حضرت آيت الله العظمى سيد صادق حسينى شيرازى دام ظله العالى كى حيات طيبه بر ايك نظر



عصر حاضر و مرجعیت

موجودہ تیز رفتار مادی زندگی کے اس عہد میں ہماری مرجعیت آزمائشوں کے پل صراط پر ہے ۔خاص طور سے ایسے وقت میں جب اسلام دشمن طاقتیں ہمارے مادی و معنوی استحصال میں سرگرم ہیں،اس وقت ایک دینی مرجع کو مادّی ترقی کی دوڑ میں معاشرے کو پیش آنے والے پیچیدہ ترین مسائل کا نہ صرف تجزیہ کرنا ہے بلکہ حل بھی پیش کرنا ہے ایسے ماحول میں مرجع کادست مبارک عصری تقاضے کی نبض پر ہونا چاہیئے۔وہ بدلتے حالات و مسائل کو روحانی آنکھوں سے ملاحظہ کر کے مرض کی نشان دہی کرے اور پھر اپنی روحانی دوا سے اس مرض کا علاج کرے اوراسلامی معاشرے پر حملہ آور استحصال پسند طاقتوں کے خلاف نبرد آزما رہے۔
ایک مرجع کوچاہیئے کہ وہ جناب حبیب ابن مظاہر کی طرح فقیہ کے ساتھ ساتھ ‘‘مرد میدان بھی ہو۔عصر حاضر میں اسلامی معاشرے کے مسائل پر گفتگو حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی حد سے آگے بڑھ کر اس منزل پر پہنچ گئی ہے کہ ناموس مذہب امام زمان علیہ السلام کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے ۔عصر ی پیچیدگیوں نے احکام میں تنوع پیدا کر دیا ہے۔
مرجع کے تعین کے سلسلہ میں بھی شیعی معاشرے کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔اب شیعی معاشرے کو یہ محسوس کرلینا چاہیئے کہ ساری دنیا میدان کارزار ہے اور یہ معرکہ حق و باطل علم و دانش کے ساتھ عمل و جہاد کا بھی مطالبہ کر رہا ہے ۔ایسے میں مرجع کا انتخاب کرتے وقت شخصیات میں فقہی بصیرت کے ساتھ اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف جہاد کے نظائر بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔فکر و عمل سے جہادی اقدام اب ایک مرجع کے ضروری صفات میں سے ہے۔اب اگر اسی کے ساتھ ساتھ خاندانی علمی جلالت و وقار بھی وراثت میں موجود ہو تو اسے یقینی طور پر اولویت اور فوقیت حاصل ہے ۔
اس کتابچے میں جس مرجع دین و شریعت کے مختصرحالات زندگی پیش کئے جا رہے ہیں وہ حوزہ علمیہ قم کاایک ایسا عظیم مجاہد ہے کہ جس کے اسلاف میں مرجعیت کی ایک طویل فہرست ہے چنانچہ آپ کے والد بھی مرجع تھے جو کربلا ئے معلی اسی لیے منتقل ہوئے کہ کربلا کے قدیم حوزہ علمیہ کوزندہ کریںاور وہاں ایسے مجاہد تیار کیے جائیں جوسامراجیت کا بخوبی مقابلہ کر سکیں۔
باپ کے انتقال کے بعد آپ کے برادر بزرگ حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی رحمة الله عليه کی فقہی بصیرت،تدبیر امور،اور عملی جہاد کی عظیم منصوبہ بندی کو دیکھ کر علماء کرام نے ریاست دینی کو آپ کی طرف منتقل کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی رحمة الله عليه کے کارناموں کو اس مختصر کتابچہ میں ذکر کرنا تقریبا ناممکن ہے ،آپ کی مجاہدانہ زندگی کے ہر مرحلہ میں آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ ساتھ ساتھ رہے اور بھائی کے معاون بنے رہے۔جب آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی رحمة الله عليه کو عراق سے ہجرت کرنی پڑی تو آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ بھی آپ کے ساتھ کویت اور بعد میں ایران تشریف لائے۔ان تمام برسوں میں آپ نے اس مرجع عظیم کے کاندھوں کا بوجھ ہلکا کرنے میں کافی مدد کی۔۔۲ شوال ۱۴۲۲ھ کو عالم تشیع اس مرد مجاہد کے غم میں ڈوب گیا جس کی پوری زندگی معارف اہل بیت عليه السلام کی نشر و اشاعت اور دفاع اہل بیت عليه السلام میں گزر گئی۔آیۃ اللہ سید محمد شیرازی رحمة الله عليه کے بعد عالم تشیع کی مرجعیت آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ کے حوالہ کئے جانے کا اعلان کیا گیا ،جس کی وجہ سے عالم تشیع کو ایک ڈھارس محسوس ہوئی۔بلا شبہ آپ اسلام اور تشیع کی صدائے استغاثہ کا نتیجہ ہیں ۔خدا آپ کی عمر دراز کرے اور عالم تشیع کو آپ کے سایہ تلے اس پر آشوب دور میں حقیقی منتظر امام زماں عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف بننے کی توفیق عطا کرے۔

حالات زندگی

آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی ۲۰ ذی الحجہ ۱۳۶۰ھ کو کربلا میں پیدا ہوئے ۔آپ کا تعلق ایک مشہور علمی گھرانہ سے ہے ، اس خاندان میں بچوں کو علم دین حاصل کرنے کی طرف بہت زیادہ ترغیب دی جاتی رہی ہے ۔آپ نے بھی اپنے اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اہل بیت عليه السلام کے علوم کو حاصل کرنے میںبہت زحمت برداشت کی۔۱۰ سال کی عمر میں آپ نے خاندان کی رسم و سنت پر عمل کرتے ہوئے لباس روحانیت کو زیب تن کیا اور عالم وجود کی عظیم ہستیوں یعنی حضرت امام حسین عليه السلام اور حضرت ابوالفضل العباس عليه السلام کے جوار میں علوم آل محمد عليه السلام کسب کرنے کا شرف حاصل کیا۔
آپ نے شروع میں اپنے والد سے درس حاصل کیا اور بہت جلد سطحی دروس کو تمام کیا اور اس کے بعد عراق کے بڑے مراجع کرام کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور درجہ اجتہادپر فائز ہوئے۔آپ نے فقہ اور کلام میں کافی شہرت حاصل کی اور ایران آنے کہ بعد آپ کا شمار بڑے علماء میں کیا جانے لگا۔آپ کے درس خارج میں آج بھی کثیر تعداد میں طلاب اور علماء کرام شرکت کرتے ہیں اور الِ محمد صلى الله عليه وآله کے اس جاری چشمہ زلال علم سے اپنی معرفت کی تشنگی بجھاتے ہیں۔علماء اسلام فقہ واصول، رجال و درایہ،حدیث اور تفسیر میں آپ کے تسلط کو تسلیم کرتے ہیں۔

آپ کے اساتذہ

آپ نے جن مشہور آیات عظام کے آگے زانو ئے ادب تہہ کیا ان میں
۔آپ کے والد حضرت آیت اللہ العظمیٰ میرزا مھدی حسینی شیرازی؛۱۳۰۴۔۱۳۸۰۔
آپ کے بڑے بھائی حضرت آیت اللہ العظمیٰ حاج سیدمحمد حسینی شیرازی ؛۱۳۴۷۔۱۴۲۲۔
آپ کے بھائی شہید حضرت آیت اللہ حاج آقا سید حسن حسینی شیرازی؛۱۳۵۲۔۱۴۰۰۔
مرحوم آیت اللہ العظمیٰ سید ھادی میلانی؛۱۳۱۳۔۱۳۹۵۔
مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد رضا اصفہانی رحمة الله عليه
۔مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد شاہرودی رحمة الله عليه
۔مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد صدقی مازندرانی رحمة الله عليه
۔مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ جعفر رشتی رحمة الله عليه جیسے بزرگ افراد شامل ہیں ۔

علمی مقام

فقہاء کے درمیان مشہور ہے کہ مراجع تقلید میں اعلمیت شرط ہے۔عروۃ الوثقی میں محقق یزدی رحمة الله عليه نے اعلم کے شروط بیان فرمائے ہیں:
۱۔نحو و صرف و عربی لغت کا بہترین جاننے والا ہو۔
۲۔ مسائل کی بنیاد سے اچھی طرح واقف ہو۔
۳۔امثال و نظائر پر دقیق نظر رکھتا ہو۔
۴۔کثرت سے احادیث و روایات کا مطالعہ ہو۔؂
۵۔ حدیثوں سے بہترین واقفیت رکھتا ہو۔
اس کے بعد بطور اختصار فرماتے ہیں کہ استنباط پر اچھی طرح متمکن ہو ۔
آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ کی کتاب بیان الفقہ اور بیان الاصول اور فقہی و اصولی ابحاث کی تدریس (درس خارج)اور بزرگ علماء کے ساتھ ہونے والے علمی مباحثہ و مناقشہ ،آپ کی اعلمیت اوراستنباطی صلاحیت پر واضح دلیل ہیں۔موصوف کی علمی زندگی میں اہم ترین قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ چالیس سال سے فقہ و اصول اور معارف اہل بیت کے سلسلہ سے مسلسل جد و جہد فرما رہے ہیں۔
درس خارج میںعلمی اعتراضات کا اختیار ہر ایک کو ہوتا ہے اور آپ ان اعتراضات کا تمام تر یقین اور سعئہ صدر کے ساتھ جواب دینے میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔
آپ کے علم و تقدس ،خلوص ، تقوی و پرہیزگاری اور اہل بیت عليه السلام سے شدید محبت کی گواہی عظیم فقہا و مجتہدین نے دی ہے۔انشاء اللہ ان تمام امور کو ایک مستقل کتاب میں جلد ہی بیان کیا جائے کا۔
موصوف کی علمی استعداد کے لئے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ آپ کے بڑے بھائی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی رحمة الله عليه اپنے احتیاطی مسائل میں موصوف کی طرف رجوع فرماتے تھے۔آپ اپنے بڑے بھائی کی مرجعیت کے مختلف شعبوں میں خاص کر علمی میدان ،استفتاء ات اور حوزوی امور میں دست راست کی حیثیت رکھتے تھے۔
مرجع دین آیت اللہ العظمیٰ سید محسن حکیم رحمة الله عليه نے آیت اللہ العظمیٰ سید مہدی شیرازی رحمة الله عليه کی وفات کے موقع پر فرمایا تھا کہ بیشک ہم ایک مہدی سے محروم ہوئے لیکن اس نے ہمارے لئے چار مہدی چھوڑے ہیں۔

آپ کا اخلاق

آیت اللہ العظمیٰ سیدصادق شیرازی دام ظلہ اخلاق حسنہ کا عملی نمونہ ہیں ۔آپ کی تواضع اورانکساری زبان زد خاص وعام ہے ۔ جو آپ سے ایک بار ملاقات کر لیتاہے وہ آپ کے اخلاق کا گرویدہ ہو جاتا ہے ۔آپ کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ آپ ہر آنے والے کی تعظیم کے لئے پورے قد سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔اور ہر آنے والے شخص کی خیریت دریافت کرتے ہیں۔اتنی مشغولیت کے باوجود ملنے والے سے اس کے اہل خانہ کی خیریت ضرور پوچھتے ہیں۔
آنے والے اگرنو جوان ہوں تو معمولا آپ اسے چند چیزوں کی تلقین ضرور کرتے ہیں :
۱۔اپنے اخلاق اخلاق محمدی صلى الله عليه وآله سے استوار کرو اور دشمن سے بھی بد اخلاقی سے پیش نہ آؤ۔
۲۔اپنے ہر عمل کواللہ کے لئے انجام دو۔
۳۔ہر دن محاسبہ نفس کرو(یعنی ہر دن ۵۔۱۰ منٹ اکیلے میں بیٹھ کر یہ دیکھوں کہ آج کا دن تم نے کس طرح گزارا)
اس کے ساتھ ساتھ آپ عمومی درس اخلاق بھی کہتے ہیں اور عراق کویت اور ایران میں آپ کے اخلاقی دروس کا کافی شہرہ ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ کے اخلاقی دروس کو کتابی شکل بھی دی جاتی رہی ہے اور اب تک کئی جلدیں چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔جن میں ’’نسیم ہدایت‘‘۴ جلد،’’درسنامہ امام صادق عليه السلام ‘‘،’’ای اباذر این گونہ باش‘‘، ’’زیور خوبان‘‘،’’العلم النافع‘‘،’’احیاء عاشورا‘‘ و غیرہ قابل ذکر ہیں۔

تدریس اور شیعیوں کی قیادت

آپ نے ۱۳۹۸ ھ میں درس خارج کہنا شروع کیا اور آج بھی آپ کے دروس سے طلاب کی کثیر تعداد کسب فیض کرتی ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ ہمیشہ تشیع کی طرف متوجہ رہے۔آپ نے تمام مشکلات کے باوجود تحصیل اور تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور ال محمد عليه السلام کے فیض کو پہنچانے کا جو عظیم کام آپ نے اپنے لئے مقدر کیا تھا اس پر قائم رہے۔آپ نے ہزاوں کی تعداد میں شاگردوں کی تربیت کی تاکہ چشمہ اسلام جاری اور ساری رہے۔آج آپ کے تربیت یافتہ شاگرد پوری دنیا میں پھلے ہوئے ہیں اور خدمت اسلام انجام دے رہے ہیں۔
شاگردوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ آپ نے دوسرا اہم کام یہ انجام دیا کہ اہل بیت عليه السلام کی حقانیت اور آنحضرت عليه السلام کے فضائل کو دنیا تک پہنچانے کے لئے کتابیں لکھیں۔آپ نے کتاب لکھنے کا سلسلہ جوانی سے ہی شروع کر دیا تھا اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔الحمد للہ۔
آپ نے نہ صرف یہ کہ عوام الناس کے لئے کتابیں لکھیں بلکہ علماء اور فضلاء کے لئے بھی مفید کتابیں تحریر کیں۔یہ تمام چیزیں آپ کی علمی عظمت و منزلت کی بہترین گواہ ہیں۔

تالیفات

آپ کا قلمی جہاد افاقی اور ہمہ گیر ہے ۔کتابیں دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی انھیں وقت کی اہم ترین ضرورت محسوس کر کے لکھا گیا ہے۔سلاست و روانی ،متین لہجہ،عمیق مسائل کا نہایت سادہ و آسان تجزیہ اور یہ تمام باتیں سبھی موضوعات میں عام ہیں۔چاہے موضوع فقہ و اصول ہو یا تفسیر و حدی،کلام ہو یا اخلاق و سیاست غرض ہر موضوع پر دقیق و عمیق تالیفات و تصانیف موجود ہیں ۔ان کتابوں میں ہر صنف وہر ذہنی سطح کے لوگوں کے لئے بھر پور مواد موجود ہے ۔ جوانوں کے لئے ثقافتی کتاب کا معیار بڑا ہی مفید و بلند ہے۔
ان مختصر کتابوں کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ موجودہ زمانے میں تیز رفتار زندگی کسی ضخیم کتاب کو پڑھنے کا موقع نہیں دیتی اور اگر موقع میسر بھی ہو جائے تو طبعیت اکتا جاتی ہے۔ اس نفسیات کے پیش نظر مختصر و جامع انداز میں اسلام کی اہم باتوں کو پیش کیا گیا ہے ۔ جوانو ں میں غدیری ثقافت کی روح پھوکنے کے لئے مختصر کتابچے تحریر کئے ہیںیا اپنی تقاریر کو تحریری شکل دینے کا حکم دیاہے ،ان کی زبان بظاہر سادہ ہے لیکن افکار عمیق ہیں۔
۱۔بیان الفقہ
یہ در اصل عروہ الوثقیٰ(تالیف ایت اللہ سید محمد کاظم یزدی رحمة الله عليه )کی اساس پر آپ کی فقہی مباحث کا مجموعہ ہے اور اس میں فقہی استدلال کے ذریعہ اپنے نظریات کو بیان کیا ہے۔اس کتاب کی ۴ جلدیں جن کا موضوع ’’اجتہاد و تقلید ‘‘ہے اب تک چھپ چکی ہیں اور باقی جلدوں کے سلسلہ میں کام جاری ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اجتہاد و تقلید کے موضوع پر اتنی وسیع و عمیق بحث اس سے پہلے کی کتابوں میں موجود نہیں ہے۔
۲۔بیان الاصول(۱۰ جلد)
یہ کتاب اصول کی بحث پر مشتمل ہے۔اس کی ایک جلد ’’لاضرر و لا ضرار‘‘ کے قاعدہ سے تعلق رکھتی ہے،۳ جلد یں ’’استصحاب‘‘ کی بحث پرمشتمل ہیں،’قطع و ظن‘ اور تعادل و تراجیح‘ کے سلسلہ میں بھی ایک ایک جلد ہے باقی جلدیں بھی جلدمنظر عام پر آنے والی ہیں۔
۳۔توضیح شرائع الاسلام(۴ جلد)
محقق حلی کی کتاب شرائع الاسلام جو کہ حوزہ کی درسی کتابوںمیں شامل ہے۔آپ نے اس کتاب میں محقق حلی کی کتاب کی پر توضیحات دی ہیں جو طلاب کے لئے کافی مفید ثابت ہوئی اور حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیز میں اس کتاب کا بہت استقبال ہواجس کی بنا پر یہ متعدد بار چھپ چکی ہے۔
۴۔شرح تبصرۃ المتعلمین(۲ جلد)
یہ کتاب علامہ حلی کی کتاب تبصرۃ المتعلمینکی شرح ہے جو آج بھی کافی مدارس میں درسی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ کتاب ۱۳۸۶ ھ میں کربلامعلی میں تالیف کی گئی۔
۵۔شرح سیوطی(۲ جلد)
یہ کتاب مدارس میںعلم نحو کے سلسلہ سے پڑھائی جانے والی کتاب سیوطی کی شرح ہے۔یہ کتاب حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی میں عربی گرامر پڑھنے والے افراد کے لئے کافی مفید ہے اور اب تک کئی مرتبہ چھپ چکی ہے۔
۶۔شرح اللمعۃ الدمشقیۃ(۱۰جلد)
یہ کتاب شہید اول کی کتاب اللمعہ کی شرح اور اور دس جلدوں پر مشتمل ہے۔بعض مشکلات کے سبب یہ کتاب ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکی ہے۔
۷۔الموجز فی المنطق
یہ کتاب منطق کی بحثوں کا اجمالی تعارف ہے اور مبتدی طلبہ کے لئے کافی مفیدکتاب ہے۔یہ کتاب بعض حوزہ علمیہ کے درسی نصاب میں بھی شامل ہے۔

اعتقادی کتابیں
آپ نے اپنی علمی تالیفات کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں اعتقادی کتابیں لکھیں ہیں جن میں اہل بیت علیھم السلام کے فضائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے ان کی مظلومیت کا ذکر بھی کیا ہے اور دشمنوں کی طرف سے ہونے والے اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے۔ہم یہاں پر کچھ کا ذکر کر رہے ہیں:
۱۔علی عليه السلام فی القران
یہ کتاب ۲ جلد پر مشتمل ہے ۔اس میں اہل سنت کے نزدیک جو آیات حضرت علی عليه السلام کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں ان کو نقل کیا گیا ہے ۔آپ اس کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں کہ مسلک امامیہ کے نزدیک ایک تہائی قرآن حضرت علی عليه السلام کی شان میں نازل ہوا لیکن میں اس کتاب میں صرف ان آیات کو نقل کر رہا ہوں جن کو سنی علماء نے تسلیم کیا ہے۔ان آیات کی تعداد ۷۱۱ہے ۔اس کتاب کا اردو ترجمہ ہندوستان اور پاکستان میں موجود ہے۔
۲۔فاطمہ الزہرا (سلام اللہ علیھا)فی القران
اس کتاب میں آپ نے ان آیات کو جمع کیا ہے جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں اور جن کو علماء اہل سنت نے اپنی کتابوں میں جمع کیا ہے۔ یہ کتاب علماء اہل سنت کے نزدیک شہزادی کونین صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرائ(سلام اللہ علیہا)کی عظمت اور منزلت کی بہترین دلیل ہے،جن کو آپ نے اس کتاب کی شکل میں پیش کیا ہے۔
۳۔اہل بیت عليه السلام فی القران
اس کتاب میں آپ نے اہل بیت عليه السلام کے سلسلہ میں نازل شدہ ان آیات کو جمع کیا ہے ،جن کو اہل تسنن نے تسلیم کیا ہے۔اس کتاب کا اردو ترجمہ موجود ہے۔
۴۔الشیعہ فی القران
یہ کتاب بھی اہل سنت کی کتابوں میں شیعہ کے سلسلہ سے نازل شدہ آیات پر مشتمل ہے۔اور اس میں آپ نے شیعوں کی حقانیت کو قرآنی آیات سے ثابت کیا ہے۔
۵۔المہدی عليه السلام فی القران
اس کتاب میں آپ نے امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلہ میں نازل شدہ ان آیات کو جمع کیا ہے ،جن کو اہل تسنن نے تسلیم کیا ہے۔اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی موجود ہے۔
۶۔المہدی عليه السلام فی السنتہ
اس کتاب میں اہل سنت کی کتابوں میں موجود ان احادیث کو جمع کیا ہے جو امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلہ میں نقل کی گئی ہیں۔اس کتاب کا اردوترجمہ بھی موجود ہے۔
۷۔حقایق عن الشیعہ
یہ کتاب آپ نے کربلا میں لکھی تھی ۔اس کا اسلوب بہت دلچسپ ودل نشین ہے۔ گفتگو کے ذریعہ شیعہ مسلک کے بعض اہم مسائل کو بیان کیا گیا ہے اورشیعت کی حقانیت اور مشروعیت کو ثابت کیا گیا۔اس کتاب کا اردو ترجمہ موجود اور یہ کتاب اردو کی سایٹ پر بھی موجود ہے۔

آپ کی فقہی کتابیں
’’صلوات الجماعۃ‘‘
نماز جماعت کے سلسلہ میں لکھی گئی اس کتاب میں آپ نے نماز جماعت کے فلسفہ اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔
’’القیاس فی الشریعۃ الاسلامیۃ‘‘
’’الصوم‘‘
’’الحج‘‘
’’تمھیدات فی الاقتصادیۃ‘‘
’’الربا المشکلۃ الاقتصادیۃ‘‘
’’السیاسۃ من واقع الاسلام‘‘
’’الخمر کولیرا المجتمع‘‘
’’مساوی السفور‘‘
’’قصص توجیھیۃ‘‘
’’العقوبات فی الاسلام‘‘
’’الطریق الی بنک اسلامی‘‘

شخصیات پر آپ کی تالیفات
مالک الاشتر النخعی:
یہ کتاب آپ نے حضرت مالک اشتر النخعی جو کہ حضرت علی علیہ السلام کے سپہ سالار تھے کے بارے میں لکھی ہے ۔
الشھید الاول
یہ کتاب کربلائے معلی میں شہید اول شیخ شمس الدین ابی عبداللہ محمد بن جمال الدین مکی کے مختصر حالات زندگی پر تالیف فرمائی۔
الشھید الثانی
ان متنوع مسائل و موضوعات پر آپ کی تصانیف کو دیکھ کر حیرت نہیں ہونی چاہئے ۔آپ کا تعلق ایسے گھرانے سے ہے جس میں آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی ا علیٰ اللہ مقامہ جیسی شخصیات موجود ہیں جن کی تصانیف کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔
آپ کی زیادہ تر تصانیف دوران شباب کی ہیں ۔اس تحریری جہاد کے ساتھ ساتھ دیگر علمی ، ثقافتی اور دینی جہاد بھی فرماتے رہے ہیں ۔مثلا مساجد کی تعمیر ،امام بارگاہوں کی بناء،انجمنوں کا قیام مکاتب اور مدارس کی تاسیس وغیرہ لیکن ان موثر کاموں کے ساتھ آپ تصنیف و تالیف سے کبھی غافل نہیں رہے۔

آپ کا خاندان

جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ آپ کا سلسلہ نسب حضرت زید بن علی عليه السلام بن حسین عليه السلام بن علی بن ابی طالب علیہم الصلاۃ و السلام تک پہنچتا ہے۔آپ کا خاندان ایک علمی خاندان ہے جس میں باتقوا علماء کی ایک طویل فہرست ذکر کی جا سکتی ہے۔اس سلسلہ سے ڈاکٹر علی موسوی کی کتاب’’ خانوادہ شیرازی بیسویں صدی میں‘‘صاحبان ذوق کے لئے مفید ثابت ہوگی۔ہم یہاں پر آپ کے خاندان کی کچھ معروف شخصیات کا ذکر کر رہے ہیں:

۱۔آیت اللہ العظمیٰ سیدمحمد حسن شیرازی (اعلی اللہ مقامہ)
معروف بہ مجدد شیرازی

آپ نے ایران میں تنباکو کے سلسلہ سے جو فتوی دیا تھا اس کی وجہ سے یاد کیے جاتے ہیں۔آپ نے اس وقت ایران پر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں لگے انگریزوں کے خلاف سخت مزاحمت کی۔ ۱۳۱۲ ھ میں آپ کو انگریزوں نے زہر کے ذریعہ شہید کروا دیا۔

 

۲۔آیت اللہ العظمیٰ سیدمحمد تقی شیرازی (اعلی اللہ مقامہ)۱۹۲۰ ء میں عراقی انقلاب کے رہبر تھے۔آپ نے انگریزوں کو ملک سے باہر نکالنے میں اہم کردار اداکیا جس اس کے نتیجہ میں ۱۳۳۸ ھ میں آپ کو زہر کے ذریعہ شھید کرا دیا گیا۔

۳۔آیت العظمیٰ سیدعلی شیرازی (اعلی اللہ مقامہ)آپ مجدد الکبیر شیرازی کے برادر زادہ تھے۔عراق کے بڑے علماء میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔آپ نے ۱۳۵۵ ھ میں انتقال کیا۔

۴۔آیت اللہ العظمیٰ سیداسماعیل شیرازی (اعلی اللہ مقامہ)

۵۔آیت اللہ العظمیٰ سیدعبد الہادی شیرازی (اعلی اللہ مقامہ)
آپ کی ولادت سامرہ میں ۱۳۰۵ ھ میں ہوئی اسی سال آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوا۔ابتدائی تعلیم سامرہ میں حاصل کی پھر جلد ہی کربلا چلے آئے وہاں سے نجف اشرف گئے اور شیخ مرتضی شیرازی ،اخوند خراسانی،سید علی شیرازی اور میرزا نائینی کے دروس میں شریک ہوئے۔آپ کے تلامذہ میں میرزا حسن شیرازی،میرزا جعفر شیرازی اور شیخ حبیب اللہ وغیرہ شامل ہیں۔آیت اللہ العظمیٰ آقای اصفہانی رحمة الله عليه اور آیت اللہ العظمیٰ سید حسین بروجردی کے بعد آپ کی مرجعیت پر اکثر علماء نے اتفاق فرمایا۔
آپ کا ایک خاص عمل یہ تھا کہ جب بھی نماز کے لئے کھڑے ہوتے پہلے کربلا کا رخ کرتے اور امام حسین عليه السلام کو سلام کرتے اس کے بعد تکبیرۃ الاحرام کہتے ۔لوگوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کے یہ نماز امام حسین عليه السلام کی وجہ سے ہم تک پہنچی ہے لہذا میں پہلے امام عليه السلام کو سلام کر کے آنحضرت عليه السلام کا شکریہ ادا کرتا ہوں بعد میں نماز شروع کرتا ہوں۔
آپ نے میزرامحمد تقی شیرازی کے ساتھ برطانوی سامراج کے خلاف مسلحانہ جد و جہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔جس کے رد عمل میں برطانوی سامراج نے بدنام کرنے کی ہرممکن کوشش کی آخر کار ۹ صفر ۱۳۸۲ ھ میں یہ آفتاب علم و فقاہت غروب کر گیا۔

۶۔آیت اللہ العظمیٰ سیدمیرزا مہدی شیرازی(اعلی اللہ مقامہ)

آپ عراق کے شہر کربلا کے عظیم علماء میں تھے اور آیت اللہ بروجردی کی رحلت کے بعد مرجعیت آپ کے طرف منتقل ہوئی۔آپ آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ کے والد تھے۔آیت اللہ العظمیٰ قمی رحمة الله عليه سے آپ کے سلسلہ سے سوال کیا گیا کہ کیا میرزا مہدی عادل ہیں اور کیا ان کی تقلید صحیح ہے؟آیت اللہ العظمیٰ قمی رحمة الله عليه نے جواب دیا:’’میرے سامنے ان کی پوری زندگی آئینہ کی طرح روشن ہے ۔میں نے ان سے کوئی مکروہ امر بھی سرزد ہوتے نہیں دیکھا۔حرام کی بات تو بہت دور ہے‘‘۔
آپ امام حسین عليه السلام اور دیگر ائمہ عليه السلام کے سلسلہ سے کافی حساس تھے ۔آپ ماہ عزا میں پورے دو مہینہ سیاہ لباس پہنتے تھے اور اپنے گھر اور دروازہ پر سیاہ کپڑا نصب کرتے تھے۔آپ کا یہ دستور تھا کہ دروازہ پر سیاہ کپڑا خود نصب کرتے تھے۔امام حسین عليه السلام سے اس عقیدت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ خدا نے آپ کو ایسے فرزندان عطا کئے کہ جنھوں نے عقیدہ میں شیعیت کی محافظت کی اور علم و اجتہاد کے منازل کو طے کر کے عالم اسلام اور تشیع کے عظیم راہنمابنے۔ آپ نے ۱۳۸۰ ھ ،میں انتقال کیا۔

۷۔آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسینی شیرازی(اعلی اللہ مقامہ)

آپ کے بارے جو لکھا جائے کم ہے ۔آپ کچھ چیزوں میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے ۔ ان میں آپ کی تالیفات کی کثیر تعداد ہے۔اس پر آشوب ماحول میں جہاں اہل بیت عليه السلام کے فضائل سے انکار کیا جا رہا ہو، آپ نے اپنی کتابوں کے ذریعہ اہل بیت عليه السلام کے فضائل کودنیا کے گوشے گوشے تک پہچانے کی کوشش کی۔آپ تمام انسانوں خصوصا ً اہل بیت عليه السلام کے چاہنے والوں کی ہدایت اور کامیابی کے لئے دن رات کوشاں رہے اورموت کی آغوش میں پہنچنے تک شیعیت کی بے لوث خدمت کرتے رہے اور آخر میں یہ بلند پرواز روح اپنے رب سے جا ملی ۔انا للہ و انا الیہ راجعون

۸۔آیت اللہ شہید سید حسن حسینی شیرازی رحمة الله عليه

اس عظیم مجاہد اور فقیہ جلیل کی ولادت نجف اشرف میں ۱۳۵۴ ھ میں ہوئی۔آپ کی پوری زندگی جہاد و احتجاج سے معمور ہے۔دشمنان اسلام کے خلاف ہمیشہ سرگرم رہے،اس سلسلہ میں قید و بند کی سختیاں بھی جھلیں ۔اس مختصر و پاکیزہ مدت حیات میں مختلف جسمانی و روحانی اذیتوں کو برداشت کیا اور آخر میں اپنے جد کی طرح جام شہادت کو نوش کیا۔
آپ نے ۱۳۹۰ ھ میں لبنان ہجرت فرمائی جس کا مقصد دینی اور سیاسی تحریک و عمل میں تیزی لانا تھا۔آپ نے مختلف دینی، سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی اداروں کی تاسیس فرمائی۔آپ کے عظیم ادارتی کارنامے عراق، شام، لبنان، یورپ، افریقہ، نائجیریا، اور کینیا وغیرہ میں ترویج شیعیت کی مشعلیں روشن کرتے رہے ۔مثلا:
آپ نے بیروت میں مدرسہ امام مہدی عليه السلام کی بنا ڈالی اور اس میں عراق و ایران کے لائق اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔
۱۳۹۳ ھ میں شام میں حوزہ علمیہ کی بنا ڈالی ،روضہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے جوار میں یہ ادارہ آج بھی عصری علوم اور سلاح دینی سے طلباء کو لیس کر رہا ہے۔
۱۳۹۷ ھ میں لبنان میں جمعیۃ العلماء کی بنا ء ڈالی ۔یہ سیاسی و ثقافتی ادارہ نہ صرف لبنان بلکہ پوری دنیاکے شیعوں کے مسائل کو حل و فصل کرتارہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ آپ کے قلب میں اہل بیت عليه السلام کی محبت و ولایت کا ایک بحر بے کراں موجزن تھا ۔ولایت اہل بیت عليه السلام کے سلسلہ سے آپ کے کارناموں کے ایک طویل فہرست ہے۔
جب عراق میں حکومت کی طرف سے کربلاء معلی میں لاؤڈ اسپیکرسے مصائب پڑھنے پر قدغن لگائی گئی تو اس ماحول میں آپ نے علماء و طلاب کی ایک انجمن بنائی جو آگ پر ماتم کرتی اور قمہ و زنجیر کا ماتم کھلے عام کرتی تھی۔
جب آپ نے زینبیہ ،شام میں حوزہ علمیہ کی تاسیس کی تو اس وقت تک حرم حضرت زینب میںفقط اہل سنت کی نماز جماعت ہوا کرتی تھی اور شیعہ نماز جماعت نہیں ہواکرتی تھی۔آپ نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر پہلے حرم حضرت زینب میں سجدگاہ رکھ کر نماز پڑھی اور پھر وہاں علی ا لاعلان شیعہ آذان کہی اور نماز جماعت قائم کی۔اس سلسلہ میںآپ کو کافی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑاچنانچہ اس سلسلہ میں آپ حافظ الاسد سے ملے اور اس کو اس بات پر راضی کیا کہ حرم حضرت زینب شیعوں کے حوالہ کر دیا جائے اور آپ نے اس کو اس بات پر بھی راضی کیا کہ پورا زینبہ علاقہ ہم شیعوں کو فروخت کر دیا جائے صدر حافظ الاسد اس بات پر راضی بھی ہو گئے لیکن پیسہ فراہم نہ ہو نے کی وجہ سے یہ منصوبہ عملی نہ ہو سکا۔
اسی طرح آپ نے حرم حضرت رقیہ سلام اللہ علیھا میں بھی شیعی نماز جماعت شروع کرای۔
آپ کا دوسرا بڑاکارنامہ علوی حضرات کو مذہب حقہ کی جانب بلانا تھا کہ جس کے نتیجہ میں ۲۰ لاکھ علوی افراد شیعہ ہوئے اس بات سے گھبرا کر خود شاہ ایران نے یہ بات کہی تھی کہ جس شخص کا اثر ۲۰ لاکھ افراد پر ہو اس سے ڈرنا چاہئے۔
آپ نے جنت البقیع کی دوبارہ تعمیر کے حوالے سے شاہ سعودی سے بھی ملاقات کی اور اس کو اس بات پر راضی بھی کر لیا لیکن افسوس کے بعض ناسمجھ افراد نے اس کو عملی نہ ہونے دیا۔ساتھ ہی آپ نے علماء الازھر ،مصر سے گفتگو کی تاکہ وہاں شیعہ مذہب اور فقہ جعفری کا شعبہ بھی قائم ہو جائے لیکن افسوس کے موت نے اس کو عملی نہ ہونے دیا۔
آپ کے ان کارناموں اور کوششوں سے گھبراکر صدام نے آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور بیروت ،لبنان میں جب آپ شہید صدر کی شہادت کے سلسلہ سے ایک مجلس جو آپ نے خود برپا کی تھی تشریف لے جارہے تھے تو آپ کی گاڑی کو چاروں طرف سے گھیر کر گولوں کا نشانہ بنایا گیااور جسم مبارک پر ۳۲ گولیاں لگیںجس کے نتیجہ میں آپ نے جام شہادت نوش کیا۔

۹۔آیت اللہ سید محمد رضا شیرازی رحمة الله عليه
آپ آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی کے فرزند تھے اور حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی کے بہترین شاگردتھے ۔آپ کی ولادت ۱۳۷۹ ھ میں کربلا ء معلیٰ میں ہوئی ،آیت سید صادق شیرازی آپ کو بے حد چاہتے تھے اور کافی معاملات میں آپ کو شریک کار رکھتے تھے لیکن افسوس علم و عمل کی یہ شمع بھی بہت جلد خاموش ہو گئی اور محض ۵۰سال کی عمر میں آپ نے ۲۶جمادی الاول ۱۴۲۹ ھ کو قم میں انتقال کیا ۔آپ نے اس مختصر حیات میں بڑے علمی کام انجام دئے اور کئی اہم فقہی و اصولی موضوعات پر کتابیں لکھیں۔آپ کی کتاب الترتب (جو اصول فقہ کی ایک اہم بحث پر مشتمل ہے )پر آپ کو کئی علماء نے اجازہ اجتہاد دیا۔

۱۰۔آیت اللہ سید مرتضی شیرازی
آپ آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی رحمة الله عليه کے فرزند ہیں اور حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی کے بہترین شاگرد ۔آپ کی ولادت ۱۳۸۵ ھ میں کربلا ء معلیٰ میں ہوئی ۔آپ کویت میں مقیم ہیں اور وہاں سے تشیع کی خدمت میں مصروف ہیں۔

آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی رحمة الله عليه کے دیگر فرزندان حجۃ الاسلام و المسلمین سید جعفر شیرازی،حجۃ الاسلام و المسلمین سید حسین شیرازی،حجۃ الاسلام و المسلمین سیدعلی شیرازی،حجۃ الاسلام و المسلمین سیدمہدی شیرازی(حفظھم اللہ ) بھی اپنے اجداد کی راہ پر گامزن ہیں اورحوزہ علمیہ قم میں درس و تدریس میں مصروف ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ کے فرزندان:
۱۔حجۃ الاسلام و المسلمین سید علی شیرازی
آپ حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں اورشہر مقدس قم میں مقیم ہے ۔آپ نے بھی کئی اہم کتابیں تحریر کی ہیں جن میں عروۃ الوثقہ پر حاشیہ بھی شامل ہے ۔
۲۔حجۃ الاسلام و المسلمین سید حسین شیرازی:آپ بھی قم میں مقیم ہیں اور آپنے والد کے بہترین معاون ہیں۔آپ شہر قم میں درس خارج بھی کہتے ہیں۔
۳۔حجۃ الاسلام و المسلمین سید احمد شیرازی:آپ کویت میں مقیم ہیں اور وہاں شیعوں کے مسائل کو نزدیک ملاحظہ کر رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ آپ کویت میں مدرسہ رسول اعظم صلى الله عليه وآله میں درس خارج بھی کہتے ہیں۔
۴۔حجۃ الاسلام و المسلمین سید جعفر شیرازی:آپ آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی کے سب سے چھوٹے فرزند ہیں اور حوزہ علمیہ قم میں درس و تدریس میں مشغول ہیں۔

معظم لہ (دام ظلہ)کے نظریات

عام طور سے عقیدہ ایک باطنی عمل ہے جس کا ظاہر کرنا کوئی ضروری امر نہیں سمجھا جاتا لیکن اگر یہ عقیدہ کسی ایک عام فرد کا نہ ہوبلکہ ایک ایسی شخصیت کا ہو کہ جس کے پیچھے ایک قوم حرکت کر رہی ہو تو اس کے عقیدہ کا جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ انسان کے افعال اس کے عقائد کے مطابق ہوتے ہیں ۔
عام طور سے آج کل کے حالات میں ایک فیشن سا بن گیا ہے کہ بعض اہل علم اپنے عقائد کو بیان کرنے میں تکلف سے کام لیتے ہیں اور بعض تو یہ کہہ کر بات کوٹال دیتے ہیں کہ ارے ان سب باتوں میں کیا رکھا ہے یہ سب اختلافی مسائل ہیں ،انھیں چھوڑہیئے جو ہونا تھا وہ ہو گیا ۱۴۰۰ سال پہلے کی بات کو کب تک دہراتے رہیں گے‘‘۔در آنحالیکہ ۱۴۰۰ پہلے کے واقعات کا اثر آج بھی عالم اسلام کو پریشان کئے ہوئے ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ اور آپ کے خاندان کا یہ امتیاز رہا ہے کہ آپ نے کبھی بھی اپنے عقائد بیان کرنے میں کوئی تکلف یاکسی مصلحت پسندی کا سہارا نہیں لیا اور تمام باتوں کو نہ صرف بیان کیا بلکہ اس پر قائم رہے اوراس سلسلہ میں مظالم کو بھی برداشت کیا۔
ہم نمونہ کے طور پر چند چیزوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:
کتاب عروہ الوثقیٰ(تالیف ایت اللہ سید محمد کاظم یزدی رحمة الله عليه )میں ’باب بکا فی الصلاۃ‘ کی بحث میں آپ نے جو حاشیہ لگایا ہے (عام طور پر علماء کرام اس جگہ حاشیہ نہیں لگاتے ہیں) وہ کچھ اس طرح ہے :
امام حسین عليه السلام پر حالت نماز میں گریہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے بلکہ یہ بہترین وسیلہ قربت الہی ہے۔مگر یہ کہ انسان نماز کی شکل کو توڑ دے۔(حاشیہ عروۃالوثقیٰ ،ج۲،ص۱۹)
اسی طرح لباس مصلی کے مسئلہ میں آپ اپنے حاشیہ میں فرماتے ہیں:
امام حسین عليه السلام اور دیگر معصومیں عليه السلام کے سوگ میں کالا لباس پہنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ کام مستحب ہے۔(حاشیہ عروۃ الوثقیٰ،ج۱،ص۵۰۰)
اسی طرح شہادت ثلاثہ کے اذان کے جز ہونے کہ سلسلہ سے آپ اپنے حاشیہ میں فرماتے ہیں:
’’اشہد ان علیا ولی اللہ‘‘ جز اذان و اقامت ہے۔(حاشیہ عروۃ الوثقیٰ،ج۱،ص۵۳۲،توضیح المسائل )
حدیث کساء کی سند کے سلسلہ سے آپ نے خود اس حدیث شریف کو نقل کیا ہے ،یہ پوری سند آپ کی کتاب’کیست فاطمہ سلام اللہ علیھا‘میں موجود ہے۔یہ سلسلہ سند معظم لہ سے شروع ہو کر حضرت جابربن عبد اللہ انصاری اور حضرت زہرا سلام اللہ علیھا تک پہنچتا ہے۔(کیست فاطمہ سلام اللہ علیھا،ص۱۱۰۔۱۱۱)

ثقافتی اور خیریہ ادارہ

شیعیت کے حساس اور انقلابی مسائل زیادہ تر مشرق وسطیٰ ہی میں ہیں۔لبنان،سعودی عرب ،ترکی وغیرہ میں شیعہ چکی کے دو۲پاٹوں میں پس رہے ہیں۔سامراجیت یہ جانتی ہے کہ ہمارے حقیقی دشمن یہی ہیں اور یہی ہمارے مفادات پر ضرب لگا سکتے ہیں ،’’تحریم تمباکو‘‘،’’تحریک مشروطہ‘‘،’’تحریک جنگل‘‘ اور انقلاب ایران جیسی تحریکوں سے ان کے نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے،اس لئے عام مسلمانوں کے ساتھ ان کا برتاؤ عیارانہ ہوتا ہے لیکن ہمارے ساتھ معاندانہ ،وہ جانتے ہیں کہ غدیری اسلام کہ جس سے خدا راضی ہے وہ اسی مجاہد قوم کے پاس ہے اس قوم کا جذبہ شہادت ان کی سب سے بڑی پونجی ہے۔ان کے رہبر’’ راسخون فی العلم ‘‘تھے اس لئے اپنے مادی و معنوی استحصال کو سمجھتے بھی ہیں اور سدّباب بھی کرتے ہیں بر خلاف اس قوم کے کہ جن کا شعور اونٹ اور اونٹنی میں تمیز نہ کر سکے،اسے پروپگینڈے اور ظاہری اسلام کا بت دیکھا کر رام کیا جا سکتا ہے۔وہ اقتدار کے لئے قرآن کو نظرانذار کر سکتے ہیں اور وصیت رسول صلى الله عليه وآله کو ٹھکرا سکتے ہیں استعمار نے اس قوم کو اپنا مہرہ بنا رکھا ہے ان میں تعصب کی ہوا وقتافوقتا بھرتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں تشیع کو دوطرفہ محاذ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ظاہر ہے اس صورت حال میں دفاع بہت سخت اور کٹھن ہو جاتا ہے ۔جن لوگوں کی نظر ہدف پر ہوتی ہے وہ حالات کا تجزیہ بڑی بارک بینی سے کرتے ہیں اور اس کے بعد طریقہ جہاد معین کرتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ نے وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے پوری دنیا میں ثقافتی کام انجام دینے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے جس کے نتیجہ میں دنیا کے مختلف گوشہ و کنار میں آپ نے ایسے ادارہ قائم کئے تاکہ ان کے ذریعہ اسلامی ثقافت کو دنیا میں نشر کر سکیں۔
آپ نے دنیا بھر میں غدیری اسلام کے نقوش خطوط کو استوار کرکے یہود و نصاریٰ کے فکری محاذ کو چیلنج کیا۔حکم غدیر کی گواہی اذان و اقامت میں دئے جانے کو جزواذان نہیں سمجھا جاتا تھا،آپ نے اپنی مجتہدانہ بصیرت سے اس شہادت کو جزو اذان و اقامت قرار دیا۔
ہماری ثقافت کا ہمہ جہتی مظاہرہ عزاداری امام حسین عليه السلام سے ہوتا ہے اور ہماری غرض تخلیق بھی یہی ہے عزاداری منہاج بھی ہے اور شریعت بھی،ہم اہل بیت عليه السلام کی تمنا ہیں اور ہمیں اس پرافتخار ہے۔آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ نے اس عزاداری کے فروغ میں تمام زندگی و بندگی کے مسائل کو سمودیاوہ اس کے وسیلہ فروعی اور اجتماعی اصلاح کے تمام ذرائع استعمال کرنے کا بڑا حسین سلیقہ پیش کرتے ہیں اپنے تمام حلقہ اثر میں امام بارگاہیں قائم کیں ،شفاخانے کھول کر عام انسانی برادری کو فائدہ پہنچایا لیکن ان کا نام امام حسین عليه السلام اور دیگر معصومین عليه السلام پر رکھ کر مریض کے اندر لاشعوری طور پر ائمہ معصومین عليه السلام کی معنوی برکات کو راسخ کرنے کی کوشش کیا۔
آپ اپنے مقلدین کو امام حسین عليه السلام سے ہمہ وقت وابستہ رہنے کی خصوصی تاکید فرماتے ہیں۔اس سلسلہ میں آپ نے بہت زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور ایران ،عراق،پاکستان، ناروے،سیوڈن،کنیڈا اور دوسرے ممالک میں امام بارگاہیں تعمیر کروائیں،صرف ایران میں چالیس سے زیادہ امامبارگاہیں اصفہان،یزد، رے، اہواز،شیراز،مشہد،تہران،قزوین،کاشان اور قم وغیرہ میں ہیں۔ان میں تذکر ہ سید الشہدا عليه السلام کے علاوہ جوانو ں اور بوڑھوں کو اخلاقی و معاشرتی آداب سیکھائے جاتے ہیں ۔کچھ ادارے خالص ثقافتی حیثیت کے حامل ہیں مثلا تہران میں موسسہ سید الشہدا عليه السلام صرف شادی بیاہ کے لئے ہے اور اس کے ذریعہ غلط رسموں کو ختم کرنے میں بڑی حد تک کامیابی ملی ہے۔کچھ ادارے وعظ و تبلیغ کے لئے کھولے گئے ہیں مگر ان کا نام امام حسین عليه السلام کے نام مبارک پر ہے ۔
ضرورت مندوں کی صلاحیتوں کو ابھارنے اورانھیں خود کفیل بنانے کے لئے مختلف شہروں میں صندوق قرض الحسنہ قائم کئے ہیں۔
چنانچہ اسلامی ثقافت و تہذیب کو فروغ دینے کے لئے آپ نے بہت سی انجمنیںقائم کیں منجملہ یہ ہیں:
مساجد کی خدمات کے لئے انجمن
امامبارگاہوں کی تعمیرات کی انجمن
صنعتی اسکول قائم کرنے کی انجمن
فضائل اہل بیت عليه السلام او ر ان کی مودت کا جذبہ شیعوں میں موجزن کرنے کی غرض سے لٹریچر کی اشاعت کی انجمن
اس کے علاوہ ایک عمومی انجمن اسلامی مسائل پر کتابیں شائع کرتی ہے۔
عصری تقاصوں کے پیش نظر مختلف سائٹیں (website) اور سیٹلایٹ چینل جو عربی،فارسی ، انگریزی،ترکی و دیگر زبانوںمیںمعارف اہل بیت عليه السلام کی ترویج میں لگی ہیں۔
الانوار،سلام،الزہرا(س)جیسے ٹی وی چینل آپ ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہیں اور مزید چینل جو امام حسین ،حضرت عباس عليه السلام اور دیگر معصومین عليه السلام کے نام پر ہیں جلد ہی منظر عام پر آنے والے ہیں انشاء اللہ۔
اسی کے ساتھ ساتھ آپ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے سلسلہ سے بھی اپنے مقلدین کو مسلسل نصیحت کرتے رہتے ہیں اور ’’ایام فاطمیہ ‘‘میں شہزادی کی شہادت کی مناسبت سے مجالس کے اہتمام کی کافی تاکید فرماتے ہیں۔
موجودہ زمانہ تشیع کے لئے آزمائشوں سے بھر پور اور زبردست جدو جہد کا طالب ہے ۔اس جد و جہد کو موثر اور مفید بنانے کے لئے عملی میدان کووسیع کرنابہت ضروری ہے ۔آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ نے اس سلسلہ میں علماء ،خطباء،نیز مصنفین،مولفین و مجاہدین کو ہمہ جہتی حیثیت سے تیار کر نے کے بعد لبنان، کویت،بحرین، سعودی عرب،پاکستان،افغانستان ، افریقہ،یورپ ،امریکا و غیرہ میں متعین فرمایا ہے یہ غازیان اسلام متعینہ خطوط پر کام کر رہے ہیں اور نئی عصری تبدیلیوں پر تشیع کی بالا دستی یقینی بنانے کے لیے مرکز سے برابر کسب فیض کرتے رہتے ہیں۔
تشیع کے خلاف سامراجی سازشیں ہوں یا منافقین کی ظالمانہ کاروائیاں،ہر جگہ اور ہر قدم پر اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ افراد اپنی شرعی ذمہ داریاں نبھاتے رہتے ہیں،جہاد بالقلم کا ہو یاجہاد باللسان ،عمل کی دنیا ہو یا فکری میدان ہر محاذ پر وہ حالات کی نبض دیکھ کر اپنے متوازن اندازِ جہاد کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔اس سلسلہ میں نہ تو قید و بند کی سختیاں آڑے آتی ہیں نہ ہی مال و منال کی غارت گری کا خوف،یہ غدیری ثقافت کے بادہ خوار فرازدار پر بھی مثل میثم رحمة الله عليه چھکتے رہتے ہیں ۔
جب جب سامراجیت نے استحصال کے نئے طریقہ تلاش کئے تو دوسری طرف شیرازی گھرانے نے تحفظ شیعیت کے سلسلہ میں نئی اُمنگوں ،حوصلوں اور طریقہ کار کی کھوج جاری رکھی۔ اس خانوادے کی ہر فرد نے اسلامی معاشرے میں سامراج کی اسلام دشمن سازشوں کا باریک بینی سے مطالعہ کر کے اسے باطل کرنے کا شعور بیدار ہوا۔اس بیداری نے حرارت ایمانی ،یقین محکم اور عصری ہتھکنڈو ں کو سمجھنے کی صلاحیت دی ۔آیت اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ کے اسلاف ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے سامراج اور صیہونیت سے نبردآزما ہیں ،گزرتے زمانے کے ساتھ یہ جذبہ بڑھتا ہی رہتا ہے۔ماضی نزدیک میں جس کی بہترین مثال آیۃ اللہ العظمیٰ سید حسن شیرازی رحمة الله عليه اور آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی رحمة الله عليه کی مجاہدانہ زندگی ہے۔
اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس گھرانے میں تحفظ اسلام کا جذبہ ورثہ میں منتقل ہوتا ہے ۔وہ اسلامی معاشرے میں پھیلنے والے زہریلے اثرات اور ان کے پھلانے والوں کو بہت جلد پہچان لیتے ہیں اس لئے اس کے تحفظ کا مناسب بندوبست بھی کرتے ہیں ۔آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی (دام ظلہ) نے اپنی وراثتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیائے اسلام کو تبلیغ کا عظیم میدان بنا دیا ہے۔