اصول و فروع دين



بسم الله الرحمن الرحيم

فروع دين

 

توحید:

انسان کو حقیقیت کی معرفت ہونی چاہیے کہ اس عالم کون و مکاں کی خالق ایسی ذات موجود ہے جو اسے کتم عدم سے عالم وجود میں لایے ہے  سب کچھ اسی ذات کے قبضہ قدرت میں ہے خلق کرنا،رزق دینا،مارنا اور زندہ کرنا،صحت اور مرض و غیرہ سب کچھ اسی کے ارادہ کا مرہون منت ہےـ

وجود خالق کی دلیل آسمان کی نیلگوں شامیانہ اس میں جمگاتا آفتاب علمتآب،ماہتاب جہانتاب،درخشاں ستارہ،رواں دواں بادلوں کے پرلے،ہوا بارشـ

زمین ،اس میں موجود موجزن سمندر ،بہتے دریا،ابلتے چشمے،رنگارنگ درخت اور پھل،سونے،چاندی اور زمرّد و غیرہ جیسی کانیں،رویے زمین پر چلتے ہؤے مختلف حیوانات،قلب فضامین محو پرواز رنگ برنگے پرندے ،زیر آب تیرتی ہوۓ سمندری مخلوق ایک دوسرے سے مختلف صدا،جسامت وغیرہ

قدرت کا آعظیم شاہکار انسان جسے اللہ نے مختلف خواض اور عادات سے نوازا ہے،دیکھنے کے لیۓانکھ، سننےکے لیۓکان،بولنے کے لیۓ زبان عطا کی،کبھی تندرست ہے کبھی صاحب فراش،کبھی خوشی سے پھولا نہیں سماءتااور کبھی فرط غضب سے شعلہ جوالہ بناہوتا ہےـ کبھی قہقہے لگاتا ہے اور کبھی رو رو کے انسوءں کی ندیاں بہاتا ہےـ

یہ سب کچھ ایک حکیم،عالم اور قادر اللہ کے وجود کی ذندہ دلیلیں ہیں،ہم اس کے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں،پم اس کی عبادت کرتے ہیں اور ہم اسی سے مدد مانگتے ہیںـ

 

عدل:

اللہ عادل ہے یعنی وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا،حکمت کے خلاف کو کام نہیں کرتا،جو کچھ اس نے پہدا کیا ہے،جس کو جتنا رزق عطا کیا ہے سب کچھ اس کی حکمت کاملہ کی بدولت ہے،یہ ایک الگ بات ہے کہ ہم اس کی حکمت سے لاعلم رہتے ہیںـ

ایک مثال سے بات اسانی سے سمجھ میں اجاۓ گی ایک ڈاکٹر جب ایک مریض کو دوا دیتا ہے تو ہم کو یقین ہوتا ہے کہ اگر مریض نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق دوا کا استعمال کیا تو وہ ضرور شفایاب ہوگا لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کی وہ کون سے طاقت ہے جو مریض کو مرض سے نجات دے گی۔

اسی طرح اگر ہم دیکھتے ہیں کی ایک شخص بے پناہ دولت کا مالک ہے اور دوسرا نان جویں کا محتاج،ایک تندرستی اور تواناۓ کا خزانہ رکھتا ہے اور دوسرا بستر مرض سے اٹھ نہیں سکتا ،تو اگر چہ ہم ان کے سبس سے واقف نہیں ہیں لیکن دولتمند کا دولتمند ہونا،غریب کا نادار ہونا،تندرت کا صحتمند ہونا اور بیمار کا صاحب فراش ہونا نگاہ قدرت میں قرین مصلحت اور عین عدل ہےـ

 

نبوت

اس بحث میں جانے سے قبل ہمارے لیئے ضروری ہے کہ ہم انسان کی خلقت کا مقصد جانے!کیا انسان فقط مادی لذتوں کو حاصل کرنے لے لیئے خلق کیا گیا اور اس کے سوا اس کی زندگی کا کوئی ھدف و مقصدد نہیں ہےـ

اسلام کتب میں بہت سی آیات و روایات کا ذکر ہوا ہے جو انسان کی خلقت سے مطالق ہیں،جہاں ارشاد ہوتا ہے"ہم نے انس و جنس کو عبادت کے لیئے خلق کیا"

اصل میں بندگی انسان کو مکمل بنانے اور اس کو ترقّی عطا کرنے کا نام ہے اور ہر وہ عبادت جو اس مقصد میں مدد کرے بندگی و عبادت میں داخل ہےـ امتحان الہی بھی اسی طرح ہے ،کیونکہ در اصل امتحان کے ذریعہ انسان کے چھوپے ہوئے جوھر سامنے آتے ہیں اسی لیئے خدا کی طرف سے یہ انتظام ہوا ہے کہ وہ انسان کو امتحان میں ڈالتا ہے اور اس کی تکمیل میں مدد کرتا ہےـ

خلاصہ یہ ہے انسان تکمیل کی راہ میں ہےاور اس کے لیئے اس کو معلومات اور عمل کی ضرورت ہے اور ان دونوں چیزوں کے لیئے راھنما کی ضرورت پیش اتی ہےـ

اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کی عقل اس کی راھنامائی کے لیئے کافی نہیں ہے اور کیا انسان کے بنائے ہوئے قانون اس کی ترقّی کے لیئے کافی نہیں ہے؟

حضرت علی علیہ السلام نے انبیاء الہی کی بعثت کا مقصد عقل انسانی کی پرورش بتایا ہےـ

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی راھنمائی اور ترقّی کے لیئے انسانوں نے جو قانون بنائے ان میں اپس میں اتنا شدید اختلاف ہے جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ عقل انسانی کتنی کمزور اور درک مسائل سے قاصر ہےـ

اسلیئے ضرورت تھی کہ قدرت خود اس کا انتظام کرے اور انسان کی راھنمائی کرے،تاکہ وہ مکمل انسان بن سکے اور ترقی بھی حاصل کر سکےـ

اسی لیئے اس نے انسان کی راھنمائی کے لیئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث کئےـ

جس کی اولین فرد خود حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور یہ سلسلہ رسول اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم تک جاری رہا اور اس کے بعد سلسلہ نبوت ختم ہوا اور زمان امامت شروع ہوتا ہےـ

 

(حضرت محمد مصطفی صلی علیہ وآلہ وسلم )

 آپ(ص) کا اسم گرامی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، آپ(ص) کے والد کا اسم گرامی عبد اللہ اور آپ(ص) لی والدہ کا اسم گرامی آمنہ بنت وہب تھا ، آپ (ص) عام الفیل مکہ مکرمہ میں جمعہ کے دن طلوع صبح صادق کے بعد سترہ (17) ربیع الاول کو پیدا ہوئے ، ان دنوں ایران میں معروف زمانہ عادل حکمران کسری نوشیروان حکمران تھا ـ

 جب آپ (ص) چالیس برس کے ہوئے ، 27 رجب المرجب کو مبعوث بر سالت ہوئے ، آپ (ص) زیادہ وقت مکہ کے حراء نامی پہاڑ میں ایام خلوت گزارتے تھے وہیں جناب جبرئیل سب سے پہلی قرآن کی یہ سورت لے کر آئے ـ"بسم اللہ الرحمن الرحیم ـ اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان ــــــــــــــــــ "

 اس حکم کےبعد آپ (ص) پیام الہی کو پہنچانے کی خاطر مکہ کے پہاڑ سے اتر کر مکہ کی گلی کو چوں میں آئے اور فرمانے لگے ـ " ایھا الناس قولوا لاالہ الا اللہ فتفلحوا " ـ (لوگو! لاالہ الا اللہ کہو اور نجات پاؤ) چونکہ اہل مکہ مشرک تھے اس لئے وہ آپ (ص) کا نظر یہ توحید سن کر برانگیختہ ہوئے ، آپ(ص) کا مذاق اڑایا اور اذیتیں پہنچانی شروع کیں ، حتی کہ آپ (ص) نے فرمایا ـ " ما او ذی نبی مثل ما او ذیت "( جتنی اذیت مجھے پہنچائی گئی کسی نبی کو اس کی امت نے اتنی اذیت نہیں پہنچائی )اس دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے حضرت ابو طالب علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی اولاد کے علاوہ ام المومنین خدیجہ الکبری تھیں ، بعد میں دیگر افراد بھی حلقہ بگوش اسلام ہونا شروع ہوگئے ـ

جب جناب ابو طالب علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور مشرکین مکہ کی کایزارسانی میں اضافہ ہوگیا تو آپ (ص) نے مکہ سے ہجرت کر کے مدنیہ کو اپنا مسکن بنالیا ، امت مسلمہ کی تاریخ کا آغاز مدینہ سے ہی ہوتاہے ، دائرہ اسلام وسیع ہوتا چلا گیا اور اسلامی حکومت مالی اور افرادی اعتبار سے پھیلتی چلی گئی ، حتی کہ وہ وقت آگیا جب اسلامی حکومت کا علم روئے ارض پر موجود ہر حکومت سے بلند ، دین اسلام پر آسمانی اور غیر آسمانی دین پر غالب آگیا ـ

 مدنی زندگی میں مشرکین ، یہودیوں اور عیسائیں کی طرف سے جارحیت کے دفاع کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متعدد جنگی میدانوں کا سامناکرنا پڑا ـ

 ہر جنگ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نصب العین رحم ، عفوو درگزرہوا کرتا تھا یہی وجہ ہے کہ آپ (ص) کی حیات طیبہ میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں ہیں اگر چہ ازروئے تعداد بہت زیادہ ہیں لیکن مقتولین کی تعداد کے اعتبار سے بہت کم ہیں ، مورخین کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی میں لڑی جانے والی تمام جنگوں مین مسلم اور غیر مسلم شہدا اور مقتولین کی مجموعی تعداد کم وبیش چودہ سواسی (1480)

آپ(ص) جامع الفضائل ، خزینہ شرف گنجینہ کرم، علم و عمل ، عدل و انصاف میں دین کا وہ محور تھے کہ ماضی میں انھیں کسی سے تشبیہ ہے اور مستقبل میں تا قیامت کسی کو ان سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی ، یہ تھے امت مسلمہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن کی شریعت اسلام ہے جن کا دین ہر دین سے بہتر ہے ، جن کی کتاب ہر کتاب کی ناسخ ہے ، باطل نہ تو سامنے سے اور نہ عقب سے اس پر حملہ آور ہوسکتا ہے ، حکیم اور حمید اللہ کی نازل کردہ ہے ـ

 

قرآن

وسائل الشیعہ کے باب 'القران'میں تلاوتِ قران کے سلسلہ میں بہت سی حدیثیں بیان کی گئی ہیں,ہم ان میں کچھ کو یہاں بیان کر رہے ہیں:

1 .آنحضرت صل اللہ علیہ و الہ وسلم سے روایت ہے"اہل قرآن ہی اہل اللہ اور خداکے خاص بندے ہیں".

2 .معاذنے آنحضرت صل اللہ علیہ و الہ وسلم سے روایت کی ہے کی آپ نے فرمایا:"جو شخص اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دے قیامت کے دن اللہ اس کوایسا شاہانہ تاج اور لباس عطا کرے گاجیسا پہلے کسی نے نہیں دیکھا ہوگا".

3 .نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:"قرآن سیکھو,یہ دلوں کی بہارہے,قرآن میں شفاء ہے یہ دل کو کوشادہ کرتا ہے,تلاوت قرآن سودمنترین چیز ہے.

4 .معمر ابن خلاد نے امام رضا علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ ہر انسان کو نماز صبح کے بعد تعقیبات سے فارغ ہو کر کم از کم پچاس آیتوں کی تلاوت کرنی چاہیے.

5 . آل شام کے غلام عبدالاعلی نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے جس گھر میں تلاوت قرآن ہوتی ہے وہ گھر آسمان سے اس طرح چمکتا ہو نظر آتا ہے جیسے زمین سے ستارہ نظر آتے ہیں.

6 .انحضرت صلی اللہ و علیہ و الہ و سلم سے مروی ہے کہ جو شخص قرآن کو ذریعہ معاش بنائے گا قیامت میں جب وہ محشور ہوگا تو اس کے چھرہ پر گوشت نہ ہوگا.

7 . عبداللہ ابن سلیمان سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مینے "رتل القرآن ترتیلا" کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا "حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ ترتیل کے معنی وضاحت کے ساتھ تلاوت کے ہیں یعنی نہ رسی کی طرح مروڑ کر کرو اور نہ کی ریت کی طرح بکھیر دو،تلاوت قرآن سے آپنے سوئے دلوں کو بیدار کرو".

8 .محمد انن فضیل نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ سورہ قل ھو اللہ احد کو ایک سانس میں پڑھنا مکروہ ہے.

9 .ابو بصیر نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ترتیل کے معنی سکون اور اچھی آواز سے تلاوت کرنا ہے.

 . عبد اللہ ابن سنان نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ہر چیز کی ایک زینت ہوتی ہے اور قرآن کی زینت اچھا لحن میں اس کی تلاوت کرنا ہے.

10 . سکونی نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی غیر عرب اپنی زبان میں قران کی تلاوت کرے تو ملائکہ عربی میں ترجمہ کرکے لے جاتے ہیں.

 

مقدمہ

دین اسلام کے مسائل دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اصول دین کا تعلق انسان کی فکر سے ہے اور اسی وجہ سے اس میں تقلید جائز نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ دلیل کے ساتھ ان کو حاصل کرے اور ایمان لائےـ

دوسری طرف فروع دین ہیں جن کا تعلق انسان کی زندگی کے مسائل سے ہے، اسلام نے انسان کی ولادت سے پہلے سے لیکر اس کی موت کے بعد تک کہ احکام بیان کیئے ہیں، ایک عام انسان کے لئے ان تمام مسائل کا جاننا ایک مشکل کام ہے اس لئے اس کو ایک مجتہد کی تقلید کرنا چاہیئےـ

مشہور فروع دین یہ ہیں:

نماز

روزہ

حج

زکوت

خمس

جہاد

امر بالمعروف

نہی از منکر

تولی

تبری

ان فروعات کے علاوہ بھی دوسرے فروع بھی ہیں، جن کا تعلق انسان کی روز مرہ کی زندگی سے ہے، ہم یہاں پر ان میں چند اہم مسائل کا ذکر کر رہے ہیں

 

اسلامی نظام

س: اسلام امن کا مذہب ہے یا جنگ کا مبلغ ہے ؟

ج: اسلام کی پہلی دعوت امن کی ہے (یا ایھا الذین آمنوا ادخلو فی السلم کا فة)اسلام کی عمومی دعوت ہے البتہ اگر مسلمانوں کے خلاف جارحیت کی جائے تو پھر اسلام اپنے چاہنے والوں کے تحفظ کی خاطر جنگ کو نہ صرف جائز بلکہ فرض قرار دیتا ہے ـ

 س: اسلام تحفظ امن کے لئے کیا کرتاہے ؟

ج: اسلام نے داخلی اور خارجی ہر دو اعتبار سے امن کو مقدم رکھا ہے داخلی اعتبار سے اسلام نے جرائم کو حرام قرار دیا ہے اور خارجی لحاظ سے اسلام نے کسی کے خلاف جارحیت سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے ـ

س؛اسلام جرائم کی روک تھام کیسے کرتاہے ؟

ج:اسلام جرائم کے اسباب کو ختم کرتا ہے جرائم کے اسباب غربت فحاشی جہالت دہشت گردی وغیرہ ہیں اسلام کا بنیادی مقصد انہی اسباب سے ان کے خاتمہ تک جنگ ہے جب یہ ختم ہوجائیں تو جرائم از خود ختم ہوجائیں گے ـمثلاً ایک غریب بھوک سے تنگ آکر چوری کرتا ہے جس عورت کو شوہر نہ ملے وہ زنا پر آمادہ ہوتی ہے شراب زنا اور جنسی جرائم کو جنم دیتی ہے جہالت نتیجہ پورے معاشرہ میں جرائم کی بھر مار ہوتی ہے اسلام غریب کو دولتمند کرتا ہے اسلام عورت کو بلا حجاب نکلنے سے روکتا ہے اسلام شراب کو نا جائز کہتا ہے اسلام علم کو واجب قرار دیتا ہے اسلام خانگی نزاعات کے آسان فیصلے کرتا ہے ـ

س: اسلام میں مجرم کی کیا سزا ہے ؟

ج: اسلام فضا ہموار کرتا ہے ـ جرئم کے اسباب کا قلع قمع کرتاہے اگگر اس کے باوجود جرائم نہ رکیں تو پھر اسلام عبرت انگیز سزا تجویز کرتا ہے اگر ایک شخص بلا ضرورت چوری کرے تو اسلام کی چار انگیاں کاٹ لیتا ہے جس کے بعد کسی میں چوری کی ہمت نہیں پڑتی یہی وجہ ہے کہ اسلامی اقتدار کی طویل تاریخ میں چند افراد ایسے ملیں گے جن کے ہاتھ کٹے ہوں گے ـ

س: اسلام کا جیلوں کے متعلق کیا خیال ہے ؟

ج: اسلام کے نزدیک ان خود ساختہ تعزیرات کی کوئی حیثیت نہیں ہے ـ اسلام الہامی تعزیرات و حدود کا قائل ہےآج کی دنیا میں اکثر ایسی تعزیرات ہیں جو اسلام کی نگاہ میں جرم ہی نہیں ہیں اس لئے اسلام کو کسی مجرم کو کم یا زیادہ مدت تک کسی کو جیل میں رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ـ اسلام نے بعض جرائم کی فوری اور نقد سزا مقرر کردی ہے اگر جرم ثابت ہوجائے تو چور کی چار انگلیاں کاٹ ڈالی جاتی ہیں اور زانی کو اسی ٨٠ کوڑے ـ یا رجم کردیا جاتا ہے قاتل کو قصاص میں قتل کردیا جاتا ہے اسلام میں بہت کم ایسے جرائم ہیں جن کی سزا جیل ہے مثلاً ایک شخص کسی کا مقروض ہے اور استطاعت کے باوجود ادا نہیں کرتا تو اسلام ادائیگی قرض تک اسے جیل میں رکھنے کا حکم دیتا ہے اسلام میں جیل کا تصور صرف اس قدر ہے کہ قاضی کسی شخص کے ذمہ کردے کہ مجرم کو اپنے گھر میں چند دن پابند رکھےـ اس لئے اسلام میں جیل کا تصور ہی نہیں ـ ویسے اگر ضرورت ہو تو اسلام جیل کی تعمیر سے روکتا بھی نہیں ہے ـ

س: اسلام خارجی طور پر امن کے سلسلہ میں کیا کرتا ہے؟

ج: اسلام کسی حکومت کے خلاف جارحیت کا قائل نہیں ہے جو ملک صلح کا ہاتھ بڑھائے اسلام دست امن دینے پر آمادہ رہتا ہے ـ( ان جنحو اللسلم فاجنح لھا ) ہان اگر کوئی جارحیت کرے تو پھر اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ اسلام نے جارحیت کا جواب کیسے دیا ہےـ

 

سیاست

س۔ کیا اسلام میں سیاست ہے؟

ج۔  ملک کی ترقی کے لیۓاسلام میں سیاست کی اعلی قسم موجود ہے۔

س۔ اسلام میں جمھوریت ہے یا شہنشاہیت؟

ج۔ جمہوریت اور شہنشاہیت کی جو تعریف مغرب کی لغت میں ہے اس اعتبار سے اسلام میں نہ جمہوریت ہے اور نہ ملوکیت۔اسلام میں شوراٸ نظام ہے جسے آپ جمہوریت سے تعبیر کر سکتے ہیں،اسلام میں موروثی ملوکیت کا کوٸ وجود نہیں ہے۔

س۔ اسلام میں حکمراں کے لیۓ کیا کیا شرإط ہیں؟

ج۔  ایمان کامل،علم دین کا عالم ،دنیاوی امور پر مکمل دسترس اور عدالت حاکم کے لیۓ ضروری ہیں‏،اگر یہ تمام چیزیں موجود ہون اور عوام بھی خوش ہو تو وہ حکمراں ہو سکتا ہے،اس کے لیۓ کسی مددت کی کوٸ قید نہیں ہے،اگر اس میں سے کوٸ ایک بھی شرط باقی نہ رہے تو وہ حکمراں فوراً معزول ہوگا۔

س۔  حکمراں کا انتخاب کیسے ہوگا؟

ج ۔حکمراں کو عوام الناس کی رإے وٹ کا استعمال کیا جایۓ گا۔

س۔  کیا اسلام حکومت میں الیکشن،پرلیمنٹ،سپیکر بھی ہیں؟

 ج ۔ اسلامی حکومت میں یہ تمام چیزیں اسلامی حدود کے اندر موجود ہیں،پارلیمنٹ کا کام اسلامی احکام کا نفاذ اور نۓ رونما ہونے والے مسإل کو اسلامی قواعد سے منطبق کرنا ہے اپنی طرف سے قانون سازی کا حق نہیں ہے۔

س ۔  اسلامی حکومت میں کس إٓین کی پابندی کی جاۓ گی؟

ج  ۔  اسلامی حکومت مین قران سنت اجماع سے إٓین اخذ کیا جاۓ گا۔

س۔ اس کو کون وضع کرے گا؟

ج ۔ ایسے عادل فقہا جو دینی اور دنیاوی علوم کے ماہر ہوں۔

اسلامی حکومت کی ذمہ داریاں کیا کیا ہونگی؟

ج داخلی اور بیرونی ہر معملات میں عوام الناس میں عدل کا قیام اور بصورت حیاة امام علیہ السلام  ان کی خدمت میں حکومت کو حوالے کرنا۔

 

بیمہ

اسلام نے رسول کے زمانے سے ہی بیمہ کا قانون بنایا اور اس پر عمل بھی کیا ہے۔

۱۔ اگر کوئی شخص مرتا ہے اور اپنے ورثہ کے لیئے کوئی مال و دولت چھوڑ جاتا ہے تو اس صورت میں وہ تمام کی تمام دولت اس کے ورثہ کو ملے گی اور اسلامی حکومت اس میں سے کچھ بھی نہیں لے سکتی۔یہ اس حال میں تھا کہ اسلام سے قبل اور بعد یہاں تک کہ آج بھی حکومتیں ارث پر ٹیکس لیتے تھیں اور لے رہی ہیں۔

۲۔اگر کوئی شخص دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور مقروض مرتا ہے یا اس کے بعد اس کے بیوی بچے بغیر کسی سرپرست کے رہ جاتے ہیں تو ایسی صورت میں اس کے قرض کی ادایگی اور اس کے بیوی بچوں کی سرپرستی امام وقت اور حکومت اسلامی کی ذمہ داری ہے۔یہ چیز بھی پہلے مسئلہ کی طرح دنیا میں کسی بھی مکتب فکر میں نہیں پائی جاتی۔

۳۔ یہ دونوں ہی چیزیں ان خدمات کے جدا ہیں جو بیت المال تمام مسلمانوں کو فراہم کرتا ہے۔

علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میں سند کے ساتھ رسول سے روایت کی ہے کہ آپ بارہا فرمایا کرتے تھے" کوئی بھی طلب گار اپنے مقروض کو لے کر اسلامی حکومت کے پاس نہیں آیا اور اس کی ناداری اور نتوانائی ثابت ہونے کے بعد اس کو قرض ادا کرنے سے معاف کر دیا گیا اور اسلامی حکومت نے اس کے قرض کو ادا کیا"۔

امام صادق علیہ اسلام اس حدیث کو رسول سے روایت کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ "زیادہ تر یہودیوں کے مسلمان ہونے کی وجہ رسول کی ہی بات تھی کہ اس صورت میں ان کے بعد ان کے قرض کی ذمہ داری اسلامی حکومت کی ہوتی اور کوئی بھی ان کی اولاد کو پریشان نہ کرتا۔

اس کے علاوہ متعدد حدیثیں اور روایات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اسلام کے بیمہ کا نظام دنیا میں اپنی مثال آپ ہے اور اس طرح کا نظام کسی بھی حکومت یا اقتصادی ماہر نے آج تک پیش نہیں کیا۔

 

اقتصاد:

س:کیا اسلام کے پاس کوئی اقتصادی ڈھانچہ ہے ؟

ج;عالم میں موجود اقتصادی دساتیر کی نسبت اسلام کے پاس بہترین اقتصادی دستور ہےـ

س: اسلامی معشیت کا نظام کیسے ہے ؟

ج: اسلام شخصی ملکیت کو جائزہ قرار دیتا ہے , بشرطیکہ اسلامی اصول کے مطابق حرام کی کمائی نہ ہو اور اسلامی واجبات بھی ادا کئے جائیں ,

س; سرکاری اخراجات کے لئے اسلامی نظام میں کون سے وسائل ہیں ؟

ج;اسلام نے جو واجبات مقرر کئے ہیں ادن کی وصلی اور دیانتدارانہ ادائیگی تمام سرکاری اخراجات کی کفیل ہوسکتی ہے .

س; اسلام نے کون سے واجبات مقرر کیے ہیں؟

ج; اسلام نے خمس , زکوت٬ خراج اور جزیہ مقرر کئے ہیں .

س;ان واجبات کی تفصیل کیا ہے ؟

ج; خمس اسلامی حکمران تجارتی منافع, معدنیات ,خزانوں , غواصی , مال حلال جو مخلوط با حرام ہو , کفار سے جنگ سے حاصل ہونے والے مال غنیمت اور زراعت کی سالانہ نچت سے ٥/اوصول کرے گا , زکوت اسلامی حکومت بھیڑ, بکری , دبنے٬گائے٬ اونٹوں , سونے , چاندی کھجور , انگور , گندم اور جو پر وصول کرے گی , ان کے نصابوں کی تفصیل تمام فقہی کتب میں موجود ہے ,

خراج اسلامی حکومت ان مزارعین سے وصول کرے گی جو ایسی اراضی کے کاشتکار ہیں , جوجنگ کر کے حاصل کی گئی ہوں.

جزیہ اسلامی حکومت تمام ان غیر مسلم لوگوں سےوصول کرے گی جو اسلامی حکومت کی حدود میں رہتے ہیں ,

س; کیا اسلام میں بینکاری بھی ہے ؟

ج; اسلام میں بینکاری ہے لیکن سود سے پاک , بینکاری تمام مسائل کو احکام اسلام کے مطابق بنایا جاسکتا ہے اور بینک میں کام کرنے والے عملہ کی تنخواہیں اولا ً تو اسی نظام سے پیدا کی جاسکتی ہیں اور اگر وہ کم ہوں تو پھر اسلامی حکومت بیت المال سے بینک ملازمین کی تنخواہیں پوری کرے گی .

س; کیا اسلامی حکومت لوگوں سے دوسری قسم کا کوئی ٹیکس وصول کرسکتی ہے جیسا کہ آج کل ٹیکسز چل رہے ہیں؟

ج; جہاں تک علی الا طلاق دوسرے ٹیکسز کا تعلق تو اسلامی حکومت مذکور چار مدات کے علاوہ کچھ بھی نہیں لے سکتی , ہاں ہنگامی ضرورت کے پیش نظر ضرورت کے مطابق وصول کرسکتی ہے .

س; کیا اسلامی حکومت میں اپاہج وغیرہ کی امداد بھی کی جاسکتی ہے ؟

ج: ہاں اسلامی حکومت ہو معذرت کی امداد کرتی ہے بشرطیکہ وہ نادار ہو , ایسے افراد کو ان کی ضرورت اور حیثیت کے مطابق اسلامی حکومت دے گی.

 

ٹیکس

خمس اسلامی حکمران تجارتی منافع, معدنیات ,خزانوں , غواصی , مال حلال جو مخلوط با حرام ہو , کفار سے جنگ سے حاصل ہونے والے مال غنیمت اور زراعت کی سالانہ بچت سے  ۲۰%وصول کرے گا ,

 زکوت: اسلامی حکومت بھیڑ, بکری٬ ٬گائے٬ اونٹ , سونے , چاندی کھجور , انگور , گندم اور جو پر وصول کرے گی , ان کے نصابوں کی تفصیل تمام فقہی کتب میں موجود ہے ,ان چیزون کے علاوہ زکوة کسی اور چیز پرنہیں ہےـ

خراج: اسلامی حکومت ان کھیتی کرنے والوں سے لے گی جو ایسی اراضی کے کاشتکار ہیں , جوجنگ کر کے حاصل کی گئی ہوں.یہ رقم زمین کی قیمت اور اس کے پیدا کی جانے والی چیز کی قیمت کے حساب سے ہوگی

جزیہ:اسلامی حکومت تمام ان غیر مسلم لوگوں سےوصول کرے گی جو اسلامی حکومت کی حدود میں رہتے ہیں ,

جس کے بدلہ میں ان کی جان مال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر ہوگی

ان چار ٹیکسوں کے علاوہ اسلامی حکومت کسی بھی طرح کا کوئی ٹیکس وصول نہیں کرسکتی ـ

 

بیت المال

اسلام حکومت نے پسمندی طبقہ کے افراد کی مدد کے لیئے ایک مرکز بنایا ہے جس کا نام بیت المال ہے٬چونکہ ہر جامہ میں بیمار٬بے کار٬معلول٬بے سرپرست٬یتیم وغیرہ افراد موجود ہوتے ہیں جن کی مدد کرنا ضروری ہوتا ہےـ بیت المال ان لوگوں کی پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ـ اس کے علاوہ جامہ کی دوسری ضرورتوں کو بھی بیت المال دیکھتا ہے جیسے کھیتی٬کارخانہ وغیرہ کو بڑھاوا دینا اور

لوگوں کی ضرورت کی دوسری چیزوں کا حاصل کرنا تاکہ حکومت اپنے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کر سکے اور اس کے لیئے اس کو دوسری حکومتوں سے مدد نہ لینی پڑےـ

اسی طرح تعلیم ٬ صحت ٬ ثقافت و غیرہ کو فروغ دینا بیت المال کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ـ

نوجوانوں کی شادی میں مدد لوگوں کے گھر بنانے میں مدد دوا دارو٬سفر٬وطن سے دور لوگوں کو ان کے گھر پہچانا یہ سب بیت المال کی ذمہ داری ہوگی ـ

اگر یہ کہا جاے کی اسلامی حکومت جو تیکس لیتی ہے وہ بہت کم ہے اور یہ سارے کام اس میں نہیں ہو سکتے تو اس کے جواب میں امام جعفر صادق کا یہ جملہ کافی ہے "اگر یہ مقدار کافی نہ ہوتی تو اللہ اس کو بڑھا دیتا اور دوسری چیزوں پر بھی واجب کرتاـ"

دوسری طرف ہم دوسری بحثوں میں ثابت کر چکے کے اسلامی حکومت میں بہت سے شعبے موجود نہیں ہونگے اور اسلامی حکومت پر ان کا خرچ کے بار نہیں پڑے گاـ

 

فوج

س; کیا اسلام میں باقاعدہ فوج کا تصور بھی ہے ؟

ج; اسلامی فوج انتہائی منظم فوج ہے ,

س; اسلامی فوج کی تنظیم کس طرح ہوگی ؟

ج; اسلام میں ہر شخص سپاہی ہے اور ہر شخص کے لئے سپاہیانہ تربیت ضروری  ہے , ہر شہر سے باہر اگر روزانہ ایک یادو گھنٹے ہر شہری کو فوجی تربیت دی جائے تو بہت کم عرصہ میں پورا اسلامی ملک فوج بن جائے گا یوں حکومت پر باقاعدہ فوج کا بوجھ بھی نہیں ہوگا اور بوقت ضرورت ہر تربیت یافتہ دشمن کا دفاع کرنے کا اہل بھی ہوگا , ہاں جو لوگ اپنی مرضی سے باقاعدہ فوجی خدمات انجام دینا چاہیں تو انہیں ماہانہ تنخواہ بھی دی جاسکتی ہے .

س; اسلامی نگاہ میں جدید آلات حرب و ضرب کیسے ہیں ؟

ج;اسلام کی نگاہ میں وسائل کے مطابق تما م جدید جنگی ہتھیاروں سے لیس ہونا ضروری ہے اس سلسلہ میں صراحت کے ساتھ نص قرآن موجود ہے {اعدو الھم ما استطعتم من قوہ}

س; جو فوجی میدان جنگ میں کام آجائیں اسلامی حکومت ان کے پسماندگان کے لیئے کیا کرتی ہے؟

ج : جنگ میں کام انے والے فوجی کے پسماندگان اگر نادار ہیں تو اسلامی حکومت کا فرض ہوگا کہ ان کی حیثیت کے مطابق ہر طرح سے ان کی سرپرستی کرے .

 

عدلیہ

س; کیا اسلام میں عدلیہ کا باقاعدہ محکمہ ہے ؟

ج; اسلام میں عدلیہ کا نہ صرف تصور موجود ہے بلکہ اسلامی عدلیہ کے نظام کو منثورات عالم کی عدلیہ سے بدرجہا بہتر کہا جاسکتا ہے ,

س; اسلامی عدلیہ کیسی ہے ؟

ج; اسلام میں قاضی کی شرائط یہ ہیں , مرد ہو , مومن ہو اصول عدالت سے آشنا ہو , بلا معاوضہ فیصلہ کرے کسی قسم کی پیشگی درخواست کی ضرورت نہیں ہوتی , اسلام کا ایک ہی جج پر قسم کے مقدمہ کا فیصلہ کرسکتا ہے , اسلامی جج صرف عادل گواہوں کی شہادت قبول کرتا ہے , اسلامی عدالت میں کوئی تحریری شہادت قابل قبول نہیں ہوتی , یہی وجہ ہے کہ لاکھوں کے شہر میں ایک قاضی فیصلے کیا کرتا تھا , اور کبھی عوام الناس کو کسی قسم کی شکایت کا موقعہ نہیں ملتا تھا ,

س; قاضی کے فرائض کیا ہے؟ 

ج; قاضی اپنے معاونین کے تعاون سے اسلامی حکومت کے تمام محکموں کی نگرانی کرتاہے , تمام اوقاف , متولیان اوقاف , گمشدہ رقومات کا تحفظ اور انہیں اپنے مالکوں تک پہنچانا , بچوں کی املاک کا تحفظ , نادان افراد کی جائیدادوں کی نگرانی ان کی ترویج ان کی طرف سے خرید و فروخت , لوگوں میں فیصلے اجرائے حدود و غیرہ ,

س;کیا اسلام میں شعبہ وکالت بھی ہے ؟

ج;وکالت کے موجودہ پیشہ کی طرح اسلام میں کوئی ایسا سلسلہ نہیں ہے اور نہ ہی اسلامی نظام اس جیسے کسی سلسلہ کا محتاج ہے , کیونکہ اسلامی عدلیہ کا طریق کا راہنمائی آسان اور سہل ہے ,

س; اگر زمام اقتدار اسلام کے ہاتھ میں آجائے تو اسلام وکلاء کی موجودہ اتنی بڑی تعداد کے متعلق کیا کرے گا ؟

ج:اسلامی حکومت ایسے تمام افرادد کی ان کی خواہش کے مطابق مالی امداد کرے گی , اور انہیں دوسرے ترقیاتی کاموں میں لگائے گی , جب اسلام ان کی بیروزگاری کا کفیل ہو تو انہیں اسلامی نظام کی مخالفت کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی , اسلام شراب خانوں اور عیاشی کے اڈوں کو بھی بند کردے گا اور ایسے افراد کو روز گار کے دوسرے مواقع فراہم کرے گا , عورتوں کی صالح افراد سے شادیوں کا انتظام کرے گا ,

 

آزادی

س; کیا اسلام میں آزادی ہے ?

ج; اسلام میں ہر مکتب فکر کی نسبت زیادہ آزادی حاصل ہے اور تمام دساتیر عالم سے افضل ترین تصور آزادی اسلامی حدود و قیود  کے اندر موجود ہے ,

س; اسلامی آزادی کیسے ہے ?

ج;.........(١)اسلام میں تجارت آزاد ہے ہر شخص در آمد میں کلینہ آزاد ہے.اسلام میں کوئی چونگی کوئی در آمدی ٹیکس یا کوئی بر آمدی ٹیکس اور کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے البتہ اس شرط کے ساتھ در آمد یا بر آمد کی جانے والی چیز شرعاً نہ ہو , مثلاً شراب ,تجارت میں سودی لین دین نہ ہو , تاجر ذخیرہ اندوزی نہ کرے اور اسلامی حکومت کو در یا برآمد سے کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو ,

(٢) اسلام میں زراعت کی آزادی ہے ہر کاشتکار جو چاہے کاشت کرے , اسلام میں زرعی اصلاحات کا کوئی تصور نہیں , اگر مزروعہ اراضی جبراً لشکر اسلام نے فتح کی ہو تو کاشتکار پر ٹیکس فرض ہوگا جو حکومت کو دینا ہوگا اسی ٹیکس کا نام خراج ہے , اگر کاشتکار غریب ہو تو اسلامی حکومت پر اس کی حیثیت کے مطابق اس کی ضروریات کا خیال رکھنا فرض ہوگا , اسلام میں ملکیت کی کوئی حد نہیں ہے , ہاں دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہوگا, اسلامی حکومت خمس اور زکوة کے علاوہ کوئی ٹیکس عائد نہیں کر سکتی ,

(٣) اسلام میں ہر اعتبار سے صنعتی آزادی ہے , جو شخص جو بنانا چاہے وہ آزاد ہے البتہ یہ خیال رکھنا ہوگا کہ بنائی جانیوالی شینی اسلام میں حرام نہ ہو ,

(٤)اسلام میں کسب معاش اور اوقات کار کی آزادی ہے , شکار کرنا , معدنیات نکالنا , تمام مباح چیزوں کی جمع آوری میں پر شخص ہر وقت ہر حیثیت سے آزاد ہے اسلامی حکومت نہ ہو تو کسی کو روک سکتی ہے نہ کسی قسم کی شرائط عائد کرسکتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا ٹیکس لگاسکتی ہے البتہ جن چیزوں کو اسلام نے حرام بتایا ہے ان سے کسب معاش پر پابندی ہوگی ,

(٥)اسلام میں سفر اور رہائش کی قطعی آزادی ہے , جس کا دجہاں چاہے وہاں رہے اسلام میں جغرافیائی حدود رنگ و نسل افراد کی نقل مکانی پر پابندی لگائی جاسکتی ہے ,

(٦) اسلام میں تحریر و تقریر کی مکمل آزادی ہے ہر شخص اپنی فکر نشر کرنے , کتاب لکھنے , اخبار نکالنے , جماعت بنانے ریڈیو رکھنے , ٹی وی رکھنے , فون , وائر لیس وغیرہ جیسی تمام ضروریات میں آزاد ہے البتہ اسلامی حکومت کی  مصالح کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا,

(٧) اسلام میں ہر شخص ہر اعتبار سے آزاد ہے , اگر ایک شخص ڈرائیور ہے تو اسے لائسنس لینے کی کوئی ضرورت نہیں , وہ جائز کام میں آزاد ہے , جو اسلامی حدود کے اندر اسلامی احکام کے مطابق اسلامی مملکت کی فلاح و مصلحت کے خلاف نہ ہو,

س;آپ کے بیان کے مطابق تو اکثر محکمہ جات کو کالعدم کرنا پڑے گا ?

ج; میں نے ابتدا عرض کیا ہے کہ اسلامی مملکت کو اتنے زیادہ ملازمین کی ضرورت ہرگز نہیں جتنے محکمہ جات اس وقت حکومتوں نے بنا رکھے ہیں اور ان کے ملازمین کا بوجھ اٹھا رکھا ہے ,جب ملازمین کم ہوں گے تو ظاہر ہے اسلامی حکومت کا بوجھ بھی از خود کم ہوگا ,

 

ثقافت

س؛ اسلامی نظام ثقافت کیا ہے ؟

ج؛ اسلام نے ہر مرد عورت پر تعلیم فرض قراری ہے اور اس سلسلہ میں حکومت پر فرض کیا ہے کہ وہ تعلیم کے تمام ممکنہ وسائل مہیا کرے ـ

س:اگر اسلام نے ایسا حکم دیا ہے تو پھر امت مسلمہ تعلیمی میدان میں پیچھے کیوں ہے ؟

ج: وجہ واضح ہے کہ امت مسلمہ نے اسلامی راہ کو چھوڑ دیا ہے ورنہ جس وقت امت مسلمہ اپنے راستے پر تھی اس وقت اسلامی ثقافت کا ڈنکا تھا اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آج بھی مغرب اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ دور حاضر میں وسائل کی کثرت کے باوجود مغرب ابھی تک مدارس کتب اور تحقیق کے اعتبارسے اس مقام پر نہیں پہنچ سکاجس مقام پر ایک وقت اسلام قلت وسائل کے باوجود پہنچا ہوا تھا ـ

س: کیا اسلام کا لجوں اخبارات ٹی وی ریڈیو اور سنیما کو جائز نہیں سمجھتا ؟

ج:اسلام مفاسد کو جائز نہیں سمجھا اگر انہی چیزوں کو معاشرتی برائیوں سے پاس کردیا جائے تو اسلام انھیں خوش آمدید کہتا ہے ـ

س: اسلامی ثقافت اور موجود ثقافت میں فرق کیا ہے ؟

ج: اسلامی ثقافت اور موجودہ ثقافت میں اہم فرق واضح ہے ـ اسلام علم کو ایمان اور عمل صالح کا ذریعہ سمجھتا ہے جب کہ موجودہ ثقافت میں ایمان اور عمل صالح دقیانوسی نام ہیں موجودہ ثقافت میں لا مذہب اور اخلاقی پستی کا عنصر اہم ہے یہی وجہ ہے کہ وہ علم جو ترقی امن اور سلامتی کا بہترین وسیلہ تھا آج وہی بد امنی تنزل اور اخلاقی کمینگی کا ذریعہ بن گیا ہے ـ

 

اسلام اور جسمانی صحت

س؛کیا اسلام میں جسمانی صحت کا شعبہ بھی ہے ؟

ج؛ اسلام نے جسمانی صحت کے لئے احتیاط اور علاج ہر دو کا مکمل نظام پیش کیا ہے ـ

س؛اسلام کا نظام صحت کیسا ہے ؟

ج؛ اسلام نے نظام صحت تین بنیادی امور میں بنایا ہے ـ

اصول حفظان صحت ـ اسلام نے انسانی صحت کے تحفظ کی خاطر اولاً تو ہر اس شینی کو حرام قرار دیا ہے جو مخالف صحت ہے ٬ اور بیماریوں کا سبب ہو ٬ مثلاًشراب ٬ زنا٬ مضر صحت اشیاء اور لہوو لعب وغیرہ ثانیاً اسلام نے اصول زندگی ایسے وضع کیئے ہیں ٬جو صحت کے لئے ضامن ہیں مثلاً صفائی ٬ پچھنے لگانا٬ فصد کھلونا ٬ روزہ رکھنا ٬ تیل لگانا ٬ شادی کرنا سرمہ لگانا ٬ سونا اور مناسب خوردونوش ٬ ثانیاً اسلام نے ہرمرض کا شافی علاج بتایا ہے اور یہ تمام علاج انتہائی آسان اور سستے ہیں اور سلسلہ میں طب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور طب آئمہ علیہ السلام کی طرف رجوع کیاجا سکتا ہے معالج کتنا ہی حاذق کیوں نہ ہو اسلام نے اسے انسان کا ضامن قرار دیا ہے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ طبیب تشخیص مرض اور علاج میں کسی بھی وقت کسی قسم کی غفلت اور تساہل سے کام نہ لےـ

 

اسلام اور ازدواجی زندگی

س: اسلام ازدواجی زندگی کے متعلق کیا نظریہ رکھتا ہے ؟

ج: اسلام نے ازدواجی زندگی کو خوشگوار رکھنے کی خاطر عورت کے لئے پر دہ کو واجب قرار ہے حکم قرآن ہے اگر تمہیں ازدواج نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ پوچھنا بھی ہو تو پردہ کے پیچھیے سے پوچھ لیا کرو ـ بصورت حجاب عورت اور مرد کی باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے گھر کی اضافہ ہوتا ہے گھر کی فضا خوشگوار رہتی ہےـ نہ مرد کسی نا محرم کو دیکھتا ہے اور نہ عورت کسی اجنبی کو دیکھتی ہے ـ پردہ کے معنی بالوں اور فتنہ انگیز مقامات کا چھپانا ہے ـ

س:کیا اسلام میں عورت لے لیئے حصول علم اور ملازمت کرنا ناجائز ہے؟

ج:اسلام نے نہ تو عورت کے لیے حصول علم پر پابندی عائد کی ہے اور نہ ہی ملازمت سے روکا ہے٬اسلام نے عورت کی بے حجابی اور پاکدامنی کے خلاف امور کو حرام قرار دیا ہے٬خواہ وہ گھر کا ماحول ہو یا تعلیمی ادارہ یا ملازمت کا میدان ـ

س:اسلام کی عورت کےبارے میں کیا رائے ہے ؟

ج: اسلام نےازدواجی زندگی کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے ـ ( خارجی اور داخلی ) خارجی زندگی مین محنت مشقت اور جانفشانی ہے ٬ اس لئے اسلام نے خارجی معاملات کا تعلق مرد سے ہے اور داخلی زندگی میں امن ٬ سکون اور چین کی ضرورت ہوتی ہے اسلام نے عورت کو مان کی فاختہ کے بطور گھر کا پابند کیا ہے عورت فطر تاً نرم خو ـ نرم مزاج اور معدن رحم و ترس ہوتی ہے اور بچے کو آغاز عمر میں انہی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ٬ مردمیں سختی اور ترشی ہوتی ہے جو سخت جاتن کے ضروری عناضر ہیں ٬ اگر عورت کو چار دیواری سے بار لایا جائے اور عورت کو مردوں کے دوش بدوش کھٹرکردیا جائے ٬ تو ظاہر ہے کہ بچوں کی تربیت مرد کو کرنا پڑی گی اور یہ ناممکن ہوگا ٬ کیونکہ جس چیز کی بچے کو ضرورت ہے وہ مرد میں نہیں ہے اور جس میز کی خارجی زندگی کو ضرورت ہوتی ہے اس کےلئے عورت تہی دست ہوتی ہے نتیجہ یہ ہوگا کہ مرد بچے کی تربیت نہ کرسکے گا اور عورت بیرونی میدان میں کامیاب نہ رہے گی ٬ یوں معاشرتی ترقی کی بجائے رو بہ تنزل ہوگا جیسے اس وقت عالم مغرب ہمارے سامنے ہے ـ

س: شادی کے متعلق اسلام کا کیا نظریہ ہے ؟

ج:اسلام ٬عورت کو بالغہ اور راشدہ ہونے کے بعد جو مغرافیائی حالات کے مطالبق نویں یا تیرہویں برس ہوتی ہے اور مرد کو بالغ اور راشد ہونے کے بعد جوجغرافیائی حالات کے مطابق پندرہویں ٬ اٹھارہویں برس میں ٬ اس کی شادی کی سختی سے تاکید کرتا ہے تا کہ عورت یا مرد میں سے کوئی بھی جنسی بے راہروی کاشکار نہ ہو ـ

س: لڑکوں اور لڑکیوں کو مخلوط تعلیم یاد یگر مقامات پر محفوظ زندگی کے متعلق اسلام کیا کہتاہے ؟

ج: یہ صورت علی الاخلاق ناجائز ہے خواہ کہیں بھی ہو ٬ تعلیم ہو تیراکی ہو ٬ ملازمت ہو یا کوئی سیاسی پلیٹ فارم ہو کیونکہ نہ صرف نگاہ اسلام مین یہ امتزاج باعث فساد و فتنہ ہے بلہ اب تو اس کے نتائج اور مشدات بھی ہمارے سامنے ہیں ـ البتہ حج اور مقامات مقددسہ کی زیارت میں چونکہ عورت اور مرد دونوں کی نیت میں تقدس ہوتاہے اس لئے یہ اجتماعات ناجائز نہیں ہیں ـ

س: اسلام کی نظر میں ازدواجی زندگی میں عورت اور مرد کے کیا فرائض ہیں ؟

ج: مرد پر عورت کے تمام ضروری اخراجات واجب ہیں ٬ عورت پر شوہر کی اطاعت واجب ہے حتی کہ گھر کی چاردیواری سے باہر بھی بلا اجازت نہیں جاسکتی٬ البتہ دوسرے گھر یلو کا م عوت کے فرائض سے نہیں  ہیں ٬ نکاح عورت کی رضا کے بغیر نہیں ہوسکتا اور طلاق مرد کے ہاتھ میں ہوتی ہے ـ

س: کثرت ازدواج کے سلسلہ میں سلام کا نظریہ کیا ہے ؟

ج: اسلام نے چار تک دائمی نکاح کرنے کی اجازت دی ہے اور اس اجازت کے ساتھ ضروریات زندگی میں اس کے مانین عدالت کو واجب قرار دیا ہے اس سہولت سے اسلام کے پیش نظر بیوائیں اور ان جیسی دیگر ستم رسیدہ عورتوں کی بھلائی ہے ـ

 

اسلام اور جامع انسانی ادارہ

جو کچھ ہم موجودہ معاشرہ میں دیکھ رہے ہیں اسلامی معاشرہ اس سے قطعی مختلف ہے کیونکہ اسلام مین دوالت ہے ٬ چونکہ غیر اسلامی ممالک کی خواہش بھی اسی قسم کی ہے اس لئے انھوں نے ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے اور وہ ہے انسانیت کے نام پر موجودہ معاشرہ میں شخصی اغراض کو تقدم حاصل ہے جب کہ اسلام شخصی اغراض کو کم اور اجتماعی مقاصد پر زیادہ نظر رکھتا ہے اگر اسلامی معاشرہ بردئے کار لایا جائے تو اس سے موجودہ دور کی پیدا کردہ بہت سی مشکلات از خود ختم ہوجائیں گی ٬ اور اسلامی معاشرہ میں فرداور جماعت ہر دو میں باہمی محبت اور انس پیدا ہوگا ـ

اسلامی نظام کے تحت ایک بہار بن سکتی ہے ٬ کتنے لوگ ہیں جو بنانا چاہتے ہیں ٬ زمین کاشت کرنا چاہتے ہیں ٬ صنعتی لگانا چاہتے ہیں تجارت کو وسعت دینا چاہتے ہیں ٬ دولت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں اور انھیں ایک ایسی فضا کی خواہش ہے جس میں ظلم نہ ہو ٬ حد بندی نہ ہو ٬ کوئی قید و شرط نہ ہو کوئی تکلیف نہ ہو ٬ غربت نہ ہو٬ لیکن موجودہ قوانین ابھیں کچھ بھی نہین کرنے دیتے جبکہ یہ سب کچھ ایک وقت میں ہوچکا ہے ـ حالانکہ اس وقت وسائل اتنے زیادہ نہیں تھے ـ

جی ہاں!اگر مسلمان اپنے آپ کو ایک روشن مستقبل کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ٬ جو کہ ان کے انتظار میں ہے تو ابھیں پیغمبر گرامی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حکومتی طریقہ کار کو اختیار کرنا ہوگا اور ملت واحدہ اسلامی ٬ اسلامی بھائی چارہ ٬آجادی ٬ شوری کا نظام اور دوسرا اسلامی احکام کا اجرا کرنا ہوگا ـ

ہر ایک مسلمان شخص پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے مقام ر اسلامی نظام کے دوبارہ واپس لانے اور اس مقدس مقصد کو عملی جامع پہنانے کی پوری کوشش کرے اور اس طرح اللہ تعالی بھی ان کا مددگار ہوگا ـ