کی ہے احتیاط کی بنا پر وہ اخراجات کا جز شمار نہیں ہو گی لیکن اگرکسی زراعت(کھیت) خریدے تو جو رقم اس کے خریدنے پر صرف کی ہے اسے اخراجات میں شامل کر سکتا ہے اور جو کچھ پیداوار ہوئی ہے اس سے کم کر سکتا ہے ،لیکن غلہ سے جو بھوسا حاصل ہو اس کی قیمت اس رقم سے منہا کر لینی چاہئے جو اس نے زراعت کی خرید پر صرف کی ہے مثلا اگر کسی شخص نے زراعت کو پانچ سو روپیہ میں خرید کیا اور اس زراعت سے حاصل ہو نے والا غلہ کے بھوسے کی قیمت (۱۰۰)سو روپیہ ہے تو صرف چار سو روپیہ اخراجات میں شمار کئے جائیں گے ۔
مسئلہ۲۰۳۸۔اگر کوئی شخص بیل اور دوسری چیزوں کے بغیر جو زراعت کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے زراعت کر سکتا ہے اور اس کے باوجود ان چیزوں کی خریدکرے اوران کا بعض حصہ یا کل کا کل ختم ہو جائے تو جو رقم ان چیزوں کی خرید پر لگائی ہے وہ اخراجات میں شمار کر سکتا ہے ۔
مسئلہ۲۰۳۹۔اگر کوئی شخص بیل یا ایسی دوسری چیزیں جو زراعت کے لئے ضروری ہیں ان کے بغیر زراعت نہ کر سکتا ہو اور ان چیزوں کو خرید کرے اور پھر زراعت میں استعمال کی وجہ سے وہ چیزیں بالکل ختم ہو جائیں تو ان چیزوں کی کل قیمت کو اخراجات کا جز شمار کر سکتا ہے اور اگر ان چیزوں کی قیمت کچھ کم ہو جائے تو پھر اتنی ہی مقدار کو اخراجات کا جز شمار کرے گا لیکن اگر زراعت کے بعد ان چیزوں کی قیمت میں کچھ بھی کمی واقع نہ ہوئی ہواو ر پھر ان چیزوں کی قیمت کا کو ئی بھی حصہ اخراجات کا جز شمار نہیں ہو گا (بنا بر احتیاط) ۔
مسئلہ۲۰۴۰۔اگر کوئی شخص کسی زمین میں گندم اور جو کی کاشت کرے اور اسی میں مثلا چاول اور لوبیا کی بھی کاشت کرے جس کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے تو ان میں سے ہر ایک چیز کے لئے جو اخراجات کئے ہیں صرف اسی مخصوص چیز کے ضمن میںشمار ہو نگے اور اگر دونوں کے لئے اخراجات کئے ہیں تو ان اخراجات کو دونوں جنسوں پر تقسیم کر دیا جائے گا اور اگر دونوں کے اخراجات برابر برابر ہوں تو جس جنس میں زکوٰۃ واجب ہے اس سے نصف اخراجات کو کم کر سکتا ہے ۔
مسئلہ۲۰۴۱۔اگر زراعت کے لئے پہلے سال میں ہل چلائے یا کوئی کام کیا جائے جس سے بعد کے سالوں میں بھی فائدہ پہنچے تو اس کے اخراجات پہلے سال کی پیداوار سے وضع(منہا) کیا جاسکتا ہے ۔
مسئلہ۲۰۴۲۔اگر کسی شخص کی زراعت کئی شہروں میں ہو اور ہر زراعت کے پکنے کا وقت علیحدہ ہو اور ان سب کی زراعت اور میوہ ایک ہی وقت میں حاصل نہ ہو تا ہو تو گندم، جو، یاانگور کا مالک ہو اور تمام شہروں کی پیداوار ایک سال کی پیداوار شمار ہو تی ہو تو ایسی صورت میں جس فصل کی پیداوار پہلے آجائے اگر وہ نصاب کے برابر یعنی ۲۰۷!۸۴۷کیلو گرام ہو تو اس کی زکوٰۃ اسی موقع پر دیدے ،بقیہ فصلوں کی زکوٰۃ جیسے جیسے آتی جائیںادا کرتا جائے اور جس فصل کی پیداوار پہلے آئی ہے اگر وہ نصاب کے برابر نہیں ہے اگر اسے یقین ہو کہ جو بعد میں حاصل ہو گا نصاب کے برابر ہو گا تو پھر واجب ہے کہ جو اس کے پاس ہے اس کی زکوٰۃ دیدے اور جو بعد میں ائے بعد میں دے اور اگر یقین نہ ہو تو انتظار کرے تا کہ بقیہ فصلوں کی پیداوار بھی آجائے تو اگر ان کو ملا کر نصاب کی مقدار پوری ہو جائے تو اس کی زکوٰۃ واجب ہے اور اگر مقدار نصاب پوری نہ ہو تو زکوٰۃ واجب نہ ہوگی ۔
مسئلہ۲۰۴۳۔اگر کوئی انگور یا کھجور کا درخت سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ہو اور اگر دونوں کو ملا کر مقدار نصاب پوری ہو جائے تو بنا بر احتیاط واجب اس کی زکوٰۃدے ۔
مسئلہ۲۰۴۴۔اگر کوئی شخص تازہ کھجور یا انگور کی ایک مقدار رکھتا ہو جو خشک ہونے پر مقدار نصاب کے برابر ہو جائے گی اور وہ اس تازہ کھجور یا انگور سے زکوٰۃ کی نیت سے اتنی مقدار مستحق کو دیدے کہ جو خشک ہو نے پر زکوٰۃ کی واجب مقدار کے برابر ہو گی تو اس میں کوئی اشکال نہیںہے۔
مسئلہ۲۰۴۵۔اگر کسی شخص پر خشک کھجور یا کشمش کی زکوٰۃ واجب ہو چکی ہو تووہ اس کی زکوٰۃ تازہ کھجور یا انگور نہیں دے سکتا اسی طرح اگر تازہ کھجور یا انگور کی زکوٰۃ واجب ہو تووہ خشک کھجور یا کشمش سے اس کی زکوٰۃادا نہیں کر سکتا البتہ ان میں سے کسی ایک چیز کو یا کسی دوسری چیز کو زکوٰۃ کی قیمت کی نیت سے دیدے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
مسئلہ۲۰۴۶۔اگر کوئی شخص مقروض ہو اور ایسے مال کا بھی مالک ہو کہ جس کی زکوٰۃ واجب ہو چکی ہو اور اسی حال میں مر جائے تو چاہئے کہ پہلے اس مال سے کہ جس کی زکوٰۃ واجب ہو چکی ہے پوری زکوٰۃ دی جائے اور اس کے بعد اس کا قرض ادا کیا جائے ۔
مسئلہ۲۰۴۷۔کوئی شخص مقروض ہو اور گندم ، جو ، کھجور یا انگور بھی رکھتا ہو مگر ان چیزوں کی زکوٰۃ واجب ہو نے سے پہلے ہی مر جائے اور اس کا وارث اس کا قرض دوسرے مال سے ادا کردیں تو پھر جس کسی بھی وارث کا حصہ ۲۰۷.۸۴۷کیلو گرام تک پہنچ جائے وہ اپنے حصہ کی زکوٰۃ ادا کرے گا اور اگر ان چیزوں کی زکوٰۃواجب ہونے سے پہلے اس کا قرض ادا نہ کریںاور قرض داروں کے لئے بھی قرض کی ضمانت نہ کی ہو تو اس صورت میں اگر میت کا مال صرف اس کے قرض کے برابر ہو تو ان چیزوں کی زکوٰۃ واجب نہ ہو گی اور اگر میت کا مال اس کے قرض سے زیادہ ہو تو اس صورت میں اس کا قرضہ اتنا ہو کہ اسے ادا کرنا چاہیں تو گندم،جو،کھجوریا انگور کی کچھ مقدار بھی قرض خواہ کو دینی پڑے اور ان چیزوں میں سے جو کچھ قرض خواہ کو دیا جائے گا اس کی زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی اور بقیہ مال وارثوں کا ہو گا اور جس کسی وارث کا حصہ مقدار نصاب کے برابر ہو گا وہ اس کی زکوٰۃ ادا کرے گا ۔
مسئلہ۲۰۴۸۔اگر گندم،جو، کھجور اور کشمکش جس کی زکوٰۃ واجب ہو چکی ہو اچھی بھی ہوں اور بری بھی تو احتیاط واجب ہے کہ ہر ایک کی زکوٰۃ عین اسی قسم سے ادا کرے۔

سونے کا نصاب
مسئلہ ۲۰۴۹۔ سونے کے دو نصاب ہیں :
پہلا نصاب۔ ۲۰ مثقال شرعی ہے اور ہر مثقال ۱۸!چنے کے برابر ہے پس جس وقت سونا۲۰ مثقال شرعی کے برابر جو ۱۵ !مثقال رائج الوقت کے برابر ہے پہونچ جائے اور دوسرے شرائط بھی موجود ہوں جو بیان ہو چکی ہیں تو اسکا چالیسواں حصہ جو۹ !چنا کے برابر ہو تا ہے زکوٰۃ کے طور پر دے اور اگر سونا اس مقدار کو نہ پہنچے تو اسکی زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔
دوسرا نصاب ۔چار مثقال شرعی ہے جو کہ ۳ مثقال رائج الوقت کے برابرہے یعنی اگر ۱۵!رائج الوقت مثقال میں ۳!مثقال رائج الوقت اور اضافہ ہو جائے تو چاہیئے کہ تمام ۱۸!مثقال سونے کی زکوٰۃ چالیسواں حصہ دے اور اگر ۳!مثقال سے کم اضا فہ ہو توصرف ۱۵!مثقال کی زکوٰۃ ادا کرے اور اسی طرح جو بھی اضافہ ہو جائے یعنی اگر ۳!مثقال اضافہ ہوتا رہے تو اس تمام سونے کی زکوٰۃ ادا کرے اور اگر ۳!مثقال سے کم اضافہ ہو تو جو مقدار زیادہ ہوئی ہے اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔
مسئلہ ۲۰۵۰۔چاندی کے دو نصاب ہیں۔
پہلا نصاب۔۱۰۵ !مثقال رائج الوقت ہے یعنی اگر کسی کے پاس۱۰۵!مثقال چاندی ہو اور زکوٰۃ کی دوسری شرائط بھی پائی جاتی ہوں جن کو بیان کیا جا چکا ہے تو اسکا چالیسواں حصہ جو ۲مثقال اور ۱۵ !چنے کے دانے کے برابر ہے زکوٰۃ کے طور پر دے اور اگر چاندی اس مقدار کو نہ پہنچے تو اسکی زکوٰۃ واجب نہ ہو گی۔
دوسرا نصاب ۔۲۱ مثقال ہے یعنی اگر۲۱ مثقال چاندی ۱۰۵!مثقال پر اضافہ ہو جائے تو کل۱۲۶مثقال کی زکوٰۃ جس طرح کے بیان کیا گیا ہے ادا کرے اور اگر ۲۱ مثقال سے کم اضافہ ہوئی ہو تو صرف۱۰۵! مثقال کی زکوٰۃ ادا کرے اور اس زیادہ پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔اسی طرح جو بھی اضافہ ہو تا رہے یعنی اگر چاندی۲۱ !مثقال کے حساب سے بڑہتی رہے تو تمام مقدار کی زکوٰۃ ادا کرے اور اضافہ کم مقدار میں ہو تو جو مقدار زیادہ ہوئی ہے اور۲۱ مثقال سے کم ہے تواس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی اس بنا پر اگر کسی شخص کے پاس کچھ سونا یا چاندی ہے اور وہ اسکا چالیسواں حصہ زکوٰۃ اس پر واجب ہے وہ اس نے ادا کر دی بلکہ کبھی کبھی تو واجب مقدار سے زیا دہ ادا کرچکا مثلاًاگر کسی شخص کے پاس ۱۱۰!مثقال چاندی ہے اور وہ اسکا چالیسواں زکوٰۃ میں دیدے تو اس طرح اس نے۱۰۵!مثقال چاندی کی زکوٰۃ جو اس پر واجب تھی ادا کر دی اور ۵!مثقال چاندی کی جو زکوٰۃ اس پر واجب نہ تھی وہ بھی دے دی ۔

چند مسائل
مسئلہ۲۰۵۱۔اگر کسی شخص کے پاس سونا یا چاندی نصاب کی مقدار میں ہو تو اگر چہ وہ اسکی زکوٰۃ ادا کر چکا ہو مگر جب تک وہ پہلے نصاب کی مقدار سے کم نہ ہو ہر سال اس کی زکوٰۃ دیتا رہے ۔
مسئلہ ۲۰۵۲۔سونے اور چاندی کی زکوٰۃ اس صورت میں واجب ہو تی ہے کہ وہ سکہ دار ہو اور اسکی لین دین کا رواج ہو اور اگر چہ اس کے سکہ کے نقوش مٹ بھی گئے ہوں تب بھی اس کی زکوٰۃ دی جائے گی۔
مسئلہ ۲۰۵۳۔سکہ دار سونا ، چاندی جسے عورتیں زینت کیلئے استعمال کریں اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔
مسئلہ۲۰۵۴ ۔اگر کسی شخص کے پاس سونا اور چاندی ہے مگر ان میں سے کو ئی بھی پہلے نصاب کی مقدار میں نہ ہوںمثلاً ۱۰۴مثقال چاندی اور۱۴!مثقال سونا رکھتا ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔
مسئلہ ۲۰۵۵۔جیساکہ پہلے بیان کیا گیا کہ سونے اور چاندی کی زکوٰۃ اس صورت میں واجب ہو تی ہے جبکہ کو ئی شخص گیارہ مہینوں تک مقدار نصاب کا مالک رہا ہو اور اگر گیارہ مہینے کے درمیان ہی میں وہ سونا چاندی پہلے نصاب سے کم ہو جا ئے تو اس پرزکوٰۃواجب نہیں ہوگی۔
مسئلہ۲۰۵۶۔اگر کسی کے پاس سونا اور چاندی ہو اور وہ اسے گیارہ مہینوں کے درمیان ہی میں دوسرے سونے چاندی یا کسی اور چیز سے بدل لے یا اسے پگھلا دے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی لیکن اگر زکوٰۃ سے بچنے کے لئے ان کا موں کو کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ زکوٰۃ ادا کرے۔
مسئلہ ۲۰۵۷۔اگر کوئی شخص بارہویں مہینے میںسونے یا چاندی کو پگھلا دے تو اس کی زکوٰۃ دینا پڑیگی اور اگر پگھلانے کی وجہ سے اس کا وزن یا قیمت کم ہو جائے تو پگھلانے سے پہلے جو زکوٰۃ اس پر واجب تھی وہی زکوٰۃ ادا کرے ۔
مسئلہ ۲۰۵۸۔اگر کسی شخص کے پاس سونا اور چاندی اچھا اور خراب دونوں حالتوں میں ہوں تو اچھے اور خراب سونے چاندی کی زکوٰۃ عین اسی مال سے دے لیکن بہتر یہ ہے کہ اچھے اور خراب دونوں کی زکوٰۃ اچھے سونے اورچاندی سے ادا کرے ۔
مسئلہ ۲۰۵۹۔اگر کسی سونے اور چاندی میں معمول سے زیادہ کوئی دوسری دھات ملی ہوئی ہو تو اگر خالص سونا اور چاندی نصاب کی مقدار کے برابر ہوں جو بیان کی جا چکی ہے تو اس کی زکوٰۃ دینا چاہیئے اور اگر شک ہو کہ خالص سونا اور چاندی نصاب کے مقدار کے برابر ہیں یا نہیں تو اسے پگھلا کر یا کسی اور ذریعہ سے اس کی خالص مقدار کو معلوم کرے۔
مسئلہ۲۰۶۰۔اگر کسی شخص کے پاس ایسا سونا یا چاندی ہو کہ عام دستور کے مطابق اس میں کوئی دھات ملی ہوئی ہو تو وہ اسکی زکوٰۃ ایسے سونے یا چاندی سے نہیں دے گا کہ جس میں عام دستور سے زیادہ کوئی دھات ملی ہوئی ہوا لبتہ اگر اتنی مقدار میں دے کہ اسے یقین ہو جائے کہ اس میں سونے اور چاندی کی اتنی خالص مقدارموجود ہے کہ جو زکوٰۃ اس پر واجب ہو گئی ہے وہ اس کے برابر ہے تو اس میںکوئی حرج نہیں ہے۔

اونٹ،گائے اور بھیڑ کی زکوٰۃ
مسئلہ ۲۰۶۱۔اونٹ،گائے اور بھیڑ کی زکوٰۃ میں ان شرائط کے علاوہ جو بیان کی گئیں ہیں دو مزید شرطیں ہیں ۔
(۱)یہ کہ جانور تمام سال بیکار رہے ۔
(۲)یہ کہ پورے سال میں صحرائی گھاس پھوس چرتا رہے ۔
پس اگر پورے سال یا سال کے کسی حصہ میں اسے مالک گھاس کھلائے یا ایسی زراعت سے جو مالک یا کسی اور کی ملکیت ہو چرے تو پھر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۲۰۶۲۔اگر کوئی شخص اونٹ ،گائے اور بھیڑ کے لیے کو ئی ایسی چرا گاہ خریدکرے جس کو کسی نے کاشت نہ کیا ہو یا کرایہ پر لے تو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس پر زکوٰ ۃ ہے یا نہیں لیکن اس چراگاہ میں چرانے کے لئے کوئی محصول ادا کرے(باج دے) تو احتیاط واجب کی بنا پرانکی زکوٰۃ دینی چاہیئے ۔

اونٹ کا نصاب
مسئلہ ۲۰۶۳۔اونٹ کے بارہ نصاب ہیں:
پہلا نصاب ۔ پانچ اونٹ ہیں اور ان کی زکوٰۃ ایک بھیڑ ہے ،اورجب تک اونٹوں کی تعداد اتنی نہ ہو تو زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی ۔
دوسرا نصاب ۔دس اونٹ ہیں اور ان کی زکوٰۃ دوبھیڑ ہے۔
تیسرا نصاب۔پندرہ اونٹ ہیں اوران کی زکوٰۃتین بھیڑ ہے۔
چوتھا نصاب ۔بیس اونٹ ہیںاور ان کی زکوٰۃ چاربھیڑ ہے ۔
پانچواں نصاب۔پچیس اونٹ ہیں اور ان زکوٰۃپانچ بھیڑ ہے ۔
چھٹانصاب ۔چھبیس اونٹ ہیں اور ان کی زکوٰۃ ایک اونٹ ہے،کہ جوعمرکے لحاظ سے دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہو ۔
ساتواں نصاب ۔چھتیس اونٹ ہیں اور ان کی زکوٰۃایک اونٹ ہے ،کہ جو عمر کے لحاظ سے تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔
آٹھواں نصاب۔چھیالیس اونٹ ہیں اور ان کی زکوٰۃایک اونٹ ہے ،کہ جو عمر کے لحاظ سے چوتھے سال میں داخل ہو چکا ہو۔
نواں نصاب۔اکسٹھ (۶۱)او نٹ ہیں اور ان کی زکوٰۃایک اونٹ ہے ،کہ جو عمر کے لحاظ سے پانچویں سال میں داخل ہو چکا ہو ۔
دسواں نصاب ۔چھہتر (۷۶)اونٹ ہیں اور ا ن کی زکوٰۃ دو اونٹ ہیں جو تیسرے سال میں داخل ہو چکے ہوں۔
گیارہواں نصاب۔اکیانوے (۹۱)اونٹ ہیں اور ان کی زکوٰۃدو اونٹ ہیں کہ جو چوتھے سال میں داخل ہو چکے ہوں۔
بارہواں نصاب ۔ایک سو اکیس یا اس سے زیادہ اونٹ ہیں اس صورت میں یا تو چالیس چالیس کر کے حساب کریں اور ہر چالیس اونٹوں پر ایک اونٹ جو تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو زکوٰۃ کے طور پر دیں یا پچاس پچاس کر کے حساب کریں اور ہر پچاس اونٹوں پرایک اونٹ جو چوتھے سال میں داخل ہو چکا ہوزکوٰۃ میں دیں یا پینتالیس کے عدد سے حساب کریں لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ ہر صورت میں اس طرح حساب کرنا چاہیے کہ کچھ باقی نہ بچے اور اگر کچھ باقی بچے تو وہ نو سے زیادہ نہ ہوں ۔مثلا اگر کسی کے پاس ۱۴۰!اونٹ ہیں تو اسے سو اونٹوں کی زکوٰۃ میں دو ایسے اونٹ دینا چاہیئے جو چوتھے سال میں داخل ہو چکے ہوںاوربقیہ چالیس اونٹوں کی زکوٰۃ میں ایک ایسااونٹ دینا چاہیے جو تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔
مسئلہ۲۰۶۴۔دو نصابوں کے در میانی عدد پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے پس اگر اونٹوں کی تعداد پہلے نصاب یعنی پانچ سے آگے بڑھ جائے تو جب تک کہ دوسرے نصاب یعنی دس تک نہیں پہنچ جائے تو صرف پانچ اونٹوں کی زکوٰۃ دی جائیگی اور اسی طرح بعد کے نصابوں میں بھی اسی حکم کا لحاظ کیا جائے گا ۔

گائے کا نصاب
مسئلہ ۲۰۶۵۔گائے کے دو نصاب ہیں :
پہلا نصاب ۔تیس ۳۰ہیں ،جب گائے کی تعداد تیس تک پہنچ جائے اور جن شرائط زکوٰۃ کو بیان کیا جا چکا ہے وہ بھی موجود ہوں تو ایک بچھڑا کہ جو دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہو زکوٰۃ کے طور پر دے۔
دوسرا نصاب۔چالیس ہے اور ان کی زکوٰۃ ایک بچھڑی ہے جو تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہو تیس اور چالیس کے درمیانی عددد پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی مثلا اگر کسی شخص کے پا س ۳۹ جائے ہیںتوصرف تیس کی زکوٰۃ ادا کرے گا اور اسی طرح اگر چالیس گائے سے زیادہ ہوں مگر ان کی تعداد ۶۰ تک نہ پہنچی ہوتو صرف چالیس گائے کی زکوٰۃ دینی چاہیے اور جب گائے کی تعداد ساٹھ تک پہنچ جائے تو چونکہ یہ پہلے نصاب کا دو گنا ہے لہٰذا دو بچھڑے جو دوسرے سال میں داخل ہوچکے ہوں زکوٰۃ میں دے۔ اسی طرح تعداد جتنی بھی زیادہ ہو تی جائے تو یا تیس تیس کرکے حساب کرے یا چالیس چالیس کر کے حساب کرے یا تیس اور چالیس کرکے حساب کرے اور بتائے ہوئے قاعدہ کے مطابق ان کی زکوٰۃدے لیکن احتیاط یہ ہے کہ حساب اس طرح کرنا چاہیے کہ کچھ باقی نہ بچے اور اگر باقی بچے تو وہ نو سے زیادہ نہ ہو مثلا اگر کسی کے پاس ستر (۷۰) گائیں ہیں تو اسے تیس اور چالیس دونوں سے حساب کرنا چاہیے تیس گائے کے لئے ۳۰ کی زکوٰۃ (یعنی ایک بچھڑاجو دوسرا سال میںدا خل ہو چکا ہو )دے اور چالیس گائے کے لئے چالیس کی زکوٰۃ (یعنی ایک بچھڑی جو تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہو)دے کیونکہ اگر تیس تیس کر کے حساب کیا جائے گا تو دس گائیں بچ جائیں گی جن کی زکوٰہ ادا نہ ہو سکے گی ۔

بھیڑ،بکری کا نصاب
مسئلہ۲۰۶۶۔بھیڑ،بکری کے لئے پانچ نصاب ہیں ۔
پہلا نصاب۔چالیس بھیڑ ،بکریاں ہیں اور انکی زکوٰۃ ایک بھیڑ یا بکری ہے اور جب تک انکی تعداد چالیس تک نہ پہنچ جائے زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔
دوسرا نصاب۔ایک سو اکیس بھیڑ یا بکریاں ہیں اور انکی زکوٰۃ ۲ بھیڑ یابکریاں ہیں۔
تیسرا نصاب۔دو سو ایک بھیڑ ،بکریاں ہیں اور انکی زکوٰۃ تین بھیڑیا بکریاں ہیں ۔
چوتھا نصاب۔تین سو ایک بھیڑ ،بکریاں ہیں جن کی زکوٰۃ چار بھیڑیں ہیں ۔
پانچواں نصاب۔چار سو اور اس سے زیادہ بھیڑیں ہیں کہ جن کا حساب سو سو کرکے کرنا چاہیئے اور ہر سینکڑے پر ایک بھیڑ زکوٰۃ میں دے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ زکوٰۃ انہی بھیڑوں میں سے دے بلکہ دوسری بھیڑ بھی دے سکتا ہے یا بھیڑ کی قیمت کے برابر رقم یا جنس دینا بھی کافی ہے ۔
مسئلہ ۲۰۶۷۔دو نصابوں کے درمیانی عدد پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔اگر کسی شخص کے پاس پہلے نصاب یعنی چالیس سے زیادہ بھیڑیں ہو تو جب تک انکی تعداد دوسرے نصاب یعنی ایک سو اکیس کے برابر نہ پہنچے تو صرف چالیس بھیڑ کی زکوٰۃ ادا کرے گا اور زیادہ پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی اور اسی طرح بعد کے نصابوں میں بھی اسی حکم کا خیال رکھا جائے گا۔

چند مسائل
مسئلہ ۲۰۶۸۔اونٹ ،گائے اور بھیڑ جو نصاب کی حد تک پہنچ جائیں انکی زکوٰۃ واجب ہوگی چاہے وہ اونٹ گائے اور بھیڑ نر ہوں یا مادہ خواہ ان میں سے بعض نر ہوں اور بعض مادہ ۔
مسئلہ۲۰۶۹۔ زکوٰۃ میں گائے اور بھینس ایک ہی جنس میں شمار ہوں گے اور اسی طرح عربی اونٹ یا غیر عربی اونٹ بھی ایک ہی جنس میں شمار ہوں گے اور اسی طرح بکری ،بھیڑ زکوٰۃ کے معاملہ میں کوئی فرق نہیں رکھتی ہیں ۔
مسئلہ۲۰۷۰۔اگر زکوٰۃ میں بھیڑ دے تو کم از کم پورے سات ماہ کی ہو اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ دوسرے سال میں داخل ہو چکی ہو اور بکری دے تو کم از کم ایک سال مکمل ہو چکا ہو اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہو۔
مسئلہ ۲۰۷۱۔جس بھیڑ کو زکوٰۃ میں دیا جائے اگر اسکی قیمت دوسری بھیڑوںکے مقابلہ میں معمولی کم ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ ایسی بھیڑ زکوٰۃ میں دے کہ جس کی قیمت تمام بھیڑوںسے زیادہ ہو اور یہی حکم گائے اور اونٹ کے لئے بھی ہے ۔
مسئلہ۲۰۷۲۔اگر چند لوگ (بھیڑ وغیرہ میں)شریک ہوں تو جس کسی کا حصہ پہلے نصاب کے برابر پہنچ جائے وہ زکوٰۃ ادا کرے اور جس کسی کا حصہ پہلے نصاب سے کم ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ۲۰۷۳۔اگر ایک شخص کئی جگہوں پر گائے یا اونٹ یا بھیڑ رکھتا ہو اگر ہر جگہ کے اونٹ یا بھیڑ کو ملا کر نصاب کے برابر پہنچ جائیں تو انکی زکوٰۃ ادا کرنی چاہیئے ۔
مسئلہ۲۰۷۴۔اگر کسی شخص کے پاس گائے ،بھیڑ اور اونٹ ہیں وہ سب بیمار یا عیب دار ہوں تب بھی ان کی زکوٰۃ دے ۔
مسئلہ۲۰۷۵ اگر کسی شخص کے پاس گائے ،بھیڑ اور اونٹ ہیں جو سب کے سب بیمار،عیب دار یا بوڑھے ہیں تو انکی زکوٰۃ انہیںسے دے سکتا ہے لیکن اگر سبھی تندرست ،بے عیب اور جوان ہیں تو انکی زکوٰۃ میں بیمار یا عیب دار یا بوڑھا جانور نہیں دے سکتا بلکہ اگر چہ ان میں سے کچھ تندرست اور کچھ بیمار ہوں ، یا ایک گلہ عیب دار اور دوسرا بیمار ہو یا کچھ بوڑھے ہوں اور کچھ جوان تب بھی احتیاط واجب یہی ہے کہ انکی زکوٰۃ کے لئے تندرست ،بے عیب اور جوان جانور دے ۔
مسئلہ ۲۰۷۶۔اگر کوئی شخص گیارہ مہینے تمام ہو نے سے پہلے اپنی گائے ، بھیڑ اور اونٹ کو کسی دوسری چیز سے بدل لے یا جو نصاب پورا ہو اس نصاب کے برابر اسی جنس سے بدل لے مثلاً چالیس بھیڑ دے کر دوسری چالیس بھیڑ لے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔
مسئلہ۲۰۷۷۔ اگر کوئی شخص گائے ،بھیڑ اور اونٹ کی زکوٰۃ نقد یا سونا چاندی یا کسی اور مال سے دیدے تو جب تک ان جانوروں کی تعداد نصاب سے کم نہ ہو گی ہر سال ان کی زکوٰۃ دیتا رہے ،اگر انہی جانوروں میں سے زکوٰۃدے اور اسطرح وہ پہلے نصاب سے کم ہو جائیں تو پھر اس شخص پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی مثلاًکسی شخص کے پاس چالیس بھیڑیں ہیں اگر انکی زکوٰۃکسی اور مال سے دیدی ہو تو جب تک بھیڑوں کی تعداد چالیس سے کم نہ ہوگی ہر سال ایک بھیڑزکوٰۃ دیتا رہے گا اور خود بھیڑوں میں سے زکوٰۃ دے دیتا ہے تو جب تک دوبارہ ان کی تعداد چالیس تک نہ پہنچے گی زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔

زکوٰۃکا مصرف
مسئلہ۲۰۷۸۔انسان زکوٰۃ کو آٹھ جگہوں پرصرف کر سکتا ہے۔
پہلا مصرف ۔فقیر:۔فقیر وہ شخص ہے جو اپنے اور اپنے عیال کے سال بھر کے اخراجات نہ رکھتا ہو اور جس شخص کے پاس کوئی صنعت ہو یا ہنر یا جائیداد یا کوئی سرمایہ ہو کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے سال بھر کے اخراجات پورا کرسکے تو وہ فقیر نہیں ہے ۔
دوسرا مصرف۔مسکین:مسکین وہ شخص ہے جو فقیر سے بھی زیادہ سخت زندگی بسر کرتا ہو ۔
تیسرا مصرف۔وہ شخص کہ جو امام علیہ السلام یا نائب امام کی طرف سے زکوٰۃجمع کرنے اور اسکی حفاظت ،حساب کتاب اور امام یا نائب امام یا فقراء تک پہنچانے پر مقرر ہو۔
چوتھا مصرف ۔ا ن کا فروں کو بھی زکوٰۃ دی جا سکتی ہے کہ جو زکوٰۃ ملنے سے دین اسلام کی طرف مائل ہوں یا جنگ میں مسلمانوں کو مدد پہنچائیں ،اسی طریقے سے وہ مسلمان کہ جنکا دین ضعیف ہے۔
پانچواں مصرف ۔غلاموں کو آزاد کرانے کیلئے ان کی خرایداری کرنا۔
چھٹا مصرف ۔وہ مقروض بھی زکوٰۃکا مستحق ہے جو اپنا قرض ادا نہ کرسکتا ہو۔
ساتواں مصرف ۔۔۔’’سبیل اللہ‘‘ہے ۔یعنی زکوٰۃ سے ایسے کام کرنا جس میں عام دینی منفعت ہو جیسے مسجد یا دینی مدرسہ بنانایا ایسا کام کرنا جس سے مسلمانوں کو دنیاوی فائدہ پہونچے ۔
آٹھواں مصرف ۔’’ابن السبیل‘‘یعنی وہ مسافر جو دوران سفر بے خرچ ہوجائے وہ بھی زکوٰۃکا مستحق ہوگا ۔
مسئلہ ۲۰۷۹۔فقیر اور مسکین کواپنے اور اہل و عیال کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ایک مرتبہ کی زکوٰۃ سے دینا جائز ہے اور اگر وہ کارو بار کرتے ہیں اور ان کے پاس کچھ رقم یا مال موجود ہے تو جو کچھ انکے سال بھر کے اخراجات میں کمی ہو رہی ہو بنا بر احتیاط واجب اتنی ہی مقدار میں انہیں زکوٰۃ دی جائے۔
مسئلہ ۲۰۸۰۔ایسا شخص جو اپنے سال بھر کے اخراجات رکھتا ہو اسمیں سے کچھ خرچ کر ڈالے اورپھر بعد میں شک ہو کہ جو کچھ با قی بچا ہے وہ اس کے سال بھر کے اخراجات کے لئے کا فی ہو گا یا نہیںتو وہ شخص بغیر تحقیق کے زکوٰۃ نہیں لے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۲۰۸۱۔اگر کوئی شخص کسی صنعت یا ہنر یا جائیداد کا مالک ہو یا تاجر ہو کہ جس کی آمدنی اس کے سال بھر کے اخراجات سے کم ہو تو اس کے سال بھر کے اخراجات میں جو کمی واقع ہو رہی ہو وہ اس کمی کو زکوٰۃ سے پورا کرسکتا ہے اور ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنے اخراجات پورا کرنے کے لئے آلات،جائیداد یا اصل سرمائے کو خرچ کرے ۔
مسئلہ ۲۰۸۲۔وہ فقیر جو اپنا اوراپنے عیال کے سال بھر کے اخراجات نہ رکھتا ہو مگر وہ ایک مکان کا مالک ہو جس میں رہتا ہو یا اس کے پاس کوئی سواری ہو تو وہ اس کے باوجود زکوٰۃ لے سکتا ہے جب کہ وہ ان چیزوں کے بغیر زندگی نہ گذار سکتا ہو خواہ حفاظت آبرو کے لئے ہی کیوںں نہ ہو اسی طرح گھر کے سامان، برتن ،گرمی اور جاڑے کے لباس اور ایسی دوسری ضرورت کی چیزیں رکھنے کے باوجود زکوٰۃ لے سکتا ہے اور اگر کو ئی محتاج ان چیزوں کو نہ رکھتا ہو اور اسے ان کی ضرورت بھی ہو تو زکوٰۃ سے خرید سکتا ہے ۔
مسئلہ۲۰۸۳۔اگر کسی فقیر کیلئے ہنر سیکھنا مشکل نہ ہو تو بنا بر احتیا ط واجب وہ ہنر سیکھ لے اور زکوٰۃ پر زندگی نہ گذارے لیکن جب تک ہنر سیکھنے میں مشغول رہے اس وقت تک زکوٰۃ لے سکتا ہے ۔
مسئلہ۲۰۸۴۔اگر کوئی شخص پہلے محتاج رہا ہو اور اب بھی وہ اپنے کو محتاج کہتا ہو تو اگر چہ اس کے کہنے پر اطمینان نہ ہو پھر بھی اسے زکوٰۃ دیا جا سکتاہے۔
مسئلہ۲۰۸۵۔اگر کوئی شخص پہلے فقیر نہ تھا اور اب اپنے کو فقیر بتائے یا یہ کہ معلوم نہ ہو و ہ پہلے فقیر رہا ہے یا نہیں؟تو ایسی صورت میںاگر اس کے کہنے سے اطمینان پیدا نہ ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اسے بغیر تحقیق کے زکوٰۃ نہ دی جائے۔
مسئلہ ۲۰۸۶۔اگر کوئی شخص زکوٰۃ دینا چاہے اور کوئی ایسا محتاج بھی ہو جو اس کا مقروض ہو تو جو قرض اس محتاج کے ذمہ واجب الادا ہے اسے زکوٰۃ میں محسوب کرسکتا ہے ۔
مسئلہ۲۰۸۷۔ایسا فقیر جو کسی کا مقروض تھا مر جائے اور اسنے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے قرض ادا کیا جاسکے تو قرض خواہ اس کے قرضہ کو زکوٰۃ سے حساب کر سکتا ہے اور اگر اس فقیر میت کا مال تو قرضہ کے برابر ہو لیکن ورثاء قرضہ ادا نہ کریں یا کسی دوسری وجہ سے وہ اپنا مال نہ لے سکے تو بنا بر احتیاط واجب زکوٰۃ سے حساب نہیں کر سکتا ہے ۔
مسئلہ۲۰۸۸۔اگر کوئی شخص کسی محتاج کو زکوٰۃ دے تو یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ ’’یہ زکوٰۃ ہے ‘‘ بلکہ اگر کوئی محتاج زکوٰۃ لینے میںشرم محسوس کرے تو مستحب یہ ہے زکوٰۃ کو ہدیہ کے نام سے دیدے اور زکوٰۃ کی نیت کرے ۔
مسئلہ۲۰۸۹۔اگر کوئی شخص کسی کو محتاج سمجھتے ہوئے زکوٰۃ دے اور بعد میں معلوم ہو کہ یہ محتاج نہیں یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی ایسے شخص کو زکوٰۃ دیدے جو غیر محتاج ہو تو اگر مال باقی ہوتو اس صورت میں اس غیر محتاج سے زکوٰۃ واپس لے کر مستحق کو پہنچانی چاہیے اور اگر مال محفوظ نہ رہا ہو تو جس کومال دیا گیا تھااگر اس کے علم میں تھا کہ یہ ’’زکوٰۃ‘‘ہے تو اس سے اس کا عوض لینا چاہیے اور مستحق کو پہچانا چاہیے اور اگر مال اسے زکوٰۃ بتا کر نہیں دیا گیا ہے تو اس سے واپس نہیں لیا جائے گا بلکہ زکوٰۃ نکالنے والا خود دوبارہ اپنے مال سے مستحق کو ادا کرے گا ۔
مسئلہ۲۰۹۰۔اگر کوئی شخص مقروض ہے اوراپنا قرضہ ادا نہیں کرسکتا ہوتو اپنے سال بھر کا اخراجات رکھنے کے باوجود اپنے قرضی کی آدائیگی کیلئے زکوٰۃلے سکتا ہے بشرطیکہ جو قرض لیا تھا اسے گناہ میں خرچ نہ کیا ہو ۔
مسئلہ۲۰۹۱۔اگر کوئی شخص ایسے آدمی کو زکوٰۃ دے جو مقروض تھا اور اپنا قرض ادانہیں کرسکتا تھا اور بعد میں معلوم ہو کہ اس نے قرض کی رقم گناہ میں خرچ کی تھی ،اگر وہ شخص محتاج ہو تو جو کچھ اسے دیا گیا ہے اسے زکوٰۃ میں محسوب کیا جاسکتا ہے لیکن اگر اس محتاج نے قرض کی رقم گناہ میں صرف کی ہے اور اپنے گناہ سے توبہ بھی نہیں کی ہے تو بنا بر احتیاط واجب جو کچھ دیا گیا ہے اسے زکوٰۃ میں محسوب نہیں کیا جائے ۔
مسئلہ۲۰۹۲۔اگر مقروض اپنا قرض ادا نہ کرسکتا ہو تو اگر چہ وہ محتاج نہ ہو تب بھی قرض دینے والا اس قرض کو زکوٰۃ میں محسوب کر سکتا ہے ۔
مسئلہ۲۰۹۳۔ایسا مسافر جس کا خرچ ختم ہو چکا ہو یا جس کی سواری نا کارا ہو گئی ہو تو اگر اس کا سفر گناہ کا سفر نہ ہو اور اس کے لئے یہ بھی ممکن نہ ہو کہ قرض لے کر یا اپنی کوئی چیز فروخت کر کے اپنے آپ کو منزل مقصود تک پہنچائے تو چاہے وہ اپنے وطن میں محتاج نہ ہو تب بھی وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے لیکن اگر کسی دوسری جگہ پر قرض کے ذریعہ یا اپنی کوئی چیز فروخت کر کے اخراجات پورے کر سکتا ہو تو صرف اتنی ہی مقدار میں زکوٰۃ لے گا کہ جس سے دوسری جگہ تک پہنچ سکے کہ جہاں اس کی احتیاج بر طرف ہو جائے۔
مسئلہ ۲۰۹۴۔ایسا مسافر جس کا خرچ ختم ہو گیا تھا اوروہ زکوٰۃ لے کر وطن پہنچا ہو تو اگر مال زکوٰۃ میں سے کچھ بچ گیا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ حاکم شرع کو جا کر دے اور بتائے کہ یہ زکوٰۃ ہے۔

مستحقین زکوٰۃ کے شرائط
مسئلہ۲۰۹۵۔ زکوٰۃ کا مستحق وہ شخص ہے جو شیعہ اثنا عشری ہو اور اگر کسی کو شیعہ اثنا عشری سمجھ کر زکوٰۃ دیا جائے اور بعد میں معلوم ہو جائے کہ وہ شیعہ اثنا عشری نہیں تھا تو دوبارہ زکوٰۃ دینی چاہیے مگر یہ کہ زکوٰۃ مؤلفۃالقلوب کے حصہ کی ہو ۔
مسئلہ۲۰۹۶۔اگر کوئی شیعہ بچہ محتاج یا دیوانہ ہوتو اس کے ولی کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے اس ارادہ سے کہ جو کچھ اس کے ولی کو دیا جا رہا ہے وہ بچے یا دیوانے کی ملکیت ہو گا۔
مسئلہ ۲۰۹۷۔اگرکسی محتاج بچے یا دیوانے کے ولی تک نہ پہنچا سکتا ہو تو خود یا کسی دوسرے امین شخص کے ذریعہ زکوٰۃ کو بچہ یا دیوانے شخص پر خرچ کرے اور جب ان پر زکوٰۃ صرف ہو تو زکوٰۃ کی نیت کرے ۔
مسئلہ۲۰۹۸۔ایسا محتاج جو گدائی کرتا ہو (یعنی در بدرکی بھیک مانگتا ہو )زکوٰۃ دی جا سکتی ہے لیکن جو زکوٰۃ کو گناہ میں خرچ کرتا ہو اسے زکوٰۃ نہیں دینی چاہیے۔
مسئلہ۲۰۹۹۔احتیاط واجب یہ ہے کہ جو شخص علانیہ گنا ہ کبیرہ بجا لا تا ہو اسے زکوٰۃ نہ دی جائے ۔
مسئلہ۲۱۰۰۔اگر کوئی شخص مقروض ہے اور اپنا قرض ادا نہیں کرسکتا ہے تو اگر چہ اس شخص کے اخراجات خود زکوٰۃ دینے والے پرہی واجب کیوں نہ ہو ،اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے ۔
مسئلہ۲۱۰۱۔ کوئی شخص ایسے لوگوں کے اخراجات زکوٰۃسے نہیں دے سکتا جن کے اخراجات اس پر واجب ہیں مثلاً اولاد،لیکن اگر وہ شخص جن پر ان کے اخراجات واجب ہیں انہیں خرچ نہ دے تو دوسرے لوگ ان کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں ۔
مسئلہ۲۱۰۲۔اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو زکوٰۃ دے کہ وہ اپنی بیوی،نوکر ،اور کنیز پر صرف کر ے تو اس میں کو ئی مضائقہ نہیں ہے ۔
مسئلہ۲۱۰۳۔اگر کسی شخص کے بیٹے کو علم دین کی کتابوں کی ضرورت ہو تو باپ ان کتابوں کی خرید کے لئے بیٹے کو زکوٰۃ دے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۲۱۰۴۔باپ بیٹے کو زکوٰۃ دے سکتا ہے کہ وہ کسی عورت سے نکاح کر لے ،اسی طرح بیٹا بھی باپ کو نکاح کرنے کے لئے زکوٰۃ دے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۲۱۰۵۔ایسی عورت جس کے اخراجات اس کا شوہر پورے کر تا ہو، یا یہ کہ شوہر اس کے اخراجات پورے نہیں کرتا اور بیوی خرچ دینے پر اسے مجبور کر سکتی ہو ۔دونوں صورتوں میں اسے زکوٰۃ نہیں دیا جاسکتا ۔
مسئلہ ۲۱۰۶۔وہ عورت جس سے متعہ کیا گیا ہو اگرمحتاج ہو تو خود متعہ کرنے والا اور دوسرے لوگ بھی اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں لیکن اگرشوہر نے نکاح کے ضمن میں شرط قبول کی ہو کہ وہ اس کے اخراجات پورا کرے گا یا کسی اور دوسرے سبب سے اس عورت کے اخراجات اس پر واجب ہوںتو اس عورت کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی جب کہ وہ اس عورت کے اخراجات پورے کر سکتا ہو ۔
مسئلہ۲۱۰۷۔بیوی اپنے محتاج شوہر کو زکوٰۃ دے سکتی ہے اگر شوہر زکوٰۃ کوخود ا س عورت کے ہی اخراجات پر کیوں نہ صرف کرے۔
مسئلہ۲۱۰۸۔سید غیر سید سے زکوٰۃ نہیں لے سکتا لیکن اگر خمس اور دوسری رقوم ا سکے اخراجات کے لئے کافی نہ ہوں اور زکوٰۃلینے پر مجبور ہو تو غیر سید سے زکوٰۃ لے سکتا ہے ۔
مسئلہ۲۱۰۹۔ جس شخص کے متعلق معلوم نہ ہو کہ سید ہے یا نہیں تو اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے ۔

زکوٰۃکی نیت
مسئلہ۲۱۱۰۔انسان کو زکوٰۃ قصد قربت یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری کی نیت سے دینی چاہیے اور احتیاط یہ ہے کہ نیت میں معین کرے کہ جو کچھ زکوٰۃ میں دے رہا ہے وہ زکوٰۃ مال ہے یا زکوٰۃ فطرہ،لیکن مثلاًاگر گندم اور جو کی زکوٰۃ اس پر واجب ہے تو ضروری نہیں ہے معین کرے کہ جو کچھ دے رہا ہے وہ گندم کی زکوٰۃ ہے یا جو کی۔
مسئلہ۲۱۱۱۔اگر کسی شخص پر کئی مال کی زکوٰۃ واجب ہے اور کوئی سا مال زکوٰۃ میں دیدے اور کسی ایک مال کے زکوٰۃ کی نیت نہ کرے تو اگر وہ مال ان میں سے کسی ایک خاص جنس سے ہو تو تو اسی جنس کی زکوٰۃ شمار ہو گی اور اگر وہ مال کسی ایک خاص جنس سے نہ ہو تو وہ زکوٰۃ ان سب مال پر تقسیم کی جائیگی پس اگر کسی شخص پر چالیس بھیڑ اور ۱۵!مثقال سونے کی زکوٰۃ واجب ہے اور وہ ایک بھیڑ زکوٰۃ میں دیدے اور ان میں سے ایک مال کی زکوٰۃ کی نیت نہ کرے تو وہ زکوٰۃ بھیڑ کی زکوٰۃ شمار ہو گی لیکن اگر بھیڑ اور سونے کی زکوٰۃ پر کچھ چاندی کی مقدار دیدے تو وہ دونوں پر تقسیم ہو جائیگی ۔
مسئلہ ۲۱۱۲۔اگر کوئی شخص زکوٰۃ دینے میں کسی کو وکیل بنائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا مال وکیل کے سپرد کرتے وقت نیت کرے کہ جس مال کو وکیل بعد میں فقیر کو دے گا وہ زکوٰۃ ہے ۔اور وکیل کو بھی چاہیے کہ فقیر کو زکوٰۃ دیتے وقت مالک کی طرف سے زکوٰۃ کی نیت کرے ۔
مسئلہ ۲۱۱۳۔ اگر مالک یا اس کا وکیل بغیر قصد قربت کے زکوٰۃ محتاج کو دیدیں اور قبل اس کے کہ وہ مال تلف ہو خود مالک زکوٰۃ کی نیت کر لے تو وہ زکوٰۃ میں محسوب ہو جائے گا ۔

زکوٰۃ کے متفرق مسائل
مسئلہ۲۱۱۴۔احتیاط یہ ہے کہ جب گندم اور جو کے دانے بالیوں سے الگ کر لئے جائیں اور خرما اور انگور خشک ہو جائیں تو اس کی زکوٰۃ اسی وقت محتاج کو دینی چاہیے یا اپنے مال سے الگ کردینی چاہیے ،سونے چاندی ،گائے ،بھیڑ اور اونٹ کی زکوٰۃگیارہواں مہینہ تمام ہو نے کے بعد محتاج کو دیدینی چاہیے ۔یا اپنے مال سے الگ کر دینی چاہیے لیکن اگر کسی مخصوص محتاج اک انتظار ہو یا کسی ایسے محتاج کو دینا چاہیے جو دوسروں پر برتری رکھتا ہو تو پھر اسے اپنے مال سے الگ نہ کرے ۔
مسئلہ۲۱۱۵۔زکوٰۃ الگ کر دینے کے بعد ضروری نہیں ہے کہ فورا مستحق کو پہنچا دے لیکن جن (مستحقین )کو زکوٰۃ دی جاتی ہے اگر ان تک پہنچا سکتا ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے میں تاخیر نہ کرے ۔
مسئلہ ۲۱۱۶۔جو شخص زکوٰۃمستحق تک پہنچا سکتا ہو اور نہ پہنچائے اور اس کو تاہی سے وہ ضائع ہو جائے تو اسے اس کا معاوضہ دینا ہو گا ۔
مسئلہ ۲۱۱۷۔اگر کوئی شخص زکوٰۃ مستحق تک نہ پہنچائے اور اس کی حفاظت میں کوتاہی برتے بغیر وہ مال ضائع ہو جائے تو اگر زکوٰۃ دینے میں اتنی تاخیر ہو ئی ہو کہ یہ نہ کہا جاسکے کہ اس نے زکوٰۃ فوراً ادا کی ہے تو اسے ا سکا معاوضہ دینا چاہیے اور اگر اس قدر تاخیر نہ ہو ئی ہو مثلا دو تین گھنٹوں کی تاخیر ہو ئی ہو اور اسی دو تین گھنٹوں میں مال ضائع ہو گیا تو اگر اس وقت مستحق موجود نہیں تھا تو پھر اس شخص پر کوئی معاوضۃ واجب نہیں ہو گا اور اگر مستحق موجود تھا تو بنا بر احتیاط واجب اس زکوٰۃ کا معاوضہ دے۔
مسئلہ ۲۱۱۸۔اگر زکوٰۃ عین مال سے الگ کر دی ہے تو بقیہ مال پر تصرف کر سکتا ہے اور اگر زکوٰۃ کسی دوسرے مال سے نکالی ہے تو تمام مال پر تصرف کر سکتا ہے۔
مسئلہ ۲۱۱۹۔ جو زکوٰۃ علیحدہ کر دی گئی ہے اسے اپنے لئے اٹھا کر اس کی جگہ کوئی دوسری چیز نہیں رکھی جاسکتی۔
مسئلہ ۲۱۲۰۔ جو زکوٰۃ علیحدہ کر دی گئی ہے اگر ا س سے کوئی منفعت حاصل ہو تو وہ منفعت بھی مستحق کے لئے ہے ۔مثلا بھیڑ جو زکوٰۃ کے لئے الگ کر دی گئی ہے اگر اس سے بچہ پیدا ہو تو وہ مستحق کا مال ہے ۔
مسئلہ۲۱۲۱۔جس وقت کوئی شخص زکوٰۃکا مال الگ کر رہا ہو اور کوئی مستحق بھی موجود ہو تو بہتر ہے کہ اسے زکوٰۃ دیدی جائی سوائے اس صورت کے کہ کوئی دوسرا شخص نگاہ میں ہو کہ جس کو کسی وجہ سے زکوٰۃ دینا بہتر سمجھے ۔
مسئلہ۲۱۲۲۔اگر حاکم شرع کی اجازت کے بغیر جدا شدہ زکوٰۃکے مال سے تجارت کرے اور خسارہ ہو جائے تو زکوٰۃ سے کم نہیں کر سکتا ہے ہاں اگر منفعت ہو جائے تو وہ احتیاط واجب یہ ہے کہ اسے بھی مستحق کو دے دیا جائے ۔
مسئلہ۲۱۲۳۔اگر کوئی شخص زکوٰۃ واجب ہونے سے پیشتر کوئی چیز زکوٰۃکے طور پر کسی محتاج کو دیدے تو اس کا شمار زکوٰۃ میں نہیں ہو گا البتہ زکوٰۃ واجب ہو نے کے بعد جو چیز محتاج کو دی ہے باقی ہو اور وہ محتاج بھی اپنی احتیاج پر باقی رہے تو اس چیز کو زکوٰۃ میںمحسوب کر سکتا ہے ۔
مسئلہ ۲۱۲۴۔کوئی فقیر کسی شخص کے بارے میں جانتا ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوئی ہے اور پھر بھی اس سے کوئی چیز زکوٰۃ کے طور پر لے اور وہ مال اس سے ضائع ہو جائے تو وہ فقیر ضامن ہے پھر جب اس شخص پر زکوٰۃ واجب ہواور وہ محتاج بھی اپنی احتیاج پر باقی ہو تو محتاج کو دی ہوئی چیز کا معاوضہ زکوٰۃ میںمحسوب کر سکتا ہے۔
مسئلہ۲۱۲۵۔جب کوئی فقیر کسی شخص کے متعلق یہ جانتا ہو کہ اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوئی ہے اور اس سے کوئی چیز زکوٰۃ کے طور پر لے لے اور وہ اس سے ضائع ہو جائے تو پھر وہ محتاج اس کا ضامن نہ ہو گا اور نہ ہی اس چیز کا دینے والااس چیز کے عوض کو زکوٰۃ میں محسوب کر ے گا ۔
مسئلہ۲۱۲۶۔مستحب ہے کہ گائے ،بھیڑ اور اونٹ کی زکوٰۃ آبرومند محتاجوں کو دی جائے اور زکوٰۃ دینے میں اپنے رشتہ داروں کو غیروں پر ،اور اہل علم وکمال کو بے علم وکمال پراور دست سوال نہ پھیلانے والوں کو دست سوال پھیلانے والوں پر مقدم قرار دے لیکن کسی اور وجہ سے کسی دوسرے محتاج کو دینا بہتر ہو تو مستحب ہے کہ اس کو زکوٰۃ دے۔
مسئلہ۲۱۲۷۔بہتر ہے کہ زکوٰۃ کو علانیہ اور صدقہ مستحبہ کو چھپا کر مستحق کے حوالہ کرے ۔
مسئلہ۲۱۲۸۔اگر کوئی شخص کسی شہر میں زکوٰۃ دیتا چاہتا ہے مگر کوئی مستحق موجود نہیں ہے اور زکوٰۃ کے دوسرے معینہ مصارف پر بھی صرف نہیں کر سکتا ہے اور یہ امید بھی نہ وہ کہ بعد مین کوئی مستحق ملے گاتو پھر زکوٰۃ کو دوسرے شہر میں لے جائے اور زکوٰۃ کے جو مصارف معین ہیں ان پر خرچ کرے اور دوسرے شہر تک زکوٰۃ لے جانے کے اضراجات کو زکوٰۃ سے منہا کرے گا ۔
مسئلہ ۲۱۲۹۔اگرخود زکوٰۃ دینے والے کے شہر میں مستحق مل سکتا ہو اور وہ زکوٰۃ کو کسی دوسرے شہر میں لے جا نا چاہے تولے جا سکتا ہے لیکن دوسرے شہر تک زکوٰۃ لے جانے کے اخراجات خود ادا کرے گا اور اگر مال زکوٰۃ تلف ہو جائے تو اس کا ضامن بھی ہوگا مگر یہ کہ حاکم شرع کی اجازت سے لے گیا ہو ۔
مسئلہ۲۱۳۰۔زکوٰۃمیں دی جانیوالی گندم ،جو، کشمش اور کھجور کے ماپ،تول کی ا٘جرت خود زکوٰۃ دینے والے کے ذمہ ہوگی۔
مسئلہ ۲۱۳۱۔اگر کسی شخص کو ایک تولہ اور ۵.۳ماشہ یا اس سے زیادہ چاندی کی زکوٰۃ دینے ہو تو بنا بر احتیاط وہ ایک محتاج کو ایک تولہ ۵.۳ماشہ سے کم چاندی کی مقدار نہ دے اور اگر چاندی کے علاوہ کوئی دوسری چیزمثل گندم اور جو کے دینا ہو اور اس کی قیمت ایک تولہ ۵.۳ ماشہ چاندی کے برابر پہنچ جائے تب بھی وہ شخص ایک محتاج کو اس سے کم مقدار میں نہ دے۔
مسئلہ۲۱۳۲۔مکروہ ہے کہ کوئی شخص مستحق سے خواہش کرے کہ جو زکوٰۃ اسے ملی ہے وہ اس کے ہاتھ فروخت کردے لیکن اگر مستحق خود جو زکوٰۃ میں ملی ہے اسے صحیح قیمت سے بیچنا چاہے تو زکوٰۃ کا دینے والا اس کے خریدنے میں مقدم ہے ۔
مسئلہ۲۱۳۳۔اگر کوئی شخص شک کرے کہ جو زکوٰۃاس پر واجب الادا تھی وہ ادا کی یا نہیں تو اگر اس کی عادت یہ تھی کہ زکوٰۃ کو وقت پر ادا کرتا تھا اور یہ شک اس وقت کے گزرنے کہ بعد ہو تو زکوٰۃ کا ادانہ کرنابعید نہیں ہے چاہے یہ شک اسی سال کی زکوٰۃ کے متعلق ہو یا گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ کے متعلق لیکن اگر اس کی عادت یہ رہی ہو کی زکوٰۃ دینے میں دیر کرتا ہو تو اگر شک زکوٰۃ کے ادا کرنے میں ہو تو زکوٰۃ دے ہے یہ شک اسی سال کی زکوٰۃ کے متعلق ہو یا گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ کے متعلق۔
مسئلہ۲۱۳۴۔محتاج، زکوٰۃ،کی مقدار سے کم پر مصلحت نہیں کرسکتا اور نہ ہی زکوٰۃ میں کوئی چیز اس کی معمولی قیمت سے زیادہ گراں قبول کر سکتا ہے اور یہ بھی نہیں کر سکتا کہ زکوٰۃ کو مالک سے لے کر پھر اسے بخش دے لیکن اگر کسی شخص کو بہت زیادہ زکوٰۃ دینی ہو اور وہ محتاج ہو گیا ہو اور وہ واجب الادا زکوٰۃ نہ دے سکتا ہو اور یہ امید بھی نہ ہو کہ وہ پھرصاحب حیثیت ہو جائے گا اور اگروہ توبہ کرنا چاہے توحاکم شرع اس سے زکوٰۃ لے کر اسی کو بخش سکتا ہے ،بہتر یہ ہے کہ زکوٰۃ اس سے لے کر پھر اسے قرض کے طور پر دیدے اور اسے وکیل بنا دے کہ جتنا بھی اسے ادا کرنے کی قدرت ہو تی جائے حاجت مندوں کو دیتا جائے گا۔
مسئلہ۲۱۳۵۔کوئی بھی شخص زکوٰۃ (سبیل اللہ کے حصہ )سے قرآن یا دینی کتابیں یادعاؤں کی کتاب خرید کر وقف کر سکتا ہے اگر چہ اپنی اولاد پر وقف کرے یا ان لوگوں کے لئے جن کے اخراجات اس پر واجب ہیں اور اس وقف کا متولی خود بھی بن سکتا ہے اور اپنی اولاد کو بھی بنا سکتا ہے ۔
مسئلہ۲۱۳۶۔کوئی بھی شخص زکوٰۃ سے کوئی جائداد خرید کر اپنی اولاد یا ان لوگوں پر وقف نہیں کرسکتا جن کے اخراجات اس پر واجب ہوں ،کہ وہ اس وقف کی آمدنی سے اپنے اخراجات پورا کریں ۔
مسئلہ ۲۱۳۷۔کوئی محتاج حج وزیارات پر جانے کے لئے یا اسی قسم کے دوسرے کاموں کے لئے زکوٰۃ لے سکتا ہے لیکن اگر اس نے اپنے سال بھر کے اخراجات کی مقدار کے برابرزکوٰۃ لی ہو تو احتیاط یہ ہے کہ زیارت یا اس طرح کے دوسرے کاموں کے لئے زکوٰۃ نہیں لے ۔
مسئلہ ۲۱۳۸۔اگر کوئی مالک کسی محتاج کو اپنا مال زکوٰۃمستحقین میں دینے کے لئے وکیل کرے تو اگر اس محتاج کو گمان ہو کہ مالک کا ارادہ یہ تھا کہ خود اس زکوٰۃ سے کچھ نہ لے تو اس صورت میں محتاج اس زکوٰۃ سے کچھ نہ لے گا اور اگر یہ یقین ہو کہ مالک کا ارادہ یہ نہیں تھا تو وہ بھی اس میں سے لے سکتا ہے ۔
مسئلہ۲۱۳۹۔اگر کوئی محتاج ،زکوٰۃ میں اونٹ،گائے،بھیڑ،سونا چاندی حاصل کرے تو اگر وہ شرطیں جو زکوٰۃ کے واجب ہو نے کے سلسلہ میں بیان کی گئی ہیں ان میں جمع ہو جائیںتو محتاج بھی ان چیزوں کی زکوٰۃ ادا کرے گا ۔
مسئلہ۲۱۴۰۔اگر دو آدمی کسی ایسے مال میں جس کی زکوٰۃ واجب ہو چکی ہو شریک ہوں اور ان میں سے ایک شریک اپنے حصہ کی زکوٰۃ دیدے اور بعد میں دونوں مال کو تقسیم کر لیں تو جس شخص نے زکوٰۃ ادا کی ہے اگر اسے معلوم ہوجائے کہ اس کے دوسرے شریک نے اپنے حصہ کی زکوٰۃ نہیں دی ہے تو اس کے لئے اپنے حصہ کے مال میں تصرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ۲۱۴۱۔اگر کسی شخص پر خمس اور زکوٰۃ واجب الادا ہے اور کفارہ، نذراور اسی قسم کی دوسری چیزیں بھی واجب ہیں اور وہ مقروض بھی ہے اور وہ ان سب کی آدائیگی کی قدرت بھی نہیں رکھتا ہے تو جس مال پر خمس یا زکوٰۃ واجب ہو چکا ہے اگر موجود ہے تو پہلے اس کا خمس اور زکوٰۃ ادا کرے اور اگر وہ مال موجود نہ رہا ہو تو اس کو اختیار ہے چاہے تو خمس یا زکوٰۃ ادا کرے یا کفارہ،نذر اور قرض وغیرہ ادا کرے ۔
مسئلہ ۲۱۴۲۔ایسا شخص جس کے ذمہ خمس یا زکوٰۃ واجب الادا ہو ،اور نذر یا اسی قسم کی دوسری چیزیں بھی اس پر واجب ہوں اور قرض بھی رکھتا ہو اور اسی حال میں مر جائے اور اس کا مال ان تمام چیزوں کی آدائیگی کے لئے کافی نہ ہو تو اس صورت میں وہ مال جس پر خمس یا زکوٰۃ واجب ہو چکی ہو اگر موجود ہو تو پہلے خمس اور زکوٰۃ ادا کرنا چاہیے اور پھر بقیہ مال کو دوسری چیزوں پر جو اس شخص پر واجب تھیں تقسیم کر دینی چاہیے اور اگر وہ مال جس کا خمس اور زکوٰۃواجب ہو چکا ہے باقی نہ رہا ہو تو پھر اس مرنے والے کے تمام مال کو خمس،زکوٰۃ،قرض،نذر اور اسی قسم کی دوسری چیزوں پر تقسیم کر دینا چاہیے مثلا یہ کہ اس شخص پر ۴۰روپیہ خمس واجب ہے اور ۲۰ روپیہ کای کا قرض ہے اور اس کا کل مال ۳۰ روپیہ ہے تو بیس روپیہ خمس میں اور ۱۰ روپیہ قرض میں ادا کرنا چاہیے۔
مسئلہ۲۱۴۳۔ایسا شخص کہ جو تحصیل علم میں مشغول ہو اور اگر تحصٰل علم نہ کرے تو وہ اپنی روزی کما سکتا ہو تو جو علم وہ حاصل کر رہا ہے اگر واجب یا مستحب ہو تو اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے اور اگر اس علم کا حاصل کرنا واجب یا مستحب نہ ہو تو اس صورت میں اسے زکوٰۃ دینے میں اشکال ہے۔

زکوٰۃ فطرۃ کے احکام
مسئلہ ۲۱۴۴۔ایسا شخص جو عید کی رات غروب کے وقت بالغ ،عاقل ،ہوشیار ہو اور محتاج یا کسی کا غلام نہ ہو تو اسے خود اپنے لئے اور ان لوگوں کے لئے جن کا کھانا پینا اس کے ساتھ ہے ہر فرد کے لئے ایک ساع جو تقریبا۳کیلوکے برابر ہو تا ہے گندم یا جویا کھجور یا کشمش یا چاول یا مکئی اور اسی قسم کی دوسری چیزیں مستحق کو دینی چاہییاور اگر ان میں سے کسی ایک کی قیمت دیدے تب بھی کافی ہے ۔
مسئلہ ۲۱۴۵۔ایسا شخص کہ جو اپنا اور اپنے اہل وعیال کے سال بھر کے اخراجات نہ رکھتا ہو اور کوئی ایسا پیشہ بھی نہ رکھتا ہو کہ کہ جس سے اپنے اور اپنے اہل وعیال کے سال بھر کے اخراجات پورے کر سکے تو وہ شخص محتاج ہے اور اس پر زکوٰۃفطرۃاداکرنی واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ۲۱۴۶۔اگر کسی شخص کے یہاں عید کی رات غروب کے وقت چند لوگوں کا شمار اس کے ساتھ کھانا کھانے والوں میں ہو تو اس شخص کو ان لوگوں کی فطرۃ ادا کرنی چاہیے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ،مسلمان ہوں یاکافر،ان کے اخراجات اس شخص پر واجب ہو یا واجب نہ ہو ،خود اس کے شہر میں ہو ں یا کسی دوسرے شہر میں۔
مسئلہ ۲۱۴۷۔اگر کوئی شخص کسی کا عیال ہے جو کسی دوسرے شہر میں ہے اور وہ اسی شخص کو وکیل بنا دے کہ میرے مال سے اپنا فطرۃ نکال دو اور اگر اس بات کا اطمینا ن ہو جائے کہ وہ شخص فطرۃ نکال دے گا تو پھر لازم نہیں ہے کہ خود بھی اس کا فطر ۃ نکالے ۔
مسئلہ ۲۱۴۸۔عید کی رات غروب سے پہلے صاحب خانہ کی رضامندی سے جو مہمان وارد ہو اور اس کا کھانا میزبان کے ساتھ ہو تو اس کا فطر ۃ میزبان پر واجب ہے ۔
مسئلہ ۲۱۴۹۔ایسا مہمان جو کہ عید کی رات غروب سے پہلے صاحب خانہ کی رضامندی کے بغیر وارد ہوا ہو اور وہ کچھ دیر تک اس کے پاس رہے تو بنا بر احتیاط اس کا فطر ۃ صاحب خانہ پر واجب ہے اور اسی طرح اس شخص کے فطرہ کابھی حکم ہے کہ جس نے کسی شخص کو مجبور کر کے اپنا خرچ لیا ہو ۔
مسئلہ ۲۱۵۰۔ایسے مہمان کا فطر ہ جو عید فطر کی رات غروب کے بعد وارد ہو ا ہو صاحب خانہ پر واجب نہیں ہے اگر چہ صاحب خانہ نے غروب سے پہلے دعوت دی ہو اور وہ مہمان صاحب خانہ کے یہاں افطار بھی کرے۔
مسئلہ۲۱۵۱۔ اگرکوئی شخص عید کی رات غروب کے وقت دیوانہ یا بیہوش ہو جائے تو اس پر فطرہ واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ ۲۱۵۲۔اگر غروب سے پہلے یا غروب ہوتے ہی بچہ بالغ ہو جائے یا دیوانہ عاقل ہو جائے،یا محتاج پیسے والا ہو جائے اور زکوٰۃ فطرہ کی دوسری شرطیں بھی موجود ہوں تو اسے زکوٰۃ فطرہ ادا کرنی چاہیے ۔
مسئلہ۲۱۵۳۔اگر کسی شخص پر عید کی رات غروب کے وقت فطرہ واجب نہ ہواور عید کے دن ظہر کے پیشتر اس پر فطرہ واجب ہو نے کی شرائط پوری ہو جائیں تو اس کے لئے مستحب ہے کہ زکوٰۃفطرہ ادا کرے۔
مسئلہ۲۱۵۴۔وہ کافر جو عید کی رات غروب کے بعد مسلمان ہو جائے تو اس پر فطرہ واجب نہیں ہے لیکن وہ مسلمان کہ جو پہلے شیعہ نہ تھا اور چاند دیکھنے کے بعد شیعہ ہو جائے تو اسے زکوٰۃ فطرہ ادا کرنی چاہیئے ۔
مسئلہ ۲۱۵۵۔اگر کوئی شخص صرف ایک صاع (یعنی تقریباً تین کیلو)کے برابر گندم یا کوئی اور چیز رکھتا ہو تو مستحب ہے کہ اسے زکوٰۃ فطرہ میں دیدے اور اگر عیال دار ہو اور انکا فطرہ بھی نکالنا چاہتا ہو تو اس ایک صاع کو فطرہ کی نیت سے اپنے عیال میں سے کسی ایک کو دیدے اور پھر وہ شخص بھی اسی ارادہ سے دوسرے فرد کو دیدے اور اسی طرح یہ سلسلہ آخری فرد تک پہنچ جائے ،آخری فرد کے لئے بہتر ہے کہ جو کچھ اس نے فطرہ میں لیا ہے ایسے شخص کو دے جو ان میں سے نہ ہو اور اگر ان میں سے کوئی ایک بچہ ہو تو بچہ کی جانب سے اس کا ولی لے گا لیکن اس وقت احتیاط مستحب اس میں ہے کہ بچہ کی جانب سے جو فطرہ حاصل کیا ہے وہ کسی اور کو نہ دے۔
مسئلہ ۲۱۵۶۔اگر عید کی رات غروب کے بعد بچہ کی ولادت ہو جائے یا کسی اور شخص کا اس کا ساتھ کھانا کھانے والوں میں شمار ہو جائے تو اسکا فطرہ واجب نہیں ہے اگر چہ مستحب یہ ہے کہ غروب کے بعد اور عید کے دن ظہر سے پہلے جو لوگ اس کے ساتھ کھانا کھانے والوں میںشمار ہوں ان کا فطرہ ادا کرے ۔
مسئلہ۲۱۵۷۔اگر کوئی شخص کسی کے پاس کھانا کھاتا تھا لیکن غروب سے پہلے وہ کسی دوسرے شخص کے یہاں کھانا کھانے والوں میںشامل ہو جائے تو اسکا فطرہ اس دوسرے شخص پر واجب ہے مثلاًلڑکی اگر غروب سے پہلے شوہر کے گھر چلی جائے تو اسکے شوہر ہی کو اسکا فطرہ دینا چاہیئے ۔
مسئلہ۲۱۵۸۔ایسا شخص کہ جسکا فطرہ کسی دوسرے پر واجب ہے اسکے لئے خود اپنا فطرہ دینا واجب نہیں ہے
مسئلہ۲۱۵۹۔اگر کسی شخص کا فطرہ کسی دوسرے شخص پر واجب ہو اور وہ اسکا فطرہ نہ دے تو خود اس شخص پر اپنا فطرہ دینا واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ۲۱۶۰۔اگر کسی شخص کا فطرہ کسی دوسرے پر واجب ہے اور وہ شخص اپنا فطرہ خود نکال دے تو جس شخص پر اسکا فطرہ واجب ہے اس پر سے ساقط ہو جائے گا ۔
مسئلہ۲۱۶۱۔ایسی عورت کہ جسکا شوہر اس کے خراجات نہ دیتا ہو اور وہ کسی اور کے یہاں کھانا کھاتی ہو تو جس شخص کے یہاں کھانا کھاتی ہو اسی پر عورت کا فطرہ واجب ہے اور اگر کسی دوسرے کے یہاں نہیں کھاتی ہے تو اگر محتاج نہ ہو تو وہ خود اپنا فطرہ ادا کرے ۔
مسئلہ۲۱۶۲۔و ہ شخص کہ جو سید نہ ہو وہ سید کو اپنا فطرہ نہیں دے گا حتیٰ کہ اگر کوئی سید اس کے یہاں کھانا کھاتا ہے اور اسکا فطرہ نکالا ہو تو وہ فطرہ بھی کسی سید کو نہیں دے سکتا ۔
مسئلہ۲۱۶۳۔اس بچہ کا فطر ہ جو اپنی ماں یا دایہ کا دودھ پیتا ہے اس شخص پر واجب ہو گا کہ جو اس کی ماں یا دایہ کا خرچ اٹھا تا ہے لیکن اگر ماں یا اپنے اخراجات خود بچہ کے مال سے حاصل کرتی ہوں رو پھر اس بچہ کا فطرہ کسی شخص پر واجب نہ ہو گا ۔
مسئلہ۲۱۶۴۔اگر کوئی شخص اپنے عیال کے اخراجات مال حرام سے دیتا ہو تو اسے چاہیئے کہ ان کا فطرہ مال حلال سے دے ۔
مسئلہ۲۱۶۵۔اگر کوئی شخص کسی کو مزدوری پر کام کے لئے رکھے اور شرط کرے کہ تمام اخراجات کو پورا کرے گاتو اسے اس مزدور کا فطرہ بھی دینا چاہیئے لیکن اگر یہ شرط کرے کہ اس کے اخراجات کی ایک خاص مقدار دے گا مثلاًیہ کہ اس کے خراجات کے لئے کچھ رقم دے گا تو پھر ا س پر اس مزدور کا فطرہ دینا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ۲۱۶۶۔اگر کوئی شخص عید کی رات غروب کے بعد مر جائے تو اسکا اور اس کے عیال کا فطرہ اس کے مال سے ادا کرنا چاہیئے لیکن اگر غروب سے پہلے مر جائے تو پھر اسکا اور اس کے عیال کا فطرہ اس کے مال سے دینا واجب نہیں ہے ۔

زکوٰۃفطرہ کا مصرف
مسئلہ۲۱۶۷۔اگر زکوٰۃ فطرہ ان آٹھ مصارف میں سے کسی ایک مصرف میں لا یا جائے جو پہلے زکوٰۃ مال کے لئے بیان ہوئے ہیں تو یہ کا فی ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ زکوٰۃ فطرہ صرف شیعہ فقراء کو دی جائے۔
مسئلہ۲۱۶۸۔اگر کوئی شیعہ بچہ محتاج ہو تو فطرہ اس پر خرچ کیا جا سکتا ہے یا اس کے ولی کو دے کر بچہ کی ملکیت بنا دے۔
مسئلہ ۲۱۶۹۔جس محتاج کو فطرہ دیا جائے اس کا عادل ہونا ضروری نہیں ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ شراب خوریا اس شخص کو کہ جو کھلم کھلا گناہ کبیرہ کرتا ہو فطرہ نہ دیا جائے ۔
مسئلہ ۲۱۷۰۔جو شخص فطرہ کو گناہ میں صرف کرتا ہو اسے فطرہ نہیں دینا چاہیئے ۔
مسئلہ ۲۱۷۱۔احتیاط واجب ہے کہ ایک محتاج کو ایک صاع (یعنی تقریباًتین کیلو)سے کم فطرہ نہ دیا جائے ۔ہاں اس مقدار سے زیادہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۲۱۷۲۔اگر کسی جنس کی قیمت اس کی معمولی قیمت سے دو گنی ہو مثلاً(اعلیٰ)قسم کے گندم کی قیمت معمولی گندم کی قیمت سے دوگنی ہو تو اس (اعلیٰ قسم)سے نصف صاع کی زکوٰۃ فطرہ نکال دینا کا فی نہیں ہے اور اگر فطرہ کی قیمت کی نیت سے نکالے تب بھی احتیاط کے خلاف ہے ۔
مسئلہ۲۱۷۳۔کوئی شخص زکوٰۃ فطرہ میں نصف صاع ایک جنس مثلا گندم سے اور دوسرا نصف صاع دوسر جنس مثلا جو سے نہیںنکال سکتااور اگر دونوں جنسوں سے فطر ہ کی قیمت کی نیت سے نکالے تب بھی خلاف احتیاط ہے ۔
مسئلہ ۲۱۷۴۔مستحب ہے کہ زکوٰۃ دینے میں اپنے رشتہ داروں اور محتاجوں کو دوسروں پر مقد م کرے اس کے بعد پڑوسیوں کے محتاجوں کو اور اس کے بعد اہل علم محتاجوں کو لیکن اگر دوسرے محتاج کسی لحاظ سے برتری رکھتے ہوں تو مستحب ہے کہ انہیں ترجیح دی جائے۔
مسئلہ ۲۱۷۵۔اگر کوئی شخص اس خیال سے کہ ایک محتاج ہے اسے فطرہ دیدے اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ محتاج نہیں تھا تو جو مال اس کو دیا ہے اگر بعینہ موجود ہو تو اس مال کو اس سے واپس لے کر مستحق کو دے سکتا ہے اور اگر واپس نہ لے سکے تو اپنے مال سے دوبارہ فطرہ ادا کرے اور مال باقی نہ ہو تو اس صورت میں اگر فطرہ لینے والے کو علم تھا کہ جو کچھ اس نے لیا ہے وہ مال فطرہ ہے تو اس کا معاوضہ دے ورنہ بصورت دیگر اس پر معاوضہ دینا واجب نہ ہو گا اور فطرہ دینے والے کو دوبارہ فطرہ دینا ہو گا ۔
مسئلہ ۲۱۷۶۔اگر وکئی شخص اپنے آپ کو محتاج بتائے تو صرف اس کے کہنے پر اس کو فطرہ نہیں دیا جائے گا مگر یہ کہ اطمینان ہو جائے یا فطرہ دینے والے شخص کو علم ہو کہ وہ پہلے محتاج رہا ہے ۔

زکوٰۃکے متفرق مسائل
مسئلہ۲۱۷۷۔انسان کو چاہیے کہ زکوٰۃ فطرہ قصدقربت یعنی اللہ تعالیٰکے حکم کی بجاآوری کی نیت سے نکالے اور جس وقت زکوٰۃ فطرہ ادا کرے تو فطرہ دینے کی نیت کرے ۔
مسئلہ ۲۱۷۸۔اگر ماہ رمضان سے پہلے ہی فطرہ دیدے تو یہ صحیح نہیں ہے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ ماہ رمضان میں بھی فطرہ نہ دے لیکن اگر ماہ رمضان سے پہلے یا ماہ رمضان میں کسی محتاج کو قرض دیدے اور فطرہ واجب ہو نے کے بعد اپنے قرض کو فطرہ میںمحسوب کر لے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
مسئلہ ۲۱۷۹۔گندم یا کوئی دوسری چیز جسے فطرہ میں دیناچاہیے اسے خالص ہو نا چاہیے اور اس میں کسی دوسری جنس یا خاک وغیرہ کی ملاوٹ نہیں ہو نی چاہیے لیکن اگر اس جنس میں کوئی اور چیز مخلوط ہو اور اس جنس کی خالص مقدار سوا تین سیر تک پہنچ جائے یا ملاوٹ اتنی کم مقدار میں ہو کہ قابل توجہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیںہے ۔
مسئلہ ۲۱۸۰۔اگر فطر ہ کسی عیب دار چیز سے نکالے تو کافی نہیں ہے ۔
مسئلہ ۲۱۸۱۔جو شخص کئی آدمیوں کا فطرہ نکا لے تو اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ پورا فطرہ ایک ہی جنس سے اداکرے ۔اگر کسی کا فطرہ گندم سے اور کسی کا جو سے نکالے تو کافی ہوگا ۔
مسئلہ ۲۱۸۲۔جو شخص نماز عید پڑھنا چاہتا ہو بنا بر احتیاط مستحب نماز عید سے پیشتر فطرہ ادا کردے اور اگر عید کی نماز نہیں پڑھنا چاہتا تو ظہر تک تاخیر کر سکتا ہے ۔
مسئلہ ۲۱۸۳۔اگر اپنے مال سے کچھ مقدار فطرہ کی نیت سے علیحدہ کر دے اور عید کی ظہر تک فطرہ کسی مستحق کو نہ دے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ جب اس مال کو مستحق کو دینے لگے تو فطرہ کی نیت کرے۔
مسئلہ۲۱۸۴۔اس وقت جب زکوٰۃ فطرہ واجب ہو تی ہے کوئی شخص فطرہ نہ نکالے اور نہ ہی اپنے مال سے علیحدہ کرے تو بعد میں ادااور قضاء کی نیت کے بغیرفطرہ نکالے۔
مسئلہ ۲۱۸۵۔اگر کوئی شخص اپنے مال سے فطر ہ علیحدہ کر کے رکھ دے تو پھر وہ حق نہیں رکھتا کہ اس مال کو اپنے مصرف میں لائے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا مال رکھ دے ۔
مسئلہ۲۱۸۶۔اگر کسی شخص کے پاس کو ئی ایسا مال ہو کہ جس کی قیمت مقدار فطرہ سے زیادہ ہو اور اگر وہ اسوقت فطرہ نہ نکالے اور نیت کر لے کہ اس مال کی ایک مقدار فطرہ کے لئے مخصوص ہے تو اس میںکوئی حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ۲۱۸۷۔وہ مال کہ جو فطرہ کے لئے علیحدہ کر دیا گیا ہو ضائع ہو جائے ،تو اگر فطر دینے والے کے لئے محتاج تک پہنچنا ممکن تھا مگر اس نے تاخیر کی تو وہ فطر کا عوض دے گا اور گار محتاج تک پہنچنا ممکن نہ تھا تو پھر وہ ضامن نہ ہوگا۔
مسئلہ ۲۱۸۸۔اگر فطرہ دینے والے کے شہر میں مستحق موجود ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ مال دوسری جگہ نہ لے جائے اور اگر کسی دوسرہی جگہ لے جائے اور مال تلف ہو جائے تو اس کا معاوضہ دینا چاہیے مگر یہ کہ حاکم شرع کی اجازت سے لے جارہا ہو۔

احکام حج
مسئلہ۲۱۸۹۔ حجۃ الاسلام :جو ہر مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ واجب ہو تا ہے اس کا بجا لانا ضروری ہو تا ہے اور جس سال انسا ن صاحب استطاعت ہو جائے اسے تاخیر نہیں کرنی چاہیے ،احکام اور اعمال حج کی مکمل تفصیل مناسک حج کی کتاب میں بیان کی گئی ہے یہاں مختصرا ًان کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
مسئلہ ۲۱۹۰۔چار شرائط کے ساتھ انسان پر حجۃ الاسلام واجب ہو تا ہے ۔(۱)بالغ ہو ،لہذا بچے پر واجب نہیں البتہ اگر اس کا ولی اجازت دیدے تو مستحب ہے ۔(۲)عاقل ہو ،لہٰذا دیوانے پر واجب نہیں ہے ۔(۳)آزاد ہو ،لہذا غلا م پر واجب نہیں البتہ اگر اس کا آقااجازت دیدے تو مستحب ہے ۔(۴)مستطیع ہو ،چند چیزیں جس میں پائی جاتی ہوں وہ مستطیع ہو تا ہے ، پہلے یہ کہ راستہ کا خرچ اور سواری رکھتا ہو اور اتنا مال مہیا ہو کہ جس سے سواری کا انتظام ہو سکے ، دوسرے یہ کہ صحت وسلامتی مزاج ایسی ہو کہ مکہ جاکر اعمال حج بجا لا سکتا ہو ۔ تیسرے یہ کہ راستے میں سفر جاری رکھنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ،چوتھے یہ کہ اعمال حج بجا لانے کے لئے وقت بھی رکھتا ہو ۔
مسئلہ ۲۱۹۱۔مالی لحاظ سے غیر مستطیع کا حج بجا لانا مستحب ہے لیکن حجۃ الاسلام شمار نہیں ہوگا ۔
مسئلہ ۲۱۹۲ ۔جو شخص شرائط حج کے نہ پائے جانے کے باوجودحج کرے اور بعد میں حج کے شرائط اس میں جمع ہو جائیں تو اسے دوبارہ حج کرنا چاہیے پہلا حج ’’حجۃ الاسلام ‘‘کے طور پر کافی نہیں ہو گا ۔
مسئلہ ۲۱۹۳۔’’حج بذلی ‘‘یہ ہو تا ہے کہ کسی شخص کے پاس زاد راہ اور سواری وغیرہ کا بند وبست نہ ہو اور کوئی دوسرا شخص اسے کہے ’’جب تک تم حج کے سفر میں ہو ،میں تمہارا اور تمہاری اہل وعیال کے اخراجات اد ا کرونگا ‘‘تو اس صورت میں اس شخص پر حج واجب ہو جائے گا،لیکن اگر حج نہ کرے تو زندگی بھر اس پر فرض رہے گا اور جس طرح بھی ہو چاہے اپنے آپ کو زحمت میں ڈال کر حج کرنا پڑے،حج کرے ۔
مسئلہ ۲۱۹۴۔جو شخص پہلے مستطیع تھا اور حج پر نہ گیا اسے چاہیے کہ جس طرح بھی ہو وہ حج ضرور کرے خواہ بعد میں مستطیع بھی نہ رہاہو۔
مسئلہ ۲۱۹۵۔جو شخص مستطیع نہیں ہے کسی دوسرے کی طرف سے اجیر بن کر حج کر سکتا ہے ،اگر بعد میں خود مستطیع ہو جائے تو اسے اپنے لئے دوبارہ حج کرنا چاہیے۔
مسئلہ ۲۱۹۶۔ضروری نہیں ہے کہ انسان حج کے لئے گھر ،سواری ،گھر کا سامان اور اس جیسی چیزیں بیچ کر مسطیع ہواورحج کرے ۔
مسئلہ ۲۱۹۷۔اگر حج کرنا کسی کے لئے نقصان دہ ہو تو واجب نہیں ہو گا اور اگر حج کرنا کسی واجب کے ترک یا کسی حرام کے ارتکاب پر موقوف ہو جو چیز شارع کی نظر میں زیادہ اہمیت رکھتی ہے اسے مقدم جانے ۔
مسئلہ ۲۱۹۸۔ اگر کسی کے پاس حج جتنا مال ہے لیکن بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے خود حج نہیں کر سکتا تو اسے چاہیے کہ اپنی زندگی میں کسی کو اجیر بنا کر حج پر بھیجے ۔
مسئلہ۲۱۹۹۔اگر کسی شخص پر حج واجب ہو چکا تھا اور وہ اسے بجا لانے سے قبل ہی فوت ہو گیا تو حج کی اجرت کو اس کے اصل مال سے نکالا جائے گا اور اس کے لئے کسی کو نائب بنا یا جائے گا ۔
مسئلہ۲۲۰۰۔ حجۃ الاسلام میں اولاد کے لئے والدین کی اور زوجہ کے لئے شوہر کی اجازت شرط نہیں ہے ۔
مسئلہ ۲۲۰۱۔اگر مرنے والے کے لئے ’’میقات کاحج ‘‘کہ جس کے معنی بعد میں آئیں گے دیدیںتو کافی ہے اور ضروری نہیں ہے کہ اس کے شہر ہی سے کسی کو نائب بنا ئیں یہی حکم اس زندہ کا بھی ہے جو خود حج نہیں کر سکتا ۔
مسئلہ۲۲۰۲۔اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو کہ اس کی طرف سے حج کرایا جائے اگر حج کے اخراجات تہائی مال سے زیادہ نہ ہوں یا وارث اس کی اجازت دیدیں تو اس کی طرف سے حج کرا یا جائے اور یہ اس صورت میں ہے جب حج اس پر واجب قرار نہ پاچکا ہو ، وگرنہ ہرصورت میں حج کے اخراجات کا اس کے مال سے نکالنا ضروری ہوگا ۔
مسئلہ ۲۲۰۳۔اگر کسی نے حج کرنے کی نذر کی ہو یا عہد کیا ہو خواہ وہ اس سے پہلے حج کر بھی چکا ہو پھر بھی اسے حج پر جانا چاہیے۔
مسئلہ۲۲۰۴۔اگر کوئی شخص مستطیع ہونے سے پہلے نذر کرے کہ عرفہ(۹!ذی الحجہ )کے دن کربلا کی زیارت کرے گا اور بعد میں مستطیع ہو جائے تو اس کی نذر باطل ہو جائیگی اور اس کو حج کرناہو گا ۔
مسئلہ ۲۲۰۵۔مرد اور عورت ایک دوسرے کے نائب ہو کر حج کر سکتے ہیں لیکن وہ احکام جو مرد و عورت کے مختلف احکام میں سے ہیں ان میں ہر ایک اپنے وظیفے پر عمل کرے۔
مسئلہ۲۲۰۶۔اگر انسان مستحبی حج ،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا امام علیہ السلام یا کسی مردہ یا زندہ کی طرف سے نائب ہو کر حج کرے تو جائز ہے اور اسے بھی پورے حج کا ثواب ملے گا ۔
مسئلہ۲۲۰۷۔انسان کا ہر سال حج کو جا نا مستحب ہے اور اس کا ثواب حج کی مقدار صدقہ دینے سے زیادہ ہے
مسئلہ ۲۲۰۸۔ جس شخص کا وظیفہ حج افراد کر نا ہے وہ عمرہ کے بغیر حج یا حج کے بغیر عمرہ بجا لا سکتا ہے تو جو کچھ بھی وہ بجا لا سکتا ہے واجب ہے ۔
مسئلہ۲۲۰۹۔اگر عورت کو احرام سے پہلے حیض آجائے اور وہ جانتی ہو کہ عرفات میں وقف کرنے سے پہلے پاک نہیں ہو سکتی تو بنابر احتیاط واجب حج افراد کی نیت سے احرام باندھے ،لیکن اگر اسے معلوم نہ ہو کہ آیا وہ عرفات میں وقوف سے پہلے پاک ہو جائے گی یا نہیں تو اسے اختیار ہے کہ وہ حج افراد کی نیت سے احرام باندھے اور ھج کے بعد عمرہ بجا لائے یا یہ کہ وہ عمرہ تمتع کی نیت سے احرام باندھے اور اتنی دیر تک صبر کرے کہ صرف تقصیر اور سعی کا وقت باقی رہ جائے تو اسے چاہیئے کہ اس وقت سعی کرے اور تقصیر کے ذریعے احرام سے خارج ہو جائے اور حج کو درک کر ے اور پاک ہونے کے بعد طواف عمرہ اور دو رکعت نماز طواف طواف حج قضا سے پہلے انجام دے ۔
مسئلہ۲۲۱۰جب شیعہ اور سنی کے درمیان چاند میں اختلاف ہو جائے ،اگر شیعہ دستور کے مطابق اعمال بجا لانا ممکن نہ ہو اور سنی طریقہ سے بجا لائے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے اور وہ حج صحیح ہے ۔

حج کی قسمیں
مسئلہ ۲۲۱۱۔ حج کی تین قسمیں ہیں (۱)حج تمتع(۲)حج قران (۳)حج افراد
مسئلہ ۲۲۱۲۔’’حج تمتع ان لوگوں پر فرض ہوتا ہے جن کا وطن مکہ مکرمہ سے ۱۶ فرسخ شرعی یا اس سے زیادہ دور ہو ’’حج قران‘‘یا ’’حج افراد‘‘ان لوگوں پر فرض ہوتا ہے جن کا وطن مکہ مکرمہ یا اس کے اطراف میں ۱۶ !فرسخ شرعی سے کم کے علاقہ میں ہو ۔
مسئلہ۲۲۱۳۔جو شخص ’’حج تمتع‘‘بجا لا رہا ہے وہ عمرہ کو حج سے پہلے اور جو ’’حج قران ‘‘یا ’’افراد ‘‘بجا لا رہا ہے وہ عمرہ کو حج کے بعد بجا لائے گا ۔’’حج قران ‘‘اور ’’حج افراد ‘‘میں یہ فرق ہے کہ ’’حج قران ‘‘میں قربانی کے ساتھ احرام باندھے گا ۔
مسئلہ ۲۲۱۴۔حج تمتع دو عمل سے تشکیل پا تا ہے:
(۱)عمرہ تمتع (۲)حج تمتع۔

عمرہ تمتع
مسئلہ ۲۲۱۵۔عمرہ تمتع کے پانچ اعمال ہیں (۱)احرام(۲)طواف خانۂخدا (۳)مقام ابراہیم علیہ السلام کے قریب یا اس کے پیچھے دو رکعت نماز طواف(۴)’’صفا‘‘و ’’مروہ‘‘کے درمیان سعی(۵) تقصیر یعنی سر یا داڑھییا ناخن وغیرہ کے کچھ بال کاٹنا۔
حج تمتع
مسئلہ۲۲۱۶۔حج تمتع میں تیرہ اعمال ہیں (ا)احرام (۲)عرفات میں ٹھہرنا(۳)مشعر الحرام میں ٹھہرنا(۴)منیٰ میںجمرۂعقبہ کو پتھر مارنا (۵)منیٰ میں قربانی کا ذبح کرنا (۶)منیٰ میں سر کا بال منڈوانا یا کچھ بال کٹوا نا (۷)طواف زیارت (۸)دو رکعت نماز طواف (۹)صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا(۱۰)طواف نسائ(۱۱)دورکعت نماز طواف نسائ(۱۲)گیارہویں بارہویںرا ت کو منیٰ میں رکنا کبھی کبھی تیرہویں کی رات کو بھی رہنا ضروری ہو تا ہے (۱۳)تینوں جمروںکو (جمرہ اولیٰ،جمرہ وسطیٰ اور جمرہ عقبیٰ)گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو پتھر مارنا ،اگر تیرہویں کی رات میں منیٰ میں رکے تو تیرہویں تاریخ کو بھی مارے۔
عمرہ تمتع کے اعمال
۱۔احرام
مسئلہ ۲۲۱۷۔عمرہ تمتع بجا لانے کا پہلا عمل احرام ہے اور اس کے بجا لانے کے تین مہینے ہیں (۱)شوال(۲)ذی القعدہ(۳)ذی الحجہ

میقات
مسئلہ ۲۲۱۸۔احرام باندھنے کی پانچ جگہیں ہیں جنہیں’’ میقات‘‘ کہتے ہیں (۱)مسجد شجرہ یہ اہل مدینہ کا میقات ہے ۔(۲)’’وادی عتیق‘‘یہ ان لوگوں کا میقات ہے جو عراق کے راستے سے آتے ہیں (۳)’’قرن المنازل‘‘یہ ان لوگوں کا میقات ہے جو طائف کے راستے سے آتے ہیں (۴)’’یلملم‘‘یہ ان لوگوں کا میقات ہے جو یمن کی راہ سے آتے ہیں (۵)’’جحفہ ‘‘ یہ ان لوگوں کامیقات ہے جو مصر یا شام کے راستے آتے ہیں ۔
مسئلہ ۲۲۱۹۔جو شخص جس میقات سے گذر رہا ہے وہ اسی میقات سے احرام باندھے ۔
احرام کے واجبات
مسئلہ۲۲۲۰۔احرام میں تین چیزیں واجب ہیں (۱)نیت۔ اور وہ اس طرح کرے کہ ’’میں عمرہ تمتع‘‘کے لئے احرام باندھتا /باندھتی ہوں ’’قربۃًالی اللہ‘‘اور احرام کا معنی یہ ہے کہ ان چند مخصوص چیزوں کے ترک کر دینے کو اپنے اوپر لازم قرار دینا ، جن کا بعد میں ذکر ہو گا ،(۲)چار تلبیہ کا کہنا اور وہ یہ ہیں۔۔’’لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک‘‘(۳)احرام کے دو لباسوں کا پہننا جن میں سے ایک کو لنگ کی طرح باندھے اور دوسرے کو (چادر کی طرح)دوش پر ڈالیں یہ دونوں لباسنیت اور تلبیہ کہنے سے پہلے پہنے اور لباس احرام کا پاک ہو نا ضروری ہے انہیں ریشمی اور حرام گوشت جانور کے چمڑے سے ںنہیں ہونا چاہیئے اور نہ اس قد ر نازک ہوں کہ بدن اندر سے ظاہر ہو۔

جن چیزوں کا احرام میں ترک کرنا ضروری ہے
مسئلہ ۲۲۲۱۔احرام باندھنے والے پر مندرجہ ذیل چوبیس چیزوں کا ترک کر ناضروری ہے ۱۔ جنگلی جانور کا شکا رکرنایاشکار کرنے میں مدد کرنا ، شکا ر کا کھانا اور ذبح کرنا ، سوائے ان درندوں کے جن کے نقصان کا روکنا ضروری ہو تا ہے ۔
۲۔ عورتوںکے ساتھ میل ملاپ،چاہے جماع کی صورت میں ہو یا بوس وکنا ر اور شہوت کی نظر سے سے نگاہ کرنایا شہوت کی نگاہ سے ہاتھ لگانا ۔
۳۔عقد نکاح کرنا، چاہے اپنے لئے یا کسی دوسرے کے لئے ،عقد کے گواہ بننے اور گواہی دینے کا بھی یہی حکم ہے ۔
۴۔استمناء،یعنی کو ئی ایسا کام کرنا جس سے منی باہر آجائے چاہے ہاتھ سے ہو یا کسی اور ذریعہ سے ۔
۵۔خوشبوجیسے مشک،زعفران اور عود وغیرہ کا استعمال ، کھائی جائے یا ملی جائے یا سونگھی جائے یا کسی اور طریقہ سے استعمال کی جائے ،اسی طرح یہ بھی حرام ہے کہ جب محرم کو بدبو پہنچے تو وہ اپنی ناک بند کر لے ۔
۶۔مردوں کے لئے سلا ہو ا لباس پہننالیکن ہمیانی یا اس جیسی کوئی اور چیز جس میں رقم کی حفاظت کی جاتی ہے ’’یا فتق بند‘‘کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
۷۔ سرمہ لگانا ۔
۸۔آئینہ دیکھنا ۔
۹۔مردوں کے لئے چکمہ ،موزہ،یا اس جیسی کسی اور چیز کا استعمال جو پاؤں کے اوپر کے حصہ کو ڈھانپ لے لیکن اگراضطراراً اس کو پہنے تو اسے درمیان سے چیر دے۔
۱۰۔فسوق ،یعنی جھوٹ بولنا ، گالی دینا اور ایک دوسرے پر فخر کرنا ۔
۱۱۔جدال کرنا یعنی’’لا واللہ ‘‘یا ’’بلی واللہ ‘‘کے ساتھ قسم کھانا بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ ہر طرح کی قسم سے اجتناب کیا جائے ۔
۱۲۔ان جانوروں کا مار ڈالنا یا پھینک دینا جو بدن میں ہوں جیسے جوئیں یا کھٹمل یا ان جیسے کوئی اور جانور ،اسی طرح ان کو ایک جگہ سے پکڑ کر بدن کی دوسری جگہ تک منتقل نہیں کیا جاسکتا ۔
۱۳۔زینت کی غرض سے انگوٹھی پہننا ،
۱۴۔ کسی طرح کی بھی زینت کرنا چاہے وہ حنا(مہندی )ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو ۔
۱۵۔مردوں کا تمام سر یا اس کا کچھ حصہ یا کانوں کو چھپانا چاہے وہ مہندی کے ذریعہ ہو یا پانی میں ڈوبنے کے ذریعہ چاہے سر کا کچھ حصہ ہی چھپے حرام ہے ۔
۱۶۔ عورتوں کا اپنے چہرہ کو نقاب یا کسی اور چیز سے چھپانا ، لیکن اگر کوئی ایسی چیز سر سے آویزاں کرے جو ناک یا ٹھڈی کو چھپا دے لیکن احتیاطا ًچہرہ کو نہ لگے تو جائز ہے
۱۷۔بدن پر تیل لگانا ۔
۱۸۔بالوں کو اکھاڑنا چاہے سر سے ہو یا بدن کے کسی اور حصہ سے اگر چہ ایک ہی بال کیوں نہ ہو لیکن اگر وضو کرتے ہو ئے کوئی بال گر جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
۱۹۔بدن سے خون نکالنا ، اگر چہ مسواک کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوجب کہ پہلے سے جانتا ہو کہ مسواک کرے گا تو دانتوں سے خون نکل آئے گا ۔
۲۰۔دانت اکھاڑنا چاہے خون نہ بھی آئے ۔
۲۱۔ناخن کاٹنا ۔
۲۲۔مردوں کا اختیاری حالت میں سایہ میں چل کر کہیں جانا لیکن اگرکسی مکان میں سایہ کے نیچے ہو تو کوئی حرج نہیں ۔
۲۳۔حرم کے درخت یا گھاس کا کاٹنا ۔
۲۴۔اسلحہ جیسے تلوار،تیر ، وغیرہ کا لگانا ۔
احرام کے محرمات کا کفارہ
مسئلہ۲۲۲۲۔ مذکورہ چوبیس چیزیں جنہیں ’’محرمات ‘‘کہتے ہیں تین قسموں میں تقسیم ہو تی ہیں (۱)جو فقط حرام ہیں (۲)جو حرام بھی ہیں اور جن کا ارتکاب کفارہ کا سبب بھی ہو تا ہے (۳)جو نہ صرف حرام ہیں بلکہ حج کے باطل ہو کا سبب بھی ہیں اور مختصر طور پر بعض کفاروں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔
مسئلہ ۲۲۲۳۔۱۔شکا رکا کفارہ ، اس کی مکمل تفصیل رسالۂ مناسک حج میں ذکرہے۔
۲۔جماع وغیرہ کا کفارہ ،ایک اونٹ یا ایک گائے یاایک گوسفند ہے اس کی تفصیل مناسک حج کی کتاب میں بیان کی گئی ہے کہ جو بعض صورتوں میں حج کے باطل ہو نے کا سبب بھی ہے ۔
۳۔عقد نکاح کا کفارہ ،اگر شوہر اپنے بیوی سے دخول کرلے تو عقد کرنے والے پر ایک اونٹ کفارہ ہے ۔
۴۔استمناء کا کفارہ جماع کے کفارے کے مانند ہے اور بعض موارد پر حج کو باطل کر دیتا ہے۔
۵۔خوشبو کے استعمال کا کفارہ ،بعض مقام پر ایک اونٹ ہے ۔
۶۔سلے ہو ئے لباس پہننے کا کفارہ ایک گوسفند ہے ۔
۷۔سرمہ لگانے کا کفارہ احتیاط مستحب کی بنا پر ایک گوسفند ہے ۔
۸۔آئینہ دیکھنے کا کفارہ احتیاط کی بنا پرایک گوسفند ہے ۔
۹۔چکمہ اور موزہ پہننے کا کفارہ احتیاطاایک گوسفند ہے ۔
۱۰۔جھوٹ بولنا اور گالی دینے کا کفارہ استغفار ہے ۔
۱۱۔جدل کا کفارہ ،ایک اونٹ یا ایک گائے یا ایک گوسفند ہے اس تفصیل کے ساتھ جو رسالہ مناسک حج میں بتائی گئی ہے ۔
۱۲۔جوں وغیرہ مارنے کا کفار ہ،احتیاطا ًفقیر کو ایک مشت طعام دینا ہے ۔
۱۳۔زینت کی غرض سے انگوٹھی پہننے کاکفارہ بنا بر احتیاط ایک گوسفند ہے ۔
۱۴۔زینت کرنے کا کفارہ احتیاط کی بنا پرایک گوسفند ہے ۔
۱۵۔ مردوں کا سر کو چھپانے کا کفارہ ایک گوسفند ہے ۔
۱۶۔عورتوں کا چہرہ چھپانے کا کفارہ ،ایک گوسفند ہے ۔
۱۷۔تیل ملنے کا کفارہ ،احتیاط مستحب کی بنا پرایک گوسفند ۔
۱۸۔ بال اکھاڑنے کا کفارہ ،ایک گوسفند یا تین روزہ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاناکہ ہر ایک کو دو مد یعنی (ذیڑھ کیلو)غذا دے ۔
۱۹۔بدن سے خون نکالنے کا کفارہ ،ایک گوسفند ہے ۔
۲۰۔دانت اکھاڑنے کا کفارہ احتیاطاً ایک گوسفند ہے ۔
۲۱۔ناخن کاٹنے کا کفارہ دو گوسفند ہے یا ایک گوسفند یا ایک مد طعام اس تفصیل کے ساتھ جو راسالہ مناسک حج میں درج ہے ۔
۲۲۔مردوں کا سایہ میں چلنے کا کفارہ ایک گوسفند ہے ۔
۲۳۔حرم کے درختوں کے کاٹنے کا کفارہ درختوں کی قیمت یا ایک گائے ،یا ایک گوسفند ہے،اس تفصیل کے ساتھ جو رسالہ مناسکٔ حج میںمذکور ہے ۔
۲۴۔ ہتھیار لگانے کا کفارہ ،احتیاط مستحب کی بنا پرایک گوسفند ہے ۔

۲۔طواف
مسئلہ ۲۲۲۴۔عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد انسان جو دوسرا عمل کرے گا وہ خانہ کعبہ کا طواف ہے ۔
مسئلہ ۲۲۲۵۔طواف کی کیفیت یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو بائیں طرف قرار دے کر سات مرتبہ اس کے گرد چکر لگائے گا ہر چکر کی ابتدا ء حجر اسود سے کرکے وہیں پر آکر اسے ختم کرے ۔
مسئلہ ۲۲۲۶۔طواف میں آٹھ چیزوں کا ہونا ضروری ہے ۔۱۔نیت اور وہ اس طرح ہو گی کہ طواف عمرہ بجا لا تا /لاتی ہوں قربۃً الی اللہ ۲ ۔حدث اکبر جیسے جنابت،حیض اور نفاس سے پاک ہو نا اسی طرح سے حدث اصغر سے پاک ہو نا یعنی باوضو ہو ۳۔لباس اور بدن کا پاک ہونا ۴ ۔مرد کا ختنہ شدہ ہونا۵۔ستر عورتین کا ہونا اور طواف میں نماز والی تمام شرائط ہونا ضروری ہے ۶۔احتیاط کی بنا پر اور مشقت نہ ہونے کی بنا پر خانۂ کعبہ اور مقام ابراہیم علیہ السلام کے درمیان طواف کیا جائے ۷۔حجر اسماعیل علیہ السلام کو طواف میں داخل کیا جائے ۸۔طواف کرنے والے کا سارا بدن خانہ کعبہ سے باہر ہو حتیٰ کہ اس کا ہاتھ بھی احتیاط مستحب کی بنا پر خانہ کعبہ کی چبوتروں سے باہر ہو جنہیں ’’شاذروان‘‘کہتے ہیں ۔

۳۔نماز طواف
مسئلہ۲۲۲۷۔عمرہ کا تیسرا عمل ۔طواف کے بعد مقام ابراہیم علیہ السلام کے نزدیکیا س کے پیچھے دو رکعت نماز طواف کا بجا لا نا ہے ۔
مسئلہ ۲۲۲۸۔نماز طواف صبح کی نماز کی طرح بجا لائی جائے گی اور اس کی نیت اس طرح ہو گی کہ۔۔’’دو رکعت نماز طواف پڑھتا ہوں/پڑھتی ہوں ’’قربۃ ًالی اللہ‘‘۔
۴۔سعی
مسئلہ ۲۹ ۲۲۔عمرہ کا چوتھا عمل صفا اور مروہ (نامی پہاڑیوں )کے درمیان سعی کرناہے اور اس عمل میں انسان کو صفا اور مروہ کی مسافت کو سات مرتبہ طے کرنا ہے جبکہ ابتدا ء صفا سے کرے اور انتہا مروہ پر۔
مسئلہ۲۲۳۰۔صفا سے چل کر مروہ تک ایک ’’شوط ‘‘(چکر )اور مروہ سے چل کر صفا تک دوسرا’’شوط ‘‘شمار ہو گا۔
مسئلہ ۲۲۳۱۔سعی میں اس طرح نیت کی جائے گی کہ’’صفا اور مروہ کے درمیان عمرہ تمتع کے لئے سعی کرتا /کرتی ہوں قربۃًالیٰ اللہ ‘‘۔
۵۔تقصیر
مسئلہ۲۲۳۲۔سعی کے مکمل کر لینے کے بعد عمرہ کا پانچواںعمل ’’تقصیر ‘‘ہے ۔
مسئلہ ۲۲۳۳۔’’تقصیر‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے سر یا مونچھ یا ابروؤں کے بال یا ناخن کاٹے گا اور نیت یوں کرے گا’’اطاعت خدا کے لئے عمرہ تمتع کی تقصیر کرتا /کرتی ہوں ‘‘۔
مسئلہ ۲۲۳۴۔احرام کی وجہ سے حرام ہو نے والی چیزیں تقصیر کے بعد اس پر حلال ہو جائیں گی سوائے دو چیزوں کے جو حرم کی حرمت کی وجہ سے حرام ہیںنہ احرام کی وجہ سے ۔ایک شکار اور دوسرے حرم کے درختوں یا گھاس بوٹے وغیرہ کاٹنا ۔
حج تمتع کے اعمال
۱۔حج کا احرام
مسئلہ ۲۲۳۵۔ جیسا کہ بیان کر چکے ہیں کہ حج کے تیرہ عمل ہو تے ہیں اور ان میں سے پہلا احرام ہے جب انسان عمرہ تمتع کو مکمل کر لے تو اسی طرح کہ جس طرح کہ عمرہ می ں بیان کیا گیا حج کا احرام باندھے ۔عمرہ اور حج کے احرام میں فرق یہ ہے کہ عمرہ کا احرام کسی ایک میقات سے باندھنا جاتا ہے لیکن حج کا احرام مکہ سے باندھنا جا تا ہے اور مستحب ہے کہ مسجد الحرام سے باندھے اور احرام باندھتے وقت یوں نیت کرے ’’حج تمتع کا احرام باندھتا /باندھتی ہوں قربۃًالی اللہ‘‘
مسئلہ ۲۲۳۶۔عمرہ کے بعد حج کے احرام کا وقت عرفات میں ٹھہرنے تک کاہے ۔
۲۔عرفات میں ٹھہرنا
مسئلہ ۲۲۳۷ ۔احرام کے بعد حج کا دوسرا عمل عرفات میں ٹھہرنا ہے۔ عرفہ (۹! ذی الحجہ)کے دن ظہر سے لے کر غروب آفتاب تک صحرائے عرفات میں ٹھہرنے کو ’’وقوف عرفات‘‘کہتے ہیں ۔
مسئلہ ۲۲۳۸۔اس عمل کی نیت یوں ہو گی ’’حج تمتع کے لئے عرفات میں ٹھہرتا /ٹھہرتی ہوں قربۃًالی اللہ‘‘۔
۳۔مشعر الحرام میں ٹھہرنا
مسئلہ ۲۲۳۹۔شب عید (دسویں ذی الحجہ)کی رات غروب آفتاب کے بعدعرفات سے مشعر الحرام میں جائے اور وہاں روز عید کے طلوع فجر تک ٹھہرا رہے اور پھر روز عید کے طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک وقف کی نیت سے رکے۔
مسئلہ ۲۲۴۰۔جب طلوع فجر (صبح صادق )نزدیک ہو تو یوں نیت کرے ’’صبح صادق سے طلوع آفتاب تک مشعر الحرام میں ٹھہرتا /ٹھہرتی ہوں قربۃًالی اللہ‘‘۔
۴۔۶منیٰ کے اعمال
(رمی،ذبح اور حلق )
مسئلہ ۲۲۴۱۔جب عید کا سورج طلوع کرے تو حاجی منیٰ میں چلے جائیں اور وہاں جا کر تین کام انجام دیں (۱)رمی جمرۂعقبیٰ۔یعنی بڑے ستون کو سات سنگریزے پے در پے مارنا اور نیت یوں ہو گی’’خدا کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے جمرۂ عقبیٰ کو پتھر مارتا / مارتی ہوں ‘‘(۲)اس عمل سے فارغ ہو نے کے بعد اونٹ ، گائے یا بھیڑ کی قربانی کرناہو تی ہے اوراس کی نیت یوں کی جا ئے گی کہ ’’خدا کا حکم بجا لاتے ہو ئے قربانی کرتا /کرتی ہوں ‘‘قربانی کے جانورکو صحیح و سالم ہو نا چاہیئے اور ہر جا نور کا مخصوص سن ہو نااحوط ہے جو کہ رسالۂ مناسک حج میں درج ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ انسان قربانی کے گوشت سے ایک تہائی کھائے ،ایک تہائی ہدیہ دے او ر ایک تہائی صدقہ کے طور پر دے ۔(۳)تمام سر کو منڈا یا جائے یا ناخن کا ٹے جائیں یا سر یا مونچھوں کے کچھ بال کاٹے جائیں ۔اور اس عمل میں نیت یو ں کی جائے گی ’’خدا کے حکم کی بجا آوری کیلئے حج تمتع کی حلق یا تقصیر کرتا / کرتی ہوں ‘‘۔اگر ا سکا پہلا حج ہے تواحتیاط مستحب کی بنا پر اسے حلق کرنا چاہیئے یعنی سر کو منڈوائے۔
۷۔۱۱۔مکہ مکرمہ کے اعمال
مسئلہ ۲۲۴۲۔حاجی منیٰ میں مذکورہ تین اعمال بجا لانے کے بعد اسی روز مکہ پہنچ کر پانچ اعمال بجا لائے گا (۱)طواف زیارت ۔اور اس کی نیت یوں ہو گی ’’خداوند عالم کی اطاعت کرتے ہوئے طواف زیارت کرتا /کرتی ہوں‘‘(۲)مقام ابراہیم[L:8] علیہ السلام کے نزدیکیا سکے پیچھے دو رکعت نماز طواف بجا لا نا ۔اوراس کی نیت یوں ہو گی ’’دو رکعت نماز طواف زیارت پڑھتا /پڑھتی ہو ں’’قربۃ الیٰ اللہ‘‘ (۳)صفا اور مروہ کے درمیان سعی جیسا کہ عمرہ کے اعمال میں ذکر ہو چکا ہے صفا اور مروہ کے درمیان دوڑے اور اسکی نیت یوں کرے ’’حج تمتع کے لئے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتا /کرتی ہوں قربۃًالی اللہ‘‘(۴)طواف نساء کرنا یہ طواف بھی حج کے طواف کی مانند ہے لیکن اس کی نیت یوں ہو گی’’طواف نساء بجا لا رہا /رہی ہوں قربۃًالی اللہ‘‘(۵)دو رکعت نماز طواف نساء اور اسکی نیت اس طرح کرے ’’دو رکعت نماز طواف نساء بجا لا رہا /رہی ہوں قربۃًالی اللہ ‘‘
مسئلہ ۲۲۴۳۔اگر انسان منیٰ کے اعمال (منیٰ میں رہنے اور پتھر مارنے )کے لئے دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میںرہ جا ئے او ر گیارہویں یا بارہویں ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچ کر مکہ کے اعمال بجا لائے تو بھی کو ئی حرج نہیں ۔
مسئلہ ۲۲۴۴۔مکہ کے اعمال بجا لانے کے بعد حاجی پر وہ تمام چیزیںحلال ہو جاتی ہیںجو احرام کی وجہ سے اس پر حرام ہو چکی تھیں حتیٰ کہ اپنی بیوی کے ساتھ مباشرت اور خوشبو کا استعمال وغیرہ ۔البتہ دو چیزیں اس پر حرام رہیں گی جو کہ احرام کی وجہ سے نہیں بلکہ حرم کی حرمت کی وجہ سے اس پر حرام ہوئیں تھیں ،ایک شکار اور دوسرے حرم کے درخت یا گھاس بوٹے کاٹنا ۔
۱۲۔منیٰ میں رہنا
مسئلہ ۴۵ ۲۲۔گیارہویں اور بارہویں کی رات کو حاجیوں کو منیٰ میں رہنا چاہیئے اور اگر اس نے احرام کی حالت میں عورت سے مباشرت کی یا شکار کیا تو اسے تیرہویں کی رارت بھی وہیں گذارنا چاہیئے اور وہاں یہ نیت کرے’’منیٰ میں رات گزارتا /گزارتی ہوں قربۃًالی اللہ‘‘
مسئلہ ۲۲۴۶۔اگر کسی نے احرام کی حالت میں عورت سے مباشرت نہیں کی یا شکار نہ کیا ہو تو وہ بارہویں کی ظہر کے بعد منیٰ سے باہر جا سکتا ہے لیکن اگر غروب آفتاب تک وہاں سے خارج نہ ہوا تو پھر وہ رات بھر بھی اسے وہیں گزارنی چاہیئے ۔
مسئلہ ۲۲۴۷۔اگر کوئی شخص منیٰ میں رات نہ رہے تو ہر شب کے بدلے ایک گوسفند کفارہ دے اور عمداً وہاں نہ رہا تو اس نے گناہ کیا ہے ، لیکن اس کا حج صحیح ہے ۔

۱۳۔پتھر مارنا
مسئلہ ۲۲۴۸۔جن راتوں کو حاجی منیٰ میں شب باشی کرے ان کے دونوںمیں تینوں جمروں کو اس ترتیب سے پتھر مارے پہلے جمرۂ اولیٰ کو پھر جمرۂ وسطیٰ کو اور آخر میں جمرۂ عقبیٰ کو سات سات پتھر مارے اور اسی پر حج کے تمام اعمال مکمل ہو جاتے ہیں ۔